نام ونسب :
ابونصربشر بن الحارث بن عبدالرحمن بن عطاء بن المروزی البغدادی المعروف بہ بشرحافی حضرت بشر حافی رحمتہ اللہ علیہ ایک بلند مرتبہ ولی اور مجاہدہ و مشاہدہ میں یکتائے روزگار تھے آپ علی حشرم رحمتہ اللہ علیہ کے بھانجے اور ان ہی سے بیعت تھے۔ آپ مرو کے ایک گائو ں میں 152ھ میں پیدا ہوئے لیکن زندگی کا زیادہ تر حصہ بغداد میں بسر کیا۔ آپ کی توبہ کا واقعہ اس طرح ہے کہ ایک دفعہ نشہ و مستی کی حالت میں کہیں جارہے تھے۔ اسی حالت میں کاغذ کا ایک ٹکڑا آپ کو پڑا ہوا ملا جس پر بسم اللہ لکھا ہوا تھا۔ آپ نے اس کاغذ کو اٹھا کر صاف کیا اور عطر سے معطر کیا۔ پھر ایسی جگہ رکھا جہاں بے ادبی ہونے کا خوف نہ تھا۔ اسی رات خواب میں اللہ تعالی نے ایک بزرگ آدمی کو حکم فرمایاکہ تم جا کر بشر حافی رحمتہ اللہ علیہ سے کہہ دو تم نے ہمارے نام کی عزت کی اور اس کو معطر کرکے بلند جگہ پر رکھا ہم بھی اسی طرح تم کو پاک کرکے تمہارا مرتبہ بلند کریں گے۔ یہ حکم سن کر وہ بزرگ حیران ہوئے اور انہوں نے دل میں سوچا کہ بشر حافی رحمتہ اللہ علیہ تو ایک فاسق و فاجر آدمی ہے یقینا میرا خواب غلط ہے چنانچہ وہ وضو کرکے دوبارہ سو گئے اب کی دفعہ بھی خواب میں وہی حکم ہوا لیکن قوت متصورہ کی غلطی سمجھ کر تیسری بار وضو کرکے پھر سو گئے۔ پھر وہی خواب دیکھا۔ چنانچہ وہ بزرگ صبح اٹھ کر آپ کے گھر تشریف لے گئے اور دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ شراب خانے میں ہوں گے اور وہاں سے پتہ چلا کہ آپ نشے میں بے سدھ پڑے ہیں۔ بزرگ نے لوگوں سے کہا تم اس سے کہو کہ میں اسے پیغام دینا چاہتا ہوں لوگوں نے جاکر انہیں بتایا۔ انہوں نے کہا پوچھ کر آ کس کا پیغام ہے۔ بزرگ نے کہا اللہ تعالی کا پیغام لایا ہوں۔ اللہ تعالی کا نام سنتے ہی آپ ڈر گئے اور رو پڑے کہ نہ جانے موت کا پیغام ہے یا عتاب الہی کا۔ ڈر کی وجہ سے نشہ ختم ہو گیا۔ اردگرد سے لوگوں کو ہٹا دیا۔ پیغام سن کر توبہ کی۔ دوستوں سے کہا اب تم اس کام میں مجھے ہرگز نہ دیکھو گے۔ توبہ کے بعد آپ نے ریاضت و مجاہدہ شروع کیا۔ اللہ تعالی نے آپ کے نام میں ایسی برکت پیدا کر دی کہ جو کوئی سنتا اسے راحت حاصل ہوتی۔
آپ حافی (ننگے پائوں والا)مشہور ہوئے۔ لوگوں نے آپ سے ننگے پائوں چلنے کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ توبہ کے وقت ننگے پائوں تھا۔ اب مجھے جوتا پہنتے ہوئے شرم آتی ہے۔
بشر حافیؒ آئمہ حدیث کی نظر میں
بغداد میں مشہور ائمہ شريك وحماد بن زيدسے حدیث سنی زہد و تقویٰ اور ریاضت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ آپ کو تمام ائمہ حدیث نے ثقہ قرار دیا ہے۔ آپ کا انتقال ہوا تو تمام محدثین کو انتہائی رنج ہوا۔ امام احمد بن حنبل نے ان کی موت کی خبر سن کر فرمایا ’’ انہوں نے اپنی مثال نہیں چھوڑی‘‘۔ شيخ عبد القادرجيلانی، جنيد بغدادی، فضيل بن عیاض اوربشر حافی کی ابن تیمیہ نے بہت تعریف کی اور ان کا نام رکھا "متصوفۃ على طريقۃ أهل السنۃ"[6] بشر حافی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی عالم رویا میں زیارت کی۔ آپ نے فرمایا: اے بشر! کہ تو جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے ہم عصروں پر تجھے کیوں رفعت دی؟ میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ! میں نے نہیں جانا۔ آپ نے فرمایا: باتباعک لسنتی وخدمتک للصالحین ونصیحتک لا خوانک و محبتک لاصحابی واھل بیتی وھوالذی بلغک منازل الابرار۔ میری سنت کی اتباع کے سبب اور صالحین کی خدمت اور برادرانِ اسلام کو نصیحت کرنے کے سبب اور میرے اصحاب واہل بیت کی محبت کے سبب اللہ تعالیٰ نے تجھے پاک لوگوں کے مرتبہ میں پہنچا یا
سیِّدُنابشر حافیعَلَیْہِ الرَّحمَہکے ارشادات:
تم اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتے جب تک تمہارا دشمن بھی تم سے امن میں نہ ہو، تو بھلا تم میں کون سی بھلائی ہے جب کہ تمہارا دوست بھی تمہاری طرف سے امن میں نہ ہو۔انسان کو دنیا میں جو پہلی سزا ملتی ہے وہ اس کے پیاروں سے جُدائی ہے۔مومن کے لئے یہ بات غنیمت ہے کہ لوگ اس سے غافل ہوں اور اس کا مقام ومرتبہ ان سے پوشیدہ رہے۔ متکبر کے ساتھ تکبر سے پیش آنا بھی تواضع کی ایک قسم ہے۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے صبرِ جمیل کے متعلق پوچھا گیا تو ارشاد فرمایا: صبرِ جمیل وہ ہے جس میں لوگوں سے شکوہ شکایت نہ ہو۔
عبرت ہی عبرت:
منقول ہے کہ حضرت سیِّدُنا بشر حافی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیایک شخص سے ملے جو نشے میں دُھت تھا۔ وہ شخص آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ہاتھ چومنے لگا اور کہنے لگا: اے میرے سردار!اے ابونصر!آپ نے اسےایسا کرنے سے نہ روکا۔جب وہ چلا گیا تو آپ کی آنکھیں بھرآئیں اور فرمانے لگے: ایک شخص دوسرے شخص کو نیک گمان کرکے اس سے محبت کرتا ہے، ہوسکتا ہے کہ محبت کرنے والا نجات پاجائے لیکن اس کے محبوب کا نہ جانے کیا انجام ہو۔
بغداد میں مشہور آئمہ شری وحماد بن زیدسے حدیث سنی زہد و تقوی اور ریاضت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ آپ کا انتقال ہوا تو تمام محدثین کو انتہائی رنج ہوا۔ امام احمد بن حنبل نے ان کی موت کی خبر سن کر فرمایا انہوں نے اپنی مثال نہیں چھوڑی۔ شیخ عبد القادرجیلانی, جنید بغدادی, فضیل بن عیاض اوربشر حافی کی ابن تیمیہ نے بہت تعریف کی اور ان کا نام رکھا ’’متصوف علی طریق اہل السنۃ‘‘
بشر حافی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی عالم رئویا میں زیارت کی۔ آپ نے فرمایا: اے بشر!کہ تو جانتا ہے کہ اللہ تعالی نے تیرے ہم عصروں پر تجھے کیوں رفعت دی ؟ میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! میں نے نہیں جانا۔ آپ نے فرمایا: باتباعک لسنتی وخدمتک للصالحین ونصیحتک لا خوانک و محبتک لاصحابی واھل بیتی وھوالذی بلغک منازل الابرار۔
میری سنت کی اتباع کے سبب اور صالحین کی خدمت اور برادرانِ اسلام کو نصیحت کرنے کے سبب اور میرے اصحاب واہل بیت کی محبت کے سبب اللہ تعالی نے تجھے پاک لوگوں کے مرتبہ میں پہنچا یا
حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ اکثر آپ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں آیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے شاگرد کہتے کہ اس کے باوجود کہ علم، فقہ، حدیث اور اجتہاد میں آپ کی نظیر نہیں ملتی ایک دیوانے کے پاس آپ کا جانا سمجھ سے بالاتر ہے اور یہ امر آپ کی شان کے خلاف ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا، تمہاری نسبت میں اپنے علم کو زیادہ جانتا ہوں، لیکن حضرت بشر حافی رحمتہ اللہ علیہ اللہ تعالی کو مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔
آپ کے لیئے جائز نہیں
ایک خاتون نے امام احمد بن حنبل سے مسئلہ دریافت کیا کہ میرے گھر میں میرے پڑوسی کی روشنی آتی ہے اور اس روشنی میں سلائی کا کام کرتی ہوں کیا یہ جائز ہے امام صاحب نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں لیکن آپ چونکہ بشر حافی کی بہن ہیں لہذا آپ کے لیے جائز نہیں ہے۔
ایک دفعہ چھت پر جانے لگے تو گھر کی سیڑھیوں پر اسی حالت میں کھڑے کھڑے رات بسر کر دی۔ صبح کے وقت آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ہمشیرہ نے پوچھا تو فرمایا، میں سوچ رہا تھا کہ اس شہر میں میرے ہم نام تین آدمی اور ہیں۔ ایک آتش پرست، ایک عیسائی اور ایک یہودی ہے۔ انہیں اللہ تعالی نے اسلام کی نعمت سے کیوں محروم رکھا اور مجھے کس عمل کے بدلے اس قدر سرفراز فرمایا۔ ایک دفعہ لوگوں نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ یہاں بغداد کے شہر میں حلال و حرام کی تمیز باقی نہیں رہی اور حرام زیادہ ہے۔ ایسی صورت میں آپ کہاں سے کھاتے ہیں ؟ فرمایا۔ جہاں سے تم کھاتے ہو۔ پوچھا!پھر یہ رتبہ کیسے ملا فرمایا کم سے کم لقمہ اور کم سے کم دوستی کی وجہ سے۔
احمد بن ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک دفعہ مجھے فرمایا، حضرت معروف رحمتہ اللہ علیہ سے کہہ دینا کہ نماز پڑھ کر تمہارے پاس آئوں گا۔ چنانچہ میں نے پیغام دے دیا اور وہ انتظار کرتے رہے۔ ظہر، عصر، مغرب حتی کہ عشاکی نماز سے فارغ ہو چکے لیکن آپ رحمتہ اللہ علیہ نہ آئے۔ میں نے دل میں سوچا کہ بشر حافی رحمتہ اللہ علیہ جیسا آدمی وعدہ خلافی کرے یہ ہو تو نہیں سکتا۔ چنانچہ میں آپ کے انتظار میں مسجد کے دروازے میں بیٹھ گیا۔ یہاں تک کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ مصلی اٹھا کر مسجد سے چلے گئے جب دریائے دجلہ کے کنارے پہنچے تو پانی کی سطح پر چلنے لگے۔ صبح تک حضرت معروف رحمتہ اللہ علیہ سے بات چیت کرتے رہے۔ واپسی پر بھی اسی طرح دریا عبور کیا۔ میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کے قدموں میں گر پڑا اور دعا کی درخواست کی چنانچہ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے دعا کی اور فرمایا، کسی سے ذکر نہ کرنا۔ چنانچہ میں نے آپ کی زندگی میں کسی سے اس بات کا ذکرنہ کیا۔ ایک دفعہ آپ رحمتہ اللہ علیہ رضا کے متعلق کچھ فرما رہے تھے۔ ایک شخص نے کہا آپ لوگوں سے کوئی چیز نہیں لیتے۔ اگر آپ واقعی زاہد ہیں تو خود دنیا طلب نہ کریں، کم از کم لوگوں سے لے کر دوسرے درویشوں میں تقسیم کر دیا کریں۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا !درویش تین طرح کے ہوتے ہیں۔ اول جو کسی سے کچھ نہیں مانگتے اور کوئی کچھ دے تو لیتے بھی نہیں۔ یہ اولی قسم ہے۔ دوسری قسم درویشوں کی وہ ہے جو کسی سے کچھ مانگتے نہیں اور کوئی کچھ دے تو لے لیتے ہیں۔ تیسری قسم وہ ہے جو صبر کے ساتھ جہاں تک امکان ہو اللہ پر بھروسا کرتے ہیں اور محنت کرنے سے جی نہیں چراتے۔
