حجاز کی آندھی
قسط نمبر 19
۔رستم نے دور سے ربعی بن عامر کو آتا دیکھ لیا تو اس کے چہرے پر حقارت کا تاثر آگیا۔
’’عربوں کا ایلچی دیکھو۔ ‘‘رستم نے کہا۔’’ بد بخت بھکاری چلا آرہا ہے۔‘‘
دربار میں قہقہہ بلند ہوا۔
ربعی بن عامر قریب پہنچا تو مسافروں نے انہیں روک لیا۔
’’کیوں؟ ‘‘ربعی نے پوچھا۔’’ روکا کیوں ہے؟ کیا تمہیں کسی نے بتایا نہیں ہے کہ میں مسلمانوں کا ایلچی ہوں۔‘‘
’’اسی لیے تو تمہیں روکا ہے۔‘‘ محافظوں کے کمانڈر نے کہا۔’’ تم دربار میں جا رہے ہو۔ ہتھیار ساتھ لے جانا دربار کے آداب کے خلاف ہے ۔برچھی اور تلوار ہمیں دے دو اور دربار میں جاؤ۔ عالی جاہ رستم تمہارے منتظر ہیں ۔گھوڑا بھی یہیں چھوڑ دو۔‘‘
’’میں آیا نہیں ہوں۔‘‘ ربعی نے کہا۔’’ مجھے بلایا گیا ہے ۔کہتے ہو تو میں یہیں سے واپس چلا جاتا ہوں۔ ہتھیار بھی نہیں دوں گا گھوڑا بھی نہیں دوں گا۔‘‘
’’کیا ہو رہا ہے وہاں؟‘‘رستم نے بلند آواز سے پوچھا۔
’’یہ ہتھیار نہیں دے رہا عالی جاہ!‘‘ محافظوں کے کمانڈر نے کہا۔
’’آنے دو اسے!‘‘ رستم نے حکم دیا۔
ربعی بن عامر گھوڑے سے نہیں اُترا اور دربار تک چلا گیا۔ اس طرف قنات نہیں تھی ۔ربعی دربار میں پہنچ کر گھوڑے سے اُترا اور گھوڑے کو قالین پر لے گیا۔ دائیں بائیں دیکھا اور ایک گاؤ تکیے کی طرف چل پڑا۔ رستم اور دوسرے جرنیل حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ یہ پگلا کیا کر رہا ہے۔ اس نے گھوڑے کی باگ ایک گاؤ تکیے کے گرد لپیٹ کر گھوڑا وہیں چھوڑا اور رستم کی طرف چل پڑا۔
رستم کی طرف اس کے چلنے کایہ انداز تھا کہ اس نے برچھی اس طرح پکڑ رکھی تھی۔ جس طرح لاٹھی پکڑ کر اس کے سہارے چلا جاتا ہے۔ برچھی کی انّی نیچے کو تھی۔ ربعی اس طرح چل رہا تھا جس طرح اندھا لاٹھی کے سہارے چلتا ہے ۔ربعی ہر قدم پر برچھی زور سے زمین پر مارتا جاتا تھا ۔برچھی کی انّی قالین میں سوراخ کرکے زمین میں اتر جاتی تھی ۔اس طرح وہ اتنے قیمتی قالین میں سوراخ کرتا گیا۔ رستم اور درباری اسے دیکھتے رہے۔ انہیں غالباً پتہ نہیں چل رہا تھا کہ اس شخص سے کیا کہیں۔ بعض جرنیلوں کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس طرح وہ اتنے قیمتی قالین میں سوراخ کرتا گیا۔ رستم اور درباری اسے دیکھتے رہے۔ انہیں غالباً پتہ نہیں چل رہا تھا کہ اس شخص سے کیا کہیں۔ بعض جرنیلوں کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آگئی۔
ربعی رستم کے سامنے جا رُکا اور برچھی زور سے زمین پر ماری۔ انّی قالین کو کاٹتی زمین میں اتر گئی۔ ربعی نے برچھی وہیں رہنے دی اور رستم کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ رستم نے سر سے پاؤں تک اس کی ہئیتِ کذائی دیکھی اور اتنا بھی نہ کہا کہ بیٹھ جاؤ۔
