سادگی اپنائیے: Sadagi Kya Hai

 سادگی اپنائیے:

زندگی میں سادگی کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ مزاج میں سادگی ہو تو انسان ہر ماحول میں اپنے آپ کو ضم کرلیتا ہے‘ اسے کسی طرح کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

سادگی کیا ہے؟

اپنی خواہشات کو غیر معمولی طریقے سے انجام دینے کی عادت چھوڑ دیجئے۔ آپ کی زندگی سادگی کا نمونہ بن جائے گی۔

کہتے ہیں کہ اگر عورت سادگی اختیار کرلے تو سارا معاشرہ سادگی والا بن جاتا ہے۔ کائنات کی ہر چیز میں سادگی دکھائی دینے لگتی ہے۔ زندگی سے تکلف نکل جاتا ہے۔

لیکن اگر عورت ہی سادگی کو لات مار دے تو بے چارے مردوں کو ان کے سامان آرائش و زیبائش کے حصول کے لیے جس قسم کی تگ و دو کرنی پڑتی ہے‘ خدا ہی جانے!

آپ کو زندگی میں جو چیز بھی سادگی کے ساتھ آسانی سے میسر ہوجائے اس کو فوراً قبول کرلیجئے‘ زیادہ لمبے جھگڑوں میں نہ پڑیے۔ آپ کی سادگی کی عادت نہ اپنانے کی وجہ سے آپ کے شوہر نامدار کو زیادہ دولت کمانے اور بے سود امور میں پڑنے اور سر کھپانے کی ضرورت پڑے گی۔

وہ بے چارہ آپ کے سکون و اطمینان کی خاطر گھر بار کو خیر آباد کہے گا اور پھر آپ کو ایک نئے نکتہ اعتراض کا موقع مل جائے گا۔

’’میرے میاں! گھر کو وقت کم دیتے ہیں!‘‘

پہلی نظر اپنے میاں کی جیب پر ڈالئے۔ اگر ان کی جیب اجازت دیتی ہے تو ضرور فرمائش کردیجئے ،آپ کی محبت و چاہت میں سرشار ہوکر انہیں آپ کی خواہش کی تکمیل عجیب لطف و راحت دے گی۔

لیکن اگر بات ایسی نہیں‘ تو اس خواہش کو وہیں دبا دیجئے‘ ابھرنے نہ دیجئے یہ نقصان دہ ہوجائے گی۔

ایک نظر امہات المومنین کی سیرت پر ڈالیے‘ انہوں نے اپنی خواہشات کو کس طرح قربان کیا‘ اسلام کی خاطر کس قسم کی قربانیاں دیں۔ کیا آپ معمولی قربانی بھی نہیں دے سکتیں؟

یہ ہستیاں آپ کی زندگی کے لیے مشکل راہ ہیں۔ اخروی نجات کا ذریعہ انہی کے نقش پاہیں… پھر یہ کوتاہی کیسی؟

بھلا سادگی اپنا کر زندگی کا مزہ نہیں؟

تو ان سے پوچھئے! جن کی سادگی انہیں لطف دیتی ہے۔

خود آزاری سے پرہیز کیجئے:

خود آزاری‘ خودکشی کے مترادف ہے۔ یہ خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ بھلا یہ کہاں کی عقل مندی ہے؟

دنیا میں جو لوگ بھی اپنی زبوں حالی کا رونا روتے ہیں ان سے پوچھ کر دیکھ لیجئے۔ سب اسی چکر میں بری طرح پھنسے ہوئے نظر آئیں گے۔

بے چارے ہر وقت اپنی محرومی کا رونا روتے دکھائی دیں گے ،ہر وقت اور ہر لمحہ یہ سوچتے رہیں گے کہ کبھی ان پر کوئی نئی مصیبت اور بلا نازل ہونے والی ہے۔

مشاہدہ کرکے دیکھ لیجئے!