ایک دفعہ ایک شخص نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے پاس دو ہزار درہم ہیں جو حلال کمائی کے ہیں اور میں حج کرنا چاہتا ہوں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا تو سیر کرنے جانا چاہتا ہے۔ اگر خدا کی رضا کیلیے جاتا ہے تو یہی درہم کسی درویش یا محتاج یاعیال دار حاجت مند کا قرض ادا کرنے میں خرچ کر دے یا یتیم کی مدد کر۔ اس نے کہا کہ مجھے حج کی خواہش زیادہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تیرا مال حلال کمائی کا نہیں ہے۔
ایک دفعہ آپ رحمتہ اللہ علیہ قبرستان میں سے گزرے تو اہل قبور آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے دعا کی، یاالہی مجھے ان کی حالت سے آگاہ کردے آواز آئی کہ ان ہی سے پوچھ لے۔ چنانچہ آپ نے ان سے پوچھا۔ جواب ملا کہ ایک ہفتہ قبل یہاں سے گزرتے ہوئے کسی مرد خدا نے ہمیں فاتحہ کا ثواب بخشا وہ ہم سات دن سے تقسیم کررہے ہیں۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنے مریدوں سے فرمایا کرتے تھے کہ سیاحت کیا کرو کہ بہتا ہوا پانی صاف ستھرا رہتا ہے۔ پھر فرمایا اگر کسی کو دنیا میں محبوب خلائق ہونے کی آرزو ہے تو اسے کہہ دو کہ تین باتوں سے پرہیز کرے۔ اول یہ کہ خلقت سے کچھ نہ مانگے۔ دوسرے کسی کو برا نہ کہے۔ تیسرے کسی کے ساتھ مہمان بن کر نہ جائے۔ پھر فرمایا کہ جو شخص نام و نمود اور شہرت کا طالب ہے وہ کبھی فلاح نہیں پا سکتا۔ پھر فرمایا کہ سب سے بہتر چیز جو بندوں کو دی گئی معرفتِ الہی ہے اور فقیروں کیلیے صبر ہے۔ اگر اللہ تعالی کے کوئی خاص بندے ہیں تو وہ عارف ہیں، جن کو اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا اور نہ اللہ کے سوا کوئی ان کی عزت کرتا ہے۔ صوفی وہ ہے جس کا دل خدا کے ساتھ پاک و صاف ہو۔ فرمایا کہ اہل دنیا کو سلام کرو، لیکن ان سے سلام کی توقع نہ رکھو۔ فرمایا بخیل کو دیکھنے سے دل سخت ہو جاتا ہے۔ جیسے بندپانی خراب ہو جاتا ہے۔ فرمایا، اگر عبادت کی طاقت نہیں تو پھر گناہ بھی نہ کرو۔
آپ ؒ نے10محرم الحرام 227ھ میں وفات پائی۔ بشر حافی کے انتقال کے بعد ایک اللہ والے نے خواب میں دیکھا اورپوچھا کہ اللہ تعالی نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ فرمایاکہ مجھے میرے مالک نے بخش دیا اورفرمایاکہ اے بشر !کیا تجھے مجھ سے شرم نہیں آتی کہ تومجھ سے اس قدر ڈرتا ہے(سبحان اللہ )
اللہ والوں کے حالات و واقعات پڑھ اور سن کر رب کے نیک بندے انہی کے نقش قدم پہ چلنے کی کوشش کرتے ہیں، حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات وواقعات ایمان کوبیدار کرتے ہیں اللہ پاک ہمیں بھی اللہ والوں کے نقش قدم پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین)