حجاز کی آندھی
(عنایت اللہ التمش)
قسط نمبر 3
’’وہ وقت ہمارے لیے زیادہ موزوں تھا۔‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’ اس وقت خالد نے بھی اسلام قبول نہیں کیا تھا ۔ عکرمہ اور ابو سفیان بھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ یہ تینوں بڑے دلیر اور اثرورسوخ والے آدمی تھے اور خندق کے معرکے میں مدینے کے محاصرے میں شریک تھے۔ لیکن محمد)ﷺ( کی پھوپھی صفیہ نے بنو قریظہ کے اس آدمی کو قتل کیا تو ہمارا منصوبہ بے نقاب ہو گیا……میرے رفیقو! یہ مت سوچو کہ پہلی ہی کوشش کامیاب ہوا کرتی ہے۔ ناکامیاں مل کر کامیابی کی صورت اختیار کیا کرتی ہیں۔ اب ہم نئے منصوبے پر عمل کریں گے۔ بنت ِیامین کو کل بھیج دیں گے۔ میں یہ تمہیں بھی بتا دوں کہ ہم نے ایک مسلمان کو منتخب کر لیا ہے ہمیں امید ہے کہ وہ بنتِ یامین کے ساتھ شادی کر لے گا۔‘‘
جن مسلمان کا یہ یہودی ذکر کر رہا تھا وہ حبیب ابنِ کعب تھا۔ وہ مدینہ میں تجارت کے سلسلے میں جاتا رہتا تھا اور اکابر مسلمانوں کے مقربین میں سے تھا۔ ان دنوں وہ کچھ عرصے کے لئے اپنے گاؤں آیا ہوا تھا ۔اس کی دو بیویاں تھیں جن میں سے ایک کسی لاعلاج مرض میں مبتلا تھی۔ اسی کے علاج معالجے کیلئے گاؤں آیا تھا۔اس کا گاؤں مدینہ سے بیس میل کے لگ بھگ دور تھا۔
یہودیوں نے سازشوں کا جال پھیلا رکھا تھا ۔ بنو قریظہ کا ایک یہودی اس گاؤں میں آیا، وہ تجارت کی غرض سے آیا تھا ۔تجارت ہی یہودیوں کا پیشہ تھا ۔ اسے متا چلا کہ مدینہ کا ایک اہم آدمی آج کل اپنے گاؤں آیا ہوا ہے تو اس یہودی نے اس کے ساتھ دوستی پیدا کرلی اور سوچنے لگا کہ اس شخص کو مسلمانوں کے خلاف کس طرح استعمال کیا جائے۔ اس کی ملاقات ابو سلمیٰ سے ہوئی ‘تو ابو سلمیٰ نے یہ منصوبہ بنایا جس پر اب عمل ہو رہا تھا ۔ اس یہودی نے جس نے حبیب ابنِ کعب کے ساتھ دوستی پیدا کی تھی ، حبیب کو ایک شادی کا مشورہ دیا اور اسے یہ بھی کہا کہ وہ اسے ایک بڑی خوبصورت مسلمان لڑکی لا دے گا۔
حبیب شادی کیلئے تیار ہو گیا تھا۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ عرب جسمانی آسودگی اور تعیش کیلئے زیادہ بیویاں رکھتے تھے ، یہ صحیح نہیں۔ عرب دراصل زیادہ سے زیادہ نرینہ اولاد پیدا کرنے کیلئے زیادہ بیویاں رکھتے تھے۔ اس وقت طاقتور اسی کو سمجھا جاتا تھا جس کے بھائی اور بیٹے زیادہ ہوتے تھے۔ حبیب بھی انہی عربوں میں سے تھا۔ اس کی دو بیویاں تھیں۔ جن میں سے ایک کسی لا علاج مرض سے قریب المرگ تھی ۔وہ دوسری شادی کا حاجت مند تھا۔
