معدنِ صدق وصفاء،کان عشق ووفاء،فنافی الشیخ،سلطان الشعراء،برہان الفضلاء،طوطیِ ہند،وادیِ خطابت وسخن کے فردِ وحید
حضرت خواجہ ابوالحسن امیر خسرو ،محبوب حضرت محبوب الہٰی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:
اسمِ گرامی:ابوالحسن۔لقب:ترک اللہ،یمین الدین۔تخلص:امیر خسرو۔دہلی کی نسبت سے "دہلوی" کہلائے۔والد کاا سمِ گرامی:امیر سیف الدین لاچین اور نانا کا نام عمادالملک ہے۔آپ کے والدِ بزرگوار "بلخ" کے سرداروں میں سے تھے۔ہندوستان میں ہجرت کرکے آئے اور شاہی دربار سے منسلک ہوگئے۔حضرت امیر خسرو کے والد اور نانا اپنے وقت کے عظیم بزرگ تھے۔
تاریخِ ولادت:
آپ 653ھ بمطابق1255ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔
تحصیلِ علم:
آپ نے ابتدائی تعلیم سے لیکر تمام علوم کی تحصیل وتکمیل اپنے نانا عماد الملک سے کی،جوکہ ایک زبردست عالم اور بےنظیر بزرگ تھے،اور خواجہ نظام الدین اولیاء کے مرید تھے۔انہوں نے اپنے نواسے کی تربیت میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔امیر خسرو علیہ الرحمہ نےبہت جلد تمام علوم میں کمال حاصل کیا،اوراور اپنے وقت کے فضلاء میں شمار ہونے لگے۔
بیعت وخلافت:
آپ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کے مرید اور خلیفہ تھے۔
آپ نے ابھی تک ہمارے چینل کو سبسکرائب نہیں کیا ہے تو جلدی سے سبسکرائب کرلیں۔
سیرت وخصائص:
معدنِ صدق وصفاء،کان عشق ووفاء،فنافی الشیخ،سلطان الشعراء،برہان الفضلاء،طوطیِ ہند،وادیِ خطابت وسخن کے فردِ وحیدحضرت خواجہ ابوالحسن امیر خسرو ،محبوب حضرت محبوب الہٰی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ سلطان الشعراء برہان الفضلا وادی خطابت و سخن کے عالم فرید و وحید نوع انسانی کے دونوں جہان میں منتخب اور بے پایاں تھے۔ مضمون نگاری اور معنی پہنانے کے لیے شعر گوئی اور تمام اقسام سخن میں آپ کو وہ کمال حاصل تھا جو متقدمین و متأخرین شعراء میں سے کسی کو بھی نصیب نہیں ہوا، انہوں نے اپنے اشعار کو اپنے پیر کے فرمان و ارشاد کے مطابق اصفہانی طرز اور نہج پر کہا ہے، لیکن اس کے باوجود آپ صاحب علم و فضل تھے ۔ آپ تصوف کے اوصاف اور درویشوں کے احوال سے متصف تھے۔اگرچہ آپ کے تعلقات ملوک سے تھے اور امراء اور ملوک سے خوش طبعی اور بطور ظرافت میل جول تھا، لیکن قلبی طور پر ان تمام کی طرف میلان نہ تھا اس کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ آپ کے اشعار اور کلام میں جو برکات ہیں وہ تمام تر مشائخ ہی کا فیض معلوم ہوتاہے کیونکہ فساق و فجار کے قلوب برکات سے محروم ہوتے ہیں اور ان کے کلام کو قبولیت اور تاثیر قلبی میسر نہیں ہوتی۔
