ازدواجی تعلقات میں عورت کا کردار: Azwaji Talluqaat Me Aurat Ka Kirdar

ازدواجی تعلقات میں عورت کا کردار:

 ازدواجی زندگی میں عورت کا کردار دو اعتبار سے ہوتا ہے۔

-1 عورت کی ذات کے اعتبار سے

-2 خاوند کی ذات سے متعلق

عورت کو اپنی ذات سے متعلق مختلف اوصاف و محامدسے متصف ہونا چاہیے ، آیئے !ہم انہی کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔

عورت کے حسن و جمال کا کردار:

آپ کے خاوند کی نظر میں آپ کے حسن و جمال کا بہت اہم کردار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جمال کے کچھ درجات ایسے ہیں جنہیں انسان خود سے اختیار نہیں کر سکتا وہ محض ا للہ کی طرف سے ایک انعام ہوتے ہیں۔ لیکن ایک بات اور بھی ہے کہ حسن و جمال بعض اوقات نسبت کے اعتبار سے بھی ہوتا ہے۔ ایک ہی عورت کسی کی نظر میں جچتی ہے اور کسی کی نظر میں نہیں- بسا اوقات بعض اعتبار سے حسین ہوتی ہیں اور بعض اعتبار سے نہیں۔ ہمارے لیے اس وقت جو اہمیت کا حامل ہے وہ ہے آپ کا حسن و جمال آپ کے خاوند کی نظر میں۔

اور یہ لازمی بات ہے کہ اسی صورت معلوم ہو سکتا ہے کہ آپ کے خاوند کی نظر میں حسن و جمال کا معیار کیا ہے؟ اس سلسلے میں آپ کو ان سے تفصیل سے گفتگو کرنا ہو گی اور جس حسن و جمال کے وہ مشتاق ہیں اسے حتی الامکان حاصل کرنا ہو گا۔

زمانے کے تغیر کے ساتھ ساتھ تو حسن و جمال کی اقدار بدلتی رہتی ہیں۔ اسی طرح مقامات کی تبدیلی کے ساتھ بھی۔ بعض لوگ جسمانی موٹاپے کو پسند کرتے ہیں اور بعض ایسا نہیں کرتے۔ اگر خاوند موٹاپے کو پسند کرتا ہے تو عورت کو حتی الامکان ایسی تدبیر کرنے کی ضرورت ہو گی وغیر  ذلک۔

آنکھ کا حسن و جمال:

انسانی وجود میں جہاں آنکھ کی اہمیت سے انکار نہیں وہیں اس کے حسن و جمال سے بھی انکار نہیں۔ کیونکہ انسانی نظر کا پہلا ٹکراؤ عموماً ان آنکھوں سے ہی ہوتا ہے۔ اگر ان کا حسن و جمال قابل دید ہو تو انسان اسی میں کھو کر رہ جاتا ہے۔

علماء لکھتے ہیں کہ عورت کے لیے اپنے خاوند کی منشاء کے مطابق اپنی آنکھوں کی رنگت کی تبدیلی کے لیے لینزز کا استعمال کرنا درست ہے۔ اسی طرح اگر عورت کا خاوند ہر وقت اس کے چہرے پر نظر کی عینک دیکھنا پسند نہیں کرتا تو وہ عینک اتار کر نظر کے لینزز استعمال کرے۔

سرمہ آنکھ کا حسن ہے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کی خواتین کو ناپسند فرمایا ہے: مرھاء … و … ملداء

مرھاء ایسی عورت جس کی آنکھ میں سرمہ نہ ہو اورملداء  ایسی عورت جس کے ہاتھ پاؤں میں مہندی نہ لگی ہو۔

آنکھ میں اگر سرمہ لگا ہو تو سفید اور سیاہ کا امتزاج ایک حسین امتزاج کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ اور ویسے بھی سرمہ تو ایسی چیز ہے جو ہر انسان کی دسترس میں ہو سکتا ہے۔

عمومی جمال:

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ عورت کو اپنے خاوند کی نظر میں حسن و جمال کے معیار سے واقف ہونا ضروری ہے۔ کسی حیلے‘ بہانے اس کی زبان سے یہ بات نکلوا لے اور پھر اس پر پورا اترنے کی کوشش کرے۔

