حجاز کی آندھی (عنایت اللہ التمش) قسط نمبر 21 ....Hijaz Ki Aandhi Part 21

 حجاز کی آندھی (عنایت اللہ التمش)
قسط نمبر 21

وہاں جتنے لوگ موجود تھے، سب ہنس پڑے ۔سعدؓ بن ابی وقاص کی بھی ہنسی نکل گئی ۔نہ سعدؓنے نہ کسی اور نے برا جانا کہ دونوں قرآن کے حافظوں میں شامل ہو گئے ہیں مگر قرآن پڑھا تک نہیں۔ بُرا نا جاننے کی وجہ یہ تھی کہ یہ دونوں مجاہد غیر معمولی طور پر بہادر تھے۔ مثلاً عمرو بن معدی کرب کی بہادری کا ایک واقعہ بیان ہو چکا ہے کہ وہ اکیلا ہی ایک ہاتھی کو مارنے پہنچ گیا تھا ،جس کے دائیں بائیں پیادہ اور گھوڑ سوا ر محافظ موجود تھے۔ انہوں نے اس مجاہد کو برچھیوں سے چھلنی کر دیا تھا لیکن اس کے ہاتھ سے تلوار نہیں گری تھی، اور دوسرے دن اسلام کا یہ شیدائی پھر میدانِ جنگ میں موجود تھا۔ اب بھی اس کے جسم پر جگہ جگہ پٹیاں لپٹی ہوئی تھیں۔

سعدؓ بن ابی وقاص نے اسے بھی کوئی مزید حصہ دینے سے انکار کردیا۔

٭

طبری ، بلاذری اور ابنِ خلکان نے یہ واقعہ تفصیل سے لکھا ہے ۔عربوں میں بزلہ سنجی اور شاعری عام تھی اور عام طور پر عربی لوگ شاعرانہ انداز میں اپنا مدعا بیان کیا کرتے تھے ۔سعدؓ نے ابنِ معدی کرب کو قرآن کا حافظ نہ ہونے کی بناء پر حصہ دینے سے انکا رکر دیا اور ابنِ معدی کرب نے شاعرانہ انداز میں کہا۔

’’جب ہم قتل کیے جارہے تھے تو ہم پر کوئی رونے والا نہ تھا۔ اہلِ قریش نے کہا یہ سب قسمت کا کھیل ہے……

جب برچھیاں سینوں کو چھید رہی تھیں ہمیں برابر کا شریک کھا گیا۔ لیکن دینار تقسیم ہونے لگے تو ہمیں برابر کا حصہ نہ ملا۔‘‘

عمرو بن معدی کرب خاموش ہوا تو بشر بن ربیعہ شعروں کی زبان میں گویا ہوا:

’’میں نے قادسیہ کے دروازے پرجا اپنی اونٹنی بٹھائی اور سعد بن ابی وقاص ہم پر امیر تھے……

اور سعد ایسے امیر ہیں جن کی بھلائی ان کی برائی سے سوا ہے اور عراق کے سب سے اچھے امیر جریر ہیں……

اﷲ تجھے نیکی دے ،تو قُدیس محل کے دروازے پر ہماری تلواروں کی کاٹ یاد کر۔جب ہجوم اتنا زیادہ تھا کہ اس میں سے نکلنے کی گنجائش نہیں تھی……

وہ ایسی خوفناک رات تھی جس میں سب چاہتے تھے کہ پرندوں سے پر لے لیں اور اڑ جائیں۔‘‘

سعد ؓبن ابی وقا ص نے ان کے الفاظ کورائیگاں نہ جانے دیا۔ انہوں نے اس روز حضرت عمرؓ کو قادسیہ کے حالات کی جو تفصیل لکھوا کر بھیجی اس کے ساتھ ابنِ معدی کرب اور بشر بن ربیعہ کے اشعار بھی لکھوائے اور اپنی سفارش ان الفاظ میں لکھوائی:

’’ان دونوں نے میدانِ جنگ میں اپنی بہادری کے کارنامے مجھے یاد دلائے جن میں ذرا سا بھی مبالغہ نہیں۔ انہوں نے مجھ پر طعن اور تشنیع کی ہے لیکن اس کا تعلق جہاد سے نہیں میری ذات سے ہے۔ میں امیر المومنین کا فیصلہ چاہتا ہوں کہ انہیں کچھ اضافی مال دیا جائے یا نہیں۔ ‘‘

یہاں دو مؤرخوں کے اختلاف کا ذکر ضروری ہے۔ بشر بن ربیعہ کا دوسرا شعر طبری نے یوں لکھا ہے:

’’اور سعد ایسے امیر ہیں جن کی بھلائی ان کی برائی کے سوا ہے……

اور عراق کے سب سے اچھے امیر جریر ہیں۔‘‘

بلا ذری نے لکھا ہے کہ بشر بن ربیعہ کا شعر یوں ہے:

’’اور سعد ایسے امیر ہیں جن کی برائی ان کی بھلائی کے سوا ہے……

وہ تکلیف دینے میں دراز قد ہیں اور ابو الزناد کی طرح کوتاہ قد ہیں۔‘‘

سعدؓ بن ابی وقاص کا قد چھوٹا تھا ۔انہوں نے حضرت عمرؓ کو لکھا تھا کہ انہوں نے مجھ پر طعن و تشنیع کی ہے ۔ا س سے بلاذری والا شعر صحیح معلوم ہو تا ہے۔ اس میں سعدؓ کے چھوٹے قد پر طنز کی گئی ہے۔

