گھریلو جھگڑے ‘ اسباب اور حل Gharelu Jaghdoun Ke Asbaab Wa Hal

  گھریلو جھگڑے ‘ اسباب اور حل

دنیا میں کوئی سے بھی دو انسان یکساں فطرت نہیں رکھتے ، بسا اوقات یہ فرق نمایاں نہیں ہوتا اور فطری ہم آہنگی اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ ایک مدت تک ساتھ زندگی بسر کرنے کے بعد بھی مزاجوں کے فرق کا اندازہ کیا جاسکتاہے ، بالکل یہی صورت حال شادی شدہ مرد اور عورت کے ساتھ ہے‘ ازدواجی زندگی کے آغاز میں دونوں فرط محبت اور جنسی جذبات میں غالب رہتے ہیں ‘جس کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے کے مزاج کے فرق کو محسوس نہیں کرتے اور بظاہر وہ اپنے آپ کو ایک آئیڈیل جوڑا تصور کر رہے ہوتے ہیں۔

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب ایک دوسرے کے سامنے پسندیدگی اور ناپسندیدگی کا فرق سامنے آتاہے یا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زندگی میں ٹھہراؤ آتاہے اور زندگی اپنے حقائق کے ساتھ ایک دوسرے پر عیاں ہونا شروع ہوتی ہے‘ تو دونوں ایک دوسرے کی کمزوریوں اور خامیوں پر نگاہ رکھنے لگتے ہیں ، اور رفتہ رفتہ ناراضگی کی بنیاد پڑنے لگتی ہے اور یہی ناراضگی بعد میں جاکر خطرناک جھگڑوں کی صورت اختیار کرلیتی ہے ۔

یہ بات بجا ہے کہ کوئی بھی انسان گھر کی فضا کو مکدر کرنا پسند نہیں کرتا‘ لیکن پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ شاید ہی کوئی گھرانہ اس بلا سے محفوظ ہو ‘ہر روز ہر گھر میں کوئی نہ کوئی جھگڑا ضرور اٹھ کھڑا ہوتاہے ،رفتہ رفتہ ناچاقی اور بد مزگی کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس کیفیت کا شکار کوئی بھی جوڑا آپ کو ایسانہ ملے گا‘جو ان حالات کو سدھارنے کی پروا نہ کرتاہو اور بگاڑ کوباقی رکھنا چاہتاہو ۔

اگر غور کیا جائے تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ گھریلو جھگڑوں کی پہلی سیڑھی پسندیدگی اور ناپسندیدگی کا فرق ہے اگر ہم یہ کہیں کہ اس فرق کو ختم کر دیا جائے یعنی ناپسندیدگی کو جگہ ہی نہ دی جائے کہ ناراضگی پیدا ہو اور اس ناراضگی کی وجہ سے جھگڑے ہوں …لیکن کیا  یہ بات اتنی ہی آسان ہے ؟ اگر ایسا ہوتا تو پھر کیا تھا ؟

لیکن ناپسندیدگی اور ناگواری کو اللہ تعالی نے انسان کی فطرت میں پیدا کردیاہے، بھلا وہ ان سے کیسے بچ سکتاہے ؟ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اگر ان دونوں میں سے ایک اپنی پسند کو دوسرے کی پسند پہ قربان کردے یا اپنے نفس کو اس بات پہ آمادہ کرلے کہ اس کا نفس نا پسندیدگی کی راہ کو چھوڑ کر پسندیدگی کی طرف آجائے ‘تو یہ نسخہ اس کا بہترین حل ہے ،لیکن یہ راستہ انتہائی دشوار اور کٹھن ہے ۔

جب یہ بات برحق ہے کہ مرد حاکم ہے اور عورت محکوم… تو کیا اس معاملہ کی ذمہ داری عورت اپنے کندھوں پر نہیں لے سکتی ؟ یقینا اس معاملہ میں آپ کو غور کرنا ہوگا اور اپنی خوشگوار زندگی کی بقا ء کے بارے میں سوچنا ہوگا۔

