خاوند کے ساتھ رویہ: Khandan Ke Saath rawiya

 خاوند کے ساتھ رویہ:

یہ بات آپ کے ذہن میں ہونی چاہیے کہ آپ نے انسان سے شادی کی ہے کسی فرشتے سے نہیں‘ اور اس کا تمام عیوب سے پاک ہونا ممکن نہیں۔ قدیم زمانے کے لوگوں کا ایک قول ہے:

کفی بالمرء شرفا أن تعد معایبہ

’’آدمی کی عزت و تکریم کے لیے اسی قدر کافی ہے کہ لوگ اس کے عیب شمار کرتے ہوں‘‘۔ 

اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ کا رویہ اپنے خاوند کے ساتھ کیسا ہونا چاہیے۔

دینی اعتبار سے:

آپ کو جہاں خود دینداری اپنانے کی ضرورت ہے وہیں اپنے خاوند کو بھی دین کی راہ دکھانے کی اشد ضرورت ہے۔ اطاعت خداوندی میں ان کی مدد کرنا بھی آپ کے لیے ضروری ہے۔ذرا! ایک حدیث تو ذہن میں لایئے۔

رحم اللہ رجلاً ایقظ امرأتہ لتصلی  باللیل فابت قنضح فی وجھھا الماء ورحم اللہ امرأۃ ایقظت زوجھا لیصلی باللیل فابی فنضحت فی وجھہ الماء

’’اللہ پاک رحم فرمائیں اس مرد پر جو اپنی بیوی کو تہجد کی نماز ادا کرنے 

کے لیے بیدار کرے‘ وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کا چھینٹامارے اور اللہ پاک اس عورت پر بھی رحم فرمائیں جو اپنے خاوند کو نماز تہجد کی ادائیگی سے پہلے اٹھائے اور اس کے نہ اٹھنے پر اس کے چہرے پر پانی کا چھینٹا مارے‘‘۔

ایک واقعہ:

ابو عقال نے ابو بکر سے کہا:

’’اے ابو بکر!میرے دل سے دنیا کی محبت تو نکل گئی لیکن عورتوں کی محبت نہیں نکلی‘ فتنے کے ڈر سے میں آنکھیں ڈھانپ کر نکلتا ہوں۔ ایک دن طواف کے دوران میری نظر ایک خراسانی عورت پر پڑی‘‘۔

لوگوں نے اس سے کہا:

یہ آدمی شاہی خاندان کا فرد ہے‘ تارک الدنیا ‘ لیکن اس کے دل سے عورتوں کی محبت رخصت نہیں ہوئی۔

وہ کہنے لگی : میں اس سے شادی کروں گی‘ اور اس کی طرف پیغام نکاح بھیج دیا۔

ابو عقال نے عورت کہا:

جب تک تم دنیا سے ترک تعلق نہ کر لو میں تمہارے ساتھ شادی نہیں کروں گا۔ میری طرح دنیا کی ہر چیز سے منہ موڑ لو۔

لوگوں نے ابو عقال کی شرط اسے بتائی‘ تو اس نے اپنا سارا مال و اسباب صدقہ کر دیا اور ابو عقال نے اس سے شادی کر لی۔ مرتے دم تک ان کی زوجیت کا رشتہ برقرار رہا اور دونوں مکہ ہی میں مدفون ہوئے۔

غرضیکہ عورت نے بیوی بننے کی خاطر ابو عقال کی ہر بات کو تسلیم کرلیا۔

آپ پر لازم ہے کہ آپ ان کے لیے وہی فضا ہموار رکھیں‘ اگر وہ اس فضا کو ہموار رکھے ہوئے ہیں تو آپ اس میں اضافے کا سوچیں۔

اسی طرح اپنے خاوند کو حلال کمائی کی ترغیب دینا بھی آپ کی ذمہ داری ہے تاکہ آپ دونوں اور آپ کے بچے رزق حلال سے مستفید ہو سکیں اور حرام سے بچ سکیں۔

اگر وہ نوافل کی ادائیگی میں مصروف ہوں تو آپ بھی نوافل میں لگ جایئے۔ اگر وہ روزے سے ہوں تو آپ بھی پیچھے نہ رہیے‘ اس باہمی اشتراک ہی میں باہمی اتحاد کا راز مضمر ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post