دینے والا ہاتھ لینے والے سے بہتر ہے: Khawateen Ke Liye Kuch Aham Baaten

 دینے والا ہاتھ لینے والے سے بہتر ہے:

بچپن میں سب بچوں کو ایک عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر چیز پر ضد کرتے ہیں‘ رو دھو کر ہر چیز کا مطالبہ کرتے ہیں‘ لینے کا جذبہ ان میں اتم ہوتا ہے‘ بخلاف دینے کے جذبے کے۔

اگر اس عادت کو تبدیل نہ کیا جائے تو یہ عادت پختہ ہو جاتی ہے اور جوانی میں بھی یہ جوں کی توں برقرار رہتی ہے۔

آپ نے دیکھا ہو گا کے گھر میں اگر سب افراد کے مابین کوئی چیز تقسیم کی جائے تو بعض افراد اس تقسیم پر رضا مندگی کا اظہار نہ کریں گے، بلکہ واویلا شروع کر دیں گے کہ مجھے کم ملی‘ فلاں کو زیادہ مل گئی‘ یہ سب بچگانہ فطرت ہے۔

عموماً خواتین اس کا شکار ہوتی ہیں۔ آپ تصورکیجئے کہ قرآن میں اللہ پاک نے آپ کو مردوں سے علیحدہ کر کے یاد فرمایا ہے:

{وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ} (سورۃالطور)

قرآن نے آپ کی پختہ کاری اور سخاوت کی اس صفت کو بیان کیا ہے۔ آپ اس سے کیوں باز آئیں؟

آپ ام المؤمنین حصرت زینب بنت خزیمہؓ کے نقش قدم پر چلیں ۔ یہی آپ کے لیے مشعل راہ ہیں۔

ذہن میں اس تصور کو جگہ دیجئے کہ سرمایہ جمع رکھنے کے لیے نہیں بلکہ لوگوں میں‘ اپنوں میں‘ شہروں میں بلکہ بنی نوع انسان میں‘ تمام مخلوق میں تقسیم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مرحمت کیا ہوا ہے۔ آپ کو ہر وقت یہ فکر لاحق ہو کہ کس طرح دوسروں کی زندگی کو آسودہ‘ خوشحال اور قابل رشک بنایا جائے۔

اپنے جذبات کو پاکیزہ بنایئے‘ اپنا مطمع نظر بہت بلند کیجئے‘ انسانوں سے ہمدردی اور خدمت خلق کی وسعتیں آسمانوں سے بھی زیادہ پھیلاؤ رکھتی ہیں۔ لوگوں کو ظلمتوں سے نکال کر اچھے اور تابناک جذبات کی پیوند  کاری کیجئے۔ تاکہ آپ کو دنیا میں بھی جنت کا لطف ملے اور آخرت میں بھی ابدی راحت حاصل ہو۔

تفاخر سے بچئے:

خود ستائی‘ تکبر‘ حرص‘ تفاخر و تقابل کے جذبات کو پس پشت ڈال دیجئے۔ تفاخر کرنے والا انسان در اصل سوسائٹی میں اپنا رعب جمانے کی کوشش کرتا ہے یا بے چارہ اپنے احساس کمتری کو چھپانا چاہ رہا ہوتا ہے۔

اگر اللہ پاک نے آپ کے اندر ایک صلاحیت اور قابلیت و دیعت نہیں رکھی تو اسے پیدا کرنے کی کوشس و سعی کیجئے ،بھلا …بے جا تفاخر اور ڈینگ مارنے کی کیا ضرورت ہے؟

وہ ذات تو سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ عین ممکن ہے کہ جس کے سامنے آپ شیخی بکھار رہی ہیں اللہ پاک اسی کے سامنے اصل بھانڈہ پھوڑ دیں اور نتیجۃً آپ اپنا سا منہ لے کر بیٹھ جائیں۔

یاد رکھیئے! جب خودستائی اور تفاخر کی بیماری لگ جاتی ہے تو تمام عمر اس سے خلاصی پانا ذرا مشکل ہو جاتا ہے، اس سے بڑھ کر تو یہ کہ بے چارہ انسان جو اس مرض میں مبتلا ہوتا ہے وہ اسے چھوڑنا تو کجا اسے اس میںمزہ آ رہا ہوتا ہے۔

میں آپ کو خو ستائی کا آسان علاج بتاتا ہوں۔

آپ اپنی نیت کا رخ امداد باہمی‘ انسانی ہمدردی‘ خلوص جیسے جذبات کی طرف پھیر دیجئے۔پس لیجئے! آپ کی خود ستائی کا علاج ہو گیا۔

بھلا حسد کا کیا فائدہ؟

کسی کی آسودگی اور خوشحالی کو دیکھ کر اندر ہی اندر سے بے چین اور مضطرب ہوتے رہنا‘ بھلا! کیا اسے بے چین کردے گا؟ قطعاً ایسی بات نہیں…!

آپ تو خود اپنا نقصان کر رہی ہیں۔

آپ کو معلوم ہے کہ یہ حسد آپ کو مفلوک الحال بنا رہا ہے؟ یہ رحم کے جذبے کو آپ سے دور بھگا رہا ہے۔ آپ کے گھمنڈ‘ تکبر‘ نحوست اور خود آزادی کو جنم دے رہا ہے۔

اور آپ کی خودی مجروح ہو رہی ہے۔

یہ حسد آپ کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کرتا جا رہا ہے۔ آپ کے خون کا بہاؤ تیزی سے بڑھنے لگا ہے۔ آپ کا جسم درد کے مارے ٹوٹنے لگا ہے۔ سر درد سے پھٹا جا رہا ہے ،وجود طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو رہا  ہے۔دل میں بھی ٹیسیں اٹھنے لگی ہیں۔

وجہ معلوم ہے؟ آپ سے دوسروں کی خوشحالی برداشت نہیں ہو رہی…!

اری! کیا بچگانہ ذہنیت ہے؟ مخلوق خدا کو ہنستا دیکھیے‘ خود بھی ہنسنے لگیں گی…!

زندگی کی دوڑ میں مقابلہ:

زندگی کی دوڑ میں مقابلہ بڑی اچھی چیز ہے۔ انسان ترقی کے مراحل تیزی سے طے کرنے لگتا ہے۔ لیکن اس صورت میں کہ جب یہ مقابلہ بازی …حسد‘ غلو‘ اور دل آزاری سے پاک ہو۔ ورنہ یاد رکھیے! اس مقابلہ بازی سے انتشار ‘ بے جا دباؤ‘ کوفت‘ نا امیدی اور حرص پیدا ہو گی۔

آپ نیکیوں میں مقابلہ کیجئے! ضرور کیجئے!

زندگی کی معمولی معمولی مجازی باتوں پر کیسی مقابلے بازی؟

یہ تو آپ کو دماغی و نفسیاتی مریض بنا دے گی! زندگی کے ہر میدان میں اپنی اور دوسرے کی بھلائی کو مطمح نظر بنا کر مقابلہ کیجئے! اپنا فائدہ اور دوسرے کا نقصان سوچ کر کبھی اس میدان میں نہ کودیئے‘ نتیجہ آپ کے اپنے نقصان کی صورت میں ہی نکلے گا۔

Post a Comment

Previous Post Next Post