اپنے اسلاف کے کردار کی بلندی پر غور کیجئے۔ امیرِ لشکر پر طنز کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس شخص کو اضافی حصہ ا سلئے دینے سے انکار کرتا ہے کہ وہ اس کا حق دار نہیں۔ اس گستاخی کی سزا دینے کے اسے اختیارات حاصل ہیں لیکن وہ اپنی ذات کی توہین اور تعریف پر قوم کے مفاد کو ترجیح دیتا ہے اور اس لئے خود فیصلہ نہیں کرتا کہ اس سے بے انصافی نہ ہوجائے ۔وہ یہ بھی دیکھ رہا ہے کہ امیر المومنین ؓمالِ غنیمت کی تقسیم میں فیاضی برت رہے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ کچھ اور فیصلہ کریں۔

حضرت عمر ؓکو پیغام پہنچا تو انہوں نے مسجدِ نبوی ﷺمیں بیٹھ کر یہ مسئلہ اپنا مصاحبوں کے آگے رکھا۔

’’میرے عزیزو!‘‘حضرت عمرؓ نے کہا۔’’ میں ڈرتا ہوں اﷲ تبارک و تعالیٰ سے‘ جس نے ہمیں دیو جیسی ایک طاقت پر غلبہ عطا فرمایا ہے۔ اس فتح نے میری روح سے بہت بڑا بوجھ اٹھا دیا ہے۔ میرے اوپر اﷲ کے رسول ﷺکا ایک قرض تھا۔ ہمارے ان تھوڑے سے مجاہدین نے یہ قرض چکا دیا ہے۔ ‘‘

’’کیسا قرض امیر المومنین؟ ‘‘کسی نے پوچھا۔

’’خد اکی قسم!تم رسول)ﷺ(کی پیش گوئی بھولے نہیں ہوگے۔‘‘ حضرت عمرؓ نے کہا۔ ’’آپ)ﷺ(نے فرمایا تھا کہ سلطنتِ فارس اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوکر اُڑ جائے گی جس طرح کسریٰ پرویز نے میرا پیغام پھاڑ کر اس کے ٹکڑے اڑا دیئے ہیں۔ کیا مجاہدین نے اﷲ کے رسول)ﷺ(کی پیش گوئی پوری نہیں کردی؟‘‘

’’بے شک امیر المومنین‘ بے شک۔‘‘ کئی آوازیں اٹھیں۔

’’اور پھر میں نے تمہیں سعد کا ایک پیغام سنایا تھا۔‘‘ حضرت عمرؓ نے کہا ۔’’اس میں لکھا تھا کہ رستم نے مغیرہ بن شعبہ سے کہا تھا کہ میں عرب کو تباہ کر دوں گا۔ مغیرہ نے کہا کہ اﷲ نے چاہا تو ۔ رستم نے کہا کہ اﷲ نے نہ چاہا تو بھی ۔ کہاں ہے وہ رستم ؟ فارس کا سب سے زیادہ بہادر اور فارس کے بادشاہوں پر غالب رہنے و الا رستم جو فارس کا بے تاج بادشاہ سمجھا جاتا تھا ۔ ا س کی لاش کی ہڈیاں بھی دریا کے کنارے بکھر گئی ہوں گی۔ اس کا گوشت گیدڑ، بھیڑیئے اور گدھ کھا گئے ہوں گے ۔کیا اﷲ کی رضا کے خلاف چلنے والوں کا یہی انجام نہیں ہوتا؟‘‘

’’اور پھر میں نے تمہیں سعد کا ایک پیغام سنایا تھا۔‘‘ حضرت عمرؓ نے کہا ۔’’اس میں لکھا تھا کہ رستم نے مغیرہ بن شعبہ سے کہا تھا کہ میں عرب کو تباہ کر دوں گا۔ مغیرہ نے کہا کہ اﷲ نے چاہا تو ۔ رستم نے کہا کہ اﷲ نے نہ چاہا تو بھی ۔ کہاں ہے وہ رستم ؟ فارس کا سب سے زیادہ بہادر اور فارس کے بادشاہوں پر غالب رہنے و الا رستم جو فارس کا بے تاج بادشاہ سمجھا جاتا تھا ۔ ا س کی لاش کی ہڈیاں بھی دریا کے کنارے بکھر گئی ہوں گی۔ اس کا گوشت گیدڑ، بھیڑیئے اور گدھ کھا گئے ہوں گے ۔کیا اﷲ کی رضا کے خلاف چلنے والوں کا یہی انجام نہیں ہوتا

بے شک امیرالمومنین!‘‘سب نے کہا۔’’ ان کا انجام یہی ہوتا ہے۔‘‘

’’خدا کی قسم!‘‘حضرت عمرؓ نے کہا ۔’’یہ کارنامہ ہمارے مجاہدین کا ہے۔ انہوں نے اﷲ اور رسول)ﷺ(کی لاج رکھ لی ہے، اور کفار پر ثابت کر دیا ہے کہ اسلام سچا دین ہے۔ عمرو بن معدی کرب اور بشر بن ربیعہ انہی مجاہدین میں سے ہیں۔ مجھے مشورہ دو میرے عزیزوں‘ کیا میں سعد کو اجازت دے دوں کہ وہ ان دونوں کو کچھ فالتو رقم دے دے؟‘‘