حبیب کا یہ یہودی دوست اپنا تجارتی مال بیچ کے چلا گیا۔ کچھ دنوں بعد ایک آدمی چادر میں لپٹی ہوئی ایک جوان لڑکی کو ساتھ لئے اس کے گھر آیا۔ اس نے اپنا نام ابنِ داؤد ہی بتایا۔ اس زمانے میں عرب کے نصرانیوں ،یہودیوں اور مسلمانوں کے نام ایک جیسے ہی ہوا کرتے تھے۔ ابنِ داؤد نے کچھ یہودی تاجروں کا حوالہ دیا۔
’’میں بہت ہی غریب اور لٹا پٹا آدمی ہوں۔‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’میں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ میرے قبیلے نے اسلام قبول کرنے پر مجھے مارا پیٹا اور لوٹ بھی لیا ہے اور قبیلے سے نکال بھی دیا ہے۔ بڑی مشکل سے اپنی اس بیٹی کو وہاں سے چھپا کر لایا ہوں۔ تمہارا دوست میرا بھی دوست ہے۔ میں تو اس کے ہاں پناہ لیے ہوئے تھا۔ اس نے مجھے بتایا ہے کہ تمہیں ایک بیوی کی ضرورت ہے ۔ میں اپنی بیٹی کو تمہارے پاس لایا ہوں۔ میں نو مسلم ہوں ۔مجھ پر ایک کرم تو یہ کرو کہ میری بیٹی کو اپنے عقد میں لے لو اور مجھے مدینہ میں کہیں نوکری دلوا دو ۔خواہ یہ کسی سردار کی غلامی میں ہو ۔اگر اپنے لشکر میں بھرتی کرا دو تو ساری عمر دعائیں دوں گا۔‘‘
حبیب نے شادی تو کرنی ہی تھی لیکن جب اس نے ابن ِداؤد کی بپتا سنی تو وہ بغیر سوچے سمجھے شادی کیلئے تیار ہو گیا اور جب اس نے لڑکی کو دیکھا تو اس نے اسی شام نکاح کا فیصلہ کرلیا۔
اگلے روز نکاح خواں کو بلا کر حبیب نے بنت ِیامین کو اپنے عقد میں لے لیا۔
’’ابنِ کعب!‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’ تم نے میرے سر سے اتنا بڑا بوجھ اتار پھینکا ہے جس کے نیچے میں اور میری بیٹی کی عصمت کچلی جا رہی تھی۔ میں کچھ دنوں کیلئے جا رہا ہوں۔ اگر تم میرے لیے کوئی ذریعہ معاش پیدا کر سکتے ہو تو مجھے بتاؤ کہ میں واپس یہیں آکر تم سے ملوں یا تمہارے پاس مدینہ آجاؤں۔‘‘
’’اگر تمہارا کوئی اور ٹھکانہ نہیں تو تم میرے پاس رہ سکتے ہو۔ دس بارہ دنوں کے بعد میں مدینہ واپس جا رہاہوں۔ میرے ساتھ چلے چلنا۔‘‘
’’نہیں ۔‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’ میں تم پر اپنا بوجھ نہیں ڈالوں گا۔ میں اب اپنا ٹھکانہ مدینہ میں ہی بناؤں گا۔ جہاں مجھے مسلمانوں کا تحفظ حاصل ہو گا۔‘‘
’’پھر تم دس بارہ دنوں کے بعد مدینہ میرے پاس آجانا۔‘‘ حبیب ابنِ کعب نے کہا۔
ابنِ داؤد بنتِ یامین کے سر پر باپوں کی طرح پیار کر کے چلا گیا۔
کچھ دنوں بعد وہی نخلستان تھا، اس میں وہی خیمہ تھا ۔ اندر سے اس کی سج دھج وہی تھی اور محفل بھی وہی تھی۔ وہی رقاصہ سازوں اور دف کی سر تال پر تھرک رہی تھی اور صحرا کی ایک اور رات گزرتی جا رہی تھی۔
ابو سلمیٰ کے اشارے پر ساز خاموش ہو گئے ۔ رقاصہ کا تھرکتا جسم ساکت ہو گیا۔ ابو سلمیٰ نے سر کو ہلکی سی جنبش دی تو رقاصہ اور سازندے خیمے سے نکل گئے۔
