محنت کے ساتھ آرام بھی ضروری ہے:

 محنت کے ساتھ آرام بھی ضروری ہے:

محنت کی اہمیت سے کسے انکار ہوسکتاہے ؟

زندگی کی ہر کامیابی کا راز محنت میں ہے ۔جس نے محنت سے جان چرائی وہ کچھ نہ بن سکا ‘وہ کچھ نہ پاسکا۔زندگی کے ہر میدان میں کامیابی محنت ہی کی مرہون منت ہے ۔لیکن اس حقیقت کے ساتھ یہ بھی روشن حقیقت ہے کہ محنت کے ساتھ آرام بھی اتنا ہی ضروری ہے ۔

محنت کے بعد قدرے آرام کرنا کلید کامیابی ہے ۔لیکن صحیح طریقے سے آرام کرنا چاہئے ۔بدن کو ڈھیلا رکھ کر گھنٹہ ‘آدھ گھنٹہ آرام کرنا دس گھنٹے کی ایسی نیند سے زیادہ تازگی بخش ہوتاہے جس میں جسم اور دماغ تناؤ کی حالت میں ہوں ۔اس کے لئے دماغی یکسوئی اور زندگی کے متعلق صحیح نفسیاتی نقطہ نظر ضروری ہے ۔

یکسوئی کی حالت میں آپ سکون سے آرام لے سکتی ہیں ، تمام تشویش و پریشانی دور ہوجاتی ہے اور جسم کو طاقت و تازگی حاصل ہوتی ہے ۔

غذاؤں اور دواؤں کی حیثیت محض ثانوی ہے ۔

کام کرنے اور خاص طور پر زیادہ کام یا دماغی کام کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کو کام کرنے کا صحیح طریقہ معلوم ہو۔زیادہ کام کے لئے ‘ جس میں وقت بھی زیادہ درکار ہوتاہے‘جسمانی اور دماغی قوت بھی زیادہ صرف ہوتی ہے‘ اپنی صحت کے ساتھ انصاف کرنا اور بھی ضروری ہوجاتاہے۔

اگر آپ کو تھکن کا احساس ہر وقت رہتاہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے کاموں کو ذہن سے ہم آہنگ نہیں کرسکیں۔زیادہ کام کرنے سے جسم ضرور تھک جاتاہے، لیکن کام کی تکمیل کے بعد جو ذہنی سکون اور خوشی حاصل ہوتی ہے وہ بآسانی اس تکان کا بدل بن سکتی ہے ۔

جو لوگ کام ختم کرلینے کے بعد ایسی تھکن محسوس کرتے ہیں‘وہ چاہے جسم کو آرام دے لیتے ہوں ، لیکن دماغ کو آرام نہیں دیتے، ایسے لوگ ذمہ داریوں کے احساس کی وجہ سے ہر وقت کاموں ہی کے متعلق سوچتے رہتے ہیں اور ذہن کو کسی وقت کام کے بارے سے آزاد نہیں کرتے۔

ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے ذہن کا جائزہ لیں اور کام کا ہوّا دماغ سے نکال دیں۔کام کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو، آرام ضروری ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ ہر وقت سوچتی نہ رہیں۔

دن رات میں کچھ حصہ ایسا ضرور نکال لیجئے جس میں آپ کام کی کوئی بات نہ سوچیں ، تنہائی میں اپنے جسم اور دماغ کو بالکل ڈھیلا چھوڑدیں اور دماغ کو عادی بنائیں کہ اس وقفہ میں وہ تفریح اور دلچسپی ہی کی باتوں کی طرف متوجہ رہے۔ یہ وقفہ چاہے کتنا ہی کم ہو‘ لیکن ہونا ضرور چاہئے۔

دوسرا وقفہ ایسا ہونا چاہئے جو آپ بے تکلف ‘پر خلوص اور خوش باش دوستوں کے ساتھ گزاریں ، ہنسی مذاق ‘قہقہوں اور لطیفوں کے سوا کوئی بوجھل بات نہ کی جائے۔

ان وقفوں کے بعد پوری قوت اور دلچسپی سے کام پر متوجہ ہوں ،پھر دیکھئے… آپ کا دل کس طرح کام میں لگتا ہے۔اور آپ اپنے دل و دماغ اور جسم میں کتنی قوت و توانائی محسوس کرتی ہیں۔

کام کی طرح آرام بھی ضروری ہے ،جو لوگ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں وہ بہت بڑی غلطی کرتے ہیں ، وہ اپنی صحت اور جسم کے دشمن ہیں۔ 