’’ابنِ الخطاب!‘‘ایک ضعیف العمر صحابی ؓبولے ۔’’جہاں تو نے خمس بھی مجاہدین میں تقسیم کرا دیا۔ وہاں ان دونوں کو تھوڑا سا حصہ فالتو مل گیا تو اﷲ تجھ سے باز پرس نہیں کرے گا۔ یہ نہ دیکھ کہ انہوں نے فالتو حصہ کس طرح مانگا ہے ،یہ دیکھ کہ انہوں نے کیا کارنامہ کیا ہے۔‘‘ تفصیل سے پڑھئے

’’ہاں امیرالمومنین!‘‘ایک اور نے کہا۔’’ امیرِ لشکر کو اجازت دے دیں کہ انہیں کچھ دے دے۔ خدشہ صرف یہ ہے کہ فالتو حصہ طلب کرنے کا رواج ہی نہ شروع ہو جائے۔ حکم دے دیں کہ آئندہ کسی کو کسی بھی حالت میں فالتو حصہ نہیں ملے گا۔‘‘

مسجد میں جتنے لوگ موجود تھے، ان کی اکثریت نے یہ رائے دی کہ ان دونوں مجاہدین کو فالتو حصہ دے دیا جائے۔

حضرت عمرؓ نے وہیں بیٹھے بیٹھے سعد ؓبن ابی وقاص کے پیغام کا جواب لکھوایا۔ دیگر ہدایات کے بعد انہوں نے لکھوایا کہ عمرو بن معدہ کرب اور بشر بن ربیعہ کو دودو ہزار درہم فالتو دے دیئے جائیں،اور سب سے کہہ دیا جائے کہ آئندہ ایسی کوئی مثال سامنے نہ آئے کہ زیادہ مانگنے کی عادت دل میں دنیا کی محبت پیدا کر دے گی۔

حضرت عمرؓ کے اجازت نامے میں ایک جملہ یہ تھا:

’’ان کی سرفروشی کی قیمت انہیں دے دی جائے۔‘‘

یہ پیغام قادسیہ پہنچا تو سعد ؓبن ابی وقاص نے دونوں مجاہدین کو تمام لشکر کے سامنے دو دو ہزار درہم دے کر امیر المومنینؓ کا یہ پیغام سنایا کہ آئندہ ایسی کوئی مثال سامنے نہ آئے۔

مؤرخ لکھتے ہیں کہ امیر المومنینؓ کا پیغام سن کر مجاہدین میں کئی آوازیں سنائی دیں:

’’خدا کی قسم، ہم میں دنیاوی لالچ والا کوئی نہیں۔‘‘

’’ہمارا انعام فتح ہے جو اﷲ دیتا ہے۔‘‘

’’خدا کی قسم، ہم مانگیں گے نہیں ،ہمیں اﷲ دے گا۔‘‘

’’واﷲ‘ ہم پورا فارس انعام میں لیں گے۔‘‘

مجاہدین کے یہ نعرے بے جان اور کھوکھلے الفاظ نہیں تھے۔ یہ ان کا کردار تھا۔ وہ اسی کو ایمان کہتے تھے۔ مبصرین اوروقائع نگاروں نے لکھا ہے کہ ان فاتح مجاہدین کے لشکر میں وہ لوگ بھی تھے جو رسولِ کریمﷺ کے وصال کے بعد مرتد ہو گئے تھے اور ان کے خلاف باقاعدہ جنگ کرنی پڑی تھی۔ ان کی تعداد مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہو گئی تھی۔ ان میں ایک سے ایک بڑھ کر بہادر موجود تھے ۔مگر انہوں نے ہر میدان میں شکست کھائی۔

طلیحہ بن خویلد، عمرو بن معدی کرب، اور اشعث بن قیس فتنۂ ارتداد کے دست بازو تھے اور یہ بڑے مضبوط دستِ بازو تھے۔ یہ سب دعویٰ کرتے تھے کہ اسلام کا خاتمہ کرکے دم لیں گے مگر مٹھی بھر مسلمانوں کے ہاتھوں پٹ گئے اور ارتداد کاجو طوفان اٹھا تھا ،وہ ہمیشہ کیلئے دم توڑ گیا۔

طلیحہ نے تو نبوت کا دعویٰ کیاتھا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں پیروکار پیدا کر لیے تھے ۔طلیحہ قوی الجثہ آدمی تھا اور بہت ہی بہادر۔ لوگ اس کے گرویدہ بھی تھے ، اور اس سے ڈرتے بھی تھے۔ لیکن وہ مسلمانوں سے اپنی نبوت کو نہ بچا سکا تھا۔

اسی طلیحہ بن خویلد نے اسی عمرو بن معدی کرب نے اور اسی اشعث بن قیس نے مسلمانوں سے شکست کھا کر ارتداد سے توبہ کی اور از سر نو اسلام قبول کیا اور حق کی تلوار لے کر باطل کے خلاف نکلے تو ان کی بہادری کی داستانیں آج تک تاریخ سنا رہی ہے اور رہتی دنیا تک سناتی رہے گی۔ ایسا کیونکر ممکن ہوا؟صرف اس لیے کہ یہ سب قوی الجثہ تو تھے لیکن ضعیف الایمان تھے۔ جب اسلام کی قوت سے مالامال ہو ئے تو فارس کی ہیبت ناک جنگی طاقت کو ریزہ ریزہ کر کے بکھیر دیا۔

