اپنی ذات پر اعتماد کیجئے Apni Zaat Par Etimaad Kijiye

 اپنی ذات پر اعتماد کیجئے:

ڈورتھی کارینگی نے اپنی کتاب ’’سدا جوان رہیئے‘‘ میں بڑے کام کی باتیں کہی ہیں۔ اس کا کہنا ہے دنیا کا ہر شخص اپنے خیالات ‘نظریات‘ ذہانت‘ قابلیت اور صلاحیتوں کے اعتبار سے دوسروں سے مختلف واقع ہواہے۔ ان کے دل و دماغ جس انداز میں سوچتے اور عمل کرتے ہیں ان کی شخصیت اور کردار اسی روشنی میں پروان چڑھتا اور نشونما پاتاہے ۔ کردار کی صحیح تعمیر اور اپنی ذات پر اعتماد بحال رکھنے کے لئے دو تین باتیں نہایت ضروری ہیں:

اول :روزانہ تنہائی کے چند لمحے نکال کر اپنی صلاحیتوں اور     کار کردگی کا بغور جائزہ لیں ۔

دوم :بری عادتوں کے خلاف قوت ارادی کا مضبوط حصار قائم کریں اور ان کی سرکوبی کے لئے اپنی پوری قوت اور ذہنی وسائل بروئے کار لائیں۔ 

سوم: زندگی کی گہما گہمی اور کاروبار حیات میں پورے جوش و خروش اور سرگرمی سے حصہ لینے کا مظاہرہ کریں۔

مشہور ماہر نفسیات ایلفرڈایڈلر کی حالیہ تحقیقات سے یہ بات اب پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جن لوگوں کو اعصابی امراض کی شکایت لاحق ہوتی ہے‘ ان میں سے اکثر اپنی ذات پر اعتماد سے محروم ہوتے ہیں ۔

ایک بار اگر انسان اس دولت سے محروم ہوجائے تو پھر اس کی بازیافت بڑی دشوارہوتی ہے۔ساری عمر دوسروں کی مدد اور سہاروں کا محتاج ہوکر زندگی بسر کرنی پڑتی ہے۔

مختلف ماہرین نفسیات نے ایسے لوگوں کی مدد اور رہنمائی کے لئے چند عملی تجاویز پیش کی ہیں ، ان پر عمل پیراہوکربے شمار افراد اپنی ناکام زندگی کی کایا پلٹ چکے ہیں۔ذرا سی کوشش اور محنت کرکے دوسرے لوگ بھی ان کی بدولت اپنی زندگی کی کھوئی ہوئی بہاریں دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔

مخلوق خدا سے محبت کیجئے:

محتاجی انسانیت کا طرہ امتیاز ہے‘ اللہ پاک نے انسان کے خمیر میں عمرانیت رکھی ہے۔ اس کی زندگی کی ضروریات دیگر تمام مخلوقات سے بڑھ کر ہیں۔ وہ اپنی زندگی کی تمام ضروریات تنہاء پوری نہیں کرسکتا ‘اسے ہر معاملے میں دوسرے کی محتاجی ہوتی ہے۔

یہ بات جہاں معاشرہ میں ہے وہیں یہ معاشرے کی اکائی خاندان میں بھی ہے۔ خاندان کا ہر فرد دوسرے کے ساتھ مربوط ہوکر نظام زندگی کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ گھر میں ہر فرد کو کسی نہ کسی معاملے میں دوسرے کی ضرورت پڑتی ہے۔ گھر کے کچھ کام ہر ایک نے اپنے ذمے لے رکھے ہوتے ہیں۔ اگر اس فرد کو نکال دیا جائے تو دیگر افراد کی ذمہ داری بڑھتی ہے اور ان کے کندھوں پر وزن بڑھ جاتا ہے۔

عمرانیات کا سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ مربوط ہوکر زندگی گزارے۔ محبت اس ربط کو سب سے زیادہ مضبوط کرتی ہے۔ حقارت اور نفرت اسے سب سے پہلے توڑتی ہے۔

خاندان کے ہر فرد سے محبت کرنا سیکھئے‘ یہ تعلیم آپ کو معاشرے کے ہر فرد سے محبت سکھادے گی۔ آپ اگر اپنی ساس سے سچی محبت کرنے لگیں تو کتنا سکون ہوگا‘ جھگڑا اپنے اختتام کو نہیں پہنچ جائے گا؟ٖ

میری ذاتی رائے یہ ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی بلکہ اس کے لیے دو ہاتھ درکار ہوتے ہیں۔ لیکن اگر آپ محبت بھرے جذبات میں پہل کردیں اور انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں تو آپ ان کا دل جیت سکتی ہیں۔

محبت ایک ایسی کائناتی حقیقت ہے جو سنگ دل سے سنگ دل انسان کو بھی گرفتار کرلیتی ہے۔ جب خاندان محبت میں جکڑا ہوا ہو تو زندگی آسان سے آسان ترین ہوجاتی ہے۔

اسلام نے بھی اسی کادرس دیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

لایومن احد حتی یحب لا خیہ ما یحب لنفسہ ’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔

دیکھنے میں آیا ہے کہ جوا فراد اور جو قوم خلوص اور بھائی چارگی کے جذبے سے سرشار ہو تو وہ ذہنی امراض میں مبتلا ہونے سے بچ جاتی ہے۔ آج کی مادہ پرست دنیا میں جس تیزی سے انسانیت سوزی اور آدمیت کشی بھیڑ بکریوں کی طرح ہورہی ہے۔ سب پر روشن و عیاں ہے۔ ہر شخص میں نفرت اور حقارت کا جذبہ کار فرما ہے۔ بعض لوگ تو کسی سے خوش رہ ہی نہیں سکتے‘ انہیں کسی کی رفاقت ہی پسند نہیں ہوتی۔ ان کو سوائے اپنی ذات کے کسی کی ذات سے دلچسپی نہیں ہوتی‘ یاد رکھیے! ایسے لوگ جذباتی بے راہ روی اور شدید ذہنی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں ‘ان کو جس کسی سے بھی واسطہ پڑتا ہے …یہ سب سے نفرت کا جذبہ رکھتے ہیں۔

یہ آدم بیزار اپنی ذہنی بیماری کی وجہ سے اتنا بھی محسوس کرنے سے معذور ہوتے ہیں کہ انہیں اسی دنیا میں اور اسی دنیا کے لوگوں میں زندگی بسر کرنا ہے‘ حالانکہ وہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس دنیا کے لوگوں کے درمیان تعلق اور تعاون کے بغیر ان کی اپنی کوئی ضرورت زندگی پوری نہیں ہوسکتی۔ وہ ایک دوسرے کے محتاج ہیں‘ اور باہمی تعاون کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔

دیکھنے میں آیا ہے کہ جو لوگ آدم بیزار ہوتے ہیں‘ باہمی محبت کا جذبہ ان میں مفقود رہتا ہے وہ دراصل تنگ مزاجی اور چڑچڑے پن کا شکار ہوتے ہیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post