داعی کبیرحضرت مولانامحمد شاکر علی نوری دام ظلہ Biography Ameer e Sunni Dawat e Islami Maulana Shakir Ali Noorie مولانا شاکر علی نوری

 داعی کبیرحضرت مولانامحمد شاکر علی نوری دام ظلہ



داعی کبیرحضرت مولانامحمد شاکر علی نوری دام ظلہ (امیر سنّی دعوت اسلامی)کی حیات کا ہر گوشہ اورہر پہلوتابندہ وتابناک ہے۔مختلف اعتبار سے حضرت مولانامحمد شاکر علی نوری کی حیات نمایاں اور گوناگوں خصوصیات کی حامل ہے۔دین پر استقامت ،شریعت مطہرہ پر ثابت قدمی،علم میں اعلیٰ مقام،فن خطابت میں مہارت اورتصنیف وتالیف میں دسترس وغیرہ غرضیکہ ہر پہلو اچھوتااور منفرد ہے۔ لیکن ان تمام خوبیوں پر مستزاد سب سے عظیم صفت جوآپ میں نمایاںوہ ہے ’’دعوت وتبلیغ کی تڑپ‘‘ ۔ اور اس میدان میں آپ نے جوخصوص و امتیاز حاصل کیا وہ بہت کم لوگوں کو میسرآتاہے۔ یہی وہ نمایاں و صف ہے جسے دیکھ کر حضور مفکر اسلام نے آپ کو ’’داعی کبیر ‘‘کا عظیم لقب عطا کیا ۔ آپ کی حیات میں ہر جگہ داعیانہ تڑپ ،تبلیغی بصیرت اور مشن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکمیل کے لیے بے پناہ جدوجہد کے نمونے ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں ۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سنّی دعوت اسلامی کی سربراہی کرتے ہوئے مکمل پچیس سال آپ کی دیدہ وری ، تبلیغی بصیرت اور قائدانہ صلاحیت کا عظیم شاہکار ہے تو غلط نہ ہوگا۔۲۰۰۹ء میں دی رائیل اسلامک اسٹراٹے جِک اسٹڈی سینٹر (جارڈن) نے پوری دنیامیں اثرورسوخ رکھنے والے پانچ سو مسلم افراد پر مشتمل سروے رپورٹ پیش کی ،پھر چند سالوں کے وقفے کے بعد ہر سال پانچ سو مسلم بااثر شخصیات پر مشتمل رپورٹ منظر عام پر آ رہی ہے۔بحمدہِ تعالیٰ!حضرت موصوف کا نام۲۰۰۹ء ،۱۴۔۲۰۱۳ء، ۱۵۔۲۰۱۴ء ،۲۰۱۶ء اور ۲۰۱۷ء کی سروے رپورٹ میں مسلسل آرہاہے۔آپ کو خانۂ کعبہ میںنماز اداکرنے کا شرف بھی حاصل ہے۔ مولانا شاکر علی نوری نے اپنے اصلاحی کاموں کی بدولت دنیا بھر میں مقبولیت پائی، آپ مخلص داعی، کامیاب مصلح اور اہل سنت کے عظیم عالم دین ہیں۔

٭ولادت اور اسم گرامی :

۱۷؍مارچ ۱۹۶۰ء بمقام جوناگڑھ،کاٹھیاواڑ،صوبۂ گجرات میں عالی جناب عبدالکریم میمن 

نوری کے یہاںمولاناشاکر علی نوری کی ولادت ہوئی۔آپ کے یہاں اکابر اہل سنت کی تشریف آوری ہوتی رہتی تھی جس سے ہندوستان کے مشہور علمااور مشائخ سے آپ کے گھرانے کے روابط کا پتا چلتاہے۔

٭تعلیم وتربیت:

 ایس ایس سی (میٹرک)تک تعلیم جونا گڑھ میں حاصل کی ،مدرسہ عرفان العلوم اپلیٹہ اور دارالعلوم مسکینیہ دھوراجی میںتعلیم حاصل کی۔ وہیں تجوید وقراء ت کا کورس بھی مکمل کیا،اس کے بعد سنی دارالعلوم محمدیہ، متصل مینارہ مسجد ممبئی میں داخل ہوئے اور جماعت خامسہ تک درس نظامی کی تعلیم حاصل کی پھر تبلیغ کے میدان میں آگئے۔

٭اساتذۂ کرام :

 آپ کے چند اساتذۂ کرام یہ ہیں:

حضرت مولانا غلام غوث علوی ہاشمی، حضرت مولانا قاری نور الحق مبارکپوری ، مولانا محمد حنیف اعظمی مبارکپوری، مولانا مجیب الرحمن صاحب قادری، حضرت مولانا ظہیر الدین خان ، حضرت مولانا توکل حسین حشمتی،حضرت مولانا جان محمد برکاتی وغیرہ سے تعلیم حاصل کی اور اشرف العلما حضرت سید حامد اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ سے وقتاً فوقتاً استفادہ کرتے رہے۔

٭بیعت وخلافت :

حضور پیرومرشد کو حضرت سیدی مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا قادری نوری علیہ الرحمۃ والرضوان سے شرف بیعت حاصل ہے ۔۱۷؍ صفر المظفر۱۴۳۳ھ کوشہزادۂ حضورسیدالعلماء حسان الہندحضرت سید شاہ آل رسول حسنین میاں نظمی مارہروی علیہ الرحمہ نے آپ کو سلسلۂ عالیہ قادریہ بر کاتیہ قدیمہ وجدیدہ کی خلافت سے نوازا۔بغداد معلی سے نقیب الاشراف حضرت سید یوسف الگیلانی سے بھی سلسلۂ قادریہ میںخلافت حاصل ہے۔

حضرت نظمی مارہروی نے خلافت عطا کرتے وقت آپ سے فرمایاتھا :

’’شاکر بھائی!خوب لگن سے دین کاکام کرو،ذراسامغموم اور رنجیدہ نہ ہونا،یہ فقیر برکاتی اور خاندان برکاتیہ آپ کے ساتھ ہیں،میں آپ کو وہ خلافت دیتاہوںجو حضرت نوری میاں علیہ الرحمہ نے حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کو دی تھی،یعنی سلسلہ جدیدہ اور قدیمہ دونوں کی خلافت دیتا ہوں - ‘‘(اہل سنت کی آواز،۲۰۱۴ء ،ص۴۳۴)