مؤرخوں کے غزوۂ خیبر کے بعد جس جنگ کو باقی تمام جنگوں سے زیادہ اہمیت دی ہے وہ جنگِ قادسیہ ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں ۔اس جنگ نے مسلمانوں کیلئے ایوانِ کسریٰ کے دروازے کھول دیئے تھے۔ قادسیہ فارس کا)جو ایران بھی کہلاتا تھا(دروازہ تھا۔ فارسیوں نے اس دروازے کو ایک لاکھ بیس ہزار فوج سے جس میں زیادہ تعداد گھوڑسواروں کی تھی بند کر دیاتھا۔ مسلمانوں کو کچلنے کیلئے فارسی تمام جنگی ہاتھی میدان میں لے آئے تھے۔

جنگی طاقت کے علاوہ فارسیوں کو یہ سہولت بھی حاصل تھی کہ یہ ان کا اپنا ملک تھا اس لیے انہیں رسد اور افرادی قوت فوراً مل جاتی تھی۔ اس زمین پر فارس کے فوجی اجنبی نہیں تھے ۔اجنبی تھے تو مسلمان تھے ۔وہاں کی زمین ان کی دشمن ، وہاں کے لوگ ان کے دشمن، وہاں کا پتّا پتّا ، پتھر پتھر ان کا دشمن تھا۔ مسلمان اپنے وطن سے آٹھ سو میل دور تھے۔

فارس کے مؤرخوں نے بھی جنگِ قادسیہ کو تفصیل سے اور خصوصی اہمیت دے کر بیان کیاہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ مسلمان ایک اﷲ اور ایک رسولﷺ کے تابع ہو کر ایک جماعت یا ایک امت بن گئے تھے۔ انہوں نے ایک عقیدے کی خاطر جنگ لڑی۔ اس عقیدے نے مسلمانوں میں ایسا جذبہ پیدا کر دیا تھا کہ انہوں نے بہادری کے ماوراء العقل کارنامے کر دکھا ئے اور چار روز مسلسل آرام کیے بغیر لڑے۔ ان کے مقابلے میں فارس کی فوج کے دستے باری باری آرام کر لیتے تھے۔

یہ تو بعد کی باتیں ہیں جو مبصروں اور مؤرخوں نے لکھیں ۔ہم واپس قادسیہ کے میدان میں چلتے ہیں ۔فارس کی فوج کی جو نفری بچ کر نکل گئی ، اس کا رخ مدائن کی طرف تھا۔ سعدؓ بن وقاص نے حکم دے دیا تھا کہ فارسیوں کاتعاقب کیا جائے۔

حضرت عمرؓ نے فتح کی خبر ملنے پر سعد ؓکو لکھا تھا کہ ان کے اگلے حکم تک وہ قادسیہ میں ہی رکے رہیں۔

جس طرح حضرت عمرؓ قادسیہ کی تازہ خبر کے انتظار میں مدینہ سے باہر قادسیہ کے راستے پر چلا جایا کرتے تھے۔ ایسی ہی بیتابی سے یزدگرد مدائن کی شہرِ پناہ کر جا کھڑا ہوتا اور قادسیہ کی طرف سے آنے والے راستے کو دیکھتارہتا تھا۔اس کی ماں نورین بھی اس کے پاس جا کھڑی ہوتی تھی۔

اُس روز وہ اپنے خاص کمرے میں بیٹھا ہوا تھا، جس روز قادسیہ سے آخری قاصد اس کے محل میں آکر گھوڑے سے اُترا۔ وہی حسین و جمیل لڑکی اس کے پاس تھی، جس کی بہن میدانِ جنگ میں رستم کے ساتھ تھی۔اس روز یزدگرد کچھ زیادہ ہی بے چینی اور بے تابی محسوس کر رہا تھا۔ لڑکی اس کا دل بہلانے کیلئے بڑے ہی حسین اور طلسماتی جتن کر رہی تھی لیکن یزدگرد اس روز شراب بھی قبول نہیں کر رہا تھا۔ اگر وہ شراب کے چند گھونٹ پی لیتا تو اس کی بیتابی اور یہ ہیجانی کیفیت ختم ہو جاتی ۔لڑکی نے شراب میں وہ دوائی ملا رکھی تھی جو اس کے جوش و خروش پرقابو پا لیا کرتی تھی۔

اُس وقت قادسیہ کا قاصد اس کے دروازے پر پہنچ چکا تھا اور دربان سے کہہ رہا تھا کہ یہ پیغام وہ شہنشاہ کو دے دے کیونکہ پیغام اچھا نہیں ۔دربان نے اسے کہا کہ قاصد کو تو شہنشاہ ضرور بلائے گا۔ دربان کے پوچھنے پر قاصد نے بتا دیا کہ اپنی فوج نے بہت ہی بری شکست کھائی ہے اور رستم مارا گیا ہے۔

