حجاز کی آندھی
(عنایت اللہ التمش)
قسط نمبر 4
ابو بکرصدیقؓ کیلئے ایک عجیب صورت ِحال پیدا ہو گئی تھی۔ وہ اپنا فیصلہ ٹھونس بھی سکتے تھے ، لیکن ان کی نظر اس وقت پر تھی جس کا آغاز ان کی وفات کے بعد ہونا تھا ۔ انہوں نے عام لوگوں سے مشورہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کا مکان مسجد سے ملحق تھا ۔ اتنی نقاہت کے باوجود بالا خانے پر گئے جس کی ایک کھڑکی مسجد کی طرف کھلتی تھی۔ مسجد میں نمازی ظہر کی نماز کے بعد موجود رہے۔ انہیں بتا دیا گیا تھا کہ خلیفہ ؓان سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں ۔ نماز کے بعد ابو بکرصدیقؓ کھڑکی کے سامنے آئے۔ لوگوں نے اوپر دیکھا۔
’’کیا تم اس شخص کو پسند کرو گے جس کو میں جانشین مقرر کروں گا؟‘‘ ابو بکرصدیقؓ نے پوچھا۔
’’ہم وہ پسند کریں گے جو آپ کریں گے۔‘‘نمازیوں میں سے کئی ایک کی آوازیں سنائی دیں۔
’’خدا کی قسم!‘‘ ابو بکرصدیقؓ نے کہا۔’’میں نے بہت ہی غوروفکر کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ میرے بعد خلافت کی ذمہ داری عمر بن الخطاب سنبھالے گا۔ میں نے یہ عظیم منصب اپنی کسی قریبی رشتے دار کو نہیں دیا……میں جو کہہ رہا ہوں وہ غور سے سنو اور اس فیصلے کو قبول کرو کہ میرا جانشین عمر بن الخطاب ہو گا۔‘‘
تقریباً تمام آدمیوں کی آواز سنائی دی۔’’ ہم نے خلیفۃ الرسول)ﷺ( کا کہنا سن لیا اور مان لیا ہے۔‘‘
ابو بکرصدیقؓ کی بوڑھی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انہوں نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے۔
’’اے اﷲ! ‘‘ابو بکر صدیقؓنے لرزتی کانپتی آواز میں کہا۔’’ میں نے عمر کا انتخاب تیرے رسول )ﷺ(کی امت کی بہتری کیلئے کیا ہے اور اس اندیشے سے کہ ان میں اختلاف کے باعث فساد نہ ہو جائے میں نے تیری ذات پر اعتماد کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے اور اے اﷲ! دلوں کا حال تو ہی بہتر جانتا ہے ۔ میں نے ایک طاقتور شخص کو جانشین مقرر کیا ہے اور جو سخت مزاج اس لئے ہے کہ وہ صداقت پسند اور راست رو ہے اور مسلمانوں کی راست روی کا خواہش مند ہے۔‘‘
مؤرخ لکھتے ہیں کہ ابو بکرصدیقؓ کی یہ دعا سن کر مسجد میں جو لوگ دل میں اختلاف لئے چپ بیٹھے تھے وہ بھی پکار اٹھے کہ ہمیں عمر فاروقؓکی خلافت قبول ہے۔
کھڑکی میں کھڑے ابو بکر صدیقؓکا جسم ڈول رہاتھا۔ اُنہیں سہارا دے کر نیچے لے گئے ۔ ان میں تو اب بولنے کی بھی سکت نہیں رہی تھی۔ لیکن بستر پر جاتے ہی انہوں نے کہا کہ عمرؓ کو بلاؤ۔
عمرؓ آگئے۔
’’عمر!‘‘ ابو بکرؓ نے کہا۔’’ کیا تم نے میری وصیت سن لی ہے؟‘‘