بالفرض اگر اس کا خاوند سیدھے بال اور دراز بال پسند کرتا ہے تو وہ اس کے لیے کوشش کرے اور ایسی ادویات کا استعمال کرے۔اگر خاوند گھنگھریالے بال پسند کرتا ہے تو اس کے لیے کوشش کرے۔

ویسے بھی روایات میں آتا ہے کہ:

حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک نہ تو بالکل سیدھے تھے اور نہ بہت زیادہ گھنگھریالے‘ بلکہ ان میں ہلکا سا گھنگھریالہ پن تھا۔

اسی طرح کپڑوں کی رنگت کے بارے میں بھی خاوند کے نقطہ نظر سے آگاہی بہت ضروری ہے۔ جو رنگ وہ عمومی طور پر پسند کرے آپ اپنے  ملبوسات میں اسی کو زیادہ اپنا لیں۔

لباس میں جہاں تک شریعت اجازت دے‘ خاوند کی اطاعت جائز ہے‘ گھر کے اندر خاوند جیسے لباس کو پسند کرے عورت اس کی رائے کا احترام کرے۔

ان باتوں کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان کا ظاہر اگر کسی کی آنکھ کو اچھا لگے تو انسان کو دلی خوشی ہوتی ہے۔ میاں بیوی میں اگر ایک دوسرے کی رضا کا لحاظ نہ ہو تو زندگی دشوار ہو جاتی ہے۔

جس طرح عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا خاوند جب باہر جائے تو ممتاز نظر آئے اور اس کا وجود ایک عمدہ منظر کی عکاسی کرے‘ اسی طرح خاوند اپنی بیوی کو گھر میں دیکھنا چاہتا ہے۔ عورت پر اس کی خواہش کا احترام لازمی ہے۔

خوشبو… جمال کا اہم عنصر

ظاہری جمال میں خوشبو کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ خوشبو کے انتخاب کے لیے آپ اپنے شوہر کی پسند کا خاص خیال رکھیں۔ اس لیے کہ خوشبؤوں کا معیار ہر انسان کے ہاں الگ اور ممتاز ہوتا ہے۔

بعض لوگ ہلکی اور دھیمی خوشبو پسند کرتے ہیں اور بعض تیز۔ آپ ان کی پسند دیکھ لیجیے اور اس کے مطابق استعمال کیجیے۔ ایک بات کا لازمی خیال رکھیئے کہ خوشبو آپ کی ضروریات میں سے اہم عنصر کا درجہ رکھے‘ ہر وقت آپ کے پاس خوشبو موجود رہے۔ اگر آپ اپنے لیے کوئی خاص خوشبو مختص کر سکیں تو بہت بہتر‘ بس خوشبو ایسی ہو کہ آپ کی شخصیت کی پہچان بن جائے۔

ترمذی شریف میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

مثل الرافلۃ فی الزینۃ فی غیر اھلھا کمثل الظلمۃ یوم القیامۃ لانور لھا۔

’’گھر سے باہر خوشبو لگانے والی عورت کی مثال قیامت کے دن تاریکی کی سی ہے جس کا کوئی نور نہ ہو گا‘‘۔

اس بات کا خاص التزام کیجئے کہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے آپ کے وجود سے اٹھنے والی مہک غیر مردوں کی ناک تک نہ پہنچے۔

بس اس بات کا خیال رکھ لیجیے کہ آپ کا خاوند آپ کے وجود سے خوشبو کے علاوہ کچھ اور نہ سونگھے۔

باطنی حسن و جمال:

باطنی جمال کی اہمیت بھی ظاہری جمال کی مانند ہے۔ باطنی جمال کی ایک صورت تو جسم کی نظافت و طہارت ہے جبکہ دوسری قسم روح کا حسن و جمال ہے جو کہ جسم کے حسن و جمال سے زیادہ اہم ہے۔

ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

اکمل المؤمنین ایمانا احسنھم خلقا

’’ایمان کے اعتبار سے کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق کے اعتبار سے سب سے بہتر ہو‘‘۔

زبان کی مٹھاس:

زبان کی مٹھاس انسان کے اعلیٰ اخلاق کی دلیل ہے۔ آپ کی زبان اس قدر شائستہ اور میٹھی ہونی چاہیے کہ مخاطب کو یوں محسوس ہو کہ جیسے باغ سے پھل چنے جا رہے ہیں۔ خاوند کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے درج ذیل آداب کا خیال رکھیے۔

m حد سے زیادہ احترام۔ اگر خاوند اپنے کسی لقب یا عرفی نام کو پسند کرتا ہو تو اسے اسی نام سے پکاریئے۔ ہر گھر میں افراد خانہ میں سے ہر ایک کو پیار سے کوئی نہ کوئی نام دیاجاتا ہے۔ آپ کے خاوند کا بھی یقینا کوئی نہ کوئی نام ہو گا۔لیکن آپ اس بات کا ضرور خیال رکھیے کہ وہ نام خاوند کو پسند ہو اور اسے یہ اچھا لگتا ہو کہ آپ اسے اس نام سے پکاریں۔

m گفتگو کے لیے مناسب وقت نکالیے۔ ایسے وقت میں ہر گز گفتگو نہ کیجئے جب وہ سونا چاہ رہے ہوں یا کسی اور کام میں مصروف ہوں اور آپ کی گفتگو انہیں ناگوار گزر رہی ہو اگرچہ وہ اس کا زبان سے اظہار نہ کر رہے ہوں۔

m جس منصوبے پر آپ گفتگو کر رہی ہیں وہ ان کی رائے کے موافق ہو مخالف نہ ہو‘ ایسا نہ ہو کہ اس مخالفت کی وجہ سے باہمی جھگڑے کی نوبت آ جائے۔ اگر آپ کو معلوم ہو کہ اس بارے میں آپ کے خاوند کا نظریہ یہ ہے اور آپ کی رائے اس کے مخالف ہے تو لازماً اپنی رائے سے رجوع کر لیجیے اور ان کی رائے کو مان لیں‘ یہ بات انہیں بہت اچھی معلوم ہو گی۔

m اگر موضوع سخن سنجیدہ ہو تو اس میں ہرگز مزاح کا پہلو اختیار نہ کیجئے کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسے موقع پر آپ کے مذاح کی وجہ سے ان کا غصہ ابھرے اور حالات کشیدہ ہو جائیں۔

بر موقع بات شوہر کے دل کو متأثر کرتی ہے :

عقل مند بیویاں ہمیشہ اپنے خاوندوں کے دلوں کو جیتتی ہیں ‘بات اتنے اچھے انداز سے ‘ بر موقع اور بر محل کرتی ہیں کہ خاوند کے دل میں اتر جاتی ہیں ، ایک عربی شاعر کہتاہے :

ترجمہ:’’سلمی کی باتیں ٹوٹے ہوئے ہار کے موتیوں کی طرح ہوتی ہیں ‘‘

مطلب یہ ہے کہ اسے اپنی محبوبہ کی باتیں ایسی لگتی ہیں جیسے ٹوٹے ہوئے ہار کے موتی جھڑ رہے ہیں ۔

ہارون الرشید ایک مرتبہ کھانا کھا کر فارغ ہوا ،خیال ہوا کہ ذرا چہل قدمی کر لیتے ہیں ‘بیوی سے کہنے لگا :

’’چاندنی رات ہے، آؤ ذرا باہر نکلتے ہیں ‘‘

بیوی کہنے لگی :

’’امیر المؤمنین آپ دو سوکنیں جمع کر کے کیوں خوش ہوں گے؟

کہنے لگا:

کیا مطلب؟

کہنے لگی:

ایک طرف میرا چہرہ ہوگا اور ایک طرف چاند کا‘ تو دو سوکنوں کو آپ کیسے جمع کریں گے۔

یہ بات سن کر ہارون الرشید خوش ہوگیا ،عقل مند بیوی کی اس بات کی وجہ سے ہارون کے دل میں اس کی محبت اور زیادہ ہوگئی ۔

موقع محل کے مناسب پیا ر کی بات کہہ دینا خاوند کے دل کے خوابیدہ تاروں کو چھیڑ دیتاہے ،اور خاوند کے دل کے تالوں کو کھول دیتاہے۔لیکن مشرقی لڑکیاں حد سے زیادہ اس میں کنجوس ہوتی ہیں اوراتنی زیادہ Reserveہوجاتی ہیں کہ اپنے میاں سے بات ہی نہیں کر پاتیں ۔

یاد رکھئے!جو بیوی Expressiveنہ ہووہ سارے جہاں کے لئے گونگی بن جاتی ہے ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post