حجاز کی آندھی
(عنایت اللہ التمش)
قسط نمبر 8
حقیقت یہ تھی کہ خالدؓ اپنے قبیلے کے سردارکے فرزند تھے۔ یہ امیر کبیر خاندان تھا۔ وہ خوش ذوق ‘خوش طبع اور زندہ مزاج تھے۔ خالدؓ نے غربت نہیں خوشحالی دیکھی تھی۔ انعام و اکرام دینے میں ان کی کشادہ ظرفی اور سخاوت مشہور تھی اور یہی ایک وجہ تھی جس کی وجہ سے عمرؓ خالد ؓسے شاکی رہتے تھے۔ خالدؓ کی معزولی پر بہت لوگوں نے اعتراض کیے تھے۔ حضرت عمرؓ نے آخر اپنے ایک خطبے میں اپنے فیصلے کی وضاحت ان الفاظ میں کی۔یہ وضاحت تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے:
’’میں اﷲ اور امت رسول)ﷺ( کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دہ ہوں۔ میں نے خالد بن ولید کو ذاتی رنجش یا کسی بے بنیاد الزام پر معزول نہیں کیا۔ خالد امیر خاندان کا فرد ہے۔ اس نے امیرانہ ماحول میں پرورش پائی ہے۔ اس لیے ابھی تک اس کی عادتیں امیروں جیسی ہیں۔ وہ شاعروں کو انعام دیتا ہے۔ رقمیں ضائع کرتا ہے۔ یہ رقمیں بیت المال میں آنی چاہئیں یا حاجت مند گھروں میں جانی چاہئیں ۔وہ پہلوانوں ‘شہسواروں اور تیغ زنوں کو بھی انعام دیتاہے۔ مجھے ابو بکر کے دورِ خلافت میں بتایا گیا تھا کہ خالد نے ایک شاعر اشعث بن قیس کو دس ہزار درہم انعام دیا ہے۔ اگر اس نے یہ رقم مالِ غنیمت سے دی ہے تو یہ مجرمانہ خیانت ہے اور اگر اس نے اپنے حصے میں سے یہ انعام دیا ہے تو یہ مجرمانہ اسراف ہے ۔ کیا اسلام اس اسراف کی اجازت دیتا ہے؟…… میں خلیفۃ الرسول)ﷺ( ابو بکر کو جو مشورے دیا کرتا تھا ان پر میں خود عمل کیوں نہ کروں؟‘‘
خالدؓ کی معزولی کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط۔ یہ ایک الگ بحث ہے۔ اس فیصلے سے عمرؓ کی اخلاقی جرأت اور اصول پسندی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔عمرؓ نے بڑے ہی نازک وقت میں بہت بڑا خطرہ مول لے لیا تھا۔محاذوں پر لڑنے والے مجاہدین میں غم و غصہ پیداہو سکتا تھا اور ہوا بھی۔ لشکروں میں خالد ؓکی مقبولیت پیر و مرشد جیسی تھی ۔ مجاہدین کے لڑنے کا جذبہ متاثر ہو سکتا تھا ۔اس کا انحصار اس پر تھاکہ خالد ؓکا رد عمل کیا تھا۔ مجاہدین خالدؓ کا رد عمل دیکھنے کے منتظر تھے۔
سب سے زیادہ پریشان ابو عبیدہؓ بن الجراح تھے۔ جنہیں خالد ؓبن ولید کی جگہ سپہ سالار بنایا گیا تھا۔ رومیوں کے خلاف جنگ کی صورتِ حال تھی تو سالاروں کے قابو میں ، رومیوں کو ہر میدان اور ہر محاذ پر شکست دی جا چکی تھی۔دمشق فتح ہو چکا تھا۔ لیکن رومی کوئی معمولی جنگجو نہیں تھے کہ وہ ان چند ایک شکستوں سے دلبرداشتہ ہو کر اپنے مقبوضات مسلمانوں کے حوالے کر کے بھاگ جاتے۔ وہ اس دور کی ایک ہیبت ناک جنگی طاقت تھے۔ وہ اپنی فوج کو اکٹھا کر کے مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کیلئے تیار تھے۔
سب جانتے تھے کہ رومیوں کے پاؤں اکھاڑنے کی جو اہلیت خالدؓ بن ولید میں ہے وہ دوسرے سالاروں میں نہیں۔ یہ برابر کے مقابلے کی جنگ نہیں تھی۔ مسلمان جذبے کے زور پر لڑ رہے تھے اور ان کے مدِمقابل ہتھیاربہتر تھے ۔گھوڑے کئی گنا زیادہ تھے اور نفری کہیں پانچ گنا زیادہ تھی اور کہیں آٹھ گنا بھی۔ یہ جذبے اور جنگی طاقت کا مقابلہ تھا۔ قلیل نفری سے کثیر تعداد دشمن سے لڑنے اور اس کے پاؤں اکھاڑنے کی صلاحیت خالدؓ میں ہی تھی۔ تمام سالار اور مجاہدین یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہے تھے کہ خالد ؓاپنی معزولی کے خلاف احتجاجاً محاذ سے نکل گئے تو مسلمانوں کا انجام اچھا نہیں ہو گا۔ محاذ پہلے ہی کمک کی ضرورت محسوس کر رہا تھا اور مثنیٰ بن حارثہ کمک لینے مدینہ روانہ ہو گئے تھے۔