یاد رکھئے !کامیاب ازدواجی زندگی زوجین میں سے ہر ایک کی طرف سے قربانی کی متقاضی ہوتی ہے ، اگر وسعت ظرفی سے کام نہ لیا جائے اور دوسرے کے جذبات کا لحاظ نہ رکھا جائے تو ہر ایک جذباتیت کا شکار ہوجائے گا اور دماغ سے کام لینا بند کرکے یہ فرض کر لے گا کہ اس کا نقطہ نظر درست ہے اور فریق ثانی غلطی پر ہے اور کٹ حجتی کر رہا ہے ۔یاد رکھئے! ناقابل فراموش کامیابیاں وہ ہوتی ہیں جن پر جاں فشانی کے خون کے دھبے اور مایوسی کے زخموں کے نشانات ہوتے ہیں ،مایوسیوں کے بادلوں میں سے ہی کامیابی کے آفتاب کی کرنیںنمودار ہوتی ہیں اور کٹھن حالات میں صبر و ضبط کے ذریعے ہی بہتری کی امید دکھائی دیتی ہے ۔ 

ہر گھر میں معمولی جھگڑے روز مرہ کا معمول ہے، لیکن اگر ایسی صورت حال میں فریقین معقول رویہ اختیا ر کریں‘ ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں تو وہ جلد ہی یہ بات محسوس کرلیں گے کہ ان چھوٹے چھوٹے مسائل کا حل اکثر بہت آسان اور سادہ ہوتاہے ۔

ازدواجی جھگڑے:

میاں بیوی خاندان کی ریڑھ کی ہڈی ہیں ،اگر ان دونوں کی زندگی خوشگوار ہوگی تو خاندان کے ہر فرد کی زندگی خوشگوار ہوگی، ان کے جھگڑے اور الجھنیں پورے خاندان کی تباہی کا ذریعہ بن سکتے ہیں ۔اور یوں صرف ایک ہی خاندان نہیں بلکہ دو خاندانوں کی زندگیوں کی خوشگواری داؤ پر لگ جائے گی۔

ازدواجی زندگی میں جھگڑے دو قسم کے ہوتے ہیں : 

(1) بسا اوقات ایسا ہوتاہے کہ دونوں کے درمیان بظاہر کوئی اختلاف نہیں ہوتا اور دونوں کے نظریات میں یکسانیت بھی نظر آرہی ہوتی ہے ۔ لیکن فریقین میں سے ہر ایک یا کسی ایک جانب سے گفتگو کا انداز مبہم اور غیر واضح ہوتاہے جس کی وجہ سے جہاں گفتگو کا اصل مقصد فوت ہوتاہے‘ وہیں بلا وجہ شکوک و شبہات بھی جنم لیتے ہیں۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے بات بڑھ جاتی ہے اور سنگین صورت حال اختیار کر لیتی ہے۔ 

(2) یہ صورت واقعی بڑ ی سنگین قسم کی ہوتی ہے‘ اس قسم کے تحت مختلف موضوعات کے تحت جھگڑے آتے ہیں ۔مثلاً اخرجات،گھر کی دیکھ بھال،گھریلو کام کاج،جیسے موضوعات ان جھگڑوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ بات بجا ہے کہ ایسے جھگڑوں کی صورت میں مصالحت مشکل ضرور ہوتی ہے لیکن نا ممکن نہیں ۔ 

ان جھگڑوں میں عجیب بات یہ ہے کہ معمولی سی فہم وفراست اور صبر کے جذبے کے ذریعے ان مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتاہے ۔

علاج:

جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ غیر واضح اور مبہم بات کی جہ سے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں تو اس سلسلے میں سب سے پہلی گزارش یہ ہے کہ بات مختصر کی جائے صرف بنیادی مسئلہ تک اپنے آپ کو محدود رکھا جائے، بلا وجہ گفتگو نہ کی جائے، غیر ضروری باتوں سے مکمل اجتناب کیا جائے ، چھوٹے چھوٹے مسائل کم بولنے کی جہ سے کم ابھرتے ہیں ۔

اگر آپ کو کوئی شکایت بھی کرنی ہوتو ایسے الفاظ میں کریں کہ مخاطب کی انا مجروح نہ ہو ،مخاطب کی بے عزتی نہ کی جائے اس پر الزام تراشی نہ کی جائے، سب سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ کھلے دل سے گفتگو کا آغاز کیا جائے، مسئلے کے حل سے پہلے ہی مخاطب کو غصہ نہ دلایا جائے ، اگر اسے غصہ دلا دیا گیا تو وہ غلطی پر ہوتے ہوئے بھی اس کا اعتراف نہیں کرے گا اور ضد میں آکر مقابل کو نیچے دکھانے کی کوشش کرے گا اور بات سنورنے کی بجائے بگڑ جائے گی۔