آپ اگر کسی قوت بالکل تروتازہ ہوں‘ آپ تصور کرنا شروع کریں کہ آپ کے سر میں درد ہے‘ جسم ٹوٹ رہا ہے۔ منہ بسورناشروع کردیں‘ جسم کو ڈھیلا کردیں۔

چند ثانیے بعد آپ محسوس کریں گی کہ واقعتا آپ کا جسم درد سے ٹوٹ رہا ہے۔ آپ کے جسم میں فتور آرہا ہے۔

لیکن اس کے برعکس اگر آپ کے جسم میں واقعتا ہلکی پھلکی درد سی اٹھ رہی ہے‘ آپ اسے نظر انداز کردیں اور اپنے آپ کو تروتازہ اور فریش  تصور کریں‘ ذہین کو تسلی دیں کہ آپ بالکل ٹھیک ہیںاور درد کے آثار جاچکے ہیں۔ معمول کے مطابق اپنی توجہ گھر کے کام کاج کی طرف مشغول کردیں۔

آپ محسوس کریں گی کہ درد واقعتاً ختم ہورہا ہے۔ زندگی میں دوبارہ نئی روح پھونکی جارہی ہے۔

آپ اپنے طور پر اپنے ذہن کو اطمینان کرادیں‘ آپ بالکل تندرست اور صحت مند ہیں۔ سال میں ایک دو بار ڈاکٹر کو اپنا مکمل چیک اپ کروائیں اور تسلی کرلیں کہ آپ کو کوئی تکلیف نہیں۔

اگر بالفرض کبھی کوئی شک و شبہ پیدا ہوتا ہے تو دوبارہ اسی ڈاکٹر کے پاس جائیے‘ چیک اپ کروا کر تسلی کیجئے‘ اگر آپ کا شک واقعتاً بے بنیاد ہے تو اس شک کو وہیں دور کردیجئے۔ اسے طول مت دیجئے۔

اس بار آپ کو زیادہ راحت محسوس ہوگی اور آپ ایک نئی تروتازگی محسوس کریں گی۔ پس یہی زندگی کا بہترین نسخہ ہے اسی کو اپنائے رکھئے‘ اللہ آپ کامحافظ و نگہبان ہو!

مشاغل سے دلچسپی رکھیے:

اللہ پاک نے اس کائنات میں ہر آدمی کے ذمے کوئی نہ کوئی کام لگایا ہے‘ جو اسی کو کرنا ہے‘ جس طرح موت سے کسی کو مفر نہیں اس طرح مشاغل دنیویہ سے بھی کسی کو مفر نہیں۔

آپ نے اپنی ذمہ داری کو ہر حال میں نبھانا ہے‘ اب اگر آپ اپنی ذمہ داری اور مشغلے کو پسند کرنا شروع کردیں تو یہ پسندیدگی آپ کو ایک نیا ذوق دے گی اورہر کام کرنے میں ایک نیا ولولہ پیدا ہوگا۔

آپ شوق شوق میں ہر کام کرگزریں گی اور آپ کوپتہ بھی نہیں چلے گا‘ عین ممکن ہے کہ آپ کو تھکاوٹ بھی کم ہو۔

لیکن اگر آپ اپنے کام اور مشغلے کو اپنے کندھے پر بوجھ محسوس کریں تو یاد رکھیے! کام تو آپ کی ذمہ داری ہے اور اسے آپ کو کرناہی ہے؟ لیکن اب کی بار آپ کو یہ کام کرتے ہوئے کوفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کام کے بعد آپ کو تکان بھی کافی محسوس ہوگی۔

جس کام سے آپ کودلچسپی ہے، اسے لے کردھن اور دھیان سے انجام دیں وہ ان شاء اللہ آسان اور نفع بخش ہوجائے گا۔ اس میں برکت بھی ہوگی اور ترقی بھی۔ اور کام بھی قابل اطمینان ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ذہنی پریشانیوں سے بھی بچائے گا۔

