اپنے آپ کو ماحول کے مطابق ڈھالیے Apne Aap Ko Mahool Ke Mutabiq Dhaliye

 اپنے آپ کو ماحول کے مطابق ڈھالیے:

اپنے اندر لچک پیدا کیجئے اور اپنے آپ کو ماحول کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کیجئے! یہ دنیا عالم فانی ہے‘ چند روزہ زندگی ہے۔ یہاں کی ہر چیز تغیر پذیر ہے۔ جس نے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق  اصول کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے آپ کو ڈھالنا اور ہم آہنگ کرنا نہ سیکھا اس کے لیے خوشی اور مسرت کا تصور کرنا بھی محال ہے۔

زندگی میں دو اصولوں کو مد نظر رکھئے:

(۱) لچک اور عاجزی و انکساری

(۲) اپنے آپ کو ماحول کے مطابق ڈھالنا

سو فیصد کامیابی کی ضمانت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔

شادی کے بعد آپ نے ایک نئی زندگی کا آغاز ایک نئے ماحول میں آ کر کیا ہے۔ یہاں مختلف افراد سے آپ کو واسطہ پڑ رہا ہے جن میں سے سب سے زیادہ اہم آپ کا خاوند ہے۔

ہر انسان کی مخصوص عادات و اطوار ہوتے ہیں۔ یقینا آپ کی عادات آپ کے خاوند کی عادات سے بہت یا کم …مختلف ہوں گی۔ لیکن اختلاف ضرور ہو گا۔

آپ اگر انکساری اور لچک کا مظاہرہ کریں اور اپنے مزاج کو ان کے مزاج کے تابع کر دیں تو کیا حرج؟

آپ اپنی پسند کو ان کی پسند پر قربان کر دیں‘ آپ کے من میں کوئی خواہش انگڑائی لے رہی ہے‘ لیکن آپ کے خاوند کو وہ ناپسند ہے‘ اسے وہیں ختم کر دیجئے‘ بس ان کی مان لیجئے!

ابتدائی زمانے میں ہو سکتا ہے کہ آپ کو اپنے آپ کو نئے ماحول کے مطابق ڈھالنے میں کئی طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے‘ لیکن اگر سعی و پیہم شامل حال رہی تو رفتہ رفتہ آپ دونوں کا مزاج یکساں ہو جائے گا۔

مزاجوں کی یکسانیت آپ کے لیے زندگی بھر مفید رہے گی۔ زندگی کا لطف یہی چیز دوبالا کر دے گی۔

لیکن اگر مزاجوں میں ٹکڑاؤ ہوتا رہا‘ کسی طرف سے بھی لچک کا مظاہرہ نہ ہوا تو یاد رکھیئے! پانی کا قطرہ قطرہ بھی اگر کسی سخت پتھر پر گرتا رہے تو اس پر نشان ڈال دیتا ہے۔

غصہ پی جایئے:

زندگی میں سینکڑوں مواقع ایسے آتے ہیں کہ جہاں کامل انسان اپنے غصے پر قابو پا لیتا ہے۔ لیکن بسا اوقات انسان اس قدر مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ غصے میں کچھ سے کچھ کر گزرتا ہے‘ اور یہی لمحات اس کے لیے خطرناک ثابت ہو جاتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو غصہ کیوں آتا ہے؟

جب انسان کے مزاج کے خلاف کوئی کام ہو تو انسان کی خودی اس کے جذبات کو بھڑکاتی ہے‘ اس کی آنکھوں کے ڈورے سرخ ہو جاتے ہیں‘ رگیں پھولنے لگتی ہیں‘ منہ سے جھاگ بہنے لگتی ہے‘ وجود پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے‘ انسان کی اپنی زبان ہی اس کے قابو میں نہیں رہتی‘ کیونکہ اسے غصہ آ رہا ہوتا ہے۔

انسان کو یہ خیال لاحق ہو جاتا ہے کہ اس نے میری توہین کی! بھری مجلس میں مجھے رسوا کر دیا‘ بس یہ خودی جب انگڑائی لیتی ہے تو انسان کو انسانوں کی صف سے باہر لا کھڑا کرتی ہے۔

بھلا کیا …انسان لمحہ بھر کے لیے اپنی اس خودی کو مار نہیں سکتا‘ کیا اس بے جا تکبر و نخوت کو چند لمحوں کے لیے مٹایا نہیں جا سکتا۔

زندگی بھر کے عیش و آرام کو چند لمحوں کے جذباتی تقابل کی نظر کر دیاجاتا ہے۔ لیکن انسان پھر بھی نہیں سوچتا۔

جذبات کا ریلا آتا ہے اور اس کی زندگی کو مفلوج کر جاتا ہے۔ حالانکہ اس ریلے کا سب سے بڑا معاون خود انسان کی اپنی ذات ہوتی ہے۔

ذرا تصور کیجئے! اگر آپ لمحہ بھر کے لیے اپنے غصے کو پی جاتی ہیں تو آپ کو معلوم ہے کہ قرآن آپ کو اس کا کیا صلہ ملنے کا وعدہ سناتا ہے؟نہیں تو سنیے:

رب کی مغفرت اور آسمانوں و زمینوں کی وسعت کے برابر جنت کا پروانہ۔ اس سب سے بڑھ کر …آپ سے اپنی محبت کا اعلان کرتا ہے۔

ذرا سوچیے تو سہی! کیا گھاٹے کا سودا ہے؟!


Post a Comment

Previous Post Next Post