تاجدارِ اہلسنّت حضرت الشیخ عبدالحمید محمد سالم القادری Biography Hazrat Abdul Hameed Salim Qadari Usmani Barkati Badayun | Hazrat Allama PirSalimMiyaQadri

 حضرت الشیخ عبدالحمید محمد سالم القادری 



تاجدارِ اہلسنّت حضرت الشیخ عبدالحمید محمد سالم القادری (زیب سجادہ آستانہ عالیہ قادریہ )اپنے اسلاف کی طرح نہایت باحیا،خلیق ،ملنسار،عارف باللہ، خانقاہی روایتوں کے امین اور ایک شاعرہیں۔آپ حضرت عاشق الرسول حضرت مولانا عبدالقدیر بدایونی قدس سرہ کے سب سے چھوٹے صاحبزادے اور جانشین، خانقاہ قادریہ کے صاحب سجادہ ،مدرسہ قادریہ کے سرپرست ،لاکھوں قادری مجیدی وابستگان کی عقیدت ومحبت کا مرکز اور خانوادۂ قادریہ عثمانیہ کے موجودہ سربراہ ہیں۔آپ اپنے بزرگوں کی روحانی وراثتوں کے امین ووَارث ہیں ۔پابندیِ شریعت ،ذوقِ طریقت ،عقیدے میں تصلب اور سوزوگداز اپنے بزرگوں سے ورثے میں پایا ہے۔دور اندیشی، معاملہ فہمی، کشادہ قلبی، اعلیٰ ظرفی، توازن واعتدال، صبروتحمل اور عفو ودَرگذرآپ کے ذاتی اوصاف ہیں۔قوم وملت کی فلاح وترقی،مسلک اہلسنّت کی نشرواشاعت ،مشرب قادریت کا فروغ اور احباب سلسلہ کی تعلیم وتربیت آپ کی زندگی کا مشن ہے۔۲۰۱۰ء میں آپ کی سجادگی کو پچاس سال مکمل ہو گئے۔آپ کی دعوتی، تبلیغی اور اصلاحی خدمات کی تاریخ نصف صدی پر محیط ہے۔

٭ولادت اور اسم گرامی :

حضرت الشیخ عبدالحمید محمد سالم القادری کی ولادت باسعادت ۲۶؍شعبان المعظم ۱۳۵۸ ھ/اکتوبر ۱۹۳۹ء میں حیدرآباد دکن میں ہوئی۔

٭تعلیم وتربیت:

آپ نے محض آٹھ سال کی عمر میں حافظ عبدالوحید قادری مقتدری سے قرآن کریم حفظ کیا ۔ اپنے آبائی مدرسہ قادریہ میں مفتی ابراہیم فریدی سمستی پوری اور مفتی اقبال حسن قادری سے علم کی تحصیل کی۔بعض کتابیںاپنے والد گرامی حضرت عاشق الرسول شاہ عبدالقدیر قادری (مفتی اعظم حیدرآباد سے )پڑھیں۔

٭اساتذہ کرام :


٭بیعت وخلافت :

آپ اپنے والد محترم کے دست حق پر بیعت ہوئے اور ۱۳۷۷ھ میں عرس قادری کے مبارک موقع پر خلافت سے نوازے گئے۔۶؍شوال المکرم ۱۳۷۹ھ/۱۹۶۰ء میں حضرت عاشق الرسول کے فاتحہ سویم کے دن حضرت کی وصیت واعلان کے مطابق خانقاہ قادریہ کی مسند سجادگی پر متمکن ہوئے۔اس وقت سے آج تک آپ اپنے اسلاف کے مسلک ومنہاج پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے رشدوہدایت ،اصلاح وارشاد،وابستگان سلسلہ کی دینی اور روحانی تربیت اور سلسلۂ قادریہ کے فروغ کے لیے محنت کررہے ہیں۔

٭دربارِ سیدنا غوث اعظم سے خانوادۂ بدایوں کے تعلقات:

بغداد شریف جانے کے حوالے سے مولاناعطیف میاں قادری صاحب کا بیان ہے کہ ’’ہمارے خانوادے سے بغداد جانے کی ابتداجانشین سیف اللہ المسلول سیدنا شاہ فضل رسول سے ہوتی ہے ۔ ’’اکمل التاریخ‘‘ میں ذکر ہے کہ ۱۲۷۸ھ/۱۸۶۱ء میں سیف اللہ المسلول پہلی بار بغداد شریف حاضر ہوئے،یہ وہ زمانہ تھا جب وہاں کے صاحب سجادہ اور نقیب الاشراف حضرت سید علی الگیلانی تھے۔‘‘