’’بیوقوف نہ بنو!‘‘دربان نے کہا۔’’ ایسا کبھی ہوا نہیں کہ پیغام میں شہنشاہ تک پہنچاؤں اور قاصد باہر سے ہی چلا جائے ۔میں تمہارے آنے کی اطلاع دے دیتا ہوں۔‘‘

یزدگرد اور رستم نے پیغام رسانی کا یہ انتظا م کیا تھا کہ میدانِ جنگ سے مدائن تک اتنے اتنے فاصلے پر آدمی کھڑے کر دیئے تھے جتنے فاصلے پر کوئی بلند آواز سے بولے تو اس کی آواز سنی جا سکتی ہے۔ فارس کی فوج بھاگی تو پیغام رسانی کا نظام برباد ہو گیا۔ پیغام رسانی جن آدمیوں کے ذریعے ہوتی تھی انہوں نے اپنی فوج کو بھاگتے اور بکھرتے دیکھا تو میدانِ جنگ کے قریب جو پیغام رساں تھے وہ بھاگ گئے تھے۔ یہ جو قاصد آیا تھا اسے جالینوس نے بھیجا تھا اور اس قاصد کے سامنے جالینوس مارا گیا تھا۔

دربان یزدگرد کے کمرے میں داخل ہوا۔

’’قادسیہ سے کوئی آیا ہے؟‘‘ یزدگرد نے پوچھا۔

’’ہاں شہنشاہِ فارس!‘‘دربان نے اداس اور مایوس سے لہجے میں جواب دیا۔’’ وہ اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے۔‘‘

’’کیا غم کھا رہا ہے تمہیں؟‘‘یزد گرد نے اس کے چہرے کے تاثرات کو دیکھ کر پوچھا۔’’ کیا قاصد نے کوئی بری خبر سنائی ہے؟‘‘

’’میں اسے اندر بھیج دیتا ہوں۔‘‘ دربا ن نے کہا۔

’’فوراً بھیجو۔‘‘

٭

’’تمہارا چہرہ بتا رہا ہے کہ تم اچھی خبر نہیں لائے۔‘‘ قاصد اندر گیا تو یزدگرد نے لڑکی کو اپنے سے الگ کرتے ہوئے کہا۔

’’میں کسی کا بھیجا ہوا قاصد نہیں ہوں شہنشاہِ معظّم!‘‘قاصد نے کہا ۔’’میں اپنا فرض سمجھ کر آیا ہوں۔‘‘

’’کیا تمہیں رستم نے نہیں بھیجا؟‘‘

’’نہیں شہنشاہِ معظّم!‘‘قاصد نے جواب دیا۔’’ رستم مارا گیا ہے۔ میں خود اس کی سر کٹی لاش دریا کے کنارے پڑی دیکھ کر آیاہوں۔‘‘

’’نہیں!‘‘یزدگرد بِدک کر اٹھ کھڑا ہوا اور ہڑبڑا کر بولا۔’’ رستم نہیں رہا تو……‘‘

’’جالینوس بھی نہیں رہا شہنشاہ! ‘‘قاصد نے کہا۔’’ وہ اپنی بھاگتی ہوئی فوج کے ساتھ مارا گیا ہے۔‘‘

’’اور فیروزان؟‘‘

’’لاپتا ہے۔‘‘ قاصد نے جوا ب دیا۔’’ بھاگ گیا ہے۔‘‘

’’اور ہرمزان؟‘‘

’’وہ بھی بھاگ نکلا ہے۔‘‘ قاصد نے کہا۔’’ وہاں اب کچھ نہیں رہا شہنشاہِ معظّم!قادسیہ کے میدان میں ہماری لاشوں کے سوا اور کچھ بھی نہیں رہا۔ فارس کی عزت و وقار ……درفش کاویانی……بھی مسلمان لے گئے ہیں۔ میں معمولی سا عہدیدار ہوں۔ میں اپنا فرض سمجھ کر آیا ہوں کہ آپ کو خبردار کروں کہ مسلمان ہماری بھاگتی ہوئی فوج کے تعاقب میں آرہے ہیں۔ مدائن کو بچائیں۔ ہماری فوج ایسی بکھری ہے کہ اسے کہیں بھی اکٹھا نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

اس دوران جو لڑکی یزدگرد کے پاس تھی کمرے سے نکل گئی ۔قاصد یزدگرد کو آخری دن کی تفصیلات سنا رہا تھا۔ یزدگرد بیٹھ گیا تھا اور آنکھیں پھاڑے یوں اس عہدیدار کو دیکھ رہا تھا جیسے اسے سکتہ ہو گیا ہو۔

اتنے میں یزدگرد کی ماں دوڑتی ہوئی اس لڑکی کے ساتھ کمرے میں داخل ہو ئی، اور یزدگرد کے پاس بیٹھ کر اسے اپنے بازوؤں میں لے لیا جیسے وہ بچّہ ہو۔

’’کیا ہو گیا یزدی!‘‘ماں نے کہا۔

’’جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘‘ یزدگرد بم کی طرح پھٹا۔’’ اور اس کی ذمہ دار تم ہو…… تم……تم جو میری ماں ہو۔ مجھے رستم کے ساتھ ہونا چاہیے تھا ۔تم نے مجھے مامتا کی زنجیروں میں باندھے رکھا۔‘‘

