حافظِ ملت حضرت علامہ مولاناشاہ عبد العزیز محدث مبارکپوری Biography Hafiz E Millat Allama Shah Abdul Aziz Muhaddis |Shan E Hafiz E Millat Allama Abdul Aziz

حافظِ ملت حضرت علامہ مولاناشاہ عبد العزیز محدث  مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ



نام ونسب:

 آپکا نام عبد العزیزاورلقب حافظِ ملت ہےجبکہ سلسلۂ نسب عبدالعزیز بن حافظ غلام نور بن مولانا عبدالرحیم۔آپکے دادا مولانا عبد الرحیم نے دہلی کے مشہورمحدث شاہ عبد العزیز  بن شاہ ولی اللہ  کی  نسبت سے آپ کا نام  عبد العزیز رکھاتاکہ میرایہ  بچہ بھی  عالم دین  بنے۔(علیہم الرحمہ)

ولادتِ باسعادت:

آپ نے ۱۳۱۲ھ بمطابق1894ء قَصْبہ بھوج پور (ضلع مراد آباد، یوپی ہند ) بروز پیر صبح کے وقت پیدا ہوئے۔ 

والد ماجدکی خواہش:

والدماجد حضرت حافظ غلام نوررحمۃ اللہ علیہ کی شروع سے یہی تمنا تھی کہ آپ ایک عالمِ دین کی حیثیت سے دینِ متین کی خدمت سر انجام دیں  لہٰذا بھوجپور مىں جب بھی کوئى بڑے عالم ىا شىخ تشرىف لاتے توآپ  اپنے صاحبزادے حضور حافظ ملت کو ان کے پاس لے جاتے اور عرض کرتےحضور! مىرے اس بچے کے لىے دعا فرمادىں ۔(الحمد للہ میرے والد صاحب کی بھی یہی عادت تھی کہ جب بھی کوئی عالمِ دین ہمارے علاقہ "بلوچ خان "میں تشریف لاتے تو میرے لیے علماء کرام سے خصوصی دعا کی التجا کرتے۔جو شخص علما ء کرام اور مشائخ عظام  کی عزت وخدمت کریگا انشاء اللہ اسکی اولاد بھی نیک اور صالح ہوگی یہ عمل مجرب ہے۔محمد رمضان تونسوی غفرلہ)

اِبتدائی تعلیم :

حُضُور حافظِ ملت نے ناظرہ اور  حفظِ قرآن کی تکمیل والد ِماجد حافظ غلام نوررحمۃ اللہ علیہ سے کی۔اس کے علاوہ اُردو کی چار جماعتیں وطنِ عزیز بھوجپور میں پڑھیں،جبکہ فارسی کی اِبتدائی کتب بھوجپوراور پیپل سانہ (ضلع مُرادآباد)سے پڑھ کر گھریلو مسائل کی وجہ سے سلسلۂ  تعلیم موقوف کیا اور پھر قَصْبہ بھوجپور میں ہی مدرسہ حفظُ القرآن میں مُدرِّس اوربڑی مسجد میں اِمامت  کے فرائض سر انجام دئیے ۔

سلسلہ ٔتعلیم رُک جانے پر اظہارجذبات:

جب آپ  کا سلسلہ ٔ تعلیم رُک گیاتوکبھی کبھار غمگین ہوکر والدۂ ماجدہ سے عرض کرتے :آپ  تودادا حُضُورکا یہ فرمان کہ "تم عالم بنوگے"سنایا کرتی تھیں لیکن میں عالم نہ بن سکا۔یہ سن کر والدہ ماجدہ کی آنکھیں پُر نَم ہوجاتیں اوردُعا کے لئے ہاتھ اُٹھا دیتیں ۔ 

سلسلۂ تعلیم کا دوبارہ آغاز:

کچھ عرصے بعد حالات بدلے اوروالدِ ماجد حافظ غلام نور رحمۃ اللہ علیہ   کی خواہش اور دادا حضورمولانا عبد الرحیم رحمۃ اللہ علیہ کی پیشن گوئی پوری ہونے کا سامان یوں ہوا کہ حضرت علامہ عبد ُالحق خیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ  کے شاگردِ رشید،  طبیبِ حاذِق مولانا حکیم محمد شریف حیدر آبادی رحمۃ اللہ علیہ   علاج مُعالَجہ کے سلسلے میں بھوجپورتشریف لانے لگے اور جب  بھی آتے تو حضور حافظ کی اقتدا میں نماز ادا کرتے ۔ایک دن کہنے لگے :آپ قرآنِ  مجید تو بہت عُمدہ پڑھتے ہیں اگرعلمِ طِب پڑھنا چاہتے ہیں تو میں پڑھادوں گا،آپ نے جواب دیا : میرا ذریعۂ معاش اِمامت اور تدریس ہی ہےاور روزانہ مُرادآبادآنا جانا میری اِستطاعت سے باہر ہے،حکیم صاحب نے کہا:آپ ٹرین سے مُراد آباد چلے جایا کریں اورسبق پڑھ کربھوجپور سے واپس آجایا کریں،اَخراجات کی ذِمّہ داری  میں اُٹھاتا ہوں۔  والد صاحب نے اس کی اجازت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: روز کا آنا جانا مُناسب نہیں لہٰذامُراد آباد میں رہ کر ہی تعلیم مکمل کرو۔یوں آپ اِمامت و تدریس چھوڑ کر مرادآباد تشریف لے گئے اورکچھ عرصہ حکیم صاحب سے  علم ِ طب پڑھا۔ 

جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں داخلہ:

حکیم صاحب نے آپ کی ذہانت اورقابلیت کو دیکھتے ہوئے کہا:میری مصروفیات زیادہ ہیں اورآپ کو پڑھانے کے لیے مجھےمزید مطالعہ کرنے کا وقت نہیں ملتا لہٰذا اب آپ تعلیم جاری رکھنے کے لئے جامعہ میں داخلہ لے لیجئے ۔ چنانچہ حافظ ملت نے ۱۳۳۹ ھ کوتقریباً ۲۷ سال کی عمر میں جامعہ نعیمیہ مُراد آباد میں داخلہ لے  لیااور تین سال تک تعلیم حاصل کی ۔مگر اب علم کی پیاس شدت اختیار کرچکی  تھی جسے بجھانے کے لیے کسی علمی سمندر کی تلاش تھی۔ 

صدرُ الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ   سے ملاقات:

۱۳۴۲ھ میں آل انڈیا سنی کانفرنس مُراد آبادمیں منعقد ہوئی جس میں ہندوستان (پاک وہند ) کےنامورعلمائے اہلسُنَّت تشریف لائے جن میں صدرُالشریعہ بدرُالطریقہ مُفْتی  اَمجد علی اَعظمی رحمۃ اللہ علیہ   بھی شامل تھے۔حضور حافظِ ملّت  نے موقع دیکھ کرصدرُ الشریعہ کی بارگاہ میں درخواست کی توآپ نے فرمایا: شوالُ المکرم  سے اجمیر شریف آجائیں مدرسہ مُعینیہ میںداخلہ دلوا کر تعلیمی سلسلہ شروع کرادوں گا۔

صدرُ الشریعہ کی  شفقت:

شوالُ المکرم ۱۳۴۲ھ میں حافظِ ملت اپنے چند ہم اَسباق  دوستوں کے ساتھ  اجمیر شریف پہنچے ان میں امام ُالنحو حضرت علامہ غلام جیلا نی میرٹھی  شامل تھے۔چنانچہ صدر ُالشریعہ نےسب کو جامعہ مُعینیہ میں داخلہ دلوادیا،تمام درسی کتابیں دیگر مُدرِّسین پر تقسیم ہوگئیں مگرحضرت صدرُ الشریعہ  ازراہِ شفقت  اپنی مصروفیات سے فارغ ہوکر تہذیباوراُصُولُ الشَّاشی کا درس دیا کرتے۔علمِ منطق کی کتاب”حَمْدُ اللّٰه “تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد حافظِ ملّت  نے معاشی پریشانی اور ذاتی  مصروفیت کی وجہ سے مزید تعلیم جاری نہ رکھنے کا ارادہ کیا اور دورۂ حدیث شریف پڑھنے کی خواہشظاہر کی تو حضرت صدرُ الشریعہ نے شفقت سے فرمایا:آسمان  زمین بن سکتا ہے،پہاڑ اپنی جگہ سے  ہل سکتا ہےلیکن آپ کی ایک کتاب بھی رہ جائے ایسا  ممکن نہیں ۔چنانچہ آپ نے اپنا ارادہ مُلتوی کیا اور پوری دلجمعی کے ساتھ صدرُالشریعہ کی خدمت میں رہ کر مَنازلِ علم طے کرتے رہے بالآخر استادِمحترم قبلہ صدرُالشریعہ  کی نگاہِ فیض سے ۱۳۵۱ھ بمطابق 1932ء میں دارُالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف سے دورۂ حدیث مکمل کیا اور دستار بندی ہوئی۔

آپ کے اساتذۂ کرام:

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والدِ ماجد حضرت حافظ محمد غلام نوراور مولانا عبدالمجىد بھوجپورى سے حاصل کی۔کچھ عرصہ حکیم محمد شریف حیدر آبادی صاحب سے علم ِ طب پڑھا۔اس کے علاوہ جامعہ نعیمیہ(مراد آباد)میں حضرت مولانا عبدالعزىز خان فتح پورى،حضرت مولانا اجمل شاہ سنبھلى،حضرت مولانا وَصى احمدسہسرامى اورجامعہ  مُعىنىہ عثمانىہ( اجمىر شرىف) میں حضرت مولانا مفتی امتىاز احمد، حضرت مولانا حافظ سَىِّد حامد حسىن اجمىرى اورصدرُالشرىعہ مفتی امجد على اعظمی جیسے جلیلُ القدر اساتذہ سےاکتسابِ علم کیا بالخصوص صدرُالشریعہ کی نگاہِ فیض سے آسمانِ علم کے درخشاں ستارےبن کر چمکے۔ 