ابو عبیدہؓ تجربہ کار سالار تھے۔ زاہد اور پارسا تھے۔ انہیں امین الامت کہا جاتا تھا۔ جنگ کے میدان میں ان کی جارحیت اور قیادت قابل ِداد تھی۔ دشمن کو وہ مصیبت میں ڈال دیا کرتے تھے لیکن سپہ سالاری کے جو جوہر خالدؓ میں تھے وہ ابو عبیدہؓ میں ذرا کم تھے۔
خالدؓ کا رد عمل معلوم کرنے کیلئے ایک واقعہ کا بیان کافی ہو گا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کی فہم و فراست میں کچھ فرق تھا یا نہیں۔
۔
واقعہ یوں ہے کہ دمشق کی فتح کے بعد نئے سپہ سالار ابو عبیدہؓ نے مجاہدین کے لشکر کو کچھ دن آرام دینا چاہا۔ رومی جوابی حملے کی تیاری کر رہے تھے۔ خالد ؓکی معزولی کے چھ سات روز بعد ایک اجنبی ابو عبیدہ ؓسے ملنے آیااور اپنے متعلق بتایا کہ وہ عیسائی ہے اور راز کی ایک بات بتانے آیا ہے ۔ابو عبیدہؓ نے اسے بٹھا لیا۔
’’یہاں سے کچھ دور ایک قصبہ ابو القدس ہے۔ ‘‘اجنبی عیسائی نے کہا۔’’ وہاں ہر سال ایک میلہ لگا کرتا ہے ، دو تین روز بعد میلہ لگے گا ۔دور دور کے تاجر اپنامال بیچنے کیلئے لائیں گے ۔اس مال میں سونے چاندی کے زیورات بھی ہوں گے۔ ہیرے جواہرات اور قیمتی پتھر بھی ہوں گے ۔اس کے علاوہ جن اشیاء کی دکانیں لگیں گی وہ بہت ہی قیمتی اشیاء ہوں گی ۔میلے میں جو خریدار آئیں گے وہ ہر سال کی طرح بڑے ہی دولت مند لوگ ہوں گے ۔ یہ رومیوں کا میلہ ہے اور رومیوں سے آپ کی دشمنی اور جنگ ہے۔ تین چار روز بعد آپ اچانک میلے میں چھاپہ مار دیں اور یہ سب مال و دولت آپ کا مال غنیمت ہو گا۔ اتنا قیمتی مالِ غنیمت آپ کو دس قلعوں سے بھی نہیں مل سکتا۔
ابو عبیدہؓ نے اسے کہا کہ وہ خود عیسائی ہے ‘اور رومی بھی عیسائی ہیں ‘اور اس میلے میں عیسائی ہی آئیں گے یا یہودی تاجر ہوں گے۔ پھر وہ اپنے مذہب کے لوگوں کو کیوں کٹوانا چاہتا ہے؟
’’میں کٹر عیسائی ہوں۔‘‘ اس عیسائی نے کہا۔ ’’کیا آپ نہیں جانتے کہ رومی جب عیسائی نہیں ہوا کرتے تھے تو ان کے ایک بادشاہ نے زندہ عیسائیوں کو شیروں کے آگے ڈالا تھا اور شیر انہیں چیر پھاڑ کر کھا گئے تھے؟ یہ تو آپ کو معلوم ہو گا کہ حضرت عیسیٰؑ کو صلیب پر لٹکانے والے رومی ہی تھے۔ اس کے ایک زمانے بعد انہوں نے عیسائیت قبول کر لی تو کیا ہوا‘ یہ رومی اب بھی ویسے ہی بادشاہ ہیں جیسے عیسائی ہونے سے پہلے تھے ۔یہ لوگ رعایا کو انسانیت کا درجہ دیتے ہی نہیں۔ آپ نے جوعلاقے فتح کیے ہیں میں نے وہاں جا کے دیکھا ہے۔ آپ عیسائیوں اور دوسرے مذہب کے لوگوں کو کمتر رعایا نہیں بلکہ اپنے جیسا انسان سمجھتے ہیں ۔میں رومیوں کے ظلم و ستم کا کچلا ہوا انسان ہوں۔ میں اگر مسلمان نہیں تو کیا ہوا، میں عربی تو ہوں۔ میں رومیوں کی غلامی تسلیم نہیں کرتا۔‘‘
مختصر یہ کہ اس عیسائی نے ابو عبیدہ ؓکو قائل کرلیاکہ انہیں ا س میلے میں چھاپہ مارنا چاہیے۔
’’میں آپ کو یہ بھی بتا دوں۔‘‘ عیسائی نے کہا۔’’ ابو القدس کے اردگرد اور دور دور تک رومی فوج کا نام و نشان نہیں۔ آپ کیلئے کوئی خطرہ نہیں ، رومی فوج کے کچھ دستے طرابلس میں ہیں۔ وہاں سے وہ بروقت ابوالقدس نہیں پہنچ سکتے۔ انہیں اطلاع دینے والا کوئی نہیں ہو گا۔‘‘
٭
اس عیسائی کے جانے کے بعد ابو عبیدہؓ نے اپنے سالاروں کو بتایا کہ ایک عیسائی عرب اُنہیں کس موٹے اور آسان شکار کی خبر دے کر گیاہے۔
’’ابو القدس رومیوں کے علاقے میں ہے۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ اور رومیوں سے ہم بر سرِ پیکار ہیں۔ اس لیے اس میلے میں چھاپہ مارنے کے ہم حق بجانب ہیں ‘کوئی خطرہ بھی نہیں۔ رومی فوج وہاں سے بہت دور ہے……میں تم میں سے کسی کو حکماً نہیں بھیجوں گا ۔ جوکوئی اس چھاپے کی کمان لینا چاہتاہے وہ آگے آجائے اور پانچ سو گھوڑ سوار منتخب کرلے۔‘‘