’’سن لی ہے خلیفۃ الرسول(ﷺ) ‘‘عمر ؓنے کہا۔’’ میں اس قابل تو نہ تھا……‘‘ ’’لیکن یہ میرا انتخاب اور میرا فیصلہ ہے عمر‘‘ ابو بکرؓ نے جھنجھلا کر کہا۔’’
لوگ تمہارے حق میں بھی ہیں اور خلاف بھی ہیں۔ لیکن میں نے اﷲ کی رہنمائی حاصل کر کے یہ ذمہ داری تمہارے کندھوں پر رکھی ہے ۔ اب میں اس کے خلاف کوئی اور بات سننے کیلئے تیار نہیں۔‘‘ ’’مجھے آپ کا فیصلہ قبول ہے۔‘‘ عمرؓ نے کہا۔ اُمت پر یہ دن بڑی مشکل کے دن تھے۔ اُدھر عراق اور شام میں رومیوں کے خلاف جنگ جاری تھی جس میں مسلمانوں کی پوزیشن کچھ کمزور ہو گئی تھی۔ صورتِ حال پسپائی والی نظر آرہی تھی ۔ ابو بکرؓ نے خالدؓ بن ولید کو عراق کے محاذ سے ہٹا کر شام کے محاذ پر بھیج دیا تھا۔ پھر بھی کوئی اچھی خبر سننے میں نہیں آرہی تھی۔ خالدؓ بن ولید کے چلے جانے سے عراق کا محاذ کمزور پڑ گیا تھا ۔خلیفۃ الرسول(ﷺ) سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان محاذوں سے اپنے لشکر واپس بلا لئے جائیں یا ذرا پیچھے ہٹا لیے جائیں۔
’’عمر‘‘ ابو بکرؓ نے کہا۔’’ لگتا ہے جیسے میں آج ہی دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا۔میں جو کہتا ہوں اسے غور سے سنو اور میرے بعد اس پر عمل کرنا۔ اگر میں آج ہی مر جاؤں تو غروبِ آفتاب سے پہلے پہلے مثنیٰ بن حارثہ کو کچھ لشکر دے کر عراق اورشام کے محاذ پر بھجوا دینا اور اگر رات ہو جائے تو صبح پہلا کام یہی کرنا کہ مثنیٰ کو روانہ کر دینا اور اگر شام کے محاذ پر خالدکو فتح حاصل ہوجائے تو اسے واپس عراق کے محاذ پر بھیج دینا۔‘‘ ابو بکرؓ نے عمرؓ کو اور بھی بہت سی ہدایات دیں جو عمرؓ خاموشی سے سنتے رہے۔ عمرؓ کے ذہن پر دراصل بوجھ یہ تھا کہ خلافت کی ذمہ داری بہت بڑی ذمہ داری تھی اور انہوں نے خود کبھی بھی اس کی خواہش نہیں کی تھی۔ اسی شام خلیفہ اول ابو بکر صدیقؓ رحلت فرما گئے۔ رات کی تاریکی گہری ہو چکی تھی جب میت کو آخری غسل دیا گیا۔ جس تختے پر رسول اﷲﷺ کا جسدِ مبارک مسجد نبویﷺ میں لے جایا گیا تھا اسی تختے پر ابو بکرؓ کی میت مسجد نبویﷺ میں لے جائی گئی اور انہیں رسول اکرمﷺ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ ٭
تاریخوں کے مطابق عمر ؓنے ساری رات سوچوں اور خیالوں سے الجھتے گزار دی۔ ایک اضطراب تو یہ تھا کہ صبح لوگ بیعت کیلئے آئیں گے تو کیا تمام لوگ بیعت کر لیں گے؟