 

مبارکپور میں آمد:

آپ  ۲۹ شوال المکرم ۱۳۵۲ھ بمطابق ۱۴ جنوری 1934ء کو مبارکپور پہنچےاور مدرسہ  اشرفیہ مصباحُ العلوم(واقع محلہ پرانی بستی) میں تدریسی خد مات میں مصروف ہوگئے۔ابھی  چند ماہ ہی گزرے تھے کہ آپکے طرزِ تدریس اورعلم و عمل کے چرچے عام ہوگئے اور تشنگانِ علم کا ایک سیلاب اُمنڈ آیا جس کی وجہ سے مدرسے میں جگہ کم پڑنے لگی اورایک  بڑی درسگاہ کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ چنانچہ آپ نے اپنی جِدّو جُہدسے ۱۳۵۳ھ میں دنیائے اسلام کی ایک عظیم درسگاہ (دارُالعلوم)کی تعمیرکا آغازگولہ بازارمیں فرمایا جس کا  نام سلطانُ التارکین حضرت مخدوم سَیِّد اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت سے "دارُالعُلُوماشرفیہ مصباح ُالعلوم "رکھاگیا ۔ 

دارُالعُلُوم  اشرفیہ سے استعفیٰ  اورپھر واپسی:

حضورحافظِ ملت  شوال ۱۳۶۱ھ میں کچھ مسائل کی بناپر اِسْتِعْفیٰدے کر جامعہ عَربیہ ناگپور تشریف لے گئے،چونکہ آپ مالیات کی فَراہمی اور تعلیمی اُمور میں بڑی  مہارت رکھتے تھےلہٰذا آپ کے دارُالعلوم اَشْرفیہ سےچلے جانے کے بعدوہاں  کی تعلیمی اور معاشی حالت اِنتہائی خَستہ ہوگئی تو حضرت صدرُ الشریعہکے حکمِ خاص پر۱۳۶۲ھ میں ناگپور سے اِسْتِعْفیٰ دے کردوبارہ  مُبارکپور تشریف لے آئے اورتادم ِحیات دارُالعلوم اَشرفیہ مُبارکپور سے وابستہ رہ کر تدریسی و دینی خدمات کی انجام دہی میں مشغول رہے۔حافظِ ملت کی کوششوں سے مُفتیٔ اعظم ہند شہزادہ ٔ اعلیٰ حضرت مفتی محمد مصطفےٰ رضا خانرحمۃ اللہ علیہ کے دستِمبارک سے ۱۳۹۲ھ بمطابق 1972ء میں مبارک پورمیں وسیع قطعِ اَرض پر الجامعۃُ الاشرفیہ(عربی یونیورسٹی )کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔

حافظ ِ ملت  رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت کےچند درخشاں پہلو:

اُستادکا ادب:

حافظِ ملت رحمۃ اللہ علیہ حضورصدرُالشرىعہ رحمۃ اللہ علیہ کی  بارگاہ مىں ہمىشہ دوز انو بیٹھا کرتے ،اگرصدرُ الشرىعہ ضرورتاً کمرے سے باہر  تشرىف لے جاتے تو طلبہ کھڑے ہوجاتے اوران کے جانے کے بعد بیٹھ جاتے اور جب واپس تشریف لاتے تو ادباً دوبارہ کھڑے ہوتے لیکن حافظِ ملت رحمۃ اللہ علیہ  اس پورے وقفے میں کھڑے ہی رہتے اور حضرت صدرُ الشرىعہ رحمۃ اللہ علیہ کےمسندِ تدریس پر تشریف فرماہونے کے بعد ہی  بیٹھا کرتے ۔

کتابوں کا ادب:

آپ قىام گاہ پر ہوتے ىاد رس گاہ مىں کبھى کوئى کتاب لىٹ کر ىاٹىک لگا کر نہ پڑھتے  نہ پڑھاتے بلکہ تکىہ ىا ڈىسک پر  رکھ لیتے، قىام گاہ سے مدرسہىا مدرسے سے قىام گاہ کبھى کو ئی  کتاب لے جانی  ہوتی  تو داہنے ہاتھ مىں لے کر سىنے سے لگالىتے، کسى طالب علم کودیکھتے کہ کتاب ہاتھ میں لٹکا کرچل رہا ہے تو فرماتے!کتاب جب سىنے سے لگائى جائے گى تو سىنے مىں اترے گى اور جب کتاب کوسىنے سے دوررکھا جائے گا تو کتاب بھی  سىنے سے دور ہوگی ۔