ابو عبیدہؓ نے سالاروں کو باری باری دیکھا اور ان کی نظریں خالدؓ بن ولید پر ٹھہر گئیں۔ انہیں توقع تھی کہ خالدؓ اس چھاپہ کیلئے فوراً تیار ہو جائیں گے لیکن خالدؓ کا چہرہ بے تاثر تھا اور وہ چپ چاپ بیٹھے ہوئے تھے ۔ ابوعبیدہؓ کی نظریں ان کے چہرے پر جمی رہیں۔ خالدؓ نے منہ پھیر لیا۔ ظاہر ہے کہ یہ سپہ سالاری سے معزولی کا رد عمل تھا۔
خالدؓ کا چھاپہ مار دستے کے ساتھ نہ جانا الگ بات تھی ۔ انہوں نے ابو عبیدہ ؓسے اتنا بھی نہ کہا کہ انہیں ا س میلے میں چھاپہ مارنا چاہیے بھی یا نہیں۔
سب سالار خاموش رہے۔
’’میں جاؤں گا۔‘‘ ایک آواز اُٹھی۔
سب نے ا’دھر دیکھا۔ وہ ایک نوجوان تھا۔ جس کے چہرے پر داڑھی ابھی آئی ہی تھی۔
’’تو ابھی کم سن اور ناتجربے کار ہے ابن ِجعفر!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔
ابو عبیدہ ؓنے ایک بارپھر خالدؓ کی طرف دیکھا۔ لیکن وہ یوں چپ چاپ بیٹھے تھے جیسے اس کام کے ساتھ ان کا کوئی تعلق ہی نہ ہو۔
’’میں گھر سے یہاں سیر و تفریح کیلئے تو نہیں آیا۔‘‘ اس نوجوان نے کہا۔’’ مجھ پر اپنے شہید باپ کا قرض ہے۔ آپ سب کو معلوم ہے کہ میرا باپ کس لڑائی میں شہید ہوا تھا ۔میں نے اس کے خون کاقرض اُتارنا ہے۔ میں کم عمر تو ہو ں ‘خدا کی قسم بزدل نہیں ہوں‘اور میں تجربہ کار نہیں مگر اناڑی بھی نہیں۔ میرا حوصلہ نہ توڑیں ۔ میں بہت کچھ دیکھ کر آیاہوں ۔ آپ کہتے ہیں کہ وہاں رومی فوج ہے ہی نہیں تو میرے لیے آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
’’ہاں ابنِ جعفر!‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ میں تیرا حوصلہ نہیں توڑوں گا۔ میں تجھے پانچ سو چنے ہوئے سوار دیتا ہوں۔ ان کی کمان تیرے ہاتھ میں ہوگی۔‘‘
ایک نوجوان کو پانچ سو گھوڑ سواروں کی کمان دینا بظاہر دانشمندی نہیں تھی ۔لیکن یہ نوجوان کوئی عام سا نوجوان نہیں تھا ۔ اس کا نام عبداﷲ بن جعفر تھا اوروہ رسولﷺ کے چچا زاد بھائی جعفرؓ کا بیٹا تھا۔ جعفرؓ موتہ کی لڑائی میں شہید ہو گئے تھے۔
عبد اﷲ بن جعفر ابو القدس جانیکی تیاری کرنے لگا۔ چھاپہ تین چارروز بعد مارنا تھا۔
٭
تین چار روز بعد نوجوان عبداﷲ پانچ سو چنے ہوئے گھوڑ سواروں کے ساتھ ابوا لقدس کو رخصت ہوا۔ اس کے ساتھ مشہور و معروف جانبازمجاہد اور رسالت کے شیدائی حضرت ابو ذر غفاریؓ بھی تھے۔
یہ دستہ ۱۴ اکتوبر ۶۳۴ء کی رات روانہ ہوا تھا۔ شعبان کی پندرہ تاریخ تھی۔ چاند پوراتھا ۔صحرا کی چاندنی بڑی ہی شفاف تھی۔
اس چھاپہ مار دستے نے رات ہی سفر طے کر لیا۔ صبح طلوع ہو رہی تھی۔ جب یہ دستہ ابو القدس کے مضافات میں پہنچ گیا۔ عبداﷲ اور ابو ذرغفاریؓ نے دستے کو اس انتظارمیں ذرا دور ہی روک لیا کہ میلے کی دکانیں کھل جائیں۔
میلہ تو خیموں ، شامیانوں ،قناتوں کا ایک خوبصورت گاؤں تھا۔دکانیں کھلیں تو اندازہ ہوا کہ مال کس قدر قیمتی ہے ۔سورج ذرا اوپرآنے تک میلہ انسانوں سے بھر گیا۔
عبداﷲ بن جعفر نے سواروں کو حکم دیاکہ میلے کو گھیرے میں لے لیا جائے۔
پانچ سو سواروں نے گھوڑوں کو ایڑیں لگا دیں اور میلے کو نرغے میں لینے لگے۔ اچانک کم و بیش پانچ ہزار رومی سوار کہیں سے نکل آئے۔ وہ صحرائی آندھی کی مانند آئے اور پھیل کر مسلمان سواروں کو گھیر ے میں لے لیا ۔ کہاں پانچ ہزار اور کہاں پانچ سو۔ وہ بھی گھیرے میں آئے ہوئے۔
مجاہدین گھیرے سے نکلنے کیلئے گھوڑے اِدھر ُادھر دوڑانے لگے لیکن ہر طرف رومی سواروں کی تہ در تہ دیوار کھڑی تھی جو اُنہیں روک لیتی۔ مسلمان ہر محاذ پر قلیل تعدا دمیں لڑے ہیں۔ دس ہزار مجاہدین نے ایک لاکھ کفار کا مقابلہ کیا ہے لیکن اس صورت میں کہ وہ جنگی ترتیب میں سالاروں کی ہدایات پر لڑے تھے۔ مگر یہاں وہ اچانک اور غیر متوقع گھیرے میں آگئے ۔مؤرخ واقدی اور بلاذری لکھتے ہیں کہ ان پانچ سو مجاہدین نے بھاگنے کی کوشش ترک کرکے دو بدو مقابلہ شروع کر دیا۔