چونکہ آپ کا مقصد اس مسئلہ کا حل ہے اور آپ اسے سلجھانا چاہتی ہیں‘ لہذا بات کاآغاز یوں کیجئے جیسے آپ ان سے اس مسئلہ میں تجویز طلب کر رہی ہیں ۔

ایسے الفاظ سے مکمل گریز کیجئے، جن سے دوسرے کی خامیوں کا اظہار ہورہا ہو یا اس کے کردار پر حرف آرہا ہو‘ کیونکہ یہ الفاظ اشتعال انگیزی پید اکرتے ہیں اور بات بننے کے بجائے الجھ جاتی ہے ۔

اگر آپ سارا الزام مقابل پہ دھر دیں گی تو وہ ہر الزام سے انکار کرتا جائے گا ،لہذا ابتداء ہی سے کوشش کیجئے کہ آپ کی طرف سے انتہاء پسندی کا مظاہرہ نہ ہو‘ دراصل عموماًمیاں بیوی میں سے کوئی بھی انتہاء پسند نہیں ہوتا‘ بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ میانہ روی اور اعتدال سے کام لیا جائے ،تھوڑی بہت ناکامیوں کو بھی نظر انداز کیا جائے اور شکایت کے لئے بھی مثبت انداز اپنایا جائے۔ 

اپنے جیون ساتھی کے محرکات کا تجزیہ کرنے کی کوشش نہ کریں‘ عین ممکن ہے کہ آپ کا اندازہ غلط بیٹھے اور اگر اس اشتعالی صورت میں آپ کا اندازہ غلط بیٹھ رہا ہوا تو اس کے اشتعال کی حرارت مزید تیز ہوگی اور بات مزید بگڑتی جائے گی۔

اگر آپ کا خاوند اشتعال انگیزی کے ساتھ گفتگو کررہا ہے تو جذبات اور غصے کی رو میں بہہ کر یقینا وہ بہت سی غیر متعلقہ باتیں بھی کہہ ڈالے گا اور آپ پر بہت سی بے جا الزام تراشیاں بھی کر جائے گا ۔کیونکہ وہ غصے کے عالم میں ہے اور غصے میں انسان صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کا اہل نہیں رہتا ۔

ایسے موقع پر آپ تدبر اور ہمت سے کام لیجئے‘ جذبات کی رو میں بہہ کر کہیں آپ بھی غصیلی نہ بنیں ،بلکہ یاد رکھئے! غصہ در اصل آگ کا ایک شعلہ ہے ‘جیسے آگ پتھر میں پوشیدہ رہتی ہے‘ اسی طرح غصہ کی آگ دل میں مخفی رہتی ہے جیسے ہی اسے چقماق لگتاہے وہ بھڑک اٹھتی ہے۔ غصہ کا ایک فلسفہ یہ بھی ہے کہ انسان کا خمیر مٹی سے ہے مگر اس میں بھی کچھ آگ کا عنصر پوشیدہ ہے جو تکبر کے مادے پر ضرب پڑنے سے بھڑک اٹھتا ہے۔

اگر آپ پر لگایا گیا الزام درست ہے اور آپ سے واقعتا کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو اس کی تردیدکرنے کے بجائے برملا اس غلطی کا اعتراف کر لیجئے ۔واضح الفاظ میں اس غلطی پہ معذرت کر لیجئے ،آپ کی یہ معذرت اس غصہ کی آگ کے لئے پانی کا کام دے گی ۔اگر آپ یہ سمجھتی ہیں کہ آپ کے خاوند کو جس بات پہ غصہ آرہا ہے ‘وہ دراصل اس بات کو صحیح طور پر سمجھا نہیں اور اس کا یہ الزام غلط فہمی پر مبنی ہے تو آپ اس  کی اشتعال انگیزی کی حرارت کا بڑھنے کا انتظار نہ کیجئے، بلکہ فورا اپنے عمل کی وضاحت کر کے اس کی غلط فہمی کو دور کیجئے۔دوران گفتگو آپ کے لہجہ میں نہ تو درشتگی ہونی چاہئے اور نہ ہی طنز کی کوئی جھلک دکھائی دے ۔

دوران گفتگو اپنی زبان کو ہر ممکن حد تک کنٹرول کیجئے ‘آپ کی زبان سے کسی لمحے ان کے لئے ـ’’تم ‘‘کا لفظ نہیں نکلنا چاہئے ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post