علامہ عبد الحکیم شرف قادری (تذکرہ / سوانح)
شرف ملت حضرت علامہ مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری، لاہور علیہ الرحمۃ
میدانِ تحریر و تدریس کے شاہسوار حضرت علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادری بن مولانا اللہ دتہ بن نواز بخش ۱۳۶۴ھ/ ۱۹۴۴ء میں بمقام مرزا پور ضلع ہوشیار پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد ایک متقی اور پابند شریعت بزرگ ہیں۔ حضور پرنور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور اولیاء کرام سے محبت ان کے افعال اور اعمال میں نمایاں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی اولاد کی صحیح تربیت اسی نہج پر فرمائی ہے، چنانچہ ان کی دین سے والہانہ محبت کا نتیجہ ہے کہ حضرت علامہ شرف قادری کو خاص طور پر علومِ اسلامیہ کی تعلیم سے آراستہ کیا جن کی صلاحیتوں کا زمانہ معترف ہے۔
قیامِ پاکستان کے وقت آپ کا خاندان ہجرت کرکے لاہور پہنچا۔ آپ کے والد ماجد مستقل طور پر یہیں مقیم ہوگئے۔ اس وقت آپ کی عمر تقریباً چار سال کے لگ بھگ تھی۔ آپ نے پرائمری تک تعلیم لاہور میں حاصل کی اور پھر علومِ اسلامیہ کی تعلیم کے لیے آپ کو والد ماجد نے جامعہ رضویہ فیصل آباد میں داخل کرادیا، جہاں آپ نے حضرت محدث اعظم مولانا محمد سردار احمد رحمہ اللہ کی نگرانی میں درس نظامی کا نصاب شروع کیا۔ خود ان سےبھی منطق کا ابتدائی رسالہ صغریٰ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔
فیصل آباد میں آپ نے مولانا حافظ احسان الحق، سیّد منصور شاہ، مولانا حاجی محمد حنیف، مولانا حاجی محمد امین اور مولانا محمد عبداللہ جھنگوی رحمہ اللہ (م۲۵ ذوالحجہ ۱۳۹۳ھ) کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا۔
۲۹؍جمادی الاولیٰ، ۲؍جنوری (۱۳۷۶ھ/ ۱۹۵۷ء) کو آپ سیال شریف پہنچے اور وہاں حضرت مولانا صوفی حامد علی رحمہ اللہ (م۱۹؍رجب المرجب، ۱۶؍جولائی ۱۳۹۶ھ/ ۱۹۷۶ء) مہتمم مدرسہ نعمانیہ رضویہ لیہ (مظفر گڑھ) سے نحومیر پڑھی۔ علاوہ ازیں حضرت مولانا محمد اشرف سیالوی حال شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور سےبھی کچھ اسباق پڑھے۔
متوسط کتب کی تعیم کے لیے آپ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور میں حضرت مولانا غلام رسول حال شیخ الحدیث جامعہ رضویہ فیصل آباد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے علمی استفادہ کیا۔ اس دارالعلوم میں اگرچہ آپ نے مولانا نور محمد، مولانا شمس الزماں، مولانا محمد ایوب اور مولانا غلام مصطفےٰ سے بھی چند کتابیں پڑھیں، لیکن اکثر و بیشتر کتب کی تعلیم حضرت مولانا غلام رسول اور حضرت مولانا مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی ناظمِ اعلیٰ تنظیم المدارس (اہل سنت پاکستان) سے حاصل کی۔