’’ابنِ داؤد کو آجانا چاہیے تھا۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔
’’آتا ہی ہوگا۔‘‘ اسحاق نے کہا۔’’ وہ کوئی بچہ تو نہیں، آجائے گا…… اور مجھے امید ہے کہ کچھ کر کے ہی آئے گا…… ہو سکتا ہے صبح آجائے۔‘‘
یہ یہودی اور نصرانی پھر اسلام کی بیخ کنی کی باتیں کرنے لگے۔ ابو سلمیٰ پر غنودگی طاری ہونے لگی ۔ محفل برخاست ہونے ہی لگی تھی کہ گھنٹیوں کی آواز سنائی دینے لگی جو قریب آتی جا رہی تھی ۔ ابو سلمیٰ چونک اٹھا باقی سب کے بھی کان کھڑے ہو گئے۔
’’وہ آرہا ہے۔‘‘ بیک وقت دو تین آدمیوں نے کہا۔
ایک نصرانی دوڑتا ہو اباہر نکلا ۔ صحرا کی شفاف چاندنی میں کچھ دور ایک اونٹ چلا آرہا تھا۔ جس پر ایک آدمی سوار تھا ۔ اونٹ کے گلے میں بندھی ہوئی گھنٹیاں جلترنگ کی طرح بج رہی تھیں۔ چھوٹے خیموں میں سے دو تین ملازم بھی باہر نکل آئے تھے۔ نصرانی جو باہر نکلا تھا وہ اونٹ کی طرف دوڑ پڑا۔
’’تم ابنِ داؤد ہی ہو سکتے ہو۔‘‘ نصرانی نے بلند آواز سے کہا۔
’’تو اور کون ہو سکتا ہے۔ ‘‘شتر سوار نے جواب دیا۔
قریب آکر شتر سوار جو ابنِ داؤد ہی تھا، چلتے اونٹ پر سے کود کر اُترا اور نصرانی سے بغلگیر ہو گیا ۔ ایک ملازم نے آگے ہو کر اونٹ کی مہار پکڑ لی اور اُسے اُدھر لے گیا جہاں دوسرے اونٹ بندھے ہوئے تھے ۔
’’میں جانتا تھا تم آج رات آجاؤ گے۔‘‘ ابنِ داؤد کے خیمے میں داخل ہوتے ہی ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ آؤ بیٹھو ، کچھ کھا پی لو اور بتاؤ کیا کر آئے ہو۔‘‘
’’کیا دنیا میں کوئی ایسا انسان ہے جو اتنے خوبصورت اور قیمتی نگینے کو بلا قیمت قبول نہ کرے؟‘‘ ابنِ داؤد نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’وہ شخص جس کا نام حبیب ابنِ کعب ہے ، کچھ میری باتوں سے اور کچھ زیادہ تر بنتِ یامین کو دیکھ کر آپے سے باہر ہو گیا تھا۔‘‘
’’آدمی کیسا ہے؟‘‘اسحاق نے پوچھا۔
’’ہمارے کام آجائے گا۔‘‘ ابنِ داؤد نے جواب دیا۔’’ میں نے ایک غریب اور مظلوم نو مسلم بن کر اس کے ساتھ ایسی باتیں کیں کہ وہ میرے ساتھ کھل کر باتیں کرنے لگا ۔میں نے جب اسے کہا کہ میں ذریعہ معاش کی تلاش میں ہوں تو اس نے کہا یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔ مدینہ کے بڑے سے بڑے آدمی سے بھی میں اپنی بات منوا سکتا ہوں…… مختصر بات یہ ہے کہ ابو سلمیٰ!جیسا مجھے بتایا گیا تھا ، وہ ویسا ہی اثر و رسوخ رکھنے والا آدمی ہے اور قبیلوں کے سرداروں تک اسے رسائی حاصل ہے۔‘‘
’’ہم نے بنت ِیامین کے ذریعے اس سے جو کام کرانا ہے ،وہ امید ہے کہ ہو جائے گا۔‘‘ابو سلمیٰ نے کہا۔
’’میں تین چار دنوں کے بعد مدینہ روانہ ہو جاؤں گا۔‘‘ابنِ داؤد نے کہا۔’’ اس نے مجھے کہا ہے کہ اس کے پاس پہنچ جاؤں …… کیا اب ہمیں سو نہیں جانا چاہیے۔ بہت تھک گیا ہوں۔‘‘