’’کیا لینے آئے ہو ہمارے ملک میں؟ ‘‘رستم نے حقارت آمیز لہجے میں پوچھا۔
’’ہم اس ملک میں اس لئے آئے ہیں کہ مخلوق کے بجائے خالق کی مدد کی جائے۔‘‘ ربعی بن عامر نے کہا۔’’ ہمارا پیغام تمہارے شہنشاہ تک پہنچ چکا ہے اور ہم اپنی شرطیں بھی بتا چکے ہیں۔‘‘
’’میں اپنے مشیروں اور ساتھیوں سے مشورہ کرکے جواب دوں گا ۔‘‘ رستم نے کہا۔’’ تمہیں ایک بار پھر آنا پڑے گا۔‘‘
صلح کی بات چیت اسی مختصر مکالمے میں ختم ہو گئی۔ ایک جرنیل اُٹھا اور زمین میں گڑھی ہوئی ربعی کی برچھی دیکھی جو اوپر سے ٹوٹی ہوئی تھی۔ پھراس نے ربعی کی زرہ پر ہاتھ مارا جو دراصل ٹین کی چادر تھی، پھر ا س نے ان چیتھڑوں پر ہاتھ پھیرا جو نیام میں لپٹے ہوئے تھے۔
’’اے عربی! ‘‘اس جرنیل نے طنزیہ کہا۔’’کیا ان ہتھیاروں سے تم فارس کو فتح کرنے آئے ہو؟‘‘
ربعی نے اتنی تیزی سے تلوار نکال کر سونت لی کہ جرنیل اچھل کر دور ہٹ گیا۔ ربعی ایک جگہ کھڑے کھڑے چاروں طرف گھوما۔ اس کے چہرے پر میدانِ جنگ والا عتاب آگیا تھا۔
’’کون ہے یہاں تلوار کا دھنی؟‘‘ربعی نے کہا۔’’ اُٹھے اور میرے مقابلے میں آئے……کوئی بہادر اٹھے ، پھر میں تمہیں جواب دوں گا کہ میں اس تلوار سے فارس کو فتح کر سکتا ہوں یا نہیں۔‘‘
وہ آہستہ آہستہ کھڑا ایک ہی جگہ کھڑا گھومتا رہا۔ اس نے ہر جرنیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔ وہ سب جرنیل تھے۔ ایک سے ایک تلوار کا دھنی تھا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی رستم کی اجازت کے بغیر مقابلے کیلئے نہیں اُٹھ سکتا تھا۔ تاریخ کہتی ہے کہ رستم نے اشارہ کر دیا تھا کہ کوئی نہ اٹھے اور اسے جانے دیں۔
’’کوئی نہیں! ‘‘ربعی نے کہااور رستم سے مخاطب ہوا۔’’ تمہارے پاس ہمارا ایک اور ایلچی آئے گا ……سوچ کر جواب دینا رستم!‘‘
ربعی نے اپنی ٹوٹی ہوئی برچھی وہیں گڑھی رہنے دی ۔ تلوار نیام میں ڈالی۔ اپنے گھوڑے تک گیا ،باگ گاؤ تکیے سے نکال کر ہاتھ میں لی ۔گھوڑے پر سوار ہوا اور چلا گیا۔
ان مذاکرات میں جو مترجم تھا ،اس کا نام عبود تھا۔ وہ حیرہ کا رہنے والا غیر مسلم تھا۔
ربعی نے واپس آکر سعد ؓبن ابی وقاص کو بتایا کہ رستم نے دربار آراستہ کر رکھا تھا اور وہاں کیا ہوا ہے۔ ربعی نے فارسیوں کی دولت اور جا و جلال کو پوری تفصیل سے بیان کیا۔ اس نے رستم کے لشکر کو بڑی ہی اچھی طرح دیکھا تھا۔ یہ تو دیکھنا ہی تھا کیونکہ اسی لشکر سے انہوں نے لڑنا تھا۔ ربعی نے سعدؓ کو بتایا کہ فارسیوں کا لشکر کتنا بڑا ہے اور ان کے ہتھیار کتنے اچھے ہیں ۔اس نے کہا کہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے اس لشکر میں اتنے انسان نہیں جتنے گھوڑے ہیں۔