سیف اللہ المسلول سیدنا شاہ فضل رسول کے بعد تاج الفحول سیدنا شاہ عبدالقادر ،سرکار صاحب الاقتدارشاہ عبدالمقتدر ،مفتی اعظم سلطنت آصفیہ شاہ عبدالقدیر صاحبان مسلسل جاتے رہے اور اب تاجدارِ اہل سنّت کا بھی یہی معمول ہے۔مفتی اعظم سلطنت آصفیہ شاہ عبدالقدیر صاحب پینتالیس سالوں تک مسلسل بغداد شریف حاضر ہوئے،ہر سال آپ حضور سیدنا غوث پاک رضی اللہ عنہ کے مزارمبارک کے لیے اپنے ساتھ ایک بیش قیمت غلاف تیار کرکے لے جاتے تھے اور آپ کو یہ شرف حاصل ہے کہ جو غلاف آپ اپنے ساتھ لے جاتے تھے ، سال بھر وہی غلاف حضور غوث پاک رحمۃا للہ علیہ کے مزاز پر چڑھا رہتا تھا ،پھر اگلے سال جب جاتے تو نیا غلاف لے کر جاتے ،اسے چڑھاتے اور پرانا غلاف اُتار کر وہاں جمع کر دیتے۔آپ کو خانوادۂ غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے گہرے تعلقات اور علم و فضل کے سبب وہاں کے کبارعلما، مشائخ، شعرا، فقہا یہاں تک کہ امرااور وزرا بھی جانتے تھے۔آپ کو ’’مولوی‘‘کاخطاب بھی دربارِ غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے ملا تھا۔

مولاناعطیف میاں قادری صاحب فرماتے ہیں کہ

’’حضرت پیر ابراہیم الگیلانی جو وہاں کے سجادہ نشین اور نقیب الاشراف تھے ،ایک بار ان کی طبیعت کافی خراب ہو گئی، اس سفر میں تاجدار اہل سنّت بھی شامل تھے ،انہوں نے میرے دادا سے فرمایا کہ :’’مولوی!میری طبیعت خراب رہتی ہے ، تم اپنے غوث پاک سے کہہ دو کہ میں صحیح ہوجائوں۔‘‘اس پر ہمارے دادا جان رو پڑے اور عرض کی کہ :’’حضور!ہم تو آپ کے غلا م ہیں، آپ ہماری سفارش کیجیے ،نہ کہ ہم آپ کی سفارش کریں۔‘‘تو آپ نے فرمایاکہ ’’مولوی! تم کتنا بھی چھپائومگر میں جانتا ہوں کہ اس وقت روئے زمین پر غوث پاک کی جو نظرتمہارے اوپر ہے وہ کسی پر نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔والد گرامی کی پیدا ئش سے پہلے حضرت سید سالم الگیلانی صاحب سجادہ اور متولی ہوا کرتے تھے ۔انہوں نے ہمارے دادا سے پوچھا کہ :’’مولوی!تمہارے کتنے بیٹے ہیں؟ ‘‘ انہوں نے کہا :’’حضور میرے دو بیٹے ہیں۔‘‘ تو فرمایاکہ ایک تیسرا بھی ہوگا اور اس کا نام میرے نام پر ’’سالم ‘‘رکھنا۔ہمارے حضرت کا یہ نام بھی غوث پاک کے شہزادے اور ان 

کے سجادہ نے رکھا ہے ۔اہل خانہ نے حضرت والد ماجد کے کئی نام رکھے مگر یہ غوث پاک کا کرم ہے کہ وہ پوری دنیا میں ’’سالم میاں‘‘کے نام سے پہچانے گئے ۔‘‘