امیر خسرو علیہ الرحمہ ہر شب کو تہجد میں قرآن کریم کے سات پارے ختم کیا کرتے تھے۔ایک دن شیخ نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ نے آپ سے دریافت کیا اے ترک! تمہاری مشغولیات کا کیا حال ہے؟ عرض کیا یاسیدی!رات کے آخری حصہ میں اکثر و بیشتر آہ و بکا اورگریہ و زاری کا غلبہ رہتا ہے۔شیخ نے فرمایا !الحمدللہ کچھ اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ آپ کو شیخ نظام الدین اولیاء سے بے انتہا عقیدت اور محبت تھی اور شیخ بھی آپ پر نہایت درجہ شفیق اور عنایت کنندہ تھے ۔شیخ کی خدمت اور حضور میں اور کسی کو اتنی رازداری اور قربت حاصل نہ تھی جتنی امیر خسرو کو تھی۔
صاحب سیرالاولیاءآپ کے بارے میں فرماتے ہیں :کہ ایک مرتبہ شیخ نظام الدین اولیاء نے امیرخسرو کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا !کہ میں تمام دنیا سے تنگ آجاتا ہوں مگر تم سے تنگ نہیں ہوتا۔ ایک مرتبہ شیخ نے آپ سے اللہ کو درمیان میں رکھ کر یہ وعدہ فرمایا تھا کہ جب جنت میں جائیں گے تو تجھے بھی ان شاء اللہ عزوجل ساتھ لیکر جائیں گے۔
خلیفۂ اعلیٰ حضرت سید سلیمان شرف بہاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: کہ خسرو علیہ الرحمہ کو کو جو جامعیت مبدأ فیاض سے عطا ہوئی ہے اس طرح کی بخششیں صفحاتِ تاریخ میں بہت کم اور نایاب ونادرہیں۔خصوصاً سرزمینِ ہند کے لئےتو ان کی ذات ایک بےمثل مایۂ نازوفخرہے۔مختلف پہلؤوں سےان کی ذات باکمالوں کی صف میں صدرنشیں پائی جاتی ہے۔"اگرصوفی کی حیثت سے دیکھو توفانی فی اللہ،ندیم کی حیثیت سے دیکھو تو ارسطوءِ زمانہ،عالم کی حیثیت سے دیکھوتومتبحّر علامہ،موسیقی کی حیثیت سے دیکھو توامام المجتہد،مؤرخ کی حیثیت سے دیکھوتوبےنظیرمحقق،شاعر کی حیثیت سے دیکھوتوملک الشعراء۔ان کے ہرکمال کادامن نہایت وسیع ہےاور اپنےبیان میں نہایت طوالت پذیر!سچ ہے::لیس علی اللہ بمستنکر ۔ان یجمع العالم فی واحد(مقدمہ مثنوی ہشت بہشت،ص:61)
حضرت امیر خسروؒ کی حضرت نظام الدین اولیاؒ سے بیعت کا واقعہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ ان کی عمر اس وقت آٹھ برس تھی جب ان کے والد انہیں اور ان کے بڑے بھائی کو لے کر حضرتؒ کی بارگاہ میں لے جانے لگے تو انہوں نے والد سے پوچھا کہ مرید ارادہ کرنے والے کو کہتے ہیں جب تک میرا خود ارادہ بیعت کا نہ ہو تو کیونکر مرید ہو سکتا ہوں۔ والد کمسن بیٹے کے اس جواب پر حیران ہوئے اور بڑے بھائی سے ارادہ پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ نے جو ارادہ کیا ہے وہ یقیناً میری بھلائی کے لئے کیا ہے لہٰذا میں اندر جا کر بیعت کروں گا، حضرت امیر خسروؒ نے والد سے باہر بیٹھے رہنے کی اجازت مانگی اور وہیںبیٹھ کر والد اور بڑے بھائی کا انتظار کرنے لگے۔ اسی دوران کمسن امیرخسروؒ نے ایک شعر اپنے ذہن میں موزوں کیا اور یہ خیال کہ اگر حضرت نظام الدین اولیاؒ ولی کامل ہیں تو میرے اس شعر کا جواب شعر میں دیں گے اور میں تب اندر جا کر ان کا مرید ہوں گا وگرنہ اپنے والد اور بھائی کے ساتھ گھر واپس لوٹ جائوں گا۔ جو شعر انہوں نے فارسی میں موزوں کیا اس کا ترجمہ درج ذیل ہے۔