وہ غصے سے باؤلا ہوئے جا رہا تھا۔ لڑکی اس خیال سے آگے ہوئی کہ یزدگرد پر اسے غلبہ حاصل ہے ۔اس نے شراب کا وہ پیالہ جس میں اس نے ذہن کو بے حس کرنے والی دوائی ملائی ہوئی تھی، اٹھا کر یزدگرد کے آگے کیا۔

’’یہ ساری مصیبت جرنیلوں کی بزدلی کی وجہ سے آئی ہے۔‘‘ لڑکی نے جذباتی لہجے میں پیار سے کہا۔’’ اور اس کا سارا بوجھ اکیلے شہنشاہ پر آپڑا ہے ۔‘‘اس نے شراب کا پیالہ یزدگرد کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔ ’’دو گھونٹ پی لیں‘ غصہ ذرا ٹھنڈا ہو جائے گا ۔آپ کیلئے ایسی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے جس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔ مسلمان کوئی جن بھوت تو نہیں۔‘‘

‘‘

آپ کیلئے ایسی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے جس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔ مسلمان کوئی جن بھوت تو نہیں۔‘‘

یزدگرد نے پیالہ ہاتھ میں لے لیا۔ یہ خالص سونے کا وزنی پیالہ تھا۔ اس میں چھوٹے چھوٹے ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ یزدگرد نے پیالے کو دیکھا پھر لڑکی کے حسین چہرے کو دیکھا، جیسے پیالے کی دل کشی اور لڑکی کے حسن کا موازنہ کر رہا ہو۔ اچانک اس نے پیالہ اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر اپنے سر سے اوپر کیا اور پوری طاقت صرف کر کے پیالہ لڑکی کے سر پر مارا۔ ایک یہ پیالہ وزنی دوسرے جوان آدمی کی طاقت، لڑکی کا سر ڈولا، پھر اس کی ٹانگیں دوہری ہوئیں اور وہ ایک پہلو پر گر پڑی۔ اس کے سر سے خون نکل نکل کر ا س کے ریشم جیسے ملائم بالوں میں سے فرش پر ٹپکنے کا راستہ بنانے لگا۔‘‘

’’ہوش میں آیزدی!‘‘نورین نے اٹھ کر اپنے بیٹے کو کندھوں سے پکڑااور اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔’’ اس بے چاری کو پیار کا یہ صلہ دیا ہے!‘‘

’’تمہیں بھی یہی صلہ ملنا چاہیے ماں!‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ تم خوش قسمت ہو کہ میری ماں ہو۔ اس وقت مجھے بیدار ہو نا چاہیے اور یہ لڑکی مجھے شراب پلا رہی ہے۔ حرم میں میرے لیے لڑکیوں کی کمی نہیں لیکن تم میرے لیے اس لڑکی کو خاص طور پر لائی تھیں۔ یہ راز مجھ پر آج کھلا ہے کہ تم نے اس لڑکی کو مجھ پر نشے کی طرح غالب آنے کا سبق پڑھایا تھا ۔تم اس کوشش میں تھیں کہ میں اس محل میں قیدی بنا رہوں اور محاذ پر نہ جاؤں۔‘‘

یزدگرد نے دیکھا کہ پیغام لانے والا فوجی وہیں کھڑا ہے۔

’’تم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔‘‘ یزدگرد نے اسے کہا۔’’ اس لڑکی کو پاؤں سے پکڑو اور گھسیٹ کر باہر پھینک دو ۔کسی کو بتا دینا کہ ہوش میں آئے تو اپنے گھر چلی جائے۔ مرتی ہے تو اس کی لاش اس کے ماں باپ کے حوالے کر دینا۔‘‘

’’اتنا بے رحم نہ بن یزدی!‘‘نورین نے کہا۔’’ اس عظیم سلطنت کو اس کے بادشاہوں اور جرنیلوں کے گناہ کھا گئے ہیں۔ اس سلطنت نے ایک نہ ایک دن تو ڈوبنا ہے ۔میں تجھے ڈوبتے نہیں دیکھ سکتی۔‘‘

’’مت بھولو ماں!‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ مت بھولو کہ لوگ مجھے تمہاری قید سے نکال کر کیوں مدائن لائے تھے……کسریٰ کی اس عظیم سلطنت کی عظمت کو بحال کرنے کیلئے……میں جانتا ہوں کہ تم کیا چاہتی ہو۔ تم مجھے پھر اسی قید میں ڈالنا چاہتی ہو،جس میں میری عمر کے سولہ سترہ سال گزر گئے تھے۔ لیکن میں نہیں چاہتا کہ تاریخ ساری دنیا کو ہمیشہ یہ سناتی رہے کہ فارس کی فوج کو شکست ہوئی تو یزدگرد ماں کے ساتھ بھاگ کر کسی گمنام گوشے میں جا چھپا تھا ……میں مرد ہوں ماں!اب میرے راستے میں نہ آنا۔ مدائن کو بچانا میری ذمہ داری ہے۔‘‘

یزدگرد نے اپنی ماں کو رعایا کی ایک عام عورت کی حیثیت دے کر حکم دے دیا کہ وہ اپنے کمرے میں بند ہو جائے۔