امیر المومنین حضرت عمرؓ کے حکم کے مطابق سعد ؓانہیں مسلسل محاذ کے حالات لکھ رہے تھے اور حضر ت عمرؓ انہیں ہدایات بھیج رہے تھے۔ امیر المومنین ؓنے یہ بات متعدد بار لکھی تھی کہ فارسیوں کی شاہانہ شان و شوکت ، ان کی فوج کی افراط اور ہتھیاروں کی برتری سے مرعوب نہ ہونا۔ تمہارے پاس جو جذبہ ہے اس سے تمہارا دشمن محروم ہے۔ یہی ا سکی کمزوری اور یہی تمہاری طاقت ہے۔
’’رستم کے اگلے پیغام کا انتظار کرو۔‘‘ سعد ؓبن ابی وقاص نے کہا۔’’ صلح کرنے کا حاجت مندوہ ہے، ہم نہیں۔‘‘
سعدؓ کا جوش اور جذبہ تو بڑھتا جا رہا تھا لیکن عرق النساء کا درد بڑھ گیا تھا۔ اب یہ حالت ہو گئی تھی کہ وہ اس ٹانگ پرکھڑے تو ہو جاتے تھے ، مگر چل نہیں سکتے تھے۔ انہیں سہارا دینا پڑتا تھا۔ گھوڑ سواری بھی ان کیلئے ممکن نہیں رہی تھی۔
پھر ایک روز رستم کا قاصد پیغام لے کر آگیا کہ اپنا کوئی نمائندہ بھیجو۔
’’……اور یہ نمائندہ کوئی دانشمند ہو۔‘‘ ایلچی نے کہا۔’’ ایسا دانشمند جو اچھی طرح واضح کر سکے کہ تم لوگوں کا مدعا اور مقصد کیا ہے۔‘‘
’’خدا کی قسم! فارس میں دانشمندوں کا قحط ہے۔‘‘ سعدؓ بن ابی وقاص نے کہا۔’’ مدعا اور مقصد تمہارے بادشاہ کو بڑی اچھی طرح بتا دیا گیا تھا ۔تمہارے سب سے بڑے سپہ سالار رستم کو بھی معلوم ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں ۔یہ بتاؤ رستم کیا چاہتا ہے؟‘‘
’’اس سوال کا جواب رستم ہی دے سکتا ہے۔‘‘ ایلچی نے کہا۔’’ آپ اپنا نمائندہ بھیجیں ۔‘‘
’’کل صبح ہمارا نمائندہ آئے گا۔‘‘ سعدؓ نے کہا۔
ایلچی چلا گیا ۔ایک صحابی مغیرہؓ بن شعبہ سعدؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔
’’ابنِ شعبہ! ‘‘سعد ؓنے کہا۔’’ اب تو ہی جا۔ واﷲ، اس رستم کا دماغ شیطان کے قبضے میں معلوم ہوتا ہے۔ ہماری بات سمجھتے ہوئے بھی کہتا ہے کہ کچھ نہیں سمجھا۔ وہ کوئی تیاری مکمل کرنے کیلئے وقت چاہتا ہے یا اس کا دماغ کسی سازش پر کام کر رہا ہے۔ تو جا اور اس کے ساتھ آخری بات کر کے آ۔ اسے کہنا کہ اب ہمارا کوئی ایلچی یا نمائندہ تمہارے پاس نہیں آئے گا۔‘‘
’’میں کوشش کروں گا۔‘‘ مغیرہؓ نے کہا۔’’ میں پوری کوشش کروں گا کہ وہ مشتعل ہو جائے اور ہمیں للکارے ہمیں یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ یہ کفار اسلام قبول کر لیں گے۔‘‘
اگلی صبح جب مغیرہؓ بن شعبہ رستم سے ملنے گئے تو رستم نے پہلے کی طرح دربار سجا رکھا تھا۔ اب دربار کی سج دھج پہلے سے زیادہ تھی۔ رستم مسند پر بیٹھا تھا اور اس کے پیچھے دو چوبدار کھڑے تھے ۔ دو چوبندار ہاتھوں میں برچھیاں لیے اس طرف بھی کھڑے تھے جدھر سے دربار میں داخل ہو اجاتا تھا۔ دربار میں اس دن کی طرح جرنیل بیٹھے تھے ۔ان کے لباس زرق برق اور ایسے شاہانہ تھے کہ ایک سادگی پسند صحابی کو وہ سب بادشاہ اور شہزادے لگتے تھے۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ مغیرہؓ گھوڑے سے اُترے۔ انہیں کسی نے نہ کہا کہ دربار میں کوئی ہتھیار لے کر نہ جائیں ۔مغیرہؓ شامیانے اور قناطوں کے دربار میں داخل ہوئے ۔انہوں نے جھک کر فرشی سلام نہ کیا نہ دربار کے آداب کی پرواہ کی۔ بلند آواز سے السلام و علیکم کہی اور سیدھے رستم تک پہنچے ۔اسے بھی جھک کر سلام نہ کیا بلکہ آگے بڑھ کر اس کے پہلو میں مسند پر بیٹھ گئے۔
