Biography Ghazali e Zaman Hazrat Allama Syed Ahmed Saeed Kazmi غزالیِ زماں رازی دوراں سید احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃا للہ علیہ

غزالیِ زماں رازی دوراں سید احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃا للہ علیہ



نام ونسب: اسم گرامی: سید احمد سعید شاہ کاظمی۔کنیت: ابوالنجم۔لقب: غزالیِ زماں،رازی دوراں،امام اہل سنت۔سلسلۂ نسب اس طرح ہے: غزالیِ زماں  سید احمد سعید شاہ کاظمی بن حضرت سید مختار احمد  کاظمی بن حافظ سید یوسف علی شاہ چشتی قادری بن مولانا سید وصی نقشبندی مجددی قادری بن محمد مولانا سید شاہ صبغت اللہ نقشبندی مجددی چشتی صابری بن مولانا سید شاہ سیف اللہ چشتی قادری بن مولانا سید میرمحمد اشرف دہلوی ثم امروہی۔الیٰ آخرہ۔﷭۔آپ کا سلسلہ نسب 44واسطوں سے سرورعالم ﷺتک پہنچتا ہے۔(حیاتِ غزالیِ زماں:33)۔آپ حضرت امام موسیٰ کاظم ﷜کی اولاد سے ہیں ۔اس لئے’’کاظمی‘‘کہلاتے ہیں۔

غزالیِ زماں،رازی ِدوراں کی وجہ تسمیہ: محدث اعظم،وحید العصر،قدوۃ العلماء حضرت سید محمد محدث کچھوچھوی﷫نےعلماء کرام کی مجلس  جس میں  کثیر علماء کرام ودانشوران کی تعداد،اور عوام  کا ایک جم غفیر موجودتھا،میں ’’غزالیِ زماں،رازیِ دوراں‘‘کا خطاب عطاء فرمایا۔علماء کرام اور عوام نےفلگ شگاف نعروں  کےساتھ حضرت محدث کچھوچھوی﷫ کے قول کی تصدیق کی،اس وقت سےآج تک یہ القاب حضرت  علامہ کاظمی  ﷫ کاعرف قرار پائے ہیں۔(حیاتِ غزالیِ زماں:86)

تاریخِ ولادت: آپ﷫ کی ولادت باسعادت  بروز جمعرات 4؍ربیع الثانی 1331ھ،مطابق 13؍مارچ 1913ء ،بوقت صبح چار بجے،محلہ کٹکوئی  شہر امروہہ،ضلع مراد آباد(انڈیا) میں ہوئی۔(اب امروہہ ایک مستقل ضلع بن چکا ہے۔(انسائیکلوپیڈیا)۔

تحصیلِ علم: آپ ﷫ ایک علمی خاندان کےروشن چراغ ہیں۔آپ کا خاندان علم وفضل،زہدوتقویٰ میں پورے ہندوستان میں معروف تھا۔ بچپن میں والد گرامی کا سایہ ٔ عاطفت سر سے اٹھ گیا۔تمام تر تعلیم وتربیت اپنے برادر بزرگ،محدث جلیل حضرت علامہ مولانا سید محمد خلیل محدث امروہوی ﷫ سے حاصل کی۔وہ مدرسہ بحرالعلوم شاہ جہاں پور میں مدرس تھے،اور حضرت  علامہ کاظمی کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ امام اہل سنت﷫نے 16سال کی عمر میں 1348ھ مطابق 1929ء میں مدرسہ محمدیہ حنفیہ امروہہ سے سند فراغ حاصل کی۔ شیخ المشائخ،ہم شکل غوث الاعظم حضرت شاہ علی حسین اشرفی ﷫نےدستار فضیلت باندھی،اس تقریبِ سعید میں حضرت صدرالافاضل حضرت مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی﷫،مناظر اسلام حضرت مولانا نثاراحمد کانپوری بن علامۂ زماں  مولانا احمد حسن کانپوری ﷫ودیگر جید علماء شریک تھے۔جنہوں نے آپ کو خصوصی دعاؤں سے نوازا۔

بیعت وخلافت: اپنےبرادربزرگ،محدثِ شہیر،عالمِ کبیر،استاذالعلماءالراسخین حضرت مولانا سید محمد خلیل چشتی صابری محدث امروہوی ﷫ کے دستِ حق پرست پر سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ میں بیعت ہوئے،اور خلافت سے مشرف کیے گئے۔