’’سو ہی جائیں تو اچھا ہے۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔
اور اس طرح محفل برخاست ہو گئی۔
اگلے روز سورج سر پر آرہا تھا۔ کھجور اور دیگر درختوں کا ایک گھنا جھنڈ تھا جس نے چھاتے جیسا سایہ کر رکھاتھا۔ جدھر سے ہوا آرہی تھی اُدھر ایک قنات درختوں کے تنوں سے بندھی تنی ہوئی تھی۔ اس نے صحرا کی گرم ہوا اور اس کے ساتھ اڑتی ریت کو روکا ہوا تھا۔ اس جھنڈ کے نیچے قالین بچھا ہو اتھا اور ابو سلمیٰ ، ابن داؤد ، اسحاق اور ان کے ساتھی بیٹھے ہوئے تھے ۔ نوکر ان کے آگے کھانا چن رہے تھے۔
ایک شتر بان جو اونٹوں کو ذرا پرے لے گیا تھا ، دوڑتا آیا۔
’’آقا!‘‘شتربان نے ابو سلمیٰ کو اطلاع دی۔’’دور ایک گھوڑ سوار نظر آرہا ہے ۔ کوئی عام سا مسافر نہیں لگتا ۔ گھوڑے کی رفتار خاصی تیز ہے اور اس کا رُخ اِدھر ہی ہے۔‘‘
یہ سب اٹھے اور قنات کے اوپر سے اس کی طرف دیکھنے لگے ۔ گھوڑا اور سوار صاف نظر نہیں آرہے تھے، تپتی ہوئی ریت سے ایک غیر مرئی سی بھاپ اٹھ رہی تھی اور اس میں گھوڑے اور سوار کے خدوخال یوں نظر آرہے تھے جیسے جھیل کے ہلتے پانی میں کنارے کے عکس نظر آتے ہیں۔ یہ صرف صحرائی لوگ ہی پہچان سکتے تھے کہ آنے والا گھوڑ سوار ہے یا شتر سوار۔
’’کوئی اپنا ہی ہو گا۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ اس طرف سے گزرتا ہی کون ہے۔‘‘
وہ دیکھتے رہے، انہیں کسی قسم کا خوف نہیں تھا۔ وہ داکو نہیں تھے نا ان کے پاس ڈکیتی کا مال تھا ۔ وہ گھومنے پھرنے والے تاجر تھے جنہیں لٹنے کا ڈر ہو سکتا تھا لیکن ان پر یہ شبہ نہیں کیا جا سکتا تھا کہ یہ کوئی رہزنوں کا خطرناک گروہ ہے۔
جوں جوں گھوڑا قریب آتا گیا اس کے خدوخال واضح ہوتے چلے گئے۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے گھوڑا شفاف پانی میں ڈوبا ہوا اندر ہی اندر چلا آرہا ہو، تقریباً سو گز فاصلہ رہ گیا تو صاف پتا چلنے لگا کہ یہ گھوڑا ہے اور اس کی پیٹھ پر اس کا سوار ہے ۔ سوار نے بازو اوپر کر کے دائیں بائیں ہلایا جو کہ اشارہ تھا کہ میں تمہارا اپنا آدمی ہوں اور میں خوش ہوں کہ میں نے تمہیں پا لیا ہے۔
ابو سلمیٰ اور اس کے تمام ساتھی قنات کے ایک طرف سے گزر کر گھوڑ سوار کے استقبال کیلئے آگے چلے گئے۔ فاصلہ تھورا رہ گیا تو ابنِ داؤد نے اس کا نام لے کر پکارا۔ اس کا نام موسیٰ تھا، اس نے ایڑ لگا کر گھوڑا دوڑادیا ۔ اور ان لوگوں کے قریب آکر یکلخت روکا تو یوں لگا جیسے گھوڑا گر پڑے گا۔ موسیٰ گھوڑے سے کود کر اترا۔
’’زبردست خبر لایا ہوں۔‘‘ موسیٰ نے کہا۔ ’’ابو بکر مر گیا ہے…… مسلمانوں کا پہلا خلیفہ۔‘‘