طلبہ پر شفقت:

حضور حافظِ ملت رحمۃ اللہ علیہ   علمِ دین کے طلب گاروں سے بے پناہ مَحَبَّت فرمایاکرتے تھے ،طلبہ کو کسی غلطی پر مدرسہ سے نکال دینے کو سخت ناپسند کرتےاور فرماتے: مدرسے سے طلبہ کا اِخراج بالکل اىسا ہى ہے جىسے کوئى باپ اپنے کسى بىٹے کو عاق کردے ىا جسم کے کسى بىمار عضو کو کاٹ کر الگ کردے،مزید  فرماتے: انتظامى مَصالح کے پىش نظر اگرچہ ىہ شرعا مُباح ہے لىکن مىں اسے بھى اَبْغَض مُباحات (یعنی جائز مُعاملات میں  سخت ناپسند باتوں)سے سمجھتا ہوں۔

وقت کی پابندی:

حضور حافظِ ملت رحمۃ اللہ علیہ وقت کے اِنتہائی پابند اور قدردان تھے ہر کام اپنے وقت پرکیا کرتےمثلاً  مسجدِ محلّہ میں پابندى ِوقت کے ساتھ باجماعت نماز ادا فرماتے ، تدریس کے اَوقات میں اپنى ذِمّہ دارى کو بحسن و خُوبى انجام دیتے، چُھٹى کے بعد قىام گاہ پر لوٹتےاور  کھانا کھا کرکچھ دىر قَىْلُولہ(یعنی دوپہر کے وقت کچھ دیر کے لیے آرام ) ضرور فرماتے قىلولہ کا وقت ہمىشہ ىکساں رہتا چاہے اىک وقت کا مدرسہ ہو ىا دونوں وقت کا،ظُہر کے مُقررہ وقت پر بہرحال اُٹھ جاتے اورباجماعت نماز ادا کرنے کے بعداگر دوسرے وقت کا مدرسہ ہوتا تو مدرسے تشریف لے  جاتے ورنہ کتابوں کا مُطالعہ فرماتےیا کسى کتاب سے  درس دىتے یا پھر حاجت مندوں کو تعوىذ عطا فرماتے ، شروع شروع مىں عَصْر کى نماز کے بعد سیر وتفرىح کے لىے آبادى سے باہر تشرىف لے جاتے مگراس وقت بھی  طلبہ آپ کے ہمراہ ہوتے جو علمى سُوالات کرتے اورتَشَفّی بھر جوابات  پاتے ، اگر کسى کى عىادت کے لىے جانا ہوتا تواکثر عَصْر کے بعد ہى جایا کرتے۔

حافظِ ملّت کی سادگی اور حَیا:

آپ کی زندگی نہایت سادہ اور پُرسُکون تھی کہ جو لباس  زىبِ تن فرماتے وہ موٹا سوتى کپڑے کا ہوتا، کُر تاکلی دار  لمبا ہوتا، پاجامہ ٹخنوں سے اوپر ہوتا ، سر مبارک پر ٹوپی ہوتی  جس پر عمامہ ہر موسم میں سجا ہوتا ، شىروانى بھى زىبِ تن فرمایا کرتے، چلتے وقت ہاتھ میں عصا ہوتا ۔راستہ چلتے تو نگاہىں جُھکاکر چلتے اور فرماتے: مىں لوگوں کے عُىوب نہىں دىکھنا چاہتا۔  گھرمىں ہوتے تو بھی حَیا کو ملحوظِ خاطررکھتے، صاحبزادیاں بڑی ہوئیں توگھرکےمخصوص کمرے میں ہی آرام فرماتے، گھر مىں داخلہوتے وقت  چَھڑى زمىن پر زور سے مارتے تاکہ آواز پىدا ہو اورگھرکےلوگ خبردارہوجائىں،غىرمَحْرَم عورتوں کوکبھى سامنے نہ آنے دىتے۔

بچپن سے نیکی کا جذبہ:

 آپ بچپن ہی سےفَرائض و سُنَن کے پابند تھے اور جب سے بالغ ہوئے نمازِ تَہجُّد شروع فرمادى جس پرتاحیات عمل رہا، صلوٰةُ الاوَّابىن ودلائلُ الخىرات شرىف وغىرہ  بلاناغہ  پڑھتےیہاں تک کہ آخرى اىام مىں دوسروں سے پڑھوا کر سنتے رہے، روزانہ صبح  سورۂ ىٰسىن و سورۂ ىوسف کى تلاوت کا التزام فرماتے جبکہ جمعہ کے دنسورہ ٔکہف کى تلاوت معمول میں شامل تھی۔آپ  فرمایاکرتے کہ عمل اتنا ہى کر و جتنا بلا ناغہ کرسکو۔  

اکابرین سے محبت:

جب بھی حافظِ ملّت رحمۃ اللہ علیہ اعلىٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ   اور صدرُ الشرىعہ حضرت مولانا مُفْتی امجد علی اَعظمی رحمۃ اللہ علیہ کا نام سنتے تو اپنى گردن جھکالیتے ، اسیطرح دیگر اکابرینِ اہلسنت اور مشائخِ اہلسنت کا تذکرہ کرتے ہوئے محبت سے جھوم جاتے تھے۔( شریعت وطریقت ، ص ،۱۴)

حافظ ملت کی دینی خدمات:

حضور حافظِ ملترحمۃ اللہ علیہ ایک بہترین مدرس ، مصنف، مناظِر اور منتظمِ اعلیٰ تھے آپ  کا سب سے عظیم کارنامہ الجامعۃُ الاشرفیہ مبارک پور (ضلع اعظم گڑھ یوپی ہند) کا قیام ہےجہاں سے فارغُ التحصیل عُلما  ہند کی سرزمین سے لے کر ایشیا، یورپ و امریکہ اورافریقہ کے مختلف ممالک میں دینِ اسلام کی سربلندی اور مسلکِ اعلیٰ حضرت کی ترویج واشاعت میں مصروف ِ عمل ہیں ۔

حافظِ ملت شخصیت ساز تھے:

 رئىسُ القلم حضرت علامہ ارشدُالقادرى رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :

آپ ایک شفیق اور مہربان باپ کی طرح طلبہ کی ضروریات اورتعلیم و تربىت کے ساتھ ساتھ ان کی شخصىت کو بھی نکھارا کرتے تھے ۔استاد شاگرد کا تعلق عام طور پر حلقۂ درس تک محدود ہوتا ہے لىکن اپنے تلامذہ کے ساتھ حافظِ ملّت کے تعلُّقات  کا دائرہ اتنا وسىع ہے کہ پورى درسگاہ اس کے اىک گوشے مىں سماجائے، ىہ انہى کے قلب و نظر کى بے اِنْتہا وُسعت اور انہى کے جگر کابے پاىا حوصلہ تھا کہ اپنے حلقہ درس مىں داخل ہونے والے طالب علم کى بےشمار ذِمّہ دارىاں وہ اپنے سَر لىتے تھے، طالبِ علم درس گاہ مىں بىٹھے تو کتاب پڑھائىں، باہر رہے تو اخلاق و کردا رکى نگرانى کرىں، مجلسِ خاص مىں شرىک ہو تو اىک عالمِ دىن کے محاسن و اوصاف سے روشناس فرمائىں،بىمار پڑے تو نقوش و تعوىذات سے اس کا علاج کرىں، تنگدستى کا شکار ہوجائے تو مالى کفالت فرمائىں، پڑھ کر فارغ ہو تو ملازمت دلوائىں اور ملازمت کے دوران کوئى مشکل پىش آئے تو اس کى بھى عُقدہ کشائى فرمائىں، طالبِ علم کى نجى زندگى ، شادى بىاہ، دُکھ سُکھ سے لے کر خاندان تک کے مسائل حل کرنے میں توجہ فرمائیں، طالب علم زىرِ درس رہے ىا فارغ ہو کر چلا جائے اىک باپ کى طرح ہر حال مىں سرپرست اور کفىل ، ىہى ہے وہ جو ہرِمُنفردجس نے حافظِ ملّت کو اپنے اَقْران و مُعاصرىن کے درمىان اىک معمارِ زندگى کى حىثىت سے مُمتاز اورنُماىاں کردىا ہے۔

آپ کی تصانیف:

آپ  تحریر وتصنیف میں بھی کامل مَہارت رکھتے تھےآپ نے مختلف مَوضوعات پر کُتب تحریر فرمائیں جن میں سے چند کے نام یہ ہیں:

مَعارفِ حدىث ۔ اِرشادُ القرآن۔الارشاد (ہندوستان کی سیاست پر ایک مُسْتقل رسالہ )۔المصبَاح ُالجدىد ۔العذابُ الشَّدىد ۔ انباء الغیب(علمِ غىب کے عُنوان پر اىک بہترین رسالہ)۔  فرقۂ ناجىہ۔  فتاوىٰ عزىزىہ۔حاشیہ شرح مرقات ۔

آپ کے تلامذہ:

آپکے تلامذہ کی تعداد یقیناً  ہزاروں میں ہوگی ان  میں سے چند تلامذہ  پر اکتفا کرتا ہوں لیکن ان میں سے ہر ایک آسمانِ علم کا درخشندہ ستارے ہیں۔

