حضرت قائد اہلِ سنّت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی علیہ الرحمۃ
بطلِ حریت، حق گو مجاہد علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی بن مبلغِ اسلام علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی بن شاہ عبدالحکیم جوش صدیقی ۱۷؍رمضان المبارک ۱۳۴۴ھ/ ۳۱؍مارچ ۱۹۲۶ء میں میرٹھ (ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ آپ کا سلسلۂ نسب خلیفۂ اول حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا ملتا ہے۔ اسی نسبت سے آپ صدیقی کہلاتے ہیں۔ آپ کے والد ماجد علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی قادری[۱] (م۱۹۵۴ء) امامِ اہلِ سنت اعلیٰ حضرت شاہ احمد رضا خان بریلوی (م۲۵ صفرالمظفر قدس سرہ العزیز کے خلیفۂ مجاز تھے اور جدِّ امجد شاہ عبدالحکیم جوش صدیقی برصغیر کے نامور صوفی، عالم دین اور شاعر تھے[۲]۔
[۱۔ آپ ۲؍اپریل ۱۸۹۲ھ بمطابق ۱۵ رمضان المبارک ۱۳۱۰ھ میں بمقام میرٹھ (یو پی) پیدا ہوئے سولہ برس کی عمر میں جامعہ اسلامیہ قومیہ میرٹھ سے درس نظامی کی سند حاصل کی۔ ۱۹۱۷ میں بی اے پاس کیا۔ بریلی شریف حاصل ہوئے۔ امام اہل سنت اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان قدس سرہ العزیز سے بیعت کی اور خرقۂ خلافت حاصل کیا۔ آپ نے چالیس سال تک افریقہ، امریکہ، کینیڈا، انڈونیشیا، سنگاپور، ملایا وغیرہ کئی دوسرے ممالک میں اسلام کا پیغام پہنچایا جس کے نتیجے مین پچاس ہزار سے زائد غیر مسلموں نے حلقۂ اسلام میں داخل ہوکر سعادتِ ابدی حاصل کی۔ ۱۹۵۱ء میں آپ نے پوری دنیا کا طویل دورہ کیا جس کی وجہ سے بورنیو کی شہزادی ماریشس (جنوبی افریقہ) کا گورنر مروات اور ٹرینی ڈاؤ کی ایک وزیر مشرف باسلام ہوئے۔ آپ نے دیگر علماء اہل سنت کے ساتھ مل کر دستور اسلامی آئین کا مسوہ تیار کیا۔ ۱۹۵۴ء میں آپ نے وصال فرمایا۔ (محمد دین کلیم، تذکرۂ مشائخ قادریہ، ص۲۶۰، ۲۶۱۔
۲۔محمد حنیف، نوائے وقت، ۱۲؍جنوری ۱۹۷۸ء]
تعلیم و تربیت:
علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی نے آٹھ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیا تھا۔ حفظِ قرآن کے بعد ثانوی تعلیم کے لیے ایسے اسکول میں داخلہ لیا جہاں ذریعۂ تعلیم عربی تھی۔ عربک کالج میرٹھ سے بھی ڈگریاں حاصل کیں۔
درسِ نظامی کی کتب متداولہ مدرسہ اسلامیہ قومیہ میرٹھ میں استاذ العلماء حضرت مولانا غلام جیلانی میرٹھی سے پڑھیں[۱]۔
[۱۔ آپ صدرالشریعۃ حضرت مولانا مفتی محمد امجد علی رحمہ اللہ کے تلمیذ رشید ہیں۔ (محمد صدیق ہزاروی)]
دستار بندی کے موقع پر ایک پر وقار تقریب کا انعقاد ہوا جس میں آپ کے استاد محترم مولانا غلام جیلانی میرٹھی، آپ کے والد ماجد مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی قادری اور صدرالافاضل مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی کے علاوہ شاہزادہ اعلیٰ حضرت، حضرت مولانا شاہ مصطفےٰ رضا خان مفتی اعظم ہند دامت برکاتہم العالیہ بھی مسند افروز تھے۔
بین الاقوامی دورے:
علامہ شاہ احمد نورانی کے والد ماجد علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی قادری علیہ الرحمۃ نے دنیا کے کونے کونے میں اسلام کا پیغامِ ہدایت پہنچایا اور ہزاروں بلکہ لاکھوں گم گشتگانِ راہ کو صراطِ مستقیم دکھایا۔
آپ کی وفات کے بعد یہ فریضہ آپ کے فرزند ارجمند علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی مدظلہ نے اپنے ذمہ لیا اور نہایت حسن و خوبی کے ساتھ سرانجام دیا۔
آپ کی تبلیغ سے سینکڑوں غیر مسلموں نے دولتِ اسلام سے اپنا دامن بھرا جن میں پادری، راہب، وکلاء، انجینئرز، ڈاکٹرز اور دیگر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے لوگ شامل ہیں۔
آپ کے بیرونِ ملک چند تبلیغی دوروں کا اجمالی خاکہ یہ ہے:
۱۹۵۵ء میں آپ جامعہ ازہر (مصر) کی دعوت پر جامعہ میں تشریف لے گئے اور علماء کے عظیم اجتماعات سے خطاب کیا۔
۱۹۵۸ء میں روس کا دورہ کیا اور روسی سوشلسٹ معاشرے کا گہرا مطالعہ و مشاہدہ کیا۔ نیز مسلمانوں کی سرکردہ شخصیتوں سے ملاقات کرکے ان کے مسائل سے آگاہی حاصل کی۔
۱۹۵۹ء میں مشرقِ وسطیٰ کا خیر سگالی دورہ کیا اور دنیا بھر کے علماء سے باہمی رابطہ قائم کرکے اسلام کی عظیم خدمات سر انجام دیں۔
۱۹۶۰ء میں مشرقی افریقہ، مڈغا سکر، اور ماریشس کے تبلیغی دورے پر تشریف لے گئے۔
۱۹۶۱ء میں سیلون اور شمالی افریقہ کا دورہ کیا۔
۱۹۶۲ء میں صومالیہ، کینیا، ٹانگا نیکا، یوگنڈا اور ماریشس کا دورہ کیا، نیز نائجیریا کے وزیرِ اعلیٰ احمد دبیلو شہید کی دعوت پر نائجیریا تشریف لے گئے اور ان کے مہمان کی حیثیت سے چار ماہ کا تفصیلی دورہ کیا۔