اس ایک فوجی عہدیدار کے پیچھے کئی اور فوجی جو قادسیہ سے بھاگے تھے اور گھوڑ سوار تھے مدائن میں داخل ہوئے ۔ان میں کئی زخمی تھے۔ وہ دہشت زدگی کے انداز میں مدائن کو لوگوں کو بتاتے آرہے تھے:

’’سب کٹ گئے……کوئی نہیں بچا۔‘‘

’’رستم مارا گیا۔ بہمن جادویہ مارا گیا۔ جالینوس مارا گیا۔‘‘

’’باقی سب جرنیل بھاگ گئے۔‘‘

’’عربی انسان نہیں وحشی درندے ہیں۔‘‘

’’ہزاروں ساتھی ڈوب گئے۔‘‘

’’اپنا بندوبست کر لو۔ وہ اِدھر آرہے ہیں۔‘‘

’’اپنا مال و دولت چھپا لو۔‘‘

وہ غلط تو نہیں کہہ رہے تھے۔ لیکن ان کا انداز ایسا تھا جیسے مسلمان واقعی خونخوار درندے ہوں اور انہوں نے ان فارسیوں پر بے خبری میں ساری فوج کو چیر پھاڑ دیا ہو۔ یہ شکست خوردہ سپاہی اپنے آپ کو بیگناہ ثابت کرنے کیلئے مظلومیت کا اظہار کر رہے تھے۔

شکست کی خبر سارے شہر میں پھیل گئی ۔لوگوں پر خوف طاری ہوتا چلا گیا۔ جن لوگوں کے گھروں میں سونا چاندی اور ہیرے جواہرات تھے اور جن کی بیٹیاں جوان تھیں، انہو ں نے مال و متاع اور بیٹیوں کو لے کر شہر سے نکل جانے کی تیاریاں شروع کر دیں۔

شہر کے چند ایک معززین شاہی محل کے سامنے جا پہنچے۔ انہیں دیکھ کر شہر کے باقی لوگ بھی وہاں جمع ہو نے لگے ۔ان سب نے نعرے لگانے شروع کر دیئے کہ انہیں یقین دلایا جائے کہ مدائن میں ان کے تحفظ کا انتظام موجود ہے۔

یزدگرد کو اطلاع ملی تو وہ باہر آگیا۔ معززین نے لوگوں کو خاموش کرایا اور یزدگرد کے ساتھ بات چیت کی۔

’’تمہیں کس نے بتایا کہ ہماری فوج کو شکست ہوئی ہے؟ ‘‘یزدگرد نے پوچھا۔

اسے بتایا گیا کہ اپنے کچھ فوجی آئے ہیں جن میں بعض زخمی بھی ہیں ۔معززین نے یزدگرد کو یہ بھی بتایا کہ ان فوجیوں نے کیسی کیسی باتیں سنا کر لوگوں کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے۔

یزدگرد نے حکم دے دیا کہ ان فوجیوں کو گرفتار کر کے قید خانے میں بند کر دیا جائے اور جو فوجی قادسیہ سے بھاگ کر مدائن آئیں، انہیں باہر روک کر یہ حکم سنایا جائے کہ شہر کے لوگوں کو قادسیہ کی کوئی بات نہ سنائی جائے اور شہر میں خوف و ہراس پھیلانے والوں کو سزا ئے قید دی جائے گی۔

’’……اور اے شہر کے لوگو!‘‘یزد گرد نے لوگوں سے خطاب کیا۔’’ کیا ان عربوں کو شکست دینے کا یہ طریقہ ہے کہ تم شہر چھوڑ کر بھاگ جاؤ ؟……جاؤ گے کہاں؟ جہاں جاؤ گے دشمن وہاں تک پہنچ جائے گا۔ تعاقب اسی کا کیا جاتا ہے جو بھاگتا ہے اور جو مقابلے میں سینہ سپر ہو جاتے ہیں وہ دشمن کو نہ صرف روک لیتے ہیں بلکہ اسے بھگا بھی دیا کرتے ہیں اور اس کاتعاقب کیاکرتے ہیں اور اسے اپنی سر زمین سے نکال کر دم لیا کرتے ہیں……‘‘

’’زرتشت کی قسم!عربوں کو تم بھگاؤ گے ۔وہ میدانِ جنگ ہے جس میں فتح بھی ہو سکتی ہے اور شکست بھی ،لیکن جنگ کا فیصلہ شہروں میں ہوا کرتا ہے اور کوئی محاصرے کی کامیابی کے بغیر فتح نہیں ہوا کرتا۔تم یہاں سے بھاگنے کے بجائے دشمن کے مقابلے کی تیاری کرو۔ میں تمہیں یہ بھی یقین دلاتا ہوں کہ عربی لشکر مدائن تک نہیں پہنچ سکے گا۔ وہ ابھی تک قادسیہ میں ہے۔ مدائن تک کئی جگہوں پر ہماری فوج موجود ہے۔ رستے میں دجلہ ہے۔ اگر دشمن دجلہ تک پہنچ بھی گیا تو دجلہ کے پُل توڑ دیں گے۔ وہاں ایک بھی کشتی نہیں چھوڑیں گے ۔عربی دریا عبور کریں گے ہی کس طرح؟……جاؤ، اپنے گھروں کو چلے جاؤ اور جنگ کی تیاری کرو۔ باقی انتظام مجھ پر چھوڑو۔‘‘