صبح عمرؓ مسجد نبویﷺ میں گئے ۔یہ دیکھ کر کہ لوگ بیعت کرنے کیلئے ہجوم کر کے آگئے ہیں، ان کا گزشتہ والا اضطراب ختم ہو گیا۔ بیعت میں ممکنہ اختلافات کا خطرہ عمرؓ یہ محسوس نہیں کر رہے تھے کہ وہ خلیفہ بنیں گے یا نہیں بلکہ اصل اندیشہ جو انہیں پریشان کر رہا تھا وہ یہ تھا کہ اگر اختلاف پھیل گیا تو امت میں انتشار اور افتراق پیدا ہو جائے گا ۔جو اسلام کے نا صرف فروغ کیلئے نقصان دہ ہو گا بلکہ اسلام کی بقا بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ لوگ جوق در جوق آگے بڑھے اور عمرؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے ۔ ظہر کی نماز تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ ظہر کی اذان ہوئی۔ عمرؓ نے امامت کے فرائض ادا کیے۔ نماز کے بعد عمرؓ منبر پر کھڑے ہوئے ۔وہ منبر کی اس سیڑھی پر کھڑے تھے جس پر کھڑے ہو کر ابو بکرؓ خطبہ دیا کرتے تھے۔ لوگوں نے دیکھا کہ عمر ؓاس سیڑھی سے ایک سیڑھی نیچے آگئے ۔اس پر کھڑے ہو کر پہلے اﷲ کی حمد و ثناء میں چند کلمات کہے پھر رسولﷺ پردرود بھیجا۔ پھر ابو بکرؓ مرحوم کی خوبیاں اور ان کے کارنامے بیان کئے اور اس کے بعد خطبہ شروع کیا۔ یہ خطبہ آج تک تاریخ کے دامن میں لفظ بلفظ محفوظ ہے:
’’اے لوگو! میں تم ہی میں سے ہوں۔ تم جیسا ہی ایک انسان ہوں۔ اگر مجھ میں خلیفۃ الرسول(ﷺ) کی حکم عدولی کی جرأت ہوتی تو میں یہ ذمہ داری کبھی قبول نہ کرتا۔ مجھے معلوم ہے کہ لوگ میرے مزاج کی سختی سے ڈرتے ہیں اور میری درشتی کی وجہ سے مجھے پسند نہیں کرتے۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ عمر اس وقت بھی ہم پر سختی کرتارہا ہے جب ہمارے سروں پر رسول اﷲ(ﷺ) کا سایہ موجود تھا اور پھر وہ اس وقت بھی سختی کرتا رہا جب ہمارے اور اس کے درمیان ابو بکر حائل تھے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اب کیا ہو گا جب ہمارے معاملات اسی کے ہاتھ میں ہیں…… جو کوئی بھی یہ کہتا ہے وہ ٹھیک ہی کہتا ہے۔ مجھے رسول(ﷺ) کی مصا حبت کا شرف حاصل ہے۔ میں رسول(ﷺ) کا غلام اور ایک ادنیٰ نوکر تھا۔ آپ(ﷺ) کی رحمدلی میں آپ(ﷺ) کا کوئی ثانی نہ تھا۔ آپ(ﷺ) ﷲ کے فرمان کے مطابق مومنین کیلئے راحت اور رحمت کا سر چشمہ تھے۔ بارگاہ رسالت میں میری حیثیت ایک برہنہ شمشیر کی سی تھی۔ جب رسول اﷲ(ﷺ) چاہتے ‘مجھے نیام میں ڈال لیتے اور جب چاہتے مجھے بے نیام کر دیتے۔ میں رسول اﷲ(ﷺ) کی بارگاہ میں اسی حیثیت میں رہا۔ اس دن تک جس دن ﷲ نے آپ (ﷺ)کو یاد فرمایا اور اپنے ہاں بلالیا
……آنحضور(ﷺ) آخر وقت تک مجھ سے خوش اور مطمئن رہے۔ میں اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتاہوں کہ حضور(ﷺ) مجھ سے خوش رہے اور یہ ایسی سعادت ہے جس پر میں ساری عمر فخر کرتا رہوں گا……