۱۹۶۳ء میں ترکی، فرانس، جرمنی، برطانیہ، ماریشس اور نائجیریا تشریف لے گئے۔ نیز اسی سال عوامی جمہوریہ چین کا دورہ کیا اور وہاں کے مسلمانوں کی حالت زار اور سوشلسٹوں کے بلند بانگ دعوؤں کا جائزہ لیا۔
۱۹۶۴ء میں امریکہ ، جنوبی امریکہ اور کینیڈا کا دورہ کیا۔
۱۹۶۵ء میں کینیا، تنزانیہ، یوگنڈا، مالاگاہی اور ماریشس کا دورہ کیا۔
۶۸۔ ۱۹۶۷ء میں برطانیہ اور امریکہ کا دورہ کیا۔
۱۹۷۴ء میں ورلڈ اسلامک مشن کی کانفرنس میں شرکت کے لیے انگلینڈ تشریف لے گئے اور اس کانفرنس میں آپ کو مشن کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔
۱۹۷۵ء میں ورلڈ اسلامک مشن[۱] کے زیرِ اہتمام علامہ ارشد القادری، مجاہدِ ملت مولانا عبدالستار خان نیازی اور سابق صوبائی اسمبلی سندھ کے قائدِ حزبِ اختلاف شاہ فریدالحق کی رفاقت میں امریکہ اور افریقہ کے مخٹلف ممالک کا تفصیلی دورہ کیا۔ اس دورہ میں پبلک اجتماعات کے علاوہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے ان ممالک کے عوام کو قادیانیوں کے مکروہ و گھناؤ نے عزائم سے آگاہ کی، نیز قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے بارے میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے فیصلے سے آگاہ کیا جس کا ان ممالک میں خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوا، ربیع الاول ۱۳۹۸ھ میں آپ نے ماریشس اور جنوبی افریقہ کے ممالک کا تبلیغی دورہ شروع کیا، اس دوران آپ نے ماریشس میں عالمی اسلامی کانفرنس کی صدارت کی، جس میں وزیراعظم مارشس سمیت معززین ، اعلیٰ حکام وزرا اور سفیروں کے علاوہ ماریشس کے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی۔
[۱۔ ۲۱ جنوری ۱۹۷۳ء کو دنیا کے مختلف گوشوں سے تعلق رکھنے والے علماء کرام مکہ مکرمہ میں جمع ہوئے تاکہ عالمی سطح پر ظلمت و گمراہی کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل مرتب کرسکیں۔ا س تاریخی اجتماع میں انگلستان، امریکہ، سعودی عرب، مصر، کویت، شام، ہندوستان اور پاکستان کے علماء کرام شریک تھے پاکستان علماء میں مجاہدِ ملت حضرت مولانا عبدالستار خان نیازی اور علامہ عبدالمصطفےٰ الازہری شامل تھے اس اجلاس میں ورلڈ اسلامک مشن کا قیام عمل میں لاکر علامہ ارشد القادری کو کنوینر مقرر کیا گیا اور پھر باضابطہ انتخاب کے ذریعے علامہ شاہ احمد نورانی کو صدر اور علامہ ارشد القادری کو سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ (ماہنامہ ضیائے حرم لاہور جون ۱۹۷۵، ص۲۹)۔]
[۲۔ ہفت روزہ افق جلد نمبر۱ ، شمارہ ۱۰، ۵؍مارچ تا ۱۱؍مارچ ۱۹۷۸ء ص۳۔]
تبلیغی و تعلیمی اداروں کی سرپرستی:
پاکستان سے باہر بہت سے ممالک میں کئی تبلیغی و تعلیم ادارے آپ کی سرپرستی میں شب و روز مصروفِ عمل ہیں، ان میں سے چند اداروں کے نام یہ ہیں:
۱۔ مسلم ایجوکیشن ٹرسٹ کالج جینوا جارج ٹاؤن امریکہ
۲۔ حلقہ قادریہ علیمیہ اشاعتِ اسلام سیلون
۳۔ حلقہ قادریہ علیمیہ اشاعتِ اسلام ماریشس
۴۔ ینگ مین مسلم ایسوسی ایشن گیانا
۵۔ اسلامک مشنری گلڈ ساؤتھ افریقہ
۶۔ آل ملایا مسلم مشنری سوسائٹی ملائشیا
۷۔ علیمیہ اسلامک مشن کالج ماریشس
۸۔ علیمیہ دارالعلوم ماریشس
۹۔ حنفی مسلم سرکل پریسٹن برطانیہ
۱۰۔ قادریہ اسلامک ورکرز گلڈ مارشس
۱۱۔ سری نام مسلم ایسوسی ایشن ساؤتھ افریقہ
نیز ۱۹۵۳ء سے ۱۹۶۴ء تک ورلڈ مسلم علماء آرگنائزیشن کے سیکرٹری جنرل رہے جبکہ آرگنائزیشن کے صدر مفتی اعظم فلسطین مولانا سیّد امین الحسینی مرحوم تھے[۱]۔
[۱۔ ابوداؤد محمد صادق، مولانا:شاہ احمد نورانی۔ ص۱۴ ۱۵]
امریکہ میں مرزائیوں کا ناطقہ بند کردیا:
سرینام (جنوبی امریکہ) مرزائیوں کا مرکز ہے جہاں (غالباً ۳۵ء میں) سب سے پہلے تبلیغِ دین کے لیے حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ تشریف لے گئے جنہوں نے ایک بڑی تعداد کو مرزائیت کے فریب سے نجات دلائی اور اہلِ سنت و جماعت کا مرکز قائم کیا۔ مرحوم کے بعد علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی نے ۱۹۶۵ء میں سرینام میں سات ماہ قیام کرکے فتنۂ مرزائیت کو کچلا اور ایک مناظرے میں مرزائیوں کو ایسی شکستِ چاش دی کہ اب مرزائی کسی سنی عالم کے مقابلے میں آنے کے لیے تیار نہیں ہوتے[۱]۔ اور مولانا نورانی کے نام سے تو مرزائی مبلغ گھبراتے ہیں[۲]۔
[۱۔ سعادت علی قادری، مفتی: ترجمانِ اہل سنت، اپریل ۱۹۷۳ء، ص ۵۰۔]
[۲۔ سعادت علی قادری، مفتی: ترجمانِ اہل سنت، اپریل ۱۹۷۴ء، ص ۴۰۔]
محافظِ ختمِ نبوت:
تحریکِ ختم نبوت (۱۹۵۳ء) میں آپ کراچی میں مولانا عبدالحامد بدایونی (م ۱۵ جمادی الاولیٰ ۲۰جولائی ۱۳۹۰ھ/ ۱۹۷۰ء) اور دیگر علماء کے ساتھ تحریک میں شریک ہوئے۔ آرام باغ میں جمعہ کے دن تحریک کا آغاز ہوا، تو علامہ نورانی پیش پیش تھے۔ گرفتاری کے لیے رضاکاروں کی تیاری کے علاوہ دیگر ضروری انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا[۱]۔