’’تو ایسا بادشاہ ہے کہ اگر محل کے کنگورے پر کبوتر آن بیٹھے تو تیری برکت سے وہ کبوتر باز بن جائے پس ایک غریب اور حاجت مند تیرے دروازے پر آیا ہے وہ اندر آ جائے یا الٹا چلا جائے؟‘‘
کمسن امیر خسروؒ یہ شعر ذہن میں موزوں کرکے چپ چاپ بیٹھ گئے کہ اچانک حضرت کا خادم دروازے سے باہر آیا اور ان سے پوچھاکہ کیا وہ ترک زادے ہیں۔ کم سن امیر خسرو نے جواب دیا ہاں، میرے والد اور بھائی اندر گئے ہیں یہ سن کر وہ خادم بولا مجھے حضرت نے حکم دیا ہے کہ دروازے کے باہر ایک ترک زادہ بیٹھا ہے اس کے سامنے یہ شعر پڑھ کر واپس آ جائو۔ خادم نے جو شعر پڑھا اس کا ترجمہ سنیئے:۔
(اندر چلا آئے حقیقت کے میدان کا مرد تاکہ ہمارے ساتھ کچھ دیر ہمرازبن جائے اور اگر وہ آنے والا ناسمجھ اور نادان ہے تو جس راستے سے یہاں آیا اسی راستے سے واپس چلا جائے)
شعر سنتے ہی کم سن امیر خسروؒ دیوانہ وار اندر دوڑے اس وقت ان کے والد اور بھائی کے علاوہ حضرت سیدمحمدکرمانیؒ بھی وہاں موجود تھے، دونوں نے ایک دوسرے کو غور سے مسکرا کر دیکھا اور پھر حضرت امیر خسروؒ نے حضرت نظام الدین اولیاؒ کے قدموں میں سر رکھا دیا۔ حضرت نے بے ساختہ فرمایا کہ آ جا آ جا اے مرد حقیقت اور ایک دم کے لئے ہمارا ہمراز بن جا جسکے بعد حضرت نے انہیں بیعت سے سرفراز فرمایا۔ اس موقع پر امیر خسروؒ نے یہ شعر کہا۔ ترجمہ:۔ حضرت کی غلامی پر مجھے فخر ہے میرے خواجہ نظامؒ ہیں اور میں نظامی ہوں) یہ شعر سن کر حضرت کے دیگر مریدوں میں بھی خود کو نظامی کہلانے کا جذبہ اور شوق پیدا ہو، تو امیر خسرو بچپن میں ہی حضرت کے یوں ہمراز بنے کہ پھر ان کے سوا کوئی بھی حضرت کا ہمراز نہ تھا اور نہ ہی ان سے زیادہ حضرت نے کسی سے محبت فرمائی اور موت بھی اس ہمراز کو مرنے کے بعد اپنے محبی سے جدا نہ کر سکی۔
حضرت امیر خسروؒ نے حضرت نظام الدین اولیاؒ کی ہدایت پر اپنے کلام میں اصفہانی شعرا کا عشق و محبت کا رنگ اختیار کیا جس کی بدولت انہیں بہت زیادہ پذیرائی ملی۔ ایک روز حضرت امیر خسروؒ نے اپنا کلام حضرت کو سنایا جسے سن کر وہ از حد خوش ہوئے اور فرمایا کہ مانگ کیا مانگتا ہے؟ امیر خسروؒ نے عرض کی کہ اپنے کلام میں شیرینی، حضرت نے جواب دیا میری چارپائی کے نیچے شکر سے بھرا تھال رکھا ہے وہ اٹھا لا، حضرت نے تھوڑی سی شکر انہیں کھلائی اور پھر فرمایا کہ شکر کا تھال اپنے سر پہ رکھ چنانچہ اس کے بعد حضرت امیر خسروؒ کے کلام میں وہ لذت اور شیرینی پیدا ہوئی جس نے ایک عالم میں تہلکہ مچا دیا۔ حضرت امیر خسروؒ اپنی ہر نئی کتاب آپ کی خدمت میں پیش کرتے تو آپ برکت کی دعا فرماتے اور بعض اوقات کسی مضمون پر اعتراض کرکے اس کی اصلاح بھی فرماتے۔ حضرت نظام الدین اولیاؒ نے اپنے ہاتھ سے بہت سے خطوط لکھ کر حضرت امیر خسروؒ کو ارسال فرماتے جن میں بیش بہا قیمتی اور انمول باتیں ہوتیں۔
یہ حضرت محبوب الہیؒ کا علمی ذوق و شوق تھا کہ اس دور کے بے مثل اہل قلم ان کے گرد پروانہ وار جمع رہتے اور ان میں سے ہر پروانہ اس شمع محفل پہ جان و دل لٹانا اپنے لئے سب سے بڑا اعزاز سمجھتا۔ بستی غیاث پور میں ان کے وسیع وعریض کتب خانے کی شہرت ہندوستان سے باہر بھی تھی۔ حضرت محبوب الہیؒ سفر میں جاتے تو بھی اپنی پسندیدہ کتب کا ذخیرہ ان کے ہمراہ ہوتا۔ ان کے حلقہ ارادت میں جمع ہونے والے بے مثل علما، فضلأ، بلندپایہ شعر اور مؤرخ سب نے عالمگیر شہرت حاصل کی اور یہ سب حضرت محبوب الہیؒ کی چوکھٹ کا فیضان تھا اور ان سب میں بازی لے جانے والی محبوب و محترم شخصیت حضرت امیر خسروؒ کی تھی اور یہ اسی پیرومرشد کی تربیت کا اثر تھا کہ برسوں صائم الدہر رہے اور عشق الہی کی ایسی سورش تھی کہ سینے پر سے کپڑا جل جاتا تھا۔ حضرت محبوب الہیؒ کو بھی حضرت امیر خسروؒ سے اس قدر محبت تھی کہ وصیت فرمائی تھی کہ خسروؒ میرے مزار کے قریب نہ آنے پائیں وگرنہ میرا جسم بے تاب ہو کر باہر آ جائے گا چنانچہ حضرت امیر خسروؒ حضرت محبوب الہیؒ کے وصال کے بعد مزار کو دور ہی بیٹھ کر حسرت بھری اور پرنم آنکھوں سے دیکھا کرتے۔ حضرت محبوب الہیؒ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ فرمایا کہ اگر شریعت میں اجازت ہوتی تو یہ وصیت کرتا کہ امیر خسروؒ کو بھی میری قبر میں دفن کیا جائے۔ ایک مرتبہ حضرت نے ارشاد فرمایا… میں سب سے تنگ آ جاتا ہوں مگر اے ترک تجھ سے کبھی تنگ نہیں ہوتا، دوسری بار فرمایا کہ میں سب سے تنگ ہو جاتا ہوں، یہاں تک کہ اپنے آپ سے بھی مگر سوائے تیرے اے ترک۔ ایک مرتبہ تخلیہ میں ارشاد فرمایا کہ میری سلامتی کی دعا مانگا کر تیری سلامتی میری سلامتی پر منحصر ہے کیونکہ تو میرے بعد جلدی دنیا سے رخصت ہو جائے گا اور یہ بھی دعا کر کہ لوگ تجھ کو میرے قریب دفن کریں اور انشااللہ ایسا ہو گا۔ حضرت محبوب الٰہی فرمایا کرتے تھے کہ روز حشر جب یہ سوال ہو گا کہ نظام الدین دنیا سے کیا لایا تو میں بارگاہ ایزدی میں عرض کروں گا کہ ’’ترک کے سینے کا سوز لایا ہوں‘‘ جب کہ اللہ کے حضور یہ دعا بھی مانگا کرتے کہ اے اللہ اس ترک کے سینے کے سوز کے طفیل مجھے بخشش عطا کر۔ حضرت نظام الدین اولیاؒ نے حضرت امیر خسروؒ کی شان میں یہ رباعی بھی ارشاد فرمائی۔ ترجمہ:۔ (وہ خسرو جس کا نظم ونثر میں کوئی ثانی نہیں ہے اور ملک سخن کی بادشاہی اسی کے لئے زیبا ہے وہ خسرو میرا خسرو ہے، ناصر خسرو نہیں ہے (ناصر خسرو ایک دوسرا شاعر گزرا ہے) اس واسطے کہ میرے خسرو کا خدا ناصرومددگار ہے) جبکہ امیر خسرو کی محبت میں شعر سرطفل بھی پڑھا ترجمہ لو اگر میری پیشانی پر آرا بھی رکھ دیا جائے اور یہ کہا جائے کہ اپنے ترک کو چھوڑ دے تو میں اپنی پیشانی کو چھوڑ دوں گا لیکن اپنے ترک (خسرو) کو ہرگز نہیں چھوڑوں گا جبکہ حضرت امیر خسرو کا بیشتر کلام اپنے مرشد کی شان میں ہے انکی مشہور زمانہ منقبت چھاپ تلک سب چھین لی موسے نیناں ملائے کے (تیری اک نظر میں کیا تاثیر اور جادو تھا جس نے میری پیشانی سے بت پرستی کی تمام نشانیاں مٹا ڈالی ہیں)
اگر آپ حضرت امیر خسروؒ کے فارسی کلام کا سرسری جائزہ لیں تو غالب کے جلوہ صد رنگ کی معنویت بھی اس کے سامنے ہیچ نظر آتی ہے اور غالب نے بھی اس کا برملا اعتراف کیا ہے کہ وہ حضرت امیر خسروؒ کے چشمہ فکر سے زیادہ فیض یاب ہوئے ہیں۔ حضرت امیر خسروؒ کی ہمہ رنگ شخصیت کے پہلوئوں کا بیک وقت جائزہ لینا ازحد مشکل ہے۔ ان کی مثال سچ مچ ایک ایسے اساطیری پیکر کی ہے جن کا ہر روپ دوسرے سے بالکل مختلف اور جلوہ تمثال خیال کی دنیا سمیٹے ہوئے جلوہ گر نظر آتا ہے، ابھی ایک روپ کا سحر نہیں ٹوٹنے پاتا کہ دوسرا اروپ اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے، اعلی اقدار، تہذیبی روایات اور رویے، تاریخی اور ثقافتی حادثات وواقعات اور اس عہد کے اہم ترین رجحانات ان سب کا شعور اور وجدان ان کی شخصیت اور تخلیقی صلاحیتوں کی بے مثال ترجمانی کا آئینہ دار ہے۔
ان کی رنگا رنگ شخصیت ہندوستان اور عجم کی اقدار کا مرقع دکھائی دیتی ہے، برصغیر مں ان جیسا جامع صفات اور ان سے زیادہ عمدہ اور بڑا ذوق جمال رکھنے والا کوئی پیدا نہیں ہوا۔ بطور شاعر ان کا مقام اتنا بلند ہے کہ دیگر شعر ان کے سامنے بونے نظر آتے ہیں، پانچ زبانوں میں شاعری کی فارسی زبان میں اشعار کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد ہے۔ پانچ مثنوی میں اٹھارہ ہزار سے کم اشعار نہ ہوں گے، سنسکرت زبان میں بھی شاعری کی۔ فصاحت وروانی، سوزوگداز اور تصوف کی چاشنی ان کے کلام کی خاص پہچان ہیں۔ ہندوستانی موسیقی کے اس بڑے لیجنڈ نے اپنے عمدہ اور نفیس اور منفرد تجربات کی بدولت ہندوستانی موسیقی کو ایک نئی پہچان اور نئے عنوان سے روشناس کرایا، تصوف کے میدان میں ان کے مقام و مرتبہ کا اندازہ حضرت محبوب الہیؒ کے فرامین سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ان کی تاریخی مثنویوں سے تاریخ فیروز شاہی (ضیاالدین برنی) منتخب التواریخ (عبدالقادر بدایونی اور تاریخ فرشتہ (ابوالقاسم فرشتہ) نے استفادہ کیا اور حوالہ جات بھی رقم کئے ہیں۔ مثنوی قران السعدین میں امیر خسروؒ نے ڈرامہ اور فکشن کو روشناس کرایا ہے۔