درباریوں پر سناٹا طاری ہو گیا۔ دو جرنیل اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’ہم اپنے کماندارِ علیٰ کی یہ توہین برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘ ایک جرنیل نے کہا۔’’ ہم عرب کے اس لٹیرے کو یہ اعزاز نہیں دے سکتے کہ وہ فخرِ فارس رستم کی برابری میں اس کی مسند پر بیٹھ جائے۔‘‘
’’اٹھا دو اسے وہاں سے۔ ‘‘ ایک جرنیل نے گرج کر کہا۔
رستم خاموش تھا اور اس کا چہرہ بے تاثر تھا۔دربار میں کچھ اور آوزیں بھی سنائی دیں۔ سب مغیرہ ؓکی جسارت کے خلاف بول رہے تھے۔ ایک چوبدار جو رستم کے قریب کھڑا تھا۔ آگے آیا اور اس نے مغیرہ ؓ کو بازو سے پکڑ کر اٹھا دیا۔
’’میں خود تو نہیں آیا۔‘‘ مغیرہؓ نے رستم سے کہا۔’’ تمہارے بلانے پر آیا ہوں ۔میں حیران ہوں کہ تم اپنے مہمان کے ساتھ یہ نازیبا سلوک کر رہے ہو۔ ہمارے یہاں یہ دستور نہیں کہ ایک آدمی خدا بن کر بیٹھ جائے اور باقی لوگ اسکے غلاموں کی طرح کھڑے رہیں۔ اور کوئی آدمی اس کی برابری میں بیٹھنے کی جرأت نہ کر سکے۔ میں اپنی یہ بے عزتی برداشت نہیں کروں گا۔ کیا میرے لیے یہ بہتر نہیں کہ میں چلا جاؤں ۔آج کے بعد ہمارا کوئی نمائندہ نہیں آئے گا۔ تمہارے ساتھ ہماری اگلی ملاقات میدانِ جنگ میں ہو گی۔‘‘
بلاذری نے لکھا ہے کہ مترجم حیرہ کا رہنے والا عبود تھا۔ اس نے مغیرہ ؓکی بات کا ترجمہ رستم کو سنایا۔
’’نہیں!‘‘ رستم نے کہا۔’’ میں نے کسی کو حکم نہیں دیا تھا کہ تمہیں یہاں سے اٹھا دیا جائے اور میرا یہ منشاء بھی نہ تھا ۔تم بیٹھو اور اطمینان سے بات کرو۔‘‘
’’اب تم بات کرو رستم !‘‘مغیرہ ؓنے کہا۔’’ ہم اپنی بات تمہارے بادشاہ تک پہنچا چکے ہیں اور ہمارے کئی ایلچی تمہارے بلانے پر آئے اور تمہیں بتا گئے ہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ ہم جو کہتے ہیں یہ اﷲ کا حکم ہے۔ ‘‘
’’ایک بار پھر کہو۔‘‘ رستم نے کہا۔’’ میں جوا ب دوں گا۔‘‘
’’اور میں اسے آخری جواب سمجھوں گا ۔‘‘مغیرہؓ نے کہا ۔’’اس کے بعد ہمارا کوئی آدمی یہاں نہیں آئے گا۔ ہم تمہیں قبولِ اسلام کی دعوت دیتے ہیں ۔اسلام میں عبادت کے لائق اﷲ ہے اور اﷲ واحدہ لا شریک ہے ۔تم جس سورج کی عبادت کر تے ہو وہ سورج اﷲ کی تخلیق ہے اور سورج اﷲ کے حکم کا پابند ہے اور جس آگ کو تم پوجتے ہو اسے انسان ہی جلاتا اور انسان ہی بجھاتا ہے،اور تسلیم کرو کہ محمد ﷺ اﷲ کے بندے اور رسول ہیں اور تسلیم کرو کہ اسلام اﷲ کا سچا دین ہے۔ ‘‘