[۱۔ ماہنامہ ترجمانِ اہلِ سنت (ختم نبوت نمبر) اگست ۱۹۷۲ء]
کراچی میں آل پاکستان مسلم پارٹیز کے پہلے اجلاس کے بعد آئندہ اجلاس کے انتظامات کے لیے گیارہ ممبروں پر مشتمل جو بورڈ بنایا گیا، آپ اس کے ممبر تھے[۱]۔
[۱۔ رپورٹ تحقیقاتی عدالت (منیر رپورٹ)،ص۸۰]
۱۹۶۹ء میں پاکستان آنے کے بعد آپ نےسب سے پہلا بیان قادیانیوں ہی کے بارے میں جاری کیا تھا۔ آپ نے یحییٰ خان (اس وقت کا صدر) کو مخاطب کرتے ہوئے صاف کہا تھا کہ تمہارا قادیانی مشیر ایم ایم احمد پاکستان کی معیشت کو تباہ کر رہا ہے جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھ سے نکل سکتا ہے[۱]۔
[۱۔ ماہنامہ ضیائے حرم: ختم نبوت نمبر دسمبر ۱۹۷۴ء، ص۲۲۔]
تحریکِ ختم نبوت (۱۹۷۴ء) میں مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی خاطر قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی طرف سے جو قرارداد ۳۰؍جون ۱۹۷۷ء کو پیش کی گئی، اس کا سہرا بھی علامہ شاہ احمد نورانی کے سر ہے۔ اس قرار داد پرحزبِ اختلاف کے بائیس افراد (جن کی تعداد بعد میں ۳۷ ہوگئی) نے دستخط کیے، البتہ مولوی غلام غوث ہزاروی اور مولوی عبدالحکیم نے اس قرارداد پر دستخط نہیں کیے۔ اس تحریک میں آپ کو قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی اور رہبر کمیٹی کا ممبر بھی منتخب کیا گیا اور آپ نے پوری ذمہ داری کے ساتھ دونوں کمیٹیوں کے اجلاسوں میں شرکت کی۔
آپ نے قادیانیت سے متعلقہ ہر قسم کا لٹریچر اسمبلی کے ممبروں میں تقسیم کرنے کے علاوہ ممبروں سے ذاتی رابطہ بھی قائم کیا اور ختمِ نبوت کے مسئلہ سے انہیں آگاہ کیا[۱]۔
[۱۔ ماہنامہ ضیائے حرم: ختم نبوت نمبر دسمبر ۱۹۷۴ء، ص۳۱۔]
اس تحریک میں تین ماہ کے دوران آپ نے صرف پنجاب کے علاقے میں تقریباً چالیس ہزار میل کا دورہ کیا۔ ڈیڑھ سو شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں عام جلسوں سے خطاب کرنے کے علاوہ سینکڑوں کتابوں کا مطالعہ کیا[۱]۔
[۱۔ ماہنامہ ضیائے حرم: ختم نبوت نمبر دسمبر ۱۹۷۴ء، ص۲۲، ۳۴۔]
میدانِ سیاست میں ورود:
اگرچہ آپ ۱۹۴۹ءمیں پاکستان تشریف لاکر کراچی میں مقیم ہوگئے تھے، لیکن زیادہ وقت بیرونی ممالک میں تبلیغی دوروں پر رہنے کی وجہ سے آپ یہاں زیادہ متعارف نہیں تھے۔
آپ ۲۳؍ربیع الاول ۱۳۹۰ھ کو باغ موچی دروازہ لاہور کے ایک جلسہ میں منظر عام پر آئے۔ ۸؍ ۹ ربیع الاول ۱۳۹۰ھ/ جون ۱۹۷۰ء کو ٹوبہ ٹیک سنگھ (دارالسلام) میں ایک عظیم الشان سنی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی، جمعیت علماء پاکستان کے صدر منتخب ہوئے۔ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی نے حضرت خواجہ صاحب کی قیادت میں جمعیت کے اسٹیج سے پاکستان کی سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا[۱]۔
[۱۔حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی مدظلہ نے علماء اہل سنت کے اصرار پر اس شرط کے ساتھ پاکستانی سیاست میں حصہ لیا کہ ان کی جگہ تبلیغی مشن پر کسی متبادل عالمِ دین کو بھیجا جائے، چنانچہ مولانا مفتی سید سعادت علی قادری آپ کی جگہ سرینام (امریکہ) میں تشریف لے گئے۔ (مرتب)]
۱۹۷۰ء کے انتخابات میں آپ جمعیتِ علماء پاکستان کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ پھر جمعیت کے ایک اجلاس میں جو مرکزی دارالعلوم حزب الاحناف میں منعقد ہوا، آپ کو جمعیت علماء پاکستان کی پارلیمانی پارٹی کا لیڈر منتخب کیا گیا۔
قومی اسمبلی میں:
حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی قومی اسمبلی میں برسرِ اقتدار طبقہ کے لیے ایک محتسب کی حیثیت رکھتے تھے۔ حکمران جماعت کی غلط پالیسیوں پر کڑی نکتہ چینی کرنا اور ہر غلط بات کی نشان دہی کرنا علامہ نورانی کا طرہ امتیاز تھا۔ دوسری جانب آپ کی اسمبلی میں موجودگی سے ایک پر مسرت کیفیت بھی پیدا ہوتی تھی جس کا اندازہ اس وقت ہوتا تھا، جب آپ اسمبلی میں موجود نہ ہوں؛ چنانچہ روزنامہ ’’استقلال‘‘ لاہور رقمطراز ہے۔
’’قومی اسمبلی کے اند ربھی مولانا نورانی کی باغ و بہار شخصیت نے کئی مرتبہ مسکراہٹیں اور قہقہے بکھیر دیے اور سرکاری پارٹی پر ان کی برجستہ چوٹوں پر خود ان چوٹوں کا نشانہ بننے والے بھی جھوم گئے‘‘۔ [۱]
[۱۔ ہفت روزہ استقلال، ۲۔۸ جولائی ۱۹۷۳ء]
قومی اسمبلی میں آپ کی برتری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے روزنامہ ’’جمہور‘‘ (لاہور) لکھتا ہے:
’’منگل چھ مارچ کو قومی اسمبلی کے شام کے اجلاس میں دستوری بل پر عام بحث میں حصہ لینےو الے مقررین کی تعداد اگرچہ زیادہ تھی، تاہم میدان جمعیت علماء پاکستان کے تنظیمی اور پارلیمانی قائد مولانا شاہ احمد نورانی کے ہاتھ رہا۔ مولانا کی تقریر، موضوع اور متن کے لحاظ سے انتہائی پر متانت اور تاثر انگیز ہونے کے باوجود سارا عرصہ ایوان قہقہہ زار بنا رہا۔ ایوان کے ماحول میں زعفرانی کیفیت پیدا کرنے میں مولانا کی اپنی حس مزاح اور حاضر جوابی کا بہت زیادہ دخل تھا۔ ابتداء ہی سے یہ معلوم ہو رہا تھا کہ سرکاری بنچوں والے مولانا کی تقریر کو مذاق ہی مذاق میں اڑا دینے کی کوشش کریں گے، لیکن نورانی میاں بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے تھے۔ انہوں نے چومکھی لڑی اور حقیقت یہ ہے کہ اپنے حریفوں کو چاروں شانے چت گرادیا اور خدا لگتی بات یہ ہے کہ میدان مار لیا۔‘‘[۱]
[۱۔ روزنامہ جمہور لاہور، ۹؍مارچ ۱۹۷۳ء (ملخصاً)]
قادیانیت پر پہلی ضرب:
۱۵؍اپریل ۱۹۷۲ء کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں عبوری آئین پر تقریر کرے ہوئے مولانا شاہ احمد نورانی نے اسلام و ختم نبوت کے تحفظ کی پہلی آواز (اسمبلی میں) بلند کی۔ آپ نے فرمایا:
جو آئین ہمارے سامنے عمدہ فریم میں سجاکر پیش کردیا گیا ہے، اس میں اسلام کو قطعاً کوئی تحفظ نہیں دیا گیا، میں اس دستور کو معزز ایوان کے لیے قابلِ قبول نہیں سمجھتا ہوں اور اس دستور کی مخالفت کرتا ہوں۔ اس (دستور) میں یہ بھی لکھا ہے کہ پاکستان کا صدر مسلمان ہوگا، مگر مسلمان کی تعریف کوئی نہیں جانتا کہ کیا ہے ہر شخص مسلمان بننے کی کوشش کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہ ماننے والا ہمارے نزدیک مسلمان نہیں ہے اور جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہیں مانتے ہم ان کو مسلمان نہیں سمجھتے، تو پھر یہ کیسے چور دروازے آکر اسلام کے نام پر حکمران بن سکتے ہیں اور تباہی کا سامان پیدا کرسکتے ہیں[۱]۔
[۱۔ ملحضاً روداد قومی اسمبلی مورخہ ۱۵؍اپریل ۱۹۷۲ء صفحہ ۱۱۸، ۱۱۹، بحوالہ شاہ احمد نورانی]
اس پر وفاقی وزیر مولانا کوثر نیازی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا
’’علماء میں جو اختلاف موجود ہیں، ان کی بناء پر ایک عالم دوسرے عالم سے مسلمان کی تعریف میں متفق نہیں ہے، میں اس وقت بھی چیلنج کرتا ہوں کہ علماء مسلمان کی کوئی متفقہ تعریف اس ایوان کے سامنے پیش کریں ہما سے منظور کرنے کے لیے تیار ہیں‘‘۔
جمعیت علماء پاکستان کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر علامہ عبدالمصطفےٰ الازہری نے کوثر نیازی کا چیلنج قبول کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں اپنی جماعت کی طرف سے اس بات کو قبول کرتا ہوں[۱]۔
[۱۔ ملحضاً روداد قومی اسمبلی مورخہ ۱۵؍اپریل ۱۹۷۲ء صفحہ ۱۴۱، بحوالہ شاہ احمد نورانی]
اور جو چیلنج مولانا کوثر نیازی صاحب نے دیا ہم اس کو قبول کرتے ہوئے علماء کے نزدیک مسلمان کی متفقہ تعریف پیش کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔‘‘[۱]
[۱۔ ملحضاً روداد قومی اسمبلی مورخہ ۱۵؍اپریل ۱۹۷۲ء صفحہ ۱۵۲، بحوالہ شاہ احمد نورانی]
اجلاس کے خاتمہ پر رات کو علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کے کمرے میں مجاہدِ ملت عبدالستار خان نیازی (مرکزی جنرل سیکرٹری جمعیت علماء پاکستان) مولانا محمد علی رضوی (سابق ایم این اے) مولانا غلام علی اوکاڑوی (صدر جمعیت علماء پاکستان صوبہ پنجاب) اور علامہ عبدالمصطفےٰ الازہری (سابق ایم این اے) سر جوڑ کر بیٹھے۔ علامہ ازہری نے مسلمان کی مختصر اور جامع تعریف پیش کی جسے سب نے پسند کیا۔ رات ۱/۲ ۱ بجے علامہ عبدالمصطفےٰ الازہری، جمعیت علماء اسلام کے مولانا عبدالحکیم کے پاس گئے، مولانا مفتی محمود، مولانا غلام غوث ہزاروی اور مولانا عبدالحق (اکوڑہ خٹک) نے اس تعریف کو جامع قرار دیا اور طے ہوا کہ چونکہ علامہ عبدالمصطفےٰ ازہری اور مولانا شاہ احمد نورانی تقریر کرچکے ہیں اور کوثر نیازی کے چیلنج کا جواب دیتے ہوئے علماء کی طرف سے اتفاق رائے ضروری ہے، اس لیے مولانا عبدالحق (اکوڑہ خٹک) یہ تعریف پیش کریں، چنانچہ انہوں نے ۱۷؍اپریل کو اسمبلی میں یہ تعریف پیش کی جو اسمبلی کی کارروائی کے صفحہ ۳۵۴ پر موجود ہے[۱]۔
[۱۔ روداد قومی اسمبلی ۱۵؍اپریل ۱۹۷۲ء مسلمان کی تعریف: مولانا شاہ احمد نورانی]
قومی اسمبلی کے اندر علامہ شاہ احمد نورانی کی قادیانیت پر یہ پہلی صرب تھی جس نے بالآخر تحریک کی صورت اختیار کی اور قادیانی اپنے کیفرِ کردار کو پہنچے۔ا س کارروائی کے پیشِ نظر اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ تحریک ختمِ نبوت ۱۹۷۴ء کا سہرا جہاں پاکستان کے علماء، وکلاء، طلباء اور عوام کے سر ہے۔ اس کا اولین کریڈٹ علامہ شاہ احمد نورانی کو جاتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے ایم ایم احمد کی ملک دشمنی سے قوم اور وقت کے سربراہ کو بر وقت خبردار کیا اور قومی اسمبلی میں مسلمان کی تعریف پیش کرکے مرزائیوں کا چور دروازہ بند کردیا۔
