قناعت اختیا رکیجئے: Qanaat Ikhtiyar Kijiye

 قنا عت اختیا رکیجئے:

حضرت ابن عمرؓ  فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کندھے سے پکڑ کر فرمایا:

’’تم دنیا میں ایسے ہو جاؤ جیسے کوئی اجنبی ہو یا راستہ عبور کرنے والا‘‘

امام ابو حاتم  ؒ  فرماتے ہیں کہ اس حدیث مبارکہ میں جو یہ فرمایا گیا کہ اجنبی یا مسافر بن کر رہو ا س کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا کی زندگی میں قناعت اختیار کرنے کاحکم دیا ہے۔

وہ اس طرح کہ اجنبی اور مسافر دوسری جگہ پر نہ تو مالداری چاہتے ہیں اور نہ ہی اس مقام پر مستقل رہنا چاہتے ہیں ،بلکہ وہ تو تھوڑے بہت گزارے کے بقدر ہی سامان زندگی اکٹھا کرتے ہیں۔

حضرت اکثم ؒ فرماتے ہیں کہ جو آدمی ختم ہونے والی اور فانی چیز کی پرواہ نہ کرے ،وہ اپنے آپ کو استراحت دیتاہے اور جو تھوڑے پر راضی رہتا ہے اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہتی ہیں۔

ابن زنجی بغدادی کے اشعار ہیں:

اقول   للنفس  صبرا  عند  نا ئبۃ

فعسریومک موصول بیسرعند

ما  سرنی  ان   نفسی  غیر قانعۃ

وان ارزاق ہذاالخلق تحت یدی

’’مصیبت کے وقت میں اپنے نفس کو تسلی کے لئے کہتا ہوں کہ تیری آج کی مشکل کل کی آسانی سے ملی ہوئی ہے۔ مجھے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ میرا نفس قناعت پسند نہیں اور یہ کہ میرے ہاتھ میں اس ساری مخلوق کا رزق ہے‘‘

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ  فرماتے ہیں کہ چار چیزوں کا معاملہ طے ہو چکاہے:

۱۔پیدائش ۲۔اخلاق

۳۔رزق ۴۔موت

جب رزق کا معاملہ اللہ کے ہاں مقرر ہے تو اس میں بخل کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟

یاد رکھئے!اللہ پاک کی اپنے بندوں پر جو بڑی بڑی عنایات ہیں ان میں سے ایک قناعت بھی ہے ،رضا ء بالقضاء اور خدا کی تقسیم پر اعتماد سے بڑھ کر کوئی چیز آدمی کو راحت بخشنے والی نہیں۔

اگر قناعت میں اس کے سوا کوئی اچھی خصلت نہ ہوتی کہ اس میں آرام اور زیادہ رزق کے حصول کے لئے بری جگہوں میں داخل نہ ہونا مضمر ہے تو بھی عقلمند کے لئے ضروری تھا کہ وہ کسی بھی حال میں قناعت کو نہ چھوڑے۔

حضرت ابن مبارک ؒ فرماتے ہیں :

’’قناعت کی مروت اختیار کرنا عطا کرنے کی مروت سے بہتر ہے‘‘

امام ابو حاتم  ؒ فرماتے ہیں :

’’قناعت دل میں ہوتی ہے،جس کا دل غنی ہو تو اس کے ہاتھ بھی غنی ہو جائیں گے‘جس کا دل فقیر ہو اس کو مالداری سے کوئی فائدہ نہیں مل سکتا۔جو قناعت پسند ہوگا وہ مضطرب بھی نہ ہوگا،بلکہ اس کی زندگی پرسکون ہو گی۔اور جو قناعت پسند نہیں ہوگا اس کے ہاتھ سے جانے والی چیزوں کی انتہاء نہ ہوگی‘‘

جس آدمی کا نفس قناعت پسندی پر راضی نہ ہو او رپھر اس کے ساتھ ساتھ کچھ مال ومتاع لوگوں کے پاس دیکھ کر حسد بھی کرتا ہو تو یہ قناعت اور سخاوت نہ ہوگی بلکہ یہ عاجزی و محرومی کی علامت ہے ۔ایسے آدمی کی مثال اس گدھے کی سی ہے‘جوبوجھ ہلکا ہونے کی صورت میں تو اونچی جگہوں پر چڑھ جاتاہے ہو،اور مالک کو دوسرے طاقتور اور زیادہ بوجھ اٹھانے والے گدھے کو ترجیح دیتا دیکھ کررنجیدہ ہو جاتاہو۔

یاد رکھئے!قناعت پسندی سے آدمی کا دل اور جسم دونوں پر سکون رہتے ہیں اور برا آدمی دل اور جسم دونوں اعتبار سے اضطراب میں رہتا ہے،اچھا آدمی نفسیاتی اعتبار سے زیادہ صبر کرنے والا اور کمینہ آدمی جسمانی اعتبار سے زیادہ صبر والا ہوتاہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post