’’ہم تمہارا دین قبول کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔‘‘ رستم نے کہا۔
’’پھر جزیہ دو۔‘‘ مغیرہ ؓنے کہا۔
’’میرے عربی دوست!‘‘ رستم نے کہا۔’’ شہنشاہِ فارس تمہاری بھلائی کی بات کہہ چکے ہیں۔ تم لوگ ہمارا جو نقصان کر چکے ہو اور ہماری رعایا کو جتنا بھی لوٹ چکے ہو ،ہم سب تمہیں معاف کرتے ہیں ۔تم لوگ ہمارے ملک سے نکل جاؤ۔ ہم تمہیں اتنا زیادہ اناج دیں گے جو تم ایک عرسے تک کھاتے رہو گے اور ہم تمہیں انعام بھی دیں گے۔‘‘
مغیرہؓ کے چہرے پر غصے کی سرخی نمودار ہوئی۔ انہو ں نے اپنی تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھا اور تلوار نیام سے تھوڑی سی باہر کھینچی ۔
’’رستم! ‘‘مغیرہ ؓنے کہا۔’’ اگر اسلام بھی منظور نہیں، اور جزیہ بھی منظور نہیں تو فیصلہ یہ تلوا رکرے گی۔‘‘
تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ رستم بھڑک اٹھا ۔مغیرہؓ کا یہی مقصد تھا کہ رستم مشتعل ہو جائے اور میدان میں آئے ۔رستم مشتعل ہو گیا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔
’’میں کل سارے عرب کو تباہ کر دوں گا۔‘‘رستم نے غضب ناک لہجے میں کہا۔
’’اگر اﷲ نے چاہا۔‘‘مغیرہؓنے کہا۔
’’اگراﷲ نے نہ چاہا تو بھی۔‘‘ رستم نے کہا۔
مغیرہؓ نے زور سے اپنی تلوار کو نیام میں دبایا اور ان کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آگئی اور وہ رستم کے دربار سے تیز تیز قدم اٹھاتے باہر نکل آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مغیرہؓ نے زور سے اپنی تلوار کو نیام میں دبایا اور ان کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آگئی اور وہ رستم کے دربار سے تیز تیز قدم اٹھاتے باہر نکل آئے۔
سعدؓ کو رستم بھی دکھائی دیا۔ وہ چارگھوڑوں کی بگھی پر نصب شدہ تخت پر بیٹھا تھا۔ یہ تخت ایک کرسی تھی جس میں ہیرے اور جواہرات جڑے ہوئے تھے ۔رستم قلب کے دستوں کے درمیان تھا اور ا س کے اردگردمحافظ دستے کا حصار تھا۔
’’سلمیٰ!‘‘سعد ؓبن ابی وقاص نے اپنی بیوی سے کہا۔’’ فارسیوں کی پیش قدمی کا انداز دیکھ رہی ہو؟ کیا بدمست سانڈ اسی طرح پھنکارتا اور ڈکارتا نہیں آیا کرتا؟‘‘
’’ہاں ابی وقاص کے بیٹے! ‘‘سلمیٰ نے کہا۔’’ صحرا کی آندھی اسی طرح آیا کرتی ہے۔ اپنے لشکر کو دیکھتی ہوں تو ہاتھ اﷲ کی طرف اُٹھ جاتے ہیں۔‘‘ تفصیل سے پڑھئے