حضور(ﷺ) کے وصال کے بعد آپ (ﷺ)کی خلافت ابو بکر صدیق کے سپرد ہوئی۔ کیا کوئی ابو بکر کے تحمل ، نرمی اور کرم نوازی سے انکار کر سکتا ہے؟میں ابوبکر کا بھی خادم اور معاون رہا۔ میں اپنی سختی کو ابو بکر کی نرم مزاجی میں جذب کردیا کرتا تھا۔ میں ایک برہنہ تلوار تھا جسے ابو بکر نیام میں ڈال لیتے تھے یا کسی بہت ہی ضروری کا م کیلئے مجھے نیام سے نکال کر استعمال کرتے تھے ۔ میں اسی حیثیت میں پوری فرمانبرداری سے ان کے ساتھ رہا۔ یہاں تک کہ وہ بھی ہم سے جداہو گئے، اور میں اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ ابو بکر آخر وقت تک مجھ سے خوش او ر مطمئن رہے‘اور اس سعادت پر بھی میں فخر کرتا ہوں……
اور اب اے لوگو تمہارے معاملات اور دیگر تمام احوال کی ذمہ داری میرے کندھوں پر رکھ دی گئی ہے۔ میں تمہیں یہ باور کرانا چاہوں گا کہ میرے مزاج کی وہ سختی جس سے تم نالاں تھے اب نرمی میں بدل گئی ہے۔ لیکن یہ بھی سن لو کہ ان لوگوں کیلئے میرے مزاج کی سختی قائم رہے گی جو مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کرتے ہیں۔ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو امن و امان سے رہتے اور جرأتِ ایمانی رکھتے ہیں ان کیلئے میں بہت زیادہ نرم ہوں گا اور اگر کوئی کسی پر ظلم کرے گا تو میں اس وقت تک اسے نہیں چھوڑوں گا جب تک اس کا ایک رخسار زمین پر نہ ٹکا دوں اور دوسرے رخسار پر اپناپاؤں نہ رکھ دوں۔ تا آنکہ وہ حق کے آگے ہتھیار ڈال دے۔ لیکن اس قدر سختی کے باوجود اہل ِعفاف اور اہلِ کفاف کیلئے میں اپنا رخسار میں خود زمین پر رکھ دوں گا.
اے لوگو! مجھ پر جو تمہارے حقوق ہیں وہ مجھ سے لو، میں یہ حقوق بیان کر دیتا ہوں۔
مجھ پر تمہارا ایک حق یہ ہے کہ تمہارے خراج اور اس غنیمت میں سے جو اﷲ تمہیں عطا کرے، میں کوئی چیز نا حق نہ لوں۔ مجھ پر تمہارا یہ حق ہے کہ جب تم میں سے کوئی میرے پاس آئے تو مجھ سے اپنا حق وصول کر کے لے جائے۔ مجھ پر تمہارا یہ حق ہے کہ تمہارے عطیات اور وظائف میں اضافہ کروں اور تمہاری سرحدوں کو اتنا مستحکم کروں کہ دین کے دشمن اِدھر کا رخ نہ کر سکیں‘ اور مجھ پر تمہارا یہ حق ہے کہ تمہیں ہلاکت میں نہ ڈالوں اور محاذ سے تمہیں گھر واپس آنے سے نہ روکے رکھوں اور جب تم کسی محاذ پر لڑنے جاؤ تو ایک باپ کی طرح تمہارے اہل و عیال کی دیکھ بھال کروں……
اے اﷲ کے بندو! اﷲ سے ڈرو۔ میرے ساتھ عفو و درگزر کا رویہ اختیار کرو اور میرے ساتھ تعاون کرو۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں میری مدد کرو اور تمہاری جو خدمات اﷲ نے میرے سپرد کی ہیں، ان کے متعلق مجھے نصیحت کرو۔ میں تم سے یہ بات کہہ رہا ہوں اور اپنے اور تمہارے لئے اﷲ سے مغفرت طلب کر رہا ہوں۔‘‘