مجاہدین انفرادی طور پر لڑ رہے تھے۔ یہ تو زندگی اور موت کا معرکہ تھا ۔مجاہدین بے جگری سے لڑے مگر یہ نا ممکن تھا کہ ایک ایک سوار دس دس کا مقابلہ کرتا اور زندہ نکل آتا ۔ مقابلہ تو انہوں نے کیا اور خوب کیا اور رومیوں کی تلواروں اور برچھیوں سے کٹتے چلے گئے۔مجاہدین پھیل ک گئے اور اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے رہے۔
٭
ایک مجاہد نہیں معلوم کس طرح معرکہ شروع ہونے سے قبل ہی نکل گیا تھا۔ فاصلہ کوئی ایسا زیادہ نہیں تھا۔ یہ مجاہد گھوڑا دوڑاتا اپنے لشکر میں پہنچا اور سپہ سالار ابو عبیدہؓ بن الجراح کو بتایا کہ ابو القدس میں کیا ہوا ہے۔
’’میں نے یہ نہیں دیکھا کہ رومیوں کا گھیرا مکمل ہونے سے پہلے ہمارے سوار وہاں سے نکل سکے تھے یا نہیں۔‘‘ اس سوار نے کہا۔’’ اگر نہیں نکل سکے تو ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچا ہو گا۔‘‘
ابو عبیدہؓ کے چہرے کا رنگ پیلا پڑ گیا ۔ انہیں اب احساس ہوا کہ یہ تو جال تھا جو رومیوں نے بچھایا تھا اور اس عیسائی کو اس لیے بھیجا گیا تھا کہ مسلمانوں کو اس جال میں لائے ۔ میلے کو جال میں دانے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔
ابو عبیدہؓ نے اس عیسائی پر اعتبار کرنے کے علاوہ ایک بھیانک غلطی یہ کی کہ ایک نو عمر آدمی کو جسے ذرا سا بھی عملی تجربہ حاصل نہیں تھا ، پانچ سو سوارون کی کمان دے کر ایک مشکوک مہم پر بھیج دیا تھا۔ اس مہم کے خطرناک ہونے کے امکانات موجود تھے کیونکہ ابو القدس دشمن کے علاقے میں تھا۔
ابو عبیدہؓ کو جب اطلاع ملی تو اس وقت تقریباً تمام سالار ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔سب پر سناٹا طاری ہو گیا۔ سب کی نظریں ابو عبیدہؓ پر جم گئیں اور ابو عبیدہؓ کی نگاہیں خالدؓ بن ولید پر لگی ہوئی تھیں۔ انہیں معلوم تھا کہ ان پانچ سو فریب خوردہ سواروں کو خالدؓ ہی بچا سکتے ہیں لیکن خالد ؓخاموش بیٹھے ہوئے تھے ، البتہ ان کے چہرے پر پریشانی کا تاثر نمایاں تھا۔
ابو عبیدہ ؓاور دیگر سالاروں کا خیال تھا کہ خالدؓ بن ولید معزولی کے رد عمل کے تحت اس کام میں دلچسپی نہیں لیں گے۔
’’ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے خالدؓ کو دوسرے نا م سے مخاطب کرکے التجا کے لہجے میں کہا۔’’ اﷲ کے نام پر ابو سلیمان! تو ہی ان کی مدد کو پہنچ سکتا ہے۔ تو ہی ان کو گھیرے سے نکال سکتا ہے ۔ ایک لمحہ ضائع نہ کر۔‘‘
’’اﷲ کی مدد سے میں ہی انہیں گھیرے سے نکالوں گا۔‘‘ خالدؓ نے اُٹھتے ہوئے کہا۔’’ میں تیرے حکم کا منتظر تھا امین الامت!‘‘
’’معلوم نہیں کیا سوچ کر میں نے تجھے حکم نہ دیا۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ یہ تو میں جانتا ہوں کہ معزولی نے تیرے دل پر کوئی اچھا اثر نہیں کیا۔‘‘
’’خدا کی قسم امین الامت! ‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ مجھ پر کسی بچے کو بھی سپہ سالار مقرر کر دیا جائے تو میں اس کا بھی ہر حکم مانوں گا ۔ کیا میں ایسی جرأت کر سکتا ہوں کہ جسے رسول اﷲ)ﷺ( نے امین الامت کہا ہے اس کا حکم نہ مانوں؟…… اور بتا دے سب کو کہ ابو سلیمان ابن الولید نے اپنی زندگی اسلام کیلئے وقف کر دی ہے۔‘‘
مؤرخ واقدی اور طبری نے لکھا ہے کہ ابو عبیدہؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’اﷲ کی رحمت ہو تجھے پر!‘‘ ابو عبیدہؓ نے جذبات سے بوجھل آواز میں کہا۔’’ جا‘ اپنے گھرے ہوئے بھائیوں کی مدد کو پہنچ۔‘‘