’’اﷲ ہی تو ہے سلمیٰ!‘‘سعدؓ نے کہا۔’’ میں نے قبیلوں کے سرداروں سے کئی بار کہا ہے کہ اپنے مجاہدین کو قرآن کا یہ فرمان یاد دلاتے رہا کریں ۔ ’اے جماعت مومنین!ثابت قدم رہو اور دوسروں کو ثابت قدم رہنے کی تلقین کرو اور تقویٰ اﷲ پر رکھو۔ آپس میں جڑے رہو، پھر اپنی مراد)منزل(پا لو گے۔‘)آل عمران ۲۰۰(……اور سلمیٰ!میں نے کہنا کچھ اور تھا۔ مجھے اکیلا چھوڑو اور عورتوں کو اچھی طرح سمجھا کر آؤ کہ آج دشمن بپھر کر آرہا ہے۔ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔عورتیں تیار رہیں۔ ہو سکتا ہے دشمن ان تک پہنچ جائے۔ اس صورت میں عورتیں جم کر مقابلہ کریں اور کوئی عورت زندہ دشمن کے ہاتھ نہ آئے۔
سلمیٰ چلی گئیں۔
رستم کے پاس فوج بہت زیادہ تھی، اس لیے اس نے فوج کو جس ترتیب میں منظم کیا تھا اس کی گہرائی بہت زیادہ تھی۔ قلب کے دائیں اور بائیں کے دستوں کی آگے پیچھے تیرہ تیرہ صفیں تھیں ۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی صفیں آگے پیچھے تین تین تھیں۔ رستم نے گھوڑ سوار پیچھے رکھے تھے اور مسلمانوں کے گھوڑ سوار دستے آگے تھے۔
سعدؓ بن ابی وقاص نے پہلا نعرہ ٔتکبیر لگوا دیا۔ مجاہدین تیار ہو گئے ۔مجاہدین نے تیسرے نعرے پر آگے بڑھنا تھا ۔پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ مسلمانوں کے ان نعروں سے فارسی واقف تھے ۔رستم نے دو مرتبہ یوں کیا تھا کہ مسلمانوں نے پہلا نعرہ لگایا اور رستم نے حملہ کرادیا تاکہ مسلمانوں کو تیاری کی مہلت ہی نہ مل سکے۔ مسلمانوں کے سپہ سالار کا سخت حکم تھا کہ تیسرے نعرے سے پہلے اپنی جگہ سے نہ ہلیں۔
پہلے نعرے پر فارسیوں نے ایک ایسی چال چلی جو پہلے کبھی نہیں چلی تھی، وہ یہ کہ ان کے گھوڑ سوار تیر انداز آگے آگئے اور انہوں نے مجاہدین پر تیروں کی بوچھاڑیں پھینکنی شروع کر دیں۔ اس سے رستم کا یقینا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کی ترتیب خراب ہو جائے اور وہ آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹنا شروع کر دیں اور دلجمعی سے مقابلہ نہ کر سکیں۔
سعدؓ نے دشمن کی یہ چال دیکھی تو دوسرا نعرہ لگوا دیا۔ اس جنگ کو تفصیل سے بیان کرنے والے مؤرخوں نے لکھا ہے کہ قعقاع نے دیکھا کہ دشمن تیر اندازی کرتا آرہا ہے، اور تیر اندازوں کے پیچھے پیادہ دستے آرہے ہیں تو قعقاع ایسے جوش میں آگیا جس میں غصہ بھی تھا اور عتاب بھی ۔ وہ سپہ سالار کا یہ حکم بھول گیا کہ تیسرے نعرے سے پہلے کوئی حرکت نہیں کرنی۔
’’اے بنو تمیم! ‘‘انہوں نے اپنے قبیلے کو للکارا۔ ’’خدا کی قسم، میں فارسیوں کی یہ چال کامیاب نہیں ہونے دوں گا۔ میرے پیچھے آؤ۔‘‘
انہوں نے تیسرے نعرے کا انتظار کیے بغیر گھوڑے کو ایڑ لگا دی، اور ا ن کے پورے قبیلے کے سوار تلواریں اور برچھیاں تانے ان کے پیچھے گئے۔
سپہ سالار سعدؓ بن ابی وقاص نے یہ دیکھا تو پریشان ہو گئے۔ پریشانی کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ قعقاع جیسے ذمہ دار عہدیدار نے سپہ سالار کے حکم کی خلاف ورزی کی تھی۔ امیرِ لشکر کی حکم عدولی کو گناہ سمجھا جاتا تھا۔ دوسری پریشانی یہ تھی کہ پورا میدانِ جنگ سعد ؓکی نظر میں تھا۔ دشمن کی نقل و حرکت اور چالوں کو وہی دیکھ رہے تھے۔ اس لیے وہی بہتر سمجھتے تھے کہ کسے آگے بڑھانا اور کسے پیچھے رکھنا ہے۔