محنت کی عادت ڈالیے‘ یہ آپ کوچست بھی رکھے گی اور دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت بھی دے گی۔ یاد رکھیے! وہی اقوام عالم میں ترقی کرتی اور کامیاب ہوتی ہیں جو اپنا حوصلہ بلند رکھتی ہیں‘ کاہل اور سست قومیں غلام‘ پسماندہ اور ذلیل سمجھی جاتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کام کے اندر پسندیدگی اور ناپسندیدگی کا جذبہ کیسے پیدا کیا جائے؟ اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ اپنے ذہن کو اس کی پسندیدگی کے بارے ترغیبات دینا شروع کردیں۔ ذہن کو اس کام پر اکسائیں یہ آپ کے پورے وجود کو اس کام پر آمادہ کردے گا۔

ذہن میں اس بات کو بار بار دہرائیے کہ اگر دوسرے لوگ ہر کام خندہ پیشانی سے کرسکتے ہیں تو میں کیوں نہیں کرسکتی۔ ان شاء اللہ میں ضرور کروں گی اور ان سے بہتر طور پر کروں گی۔

یہی جذبہ آپ کی کام سے دلچسپی بڑھائے گا اور آپ کی کام میں مستعدی اور چستی بڑھ جائے گی۔ کام کرکے آپ خود اطمینان حاصل کریں گی۔ کام سے اکتانے کی بجائے آپ خود محنت کی دعوت دینے والی بن جائیں گی۔

طاقت ‘صلاحیت اور کارکردگی کا آپ سرچشمہ بن جائیں گی۔ اگر یہی اوصاف نہ ہوتے تو آپ اپنے آپ کو بیمار محسوس کرنے لگتیں۔

یہ بھی یاد رکھیے کہ!

’’بے سود فکر و تشویش بیماری پیدا کرتی ہے‘‘

یعنی بلاوجہ سوچنا اور بیماری لازم و ملزوم ہیں۔ بیماری کا علاج یہی ہے کہ انسان کام میں لگ جائے‘ اس سے تمام ذہنی بیماریوںسے تحفظ ملتا ہے۔

جو کام کیجئے‘ دھن اور دھیان سے کیجئے۔ دلچسپی‘ ذوق اور شوق سے کیجئے‘ آپ کو مشقت والے کام میں بھی لطف محسوس ہوگا۔ جسمانی نشاط بڑھے گا۔ ہر لمحے چستی میں اضافہ ہوگا۔

کام لو ؛ورنہ واپس دے دو!

مشہور مفکرڈاکٹر مارڈن نے اپنی کتاب ’’زندگی اور عمل‘‘ میں لکھا ہے : 

’’کام لو ورنہ واپس دے دو ! قدرت کا یہ قانون دماغی خلیات پر بھی حاوی ہے اور جسم کی ان کوٹھریوں پر بھی جو کامیابی کی صفات مثلاً محنت‘ہمت اور ابتدائے کار کی مالک ہیں۔قدرت وہ چیز ہم سے واپس لے لیا کرتی ہے جسے ہم استعمال نہیں کرتے‘کام میں نہیں لاتے۔

ہم اسی چیز کو اپنے قبضے میں رکھ سکتے ہیں جسے ہم ہمیشہ کام میں لاتے رہیں ۔اپنے بازؤں کو کئی مہینے حرکت نہ دو‘ نتیجہ کیا ہوگا ؟… یہی  نا … کہ گوشت کا اکثر حصہ گل جائے گا ‘ ہڈیاں باقی رہ جائیں گی۔اسی طرح دماغ کے خلیات کو کاہلی اور جمود کی عادت ڈال دو ‘دماغ کی کوٹھریاں سکڑ جائیں گی اور ذہنی قویٰ میں انحطاط رو نما ہوگا اور نکمے ہوجائیں گے۔

اس لئے زندگی کی کسی منزل ‘ کسی موڑ پر قدرت کا یہ قانون نہ بھولئے … ’’ کام لو ؛ ورنہ واپس دے دو‘‘ ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post