ہندوستان، دہلی یہاں کے پھل، پھول، خواتین اور موسموں کی تعریف کرتے ہوئے ان کی رومانویت اور جمالیاتی ذوق اور شعور اپنے معراج پر نظر آتا ہے۔ انسانی رشتے، اخلاقی قدریں اور خلوص و محبت ان کا سب سے بڑا پیغام ہیں۔ ان کی کہہ مکرنیاں، پہیلیاں، سخنے، دوسخنے اور بدائی کے گیت آج آٹھ سو سال بعد بھی زبان زدعام ہیں، ان کی تصانیف کی تعداد سو اور بعض مقامات پر دو سو بتائی گئی ہیں۔ جس میں سے اب بیس باقی ہیں اور جو ہیں وہ بھی نایاب ہو چکی ہیں۔
اپنے محبوب مرشد کے وصال کے وقت آپ بنگال میں تھے، یکایک حضرت نظام الدین اولیاؒ کی یاد میں دل بے چین ہوا اور انہوں نے دہلی کی راہ لی جہاں ان کی آمد سے قبل ہی ان کی دنیا اجڑ چکی تھی اور کائنات کی سب سے قیمتی متاع منوں مٹی تلے دفن ہو چکی تھی، حضرت محبوب الہیؒ کی وصال کی خبر سن کر سر ٹکرا کر چیخ ماری اور کہا کہ واہ! آفتاب زیر زمین ہے اور خسرو زندہ ہے اور بے ہوش ہو گئے، ہوش آتے ہی اپنی تمام املاک اور نقد سب کچھ محبوب الہی کی روح کے ایصال کے لئے فقیروں اور مساکین میں تقسیم کر دیا اور ماتمی لباس زیب تن کرکے درگاہ شریف پر بیٹھ گئے 18 شوال کو اپنے وصال سے چند روز قبل آپ نے اپنے مرشد کی یاد میں یہ شہرہ آفاق دوہا پڑھا تھا۔…؎
گوری سوے سیج پہ مکھ پر ڈارو کیس
چل خسرو گھر آپنے رات بھئی چوندیس
(میرے پیر حضرت محبوب الہیؒ جو گیسو دراز تھے وہ اپنے رخ زیبا کو اپنے بالوں سے ڈھانپ کر محو خواب ہیں، اے خسرو تو بھی اب اپنے اصلی گھر چل کیونکہ شام کی تاریکی ہر طرف چھا گئی ہے)
آخر میں حضرت بو علی قلندر کا وہ مشہور واقعہ جس میں انہوں نے پیارے نبیؐ کی محفل میں حضرت محبوب الٰہی کا مرتبہ ملاحظہ فرمایا اور یہ بلند مقام و مرتبہ جب حضرت امیر خسرو نے بھی اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا تو بے ساختہ پکار اٹھے! …؎
خدا خود میر مجلس بود اندر لامکاں خسرو
محمدؐ شمع محفل بود شب جائیکہ من بودم
احمیر خسرو کا خوبصورت واقعہ
حضرت امیر خسرو حضرت محبوبِ الٰہی خواجہ نظام لدّین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے
ایک بار حضرت محبوبِ الٰہی خواجہ نظام لدّین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اے خسرو ہر جمعرات کے دن حضرت بو علی شاہ قلندر رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں محفل ہوتی ہے آپ اس محفل میں شرکت کیا کیجئے پیرومرشد کا حکم تھا حضرت امیر خسرو نے جانا شروع کر دیا ایک جمعرات کی محفل میں حضرت بو علی قلندر نے فرمایا اے خسرو ہم نے کبھِی اللہ کے نبی کی کچہری میں تمہارے شیخ محبوبِ الٰہی کو نہیں دیکھا یہ بات سن کر حضرت امیر خسرو بہت پریشان ہوگئے۔