تاریخی خطاب:
۲۰؍اکتوبر ۱۹۷۲ء کو ایک آئینی سمجھوتے پر حکومت اور حزبِ اختلاف نے دستخط کیے بعد میں وہ سمجھوتہ متنازعہ فیہ بن گیا۔ اپنے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کے لیے تمام پارلیمانی لیڈروں کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے خطاب کا موقع دیا گیا۔ ۳۰؍جنوری ۱۹۷۳ء کو علامہ شاہ احمد نورانی نے ایک تاریخی خطاب فرمایا جس میں آپ نے نہایت بیباکی اور جرات رندانہ سے حکمران جماعت کی وعدہ خلافیوں اور انحراف کو واضح کیا۔ ذیل میں اس خطاب کا ایک مختصر اقتباس پیش کیاجاتا ہے جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ یہ تاریخی خطاب کس قدر ولولہ ا نگیز اور مجاہدانہ تھا۔ ’’اسلامی آئین سے فرار کیوں؟‘‘ کے تحت آپ نے فرمایا:
’’اور یہ بالکل اسی طرح بدعہدی کی گئی ہے جس طرح سے ماضی میں حکمران جماعتیں اس ملک میں مسلمانوں کے ساتھ کرتی رہی ہیں، کیونکہ وہ خود اپنے پانچ چھ فٹ جسم پر اسلام کو اپنی عملی زندگی میں نافذ نہیں کرسکے، اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ چونکہ ہم اس پر عمل نہیں کرسکے اور نہ کرسکتے ہیں۔ اگر عمل کرتے ہیں، تو ہمیں ہماری عادتیں بدلنی پڑیں گی، عمل کریں گے تو شراب چھوڑنی پڑے گی۔ عمل کرتے ہیں، تو فسق و فجور چھوڑنا پڑے گا، زنا کو چھوڑنا پڑے گا، جوئے کو چھوڑنا پڑے گا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی قوانین اور اسلامی احکامات کو ہم اپنے اوپر نافذ کریں، تو ہمیں ان تمام چیزوں سے گریز کرنا پڑے گا اور ہم پابند ہوجائیں گے تو اس لیے وہ اپنی نجی زندگی کے خراب ہونے کی وجہ سے پاکستان کے مسلمانوں کی نجی اور اجتماعی زندگی اور اسلامی سوسائٹی کو خراب کرنے کے درپے ہیں‘‘۔[۱]
[۱۔ ابوداؤد محمد صادق، مولانا: ’’شاہ احمد نورانی‘‘ ص۷۰۔]
یادگاری انٹرویو:
پارلیمانی لیڈروں نے ریڈیو پاکستان سے آئینی سمجھوتے کے بارے میں اپنے اپنے نقطۂ نظر کو پیش کیا، تو اس کے بعد انٹرویو کا اہتمام کیا گیا۔ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی نے حکومت کے نمائندے زیدی کے زبردست اعتراضات کے جو حیران کن اور برجستہ جوابات دیے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہنامہ ضیائے حرم (لاہو) رقم طراز ہے:
’’ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر آئین کے متعلق اپوزیشن کے تمام لیڈروں کے انٹریو نشر ہوئے، لیکن مولانا نورانی کے انٹریو کی شان ہی نرالی تھی جس مہارت اور خداقت سے انہوں نے اس شاطر نقاد کو ہر نکتہ پر مات دی اور لاجواب کیا، وہ انہی کا حصہ تھا۔‘‘[۱]
[۱۔ ماہناہ ضیائے حرم، جون ۱۹۷۳ء]
جمعیت کی قیادت:
جب سابق صدر جمعیت علماء پاکستان حضرت خواجہ محمد قمرالدین سیالوی بوجہ پیرانہ سالی جمعیت کی صدارت سے مستعفی ہوگئے تو کافی مدت تک علامہ شاہ احمد نورانی نے قائم مقام سربراہ کی حیثیت سے کام کرکے جمعیت کی گاڑی کو منزل کی طرف رواں دواں رکھا اور بالآخر ۲۲؍ ۲۳ ربیع الآخر ۱۳۹۳ھ بمطابق ۲۶ ؍ ۲۷ مئی ۱۹۷۳ء کو جامعہ عنائتیہ خانیوال میں جمعیت کا ایک عظیم کنونشن منعقد ہوا جس میں تمام علماء کے اتفاق سے آپ کو جمعیت علماء پاکستان کا مرکزی صدر مقرر کیا گیا[۱]۔ مئی ۱۹۷۵ء کو آپ دوبارہ جمعیت کے صدر منتخب ہوئے[۲]۔ آپ کی قیادت میں نہ صرف جمعیت علماء پاکستان نے ملک کی سیاسی جماعتوں میں ایک امتیازی مقام حاصل کیا، بلکہ آپ کی انتھک جدو جہد سے جمعیت کا جھنڈا صوبہ سرحد اور بلوچستان کی فضاؤں میں لہرانے لگا اور بعض اداروں کی اجارہ داری کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔
[۱۔ ابوداؤد محمد صادق، مولانا: ’’شاہ احمد نورانی‘‘ ص ۱۸۔
۲۔ محمد صادق قصوری، اکابر تحریک پاکستان۔]
وزارتِ عظمیٰ کا انتخاب:
پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ کے انتخاب میں مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے کے لیے متحدہ جمہوری محاذ کے زعما کی نظرِ انتخاب علامہ شاہ احمد نورانی پر پڑی اور آپ نے مسٹر بھٹو کے مقابلے میں وزارتِ عظمیٰ کا انتخاب لڑا۔ متحدہ جمہوری محاذ کی طرف سے اس انتخاب کے لیے آپ کے چناؤ کے بارے میں روزنامہ ’’امروز‘‘ تبصرہ کرتے ہوئے ’’مولانا نورانی کا اعزاز‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتا ہے:
’’مولانا شاہ احمد نورانی متحدہ حزبِ اختلاف میں شامل تمام جماعتوں کے معیار اور سیاسی سوجھ بوجھ کے مطابق اس عہدہ (وزارتِ عظمیٰ) کے لیے موزوں ترین امیدوار ہیں‘‘۔[۱]