حضرت الشیخ عبدالحمید محمد سالم القادری صاحب ۱۹۶۲ء میںسجادہ بننے کے بعد پہلی مرتبہ بغداد شریف حاضر ہوئے ،صاحب سجادہ حضرت پیر ابراہیم گیلانی صاحب نے آپ کو اپنا پہنا ہوا خرقہ اُتار کر پہنایا اور اپنے خاندان کی وہ ساری اجازتیں عطا کیں جو ان تک پہنچی تھیں۔آپ  حضرت پیر ابراہیم گیلانی صاحب کے آخری خلیفہ ہے ۔اس سفر میں حضرت پیر ابراہیم گیلانی صاحب نے حضرت الشیخ عبدالحمید محمد سالم القادری صاحب سے فرمایاتھا کہ ’’میرے دادا حضور غوث اعظم میرے خواب میں آئے اور انہوں نے فرمایاکہ ’’مولوی ہر سال بدایوں سے ہمارے لیے غلاف لاتا تھا، اب اس کا انتقال ہو گیا ہے تو ان کے بیٹے سالم کو میرے مزار سے غلاف اُتار کر دے دو کہ میری طرف سے مولوی کے قبر پر چڑھا دے ۔‘‘حضرت سالم میاں اب تک پچاس سے زائد بار بغداد شریف حاضرہو چکے ہیں۔حضرت پیر ابراہیم صاحب کے بعد جتنے بھی نقیب الاشراف اورسجادگان ہوئے سب سے حضرت سالم میاں کے گہرے تعلقات ہیں،شہزادگان اور سجادگان کے حضرت سالم میاں صاحب کو خطوط آتے ہیں، آستانے میں تعمیر کے سلسلے میں آپ کو بلایا جاتا ہے ،اسی طرح وہاں سے بھی خانوادے کے متعدد افراد اور سجادگان بدایوں تشریف لاتے ہیں اور اب تو سیدنا غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ نے شہید بغداد عالم ربانی مولانا اسید الحق قادری صاحب کو اپنا مہمان بنا کر ہمیشہ کے لیے رکھ لیا ہے جس سے خانوادۂ بدایوں کا تعلق اور بھی گہرا ہوگیا ہے۔

٭تدریسی خدمات:

٭ممتازتلامذہ:

٭مشا ہیر وخلفاء:

٭حق گوئی وبے باکی :

٭تصنیف وتالیف:

آپ نے تصوف سے متعلق ایک مصری کتاب کا ترجمہ ’’محبت، برکت اور زیارت‘‘کے نام سے کیاجو پہلی مرتبہ ادارۂ مظہر حق بدایوں سے اور دوبارہ تاج الفحول اکیڈمی سے شائع ہوا۔تاج الفحول اکیڈمی خانقاہ عالیہ قادریہ بدایوں شریف کا ایک ذیلی ادارہ ہے جو تاجدارِ اہلسنّت حضرت شیخ عبدالحمید محمد سالم قادری (زیب سجادہ خانقاہ قادریہ بدایوں شریف) کی سرپرستی میں عزم محکم اور عمل پیہم کے ساتھ تحقیق، تصنیف، ترجمہ اور نشرواشاعت کے میدان میں سرگرم عمل ہے، اکیڈمی کے زیر اہتمام اب تک عربی، اردو، ہندی ،انگلش، گجراتی اور مراٹھی زبانوں میں تقریباً ۱۱۲؍کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جو شہید بغداد عالم ربانی مولانا اسید الحق قادری صاحب کی نگرانی اور ان کی قائدانہ کوششوں اور محنتوں کا نتیجہ ہے۔ آپ کی شہادت کے بعد اب نشرواشاعت کے یہ سارے امور بحمداللہ صاحبزادۂ گرامی مولانا عطیف قادری بدایونی کی نگرانی میں بحسن وخوبی انجام پا رہے ہیں۔


٭وعظ وخطابت:

٭شعروادب:

حضرت الشیخ عبدالحمید محمد سالم القادری کی شخصیت شعر و سخن کی فصل میں بدر کامل بن کرطلوع ہوتی ہے ۔آپ جہاں زندگی کے مختلف پہلو میں فقیدالمثال ، نادرروز گار اور نازش باغ و بہار ہیں وہیں شعر و سخن کے آئینے میں بھی دیکھئے تو شعر کی زلف برہم سنوارتے اور سخن کے عارض پرغازہ ملتے نظر آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنی قندیل شعورو آگہی سے ظلمات فکر و نظر کے دبیز پردہ کو چاک کیا اور گم گشتگان راہ کو نشان منزل اور شمع ہدایت عطا کی۔ہر بڑے مفکر کی طرح آپ نے بھی اپنے اصول اور ایقان کی روشنی میں ایک فصیح و بلیغ و جدید کلام دنیا کو پیش کیا ہے اور اپنی بانکی طبیعت سے گلشن شعرو سخن میں جذبۂ محبت اور ولولۂ عقیدت کا ایسا کشادہ منفرد اور پر شکوہ تاج محل تعمیر کیا ہے جس کی خوبصورتی ، فنکاری ، نئے نئے نقش و نگار اور انوکھے گل بوٹے دیکھ کر لوگ غرق حیرت ہیں۔آپ کی شاعری میں طلاقت لسانی ، سلاست زبانی ، طرز ادا کی دل آویزی ، اسلوب بیان کی دلکشی اور مضامین کی روانی و شگفتگی بدرجۂ اتم موجود ہے ۔باوجود اس کہ خاکساری اور انکساری کا یہ عالم کہ ’’معراج تخیل‘‘میں تحریر فرماتے ہیں:

’’فقیر اس حقیقت کے اعتراف میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا کہ فقیر شاعر نہیں ہے۔فنّی رموز وغوامض ہی سے واقفیت ہے نہ زبان وبیان پر قدرت۔یہ ضرور ہے کہ طیبہ مطیبّہ علیٰ صاحبہا الف الف تحیۃ دارالسلام بغداد المحیۃ اور آستانہ ہائے پیرانِ عظام کی حاضری کے مواقع پر یا جشن ہائے میلاد شریف اور اعراسِ پیران عظام کے سلسلے میں بے اختیار اشعارِ نعت ومنقبت زبان پر جاری ہو جاتے ہیں اور اس کومیں ان حضرات کا کرم ہی سمجھتا ہوں،ورنہ تجربہ ہے کہ بعض مواقع پر باوجود کوشش کے دماغ پر زور ڈالنے کے شعر کہنے میں کامیابی نہیں ہوتی۔بہ قول نورالقادری   ؎

وہ کہلوائیں تو اے نورؔ نعت ہوتی ہے

نہیں تو شعر بھی ہوتا نہیں مہینوں میں

مزید لکھتے ہیں:

’’حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت اور خاصان خدا کی منقبت کاحق ہم سے ادا نہیں ہو سکتا مگر اتنا تو ہے ہی کہ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیا اللہ قدست اسرارہم سے وابستگی کا اظہار ہوتا ہے۔’’من احب شیااکثرذکرہ‘‘اور خلوص ومحبت سے ذکر کرنا دنیاو آخرت میں ان کے غلاموں میں شمار کیے جانے کے قابل اور اجر کا مستحق بنائے گا۔‘‘  ؎

جو اک حرف بھی ان کو آئے پسند

تو سمجھو ہوئی ساری محنت وصول

عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تپش،مدحت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا شوق، زیارت مدینہ کا جذبہ اور نعت گوئی و نعت خوانی کو ذریعۂ نجات یقین کرنے کا شعور اکابر آستانۂ قادریہ کا نمایاں وصف رہاہے ۔تاجدارِ اہلسنّت نے بھی یہ تمام اوصاف اپنے بزرگوں سے ورثے میں پائے ہیں۔نعت کہنا، نعت سننا، نعت پڑھنا اور ہر وقت ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی لذتوں میں سرشار رہنا آپ کا نصب العین بن گیا ہے۔اب تک آپ کے چار مجموعہ نعت ومناقب تاج الفحول اکیڈمی شائع کرچکی ہے۔ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے اور بہت جلد ہی حضرت کے ایک اور دیوان کو شائع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

آپ کے چوتھے مجموعۂ کلام ’’حدیث محبت‘‘کے پیش لفظ میںآپ کے صاحبزادے مولانا عطیف قادری بدایونی صاحب لکھتے ہیں:

’’سخن گوئی ، سخن فہمی، نکتہ رسی اور سنجیدگی یہ ایسے اوصاف ہیںجو اکتساب سے حاصل نہیں ہوتے بلکہ یہ خداداد صلاحتیں ہیں جو بارگاہِ ایزدی سے ہی عطا ہوتی ہیں مگر یہ بھی ضروری نہیں کہ یہ تمام صلاحتیں کسی میں بیک وقت جمع ہو جائیں۔ بلکہ کوئی کسی میدان کا شہ سوار ہوتا ہے تو کوئی کسی اور میدان کا ماہر۔ اگر یہ تمام اوصاف کسی میں بیک وقت جمع ہو جائیں تو وہی حقیقی معنوں میں شاعر کہلائے جانے کا مستحق ہے۔ ان تمام اوصاف کے تناظر میں اگر خانقاہ قادریہ کے اکابرین سیف اللہ المسلول، تاج الفحول، سرکار مطیع الرسول، سرکار عاشق الرسول، مولانا ہادی القادری، تاجدارِ اہل سنّت اور آپ کے خلف اکبرشہید بغداد مولانا اسید الحق قادری کو دیکھا جائے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ اوصاف ان حضرات میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔‘‘