٭

یزدگرد نے مدائن کے لوگوں کو خوب گرمایا اور ان کے دلوں سے مسلمانوں کا خوف بہت حد تک اتار دیا۔ اس نے ایسے الفاظ استعمال کیے تھے کہ وہی لوگ جو ڈرے ڈرے سے اس کے پاس آئے تھے، وہ جوش و خروش سے نعرے لگاتے ہوئے چلے گئے۔

یزدگرد واپس محل میں جا رہا تھا تو پوران آگئی ۔پہلے بیان ہو چکا ہے کہ پوران فارس کی ملکہ تھی، لیکن اسے ہٹا کر یزدگرد کو تخت پر بٹھایا گیا تھا ۔پوران کے متعلق جو تفصیلات پہلے بیان ہو چکی ہیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ وہ تخت و تاج میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتی تھی جتنی دلچسپی اسے فارس کے دفاع سے تھی۔ اسے اطلاع ملی کہ فارس کی فوج نے قادسیہ میں بہت بری شکست کھائی ہے اور تمام جرنیل میدان چھوڑ گئے ہیں اور کچھ مارے گئے ہیں۔ تو وہ یزدگرد کے پاس دوڑی آئی۔

یزدگرد عمر میں اس سے بہت چھوٹا تھا اور اس کا سوتیلا بھائی تھا۔ اس کے علاوہ پوران میں وہی قومی جذبہ تھا جو یزدگرد میں تھا۔ پوران نے یزدگرد کو اپنے بازوؤں میں لے کر گلے سے لگالیا۔یزدگرد پر جذباتیت کا ایسا غلبہ طاری ہوا کہ اس کے آنسو نکل آئے۔

’’مرد بنو یزدی!‘‘پوران نے یزدگرد سے کہا۔’’ نہ فتح سے اتنا خوش ہونا چاہیے نا شکست سے اتنا دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت ہے۔ تم اکیلے تو نہیں، ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘

’’لیکن ہمارے پاس رہ ہی کیا گیا ہے؟‘‘یزدگرد نے کہا۔ ’’جس قدر فوج اکٹھی ہو سکی وہ کر کے میں نے آگے بھیج دی تھی۔ مجھے پریشانی ہے تو صرف یہ ہے اتنی بڑی اور اتنے اچھے ہتھیاروں والی فوج صرف چالیس آدمیوں کی فوج سے شکست کس طرح کھا گئی؟‘‘

’’یہ مت سوچو ۔‘‘پوران نے کہا۔’’ اس شکست کی ذمہ داری رستم پر عائد ہو تی ہے۔ کیا تمہیں یاد نہیں کہ رستم کتنا عرصہ آگے جانے سے گریز کرتا رہا ہے ؟ یہ تم تھے جس نے اسے کچھ ڈرا دھمکا کر اور کچھ بہلا ورغلا کر میدانِ جنگ میں جانے کیلئے تیار کیا تھا۔‘‘

وہ دونوں آہستہ آہستہ چلتے محل میں داخل ہو گئے۔ یزدگرد پوران کو اپنے کمرے میں لے گیا ۔نورین وہاں پہلے سے موجود تھی۔

’’پوران!‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ میری ماں کو سنبھالو اور اسے سمجھاؤ کہ کہ میں اس تخت پر بیٹھ کر اور فارس کا تاج اپنے سر پر رکھ کر تمہارا بیٹا نہیں رہا۔ اب میں فارس کا فرزند ہوں۔ میرے خون کا ایک ایک قطرہ فارس کی آبرو کیلئے وقف ہو گیا ہے۔ میں فارس کے پہلے بادشاہوں کی طرح اپنے حریفوں کو قتل کرکے اس تخت پر قابض نہیں ہوا۔ مجھے رعایا لائی ہے اور رعایا نے میرے ساتھ کچھ توقعات وابستہ کی ہیں۔‘‘

’’ان باتوں کو الگ رکھو یزدری!‘‘پوران نے کہا۔’’ اور یہ مجھ پر چھوڑو۔ اس وقت سوچنے والی باتیں کچھ اور ہیں۔ تم جانتے ہو کہ میرا دو ہزار گھوڑ سواروں کا رسالہ ساباط میں ہے اور تمہیں یہ بھی معلوم ہو گا کہ یہ رسالہ ابھی تک لڑائی میں شامل نہیں ہوا۔ میں اب اس رسالے کو مسلمانوں کے مقابلے میں استعمال کروں گی لیکن مسلمانوں کو آگے آنے دو۔ انہوں نے ساباط کے راستے سے ہی آنا ہے۔ میں اپنے رسالے کو ہدایات بھجوادوں گی کہ مسلمانوں کو کہاں اور کس طرح روکنا ہے۔

پوران نے جن دو گھوڑ سواروں کا ذکر کیا تھا، یہ ایک خاص رسالہ تھا ۔جس میں فوج کے منتخب اور جانباز قسم کے سوار شامل کیے جاتے تھے۔ اس رسالے کے ایک ساتھ ایک پالتو شیر بھی تھا جو اپنے مالکوں کے ساتھ تو مانوس تھا لیکن دشمن کیلئے وہ ویسا ہی تھا جیسے جنگل کے شیر ہوتے ہیں ۔اسے دشمن پر جھپٹنے کی تربیت خاص طور پر دی گئی تھی۔

Previous Post Next Post