[۱۔ روزنامہ ’’امروز‘‘ ۱۹؍اگست ۱۹۷۳ء۔]
اس انتخاب میں مولوی غلام غوث ہزاروی[۱] کے علاوہ حزبِ اختلاف کے تمام ممبران نے علامہ شاہ احمد نورانی کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کیا۔
[۱۔ مولوی غلام غوث ہزاروی نے علامہ شاہ احمد نورانی جیسے متشرع عالمِ دین و عمل کے پیکر اور دین اسلام کا درد رکھنے والے مبلغ اسلام کے مقابلے میں ایک ظالمہ، فاسق اور سوشلسٹ لیڈر کو ترجیح دی جس سے ان کے خادمِ دین ہونے کے دعوے کا بھانڈا مین چوراہے میں پھوٹ گیا، چنانچہ خود مولانا مفتی محمود نے ان کو اس نامناسب رویہ پر جمعیت علماء اسلام سے نکال باہر کیا۔ (محمد صدیق ہزاروی)]
تحریکِ نظامِ مصطفےٰ (صلی اللہ علیہ وسلم):
۷؍مارچ ۱۹۷۷ء کے انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے ارضِ پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کو روکنے کی جو ناکام سعی کی گئی تھی، اس کے خلاف ۱۴؍مارچ کو ملک کے مسلمان سراپا احتجاج بن کر میدان میں نکل آئے۔
علامہ شاہ احمد نورانی کو ڈی ۔ پی آر کے تحت پہلے صوبہ سندھ سے گرفتار کیا گیا، پھر قومی اتحاد کی طرف سے حکومت کے خط کا جواب تیار کرنے کی غرض سے تمام لیڈروں کو رہا کیا گیا، تو آپ بھی رہا ہوئے۔ ۲۳؍ مارچ کو یومِ پاکستان کے موقع پر آپ نے جامع مسجد نیلا گنبد میں ایک ایمان افروز تقریر کے بعد جلوس کی قیادت کرنی تھی کہ دروازے سے نکلتے ہی حراست میں لے لیا گیا، چند گھنٹوں بعد چھوڑا گیا اور دوسرے دن دوبارہ ڈی ۔ پی ۔ آر کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔ آپ کو گڑھی خیرو (سندھ میں جو گرم ترین علاقہ ہے، بجلی اور پنکھے کی سہولت کے بغیر رکھا گیا، بلکہ پانی کی بنیادی سہولت تک سے محروم کیا گیا، لیکن اس کے باوجود آپ نے واضح اعلان فرمایا کہ نظامِ مصطفےٰ کی خاطر ہم ان تکالیف کو بخوشی قبول کرتے ہیں[۱]۔
[۱۔ ’’جیل کے دن جیل کی راتیں‘‘ کے عنوان سے علامہ نورانی ایک کتاب لکھ رہے ہیں جس میں مکمل تفصیل ہوگی۔ (محمد صدیق ہزاروی)]
عرب ممالک کی کوششوں سے جب حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے، تو آپ کو بھی رہا کردیا گیا اور پھر ۵ جولائی ۱۹۷۷ء کو ملک میں مارشل لاء کے نفاذ پر آپ کو قومی اتحاد کے دوسرے رہنماؤں کے ساتھ مری میں زیرِ حفاظت رکھا گیا۔
اس تحریک میں آپ کی قیادت میں اہل سنت و جماعت کے ہر فرد نے خواہ وہ شہری تھا، یا دیہات کا رہائش پذیر، بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور نظامِ مصطفےٰ کی خاطر اپنے آپ وک زنداں کے حوالے کرانے سے گریز نہیں کیا۔
جمعیت علماء پاکستان کے قائد علامہ شاہ احمد نورانی نے بارہا اپنی تقاریر میں فرمایا کہ ہمارا منشور لمبا چوڑا منشور نہیں ہے، بلکہ ہمارے منشور میں صرف دو باتیں ہیں مقامِ مصطفےٰ کا تحفظ اور نظامِ مصطفےٰ کا نفاذ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب تحریکِ ختمِ نبوت ۱۹۷۴ء میں کامیابی کے بعد جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور میں قائدِ اہلِ سنّت علامہ شاہ احمد نورانی کو استقبالیہ دیا گیا، تو آپ نے فرمایا کہ الحمدللہ! ہم نے اپنے منشور کے ایک حصّہ یعنی ’’مقامِ مصطفےٰ کا تحفظ‘‘ کو منوالیا ہے اور دوسرے حصے کے لیے تحریک جاری ہے اور جب تک اس ملک میں نظامِ مصطفےٰ نافذ نہیں ہوجاتا، یہ تحریک جاری رہے گی۔
اللہ تعالیٰ نے مردِ مومن کی زبان سے نکلے ہوئے نعرے کو اس قدر مقبولیت عطا فرمائی کہ آج پاکستان کے ہر شہری اور ہر جماعت کی زبان پر یہی پُر کیف نعرہ موجود ہے۔
نورانی کی نورانی والدہ:
تحریکِ نظامِ مصطفےٰ کے دوران جب جیل کی کوٹھڑی میں علامہ شاہ احمد نورانی کو سخت تکالیف میں مبتلا کیا گیا، تو ملک بھر سے آپ کی ضعیف والدہ کے پاس تاریں اور پیغامات آنے شروع ہوئے جن میں افسوس کا اظہار کیا گیا، لیکن نورانی کی نورانی والدہ نے بجائے افسوس کرنے کے اخبارات کو ایک ایسا ولولہ انگیز بیان جاری کیا جس نے قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی ماؤں کی یاد تازہ کردی۔ وہ بیان یہاں لفظ بہ لفظ نقل کیا جاتا ہے تاکہ مسلمان ماؤں کے لیے خضرِ راہ ثابت ہو۔
روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی نے ’’مولانا نورانی کی والدہ کا بیان‘‘ کے عنوان سے لکھا:
’’جمعیت علماء پاکستان‘‘ کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کی ۸۰ سالہ والدہ محترمہ نے ایک بیان میں کہاہے کہ مجھے گزشتہ چند روز کے اندر سینکڑوں ٹیلی فون اور پیغامات ملے ہیں جن میں میرے لڑکے کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کے سلسلے میں استفسار کیے گئے تھے اور اظہار ہمدردی کیا گیا تھا۔ میں ان تمام لوگوں کو جو نورانی میاں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی پر آزردہ ہیں، یہ ہدایت کرنا چاہتی ہوں کہ وہ اظہارِ افسوس کے بجائے خدا کا شکر ادا کریں کہ اس نے ان کے راہ نما کو حق بات کہنےا ورپھر حق بات کے لیے سختیاں جھیلنے کی سعادت عطا کی۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک میرا تعلق ہے اگرچہ میں عمر کی اس منزل میں ہوں کہ ہمہ وقت اپنے بیٹے کی قربت کی خواہش محسوس کرتی ہوں ، مگر اس کے باوجود مجھے اپنے بیٹے پر فخر ہے کہ اس نے عظیم باپ مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ کی لاج رکھ لی ہے اور اس ملک میں نظامِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک کو اس منزل پر لے جا رہا ہے، جہاں سے کامیابی کا راستہ مختصر نظر آرہا ہے، مجھے یقین ہے کہ جنت البقیع مدینہ منورہ میں میرے شوہر[۱] اپنے بیٹے کی اس کامیابی پر نازاں ہوں گے، انہوں نے کہا کہ حق و صداقت کے راستے میں نورانی میاں نے جو سختیاں جھیلی ہیں، وہ ایک مامتا کے دل کے لیے بظاہر تکلیف دہ ضرور ہیں، مگر ان کے پیشروؤں کو حق کے لیے اس سے بڑے قربانیاں دینی پڑی ہیں، مجھے خوشی ہے کہ نورانی میاں کا حوصلہ بلند ہے۔ اگر قومی زندگی کے اس نازک مرحلے پر وہ کسی قسم کی کمزوری کا مظاہرہ کرتے تو میں مرتے دم تک انہیں اور خود کو معاف نہ کرپاتی، خود کو یہ سوچ کر کہ کہیں میری تربیت میں تو کوئی کمی نہیں رہ گئی تھی، مگر آج میں خوش ہوں کہ حشر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو مجھے شرمندگی نہیں اٹھانی پڑے گی ا ور نہ ہی میں اپنے شوہر کے روبرو شرمسار ہوں گی، میں ان تمام بہنوں کو بھی خراج تحسین پیش کرتی ہوں جن کے بچوں، شوہروں یا بھائیوں نے نظام مصطفےٰ کی راہ میں جانیں دی ہیں یا جن کے بچے قیدوبند کی صعوبتیں برداشدت کر رہے ہیں، میں انہیں یقین دلاتی ہوں کہ ظلم کی تاریکی چھٹنے والی ہے اور وہ صبح ضرور طلوع ہوگی جو نظامِ مصطفےٰ کی روشنی لیے ہوگی اور جس کے ذریعے اس ملک میں عدل و انصاف کا دَور دَورہ ہوگا‘‘۔[۲]
[۱۔ حضرت علامہ نورانی مدظلہ کے والد ماجد حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ جنت البقیع میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے قدموں میں مدفون ہیں۔ محمد حنیف نوائے وقت ۱۲ جنوری ۱۹۷۸ء]
[۲۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی: ۲۴مئی ۱۹۷۷ء]
حق گوئی:
اللہ تعالیٰ نے قائدِ اہلِ سنّت علامہ شاہ احمد نورانی کو جن گوناگوں صفات سے متصف کیاہے، ان میں ایک حق گوئی اور بے باکی ہے۔ چنانچہ آپ نے کبھی بھی صداقت و حق گوئی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، چاہے مصلحت کا تقاضا کچھ ہی کیوں نہ ہو اور چاہے کس قدر خطرات کا مقابلہ ہو، آپ کی حق گوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ رقم طراز ہے:
’’ہم تک جو روایتیں پہنچی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ نورانی صاحب نے لا دینی عناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس جماعت کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کرتے رہے، جس جماعت کی اکلوتی آرزو ہے کہ اقتدار کی مطلقہ سے حلالہ کرنے پر کب قادر ہوگی، یاد رہے کہ یہ وہی مولانا نورانی ہیں جنہوں نے اس دور کے محمد شاہ رنگیلے (یحییٰ خان ) کو مے نوشی میں مستغرق دیکھ کر ڈانٹ دیا تھا اور گرج کر کہا تھا: یحییٰ شراب نوشی بند کردو ورنہ ہم جا رہے ہیں[۱]۔
[۱۔ ہفت روزہ ’’چٹان‘‘: ۳؍مئی ۱۹۷۱ء]
مسٹر بھٹو کے عہدۂ صدارت سنبھالنے کے بعد ایک مجلس میں بھٹو سے مولانا نورانی کا تعارف کرایا گیا، تو بھٹو صاحب نے کہا: ’’اچھا یہ ہیں مولانا نورانی جو حکومت کے کاموں میں کیڑے نکالتے ہیں‘‘۔ مولانا نورانی نے فرمایا: ’’حکومت اپنے کاموں میں کیڑے نہ پڑنے دے، تو ہمیں کیوں نکالنے پڑیں مولانا کے برجستہ جواب سے حاضرین خوب محفوظ ہوئے[۱]۔
[۱۔ ابوداؤد محمد صادق، مولانا: شاہ احمد نورانی، ص۲۹]
قلمی خدمات:
آپ نے تحفظ اسلام و تحفظ مقامِ مصطفےٰکی خاطر جہاں دیگر مدایوں میں کام کیا، وہاں تحریری میدان میں بھی اپنی مساعیٔ جمیلہ بروئے کار لائے، چنانچہ آپ نے اسلام کی ابتدائی معلومات پر مشتمل پمفلٹ اردو، فرانسیسی، انگریزی اور متعد دوسری زبانوں میں شائع کرکے پاکستان و بیرونِ پاکستان ان مقامات پر مفت تقسیم کرنے کے انتظامات کیے، جہاں ایک عرصہ سے مشنری جوان لڑکیوں کے ہاتھوں اپنا لٹریچر مفت تقسیم کر رہے تھے، اس طرح آپ نے ہزاروں مسلمانوں کو عیسائیت کے جال میں پھنسنے سے بچالیا[۱]۔
[۱۔ ابوداؤد محمد صادق، مولانا: شاہ احمد نورانی، ص۴۶]
آپ نے دو ضخیم کتابیں عیسائیت اور مرزائیت کے رد میں تحریر فرمائیں جو زیر طبع ہیں۔
۱۔ دی سیل آف دی پرافٹ (مہرِ نبوت) (انگریزی)
۲۔ جیسس کرائسٹ ان دی لائٹ آف قرآن (یسوع مسیح قرآن کی روشنی میں)
عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم:
علامہ شاہ احمد نورانی کو بارگاہِ رب العزت سے محبِ رسول کا وافر حصہ عطا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کی تقریر چاہے مذہبی ہو، چاہے سیاسی، بارگاہِ رسالت میں ہدیۂ عقیدت پیش کرنے کی خاطر آپ قصیدہ بردہ شریف کے وہ اشعار ضرور پڑھتے ہیں، جن میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف ہے۔
آپ کا لباس، اخلاق، حتی کہ گھریلو ماحول کا عربی ہونا حرمین طیبین میں بکثرت حاضری، کھانے میں عرب شریف کی کھجور مبارک ہونا اور بچوں سے عربی زبان میں گفتگو یہ تمام باتیں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ثبوت ہیں۔
سفیرِ اسلام:
مختلف افریقی ممالک کے تبلیغی دوروں مئی ۱۹۷۸ء میں جب علامہ شاہ احمد نورانی کیپ ٹاؤن (جنوبی افریقہ) تشریف لے گئے، تو وہاں کے میئر کی جانب سے شہریوں کے استقبالیہ میں آپ نے ’’اسلام بیسویں صدی کے چیلنج کو قبول کرتا ہے‘‘ کے زیرِ عنوان انگریزی میں خطاب کرتے ہوئے دورِ جدید کے مسائل اور اسلام کے پیش کردہ حل پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ اب دنیا بھر میں غیر مطمئن اور بے چین انسانوں کو اسلام کی اکملیت اور جامعیت کا احساس ہورہا ہے۔
کیپ ٹاؤن کے میئر نے علامہ نورانی کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہیں سفیرِ اسلام کے خطاب سے یاد کیا[۱]۔
[۱۔روزنامہ جنگ ۴مئی ۱۹۷۸ء]
غیرتِ ایمانی:
۱۹۵۸ء میں آپ نے ضیاء الدین بابا خانوف (مفتی اعظم روس) کی خصوصی دعوت پر روس کا دورہ کیا اور ازبکستان، تاشقند، سمرقند و بخارا کے مسلمانوں سے ملے۔ نورانی واحد غیر ملکی ہیں جنہوں نے روسی حکومت کے ہر اقدام کے برعکس سوشلسٹ رہنما لینن کی قبر پر پھول چڑھانے سے انکار کیا[۱]۔
[۱۔ ہفت روزہ صحافت لاہور ۵ تا ۱۱ نومبر ۱۹۷۷ء]
قتل کی سازش اور حملہ:
قائدِ اہلِ سنّت علامہ شاہ احمد نورانی کی حق گوئی سے بھٹو حکومت بہت زیادہ خائف تھی، چنانچہ حکومت کی طرف سے آپ کو ٹھکانے لگانے کے لیے آپ کے قتل کی سازش کی گئی جو کامیاب نہ ہوسکی۔ سابق وزیرِ اعظم مسٹر بھٹو کے ذاتی ملازم نورا کے سگے بھائی عبدالستار نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کے نام ایک یادداشت میں اس بات کا انکشاف کیا، یادداشت کے مطابق پنجاب کے سابق وزیرِ اعلیٰ نواب صادق حسین قریشی نے مارچ ۱۹۷۷ء کے انتخابات کے موقع پر عبدالستار کو چیف منسٹر ہاؤس پنجاب میں طلب کرکے یہ ہدایت دی کہ وہ یثرب کالونی چوک اسلام آباد میں ہونے والے جلسۂ عام میں مولانا شاہ احمد نورانی کو ختم کردے۔ اسے ایسا کرنے پر مکمل تحفظ کا یقین دلایا گیا، جبکہ حکم کی تعمیل نہ ہونے کی صورت میں اس کے خلاف سنگین مقدمات پر کارروائی ہوسکتی ہے۔
عبدالستار نے اس جلسہ میں گڑ بڑ تو کردی، لیکن وہ مولانا نورانی پر گولی نہ چلاسکا، جس کی پاداش میں اسے تھانے لے جاکر مارا گیا[۱]۔
[۱۔ ہفت روزہ افق کراچی، جلد۱، شمارہ ۶، ۸؍جنوری تا ۱۵؍جنوری ۱۹۷۸ء، ص۱]
پاکستان میں نظامِ مصطفےٰ کے نفاذ سے خائف یہ جماعت (پیپلز پارٹی) حضرت قائدِ اہلِ سنّت کے بارے میں بخوبی جانتی ہے کہ یہ شخص نظامِ مصطفےٰ کے سلسلہ میں کسی مصلحت یا سودا بازی کا شکار نہیں ہوسکتا اور یہی وہ راہنما ہے جس نے قوم کو یہ پاکیزہ نعرہ دیا اس لیے پیپلز پارٹی مسلسل آپ کے درپے رہی، یہاں تک کہ اگست ۱۹۷۷ء کو آپ پر قاتلانہ حملہ کردیا گیا۔
۸؍اگست ۱۹۷۷ء مطابق ۲۱؍شعبان المعظم بروز سوموار آپ اپنے رفقاء کے ہمراہ قومی اتحاد کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے مسلم لیگی راہنما چودھری ظہور الٰہی کی اقامت گاہ واقع گلبرگ لاہور جا رہے تھے۔ جیسے ہی قائد اہلِ سنّت کی کار ظفر علی روڈ سے پل پر آئی، وہاں موجود پیپلز پارٹی کے غنڈوں نے آپ کی کار کو گھیر کر اس پر ڈنڈے برسانے شروع کردیے جس سے حضرت قائدِ اہلِ سنّت کے ایک ساتھی سر پر ڈنڈے لگنے سے زخمی ہوگئے۔ حملہ آوروں نے آپ کی گاڑی کے تمام شیشے توڑ ڈالے اور کار پر زبردست پتھراؤ کیا۔ ایک کارکن نے مولانا شاہ احمد نورانی کی دستار مبارک بھی چھیننے کی کوشش کی، لیکن آپ کی کار کا ڈرائیور ہجوم میں خطرہ مول لے کر گاڑی کو تیزی سے نکالنے میں کامیاب ہوگیا[۱]۔
[۱۔ روزنامہ وفاق لاہور، ۹؍اگست ۱۹۷۷ء، ص۱]
اس واقعہ کی جہاں ملک کے ہر سنجیدہ شخص نے مذمت کی، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق نے بھی اپنی نشری تقریر میں نہ صرف اس واقعے کی مذمت کی، بلکہ حضرت مولانا نورانی سے معذرت خواہ ہوئے۔
(تعارف علماءِ اہلسنت)