ایک روایت یہ بھی ہے کہ عمرؓ نے یہ خطبہ نماز سے پہلے دیا تھا اور اس کے بعد نماز پڑھائی تھی۔ بہر حال لوگوں کے دلوں میں عمرؓ کی مزاجی سختی اور درشتی کا جو خوف سا بیٹھا ہو اتھا وہ بالکل اتر گیا۔ مستند مؤرخ لکھتے ہیں کہ عمر ؓتو خطبے کے بعد مسجد سے چلے گئے لیکن لوگ مسجد میں بیٹھے یا باہر کھڑے ان کے خطبے پر تبادلہ خیال کرتے رہے۔ زیادہ تر یہ بات سنائی دی کہ عمر ؓکا ظاہر و باطن ایک ہے اور عمرؓ سختی اور درشتی کے باوجود ایک انصاف پسند انسان ہے۔
نخلستان میں موسیٰ اپنے گروہ کے سردار ابو سلمیٰ اور دیگر ساتھیوں کو ابو بکرؓ کی وفات اور عمرؓ کی خلافت کی تفصیل سنا رہا تھا۔ پھر سب کھانے میں مصروف ہو گئے۔
’’اب یہ بتاؤ موسیٰ! ‘‘ابو سلمیٰ نے کھانے کے بعد موسیٰ سے پوچھا۔’’ تم دو دن وہاں گزار کر آئے ہو، وہاں تم نے لوگوں کا رد عمل اور رویہ دیکھا ہو گا۔‘‘
’’ہاں ابو سلمیٰ!‘‘موسیٰ نے کہا۔’’ میں نے یہ تفصیل سنانی ہی تھی، اس میں سب سے زیادہ ضروری عمر کا خطبہ ہے جو اس نے مسجد میں دیا تھا۔ میں خود مسجد میں موجود تھا۔‘‘
موسیٰ نے عمرؓ کا خطبہ لفظ بلفظ سنایا۔
’’اور اس کے مخالفین نے بعد میں کچھ کہا تھا؟‘‘ ابو سلمیٰ نے پوچھا۔ ’’کچھ کیا تھا؟‘‘
’’میں نے تو یہ دیکھا ہے کہ جو عمر کی خلافت کے حق میں نہیں تھے ، وہ بھی اس کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں۔‘‘ موسیٰ نے جواب دیا۔’’ میں تمہیں یہ بھی بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ عمر کی شخصیت میں ایسارعب اور جلال ہے کہ اس کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ اس کے دشمن کے دل میں بھی اتر جاتا ہے اور وہ اس کی بات کو قبول کر لیتا ہے۔ …… میں رات تک لوگوں میں گھومتا پھرتا رہا اور اپنی رائے اس طرح لوگوں پر ظاہر کرتا رہا کہ کسی کے ساتھ مخالفانہ بات کی اور کسی کے ساتھ عمر کے حق میں ، میں نے دیکھا کہ جو اس کے مخالف تھے وہ اگر اب بھی مخالف ہیں تو بھی انہوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے، اور دل کی گہرائیوں سے اسے خلیفہ مان لیا ہے …… ایک صورتِ حال ایسی ہے جس سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ عراق اورشام کے محاذوں پر مسلمانوں کے لشکر کچھ کمزور پڑ گئے ہیں اور مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو فارسیوں کی جنگی قوت سے خائف ہیں۔‘‘
