مرد کا احترام: Mard Ka Ahtiram

 مرد کا احترام:

خاوند کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ میری بیوی میرے ساتھ نرم لہجے  میں بات کرے اور گھر کی مملکت میں میری سرپرستی کا اعتراف کرے ۔ چنانچہ صحابیات کے بارے میں آتاہے کہ جب وہ اپنے خاوند کی بات نقل کرتی تھیں تویوں کہتی تھیں :

حدثنی سیدی 

’’میرے سردار نے یوں کہا‘‘

ذرا سوچیئے! اگر صحابیات یہ لفظ استعمال کرسکتی ہیں تو کیا آج کی عورت ’’آپ‘‘ کے لفظ کو پلے نہیں باندھ سکتی ؟ 

عورت کے کردار سے متعلق اہم آیت:

ارشاد ربانی ہے:

{اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ وَاللاَّتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاھْجُرُ وْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلاَ  تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلاً اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا} (سور ۃ النساء:۳۴)

’’مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس واسطے کہ اللہ نے ایک کو ایک پر فضیلت دی ہے اور اس واسطے کہ انہوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں پھر جو عورتیں نیک ہیں وہ تابعدار ہیں ،مردوں کی پیٹھ پیچھے اللہ کی نگرانی میں(ان کے حقوق کی)حفاظت کرتی ہیں،اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا خطرہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور سونے میں جدا کر دو اور مارو،پھر اگر تمہارا کہا مان جائیں تو ان پر الزام لگانے کے لئے بہانے مت تلاش کرو ،بے شک اللہ سب سے اوپر بڑا ہے‘‘

مرد عورت پر نگران‘ حاکم اور اسے ادب سکھانے والا:

امام ابن کثیر ؒ  فرماتے ہیں:

’’مرد عورت پر نگران ہے، سردار اور حاکم ہے‘ اگر اس میں کوئی کمی آ جائے تو اس کی تربیت کرنے والا ہے‘‘۔

{بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ}

کیونکہ مرد عورتوں سے افضل ہیں اور مرد عورت سے بہتر ہیں، اسی وجہ سے نبوت مردوں کے لیے خاص ہے۔ اسی طرح سربراہ مملکت بھی صرف مرد ہی بن سکتا ہے، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

’’لن یفلح قوم ولوا امرھم امراۃ‘‘

’’وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتی جس کی نگران عورت ہو‘‘

{وَبِمَا اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ}

یعنی جو مہراور دیگر اخراجات مرد، عورت کے برداشت کرتا ہے‘ ان تمام باتوں کو ملحوظ رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مرد عورت سے افضل ہے۔ تو اسے اس پر نگران بنانا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

حضرت ابن عباسؓ  فرماتے ہیں:

’’مرد عورتوں کے امیراور حاکم ہیں۔ عورتوں کو چاہیے کہ وہ جس کا حکم دیں ان کی اطاعت کریں‘ اور مرد کی اطاعت و فرمانبرداری یہ ہے کہ وہ اس کی خیر خواہ اور اس کے مال کی محافظ ہو‘‘۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک عورت حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ اس کے خاوند نے اسے تھپڑ مارا ہے اور وہ اپنے خاوند سے بدلہ لینا چاہتی ہے، تو اللہ پاک نے یہ آیت نازل فرمائی:

{اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ}

تو وہ عورت بدلہ لیے بغیر واپس چلی گئی۔

آگے اللہ پاک نیک عورت کی صفات بیان فرما رہے ہیں:

{فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ}

حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ اپنے خاوند کی فرمانبردار ہوں۔

قانتات فرمایا مطیعات نہیں فرمایا:

غور کیجیے! اللہ پاک نے اس آیت میں لفظ قانتات استعمال فرمایا ہے، مطیعات بیان نہیں فرمایا۔ وجہ یہ ہے کہ قنوت کے معنی ہیں ایسی اطاعت جس کے ساتھ نافرمانی نہ ہو یعنی خالص اطاعت۔ 

تمام احکام کی فرمانی برداری کرنے والی۔

قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{اِنَّ اِبْرَاھِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حَنِیْفًا}

{یَا مَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ}

{وَصَدَّقَتْ بِکَلِمَاتِ رَبِّھَا وَکُتُبِہٖ وَکَانَتْ مِنَ الْقَانِتِیْنَ}

ان الفاظ پر غور کیجیے! یہ خاوند کی اطاعت کا کس قدر حکم دے رہے 

ہیں؟اللہ پاک عورت سے ایسی اطاعت کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ جس کے ہمراہ نافرمانی نہ ہو۔

Post a Comment

Previous Post Next Post