قعقاع اپنے قبیلے کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کی آگے بڑھتی ہوئی صفوں میں گھس گئے تھے۔ان کی بہادری بے خوفی اور جارحانہ قیادت پر کسی کو شک نہ تھا ۔ان کے حملے کا زور سوار تیر اندازوں پر تھا۔ ’’الاخبار الطوال‘‘ میں یہ واقعہ تفصیل سے لکھا ہے۔
’’یااﷲ!‘‘سعدؓ بن ابی وقاص نے ہاتھ اٹھا کر اﷲ سے التجا کی۔ ’’اسے)قعقاع کو(معاف کر دے، اوراس کی مدد فرما۔ بیشک اس نے مجھ سے اجازت نہیں لی ۔ میں اسے اجازت دیتا ہوں ……اﷲ!اے غفورورحیم!اس کی مدد فرما۔اس کی حفاظت فرما۔‘‘
یہ تھی سپہ سالار اور امیرِ لشکر کی عالیٰ ظرفی اور فیاضی۔
قعقاع نے یہ کامیابی حاصل کرلی کہ دشمن کے سوار تیر اندازوں کو درہم برہم کر کے اپنے لشکر کو تیروں سے بچا لیا اور اس کے ساتھ فارسیوں کی ترتیب کو اور ا س کے جنگی پلان کو تہہ و بالا کر دیا۔
مستند تاریخوں کے مطابق مجاہدین کے لشکر میں ایک اور بد نظمی پیدا ہو گئی۔ قعقاع کو یوں دشمن پر حملہ آور ہوتے دیکھ کر قیس بن اشعث نے اپنے قبیلے کو یوں للکارا۔’’ بہادرو!بنو تمیم کو دیکھو کس طرح دشمن کے اندر جا کر ا س کا جگر چاک کر رہے ہیں ۔تم نے ان سے زیادہ بہادری دکھانی ہے۔ بنو تمیم اﷲ کی راہ میں تم سے آگے نہ نکل جائیں ۔میرے پیچھے آؤ۔‘‘
ایک اور قبیلہ دشمن پر ٹوٹ پڑا، اور سعدؓ اس کیلئے بھی دعا کرنے لگے ۔اس قبیلے کا سردار عمرو بن معدی کرب تھا جس نے قبیلے کو خوب بھڑکایا اور اکسایا تھا۔
پھر ایک اور قبیلے کا سردار ابن ذی البردین جوش میں آگیا ۔اس نے بھی اپنے قبیلے کو مشتعل کر دیا اور سپہ سالار کی اجازت کے بغیر حملہ کر دیا۔
اس طرح بنو تمیم کی تقلید میں چار اور قبیلے۔ بنواسد ،بنو نخع، بنو بجیلہ اور بنو کندہ حیرت انگیز بہادری سے دشمن کی صفوں پر حملہ آور ہوئے۔ یہ بڑا ہی شدید اور تیز رفتار ہلّہ تھا ،جس سے یہ کامیابی حاصل ہو ئی کہ رستم کا پلان تباہ ہو گیا اور اس کی فوج کی نہ صرف ترتیب بکھر گئی بلکہ ا س کا جانی نقصان بھی خاصا ہوا۔
لڑائی نے ایسی صورت اختیار کر لی تھی کہ نہ رستم کا اپنی فوج پر نہ سعدؓ بن ابی وقاص کا اپنے لشکر پر کنٹرول رہا تھا۔ علامہ شبلی نعمانی ،بلاذری اور طبری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سعدؓ خشوع خضوع سے اپنے لشکر کی سلامتی اور کامیابی کیلئے دعائیں کر رہے تھے ۔دعا کے سوا وہ اور کر بھی کیا سکتے تھے ۔دعا مانگتے مانگتے ان پر رقت طاری ہو گئی۔