قریب آکر موسیٰ نے سب کے ساتھ مصافحہ کیا اور یہ لوگ اسے قنات کے اندر لے آئے جہاں کھانا رکھا جا چکا تھا۔
’’اگلا خلیفہ عمر ابن الخطاب تو نہیں بن گیا؟ ‘‘اسحاق نے پوچھا۔
’’تو اور کون بنتا؟ ‘‘موسیٰ نے کہا۔’’ابو بکر نے وفات سے پہلے وصیت کی تھی کہ اس کا جانشین عمر ابن الخطاب ہو گا۔‘‘
’’یہ بہت برا ہوا۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’بڑا ہی ظالم انسان ہے۔ بنی اسرائیل کا تو نام ہی نہیں سننا چاہتا……ابو بکر کب فوت ہوا؟‘‘
’’پرسوں شام غروبِ آفتاب کے وقت ۔‘‘ موسیٰ نے جواب دیا۔’’ میں کل ہی آجاتا مگر یہ دیکھنے کیلئے رُک گیا تھا کہ اگلا خلیفہ کون ہو گااور کتنے لوگ اس کے ہاتھ پر بیعت کریں گے اور کون بیعت کرنے سے گریز کرے گا۔‘‘
رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلیفہ ابو بکر صدیقؓ کی وفات مسلمانوں کیلئے دوسرا بڑا صدمہ تھا۔ ان کی وفات ۲۳جمادی الآخر ۱۳ ھ بمطابق ۲۲ اگست ۶۳۴ ء غروبِ آفتاب کے وقت ہوئی تھی۔مدینے کہ لوگ یہ خبر سنتے ہی گھروں سے نکل آئے۔ عورتیں بھی خلیفہ اولؓ کے گھر کی طرف دوڑ پڑیں۔ ان کی سسکیاں اورہچکیاں نکل رہی تھیں۔ ہر عورت اس طرح غمگین اور ماتم کناں تھی جیسے اس کا باپ فوت ہو گیا ہو۔
ابو بکرصدیقؓ نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں ہی عمرؓالخطاب کو اپنا جانشین نامزد کر دیا تھا۔ عمرفاروقؓ نے اس نامزدگی کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کیا تھا لیکن ابو بکرصدیقؓنے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ عمرؓ کے بغیر ان حالات پر جن میں سلطنت اسلامیہ گھری ہوئی ہے ‘قابو پانے کی صلاحیت اور کسی میں نہیں۔
اس دور کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ عمرؓ بڑی ہی روح کش ذہنی کیفیت میں مبتلا تھے ۔ ایک تو ابو بکرصدیقؓ جیسا بزرگ اور مدبر ساتھی رخصت ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ یہ مسئلہ کہ ان کا یہ ساتھی اپنی تمام تر ذمہ داریوں کا بوجھ ان کے سر پر ڈال گیا تھا۔ حضرت عمر فاروقؓنے ابو بکرصدیقؓ کے جنازے کے پاس کھڑے ہو کر یہ کلمات ادا کیے:
’’ اے خلیفہ رسول اﷲ! آپ نے قوم کو کس مشکل میں ڈال دیا ہے؟ آپ اسے بہت بڑی مصیبت میں چھوڑ کر چلے ہیں ۔ آہ! آپ جدا ہوگئے ۔اب کیسے ملنا ہو گا؟‘‘
ابو بکر صدیقؓنے خلافت کیلئے عمرفاروقؓ کی نامزدگی اپنے طور پر ہی نہیں کر ڈالی تھی ، ذاتی طور پر رسولﷺ نے بھی کبھی فیصلہ نہیں دیا تھا۔ جس طرح حضورﷺ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کرتے تھے اسی طرح ابو بکرصدیقؓ نے بھی وصیت لکھواتے وقت مشورے لیے تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے عبدالرحمٰنؓ بن عوف سے پوچھا تھا کہ عمرؓ کے متعلق ان کی رائے کیا ہے؟