دماغی کام کرنے والوں کا دماغ جس وقت تھکا ہوا ہوتا ہے اس وقت اسے صا ف ہوا سیجو آرام حاصل ہوتاہے وہ نیند سے بھی نہیں ہوتا‘ دماغ کو فرحت اور تازگی صاف خون ہی سے مل سکتی ہے اور خون کا صاف ہونا اچھی اور صاف ہوا پر موقوف ہے۔جو شہروں کی گنجان آبادی میں نہیں مل سکتی، اس کے لئے دور‘ کھلے میدانوں میں تفریح کرنے کا مشورہ سب سے قیمتی مشورہ ہے ۔

 جب آپ دماغی کام کرتے کرتے تھک جائیں تو اسے چھوڑ دیں اور کھلے سبزہ زاروں میں چلے جائیں ‘ کھلے میدانوں اور سبزہ زاروں میں ٹہلنے سے آپ کا دماغ تازہ ہوجائے گا ۔ جو لوگ کھلی فضا اور صاف ہوا میں ٹہلنا پسند نہیں کرتے ،اسے اپنا معمول نہیں بناتے‘ ان کا دماغ کُند رہتاہے۔

طلبہ کو خاص طورسے اس مفید مشورہ پر عمل کرنا چاہئے ، یہ خیال کہ زیادہ پڑھنے سے قابلیت بڑھتی ہے‘دماغی قوتیں تیز ہوتی ہیں‘ صحیح نہیں  ہے۔ اسی غلط خیال کا نتیجہ ہے کہ اکثر طالب علم صبح شام تک پڑھنے میں مصروف رہتے ہیں ،اور اسی طرح اپنی قوتوں کو تھکا کر بیکار کرلیتے ہیں۔

پندرہ سولہ گھنٹے تک لگاتار پڑھنے کے مقابلے میںیہ اچھا ہے کہ پوری توجہ کے ساتھ صرف سات آٹھ گھنٹے پڑھ لیا جائے زیادہ پڑھنے سے دماغ اور اس کی قوتیں تھک جاتی ہیں اوریہ تھکن دھیرے دھیرے انہیں بے کار کر دیتی ہے۔

 دوا کی بجائے غذا کی طرف دھیان دیجئے:

چلتے پھرتے ‘کام کرتے‘لوگوں کو مریض کہنا مبالغہ معلوم ہوگا ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب لوگ نہیں تو ہر تیسرا آدمی ضرور مریض ہوگا‘ کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہوگا‘ چاہے وہ مرض چھوٹا ہو یا بڑا۔

ایسا کیوں ہے‘ ایسا کیوں ہوتاہے؟

اس طرف بہت کم لوگ دھیان دیتے ہیں ۔اگر اس طرف توجہ کی جائے تو بہت کم لوگوں کو ڈاکٹروں کے پاس جانا پڑے۔

ازالہ مرض و اعادہ صحت میں غذا کو بہت بڑا دخل ہے ۔کیا کھانا چاہئے؟ کس چیز سے پرہیز کرنا چاہئے؟ صحت کی حالت میں اگر انسان اس نکتے کو سمجھ لے اور اس پر عمل کر لے تو اکثر امراض کا وجود نا پید ہوجائے۔ 

حکیم بقراط نے لکھا ہے :

’’لوگوں نے تندرستی کی حالت میں درندوں کی طرح کھا کر اپنے آپ کو بیمار ڈال دیا ،اور جب ہم نے ان کا علاج کیا تو انہیں چڑیوں کی غذا دی اور تندرست بنادیا‘‘

حکیم ابو الحسن قرآنی نے لکھا ہے:

’’بوڑھے آدمی کے لئے سب سے زیادہ نقصان دہ بات یہ ہے کہ اس کے پاس اعلی درجے کا باورچی ہو۔کیونکہ عمدہ غذا پائے گا تو زیادہ کھا کر بیمار پڑجائے گا‘‘

ڈاکٹر سر ولیم کوپر نے لکھا ہے:

’’جو لوگ عوام کو یقین دلادیں کہ وہ غذا کے انتخاب میں جہالت سے کام لیتے ہیں ‘وہ بنی نوع انسان پر بھاپ اور بجلی کے موجدوں سے زیادہ برکات نازل کریں گے ‘‘

ڈاکٹر سر ہسٹر تھامس نے دقیق تحقیقات کے بعد یہ فیصلہ دیا: ’’کم سے کم آدھے امراض کہنہ جو ادھیڑ عمر اور بڑھاپے میں انسان کو لاحق ہوتے ہیں ‘ایسی غذائی غلطیوں سے پیدا ہوتے ہیں جن سے بچنا ممکن ہے ‘‘

ایک امریکی ڈاکٹر لکھتا ہے:

’’مستقبل قریب میں ازالہ مرض کے لئے جو چیز ہم مریضوں کو بتائیں گے وہ دوا نہیں‘ غذا ہوگی ۔علاج کا تعلق دوا سے نہیں غذا سے ہوگا ‘‘

Post a Comment

Previous Post Next Post