’’ہاں ۔‘‘ اسحاق نے کہا۔’’ محاذوں کی اس صورتِ حال سے ہم یہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں کہ مدینہ اور گردونواح کے لوگوں میں فارسیوں کا خوف پیدا کریں۔اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ لوگ محاذ پر جانے سے ہچکچائیں گے ۔ یہ تو تم سب کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کی کوئی باقائدہ فوج نہیں نہ ان کے پاس تنخواہ دار سپاہی ہیں ۔ یہ تو جہاد کا اعلان کرتے ہیں اور مسلمان جوق در جوق جہاد کو فرض سمجھتے ہوئے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ آگے ان سالاروں کی عسکری فہم و فراست ہے کہ وہ ان لوگوں کو فوراً ایک باقاعدہ فوج کی صورت میں منظم کرلیتے ہیں اور ایسے طریقے سے لڑاتے ہیں کہ فتح ان کے قدموں میں آگرتی ہے ۔ ہم لوگوں کو جہاد سے ہٹا سکتے ہیں۔
’’ناممکن۔‘‘ ایک نصرانی بولا۔’’ جہاد کو یہ لوگ مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔‘‘
’’ہمیں ناممکن کو ممکن کر دکھا نا ہے۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور بار بار کہہ چکا ہوں کہ کوئی بھی کام آسان نہیں ہوتا ۔ اسے آسان بنایا جاتا ہے ۔ہم نے مسلمانوں کے خلاف لڑائی نہیں کرنی۔ ہم نے ایک ایسی تلوار سے ان کے عقیدے کوکاٹنا ہے جو نظر نہیں آتی۔‘‘ ابوسلمیٰ نے ابو داؤد سے پوچھا۔’’ حبیب بنت ِیامین کو مدینہ کب لے کر جا رہا ہے؟‘‘
’’کل یا پرسوں۔‘‘
’’تم کل صبح روانہ ہو جاؤ۔‘‘ ابو سلمیٰ نے ابو داؤد سے کہا۔’’ مدینہ پہنچو اور ان دونوں کا انتظار کرو۔ وہ پہنچ جائیں تو ان کے ساتھ رہو، حبیب بھی عمر کے ہاتھ پر بیعت کرے گا تم بھی اس کے ساتھ رہنا۔ آگے تمہیں معلوم ہے کہ کیا کرنا ہے ۔ہمارا تمہارے ساتھ رابطہ رہے گا۔‘‘
٭
حبیب ابنِ کعب اپنی نئی بیوی بنتِ یامین کو ساتھ لے کر مدینہ چلا گیا۔ وہاں اس کا اپنا مکان تھا۔ اس مکان سے پتا چلتا تھا کہ وہ صاحبِ حیثیت ہے ۔وہ وہاں پہنچا ہی تھا کہ ابنِ داؤدبھی آگیا۔
’’میں تمہارے پاس زیادہ دن نہیں ٹھہروں گا ابنِ کعب!‘‘ ابنِ داؤد نے حبیب سے کہا۔’’ میں اپنی بیٹی کو دیکھنے آیا ہوں۔ تم نے مجھ غریب پر جو کرم کیاہے وہ میں ساری عمر نہیں بھول سکوں گا اور میں اس کا صلہ دینے کے بھی قابل نہیں۔‘‘
’’اور میں نے اگر کرم کیا ہے تو صلہ کی توقع پر نہیں کیا۔‘‘ حبیب نے کہا۔ ’’تم مجھے صلہ دے چکے ہو ۔ بنت ِیامین سے قیمتی صلہ اور کیاہو گا …… اور میں امید رکھوں گا کہ یہ میرے ساتھ وفاداری کرے گی۔‘‘
’’میرے باپ نے اپنی بیٹی آپ کے حوالے کی ہے۔‘‘ پاس بیٹھی ہوئی بنت ِیامین نے حبیب سے کہا۔’’ اور میں اپنے جسم کے ساتھ اپنی روح بھی آپ کے حوالے کر چکی ہوں۔ میری وفا کو آپ گھرکی چار دیواری میں نہیں آزما سکیں گے ۔ اگر آپ کبھی جہاد پر گئے تو میں آپ کے ساتھ چلوں گی۔ میری وفا میدانِ جنگ میں دیکھنا۔‘‘
حبیب ابنِ کعب ہنس پڑا۔ اس ہنسی میں پیار موجزن تھا۔