آپ کے مجموعہ کلام کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

(۱) نوائے سروش ،۱۹۹۲ء (۲)معراج تخیل ،۱۹۹۸ء

(۳)اور مدینے میں ،۲۰۰۸ء (۴)حدیثِ محبت،۲۰۱۴ء ۔

چند کلام بطورنمونے ملاحظہ فرمائیں   ؎

اللہ غنی دیکھی کیا شان مدینے میں 

انوار کی بارش ہے ہر آن مدینے میں

جانے بھی تو کیا جانے سمجھے تو کیا سمجھے

ہے عقل یہ بے چاری حیران مدینے میں 

کیا بات ہے طیبہ کی سرکار کے دیوانے 

سو جان سے ہوتے ہیں قربان مدینے میں

طیبہ کی حضوری میں دیدار بھی ہوجائے 

اے کاش یہ پورا ہو ارمان مدینے میں

بس اتنی گزارش ہے آقا یہ کرم کردو

ہر سال گزاروں میں رمضان مدینے میں

دن ہو تو میں کھو جائوں گلیوں میں مدینے کی 

اور شب کو سنائوں میں قرآن مدینے میں 

لگتا ہے یہ سب دنیا مہمان اُنھیں کی ہے 

افطار کے سجتے ہیں جب خوان مدینے میں 

جاتا تو ہوں گھر لیکن گھر جا کر کہوں گا یہ

ہوں ہند میں میں لیکن ہے جان مدینے میں 

اے قادری دولہا یہ سب آپ کا صدقہ ہے 

ہے آپ کا سالمؔ بھی مہمان مدینے میں 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرکار کی سیرت پر عامل گر اب بھی مسلماں ہوجائے 

دنیا بھی سنور جائے اس کی، عقبیٰ کا بھی ساماں ہو جائے 

کہتا ہے جو قرآں کہتے ہیں، سرکار کو انساں کہتے ہیں

پر وہ ہی اک ایسے انساں ہیں ،جو عرش پہ مہماں ہوجائے 

اول بھی وہی آخر بھی وہی، ہے ان کے علاوہ کون ایسا

تخلیق میں اول ہو کر بھی جو ختمِ رسولاں ہوجائے 

سالمؔ ہے غلامِ موروثی سالمؔ ہے تمہارا درباری 

سالم ؔ پہ نگاہِ لطف و کرم اب یا شہ جیلاں ہوجائے 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہائوالدین کے در پر ہمیں کیا کیا نظر آیا

در و دیوار میں بغداد کا جلوہ نظر آیا

ملی ہے دولت آباد آکے دولت دین و دنیا کی 

خزانۂ غوثِ اعظم کا یہاں بٹتا نظر آیا

اسی دریا کی دو نہریں ہیں برکاتی و رزّاقی 

جبھی تو مجمع البحرین یہ دریا نظر آیا

حضور قادری دولہا کا در ہے ایسا در سالمؔ 

جہاں بے پردہ ہم کو گنبد خضریٰ نظر آیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس کو نظارہ کرنا ہو بغداد کا

کرلے نظارہ وہ دولت آباد کا

کس قدر ہے کرم شاہِ بغداد کا

مل گیا در ہمیں دولت آباد کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت بڑے زود نویس اور زود گو واقع ہوئے لیکن فنّی علو اور کمالِ شعر زود نویسی میں کبھی حائل نہیں ہوا۔۴؍مارچ ۲۰۱۴ء کوبغداد شریف میں عالم ربانی مولانا اسید الحق قادری صاحب کی شہادت اور ۶؍مارچ کو احاطۂ غوث اعظم میںتدفین کے بعد آپ نے جو کلام لکھا اسے پڑھ کر اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے    ؎


