خاوند کو دعاؤں کے ساتھ رخصت کیجئے : Shohar Ko Duaon Ke Sath Rukhsat Kijiye

 خاوند کو دعاؤں کے ساتھ رخصت کیجئے :

جب بھی خاوندگھر سے رخصت ہونے لگے اس کو ہمیشہ دعاؤں کے ساتھ الوداع کہئے ‘فی امان اللہ کہئے ‘جیسے ہماری بڑی عورتیں پہلے وقتوں میں اپنے میاں کو کہا کرتی تھیں‘ان کی بات کتنی پیار ی ہوا کرتی تھی:

’’میری امان اللہ کے حوالے !‘‘

جب آپ نے اپنی امانت اللہ کے حوالے کردی تو اللہ تعالی محافظ ہے ‘وہ آپ کی امانت کی حفاظت کرے گا۔ ذرا سوچیئے! آج کتنی عورتیں ہیں جو خاوند کو گھر سے نکلتے ہوئے ان الفاظ کے ساتھ رخصت کرتی ہیں ؟

یقینا بہت کم …!

چونکہ نہیں کہتیں اسی لیئے ان کے خاوندوں کی حفاظت بھی نہیں ہوتی ۔ پھر روتی ہیں کہ خاوند باہر جاتے ہیں تو ان کو باہر زیادہ دلچسپی ہوتی ہے ۔

دیکھئے!آپ نے تو اپنی امانت اللہ کے حوالے ہی نہیں کی اب آپ اللہ سے کیا توقع رکھتی ہیں؟ 

عرب عورتوں سے ایک مرتبہ سوال پوچھا گیا کہ آپ اپنے خاوند کو الوداع  کرتے ہوئے کیا کہتی ہیں تو مختلف عورتوں نے اپنے مختلف الفاظ بیان کئے ۔

ایک کہنے لگی کہ میں تو یوں کہتی ہوں ’’فی امان اللہ‘فی جواراللہ‘‘ 

دوسری نے کہا میں تو کہتی ہوں 

’’یارب اعدہ لی سریعا وسلیما‘‘

’’ اے اللہ ! ان کو جلدی سلامتی کے ساتھ واپس لوٹا دینا ‘‘

ایک نے کہا ‘ میں تو یوں کہتی ہوں 

’’ یا رب احفظہ لی انہ زوج مثالی واب لا یعود لاطفالی‘‘

’’ اے اللہ ان کی حفاظت کرنا یہ میرے مثالی خاوند ہیں اور میرے بچوں کے ایسے باپ ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں ‘‘

ایک نے کہاکہ میں تو اپنے خاوند کو الوداع کہتے ہوئے یوں کہتی ہوں 

’’ھل سیعود لی ثانیۃ ‘‘

’’ایسا مکھڑا دوبارہ دیکھنے کی مجھے کب سعادت ملے گی ‘‘

ایک نے کہا میں تو کہتی ہوں

’’اتق اللہ فینا ولا تطعمنا الا حلالا‘‘

’’اللہ سے ڈریئے گا اور ہمیں وہی لاکر دیجئے گا جو حلال ہو‘‘

سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا ہماری عورتیں بھی اس قسم کا کوئی Message  اپنے خاوند کو دیتی ہیں ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کو تو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ خاوند کب تیار ہوکر چلا گیا اور کب گھر میں آگیا ۔

یاد رکھئے! جب اپنوں سے کوئی قصور ہوتاہے تو اس میں کچھ نہ کچھ اپنا بھی قصور ہوتاہے ‘اگر خاوند آپ کی طرف توجہ نہیں کرتا تو اس کا مطلب ہے کہ کچھ نہ کچھ قصور تو آپ کا بھی ہے مانا کہ خاوند کا قصور زیادہ ہے مگر آپ کا بھی ہے اگر چہ تھوڑا ہی سہی …! 

ان کا استقبال کیجئے!

خاوند کی گھر آمد کے موقع پر آپ کا ان کا استقبال کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ رشتہ زوجیت میں اس کی اہمیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا۔

جس وقت خاوند گھر میں آئے تو اسے آپ سامنے دکھائی دیں‘ آپ کا گرمجوش استقبال زندگی میں خوشگواری کی ایک نئی کونپل اُگا دیتا ہے۔

آپ کا یہ استقبال ایک فرحت بخش مسکراہٹ کے ساتھ ہونا چاہیے ‘جس  سے معلوم ہو کہ آپ ان کے انتظار میں کس قدر مضطرب اور پریشان تھیں اور ملاقات کی کس قدر مشتاق تھیں۔

اس سلسلے میں ان کی آمد کے وقت کا خاص خیال رکھیے۔ ان کی آمد سے قبل ہی اپنے آپ کو تیار کر لیجئے‘ بالکل اسی طرح جس طرح کہ آپ کو کسی تقریب میں شریک ہونا ہو کیونکہ آپ کی اصل زیب و زینت کا محور آپ کا خاوند ہی تو ہے۔