بعد ازاں آخری کتب پڑھنے کے لیے مولانا شرف قادری، بندیال میں استاذ الاساتذہ حضرت مولانا عطا محمد (بندیالوی) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہاں آپ نے تقریباً ہر فن میں استفادہ کیا۔ نحو میں عبدالغفور و تکملہ، بلاغت میں مختصر المعانی و مطول، منطق میں ملا جلال، رسالہ قطبیہ، قاضی اور حمداللہ، فلسفہ میں میبذی، صدر اور شمس بازغہ، علم ہیئت میں تصریح ہندسہ میں اقلیدس، فقہ میں ہدایہ مکمل، اصول فقہ میں حسامی و مسلم الثبوت، حدیث میں مشکوٰۃ و ترمذی اور تفسیر میں بیضاوی پڑھی۔ اس کے علاوہ بعض کتب کا سماع بھی کیا جن میں بدیع المیزان، مرقاۃ، قال اقوال، شرح تہذیب، قطبی مع میر، ملا حسن اور رشیدیہ شامل ہیں۔
علامہ شرف قادری نے تدریسی زندگی کاآغاز ۱۹۶۵ء میں جامعہ نعیمیہ لاہور سے کیا۔ ۱۹۶۶ء میں حضرت استاذ العلماء مولانا مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی نے انہیں جامعہ نظامیہ رضویہ میں بلالیا۔ جہاں انہوں نے ۱۹۶۷ء تک تدریسی فرائض انجام دیے۔
۱۹۶۸ء میں پیرِ طریقت حضرت صاحبزادہ محمد طیب الرحمان چھوہروی، آپ کو حضرت مفتی صاحب کی اجازت سے دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ ہری پور لے گئے، جہاں آپ نے صدر مدرس اور مفتی کی حیثیت سے چار سال تک کام کیا۔
دسمبر ۱۹۷۱ء میں مدرسہ اسلامیہ اشاعت العلوم چکوال کے منتظمین کی دعوت اور شدید اصرار پر چکوال آگئے۔ یہاں دو سال تک فرائضِ تدریس انجام دیے۔
۱۹۷۳ءمیں آپ لاہور آئےا ور دوبارہ جامعہ نظامیہ رضویہ میں صدرمدرس اور استاذ الحدیث مقرر ہوئے۔
ہری پور میں قیام کے دوران آپ نے وہاں کے بکھرے ہوئے سنی علماء کو جمع کیا اور جمعیت علماء سرحد، پاکستان کے نام سے ایک تنظیم قائم کی، آپ ہی کو جمعیت کا ناظمِ اعلیٰ مقرر کیا گیا اور دیگر تبلیغی امور کے علاوہ پہلی مرتبہ آپ کی قیادت میں ہری پور کے سنیوں نے امامِ اہلِ سنت مولانا الشاہ احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے یومِ رضا منایا۔
چکوال میں بھی آپ نے نوجوان اور فعال کارکنوں کو اکٹھا کرکے جماعت اہل سنت قائم کی اور وہاں کے لوگوں میں سنیت اور رضویت کی روح پھونک دی اور بڑی دھوم دھام سے یومِ رضا منایا گیا۔
مولانا عبدالحکیم شرف قادری نے ہری پور قیام کے دوران اپنی اشاعتی زندگی کا باضابطہ طور پر آغاز کیا۔ نیز مکتبہ رضویہ لاہور قائم کرکے آپ نے حاشیہ مولانا احمد حسن برحمداللہ، اقامۃ القیامہ، ایذان الاجر، الکافی، شرح ایساغوجی، نامِ حق مع حاشیہ فضل حق، شرح کریما اور سیف الجبار ایسے مفید رسائل، شروح اور حواشی شائع کیے۔
جمعیت علماء پاکستان (سرحد) کی طرف سے فضائل اذکار، الحجۃ الفاتحہ، بذل الجوائز، نور الانوار، یاد اعلیٰ حضرت، شرح الحقوق، مسائلِ اہل سنت، عقد الجیر اور ذکر بالجہر ایسی عقائد اہل سنّت پر مشتمل کتابیں شائع کیں۔
تبلیغ و اشاعت کو وسعت دینے کے ارادے سے آپ نے دسمبر ۱۹۷۳ء میں دارالعلوم جامعہ نطامیہ رضویہ میں حضرت مولانا مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی، مولانا الحاج محمد منشا تابش قصوری اور مولانا الحاج محمد جعفر ضیائی کے تعاون سے مکتبہ قادریہ قائم کیا۔
قلیل عرصہ میں مکتبہ قادریہ لاہور کی طرف سے مندرجہ ذیل کتب شائع ہوئیں:
۱۔ النیرۃ الوضیہ، امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ
۲۔ ہمارا اسلام (پانچ حصے) مولانا مفتی محمد خلیل خان برکاتی
۳۔ باغی ہندوستان، مولانا عبدالشاہد شروانی
۴۔ تاریخ تناولیاں (سو سالہ پرانی تاریخ)
۵۔ کوثر الخیرات، مولانا محمد اشرف سیالوی
۶۔ تذکرۃ المحدثین، مولانا غلام رسول سعیدی
۷۔ مقامِ سنت، مولانا محمد مشتاق احمد چشتی
۸۔ محمد نور، مولانا محمد منشا تابش قصوری
۹۔ اغثنی یا رسول اللہ، مولانا محمد منشا تابش قصوری
۱۰۔ ذکر بالجہر (ہر دو حصّہ) مولانا غلام رسول سعیدی
۱۱۔ المبین، مولانا سیّد سلیمان اشرف
مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری جہاں تدریسی و تقریری صلاحیتوں سے بہرہ ور ہیں، وہاں اللہ تعالیٰ نے فنِ تحریر کا بھی ملکہ ودیعت فرمایا ہے؛ چنانچہ مختلف رسائل و جرائد میں آپ کے تحقیقی مضامین اس بات پر شاہد عدل ہیں۔
الحدیقۃ الندیہ، حاشیہ امام فضل حق خیرآبادی، دو اہم فتوے، سیف الجبار اور باغی ہندوستان پر نہایت تحقیقی اور مبسوط مقدمے آپ کی تحریر خوبیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ آپ نے تدریس کی ذمہ داری سے عہدہ بر آ ہونے کے ساتھ ساتھ مدرجہ ذیل کتب تصنیف فرمائیں:
۱۔ یادِ اعلیٰ حضرت (اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہ کی سوانح) ۲۔ فضِ حق حاشیہ نامِ حق، ۳۔حاشیہ کریما، ۴۔ احسن الکلام فی مسئلۃ القیام ۵۔مسائل اہل سنّت، ۶۔ غایۃ الاحتیاط فی جواز حیلۃ الاسقاط، ۷۔سوانح سراج الفقہاء[۱] (یہ مقالہ امام احمد رضا نمبر اور انوارِ رضا میں شائع ہوچکا ہے) ۸۔ تذکرہ اکابر اہل سنت (پاکستان) ۹۔ حاشیہ مرقاۃ(عربی) ۱۰۔ حواشی قاضی مبارک (غیر مطبوعہ) ۱۱۔ ترجمہ کشف النور عن اصحاب القبور (از علامہ عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی)
[۱۔ شائع کردہ مرکزی مجلسِ رضا لاہور]
۲۵؍ مارچ ۱۹۷۰ء کو آپ نے حضرت مفتیٔ اعظم پاکستان ابوالبرکات سیّد احمد رحمہ اللہ کے دستِ حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل کیااور تبرکاً سندِ حدیث بھی حاصل کی۔
۱۹۶۳ء میں آپ کی شادی ہوئی۔ اس وقت آپ کے تین صاحبزادے ممتاز احمد، مشتاق احمد، اور نثار احمد اور دو صاحبزادیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اولاد کو اسلاف کا نمونہ بنائے (آمین)
آپ کی تدریسی زندگی میں سے بے شمار طلباء نے اکتسابِ فیض کیا، تاہم چند مشہور تلامذہ یہ ہیں:
۱۔ مولانا حافظ عطا محمد مہتمم مدرسہ خوشاب
۲۔ مولانا عزیز اللہ، ڈسٹرکٹ خطیب لاڑکانہ (سندھ)
۳۔ مولانا غلام نبی، صدر مدرس مدرسہ حنفیہ سراج العلوم گوجرانوالہ
۴۔ مولانا احمد دین، صدر مدرس توگیرہ شریف
۵۔ قاری عبدالرشید، ناظمِ اعلیٰ مدرسہ شیراکوٹ لاہور
۶۔ قاری عبدالرسول، کوٹ اُدّو
۷۔ مولانا محمد رفیق چشتی، مؤلف شرح کریما
۸۔ مولانا محمد عصمت اللہ، آزاد کشمیر
۹۔ صاحبزادہ حمید الدین، دورریاں، آزاد کشمیر[۱]
[۱۔ غلام رسول سعیدی، مولانا: تعارف، مؤلف تذکرہ اہل سنّت، مولفہ شرف قادری ص۱۴ تا ۱۸]
(تعارف علماءِ اہلسنت)