’’خدا کی قسم!‘‘ عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے کہا تھا۔’’ عمر کے متعلق آپ کی جو رائے ہے ‘وہ اس سے بھی بہتر ہے ، لیکن ان کے مزاج میں سختی ہے۔‘‘
’’میں جانتا ہوں۔‘‘ ابو بکرصدیقؓ نے کہا تھا۔’’ اس کے مزاج میں سختی اس لئے ہے کہ میرا مزاج بہت نرم تھا۔ جب عمر پر ذمہ داری آپڑے گی تو وہ اپنے مزاج میں اس کے مطابق خود ہی تبدیلیاں کر لے گا…… اور ابو محمد! میں نے عمر کو بہت قریب سے جانچا اور پرکھا ہے ۔ میں نے ہمیشہ دیکھا کہ جب میں غصے میں ہوتا تو وہ میرا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا اور جب میں کسی معاملے میں نرمی برتنے لگتا تو عمر مجھے سختی کا مشورہ دیتا تھا۔‘‘
اس کے بعد ابو بکرصدیقؓ نے عثمان ؓغنی کو بلایا اور ان سے عمرفاروقؓ کے متعلق پوچھا۔
’’ہم سب سے بہتر جاننے والا اﷲ ہے۔‘‘ عثمانؓ غنی نے اپنی رائے ان الفاظ میں دی۔ ’’میری رائے ہے کہ ان کا باطن ان کے ظاہر سے کہیں بہتر ہے اور ہم میں ان جیسا کوئی نہیں۔‘‘
اس کے بعد ابو بکرصدیقؓ نے سعید ؓبن زید ، اسیدؓ بن حضیراور کئی مہاجرین و انصار سے عمرفاروقؓ کے متعلق پوچھااور انہیں یہ بھی بتایا کہ وہ عمرفاروقؓ کو اپنا جانشین نامزد کر رہے ہیں۔
’’میرا فیصلہ کس حد تک صحیح ہے؟‘‘انہوں نے اِن لوگوں سے پوچھا۔
ان سب نے فرداً فرداً جو آراء دیں ‘وہ تقریباً ایک جیسی ہی تھیں جن کا لب لباب یہ تھا کہ عمرؓ کا مزاج اتنا سخت اور درشت ہے کہ وہ خلیفہ بن گئے تو مسلمانوں میں انتشار اور افتراق کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ تاریخ کے مطابق طلحہؓ ان سب کی نمائندگی میں ابو بکرصدیقؓ کے پاس گئے تھے۔
’’خلیفۃ الرسول)ﷺ(!‘‘ طلحہ ؓنے ابو بکرصدیقؓ سے کہا۔’’ جب اﷲ آپ سے یہ پوچھے گا کہ رعیت کو کس حال میں کس کے حوالے کر آئے ہو تو آپ کیا جواب دیں گے؟ عمر کو آپ اپنا جانشین مقرر کر رہے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی نہیں دیکھا کہ وہ لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے ؟ سوچ لیں۔ جب قوم کو عمر کے ساتھ براہِ راست واسطہ پڑے گا تو اﷲ آپ سے جواب مانگے گا۔‘‘
ابو بکرصدیقؓ کی عمر باسٹھ برس سے اوپر ہو گئی تھی اور وہ علیل تھے ، قریب المرگ تھے۔ ان کے جسم میں اتنی سکت نہیں رہی تھی کہ اپنی طاقت سے اٹھ کر بیٹھ جاتے ۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ ابو بکرصدیقؓ طلحہ ؓکی رائے سن کر غصے سے کانپنے لگے حالانکہ ان کے مزاج میں غصہ نہ ہونے کے برابر تھا ۔ اتنا شدید غصہ آجانا ثبوت تھا کہ وہ عمرؓ کو ہی مدبر اور دانشمند سمجھتے ہیں۔