’’غور کیاجائے تو اس ایک جملے میں جہاں اعتماد،چاہت،اصاغر نوازی،اپنائیت اور والہانہ سرپرستی کی رنگارنگی موجود ہے،وہیں اس میں تبلیغ دین اور اشاعت مسلک حق کی مقبول بارگاہ خدمات اور دینی وعلمی اثرات کی دانش ورانہ پیشین گوئی بھی عکس ریز ہے-‘‘(مرجع سابق)

الحمدللہ! حضرت بھی ’’نوری‘‘ ہیں، آپ کی والدہ ماجدہ بھی ’’نوری‘‘ اور آپ کے والد مرحوم بھی ’’نوری‘‘ تھے اور راقم الحروف بھی’’ اسی سلسلۂ نوریہ‘‘ سے منسلک ہے اور آج تو ایک جہان اسی نور عرفان سے روشن ومنور ہے۔حضرت نے ’’نوری‘‘ پیر سے جو اکتسابِ نور کیا وہ قابل رشک ہے ، مرشد بر حق مفتی اعظم حضرت علامہ مصطفی رضا’’نوری‘‘ علیہ الرحمہ کے فیضان نے انہیں سنت کا عامل بھی بنا دیا اور شریعت کا عالمی مبلغ بھی۔

۲۱؍جون ۲۰۱۷ء بمقام مدینۂ منورہ میں امانتِ اعلیٰ حضرت شاگرد و خلیفۂ مفتی اعظم ہند شیخ القراء حضرت مولانا الحاج الشاہ ابو شامول قاری محمد امانت رسول صاحب قادری برکاتی رضوی (سربراہِ اعلیٰ سرچشمۂ ہدایت الجامعۃ الرضویہ مدینۃ الاسلام، ہدایت نگر،پیلی بھیت) نے قدمین مصطفی میں امیرسنّی دعوت اسلامی کو چودہ سلسلوں کی خلافت عطا فرمائی۔دامادِحضورامانتِ اعلیٰ حضرت محمد عاشق رضا قادری امانتی کا بیان ہے کہ علامہ شیخ قاری امانت رسول قادری برکاتی رضوی نے فرمایا:’’ مفتیِ اعظم ہند کی بارگاہ سے اشارہ ہوا کہ مولانا شاکر علی نوری خدمتِ دین متین میں مصروف ہیں،ان کو یہ خلافتیں دی جائیں۔‘‘

٭سجادگان وممتاز علماکے تاثرات:

حضور نظمی مارہروی علیہ الرحمہ نے اپنا نعتیہ مجموعہ ’’نوازش مصطفی‘‘تحریری دستخط کے ساتھ جب امیر سنّی دعوت اسلامی کو بہ طور تحفہ عنایت فرمایاتو اس میں آپ نے اپنے دستخط کے ساتھ یہ تاریخی جملہ قلم بند فرمایاتھا:

