خود اعتمادی پیدا کیجئے Khud Etimadi Paida Kijiye

 خود اعتمادی پیدا کیجئے:

باپ کی انگلی پکڑ کر چلنے والا بچہ بڑا ہو کر بھی اپنے اندر بچگانہ عادات لیے ہوئے ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر بچے نے در در کی ٹھوکریں کھا کر چلنا سیکھا ہو تو اس کے وجود میں خود اعتمادی کی فضا قائم ہوتی ہے اور وہ زندگی بھر خوشحال رہتا ہے۔ 

اپنے وجود پر نظر ڈالیے‘ آپ کو اپنے اندر بہت سی ایسی باتیں مل جائیں گی کہ اگر آپ تنہائی میں بیٹھ کر ان پر غور کرنا شروع کر دیں تو آپ کو خود اپنے اوپر ہنسی آئے گی۔

ارے! اس قدر بچگانہ باتیں!

بس! یہی آپ کو علاج مل گیا‘ انہیں ختم کیجئے اور اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کیجئے۔ یقین جانیے یہ آپ کو زندگی میں ایک روشن مستقبل کی ضمانت دے دے گا۔

آپ اپنی ذات میں منفرد ہیں :

میں ایک ایسے شخص سے واقف ہوں جسے برف کے گالو ں کی فوٹو گرافی کا شوق ہے، اس کے پاس ہزاروں فوٹواکٹھے ہوچکے ہیں سب انتہائی خوبصورت ‘ متناسب اور جاذب نظر ہیں ۔لیکن کوئی ایک فوٹو بھی دوسرے سے ذرا سی مشابہت نہیں رکھتا ۔بعینہ یہی عمل انسانی زندگی میں جلوہ گرہے ۔

دو جڑواں بھائیوں تک میں مکمل مشابہت اور ہم آہنگی مفقود ہوتی ہے‘ آپ بھی اپنی ذات میں الگ ہیں‘ دوسروںسے مختلف ذہنی قابلیتیں لیکر پیدا ہوئی ہیں۔ آپ کی جسمانی صلاحیتیں بھی گردو بیش میں بسنے والے دوسرے لوگوں سے مختلف ہیں ۔

یاد رکھئے! آپ کی ذہانت‘ قابلیت اور دیگر صلاحیتیں آپ کی ذات تک محدود ہیں ۔دوسرا کوئی شخص ان کو استعمال نہیں کرسکتا‘ معاشرے کی فلاح و بہبود میں جو حصہ آپ کا ہے اسے آپ کو خود ادا کرنا ہے، کوئی دوسرا شخص آگے بڑھ کر اسے آپ کے لئے سرانجام نہیں دے گا۔

اس دنیا میں آپ کی پیدائش اور موجودگی ایک خاص مقصد اور فرض کی تکمیل کی خاطر عمل میں آئی ہے ، دوسروں کی نقل کر کے اپنے آپ کو ان کے سانچے میں ڈھال کر اپنی شخصیت اور ذات کو مسخ کرنے کی کوشش نہ کریں ‘ وگرنہ ہنس کی چال چل کر کوے کی طرح اپنی چال بھی بھول جائیں گی۔

آپ دوسروں سے کم تر نہیں :

آپ کو اپنے خیالات اور ذات میں اگر کبھی دوسروں کی نسبت کچھ فرق محسوس ہو تو اس کی وجہ یہ ہر گز نہ سمجھ لیجئے کہ آپ ان کے مقابلے میں کسی لحاظ سے کم تر ہیں ،یا ان جیسی لیاقت اور ذہانت نہیں رکھتیں،ایسے خیالات رکھنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ غیر  محسوس طور پر اپنے ذہن کی گہرائیوں میں ایک ایسے احساس جرم کی پرورش کرنے لگتی ہیں جو حقیقتاً آپ سے کبھی سرزد ہوا ہی نہیں ۔

اس طرز فکر کی جڑیں در اصل بچپن تک پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔ اگر والدین کا رویہ کسی بچے کے بارے میں انتہاء پسندانہ ہو یا وہ اس کے ساتھ فطری شفقت اور محبت سے پیش نہ آئیں تو بچے کے ذہن میں از خود ایک مجرمانہ احساس پیدا ہوجاتاہے۔وہ سمجھتاہے کہ میری ذات میں ضرور کوئی برائی ہے جس کی وجہ سے ماں مجھ سے پیار نہیں کرتی۔

رفتہ رفتہ وہ اپنے دلی جذبات کے برملا اظہار کی جرأت کھو بیٹھتاہے اور اپنی ذات کے محدود خول میں سمٹ کر کڑھنا شروع کردیتاہے ، عقل مند والدین اس کی نوبت نہیں آنے دیتے ‘اس سے آدمی کی شخصیت بری طرح متاثر ہوتی ہے اور اپنی فطری دل کشی اور جاذبیت کھو بیٹھتی ہے اور وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔

یہ صورت حال خاصی تشویش ناک ہے، لیکن یقین جانیئے جس طرح آپ کو پرانا لباس بدن سے اتار کر پھینکتے ہوئے کوئی تکلیف نہیں ہوتی یا ذرا سا بھی وقت صرف نہیں ہوتا ، ٹھیک اسی طرح اگر آ پ کوشش کریں تو آپ اس ذہنی قید سے پل بھر میںرہائی حاصل کرسکتی ہیں ۔

جب کبھی آپ کے ذہن میں اپنی کم تری یا کم مائیگی کے احساسات پیدا ہونے لگیں تو انہیں فوراً جھٹک دیں ۔اس مقصد کے لئے آپ کو اپنی پوری صلاحیتیں بروئے کار لانا پڑیں گی۔کیونکہ انسان جونہی ان فاسد خیالات سے پیچھا چھڑانے کے لئے کوئی عملی قدم اٹھانے کا ارادہ کرتاہے ان کی طرف سے مزاحمت شروع ہوجاتی ہے ۔اور یہ اپنے وجود کی بقاء کے لئے ایک خوفناک جنگ کا آغاز کرلیتے ہیں ۔

اس سے انسان کی شخصیت دو مختلف حصوں میں بٹ جاتی ہے ، جسم کا جو حصہ اب تک ان سے فائدہ حاصل کرتا رہا‘ وہ انہیں نکالنے پر آمادہ نہیں ہوتا ، یقین جانیئے… خیالات اور عادات میں کسی قسم کی نمایاں تبدیلی لانا ایک مضبوط دشمن کے خلاف اعلان جنگ کرنے سے کم نہیں ۔ لیکن ایک بار اگر انسان کو اپنی ذات کی صحیح قدر و قیمت اور اہمیت کا احساس ہوجائے تو پھر وہ ان کے مقابلے میں ڈٹ جاتاہے اور آخر کار سرخرو ہوتاہے۔

زندگی میں کئی ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ اچھے بھلے لوگ مایوسی ‘ بد دلی‘ اور پژمردگی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔اپنی ذات پر سے ان کا اعتماد اٹھ  جاتاہے، اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ خود اعتمادی سے ان کا سامنا کیجئے ‘اس امرکی کوئی پرواہ نہ کیجئے کہ اس کوشش میں آپ کے قدم کتنی بار لڑکھڑاتے ہیں ۔ثابت قدم رہیے اور اپنی ذات پر اعتماد کا نسخہ آزمایئے ۔

چند بار کے کامیاب تجربوں کے بعد آپ کو زندگی بھر کبھی اس کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post