نئے مشغلے اپنایئے: Naye Mashgale Apnayie

 نئے مشغلے اپنایئے:

زندگی کو ترو تازہ اور شگفتہ رکھنے کی تمنا ہے تو نئے نئے اور دلچسپ مشاغل اختیار کیجئے۔ان سے زیادہ مفید اور کوئی کام نہیں، یہ آتشِ شوق کو ہوا دیتے ہیں اور انسان ہر وقت خوب سے خوب تر کی جستجو میں رہتاہے،پہلے تو یہ سوچیئے… آپ کا پسندیدہ مشغلہ کون سا ہے‘ جس کے شوقین ہونے کے باوجود ماضی میں اس کے لئے وقت نہ نکال سکی۔

پھر اسے بلا تاخیر شروع کر دیجئے اپنی مصروفیات ‘ عمر کی زیادتی یا تھکاوٹ کی آڑ لیکر ٹالنا مناسب نہیں ۔یقین جانیئے مشغلہ خواہ مصوری ہو یا سیرو سیاحت ‘کوئی کھیل ہو یا ٹکٹ اور اس کے جمع کرنا‘ اسے اختیار کر کے آپ بالکل نہیں پچھتائیں گی، اس کو اپنانے سے اکتاہٹ اور پژمردگی کے سوا اور کوئی چیز ضائع نہیں ہوتی۔

ڈاکٹر جان اے سنیڈ لر مشہور ماہر نفسیات ہیں انہوں نے اپنی کتاب ’’سال کے ۳۵۶ دن زندہ رہنا سیکھئے‘‘ میں لکھا ہے:

 مشغلہ زندگی کے معمولات میں تبدیلی لانے او ر تنوع پیدا کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے‘ اس کا مطلب ہے ‘نئے حالات ‘ نئے دوست ‘گفتگو کے نئے نئے موضوعات ‘ نئی کتابوں کا مطالعہ ‘ جسم کے نئے اعصاب اور پٹھوں کو استعمال کرنے کی کوشش اور نئی چیزوں کے حصول کے لئے اپنا روپیہ اور پیسہ خرچ کرنا… ان گو نا گوں دلچسپیوں کی وجہ سے انسان کی توجہ اپنی ذات ‘ مصائب‘ تکالیف‘ تنہائی اور مسائل سے ہٹ جاتی ہے اور اس کا ہر دن ولولہ انگیز اور نشاط آور ہوتا ہے۔ نیا مشغلہ اختیار کیجئے ان الفاظ کی صداقت عیاں ہوجائے گی۔

نئے کام سیکھے:

کسی روز ٹھنڈے دل سے اپنا جائزہ لیجئے… آپ پر انکشاف ہوگا ،دنیا میں کتنے ہی کام ایسے ہیں جن کے متعلق آپ کچھ نہیں جانتیں اور اگر جانتیں ہیں تو بہت کم ۔تجربہ تو محض صفر ہے ایسے کام سیکھئے ان کے متعلق  زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کیجئے، آپ دیکھیں گی کہ معلومات کے ساتھ ساتھ آپ کے شوق و تجسس کا جذبہ بھی بڑھتا جائے گا۔

نئے کام پر اگر کامل دسترس نہ ہوسکے ، تب بھی اس کوشش کا اتنا فائدہ ضرور ہوتاہے کہ یکسانیت کے عذاب سے نجات مل جاتی ہے اور آدمی اکتاہٹ کا شکار ہونے سے محفوظ رہتاہے۔

نئے مقامات کی سیر کیجئے:

ڈاکٹر ڈسمونڈ مورس کا کہنا ہے :

’’کام اور ماحول کی پیدا کردہ الجھنوں ‘اکتاہٹ اور بیزاری کے اثرات زائل کرنے کے لئے سفر کیجئے،اس سے انسان تازہ دم ہوجاتاہے‘‘ ذرائع مواصلات کی ترقی سے سفر بالکل آسان ہوگیا ہے، ساری دنیا سمٹ کر ایک شہر بن گئی ہے ،زمین تو زمین انسان چاند تک جا پہنچا ہے۔آپ کی رسائی چاند تک نہ سہی، اپنے ملک اور شہر کے مشہور اور تاریخی مقامات تک تو ہے۔ اپنی مصروفیات میں سے ان کے لئے بھی ایک آدھ دن نکالئے ،سال میں دو ایک مرتبہ انہیں دیکھنے اور سیر سپاٹا کرنے کا پروگرام بنایئے۔

سفر ہمیشہ خوشی اور تجربات میں اضافے کی خاطر کیجئے ، افراتفری کی صورت میں کریں گی تو بے چینی اور پریشانی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

مالی حالات اجازت دیں تو بیرونی ملکوں کی سیر بھی ضرور کیجئے ، سفر کے دوران میں منا ظر ‘ آب و ہوا اور حالات کی تبدیلی سے آپ کے جسم اور دل و دماغ میں روح پرور تبدیلیاں رونما ہوں گی۔