شہزادۂ اعلیٰ حضرت مفتیِ اعظم ہند کی شفقت: غزالیِ زماں رازیِ دوراں ﷫ کو اعلیٰ حضرت مجدد اسلام مولانا الشاہ امام احمد رضا خاں قادری ﷫کی ذات گرامی سے بڑی گہری عقیدت ومحبت تھی۔بلکہ آپ مسلکِ اعلیٰ حضرت کے عظیم مبلغ  و داعی تھے۔قیام ِ پاکستان سے قبل اعلیٰ حضرت ﷫ کے اعراس میں شریک ہوتے تھے۔ایک مرتبہ اپنے مرشدو استاذِ محترم حضرت مولانا سید خلیل احمد محدث امروہوی ﷫ کےہمراہ عرسِ اعلیٰ حضرت میں شریک ہوئے اور عرس کی تقریب میں ہزاروں علماء ومشائخ تشریف فرماتھے اور وقفہ وقفہ سےتقاریر کررہےتھے۔شہزادۂ اعلیٰ  حضرت مولانا مصطفیٰ رضا خاں﷫ اپنے کاشانۂ اقدس کے باہر رضوی دارالافتاء میں رونق افروز تھے۔علامہ کاظمی صاحب کے خطاب کی باری آئی تو آپ نے اعلیٰ حضرت کےتجدیدی کارناموں پر فصیح وبلیغ انداز میں بیان فرمایا،دارالافتاء میں بیان کی آواز پہنچ رہی تھی،شہزادۂ اعلیٰ حضرت، اظہار ِ مسرت فرمارہےتھے۔جامعیت وقوت استدلال کی تعریف کرتےہوئے ارشادفرمایا: ’’امروہہ کے چھوٹے شاہ صاحب تقریر کررہےہیں۔ماشاء اللہ خوب فصاحت وبلاغت ہے۔بہت اچھا مطالعہ ہے،اللہ تعالیٰ برکت دے‘‘۔حضرت مفتیِ اعظہم ہند ﷫نے نہ صرف آپ کو سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کی اجازت عطاء فرمائی بلکہ سندِ حدیث بھی عطاء فرمائی۔(حیاتِ غزالی زماں:142)

سیرت وخصائص: قدوۃ السالکین،سندالمحدثین،رئیس المفسرین،امام المدرسین،استاذالعلماء،مرجع الفضلاء،سید الاتقیاء،رئیس الفقہاء،ضیغم اسلام،متکلم اسلام،امام المنقولات والمعقولات،مجمع البحرین، قطبِ دوراں،غزالیِ زماں،رازیِ دوراں،امام اہل سنت شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا سید احمد سعید شاہ کاظمی ﷫۔حضرت غزالیِ زماں رازیِ دوراں﷫بالعموم تمام علوم اور بالخصوص تفسیر وحدیث  کے مسند نشیں،محراب ومنبر کی زینت،خانقاہ و درویشی کا جمال،رشدوہدایت کاصوفیانہ اندازِ دل نشیں،لاینحل سوالات کی عقدہ کشائی،قرآن وحدیث کی روشنی میں اہل اسلام کی راہ نمائی،اور دین اسلام کی سربلندی کےلئے سوزوگداز کی مجسم کیفیت والی عظیم شخصیت تھے۔آپ جامع  کمالات علمیہ وعملیہ تھے۔اپنی ذات میں ایک انجمن تھے،اسلامی علوم وفنون کے یکتائے روزگار ماہر،اور اسرارِ معرفت کادبستان تھے۔

عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ تدریس،تصنیف،خطابت،اور مقام فقرو معرفت،یہ اوصاف کسی ایک شخصیت میں جمع نہیں ہوتے۔کوئی اگر عظیم خطیب ہوتا ہے تو اس درجے کا مصنف نہیں ہوتا،اور اگر میدان تصنیف میں بام عروج کو پہنچ جائے،تو تدریس میں اس بلند مقام کاحامل نہیں ہوتا۔لیکن حضرت غزالی زماں،رازی دوراں ﷫ کی شخصیت اس عمومی قاعدےسےمستثنیٰ تھی،آپ بیک وقت بہترین مدرس و محدث، بلند پایہ مصنف،جادو بیاں خطیب،اور صاحبِ کمال شیخِ طریقت تھے۔یہی سبب تھا کہ مخالفین نے آپ کاراستہ روکنے کی بارہا کوششیں کیں،یہاں تک کہ آپ پر قاتلانہ حملے کیے،مگر آپ کےپائے استقلال میں جنبش نہ آئی،اور آپ کا ہر قدم منزل کی طرف آگے ہی بڑھتا رہا اور ایک وہ وقت آیا کہ آپ ’’اہل سنت وجماعت‘‘ کی آبرواور پہچان بن گئے۔