’’اس مستانے کی نذر جسے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے مقدس کام کے لیے چناہے جو اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے،یعنی تبلیغ دین متین۔میری مراد علامہ شاکر نوری برکاتی سے ہے جنہیں میں اپنے بھائی کی طرح چاہتاہوں-‘‘(اہل سنت کی آواز،۲۰۱۴ء ،ص۴۳۴)
مولاناشاکر علی نوری صاحب نے ابتدا ہی سے زمینی اورانفرادی محنت پرخصوصی توجہ مرکوز کیں جس کے سبب لاکھوں گم گشتگانِ راہ نے ہدایت پائی۔اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے امین ملت پروفیسر سیدمحمد امین میاں برکاتی صاحب ( سجادہ نشین آستانۂ قادریہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ ، وپروفیسر شعبہ اُردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)رقم طراز ہیں:
 ’’میں دِلی گہرائیوں سے مولانا شاکر رضوی صاحب اور ان کی تحریک ’’سنی دعوت اسلامی ‘‘کے لیے دعاکرتا ہوں،نہ جانے کتنے گمراہ اس تحریک میںشامل ہوکر صراط مستقیم پر گامزن ہوگئے۔اللہ تعالیٰ مولانا کے علم وفضل ،جمال وکمال اور تصلب دینی میں دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے ۔آمین-‘‘ (برکات شریعت مجلد،حصہ اوّل ،ص۳۴)
اسی طرح امیر سنّی دعوت اسلامی نے ملک و بیرون ممالک میں چمنستان سنیت کی جو باغ وبہار لگائی ہے،ان خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے سنّی دعوت اسلامی کے زیر اہتمام جاری علاقۂ خاندیش کی معیاری درس گاہ ’’دارالعلوم چشتیہ‘‘کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نبیرۂ اعلیٰ حضرت مولانا منان رضامنانی میاں صاحب نے تحسین آفرین کلمات ارشاد فرمائے،وہ یہ ہیں، ملاحظہ کریں:’’پہلی مرتبہ مہاراشٹر کی سرزمین پر ایسا ہواکہ امیر اہل سنت سنّی دعوت اسلامی کی جان، مسلک امام احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کو پھیلانے والا انسان، نازش سنّیت، حضرت مولاناحافظ قاری محمدشاکر علی نوری۔میں سمجھتاہوں کہ حضور مفتی اعظم ہند کی روح بھی بہت خوش ہوگئی ہوگی۔اللہ کا بڑافضل واحسان ہے کہ ان کے کام کو نندوربار ہی میں نہیں دیکھا،منانی نے ان کے کام کو انگلینڈکی زمین پر بھی دیکھاہے اور وہاں ان کے لندن کے پروگرام،لیسٹر کے پروگرام،لسبن کے پروگرام،مانچسٹرکے پروگرام،پرسٹن کے پروگرام ۔علاقۂ عالم اسلامی میں منانی گیااور ایک دو ملک نہیں،سولہ ملک میں۔الحمدللہ!سولہ ملک میں جانا ہوا،کہیں ہمیں بستر اٹھانانہیں پڑا، ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔   ؎
کون دیتا ہے دینے کو منہ چاہیے
دینے والا ہے سچا ہمارا نبی 
اللہ کا بڑافضل واحسان ہے۔منّانی تو بعد میں گیا،پرسٹن،لسبن،بولٹن۔اعلیٰ حضرت نے نمائندہ بناکر کے امیر اہلسنّت شاکر علی نوری کو پہلے بھیج دیا۔بعد میں ہم گئے پہلے یہ گئے،۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ۔ ۔‘‘(۱۲؍اگست بروز منگل ۲۰۰۸ء ،نندوربارمہاراشٹر)
خانوادۂ اعلیٰ حضرت کے ایک ممتاز فرد کا یہ گراں قدر تاثر خصوصاً یہ جملے:’’منّانی تو بعد میں گیا،پرسٹن،لسبن،بولٹن۔اعلیٰ حضرت نے نمائندہ بناکر کے امیر اہلسنّت شاکر علی نوری کو پہلے بھیج دیا۔ ‘‘ مولانا شاکر علی نوری صاحب کی بے پناہ مقبولیت پر دال ہے۔
٭تدریسی خدمات:
یوںتو آپ نے باضابطہ کسی مدرسے میں تدریس کی خدمات انجام نہیں دی، اس وجہ سے کسی رجسٹرسے آپ کے تلامذہ کی تعداد نہیں معلوم کی جاسکتی مگر آپ کی ذات بابرکت سے فیض حاصل کرنے والے ہزاروں کی تعداد میں ہیں جو پوری دنیامیں اپنی شان کے مطابق دین حنیف کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
آپ ملک ہندوستان میں ایک سو گیارہ دارالعلوم بشمول انگلش میڈیم اسکول اور جامعات قائم کرنے کا منصوبہ رکھتے ہے۔اس نیک مقصد کے لیے آپ نے ’’شعبۂ دراسات اسلامیہ‘‘ قائم فرمایاہے۔ اس مقصد میں آپ کو کافی حد تک کامیابی بھی مل چکی ہے۔ شعبۂ دراسات اسلامیہ کے تحت جاری اداروں کا شناختی نام ’’نجم العلوم‘‘ ہے۔ ان اداروںمیں فی الحال شعبۂ حفظ، شعبۂ قرأت، شعبۂ عا  لمیت، شعبۂ فضیلت، شعبۂ تخصص فی الادب العربی، امامت کورس اور مبلغ کورس کی تعلیم و تربیت جاری ہے، مزید شعبوں کی تعلیم ان شاء اللہ مستقبل قریب میں جاری کی جائے گی۔ سب سے پہلے مرکزی ادارہ جامعہ غوثیہ نجم العلوم کا قیام عمل میں آیا اور پھر رفتہ رفتہ شعبۂ دراسات اسلامیہ وسیع ہوتا چلا گیا۔ اس وقت اس کے تحت جو ادارے رو بہ عمل
ہیں، ان کی اجمالی فہرست اس طرح ہے:
(۱)جامعہ غوثیہ نجم العلوم ،کامبیکر اسٹریٹ ممبئی ۔۳(۲)جامعہ حرا نجم العلوم، مہاپولی، بھیونڈی، تھانے(۳)دارالعلوم انوار مدینہ نجم العلوم،سنجے نگر پٹھان واڑی ملاڈایسٹ ممبئی (۴) دارالعلوم فیضان بخاری نجم العلوم، ڈونگری، ممبئی(۵)دارالعلوم انوار مدینہ نجم العلوم، اورنگ آباد ، بہار(۶)دارالعلوم قادریہ نجم العلوم، بھائو نگر گجرات(۷)دارالعلوم برکات خواجہ نجم العلوم، آمود گجرات(۸)دارالعلوم مالک بن دینار نجم العلوم، اُپلا، کیرلا(۹)دارالعلوم چشتیہ نجم العلوم، پالی راجستھان (۱۰)دارالعلوم غوث العلوم، گونڈہ، یوپی(۱۱)دارالعلوم چشتیہ نجم العلوم، نندوربار، مہاراشٹر(۱۲)دارالعلوم انوار خواجہ نجم العلوم،داہوڑ،گجرات(۱۳)دارالعلوم رضائے مصطفی نجم العلوم، گلبرگہ(۱۴)دارالعلوم غوثیہ نجم العلوم، نیرل تھانے(۱۵)دارالعلوم قادریہ نوریہ نجم العلوم، ہبلی(۱۶)دارالعلوم رضائے مصطفی نجم العلوم (للبنات) گلبرگہ(۱۷)دارالعلوم عائشہ صدیقہ نجم العلوم (للبنات) مالیگاؤں (۱۸) دارالعلوم حلیمہ سعدیہ نجم العلوم (للبنات)، بھیونڈی(۱۹)دارالعلوم حلیمہ سعدیہ نجم العلوم (للبنات) املنیر(۲۰)دارلعلوم گلشن فاطمہ نجم العلوم(للبنات) اچل پور(۲۱)جامعہ خاتون جنت نجم العلوم (للبنات) ہاسپیٹ، کرناٹک (۲۲)نوری تربیتی سینٹر ،بھروچ (۲۳)دارلعلوم گلشن نوری ،سورت(۲۴)حرا انگلش اسکول ،مہاپولی(۲۵)حرا انگلش اسکول ،جے پور(۲۶) حرا انگلش اسکول ،املنیر(۲۷)حرا انگلش اسکول ،مالیگاوں(۲۸)حرا انگلش اسکول ،تاڑپتری (۲۹)دارلعلوم فیضان خواجہ غریب نواز، اجمیر(۳۰)ایس ڈی آئی یوتھ سینٹر،یوکے (۳۱) دارالعلوم خدیجہ الکبری نجم العلوم (للبنات) مالیگاؤں(۳۲)الجامعۃ الرضا نجم العلوم مالیگاؤں(۳۳)مدرسہ عربیہ خاتون جنت چیتا کیمپ ممبئی(۳۴)دارالعلوم نوری نجم العلوم، ہاسپیٹ(۳۵) جامعہ حرا نجم العلوم، بنگلور(۳۶) حرا انگلش اسکول ،جھارکھنڈ(۳۷)مدرسہ بزم خاتون جنت،گھاٹکوپر،ممبئی(۳۸)مدرسہ انوار مصطفیٰ نجم العلوم،بیدر(۳۹)مدرسہ جامعہ حرا نجم العلوم ،املنیر(۴۰)مدرسہ حلیمہ سعدیہ ، املنیر(۴۱) حرا انگلش اسکول ،سیکنڈبرانچ جے پور (۴۲)حرا انسٹی ٹیوٹ ،جے پور (۴۳)دارالعلوم قادریہ نجم العلوم تھانے رابوڑی (۴۴)دارالعلوم مخدومیہ نجم العلوم ،باندرہ (۴۵)حسنین کریمین تربیتی سینٹربھیونڈی وغیرہ۔ 
اس کے علاوہ ان اداروں کے تحت کئی عصری اداروں میں تحریک کے مبلغین، مبلغات، علما و عالمات دینی تعلیم و تربیت کر رہے ہیں ، ان میں صُفّہ انگلش اسکول مصطفی بازار ممبئی اور البرکات مَلِک محمد ہائی اسکول کرلا سر فہرست ہیں۔
٭ممتازتلامذہ:
میدان دعوت وتبلیغ میںحضرت مولانامحمد شاکر علی نوری صاحب کی صلاحیت،دینی خدمات اور اثرات اپنی جگہ،آپ کے تربیت یافتہ مبلغین میں مہارت کا یہ حال کہ آج خصوصیت سے برصغیر اور دنیاکے مختلف علاقوں میںتحریک سنّی دعوت اسلامی کے ذریعے آپ کے تربیت یافتہ علما،حفاظ اور مبلغین کی ایک بڑی ٹیم دینی ،اصلاحی،ملی اور رفاہی خدمات انجام دے رہی ہے۔آپ کے شاگردوں اور فیض یافتگان میں کئی ایک ایسے مفتیان، علما،حفاظ اور مبلغین ہیں جن کی مساعی جمیلہ سے کوئی ایک خطہ نہیں بلکہ گائوں کے گائوں، قصبوں اور شہروںکے مکینوں کے ایمان وعقیدے کو تحفظ مل رہاہے۔ آپ کے تربیت یافتہ چند مبلغین کے نام یہ ہیں:
محترم عارف پٹیل (یوکے)، محترم سلیم پٹیل (کینیڈا)، قاری محمد رضوا ن خانصاحب (پرنسپل ہاشمیہ کالج، ممبئی)، مولانا سید محمد امین القادری (نگراں سنّی دعوت اسلامی،مالیگائوں)، روحیب رضا (بھیونڈی)، سید محمد قادری (جے پور ،راجستھان)، ہبلی کرناٹک سے اسلم بھائی اور جعفر بھائی۔ اس فہرست میں درجن بھر سے زائد ایسے نام پیش کیے جاسکتے ہیں جو ریاستی سطح پر دینِ متین کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔
٭مشا ہیر خلفا:

٭اخلاق واوصاف :
حسن اخلاق مومن کا جوہر ہے حضور داعی کبیر اس وصف سے متصف ہیں اور فرائض و واجبات
و سنن پر عمل میں منفرد المثال ۔اور آپ اپنی حیات سے اسی کا درس بھی دے رہے ہیں۔ آپ کی زندگی کا ہر گوشہ شریعت اسلامیہ کی پاسداری کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ آپ کی ایمانی جرأت کسی بھی قسم کی مصلحت کو شی اور چشم پوشی سے مبرا ہے ، خلاف شرع کام دیکھ کر فوراً اس کے ازالے کی کوشش فرماتے ہیں۔ آپ معرفت الٰہی کے لیے فکرسازی اور عملی زندگی میں دینی احکام کی جلوہ گری پر زوردیتے ہیں۔آپ کی دعوت پر لاکھوں افراد گمراہی اور ضلالت کے اندھیرے سے نکل کر راہِ راست پر زندگی گزاررہے ہیں۔ امیر سنّی دعوت اسلامی اپنی عملی زندگی سے اور شریعت وطریقت پر استقامت سے  اصلاح وتربیت کافریضہ انجام دے رہے ہیں۔ گویاکہ آپ یہ ذہن دے رہے ہیں کہ دعوت کی راہ میں کرداروعمل کی مضبوطی اشد ضروری ہے۔اسی کرداروعمل کی پختگی کا نتیجہ ہے کہ تنظیم سے وابستہ افرادعلم وعمل کی طرف خاطرخواہ توجہ مرکوزکررہے ہیں۔
٭وعظ وخطابت:
آپ خطابت و تقریرکے ساتھ ساتھ اپنی ہر مجلس میں تلقین ونصیحت فرمایا کرتے ہیں ۔آپ کی ہر مجلس بذات خود ایک تبلیغی ادارہ ہوا کرتی ہے ۔ آپ کی محفل میں زندگی او ربندگی کا سلیقہ عطا ہوتا ہے ۔ہزاروں بندگان خداآپ کے خطابات کی اثرآفرینی کے سبب شریعت اسلامیہ کی روشنی میں زندگی گزاررہے ہیں۔سچ ہی کہاہے کسی نے کہ ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ہم نے اکثر لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ مقرر تو بہت ہیں ،فکری گفتگوکرنے،اصلاحی بیانات کرنے والے وغیرہ مگرخطابت میںحضور امیر سنّی دعوت اسلامی جیسی اثرآفرینی ہر جگہ مفقودہے،ہم نے انہیں یہی کہاکہ یہاں لوگوں کے دلوں میں بات اس لیے اترتی ہے کیوں کہ یہاں بات دل سے نکلتی ہے   ؎