قعقاع اور قبیلوں کے وہ سالار جو سپہ سالار کے حکم کے بغیر دشمن پر ٹوٹ پڑے تھے کوئی اناڑی نہیں تھے۔ ان میں صرف جذبات کا ہی جوش نہ تھا بلکہ وہ عسکری ذہانت سے آگے بڑھے اور لڑ رہے تھے ۔تیسرے نعرۂ تکبیر پر دوسرے قبیلے بھی ان سے مل گئے تھے۔ قعقاع نے یہ کمال کر دکھایا تھا کہ سوار تیراندازوں کو بکھیر کر دشمن کے ایک پہلو پر جا ہلّہ بولا تھا۔ دوسرے پہلو پر دو اور قبیلوں نے مل کر حملہ کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں پہلوؤں کے دستے قلب کے دستوں میں گڈ مڈ ہو گئے اور پھر دشمن کی فوج میں قلب کی جگہ شگاف پیدا ہو گیا۔ جس سے مسلمان سالاروں نے بہت فائدہ اٹھایا۔
رستم نے اس صورتِ حال میں بہتر سمجھا کہ اپنی فوج کو پیچھے ہٹالے ۔وہ ابھی تک اپے متحرک تخت پر بیٹھا میدانِ جنگ میں بگھی دوڑاتا پھررہا تھا ۔اس نے اپنی فوج کو دستہ بہ دستہ پیچھے ہٹا لیا۔مسلمان سالار پہلے ہی محسوس کر رہے تھے کہ اُنہیں پیچھے ہٹ آنا چاہیے۔ انہوں نے اپنا یہ مقصد حاصل کر لیا تھا کہ فارس کی فوج کا دم خم اور جوش و خروش توڑ دیا اور اس کی ترتیب اور تنظیم کو بُری طرح بکھیر دیا تھا۔
دونوں فوجیں پیچھے ہٹ گئیں۔ کچھ دیر بعد دونوں فوجوں نے اپنی اپنی ترتیب اور تنظیم بحال کر لی۔ سعدؓبن ابی وقاص نے بالا خانے سے پیغام پھینکا جو قاصد نے فوراً قائم مقام سپہ سالار خالد بن عرطفہ تک پہنچا دیا۔ یہ سالاروں کے نام تھا۔ خالد بن عرطفہ نے پیغام اپنے لشکر کو سنایا:
’’اﷲ تم سب کو معاف کرے‘ تم نے دوسرے اور تیسرے نعرہ تکبیر کا انتظار نہ کیا۔اﷲ تمہارے جوش و جذبے کو قبول کرے ۔لیکن میدانِ جنگ کے نظم و نسق اور تنظیم کو نہ توڑو۔ اﷲ نے تمہیں معاف کر دیا ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ تم دشمن پر غالب رہے۔ اب تیسرے نعرے کا انتظار کرنا اور اب دشمن پہلے کی طرح ہلّہ بولے توتمہارا زور اور دباؤ دشمن کے پہلوؤں پر ہو ۔مجھے اطلاع ملی ہے کہ رستم نے اپنے پہلوؤں پر اپنے دو سب سے زیادہ قابل اور بہادر جرنیل رکھے ہیں ۔ایک کا نام فیروزان اور دوسرے کا ہرمزان ہے۔‘‘
خالد بن عرطفہ یہ پیغام بمشکل سنا ہی پائے تھے کہ افق سے بڑا ہی گردوغبار اٹھا جو میدانِ جنگ کی طرف بڑھتا اور ہر طرف پھیلتا چلا گیا۔ میدانِ جنگ کی فضا میں ہوا بالکل بند ہو گئی۔ یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی ۔بڑا ہی خوفناک طوفان آرہا تھا۔
’’اﷲ کی مدد آرہی ہے۔‘‘ کسی مجاہد یا سالار نے بڑی ہی بلند آواز سے نعرہ لگایا۔
یہ بڑی ہی تند و تیز آندھی تھی کہ درخت ا س کے راستے میں سجدہ ریز ہو رہے تھے۔ اس کی چیخیں اور زناٹے اتنے خوفناک تھے کہ گھوڑے بدکنے لگے۔ گرد اتنی کہ آنکھیں نہیں کھلتی تھیں ۔وہ علاقہ تو سرسبز تھا لیکن یہ آندھی صحرا کی طرف آرہی تھی ۔اس لیے اس میں ریت بہت زیادہ تھی ۔یہ ریت آنکھوں میں پڑتی تھی۔