ہدیہ دیجئے…نفرت ختم: Hadiya Dijiye Nafrat Khatam Kijiye

 ہدیہ دیجئے…نفرت ختم:

تجربات سے یہ بات ثابت ہے کہ ہدیہ لینے دینے سے جہاں نفرت ختم ہوتی ہے وہیں محبت میں بھی اضافہ ہوتا ہے،حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

تہادواتحابوا

’’ایک دوسرے کوہدیے دو باہمی محبت پیدا ہوگی‘‘

حضرت سفیان ثوری ؒ  فرماتے ہیں کہ جب امام ابو حنیفہ ؒ  لوگوں کو مسائل شرعیہ بتانے کے لئے مسند افتاء پر بیٹھے تو مساور وراق نے لوگوں سے کہا:

کنا من الدین قبل الیوم فی سعۃ

حتی بلینا باصحاب المقاییس 

قوم  اذا  اجتمعوا صاحو کانھم

ثعالب ضجت بین النواویس 

’’آج سے پہلے ہم دین کے معاملے میں وسعت میں تھے ، لیکن آج کے بعد ہم اہل قیاس کے شکنجے میں جکڑے جاچکے ہیں۔یہ ایسی قوم ہے کہ جب جمع ہو جائیں تو ایسے چیختے ہیں جیسے لومڑیاں اپنی رہنے والی جگہ میں آوازیں نکالتی ہیں‘‘

یہ بات امام صاحب تک پہنچی تو آپ نے اس کی طرف کچھ ہدیہ بھیجا ۔ہدیے کی وصولی کے بعد اس نے کہا:

اذا ما الناس یوما قایسونا

      بآیدہ   من    الفتیا     طریقۃ

اتیناھم  بمقیاس صحیح

      مصیب من طراز ابی حنیفۃ

اذا سمع الفقیہ بھا وعاہا

      واثبتہا  بحبر  فی   صحیفۃ

’’لوگ اگر کسی دن ہمارا مشکل اور انوکھے فتوے میں امتحان لیں تو ہم ان کے پاس ابو حنیفہ کی طرز کا صحیح قیاس لاتے ہیں‘ فقیہ جب اس کو سنتا ہے تو یاد کرتا ہے اور سیاہی سے اپنے دفتر میں قلم بند کر لیتا ہے‘‘

ہدیے کی مٹھاس…:

ہدیے کی مٹھاس کس قدر زیادہ ہوتی ہے ؟اور ہدیہ کس طرح دشمن کو دوست میں تبدیل کر دیتا ہے ؟اس کے بارے میں ایک عرب شاعر نے کیا خوب کہا:

ان الھدیۃ حلوۃ

کالسحر تختلب القلوب

تدنی البعید من الہوی 

حتی تصرہ قریب

وتعید مقطعن العدا

وۃ بعد بغضتہ جیبا

’’بے شک ہدیہ ایک مٹھاس ہے،جیسے جادو جو دلوں کو اچک لیتا ہے،محبت سے دور رہنے والوں کو قریب کر دیتا ہے۔عداوت اور نفرت رکھنے والے کو دوست بنا دیتا ہے۔بغض رکھنے والے کے دل کی کدورت کو ختم کر دیتا ہے اور گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘ 

الانسان عبد الاحسان:

انسان کی فطرت ہے کہ اگر اس کے ساتھ احسان کیا جائے تو اس کادل  اپنے محسن سے محبت کرنے لگتا ہے،اور یہ مشاہدے سے ثابت ہے؛ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ سب کی نظروں میں محبوب بن جائے اور ہدیہ اس سلسلے میں بہترین ممد ومعاون ہو سکتا ہے۔

اسماعیل بن ابان کہتے ہیں کہ حسن بن عمارۃ کو خبر ملی کہ اعمش اس کے بارے میں کچھ باتیں کرتے ہیں تو حسن بن عمارۃ نے ان کی طرف کپڑوں کا ایک جوڑا بھیجا ۔

اعمش اس کے بعد ان کی مدح سرائی کرنے لگے۔اس تبدیلی کے بارے میں جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے خیثمہ نے عبد اللہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ دل فطرتی طور پر احسان کرنے والے سے محبت کرتے ہیں اور برائی کرنے والے سے نفرت کرتے ہیں۔

پر خلوص ہدیہ…تھوڑا بھی بہت:

ہدیے کی قدر و منزلت قلت اور کثرت کے اعتبار سے نہیں ہوتی،بلکہ اس میں تو خلوص کو دیکھا جاتاہے۔جس قدر اس میں خلوص زیادہ ہوگا اسی قدر وہ محبت پیدا کرنے کا ذریعہ بنے گا۔

عقلمند کو چاہئے کہ وہ چیزوں کو وقت کے تقاضے کے مطابق استعمال کرے۔تقدیر کے فیصلے پر راضی رہے اور جو مل گیا ہواس کے علاوہ کی تمنا نہ کرے اگر اس کے پاس کوئی گھٹیا چیز ہو تو اس کو کم سمجھ کر خرچ کرنے سے نہ رکے کیونکہ بخل اور خرچ کرنے سے رکنا بڑے عیب کی بات ہے۔

 انسان کسی چیز کو حقیر سمجھتاہے تو اس کو خرچ کرنے سے روک لیتا ہے ،لہذا کسی بھی چیز کو گھٹیا نہیں سمجھنا چاہئے۔

اما م عبد اللہ بن مبارک ؒ کے بڑے خوبصورت اشعار پیش نظر ہیں:

  ما ذاق طعم الغنی من لا قنوع لہ

        و لن  تری  قانعــا ما عاش مفترقا

والعرف  من  یاتہ  یحمد عواقبہ

          ما ضاع عرف ولوا ولیستہ حجرا

’’جس کے پاس قناعت نہ ہو وہ استغناء کا ذائقہ نہیں چکھ سکتا،اور قانع کو تم تا حیات ہرگز فقیر نہ پاؤ گے۔عرف عام(عوام الناس)اس کے انجام کے حسن کی تعریف و توصیف کرتا ہے ،اگر تم اس کو پتھر بھی دو گے تو وہ اس کو بھی ضائع نہ کرے گا‘‘ 


Post a Comment

Previous Post Next Post