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
حضرت موصوف اپنی تقریروں کے ذریعے حرارت ایمانی اور علم وعمل کا جذبہ بیدار کرتے ہیں۔آپ موقع ومحل کے اعتبار سے سادہ اور فصیح وبلیغ تقاریر فرماتے ہیں۔آپ جا بجا اپنی تقریروں میں قرآنی آیات کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔آپ کے اندازخطابت کو دیکھ کر حضور مفکر اسلام حضرت علامہ قمرالزماں اعظمی صاحب جیسے عالمی شہرت یافتہ خطیب آپ کو خطیب اعظم، خطیب بے مثال اور خطیب منفردالمثال جیسے القابات سے نوازتے ہیں۔ مفکراسلام کی زبانی دیے گئے ان القابات سے حضور امیر سنّی دعوت اسلامی کے فن خطابت میں مہارت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔آپ کے خطبات کا پہلا مجموعہ ’’مواعظ نوریہ ‘‘کے نام سے مولانامظہر حسین علیمی (نائب ایڈیٹر ماہنامہ سنّی دعوت اسلامی)نے مرتب کیا ہے۔
٭تصنیف وتالیف:
امیر محترم کی تصانیف علوم و معارف کا گنجینہ اور خزینہ ہیں۔ورق ورق میں محبت و خشیت الٰہی مسطور ہے تو سطر سطر سے عشق و ادب رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نور بیز کرنیں دلوں کو منورو مجلا کرتی ہیں ۔طرز تحریر سادہ سلیس ، عمدہ اور رواں دواں ہے۔ آپ اپنا موقف قرآن و حدیث کی روشنی میں اس انداز سے تحقیق کرکے مبرھن کرتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے اور شک و شبہہ کی گنجائش نہیں رہتی ۔تقریباً پچاس سے زائد مختلف موضوعات پر آپ کی تصانیف کا گراں قدر ذخیرہ موجود ہے ۔آپ نے ’’برکات شریعت‘‘ لکھ کر راہ دعوت وتبلیغ کے مسافروں کے لیے بڑی آسانی کردی ہے۔آپ کی تحریر کردہ چند کتابوں کی فہرست درج ذیل ہے:
(۱) برکات شریعت (درسی کتاب)(۲) برکات شریعت برائے خواتین (درسی کتاب)(۳) تذکرۂ صالحات (۴) نوری اور ادو وظائف(۵) ماہِ رمضان کیسے گزاریں ؟(۶) بچوں کو نصیحتیں (۷)حیات سلطان الہند خواجہ غریب نواز(۸) حیات مفتی اعظم ہند کے تابندہ نقوش(۹) طریقۂ کار و ہدایت براے مبلغین(۱۰) خواتین کے واقعات(۱۱) خواتین کا عشق رسول(۱۲) مسلم کے چھ حقوق(۱۳) امام احمد رضا اور اہتمام نماز(۱۴،۱۵،۱۶) معمولات حرمین ( حج کیسے کریں ؟ ، حج کیوں کریں ؟، آدابِ مدینہ )(۱۷) بے نمازی کا انجام(۱۸) عذاب قبر سے نجات کا ذریعہ(۱۹) قوموں کی تباہی کا اصلی سبب(۲۰-۲۱-۲۲-۲۳) تحفہ نکاح ( نکاح کا 
اسلامی تصور، حقوق زوجین، طلاق اور عدت کے احکام، جہیز کی حقیقت)(۲۴) داعیان دین کے اوصاف(۲۵) موبائیل کا استعمال قرآن کریم کی روشنی میں(۲۶) عظمت ماہِ محرم اور امام حسین (۲۷) گلدستۂ سیرت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم(۲۸) قربانی کیا ہے؟(۲۹) مژدۂ بخشش(۳۰) طریقہ عمرہ و آداب مدینہ (برائے خواتین)(۳۱) Condemnation of Adultery (۳۲) Evils of Sodomy(۳۳) The Wisdom of Namaz  (۳۴) Islamic Rules (۳۵) اسلاف کا دورِ طالب علمی (۳۶) اسلام میں ڈپریشن کا علاج(۳۷) کامیابی کے پانچ اصول(۳۸)برکات درودو سلام -
٭شعر وادب:
آپ کی نعتوں کا مجموعہ ’’مژدۂ بخشش‘‘کے نام سے شائع ہو چکا ہے ۔اہل سنّت وجماعت کے مرکز روحانیت مارہرہ مطہرہ کے چشم وچراغ مشہور فکشن رائٹر حضور شرف ملت حضرت علامہ سیدمحمد اشرف میاں صاحب برکاتی مارہروی(چیف انکم ٹیکس کمشنر آف بنگال، کولکاتا) دنیائے ادب میں اپنے مخصوص اسلوب اور طرز تحریرکی بنیاد پر مقبول ہیں، امیر سنّی دعوت اسلامی کے نعتیہ مجموعۂ کلام ’’مژدۂ بخشش ‘‘پر اپنے تاثرات ان الفاظ میںتحریر فرماتے ہیں:
’’امیر سُنی دعوت اسلامی مولانا حافظ و قاری محمد شاکر نوری رضوی کی شخصیت اور تبلیغی کارنامے تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ لیکن آج ان کے ادبی اظہار سے میرا پہلا باضابطہ سابقہ پڑا ہے اور اس کا ردِ عمل بہت دل خوش کن اور روح کی گہرائیوں کو تر کرنے والا ہے۔۔۔۔۔۔۔ نعت کے میدان میں مولانا محمد شاکر علی نوری کی سعیِ مشکور کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیے۔ ۔۔۔۔۔لفظوں کا تناسب، معنی کی وسعت، جذبوں کی فراوانی، مضامین کی بلندی، عاشق کی نیازمندی، طالب کا عجز اور اشعار میں جاری و ساری ایک خاص قسم کی محتاط وارفتگی کے جلوؤں سے آنکھیں خوب خوب ٹھنڈی ہوں گی۔‘‘ (مژدۂ بخشش ،مطبوعہ ممبئی،ص۵)
ذیل میں آپ کے چند اشعار پیش ہیں     ؎
شاہِ مدینہ مجھ کو طیبہ بلا لیے ہیں
سوئی ہوئی تھی قسمت آقا جگا دئیے ہیں
قسمت پہ رشک میری کرتے ہیں سب فرشتے
پھر سے مدینے والے مہماں بنا لیے ہیں