حضور غوث کو تم بھا گئے اچھا خدا حافظ

مرے بیٹے ، مرے بھیا ، مرے بابا خدا حافظ

مرے نورِ نظر تھے تم? مرے لخت جگر تھے تم 

نہیں ہیں اب یہ میرے جسم میں گویا خدا حافظ

مکمل کرنا تھی تعمیر میخانہ مگر تم تو

ادھوری چھوڑ کر ہی چل دیئے بھیا خدا حافظ

برا ہے حال بے حد ماں کا بیوی بھائی بہنوں کا

خدا ہی صبر دینے والا ہے سب کا خدا حافظ

میں بڈھا اور ضعیف و ناتواں ناکارہ سا انساں

بھلا برداشت کیسے ہوگا یہ صدمہ خدا حافظ

مری تنہائی کی ہر لمحہ تم کو فکر رہتی تھی

تو اب کیوں جارہے ہو چھوڑ کر تنہا خدا حافظ

سپردِ غوث تونے کردیا سالمؔ تو خوش ہو،ہیں

یقینا غوث کی آغوش میں بھیا خدا حافظ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

٭اعزاز:

٭اہم کارنامہ:

آپ کے عہد سجادگی میں خانقاہ قادریہ نے تعلیمی، تبلیغی،اشاعتی اور تعمیری میدانوں میں نمایاں ترقی کی۔کتب خانہ قادریہ کی جدید کاری، مدرسہ قادریہ کی نشاۃ ثانیہ اور خانقاہ قادریہ میں جدید عمارتوں کی تعمیر یہ سب ایسی خدمات ہیں جو خانقاہ قادریہ کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی جائیں گی۔مسلم لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ’’نقویہ اسلامیہ گرلز انٹر کالج بدایوں‘‘قائم کیا گیا ہے جو آج بدایوں ضلع کے چند معیاری کالجوں میں سے ایک ہے۔بدایوں کی مرکزی عمارت ’’گھنٹہ گھر‘‘ جو مولانا عبدالماجد بدایونی کی یادگار ہے اس میں عوام کے لیے ’’مولانا عبدالماجد بدایونی پبلک لائبریری‘‘ کا قیام کیا گیا،اکابر بدایوں کی تصنیفات کے لیے پہلے ’’ادارۂ مظہر حق‘‘قائم کیا گیا تھا جس نے حتی الامکان اشاعتی خدمات انجام دیں،پھر اس کا نام بدل کر ’’تاج الفحول اکیڈمی ‘‘کردیا گیا جو بحمدہ تعالیٰ اشاعتی میدان میں نمایاں خدمات انجام دے رہی ہے۔عصری تعلیم سے نونہالان قوم کو آراستہ کرنے کے لیے ’’الازہر انسٹی ٹیوٹ‘‘کا قیام عمل میں لایا گیاجس میں بی سے اے،بی بی اے اور ایم بی اے کی کلاسیس جاری ہیں۔

شیخِ طریقت مولانا عبد الحمید سالم القادری زیب سجادہ خانقاہ عالیہ قادریہ بدایوں شریف اب اس دنیا میں نہیں رہے.

ختم سحری کے وقت تین بج کر اکیاون منٹ پرانتقال ہوا.

وہ نہایت معروف و موقر علمی و روحانی بدایوں خانوادے کے عظیم علمی و روحانی وارث و امین تھے. ہند و پاک کے نامور مشائخ میں شمار ہوتے تھے.

ابھی تین دن قبل خانقاہ کے مدرسہ قادریہ کے ایک سینئر استاذِ کی وفات کے غم سے خانقاہ و متعلقین صدمے میں تھے. چند سال پہلے ان کے فرزندِ اکبر مولانا اسید الحق قادری بدایونی  بغداد کے ایک سفر میں شہید ہو گئے تھے.

موصوف کے , تلامذہ, مریدین و متعلقین کی تعداد زیادہ ہے. شیخ عبدالحمید محمد سالم القادری عثمانی کا سلسلہ نسب پینتس (35) واسطوں سے سیدنا عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔

تقریباً آٹھ سو سال سے یہ خانوادہ ،ہندوستان میں علمی ، دینی فکری اور روحانی خدمات کا سلسلہ جاری رکھے ہوۓ ہے ۔

٭بحوالہ جات:

(۱)اکمل التاریخ، مولانامحمد یعقوب حسین ضیاء القادری بدایونی،ترتیب جدید: مولانا اُسید الحق قادری بدایونی،تاج الفحول اکیڈمی بدایوں، جولائی ۲۰۱۳ء 

(۲)روبرو،حصہ اوّل،ص؍۱۴۲تا۱۴۹،خوشتر نورانی، ادارۂ فکراسلامی دہلی،نومبر۲۰۱۰ء

(۳)جام نور دہلی،فروری۲۰۱۰ء 

(۴)جام نور دہلی(عالم ربانی نمبر)،اپریل۲۰۱۴ء 



Post a Comment

Previous Post Next Post