 عزىز ملت حضرت علامہ شاہ  عبدالحفىظ مدظلہ العالی

قائدِ اہلسُنَّت رئىسُ القلم حضرت علامہ ارشدالقادرى رحمۃ اللہ علیہ  

بحرالعلوم حضرت مفتى عبدالمنان اعظمى   

خطیبُ البراہین حضرت علامہ صوفی محمد نظام الدىن بَسْتَوى

 حضرت علامہ قارى مُصلح الدین  صدیقی قادری

بانیِ دارُالعلوم امجدیہ حضرت علامہ مُفْتى ظفر على نعمانی

 فقیہِ اعظم ہندحضرت علامہ مفتی محمدشرىف الحق امجدى

بدراہلسنت حضرت علامہ مفتی بدرُالدین احمد گورکھپوری

شیخ القرآن حضرت علامہ عبدُاللہ خان عزیزی

اشرفُ العلماء سَیِّد حامد اشرف اشرفی مِصْباحی

ادیبِ  اہلسنت  مُفتی  مجیبُ الاسلام نسیم اَعْظمی

شیخ اعظم  سَیِّد محمد اظہاراشرف اشرفی کچھوچھوی

نائبِ حافظِ ملت  علامہ عبدالرؤف بلياوی 

محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری

 نصیر ملت علامہ نصیر الدین قادری

شیخ الاسلام علامہ سید مدنی میاں اشرفی

 مولانا وارث جمال قادری

علامہ محمد احمد مصباحی

 علامہ بدرالقادری

 علامہ یٰسین اختر مصباحی

علامہ قمر الزماں اعظمی

 علامہ عبدالمبین نعمانی قادری

علامہ عبداللہ خاں عزیزی

 علامہ عبدالشکور مصباح

آپکے ملفوظات:

۱۔ جسم کى قُوّت کے لىے ورزش اور رُوح کى قُوّت کے لىے تَہجُّد ضرورى ہے۔

۲۔جب سے لوگوں نے خُدا سے ڈرناچھوڑ دىا ہے، سارى دُنىا سے ڈرنے لگے ہىں۔

۳۔کام کے آدمى بنو، کام ہى آدمى کو مُعزَّ ز بناتا ہے۔

۴۔بلاشبہ اىسى تعلىم جس مىں تربىت نہ ہو آزادى و خُود سرى ہى کى فضا ہو ،بے سُود ہى نہىں بلکہ نتىجہ بھی  مُضر (نُقصان دہ )ہے۔

۵۔احساسِ ذِمّہ دارى سب سے قىمتى سرماىہ ہے۔

وصالِ پُرملال:

 یکم جمادی الاخری ۱۳۹۶ھ بمطابق31مئی1976ء رات گیارہ بج کر پچپن  منٹ پر وصال ہواآپ کی آخری آرام گاہ الجامعۃ ُالاشرفیہ مُبارکپور کے صحن  میں ”قدیم دارُالاِقامۃ “کے مغربی  جانب اور”عزیزُ المساجد“ کے شمال میں واقع  ہے۔

ماخذ ومراجع:

سوانح ِ حافظ ِ ملت

حیات حافظِ ملت



ولادت

ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے ایک مغربی ضلع مرادآباد کے قصبہ بھوج پور میں 1314ھ بمطابق 1894ء میں پیدا ہوئے۔[1]


نام و نسب

اسم گرامی عبد العزیز بن حافظ غلام نور بن ملا عبد الرحیم۔ آپ کا یہ نام آپ کے دادا ملا عبد الرحیم صاحب نے شیخ عبد العزیز محدث دہلوی کی نسبت سے رکھا اور فرمایا کہ میرا یہ بیٹا بڑا عالمِ دین بنے گا۔ وقت ولادت پاس پڑوس کی بڑی بوڑھیوں نے ’’پیرا‘‘ کہا، دنیائے اسلامیان ہند میں استاذ العلماء جلالۃ العلم اور حافظ ملت کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔


تعلیم و تربیت

آپ کے آبا و اجداد کا تعلق انصار برادری سے ہے۔ معاشی حالت اگرچہ ہمیشہ کمزور رہی لیکن شرافت نجابت میں قصبہ بھوج پور میں یہ گھرانہ مشہور تھا۔ گھر کا ماحول اسلامی قوانین و ضوابط پر کاربند تھا۔ والد اور جد اعلیٰ انتہائی مذہبی اور دینی مزاج رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی ابتدائی تعلیم ناظرہ قرآن سے شروع ہوئی۔ چنانچہ آپ نے ناظرہ، و حفظ قرآن کی تکمیل والد سے فرمائی، پرائمری درجات کی تعلیم بھوج پور میں ہوئی۔ فارسی کی ابتدائی تعلیم مولوی عبد المجید مراد آبادی سے اور پیپل سانہ میں حافظ نور بخش اور حکیم مولوی مبارک ﷲ سے گلستان تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد تعلیمی سلسلہ منقطع کر کے قصبہ بھج پور کی بڑی مسجد کے خطیب و مدرسہ حفظ القرآن کے مدرس مقرر ہو گئے۔ شب وروز یونہی گزرتے رہے۔ ماہ رمضان المبارک میں ہر سال شبینہ خوانی کے لیے شہر مراد آباد لوگوں کی دعوت پر تشریف لے جاتے۔ آپ کی صحتِ قراءت اور زود خوانی کا چرچا جلد ہی پورے شہر میں ہو گیا۔ عالم یہ تھا کہ پورا قرآن شریف تنہا محراب شریف میں سنا کر اٹھتے اور ذرہ برابر تھکان محسوس نہیں کرتے۔ پانچ سال تک یہی سلسلہ رہا۔ تعلیمی سلسلہ منقطع، گھریلو ذمہ داریوں اور کاموں کا بوجھ پھر عمر کا کافی حصہ بھی گذر چکا تھا۔ تعلیم و تعلم کا کسے خیال ہوتا؟ مگر جد کریم کی پیشن گوئی بہرحال پوری ہونی تھی۔ شہر مراد آباد کے طبیب حاذق جناب مولوی حکیم محمد شریف صاحب حیدرآبادی تلمیذ رشید حضرت مولانا عبد الحق خیر آبادی گاہے بگاہے بسلسلہ علاج و معالجہ بھوج پور تشریف لایا کرتے تھے اور نماز کا وقت ہوتا تو حافظ ملت کی اقتداء میں نماز ادا کیا کرتے تھے۔ ایک دن فرمانے لگے۔ حافظ صاحب آپ قرآن بہت عمدہ پڑھتے ہیں اور بڑی محبت سے فرمایا آپ طب بھی پڑھ لیجئے۔ میں آپ کو حکمت پڑھاؤں گا۔ حافظ ملت نے فرمایا۔ میں غریب آدمی مسجد کی امامت اور مدرسہ کی تدریس میرا ذریعہ معاش، روزانہ آمدورفت میرے لیے ممکن نہیں۔ حکیم صاحب نے فرمایا۔ آپ بذریعہ ٹرین مراد آباد آجائیں اور سبق پڑھ کر ٹرین ہی سے بھوج پور چلے جائیں۔ کرایہ میں جو صرف ہوگا وہ میں خود برداشت کروں گا۔ آپ نے والد صاحب سے عرض کیا۔ انہوں نے اجازت دے دی اور فرمایا روز کا آنا جانا مناسب نہیں۔ مراد آباد رہ کر ہی پڑھو۔ الغرض! ملازمت ترک فرما کر آپ حکیم صاحب کے پاس تشریف لے گئے۔ انہوں نے گلستان کا امتحان لے کر فرمایا آپ کا دماغ عربی کے لائق ہے اور میزان و منشعب وغیرہ شروع کرایا۔ وہ سب بھی دو ماہ کے اندر اندر ختم ہوگئیں۔


نہ جانے حکیم صاحب کو کیا سمجھ میں آیا کہ اس کے بعد خود پڑھانا چھوڑ دیا اور کہا کہ اب مجھے مطالعہ کرنا پڑے گا اور میرے پاس وقت نہیں ہے۔ اس لیے اب آپ مدرسہ جایئے، چنانچہ حافظ ملت نے جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں داخلہ لے لیا۔ تین سال تک تعلیم حاصل کرتے رہے مگر شرح جامی سے آگے نہ بڑھ سکے۔ علم کی پیاس جو شدت اختیار کرچکی تھی۔ وہ بھی کلی طور پر نہ بجھ پا رہی تھی۔ تعلیم حسب منشا نہ ہونے کی وجہ سے کسی اچھے مدرسے اور کسی مشفق مدرس کی تلاش شروع کردی۔


حسن اتفاق سے آل انڈیا سنی کانفرنس کا انعقاد مراد آباد میں ہونا طے پایا۔ اس میں مشاہیر علما کا اجتماع ہوا۔ غور و فکر کے بعد رجحان قلب حضرت صدر الشریعہ مولانا امجد علی صاحب اعظمی کی طرف ہوا۔ درخواست پیش کی تو فرمایا۔ شوال سے اجمیر شریف آجاؤ۔ مدرسہ معینیہ میں داخلہ لے کر تعلیمی سلسلہ شروع کرادوں گا۔