’’اس کی یہ بات ہنسی میں نہ ٹالو ابنِ کعب!‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’ اسے جہاد میں شریک ہونے کابہت ہی شوق ہے۔ میں نے محمد)ﷺ( کے وصال سے چار پانچ چاند پہلے اسلام قبول کر لیا تھا اور میرا سارا قبیلہ میرا دشمن ہو گیا تھا ۔ میں نے تمہیں یہ بات پوری نہیں سنائی تھی ، صرف میری اس بیٹی نے میراساتھ دیا، اور اسلام قبول کر لیاتھا۔ میرے بیٹے بھی میرے دشمن ہو گئے اور میری بیوی بھی مجھ سے الگ ہو گئی ۔ قبیلے والوں نے مجھے بہت مارا پیٹا ۔ میں اپنی اس بیٹی کو ساتھ لے کر اپنے اس دوست کے پاس چلا گیا ۔جس نے مجھے تمہارے پاس بھیجا تھا ۔وہ یہودی ہے لیکن اس نے میرے ساتھ دوستی نبھائی ۔ اس نے کہا کہ مذہب اپنا اپنا لیکن مذہب دوستی اور محبت کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتا……
میری یہ بیٹی بنتِ یامین تو دل سے مجھ سے پہلے اسلام قبول کر چکی تھی ۔ اسے محمدﷺ کو دیکھنے کا بہت شوق تھا ۔میں اسے تین بار حضور )ﷺ(کی زیارت کیلئے مدینہ لایا تھا۔ یہ کہتی تھی کہ مجھے رسول)ﷺ( کی خدمت کیلئے یہیں رہنے دو۔ تم جانتے ہو ابن ِکعب! ہمارے رسول)ﷺ( میری بیٹی کی یہ خواہش کبھی قبول نہ کرتے ۔ آپ)ﷺ( کسی کی خدمت کو قبول نہیں کیا کرتے تھے ۔میں نے اسے کہا کہ اﷲ کے رسول)ﷺ( کی بہترین خدمت یہ ہے کہ آپ)ﷺ( کے بتائے ہوئے راستے پر چلو……
آہ ابنِ کعب! میں اپنی اس بیٹی کی کون کون سی خوبی بیان کروں۔ میں نے اسے کہا کہ اپنے رسول)ﷺ( کے بتائے ہوئے راستے پر چلو تو اس نے کہا کہ مجھے شہسوار بنا دو۔ مجھے برچھی بازی، نیزہ بازی ، تیغ زنی اور تیر اندازی سکھاؤ۔ اﷲ کے رسول )ﷺ(کا بتایاہو ابہترین راستہ جہاد ہے۔ میں کفر کے خاتمے کیلئے لڑوں گی اور میں شادی کرنے کے بجائے اپنی زندگی جہاد کیلئے وقف کر دوں گی ، میں اپنے دوست کے گھر میں پناہ لیے ہوئے تھا ۔میں اسے شہسواری کیسے سکھاتا۔‘‘
’’وہ میں سکھا دوں گا۔‘‘ حبیب نے کہا۔’’ اور ابنِ داؤد! اپنے آپ کو تنہا مجبور اور دوسروں کا محتاج سمجھنا چھوڑ دو۔ میں تمہارے روزگار کا بندوبست کردوں گا۔‘‘
’’خدا کی قسم ! تم اﷲ کے نیک بندوں میں سے ہو ابنِ کعب!‘‘ ابن ِداؤد نے کہا۔’’ لیکن میرے یہودی دوست نے میرے ذریعۂ معاش کا بندوبست کر دیا ہے۔ اب میں نہ اس پر بوجھ بنوں گا نہ تم پر ۔ میں اپنی کھوئی ہوئی حیثیت حاصل کرلوں گا۔‘‘
’’میں ایک بات کہوں گا ابن ِداؤد!‘‘ حبیب نے کہا۔’’اگر تم ایک یہودی کا احسان نہ لیتے تو اچھا تھا۔ کوئی بھی یہودی بہت اچھا آدمی ہو سکتاہے لیکن وہ مسلمان کیلئے اچھا دوست نہیں ہو سکتا۔ یہودی مسلمان کا دوست ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘
جاری ہے
Post a Comment