کسی بھی مؤرخ نے یہ نہیں لکھا کہ خالدؓ اپنے ساتھ سواروں کی کتنی تعداد لے کر گئے تھے ۔یہ تو ظاہر ہے کہ ان کے ساتھ سوار ہی گئے ہوں گے ۔پیادے ابو القدس تک بروقت نہیں پہنچ سکتے تھے۔ البتہ تاریخ میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ خالدؓ کے ساتھ ضرارؓ بن الازور بھی تھے جو برہنہ مجاہد کے نام سے مشہور تھے۔ اس خطاب کی وجہ یہ تھی کہ ضرارؓ قمیض اتار کر اور سر ننگا کر کے لڑا کر تے تھے ۔
یہ مجاہدین بڑی تیز رفتار سے گھوڑے دوڑاتے چلے جارہے تھے ۔وہ تو چلے گئے، پیچھے ابو عبیدہ ؓکی جذباتی حالت بگڑنے لگی۔ وہ اﷲ کے حضور آہ و زاری کرنے لگے کہ خلیفہ عمر ؓنے اُنہیں پیغام بھیجا تھا کہ مالِ غنیمت کی خاطر مجاہدین کی جانوں کو خطرے میں نہ ڈالنا اور ہر فیصلہ سوچ بچار کر کے اور اپنے رفیقوں سے مشورہ کرکے کرنا۔نئی زمین پر جا کر دیکھ بھال ضرور کرنا۔
ابو عبیدہؓ رو رو کراﷲ سے اپنی لغزش کی بخشش مانگ رہے تھے کہ انہوں نے اپنے خلیفہ کی ہدایات کو نظر انداز کرکے ایک عیسائی کی بات کو صحیح مان لیا اور پھر ایک ناتجربہ کار نوجوان کو پانچ سو سواروں کی قیادت دے دی۔
٭
خالد ؓبن ولید اور برہنہ مجاہد ضرارؓ بن الازور سوار دستے کے ساتھ سر پٹ گھوڑے دوڑاتے ابو القدس پہنچ گئے۔ رومیوں کے گھیرے میں آئے ہوئے مجاہدین لڑ تو رہے تھے لیکن کٹ کٹ کر گر رہے تھے ۔
’’تکبیرکے نعرے لگاؤ۔‘‘ خالدؓ نے اپنے سواروں کو حکم دیا۔
ابو القدس اور اس کے میدانِ جنگ کی فضا اﷲ اکبر کے گرجدار نعروں سے گونجنے گرجنے لگی۔نعرے لگوانے سے خالدؓ کا مقصد یہ تھاکہ گھیرے میں آئے ہوئے مجاہدین کو پتا چل جائے کہ مدد آگئی ہے۔ اس کے علاوہ رومیوں کو دہشت ذدہ کرنا بھی مقصود تھا۔ ان نعروں کی گھن گرج میں خالدؓ بن ولید نے اپنا مخصوص نعرہ لگایا۔
انا فارس الضدید ‘انا خالد بن الولید
رومیوں نے یہ نعرہ پہلے بھی سنا تھا ۔ خالدؓ حملہ کرتے تو یہ نعرہ لگایا کرتے تھے ۔رومیوں نے مسلمانوں سے مختلف میدانوں میں لڑ کر دیکھا تھا۔ خالدؓ کے اس نعرے کے ساتھ ہی رومیوں پر قیامت ٹوٹ پڑتی تھی۔ خالد ؓکا یہ نعرہ مجاہدین میں نئی روح پھونک دیا کرتا تھا۔
ابو القدس کے کارزار میں تکبیر کے نعروں کے ساتھ رومیوں نے انا خالد بن الولید کی للکار سنی تو ان کی توجہ گھیرے میں لیے ہوئے مجاہدین کی طرف سے ہٹ گئی۔ خالدؓ نے اپنے سواروں کو میدان کار زار کے اردگرد پھیلا دیا اور اتنا تیز حملہ کر وایا کہ رومیوں کو سنبھل کر اپنی ترتیب بدلنے کی مہلت ہی نہ ملی۔ وہ اب خود گھیرے میں آگئے تھے ۔اس وقت تک وہ بہت سے مجاہدین کو شہید اور بیشمار کو شدید زخمی کر چکے تھے۔ بچے کچھے مجاہدین کوخالد ؓبن ولید کی مدد ملی تو ان کے حوصلوں میں نئی جان آگئی۔
رومی سوار معرکے سے نکل کر بھاگنے لگے اور وہ بھاگ بھی گئے۔ لیکن اپنے مرے ہوئے اور شدید زخمی ساتھی جو چھوڑ گئے ، ان کی تعداد زیادہ تھی ۔ مسلمان سواروں کا جانی نقصان بھی معمولی نہ تھا۔ یہ معرکہ اتنا خونریز تھا کہ خالدؓ بن ولید بھی بری طرح زخمی ہو ئے تھے۔ انہوں نے شہیدوں کی لاشیں اکٹھی کرنے اور شدید زخمیوں کو اٹھانے کا حکم دیا اور دوسرا حکم یہ دیا کہ میلے کی تمام دکانوں کا سامان مالِ غنیمت کے طور پر اُٹھا لیا جائے۔
خالدؓ واپس دمشق پہنچے تو ان کے ساتھ بہت زیادہ اور بہت ہی قیمتی مال ِغنیمت تھا۔ رومیوں کے سینکڑوں گھوڑے اور ہتھیار بھی مال غنیمت میں شامل تھے ۔
خالدؓ نے اپنے جسم پر کئی زخم کھا کر یہ ثابت کر دیا تھا کہ سپہ سالاری سے معزولی اُنہیں ان کے فرائض سے ہٹا نہیں سکتی۔
سپہ سالار ابو عبیدہؓ نے مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ خلافت یعنی بیت المال کیلئے مدینہ بھیجا‘اور ساتھ حضرت عمر ؓکے نام پیغام میں تفصیل سے لکھوایا کہ ان کی غلطی سے کیا صورت پیدا ہو گئی تھی اور کس طرح خالدؓ بن ولید نے اس صورت حال کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔
ابو عبیدہؓ نے اپنے اس پیغام میں خالد ؓکی شجاعت اور فرض شناسی کو دل کھول کر خراج تحسین پیش کیا تھا
حضرت عمرؓ بڑے سخت باپ کے فرزند تھے۔ طبقات ابن سعد میں لکھا ہے کہ عمر ؓلڑکپن کی عمر کو پہنچے تو ان کے والد خطاب نے انہیں اونٹوں کو باہر لے جا کر چرانے اور پانی پلانے کی ذمہ داری سونپ دی۔ اس زمانے میں اس کام کو گھٹیا نہیں سمجھا جاتا تھا ۔لیکن والد عمرؓ کے ساتھ بہت سختی سے پیش آتے تھے ۔عمرؓ تھک کر باہر ہی کہیں لیٹ جاتے اور والد دیکھ لیتے تو عمر ؓکی پٹائی کر دیتے۔
اس مقام کا نام ضبحنان تھا جہاں عمر ؓاپنے اونٹ لے جایا کرتے تھے ۔یہ مقام مکہ مکرمہ کے نزدیک ہی ہے۔ عمرؓ کو اﷲ نے خلافت عطا کی تو ایک روز اس مقام کے قریب سے گزرے تو رُک گئے، چند لمحے اس جگہ کو دیکھتے رہے ۔پھر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’اﷲ اکبر‘ اﷲ اکبر۔‘‘ حضرت عمرؓ نے دونوں ہاتھ پھیلا کر کہا۔’’ میں نمدے کا کرتا پہنے یہاں اونٹ چرایا کرتا تھا۔ میں تھک کر بیٹھ یا لیٹ جاتاتو باپ مجھے مارا پیٹا کرتا تھا اور آج اﷲ کے سوا میرے اوپر کوئی اور حاکم نہیں۔‘‘
حضرت عمرؓ کے ان الفاظ میں تکبر اور غرور نہیں بلکہ اﷲ کا خوف تھا کہ خلافت جیسی عظیم اور نازک ذمہ داری میں کوئی کوتاہی یا لغزش ہو گئی تو اﷲ کو کیا جواب دیں گے؟ان کے قول و فعل میں بال برابر بھی تضاد نہیں تھا۔ خلافت کے ابتدائی دنوں میں انہوں نے جو خطبے دیئے۔ اُن سے اِن کی فطرت اور عظمت کا پتا چلتاہے۔ ایک خطبے میں عمر ؓنے کہا:
’’میں مسلمان ہوں اور ایک کمزور بندہ ہوں۔ اﷲ کی مدد اور رہنمائی کا طلب گار ہوں۔ خلافت میری فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں لائے گی ۔ عظمت صرف اﷲ تعالیٰ کیلئے ہے۔ کسی بندے کا اس عظمت میں کوئی حصہ نہیں۔ تم میں سے کوئی نہیں کہہ سکے گا کہ عمر خلیفہ بن کر بدل گیا ہے۔ اپنے دل کی ہر بات کھول کر تمہارے سامنے رکھتا ہوں۔ اگر کسی کی کوئی ضرورت پوری نہ ہوئی ہو‘ یا کسی پر ظلم و ستم ہوا ہو‘ یا کسی کو میرے مزاج سے دُکھ پہنچا ہو تو وہ مجھے پکڑے ۔میں بھی تم جیسا ایک انسان ہوں۔‘‘
ایک اور خطبے میں عمر ؓنے کہا:
’’مجھے اپنی امانت اور اپنی ذمہ داریوں کا پورا احساس ہے۔ میرے سامنے جو بھی مسئلہ ہو گا اسے انشا ء اﷲ خود ہی حل کروں گا۔ کسی دوسرے کے سپرد نہیں کروں گا ۔ مجھے دیانت دار اور مخلص رفقائے کار کی ضرورت ہے ۔‘‘
٭
حضرت عمرؓ کا یہ فیصلہ تو خاص طور پر جرأت مندانہ تھا کہ جن مرتدین کو غلام اور ان کی جن عورتوں کو لونڈیاں بنا کر رکھا گیا ہے انہیں آزاد کر دیا جائے ۔ان دنوں خلافت کے کسی بھی حکم پر اعتراض کیا جا سکتا تھا اور اعتراض کرنے والا آدمی بھری محفل میں خلیفہ کے رو برو اعتراض پیش کرتاتھا اور خلیفہ اس حکم کی وضاحت کرتا تھا ۔لیکن حکم عدولی کی جرأت کسی میں نہیں تھی۔ جرأت نہ کرنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ لوگ سزا سے ڈرتے تھے بلکہ یہ تھی کہ لوگوں کا ایمان اور کردارمضبوط تھا۔ ان میں ڈسپلن تھا ۔امیر کی اطاعت کو وہ فرض سمجھتے تھے ۔
مرتدین کے غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرنے کے حکم پر بہت لے دے ہوئی۔ غلام اور لونڈیاں ہر کوئی تو نہیں رکھ سکتا تھا۔ ان کے آقا متمول خاندانوں کے لوگ تھے۔ جن میں زیادہ تر قبیلوں کے سردار تھے۔ باقی تاجر تھے ۔ان افراد کے پاس بھی غلام یا لونڈیاں تھیں جو مرتدین کے خلاف لڑے تھے۔ ان کا سب سے بڑا اعتراض تو یہ تھا کہ انہوں نے خلیفۃ الرسول )ﷺ(ابو بکرؓ کے حکم سے ان مرتد ین کو غلام اور لونڈیاں بنایا تھا۔ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ بعض نے غلاموں اور لونڈیوں کو خریدا تھا۔
