شادی کے بعد تعلق مع اللہ Shadi Ke Baad Talluq Ma Allah

 شادی کے بعد تعلق مع اللہ:

شادی کے بعد عورت کی عبادات میں بھی اس کے خاوند کا ایک کردار ہوتا ہے اور وہ اس کی عبادات میں مؤثر ہوتا ہے۔ ذیل میں ہم آپ کے لیے چند قواعد اس سلسلے میں لکھ رہے ہیں:

  1:

خاوند کی اطاعت کا مرتبہ اللہ اور رسول کی اطاعت کے بعد ہے کیونکہ آپ جو اس کی اطاعت کر رہی ہیں وہ اسی وجہ سے کر رہی ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے۔ لہٰذا یاد رکھیے!اللہ کی نافرمانی کر کے اس کی کوئی اطاعت معتبر نہیں۔

  2

آپ کا خاوند آپ کا استاد ہے‘ اس گھر میں وہی آپ کا سردار اور حاکم ہے اور شرعی مسائل کے لیے اگر آپ براہِ راست کسی سے رابطہ نہ کر سکیں‘ توآپ انہی سے کہیے‘ وہ یا تو خود جانتے ہوں تو آپ کی رہنمائی کریں ورنہ کسی عالم یا مفتی سے پوچھ کر آپ کی رہنمائی کریں‘ دونوں صورتوں میں ذمہ داری ان پر ہو گی آپ کا کام اس مسئلے میں ان کی اتباع ہو گا۔

  3

اگر کسی مسئلے سے آپ بھی واقف ہوں اور وہ بھی اور آپ دونوں کا اختلاف ہو جائے تو پھر انہی کے ذریعے یا اپنے کسی محرم کے ذریعے کسی عالم سے پتہ لگوایئے اور اس پر عمل کیجیے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو ان کی بات کو ہی لیجیے اور ذمہ داری ان پر چھوڑ دیجئے۔

  4

اللہ پاک نے آپ کو جو علم عطا کیا ہے اس کی وجہ سے ان پر فخر مت جتایئے‘ اور نہ ہی اپنی کسی ایسی عبادت کے ذریعے جس پر آپ ان سے زیادہ مستعد ہوں‘ ہمیشہ اپنے مرتبہ کو ملحوظ رکھیے‘ کیونکہ ممکن ہے کہ آپ فضل و کمال میں حاکم سے بڑھ جائیں لیکن آپ کی یہ بڑائی اسے پسند نہ آئے۔

  5

اگر وہ آپ کو کوئی حکم دیں جو آپ کی نظر میں درست نہیں اور آپ کے پاس اس پر کوئی ٹھوس دلیل بھی نہ ہو اور اتنا موقع بھی نہیں کہ آپ کسی عالم سے رجوع کر سکیں‘ جبکہ آپ کا خاوند اسے جائز یا مباح سمجھتا ہو تو آپ ان کی مان لیجیے یا مفاہمت کی کوشش کیجیے۔

  6

ان کا کوئی کام اگر خلاف شریعت ہو تو جب تک آپ کے پاس اس کے  بارے میں کوئی واضح دلیل موجود نہ ہو اس وقت تک اعراض کیجیے۔ جب شرعی دلیل آ جائے تو پھر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دیجئے۔ لیکن یاد رکھیے! آپ اپنے خاوند کے سامنے نہی عن المنکر کا دوسرا اور تیسرا درجہ ہی استعمال کر سکتی ہیں یعنی زبانی یا دل کے ذریعے۔

  7

خاوند کی رضا اور اس کے حقوق نفلی عبادت پر مقدم ہیں۔ نفل نماز‘ فرض نمازوں کی حد سے زیادہ طوالت‘ نفل روزے‘ تلاوت قرآن‘ علمی کتب کا مطالعہ‘ تدریس قرآن‘ حصول علم کے لیے جانا‘ علماء کی علمی مجالس میں حاضری‘ سہیلیوں سے ملاقات وغیرہ اگر ایسی باتیں خاوند کی کسی ادنیٰ مصلحت سے ٹکراتی ہوں ‘ یا اس کے واجب حقوق میں سے کسی حق میں نقصان کا باعث ہوں تو انہیں ایک جانب رکھ دیجئے اور اس کے حقوق کی ادائیگی میں لگ جایئے جو کہ واجب ہیں۔ ہاں اگر وہ اپنے حقوق سے دستبردار ہو اور آپ کی بھلائی انہی کاموں میں خیال کر کے آپ کو اجازت دے تو جائز ہے۔

اگر کوئی امور ایسے ہوں جن کی ادائیگی آپ پر فرض ہے لیکن وقت متعین نہیں۔ جیسے اگر آپ کے رمضان کے روزے چھوٹ گئے ہوں تو ان کی ادائیگی میں بھی اجازت ضروری ہے۔

حضرت عائشہؓ  فرماتی ہیں میرے اگر رمضان کے روزے رہ جاتے تو میں انہیں صرف شعبان ہی میں رکھ سکتی تھی‘ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کا پاس رکھتے ہوئے۔ (رواہ البخاری و مسلم)

اس کے علاوہ بھی بیشتر دلائل موجود ہیں۔ طوالت کے پیش نظر انہیں چھوڑاجارہاہے۔

  

8

اگر خاوند کسی مصلحت ِذاتی کے پیش نظر آپ کو اپنے اعزہ و اقربا ء سے ملنے نہیں دیتا تو آپ صرف اسی حد تک صلہ رحمی کر سکتی ہیں جس سے اس کے حقوق پر فرق نہ پڑے۔ جیسے انہیں خط لکھ دیجئے‘ فون کر دیجئے اور ملاقات کی خواہش کا اظہار کر دیجئے۔

بقیہ ذمہ اری خاوند پر چھوڑ دیجئے۔

  9

ممکن ہے کہ شادی سے قبل آپ کی عبادت و ریاضت کا جو طریقہ ہو وہ اب شادی کے بعد گھر کی ذمہ داریاں اور شوہر کے حقوق کی ادائیگی کی وجہ سے کم ہو گیا ہو‘ آپ کے اعمال میں کچھ کمی آ گئی ہو تو یاد رکھیے! کہ مانا اعمال کی کثرت ہی مفید اور معتبر ہے لیکن آپ یہ دیکھئے کہ آپ یوں بھی کس قدر اجر کما رہی ہیں۔

خاوند کی اطاعت و فرمانبرداری کر کے اور اس کے حقوق کی ادائیگی کر کے آپ جو اجر کما رہی ہیں ممکن ہے وہ اس ریاضت سے بڑھ کر ہو۔ آپ یہ سوچئے کہ آپ کی شادی نے آپ کے لیے اجر حاصل کرنے کے نئے مواقع پیدا کر دیئے ہیں۔ لیکن اگر آپ عبادت و ریاضت بھی کر سکیں اور خاوند کے حقوق کی ادائیگی تو بہت بہتر…!

  10

نکاح‘ طلاق‘ عدت‘ ایلاء‘ ظہار‘ ولادت‘ حیض اور نفاس کے احکامات کا جاننا آپ کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہاں ہم انہیں بیان نہیں کر سکتے‘ ہاں البتہ اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ آپ علماء کی ان کتب سے ضرور استفادہ کریں جو اس معاملے میں مستند بھی ہیں اور مفید بھی۔

Post a Comment

Previous Post Next Post