زائرِ قبرِ منور کی شفاعت ہو گی
ہے یہی آپ کا فرمان رسولِ عربی
آیا ہوں بن کے سائل سلطانِ دوجہاں
رحمت ہو پھر سے مائل سلطانِ دوجہاں
گریاں ہے قلبِ شاکر، کر دو کرم بھی وافر
اپنوں میں کر لو شامل سلطانِ دوجہاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل کی دنیا کو سجاؤ آقا
اپنی اُلفت میں جِلاؤ آقا
حُبِّ دنیا سے بچانا مجھ کو
مجھ کو اپنا ہی بناؤ آقا
غمِ دنیا میں نہ آنسو نکلے
اپنی اُلفت میں رُلاؤ آقا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے سرکار مدینے میں بلاتے رہنا
غمِ دنیا غمِ عقبیٰ سے بچاتے رہنا
نبھا لو تم نبھا لو تم نبھا لو یارسول اللہ
بلا لو اب مدینے میں بلا لو یارسول اللہ
دل تڑپتا ہے حضوری کو حضور
صدقے مرشد کے بلاؤ آقا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭تعمیری خدمات:
حضور امیر محترم دنیابھر میں ۱۱۱؍مدارس کے قیام کا عزم رکھتے ہیںاورالحمداللہ آپ کو اس مقصد میں مسلسل کامیابی بھی ملتی جارہی ہیں۔ان اداروں میں مدارس کے ساتھ انگلش میڈیم اسکول وتھ اسلامک اسٹڈیز بھی شامل ہے جن کی فہرست گذشتہ صفحات میں پیش کی جاچکی ہے۔ان شآء اللہ چند دہائی کے بعد آپ کے مدرسے کے فارغین اکثر جامعات اور درس گاہوں میں سربراہان دارالافتاء ، شیخ الحدیث اور صدرالمدرسین کے منصب پر نظر آئیں گے۔
حضرت نے باضابطہ ’’شعبۂ تعمیر ‘‘کا قیام فرمایاہے جس کے ذریعیدنیابھر میں کشادہ جگہ خرید کر مساجد ومدارس کی تعمیر کا کام جاری ہیں۔بہت سے شہروں میں تحریک نے عالیشان مسجدیں بناکر مراکز قائم کیے ہیں۔سب سے پہلے مہاپولی(تعلقہ بھیونڈی) کی سرزمین پر تقریبًا سات ایکڑ زمین لی گئی اور ۲۰۰۴ء میں حرا انگلش اسکول کا قیام عمل میں آیا ، اسی طرح مالیگائوں ضلع ناسک میں مرکز کے لیے بیس لاکھ کی قطعۂ اراضی اورالجامعۃ القادریہ نجم العلوم،مالیگائوں کے لیے بھی وسیع زمین خریدی گئی جہاں لڑکوں کے لیے مع قیام وطعام کے دارالعلوم اورعالیشان’’ مولاناشاکر علی نوری مسجد‘‘ موجود ہے۔راجستھان میں حضور مفکر اسلام علامہ قمرالزماں اعظمی صاحب کی ذات سے منسوب ’’قمر ہاسپٹل‘‘ کا سنگ بنیاد بھی رکھاجاچکاہے ،عنقریب تعمیر کی تکمیل اور افتتاح عمل میں آئے گا۔
آپ نے ’’راجکیہ زنانہ ہاسپٹل،اجمیر‘‘کا ’’نیو سیپٹک وارڈ‘ گود لیا ہے جس کے تمام اخراجات تحریک کی جانب سے ادا کیے جارہے ہیں اور مریضوں کی سہولت کے لیے ہر ممکن کوشش بھی۔اسی طرح ملک وبیرون ملک میں کئی مساجد ،چیریٹیبل ہاسپٹل اورتنظیم کی ذیلی شاخیں آپ نے قائم فرمائی ہے۔اور بھی بہت سے کاغذی منصوبے ہیں جوزمینی سطح پر آنا باقی ہے۔
٭دیگر قابل ذکر کارنامے:
حضرت کی جملہ خدمات کا دائرہ مندرجہ ذیل شعبہ جات کے تحت پھیلا ہواہے۔
  (۱)شعبۂ دعوت و تبلیغ(۲)شعبۂ دراسات اسلامیہ (۳)شعبۂ دراسات عصریہ (۴)شعبۂ نشر و اشاعت (۵)شعبۂ تصنیف و تالیف (۶)شعبۂ عمائدین (۷)شعبۂ خواتین (۸)شعبۂ اطفال (۹)شعبۂ تربیت مناسک حج وعمرہ (۱۰)شعبۂ علما (۱۱)شعبۂ حفاظ (۱۲)شعبۂ فقہ اسلامی (۱۳) شعبۂ خدمت خلق (۱۴)ایجوکیشن اینڈ ویلفیئروِنگ (۱۵)شعبۂ خدمت مساجد(۱۶)شعبۂ تعمیر(۱۷) شعبۂ سماجی و فلاحی خدمات۔
آپ پچیس سالوں سے وادیِ نور آزاد میدان ممبئی میں سہ روزہ عالمی اجتماع کا انعقاد کرتے ہیں جس میں عالمی شخصیات حالات حاضرہ،مسلم مسائل،دعوت وتبلیغ اور اصلاحی عناوین پر خطاب فرماتے ہیں۔دی رائیل اسلامک اسٹراٹے جِک اسٹڈی سینٹر(جارڈن)نے اس اجتماع کو ہندوستان کا سب سے بڑا اجتماع قرار دیا ہے۔اس اجتماع کا پہلا دن خواتین کے لیے مخصوص ہوتا ہے جس میں لاکھوں کی تعداد میں خواتین اسلام شریک ہوتی ہیں۔خواتین کے اجتماع پر مفکر اسلام علامہ قمرالزماں اعظمی صاحب کا یہ قول دلیل کی حیثیت رکھتا ہے: ’’ مسلم ورلڈ میں صرف عورتوں کا اتنا عظیم الشان اجتماع کہیں اور نہیں ہوتا۔‘‘(تجلیات نوری،ص۳۷)
حضرت نے شعبۂ دراسات اسلامیہ کے تحت جاری اکثر اداروں میں شعبۂ دراسات عصریہ کے زیر اہتمام انگریزی و کمپیوٹر وغیرہ کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیاہے۔ اس کے علاوہ اس شعبہ کے تحت کئی انگلش میڈیم اسکول جاری ہیں، جن میں زیر تعلیم طلبہ کو شعبۂ دراسات  اسلامیہ کے زیر اہتمام علوم دینیہ سے بھی آراستہ کیا جاتا ہے۔سنی دعوت اسلامی کے شعبۂ دراسات عصریہ کے تحت الصفہ انسٹی ٹیوٹ بولٹن( برطانیہ) کی سرزمین پر قائم ہوچکا ہے۔
