اسوۂ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا Uswa-e- Hazrat Sayyeda Fatima

 اسوئہ فاطمی:

حضرت فاطمہؓ صاحبزادیٔ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرئہ مبارک زرد پڑ رہا تھا‘ حضرت علیؓ نے دریافت فرمایا:

فاطمہ! تمہیں کیا ہوا ہے؟

فرمانے لگیں:

تین دن سے گھر میں کچھ نہیں۔

حضرت علیؓ نے پوچھا:

تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟

فرمانے لگیں:

جس رات میں آپ کے پاس آئی تھی‘ میرے والد محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا:

فاطمہ! اگر علیؓ گھر میں کوئی چیز لائیں تو اسے کھا لینا‘ ورنہ ان سے کچھ نہ مانگنا۔

ذرا تصور کیجئے! خانوادئہ نبوت کی چشم و چراغ کا کیا عالم ہے۔ پھر اپنی حالت پر غور کیجئے! اس قدر تفاوت کیوں ہے؟

یاد رکھیے! اگر آپ خرچ کی کمی اور تنگ دستی کا رونا روئیں گی تو آپ کے حق میں طلاق یا ایلاء کا وبال ہی آئے گا۔ یاد رکھیے! یہ انبیاء کا رویہ ہے‘ عام لوگوں کا رویہ کیا ہو گا؟

جب حضرت اسماعیل کی زوجہ نے تنگ دستی کا شکوہ کیا تو حضرت ابراہیم ؑ نے اسماعیل ؑسے فرمایا اس کو طلاق دے دو۔

جب ازواج مطہرات میں سے کسی نے نفقے کی کثرت کا مطالبہ کیا تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے مکمل ایک ماہ تک ایلاء فرمایا۔

حضرت عمرؓ کی زوجہ نے جب ضرورت سے زائد خرچ کا مطالبہ کیا تو حضرت عمرؓ نے ان کی گرد ن پر مارا۔

آپ تقویٰ اور زہد کے جس مقام پر بھی پہنچ جائیں یقینا ازواج مطہرات کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتیں۔ حضرت عائشہؓ نے اپنے بھانجے عروہ بن زبیر سے کہا:

’’بھانجے! کئی کئی راتیں گزر جاتیں تھی ‘جبکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں چولہا روشن نہ ہوتا تھا‘‘

انہوں نے پوچھا:

خالہ! آپ زندگی پھر کیسے گزارتی تھیں؟

فرمانے لگیں:

دو چیزوں پر‘ یعنی پانی اور کھجوروں پر۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں رہنے والے انصار کے ہاں بکریاں ہوتی تھیں وہ ان کا دودھ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بھیج دیتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں عطا فرما دیتے۔ (اخرجہ بخاری)

ہم بھوک تو برداشت کر سکتی ہیں لیکن…!

کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جو اپنی ضروریات کا رونا روتی رہتی ہیں‘ بے چارہ خاوند مجبوراً زیادہ کمانے کے شوق میں حرام کمائی میں مشغول ہو جاتا ہے۔

ایسی خواتین سے انتہائی مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ سلف صالحین کی خواتین کے اس قول کو یاد رکھیں۔

جب ان میں سے کسی کا خاوند کام پر نکلتا تو وہ کہتیں:

’’حرام کمائی سے بچنا‘ کیونکہ ہم بھوک تو برداشت کر سکتی ہیں لیکن جہنم کی آگ برداشت کرنا ہمارے بس کی بات نہیں‘‘

بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان حرام کمائی سے تو بچ جاتا ہے لیکن قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے اور قرض کے بارے میں مشہور ہے:

ھم باللیل  وذل بالنھار

’’رات بھر اس کی فکر لگی رہتی ہے اور دن بھر انسان اس کی وجہ سے ذلت برداشت کرتا رہتا ہے‘‘۔

حمل الضخور اخف من ثقل الدیون

’’بھاری بھرکم چٹانوں کا بوجھ اٹھانا قرضے کے بوجھ سے کم ہے‘‘۔

قرض کی مصیبت اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ شہید کے قرضے کے علاوہ سب کچھ معاف کر دیا جاتا ہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسے شخص کا جنازہ نہ پڑھتے تھے جس پر لوگوں کا قرض ہوتا تھا۔

لہٰذا گزارش یہ ہے کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلایئے۔ اپنی وسعت دیکھ کر خرچ کیجئے اور ساتھ ساتھ کم سے کم میں گزارہ کرنے کی عادت ڈالیے۔

حضرت ابو بکرؓ  فرماتے ہیں: 

انی لابغض اہل بیت ینفقون رزق ایام فی یوم واحد

’’مجھے ایسے اہل خانہ ناپسند ہیں جو کئی دن کی خوراک ایک ہی دن میں کھا ڈالتے ہیں ‘‘

نیک عور ت ہمیشہ یہ کوشش کرتی ہے کہ کفایت شعاری کے ذریعے اپنے خاوند کا دل جیت لے۔ یاد رکھیے! خاندان‘ مرد اور بچوں کے مستقبل کی ترقی کا راز عورت کی حسن تدبیر اور کفایت شعاری میں مضمر ہے۔

زندگی کا ہر دن ایک نئی صبح کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔ ہر صبح نئے ارتقاء پالینے کو سموئے آتی ہے۔ ہر روز انسان کی تقدیر کے فیصلے خدا کے ہاں مرقوم فیصلوں کے مطابق افراط و تفریط کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔

مالداری سے فقیری‘ تندرستی سے بیماری‘ جوانی سے بڑھاپا‘ انسانی احوال کا اہم حصہ ہیں۔ لیکن یاد رکھیے‘ نیک اور صالح عورت وہی ہے جو ہر حال میں اپنے خاوند کے ساتھ وفا کرنے والی ہو‘ ہر حال میں تقدیر الہٰی پر راضی رہنے والی ہو‘ زمانے کے ہمیشہ دو دن ہوتے ہیں:

ایک آپ کے موافق اور دوسرا آپ کے مخالف۔

Post a Comment

Previous Post Next Post