’’مجھے بٹھاؤ۔‘‘ ابو بکر صدیقؓنے غصے میں کہا۔
ان کے ایک عزیز نے انہیں سہارا دے کر بٹھایا۔
’’کیا تم مجھے اﷲ سے ڈراتے ہو؟‘‘ ابو بکرصدیقؓ نے غصے سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔’’ میں نامراد ہو کر مروں اگر میں تم پر ایک ظالم کو مسلط کر کے جاؤں اور یہی میرا توشہ آخرت ہو……میں اﷲ سے کہوں گا اے اﷲ میں تیرے بندوں پر اس شخص کو اپنا جانشین مقرر کر آیا ہوں جو تیرے رسول )ﷺ(کی امت میں سب سے بہتر تھا۔‘‘
ابو بکرصدیقؓ کی آواز نقاہت کی وجہ سے بہت نحیف تھی جو صرف قریب بیٹھے ہوئے ایک دو آدمی ہی سن سکتے تھے۔
’’اور میری بات سنو طلحہ! ‘‘ابو بکرصدیقؓ نے طلحہ ؓکو اپنے قریب کرکے کہا۔ ’’جو بات میں نے کہی ہے وہ بات اپنے پیچھے بیٹھے ہوئے آدمیوں کو بھی سنا دو۔‘‘
طلحہ ؓنے خلیفہ کے حکم کی تعمیل کی اور ابو بکرصدیقؓ پھر لیٹ گئے۔
مستند تاریخوں میں آیا ہے کہ ابو بکرصدیقؓ اس رات سو نہ سکے۔ یہ صورتِ حال انہیں پریشان کر رہی تھی کہ امت رسولﷺ میں عمرؓ کی خلافت پر اختلاف پایا جاتا ہے ۔ علی الصبح عبدالرحمٰنؓ بن عوف ان کی عیادت کو آئے تو گھر والوں نے انہیں بتایا کہ ابو بکر صدیقؓنے رات آنکھوں میں کاٹ دی ہے۔
’’خلیفۃ الرسول)ﷺ(!‘‘ عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے پوچھا۔ ’’رات سو نہ سکنے کا باعث کیا تھا؟‘‘
’’طلحہ اور دوسرے لوگوں کی باتوں نے مجھے بہت دکھ دیا ہے ۔‘‘ ابو بکر صدیقؓنے کہا۔’’ میں نے اپنی عقل و دانش کے مطابق خلافت کی ذمہ داری اس شخص کو سونپنی چاہی تھی جو تم میں ہر لحاظ سے سب سے بہتر ہے اور تم لوگ میرے اس فیصلے کو قبول نہیں کر رہے۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ یہ نازک ذمہ داری کسی اور کے سپرد کر دوں؟یہ جانتے ہوئے کہ اس سے بہتر آدمی موجود نہیں۔‘‘
’’ﷲ آپ پر رحم کرے خلیفۃ الرسول)ﷺ(!‘‘عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے کہا۔’’ اپنے دل پراس طرح بوجھ نہ ڈالیں، اس سے تو آپ کی بیماری اور بڑھے گی۔ میں جانتا ہوں کہ رائے دینے والے لوگ دو فریقوں میں بٹ گئے ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جو آپ کے فیصلے کو دل و جان سے قبول کرتا ہے اور وہ آپ کا ہی ساتھ دے گا۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو آپ سے اختلاف رکھتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ اس دوسرے فریق کی قیادت وہ شخص کر رہا ہے جو آپ کا مشیر ہے اور آپ کا دوست بھی ہے۔ ہم سب کو پورا پورا اعتماد ہے کہ آپ کا فیصلہ نیک نیتی پر مبنی ہے اور آپ کا مقصور امت کی فلاح و بہبود اور اصلاح و ہدایت کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
جاری ہے
Post a Comment