حضرت کے زیر نگرانی  ’’ادارہ معارف اسلامی‘‘ کا قیام عمل میں آ چکا ہے۔ یہ ادارہ تصنیف و تالیف، تحقیق و تخریج، ترجمہ و تحشیہ وغیرہ جیسے اہم امور انجام دے رہاہے۔یہ ادارہ اب تک کئی کتابیں شائع کر چکا ہے۔ ان کے علاوہ مدارس اسلامیہ، مکاتب، اسکولز وغیرہ میں جاری کرنے کے لیے تعلیمی و تربیتی نصابوں کی ترتیب بھی اس ادارے کے قیام کے اغراض و مقاصد میں سے
ہے۔ حال ہی میں اس ادارے کے ذریعہ ’’اسلامیات‘‘ نامی نصابی کتاب (دو حصوں میں)، برکات شریعت (تصحیح و تخریج شدہ)اوردو سالہ اسلامی تعلیمی نصاب (دو حصوں میں)شائع ہو کر مقبول خاص و عام ہوئی، لوگوں نے پسند بھی کیا اور اس سے خوب استفادہ بھی کیا۔ مستقبل قریب میں تین سالہ تعلیمی نصاب برائے طلبۂ شعبۂ حفظ، دو سالہ عربی اسپیکنگ کورس، فارسی قواعد و انشا پر جامع کتاب، علم تجوید، وقف اور رسم میں آسان الفاظ و انداز میں کئی مفصل کتابوںکی اشاعت عمل میں آئے گی۔
تحریک سُنّی دعوتِ اسلامی کا شعبۂ عمائدین’’ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر ونگ ‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس شعبے میں ڈاکٹرس، انجینیئرس وغیرہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شامل ہیں، جن کے ذریعہ آسانی کے ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں مذہب اسلام کی دعوت پہنچائی جا رہی ہے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں ملک بھر میں’’ طیبہ سمر کلاسیز‘‘ کا بھی انعقاد ہوتا ہے جہاں عقائد ومعمولات کی تعلیم دی جاتی ہے۔
شعبۂ تربیت مناسک کے تحت ماہ رمضان کی آمد سے قبل متعدد مقامات پر کیمپ لگا کر ماہِ رمضان میں عبادت و ریاضت کرنے کا طریقہ، روزے کے مسائل وغیرہ سکھائے جاتے ہیں۔ ماہ ذو القعدہ میں متعدد مقامات پر حج تربیتی کیمپ کا بھی انعقادکیا جاتا ہے، جس میں عازمین حرمین طیبین کو مناسک حج کی ادائیگی کا طریقہ، حج و عمرہ کے مسائل اور حرمین طیبین کے آداب وغیرہ سکھائے جاتے ہیں۔ اس کے لیے مکتبۂ طیبہ سے تین کتابوں کا سیٹ ’’معمولات حرمین‘‘ نام سے (باکس پیکنگ) شائع ہو چکا ہے۔
ملک و بیرون ملک کی کئی مساجدمیں’’شعبۂ حفاظ‘‘کے تحت حفاظ کرام کو تراویح کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ جن مسجدوں کے اراکین حفاظ کرام کی آمد و رفت اور قیام کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے، تحریک خود اخراجات برداشت کر کے ان مسجدوں میں تراویح کا اہتمام کراتی ہے۔ بیرون ممالک مثلابرطانیہ ،دبئی ،مسقط،افریقہ ،ماریشیش وغیرہ میں سنّی دعوت اسلامی کے حفاظ تراویح سنانے کے لیے جاتے ہیں اور پورے ایک ماہ درس وتربیت کاسلسلہ جاری رکھتے ہیں۔بعض مقامات پر دس روزہ اجتماعی اعتکاف کا نظم بھی کیا جاتا ہے جس سے عوام کوفائدہ پہنچ رہاہے ۔
شعبۂ فقہ اسلامی کے تحت مسجدوں میں اور دیگر خاص مقامات پر فقہی نشستیں منعقد ہوتی ہیں، اجتماعات میں فقہی سوالات و جوابات کی نشستیں قائم ہوتی ہیں اور ہر تین سال میں ’’مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارک پور‘‘کے فقہی سیمینار کا انعقاد ہوتا ہے جس میں متعدد نو پید مسائل حل کیے جاتے ہیں۔اب تک تحریک کے زیر اہتمام تین کامیاب فقہی سیمینار ہوچکے ہیں جس کی تفصیلی رپورٹ ماہنامہ سنّی دعوت اسلامی میں شائع ہوچکی ہے۔
شعبۂ نشر و اشاعت تحریک کا نشریاتی ادارہ ہے۔ ملک وبیرون ملک کے مختلف حصوں میں اس کی درجنوں شاخیں ’’مکتبۂ طیبہ‘‘ کے نام سے موجود ہیں۔ اس کے ذریعہ علماے اہل سنت کی تصنیفات و تالیفات کی ملک و بیرون ملک کی مختلف زبانوں میں نشر و اشاعت ہوتی ہے، دیگر اداروں سے طبع شدہ اہم ترین کتابیں عوام اہل سنت کے درمیان متعارف کرائی جاتی ہیں، مداحان رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی آوازوں میں نعت شریف اور علماے اہل سنت کے روح پرور خطابات کی سی ڈیز شائع کر کے عوام و خواص کے لیے ان سے استفادہ آسان کیا جاتا ہے۔مالیگائوں سے راقم کی ادارت میں  ہفت روزہ اخبار ’’بہار سنّت‘‘پانچ سالوں تک شائع ہوا۔ ۲۰۰۵ء کے اواخر میں ’’سنی دعوت اسلامی‘‘ کے نام سے ایک علمی اور دعوتی سہ ماہی رسالے کی اشاعت کا آغاز ہواجو علما ومشائخ کے مابین کافی مقبول ہوا، یہاں تک کہ ۲۰۱۱ء کے اوائل سے ’’سہ ماہی‘‘ سے نکل کر ’’ماہنامہ‘‘ کی صورت میں آگیا۔ ملک وبیرون ملک میں اہل سنّت وجماعت کی سرگرمیوں اور تحریک کے اجتماعات کی خبریں ملک کے مختلف اخبارات میں شائع کرنا،ویب سائٹس پرآن لائن کرنااور سوشل میڈیاپر عام کرنااوردنیابھرمیں سنّی دعوت اسلامی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے یک روزہ،دو روزہ اور سہ روزہ اجلاس کوبراہ راست آن لائن بتانا اس شعبے کا خاصہ ہے۔ سابقہ تمام اجتماعات کو یوٹیوب پر ایس ڈی آئی چینل پر دیکھا جاسکتا ہے۔