’’اﷲ نے ہر انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔‘‘ حضرت عمرؓ کا جواب تھا ۔’’ اﷲ کا کوئی بندہ اﷲ کے کسی بندے کا غلام نہیں ہو سکتا ۔‘‘
یہ تو وہ استدلال تھا جو عمرؓ لوگوں کو دیتے تھے۔ لیکن انہوں نے اور سالار مثنیٰ بن حارثہ نے کچھ اور ہی سوچا تھا۔ ان کی اس سوچ کے نتائج بھی جلد ہی سامنے آگئے۔
ناصرہ بنت جبار کو کوئی ایسی بوڑھی عورت نہیں تھی کہ اس کی کمر دوہری اور سر کے اتنے زیادہ بال سفید ہو جاتے ۔ اس کی یہ حالت صرف ایک سال میں ہو گئی تھی کہ پینتالیس سال کی عمر میں وہ ستر بہتر سال کی بڑھیا لگتی تھی ۔یہ دو جوان بیٹوں کی جدائی کے اثرات تھے۔ اس کے دونوں بیٹے مسلمانوں کے خلاف ارتداد کی جنگ لڑے اور دونوں زخمی ہو کر پکڑے گئے تھے۔ ان کا باپ مارا گیا تھا۔ مسلمان خلیفۃ الرسول)ﷺ( ابو بکرؓ کے مطابق دونوں بھائیوں کو اٹھا کر اپنے ساتھ مدینہ لے گئے تھے۔ پھر ان کی بستی کو آگ لگا دی گئی تھی۔
یہ بنوفرازہ کاایک خاندان تھا۔ جو بستی بطاح میں رہتا تھا۔ اس قبیلے نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ رسول اﷲﷺ رحلت فرماگئے تو ایک شخص طلیحہ نے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ اس قبیلے کے لوگوں نے اسے نبی تسلیم کر لیا۔ اسی قبیلے نے نہیں دو تین اور قبیلوں نے بھی اسے نبی مان لیا۔ مدینہ اطلاع پہنچی تو مجاہدین کے لشکر ارتداد کو ختم کرنے کیلئے چل پڑے ۔ایک لشکر کے سالار خالدؓ بن ولید تھے۔
مجاہدین کے سالار اس توقع کے ساتھ مرتدین کے علاقوں میں گئے تھے کہ ان قبیلوں کو چند دنوں میں مطیع کر لیں گے لیکن وہاں پہنچے تو پتا چلا کہ ان کا سامنا تو ایک منظم اور پر عزم لشکر سے ہے جو آسانی سے ہتھیار نہیں ڈالے گا۔
’’میں ان مرتدین کو صرف ختم ہی نہیں کروں گا۔‘‘ خالدؓ بن ولید نے کہا۔’’ میں انہیں اسلام کے دائرے میں ایک بار پھر لا کر انہیں ایساپکا مسلمان بناؤں گا کہ کبھی اسلام سے انحراف کا نام نہیں لیں گے۔ ‘‘
خالد ؓنے اپنا یہ عہد پورا کر کے بھی دکھا دیا۔ لیکن جانوں اور لہو کے بے دریغ نذرانے دے کر۔ مرتدین کی عورتیں بھی لڑائیوں میں شامل تھیں اور بعض مرتد قبیلوں کی قیادت بھی عورتوں کے ہی پاس تھی ۔
یہاں ذکر بنو فرازہ کا ہو رہا ہے اس لیے ہم اس قبیلے تک محدود رہیں گے۔ اس قبیلے ایک سردار طلیحہ نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ وہ پیش گوئیاں کیا کرتا تھا۔ مسلمانوں کا لشکر آیا تو لوگوں نے اس سے پوچھا کہ اب کیا ہو گا؟ اس نے کہا وحی نازل ہونے والی ہے۔ خالد ؓنے ان قبیلوں کے لشکر پر تابڑ توڑ حملے کیے ۔بڑے ہی خونریز معرکے لڑے گئے۔ مرتدین کے قدم اکھڑ گئے ۔ان کا جانی نقصان اتنا زیادہ ہوا کہ وہ بوکھلا گئے۔ لوگ خوفزدگی کے عالم میں طلیحہ کے پاس جاکر پوچھتے تھے کہ وحی کب نازل ہو گی؟ اور خدا کی مدد کب آئے گی؟
اس وقت طلیحہ اپنے خیمے میں دُبکا ہو ابیٹھاتھا۔ اس وقت اتنا زیادہ کشت و خون ہو چکا تھا کہ طلیحہ کو نبی ماننے والوں کی آنکھیں کھل چکی تھیں اور اس کے اپنے لوگوں کی آوازیں اٹھنے لگی تھیں۔
’’طلیحہ کذاب ہے۔‘‘
’’لوگو! مت جانیں گنواؤاس جھوٹے آدمی پر۔‘‘
’’بھاگو‘ اپنی جانیں بچاؤ۔‘‘
’’ہم دھوکے میں مارے جا رہے ہیں۔‘‘
بنو فرازہ کے جو آدمی بچ گئے تھے وہ بھاگ اٹھے۔ ناصرہ بنت ِجبار لڑائی کے میدان میں اپنے خاوند اور اپنے دونوں بیٹوں کو پکارتی اور پاگلوں کی طرح دوڑتی پھر رہی تھی۔ اُسے اپنے خاوند کی لاش نظر آگئی جو خون میں نہائی ہوئی تھی۔ وہ خاوند کی لاش کے قریب بیٹھ کر سینہ کوبی کرنے لگی۔