حسب ہدایت حضور حافظ ملت، حضرت محدث اعظم مولانا سردار احمد صاحب اور مولانا غلام جیلانی صاحب میرٹھی وغیرہم اجمیر شریف 1342ھ میں پہنچے۔ اگرچہ آپ سب بھی حضرات اس وقت معیاری طالب علم نہ تھے مگر حسب وعدہ صدر الشریعہ نے داخلہ فرمالیا۔ درسی کتابیں دیگر مدرسین پر تقسیم ہوگئیں۔ حضرت صدر الشریعہ نے از راہ شفقت خارجی اوقات میں تہذیب اور اصول الشاسی کا درس دینا شروع کیا۔ ملاحسن تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد حافظ ملت نے معاشی تنگی اور خانگی مصروفیت کا تذکرہ کرکے تعلیمی سلسلہ ختم کر دیا اور دورہ لینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ حضرت صدر الشریعہ نے بگڑ کر فرمایا ’’اگر زمین پھٹ جائے اور آسمان ٹوٹ پڑے یہ تو ممکن ہے مگر آپ کی ایک کتاب چھوٹے یہ ممکن نہیں‘‘ چنانچہ حافظ ملت نے اپنا ارادہ ملتوی فرمادیا اور پوری دلجمعی کے ساتھ حضرت کی خدمت میں رہے۔ 1350ھ میں تعلیمی سلسلہ دورہ حدیث کے بعد ختم ہوا۔ اجمیر شریف میں مدرسہ معینیہ سے سند فراغت حاصل کی۔


بیعت و ارادت

آپ کو شرف بیعت اعلیٰ مولانا سید علی حسین صاحب اشرفی میاں کچھوچھوی سے حاصل ہے۔ انہوں نے مرید کرکے خلافت سے نوازا۔ حضرت کے استاذ محترم حضرت صدر الشریعہ مولانا امجد علی صاحب سے بھی آپ کو خلافت و اجازت حاصل ہے۔ حضور حافظ ملت سے سلسلہ امجدیہ کی توسیع و اشاعت سلسلہ اشرفیہ کی بہ نسبت زیادہ ہوئی ہے۔


مشاغل

فراغت کے بعد ایک سال تک بریلی میں حضرت کی خدمت میں رہے۔ شعبان 1352ء میں حضرت مولانا صدر الافاضل مولانا محمد نعیم الدین مراد آبادی نے جامع مسجد آگرہ میں مولانا نثار احمد صاحب کانپوری کے وصال کے بعد متعین کرنا چاہا تو آپ نے انکار فرمادیا اور عرض کیا کہ میں ملازمت نہیں کروں گا۔ حافظ ملت کا خیال تھا کہ تجارت کریں گے اور حتی الوسع دینی خدمات فی سبیل ﷲ انجام دیں گے۔ لیکن اسی سال ماہ شوال کے آخر میں حضرت صدر الشریعہ نے آپ کو بریلی شریف بلوالیا اور مبارک پور مدرسہ اشرفیہ میں درس تدریس کے سلسلے میں ارشاد فرمایا۔ میں ہمیشہ باہر رہا اس کے باعث میرا ضلع خراب ہو گیا۔ بدمذبیت اور گمراہیت نے پورے ضلع پر قبضہ جمارکھا ہے۔ اس لیے دین کے لیے میں آپ کو مبارک پور بھیج رہا ہوں، جائیے اور کام کیجئے۔ آپ نے عرض کیا۔ حضرت میں ملازمت نہیں کروں گا۔ اس پر صدر الشریعہ نے فرمایا… میں نے ملازمت کے لیے نہیں کہا بلکہ خدمت دین کے لیے کہا ہے۔ اس پر آپ خاموش رہے۔ پھر فرمایا یہ مت دیکھنا کہ کیا مل رہا ہے۔


جامعہ اشرفیہ کا قیام

آپ نے صدر الشریعہ علامہ امجد علی (صاحب بہار شریعت ) کے حکم پر تکمیل درسیات کے بعد اعظم گڑھ ضلع کے قصبہ مبارکپور تشریف لائے اس وقت یہاں ایک مدرسہ مصباح العلوم کے نام سے قائم تھا۔ حافظ ملت کی انتھک محنت کے باعث یہ مدرسہ ایک عظیم الشان پھل دار درخت کی حیثیت سے جامعہ اشرفیہ کے نام سے متعارف ہوا۔ چنانچہ جامعہ اشرفیہ کے فاضلین آج بھی اس جامعہ کے پرانے نام کی طرف نسبت کرتے ہوئے دنیابھر میں مصباحی معروف ہیں


اخلاق و کردار

حافظ ملت ایک عہد ساز اور انقلاب آفریں شخصیت کے مالک تھے۔ آپ نے زندگی کے قیمتی لمحات انتہائی خوبی سے دین ومسلک کی خدمت و اہتمام میں گزارے۔ آپ کے پاکیزہ اور روحانی کیفیات سے سرشار وجود میں بھی اخلاق کریمانہ اور اوصاف بزرگانہ کا ایک جہاں آباد تھا۔ آپ اخلاق، جہد مسلسل، استقلال، ایثار، ہمت، کردار، علم، عمل، تقوی، تدبر، اسلامی سیاست، ادب، تواضع، استغناء، توکل، قناعت اور سادگی جیسے بے پناہ اوصاف سے بھی مزین تھے۔


وفات

84 برس کی عمر پا کر 2 جمادی الاولی 1396ھ مطابق 31 مئی 1976 ء بروز دوشنبہ کے دن وفات پائی۔[2][3]

Previous Post Next Post