غزالیِ زماں،اورعلامہ اقبال: جن دنوں آپ جامعہ نعمانیہ لاہور میں مدرس تھے،زندہ دلان ِلاہور نے موچی دروازے کےباغ میں ’’عید میلاد النبیﷺ‘‘ کےسلسلے میں ایک عظیم الشان جلسے کا اہتمام کیا۔مفکر اسلام شاعر مشرق علامہ محمد اقبال﷫ کرسی ِ صدارت میں بیٹھے ہوئے محویت کےعالم میں علامہ کاظمی﷫کاخطاب لاجواب سن رہے تھے۔آپ نے صرف  نبی مکرم ﷺ کےاسم گرامی’’محمدﷺ‘‘ کی عظمت میں ایک گھنٹہ  تقریر فرمائی۔تقریر کےبعد علامہ اقبال نے آپ کوسینے سےلگایا اور کہا: ؏: ایسی چنگاری بھی یارب  اپنی خاکستر میں ہے۔اور پھر مسکراکر تھپکی دیتے ہوئے اور فرمایا: ’’برخوردار! لگتا ہے بہت نام پیدا کروگے‘‘۔(نور نور چہرے:16/حیاتِ غزالی زماں:40)

قومی و ملی خدمات: ملت اسلامیہ کو جب بھی کوئی مشکل مرحلہ پیش آیا۔حضرت غزالی زماں﷫ نے ہمیشہ قائدانہ کردار اداکیا۔1946ء میں ’’آل انڈیا سنی کانفرنس‘‘میں علماء ومشائخ کے وفد کے ہمراہ شریک ہوئے اور مطالبۂ پاکستان کی پرزور حمایت کی۔یاد  رہے کہ یہ کانفرنس تحریک  ِ پاکستان کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔علماء ومشائخ اہل سنت کی پر زور حمایت کی بدولت قیام پاکستان کاخواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم سے خط وکتابت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔آپ نے تحریک پاکستان،تحریک ختم نبوت،تحریک نظام مصطفٰیﷺمیں قائدانہ حصہ لیا۔تمام عمر مقام مصطفیٰﷺ کےتحفظ،اور نظام مصطفیٰﷺ کےنفاذ کےلئے جدوجہد کرتےرہے۔قیام پاکستان کےبعد1948ء میں انوارالعلوم ملتان میں علماءِ اہل سنت کااجلاس بلایا،اور آل انڈیا سنی کانفرنس کا نام تبدیل کرکے’’جمیعت علماء پاکستان‘‘ کی تشکیل کی گئی۔1960ء میں اہل سنت کےمدارس کو منظم کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے’’تنظیم المدارس‘‘قائم کی۔1978ء کو ملتان قلعہ قاسم باغ میں فقید المثال ’’کل پاکستان سنی کانفرنس‘‘ منعقد کرائی،جس میں اخباری اطلاع کےمطابق دس ہزار  سے زیادہ علماء مشائخ،اور بیس سے پچیس لاکھ تک عوام اہل سنت کا اجتماع تھا۔اسی موقع پر ’’جماعت ِاہل سنت‘‘ کی تشکیل ہوئی۔آپ  اس کےصدر منتخب کیے گئے۔تبلیغی جماعت کے مقابلے میں ’’دعوت اسلامی‘‘  کی تشکیل میں  بھی آپ کااہم کردار ہے۔انوارالعلوم کی صورت میں اہل سنت وجماعت کو ایک عظیم ادارہ دیا۔جہاں سےہزاروں  علماء وفضلاء  اپنی علمی پیاس بجھاکر پوری دنیا کوعلوم ِ مصطفیٰﷺسے سیراب کررہےہیں۔

آپ ﷫تمام عظمتوں فضیلتوں،اور کثیر تلامذہ ومریدین کے باوجود تواضع وانکساری کاپیکر تھے۔آپ کی بارگاہ میں کوئی بھی آدمی معمولی نہیں تھا۔ بلکہ عام اور غریبوں سے زیادہ محبت واُنس  رکھتےتھے۔معمولی آدمی سے بڑی محبت اور احترام سے ملتے تھے۔جو دینی مدارس کی خدمت،یا جامعہ انوارالعلوم کےلئےعطیات کی صورت میں خدمت کرتا اسے بہت ہی دعاؤں سےنوازتےتھے۔جوشخص آپ کی خدمت میں ایک دفعہ بھی حاضر ہوا۔وہ  ہمیشہ کےلئے آپ کی عقیدت ومحبت لے کر واپس آیا۔ماشاء اللہ یہ اوصاف آپ کےصاحبزادگان میں بھی ہیں،تمام صاحبزادگان حتی المقدور اہل سنت کے فروغ میں اپنااپنا کردار ادا کررہےہیں۔اس مختصر تذکرےمیں آپ ﷫کی خدمات ِ جلیلہ کا احاطہ ناممکن ہے۔(فقیر تونسویؔ غفرلہ)

تاریخِ وصال: بروز بدھ،25؍رمضان المبارک 1406ھ،مطابق 4؍جون 1986ء کوافطاری کےبعدواصل بااللہ ہوئے۔شاہی عیدگاہ ملتان  میں مزار پرانورا مرجعِ خلائق ہے۔

ماخذومراجع: تعارف علماء اہل سنت۔نور نور چہرے۔حیات غزالی ِزماں۔

Previous Post Next Post