شعبۂ سماجی و فلاحی خدمات کے تحت ناگہانی مصیبت زدہ لوگوں تک تحریک کے رضاکار خود پہنچتے ہیں اور ان تک ریلیف پہنچاتے ہیں۔ غربا و مساکین کی حتی المقدور مدد کی جاتی ہے۔ مریضوں کے لیے دوا ئوں کا انتظام کیا جاتا ہے۔ آفاتِ ارضی و سماوی میں گرفتار ہونے والوں تک مفت میڈیکل، کپڑے، خوراک اور دیگر ضروری اشیا پہنچائی جاتی ہیں۔اسپتالوں میں 
ایڈمِٹ مریضوں کے درمیان خاص خاص مواقع پر پھل وغیرہ تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اس طرح کے ڈھیروں کام ہیں، جو تحریک کے سماجی و فلاحی شعبے کے تحت انجام دیے جاتے ہیں۔
٭پیغام:
’’ مولانا محمد شاکر نوری اپنے سینے میں ایک درد مند دل رکھتے ہیں جو امت مسلمہ کی زبوں حالی ، تحصیل علوم کے تئیں ان کی عدم دلچسپی اور دین سے دوری کو دیکھ کر خون کے آنسو روتا ہے ،ان کی خواہش ہے کہ سنی دعوت اسلامی کی خدمات کو اتنی وسعت دے دی جائے کہ ہماری نوجوان نسل دین سیکھنے پر آمادہ ، اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے میں سنجیدہ ہو جائے ۔ ان کے افکار میں دینی روشنی موجود ہو ، ان کے کردار وعمل سے اسلام کی کرنیں پھوٹیں ، وہ دینی وعلمی اعتبار سے پختہ کار ہوجائیں ۔اور سب سے بڑی فکر یہ ہے کہ انھیں سچا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم حاصل ہو جائے ۔ ’’ زمیں کے اوپر کام ، زمیں کے نیچے آرام ‘‘، اور’’ اتحاد زندگی ہے اور اختلاف موت ‘‘ نوجوان علما کا مطمح نظر ہو ، ان میں دعوتی مزاج پیدا کیا جائے ، انھیں سیاسی شعور عطا کیا جائے ، دور حاضر کے چیلنجز کا ادراک ہو ، جائز حدود میں رہتے ہوئے ماڈرن ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے ، دینی وعصری تعلیم کا پختہ نظم ہو اور تعلیم کے ساتھ ساتھ منظم تربیت کا بھی نظم ہو ۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ’’ ایک مرتبہ میں نے حضور مفکر اسلام دام ظلہ سے عرض کیا کہ اختلافات کی ناگفتہ بہ پوزیشن میں دین کا کام کیسے کیا جائے ؟ تو بڑی پیاری بات انھوں نے ارشاد فرمائی ، کہاکہ’’تم اپنے حصے کی شمع جلاتے جاؤ - ‘‘ یعنی کسی کی فکر کیے بغیر جتنا کام تم کر سکتے ہو اتنا ضرور کرو - ‘‘ (اہل سنت کی آواز،ص:۴۴۳)
٭اعزاز:
 امیر سنّی دعوت اسلامی کو اب تک متعدد ایوارڈ واعزاز سے نوازا جا چکا ہے مگر ریکارڈ کی عدم دستیابی کے سبب تفصیلا ت نہ مل سکی۔سنّی دعوت اسلامی کے عالمی سلور جبلی اجتماع(دسمبر ۲۰۱۵ء ) کے موقع پر شاخ مالیگائوں سے اعترافِ خدمت کے لیے حضرت کو نعلین پاک پر مبنی چاندی کا تاج پیش کیا گیا تھا جسے حضور مفکر اسلام نے حضرت کے سرپر پہنایا تھا۔اپریل ۲۰۱۷ء میں وِراویل میں ’’فخر اہل سنّت ایوارڈ‘‘پیش کیا گیا اور بھیونڈی والوں نے بھی حضرت کی خدمت میں اپنی عقیدتوں کا خراج پیش کیا ہے۔
۱۹،۲۰؍ اپریل۲۰۱۷ ء کو عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دوروزہ پروگرام میں انجمن چشتیہ صمدیہ مصباحیہ رجسٹرڈ پھپھوند شریف کی جانب سے آپ کی خدمت میں ان کی ہمہ گیر ،دینی ، مذہبی اور دعوتی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ’’اکبر المشائخ ایوارڈ‘‘ پیش کیاگیا، ان کی خدمت میںانجمن کی جانب سے جبہ، عمامہ اور سپاس نامہ بھی پیش کیا گیا۔ صاحب سجادہ آستانہ عالیہ صمدیہ پھپھوند شریف حضرت مولاناسید محمد اخترمیاں صاحب قبلہ نے مبلغ گیارہ ہزار روپے اپنی جانب سے پیش فر مائے ۔
٭حوالہ جات:
(۱)اہلسنّت کی آواز،خلفائے خاندان برکات،جلد۲۱،ص؍۴۳۴تا ۴۴۳،۲۰۱۴ء،از:مفتی توفیق احسن برکاتی مصباحی۔
(۲)تجلیات نوری،سنی دعوت اسلامی مالیگائوں،۲۰۱۵ء 
(۵) برکات شریعت مجلد،حصہ اول ،ص۳۴،مکتبۂ طیبہ ممبئی
()ماہنامہ سنّی دعوت اسلامی،سنّی دعوت اسلامی کی خدمات واثرات،از:عطاء الرحمن نوری، ص ؍۵۴تا۵۸،دسمبر ۲۰۱۶ء 
(۳)روبرو،حصہ اول،ص ؍۱۱۲تا۱۲۰،خوشتر نورانی، ادارۂ فکراسلامی دہلی،نومبر۲۰۱۰ء 
(۴)ماہنامہ جام نور دہلی،نومبر ۲۰۰۹ء 
(۶)مژدۂ بخشش ،ص۵،مطبوعہ ممبئی
(۷)دی مسلم ۵۰۰،۲۰۰۹ء،۱۴۔۲۰۱۳ء،۱۵۔۲۰۱۴ء،۲۰۱۶ء اور ۲۰۱۷ء، دی رائیل اسلامک اسٹراٹے جک اسٹڈی سینٹر(جارڈن)
(۸)ماہنامہ سنّی دعوت اسلامی،ص ؍۳۵،جون ۲۰۱۷ء 

Previous Post Next Post