آپکو اپنے شیخ سے بے حد محبت تھی اور جیسا کہ ہر مرید کو اپنے شیخ پر بے حد مان ہوتا ہے امیر خسرو کو بھی تھا آپ کافی پریشان رہنے لگے ایک دن حضرت محبوبِ الٰہی نے فرمایا اے خسرو پریشان دکھتے ہو عرض کی ۔نہیں سیّدی ایسی کوئی بات نہیں مگر شیخ نے مرید کے بے چین دل کا حال جان لیا تھا پھر پوچھنے پر سارا ماجرا بتا دیا تو اس پر حضرت محبوبِ الٰہی نے فرمایا کے اگلی بار جب حضرت بو علی قلندر ایسا کچھ فرمائیں تو ان سے عرض کرنا کہ آپ مجھَے اللہ کے نبی علیہ سلام کی کچہری میں پہنچا دیں اپنے شیخ کو میں خود ہی تلاش کر لو٘ں گا حضرت امیر خسرو بہت خوش ہو گئے کچھ دن بعد پھر حضرت بوعلی قلندر نے ایسا ہی فرمایا تو آپ نے کہا حضرت آپ مجھَے اللہ کے نبی علیہ سلام کی محفل میں پہنچا دیں اپنے شیخ کو میں خود ہی تلاش کر لوں گا توحضرت بو علی قلندر مسکرااور آپکے سینے پر ہاتھ رکھا تو جب آنکھِ بند کی تو دل کی آنکھ کھل گئی اور امیر خسرو بارگاہِ محبوبیت یعنی بارگاہِ رسالت میں پہنچ گئے ۔اور پہںچ کر ہر ولی اللہ کا چہرہ دیکھنے لگے مگر حضرت محبوبِ الٰہی نظر نہ آئے اتنے میں اللہ کے حبیب علیہ سلام نے فرمایا اے خسرو کس کو تلاش کرتے ہو عرض کی حضرت اپنے شیخ کو تلاش کرتا ہوں ۔قربان جائیں آقاعلیہ سلام نے فرمایا اس سے اوپر والی محفل میں جاؤ تو آپ اس سے اوپر والی محفل میں چلے گئے وہاں بھی آقا علیہ سلام موجود تھے حضرت امیر خسرو پھر ہر اللہ کے ولی کا چہرہ دیکھنے لگے مگر آپ کو آپ کے شیخ نظر نہ آئےپھر اللہ کے حبیب نے فرمایا خسرو کسے تلاش کرتے ہو عرض کی حضرت اپنے شیخ کو تلاش کرتا ہوں فرمایا اس سے اوپر والی محفل میں جاو ۔اسطرح کرتے کرتے امیر خسرو ساتویں محفل جوکہ آخری کچہری ہے تک پہنچ گئے اور ہر ولی کا چہرا دیکھنے لگے ہر منزل کے ساتھ ساتھ اتنے دن کی تڑپ بڑھتی جا رہی تھی۔وہاں بھی آقا علیہ سلام موجود تھے اور آپکے بلکل قریب ایک بزرگ تھے اور انکے بلکل پیچھے ایک اور بزرگ تھے آقاعلیہ سلام نے ان سے فرمایا۔کہ کبھِی پیچھے بھِی دیکھ لیا کیجیئےتو جیسے ہی انہوں نے پیچھے دیکھا تو وہ حضرت محبوبِ الٰہی تھے اور انکے بلکل آگے جو بزرگ تھے جب انہیں نے پیچھے دیکھا تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ ولیوں کے سردار حضور غوثِ پاک تھَے جب حضرت امیر خسرو نے اتنے دنوں کی پریشانی کے بعد اپنے شیخ کا یہ مقام دیکھا تو ولیوں کے درمیان میں سے اپنے شیخ تک پہنچنے کی کو شیش کی توساتھ ہی حضرت بو علی قلندر نے اپنا ہاتھ اٹھا لیا اور آپ ساتھ ہی پھر اس دنیائے فانی میں آگئے لیکن آپ وجد میں تھے
جھومتےجھومتے اپنے شیخ کے آستانے تک آئَے اور یہ کلام لکھا نمی دانم کہ آخر چوں منم دیدار ۔۔۔!!
اس سارے واقع میں کچھ باتیں بہت اہم ہیں
ایک یہ کہ جس طرح آقا علیہ سلام ہر محفل میں موجود ہیں اسی طرح آپ ہر جگہ موجود ہیں اور اپنے ہرامتّی کا احوال اور نام تک جانتے ہیں جبھِی تو امیر خسرو کا نام لے کر مخاطب ہوئے.دوسری یہ کے حضرت بو علی قلندر حضرت امیر خسرو کو انکے شیخ کا مقام دکھانا چاہتے تھے
اس سب واقع میں حضرت امیر خسرو کی سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ جو اس نا چیز کو بے حد کے عزیز ہے وہ یہ کہ سیدّی علیہ سلام آپ سے سات بار مخاطب ہوئے۔۔
اللہ اکبر اس سے بڑھ کرایک امتی کے لئے خوش قسمتی کیا ہو سکتی ہے....!
مالک ہمیں بھِی اپنے حبیب علیہ سلام کی بارگاہ میں قبول فرمائے آمین یا کریم....
نوٹ: یہ واقعہ مختلف روایتوں میں مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ھے تو اس بات کو ملحوظِ خاطر رکھ کر اس پر آپ تاثرات کمنٹ کریں ۔
کلام :امیر خسرو رح
مترجم : نثار علی
نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم
بہر سو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم
(نہیں معلوم کیسا تھا مکاں کل شب جہاں میں تھا
کہ ہر سو رقص بسمل تھا وہاں کل شب جہاں میں تھا)
پری پیکر نگارِ سرو قد لالہ رخسارے
سراپا آفت دل بودشب جائے کہ من بودم
(حسیں پیکر جسامت سرو سا قد پھول سے رخسار
سراپا حسن تھا دل پر عیاں کل شب جہاں میں تھا)
رقیباں گوش بر آواز او ور ناز من ترساں
سخن گفتن چہ مشکل بود شب جائے کہ من بودم
(اسی کی بات پر سب کان دھرتے میں ترستا تھا
بہت مشکل تھا کچھ کہتی زباں کل شب جہاں میں تھا)
خدا خود میر مجلس بود اندر لامکاں خسرو
محمد شمعِ محفل بود شب جائے کہ من بودم
(اجاگر لامکاں میں خود خدا تھا صاحب محفل
نبی تھے شمعِ بزمِ لامکاں کل شب جہاں میں تھا )
وصال: آپ کا وصال 18/شوال المکرم725 ھ بمطابق/اکتوبر1325ء کوہوا۔آپ کا مزار حضرت محبوب الہٰی کے پہلو (دہلی،انڈیا)میں ہے۔
ماخذو مراجع:مقدمہ مثنوی ہشت بہشت۔اخبارالاخیار۔سیرالاولیاء