ایک باپ کی اپنی بیٹی کو نصیحت:
اے میری بیٹی!
کچھ باتیں ایسی ہیں کہ جن کا تعلق تمہارے خاوند کی رضامندگی کے ساتھ بہت گہرا ہے۔ تم میں سے کسی کے لیے راہ فرار نہیں وہ ایک دوسرے کی سعادت کا باعث ہوںگے یا بدبختی کا۔
ہمیشہ ابتدائی منافرت سے بچنا کیونکہ ایک کے ساتھ دوسری جنم لیتی ہے اور پھر یہ شعلہ دراز ہوجاتا ہے۔
جہاں تک ممکن ہوسکے اپنے خاوند کی اطاعت کرنا‘ اس کا مذاق اڑانے اور بیوقوفی کی حرکتیں کرنے سے باز رہنا۔ غیرت مندی میں حد سے نہ بڑھ جانا کیونکہ یہ جدائی کی چابی ہے۔ حد سے زیادہ عتاب والا معاملہ بھی نہ کرنا کیونکہ یہ بغض کو پیدا کرتا ہے۔
v اپنی صحت کا خصوصی خیال رکھنا۔ بناوٹی حسن و جمال سے گریز کرنا کیونکہ یہ انسانی جلد کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔
v گھر کے کام کاج میں جس قدر ہوسکے ہمت سے کام لینا۔ اور یاد رکھنا کہ گھر سے باہر کے کام کاج تمہارے خاوند کی خصوصیات ہیں اور گھر کے کام کاج تمہارے ساتھ خاص ہیں۔
یاد رکھنا ہر آدمی کا ایک ذوق ہوتا ہے اور وہ عورت کی ذہانت‘ حسن ذوق اور سیاست کوتنقیدی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان خصوصیات کی وجہ سے بہت سی شکایات کو عورت اپنے دامن میں سمیٹے رکھتی ہے۔
اس بات سے بچنا کہ تمہارا حد سے زیادہ گھر کے چھوٹے چھوٹے معاملات اور مسائل کا بیان کرنا کہیں اسے بے قلق اور بے چین نہ کرے۔
v اپنے گھریلو معاملات کو مربوط طریقے سے انجام دو اور اپنے اسرار پر کسی اور کو مطلع نہ ہونے دینا۔
v اپنے خاوند کے ایسے امور جو وہ تمہیں نہ بتانا چاہتا ہو انہیں جاننے کی کھود کر ید میں نہ لگنا۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں کوئی ایسی بات ہو جو تمہیں ناگوار گزرے۔
v اپنے آپ کو اختلاف کے اسباب سے بچا کر رکھو۔
اگر میں بار بار تمہارے گھر آتا رہوں اور تمہیں نہ پاؤں تو یہ میرے لیے تکلیف کا باعث ہے۔ لیکن اگر میں تمہارے گھر آؤں اور تمہیں امور خانہ داری میں مشغول پاؤں تو یہ میرے لیے قلبی فرحت و سرور کا سامان ہے۔ میرے لیے سب سے بوجھل بات یہ ہے کہ تم میرے گھر غصے میں داخل ہو۔
Post a Comment