’’تو حق پر اپنی جان دیتا تو میں آج اپنا سر نہ پیٹ رہی ہوتی ۔‘‘ناصرہ کہہ رہی تھی۔’’ تو ایک جھوٹے آدمی کے فریب میں آکر اپنی جان اور میرا سہاگ گنوا بیٹھا۔ اپنے دونوں بیٹوں کو بھی تو اپنے ساتھ لیے جا رہا ہے۔ میں رونے اور چلّانے کیلئے اکیلی رہ گئی ہوں۔‘‘
اس نے اپنے بیٹوں کو نہ ڈھونڈا ۔اپنے خاوند کی لاش او ردور دور تک بکھری ہوئی لاشیں دیکھ کر اسے یقین ہو گیا کہ اس کے بیٹے بھی مارے گئے ۔وہ کچھ دیر اپنے خاوند کی لاش پر روتی بین کرتی اور سینہ کوبی کرتی رہی۔ وہ اچانک چپ ہو گئی اور خلا میں گھورنے لگی۔ اس کے دانت پس رہے تھے۔ وہ اُٹھ کھڑی ہوئی اور طلیحہ کے خیمے کی طرف دوڑ پڑی۔
’’طلیحہ کذاب ہے۔‘‘ وہ چلّاتی جا رہی تھی۔’’ طلیحہ نبی نہیں ہے۔ کہاں ہے جھوٹا نبی؟ میں اس کا منہ نوچ لوں گی۔ اس کی کھال اُدھیڑ دوں گی۔ اپنے دو جوان بیٹوں اور ان کے باپ کے خون کا انتقام لوں گی۔‘‘
طلیحہ اپنے خیمے میں تھا۔ اس کی بیوی نوار اس کے ساتھ تھی۔ خیمے کے باہر ایک گھوڑا اور ایک اونٹ بندھا ہو اتھا۔ دونوں سواری کیلئے تیار کھڑے تھے ۔خیمے کے اردگرد وہ آدمی جمع ہو کر شوروغل بپا کر رہے تھے جو مسلمانوں کے ہاتھوں کٹنے سے بچ گئے تھے۔
’’طلیحہ باہر آؤ‘ سچے ہو تو معجزہ دکھاؤ۔‘‘
’’ہمیں بتاؤ‘ ہم کیاکریں ۔‘‘
’’سچے نبی ہو تو ڈرتے کیوں ہو؟ باہر آؤ۔‘‘
یہ لوگوں کی پکار تھی۔ ان کی آوازیں آپس میں گڈ مڈ ہو رہی تھیں اور شور بڑھتا جا رہا تھا۔
طلیحہ اپنی بیوی کے ساتھ باہر نکلا ۔اس نے اونٹ کو بٹھایا اور اس پر اپنی بیوی کو سوار کرا کے اونٹ کو اٹھا دیا۔ پھر گھوڑے پر سوار ہوا۔
’’تم پوچھتے ہو اب کیاکریں۔‘‘ طلیحہ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا۔’’ میں بتاتا ہوں ‘جن کے پاس گھوڑے اور اونٹ ہیں وہ میری طرح ان پر خود بھی سوار ہوں اور اپنے بیوی بچوں کو بھی سوار کرائیں اور بھاگ جائیں۔‘‘
’’ٹھہر جا جھوٹے نبی!‘‘یہ ناصرہ کی آواز تھی۔ وہ دوڑی آرہی تھی۔’’ میں تیرا گلا گھونٹ دوں گی ۔‘‘
طلیحہ نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی اور اس کی بیوی نے اونٹ دوڑا دیا۔ گھوڑا اور اونٹ لوگوں کے ہجوم کو چیرتے نکل گئے اور کچھ دور جا کر نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
اس دن کے بعد طلیحہ کسی کو نظر نہ آیا۔
یہ اُن دنوں کا واقعہ ہے جب ابو بکرؓ خلیفہ تھے ۔
کسریٰ پرویز چار پانچ دنوں بعد واپس آیا۔ اس عرصے میں ازدیبا دو بار شیرویہ سے
سے ملی۔ اس نے اپنے دل کش جسم اور قیامت خیز شباب کی حرارت سے اور زبان کے جادو سے شیرویہ کو باپ کا جانی دشمن بنا دیا۔
اس دوران جرنیل اور چار پانچ اعلیٰ افسر شیرویہ سے ملتے رہے اور اسکے دماغ پر نقش کر دیا کہ کسریٰ فارس وہی ہے۔ اس کا باپ سلطنت کو تباہ کر دے گا۔
کسریٰ پرویز واپس آگیا ۔ایک دو دنوں بعد وہ ازدیبا کو ساتھ لیے تختِ طاؤس پر بیٹھا تھا۔شیرویہ بھی دربار میں موجود تھا۔ رسول ﷺکا ایلچی پیغام لے کر آگیا جو کسریٰ پرویز نے پھاڑ کر اس کے ٹکڑے بکھیر دیئے ۔اس کے ساتھ ہی اس نے حاکم یمن کو حکم بھیجا کہ محمد )ﷺ(کو گرفتار کر کے ہمارے دربار میں پیش کرو۔ شیرویہ یہ دیکھ دیکھ کر آگ بگولہ ہو رہا تھاکہ پرویز ازدیباکے بالوں ،گالوں اور ہاتھوں سے کھیل رہا تھا۔
اِدھر مسلمانوں کا لشکر عراق میں داخل ہو گیا۔ سلطنت ِفارس کی فوج کے مقابلے میں مجاہدین کی نفری آدھی بھی نہیں تھی۔ اس کے علاوہ فارس کی فوج نیم زرہ پوش تھی۔ اس کے باوجود مجاہدینِ اسلام نے فارس کی فوج کو ہر میدان میں پسپا کیا اور ان کے ہر قلعے پر اسلام کا پرچم لہرایا اور فارسی اپنے زخمیوں اور لاشوں کو چھوڑ کرپسپا ہوتے چلے گئے۔ مجاہدین کے سپہ سالار خالدؓ بن ولید اور ان کے دستِ راست مثنیٰ بن حارثہ تھے..
جاری ہے..
Post a Comment