مرد اپنے روز مرہ ضروری کام‘ محنت مزدوری سے فارغ ہوکر‘ ٹریفک کی بھیڑ ‘اور چیکنگ کرنے والوں کی بھتات سے تھکا ماندہ اپنے گھر کو واپس آتا ہے، وہ تو اسی لئے گھر آتا ہے کہ اپنے خاص گھر میں اپنے دل و جان کو سکون دے سکے ‘ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مل بیٹھ کر سعادت حاصل کرے‘ دل کی وحشت دور کرے۔

جب خاوند اپنے گھر واپس آتاہے تو ایمان والی نیک بیوی جو خوشی خوشی محبت بھری آنکھوں کے ساتھ اس کا استقبال کرتی ہے اس کے کیا کہنے ! 

بعض بد بخت عورتیں اپنے خاوند کے گھر آنے کے وقت گھر میں موجود ہی نہیں ہوتیں ،جب اس کا خاوند اس کو گھر میں غیر موجود پاتاہے‘ چاہے وہ اپنا کوئی کام کرنے کے لئے ہی گئی ہو ‘ یا وہ کسی کام میں مصروف ہو ‘ یا اپنے ہمسائے کے گھر گئی ہو‘ یا اپنی کسی سہیلی کے گھر گئی ہو ‘ یا اپنے ماں باپ کے گھر گئی ہو ‘ ان میں سے کوئی بھی صورت ہو عورت کی یہ حرکت خاوند کے دل میں ایک برا اثر چھوڑ دیتی ہے ۔

حالانکہ اس کا خاوند اپنے دل میں اپنی بیوی کے بارے میں یہ امنگ اور آرزو لیکر گھر آیا تھا کہ وہ اس کی طبعیت کے لئے سکون کا ذریعہ بنے گی اور دن بھر کے مصائب و پریشانیاں اس سے دور ہوجائیں گی‘ اور یہ سکون ایسا ہے جس میں امن ‘ راحت‘ اور اطمینان قلب مضمر ہے ۔  

ہاں کبھی ایسا ہوتاہے کہ بیوی خاوند کی آمد کے وقت گھر میں موجود تو ہوتی ہے لیکن اس کا اچھی طرح استقبال نہیں کرتی ‘اور اس سے رو گردانی کرتی ہے ‘ اس کے آنے کا خاص اہتمام نہیں کرتی اور اس کی طرف توجہ ہی نہیں کرتی‘ بلکہ اس کی طرف دھیان کرنے کے بجائے اپنے ہی کسی دوسرے کام میں مصروف ہوجاتی ہے اور کبھی معاملہ اس سے بھی بری حد تک دور جا پہنچتاہے ‘وہ یہ کہ عورت اپنے خاوند کا استقبال اور ہی طریقے سے کرتی ہے وہ کیسا استقبال ہے؟ وہ ایک انوکھا استقبال ہے … وہ یہ کہ چیخ و پکار‘ شکوہ اور شکایت‘ شور و غوغا‘ تنگی  دل‘ زچ ہونا‘ تیوری چڑھانا‘اور غصے والا چہرہ… جیسے کوئی بہت ہی غضبناک اور خون کا بدلہ لینے کے لئے استقبال و انتظار کر رہا ہو ۔

یہ ایسا استقبال ہے جو خاوند کو یہ تمنا و آرزو کرنے میں مجبور کر دیتاہے کہ وہ جہاں سے آیا ہے وہیں واپس چلا جائے ۔ 

آیئے! ہم آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیات کے واقعات میں سے ایک واقعہ سناتے ہیں‘ تاکہ ہمیں اندازہ ہو کہ وہ اپنے خاوندوں کا کس قدر اچھا استقبال کیا کرتی تھیں۔

چنانچہ مروی ہے کہ جلیل القدر صحابیہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنھا - حضرت ابو طلحہ کی بیوی اور حضرت انس کی والدہ -کا بچہ فوت ہوگیا جب حضرت ابو طلحہ سفر پر گئے تھے تو بچہ بیمار تھا‘ واپسی پر بیوی سے پوچھا کہ بچے کا کیا حال ہے؟ تو ام سلیم ؓ نے خود ان کو اس بچے کی موت کی خبر نہ سنائی بلکہ کہا کہ بچہ پہلے سے زیادہ سکون میں ہے‘ پھر نیک بیوی نے اپنے خاوند کی خدمت میں شام کا کھانا پیش کیا تو انہوں نے کھا لیا‘ پھر رات کے وقت انہوں نے حقوق زوجیت بھی ادا کئے‘جب فارغ ہوئے تو نیک بیوی ان سے مخاطب ہوکر ایک سوال کرتی ہے کہ اگر کسی نے کسی سے کوئی چیز ادھار مانگی ہو پھر جب تک اللہ نے چاہا ان کے پاس رہی ہو اور جب چیز کے مالک نے اپنی چیز کی واپسی کا مطالبہ کیا ہو تو کیا اس کو یہ حق ہے کہ وہ دینے سے انکار کردے ؟ اور جب اصلی مالک اپنی وہ چیز قبضے میں کرلے تو کیا واپس کرنے والے کے لئے مناسب ہے کہ وہ اس پر جزع فزع کرے ؟

تو اس پر ابو طلحہ نے کہا: نہیں …!

یہ جواب سن کر نیک بیوی نے کہا کہ آپ کا بیٹا بھی دنیا سے چلا گیا ہے ‘ابو طلحہ نے پوچھا کہ وہ کدھر ہے؟

ام سلیم ؓ نے کہا کہ وہ اس کوٹھڑی میں ہے ۔

ابو طلحہ نے اس کا چہرہ دیکھا اور ’’انا للہ وانا الیہ راجعون ‘‘ پڑھا۔

جب صبح ہوئی تو ابو طلحہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر اپنی بیوی کی بات بتائی ۔تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اللہ کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے ‘اس عورت کے اپنے بچے پر صبر کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی نے اس کے پیٹ میں ایک اور بچہ پیدا کردیا ہے ‘‘

حضرت سفیان کہتے ہیں کہ انصار کے ایک شخص نے مجھے بتایا کہ میں  نے اس عورت کے پاس نو بچے دیکھے اور سب کے سب قرآن مجید کے قاری تھے۔

قربان جایئے ! ام سلیمؓ کی دانائی پہ …ان کی دانائی اور سمجھ داری کس قدر وسیع اور بلند تھی‘ کسی مرد کے لئے بھی اس خبر سے بڑھ کر کوئی اور اندوہ ناک خبر ہوگی کہ اس کو اس کے لخت جگر کی موت کی خبر دی جائے‘ ایسی خبر سے باپ پر کیا گزرتی ہے اور اسے کتنا بڑا صدمہ پہنچتاہے لیکن قربان جایئے کہ ایسی ہولناک اور گھبراہٹ میں ڈال دینے والی خبر میں بھی رضا وتسلیم کے ساتھ اپنے خاوند کا استقبال ہورہا ہے۔

اس میں ساری کی ساری خوبی اور فضیلت کس کے لئے ہے؟ یقینا یہ نیک بیوی ام سلیمؓ کے لئے ہی ہے ۔

دیکھئے تو سہی! جب نیک خاوند نے سب سے پہلا سوال اپنے پیارے بیٹے کے بارے میں کیا کہ اس کا کیا حال ہے تو کیا ان کی نیک بیوی فورًا یہ کہہ دیتی کہ وہ فوت ہوگیا ہے ۔نہیں… بلکہ سمجھ دار اور دانا بیوی نے اپنے خاوند کو غم میں ڈالنے والی خبر ہر گز نہ دی،کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ میرا خاوند تھکاوٹ اور پریشانی کے عالم میں گھر آیا ہے اگر انہیں ایسی اندوہ ناک خبر سنائی گئی تو ان کی پریشانی دو بھر ہوجائے گی ۔

پھر اس نیک بیوی نے اس وقت غلط بیانی سے بھی کام نہیں لیا بلکہ کہا کہ وہ بچہ پہلے سے زیادہ سکون میں ہے اس میں خاوند کو اپنے بیٹے کے بارے میں تسلی بھی ہے اور غلط بیانی بھی نہیں‘ کیونکہ وہ بچہ موت کی وجہ سے واقعتا سکون میں ہو چکاتھا ۔

پھر وہ سمجھ دار بیوی اپنے خاوند کو اس کے بچے کی موت کی خبر دینے سے پہلے شام کا کھانا کھلاتی ہے کیونکہ اگر وہ کھانے سے پہلے خبر دے دیتیں تو عین ممکن تھا کہ پریشانی کے عالم میں وہ کھانا بھی نہ کھاتے ۔

پھر انہیں حقوق زوجیت ادا کرنے کا بھی موقع دیتی ہیں …اب وہ سمجھتی ہیں کہ میرے خاوند اس قابل ہوگئے ہیں کہ وہ غم اور رنج والی خبر سن سکیں۔ اسی پر بس نہیں …بلکہ خطرناک خبر دینے سے پہلے وہ ایک عجیب مقدمہ اور تمہید باندھتی ہیں کہ جسے ابو طلحہ دل و جا ن سے قبول اور تسلیم کرتے ہیں اور اس پر ان کا پورا ایمان و یقین بھی ہے ‘کیونکہ یہ اصل میں اللہ تعالی کی قضا و قدر کو تسلیم کرنے کی ایک تمہید ہے ،وہ یہ کہ ان کا بچہ ان کے پاس اللہ کی ایک امانت تھی ‘اللہ نے اس امانت کو ان سے طلب کیا ،اب انہیں اس امانت کی واپسی پر جزع فزع کرنے کا کوئی  حق نہیں ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post