کچھ لوگ سفر سے کتراتے ہیں‘ ان کی ساری عمر گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر تک کی دوڑ میں کٹ جاتی ہے ۔زندگی کی دوسری دلچسپیوں سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔اپنے آپ سے اتنی بے گانگی اچھی نہیں، دور دراز کا سفر ممکن نہ ہو تو عجائب گھر یا آرٹ گیلری وغیرہ جیسے دلچسپ مقامات کی طرف نکل جایئے۔ 

بازار جانے کے لئے کوئی نیا راستہ ہی دریافت کر لیجئے ، تاکہ معمولات میں کچھ نہ کچھ تو تبدیلی اور تنوع پیدا ہو اور آپ مایوسی اور پژمردگی کا شکار ہونے سے محفوظ رہیں۔

کچھ وقت تفریح کے لیے بھی نکالئے: 

انسانی مزاج ایک کام کرتے کرتے تھک جاتا ہے۔ اسے کوئی اور کام اور مشغلہ اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

پیشہ وارانہ مشاغل کے علاوہ خوشگوار زندگی بسر کرنے کے لیے ایک اصول یہ بھی ہے کہ آپ کوئی کارآمد‘ مسحور کن تفریحی مشغلہ اپنالیجئے۔ اس سے آپ کو نت نئے تجربات حاصل ہوں گے۔ زندگی کا لطف اورمزہ بڑھتا جائے گا۔

آپ دن بھر کے گھریلو کام کاج سے جب اکتا جائیں تو اس مشغلے کو بطور تفریح اپنالیجئے۔ یہ یاد رکھیے! کہ اس کام کو آپ بطور تفریح ہی سر انجام دیں۔ اگر اسے معمول کے مطابق کام سمجھ کر اپنائیں گی تو بورگی میں اضافہ ہوگا۔

یاد رکھیے! بغیر تفریحی مشغلے کے ہمارا دماغ فرصت کے اوقات میں نہایت ہی ناخوشگوار جذبات کا سرچشمہ بن جاتا ہے۔ اور طرح طرح کے مصائب‘ پریشانیوں اور الجھنوں کو دعوت ملتی ہے۔

تفریحی مشغلہ آپ کی ذات کے ساتھ ہی صرف خاص نہیں ہوسکتا‘ بلکہ آپ دوسروں کے ساتھ بھی خاص کرسکتی ہیں۔ آپ گھر والوں کی اور دیگر بنی نوع انسانیت کی خدمت کے لیے بھی اپنے اوقات کو فارغ کرسکتی ہیں۔

لیکن یاد رکھیے! تفریحی مشغلہ ایسا اپنائیے جو آپ کے لیے مفید بھی ہو۔ آپ کے علم‘ تجربات اور استفادات میں اضافہ ہورہا ہو۔ خواہ وہ محض ذہنی عیاشی ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اس سے سبق حاصل کریں اور نتائج اخذ کریں۔

مطمئن رہنے کی کوشش کیجئے:

بلا کسی وجہ کے انسان کا اپنی زندگی سے غیر مطمئن رہنا دراصل مرض ہے۔ جس سے چھٹکارا حاصل کرنا زندگی کے عیش و آرام کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

نزاکت عورت کی فطرت ہے لیکن جب یہ حد سے بڑھ جاتی ہے یعنی افراط کا شکار ہوجاتی ہے تو یہ نزاکت اسے ہر وقت غیر مطمئن کئے رکھتی ہے۔ معمولی معمولی باتوں پر غیر معمولی اثر لے لینا آپ کو غیر مطمئن کردے گا۔

آج ساس نے کچھ کہہ دیا ‘پس اب محترمہ گھٹتی ہی جارہی ہیں‘ ’’مجھے میرے گھر میں تو کبھی کسی نے ایسا نہ کہا!‘‘

بسا اوقات یہ غیر اطمینانی کیفیت اس قدر دراز ہوتی ہے کہ انسان احساس کمتری کا شکار ہونے لگتا ہے۔ پھر کیا؟ ہر وقت کسی نہ کسی چیز کا خوف  سوار رہتا ہے اور زندگی مشکل ہوجاتی ہے۔

انسان پریشان ہوتا ہے کہ اسے کیا ہوا‘ حالانکہ یہ خود اس کی اپنی ہی کارستانیاں ہوتی ہیں۔

مسلمان کا ایمان یہ ہے کہ زندگی چند روزہ ہے‘ ایک مصیبت آتی ہے ‘ساتھ ہی دوسری منتظر رہتی ہے۔ مسلمان ان مصائب سے گھبراتا ہے۔ ایک ایک کرکے انہیں جھیلتا رہتا ہے۔ مصائب کو تو آنا ہی ہوتا ہے‘ چاہے آپ صبر کریں یا نہ کریں‘ اگر آپ نے اپنے آپ کو مطمئن کرنا سیکھ لیا تو ایک کے بعد دوسری اطمینانی کیفیت آتی رہے گی‘ مایوسی اور دل برداشتگی کا احساس ٹھنڈا پڑتا جائے گا۔ گویا اگر آپ نے احساس کو قابو میں کرلیا تو مصیبت اور تکلیف بھی قابو میں آسکتی ہے ۔

ع مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پہ کہ آساں ہوگئیں

Post a Comment

Previous Post Next Post