Biography hazrat shah abdul aleem aasi sikandarpuri | Ek Azeem Shayer Wa Sufi حضرت شاہ عبد العلیم آسی سکندر پوری رحمۃ اللہ علیہ

حضرت شاہ عبد العلیم آسی سکندر پوری رحمۃ اللہ علیہ



نام ونسب:اسم گرامی:شاہ عبدالعلیم۔لقب:آسی۔سکندرپورعلاقےکی نسبت سے"سکندرپوری"کہلاتےہیں۔والدکااسمِ گرامی:شیخ قنبرحسین۔مفتی احسان علی  علیہ الرحمہ آپ کےنانا تھے۔آپ حضرت شیخ مظفر بلخی علیہ الرحمہ کی اولادمیں سےتھے۔  حضرت شیخ مظفر بلخی۔بلخ کےتارکِ سلطنت سلطان، اور اقلیم معرفت الٰہیہ کےبادشاہ حضرت مخدوم شرف الدین منیری قدس سرہ کے  چمنستان کی بہار تھے۔ بحکم پیر ومرشد "عدن"تشریف لےگئے۔وہیں 3/ رمضان المبارک 788ھ میں وفات  پائی۔

تاریخ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 19/شعبان المکرم 1250ھ،مطابق ماہِ دسمبر/1834ءکو"سکندرپور"میں ہوئی۔

تحصیل علم:ابتدائی کتب اپنےنانا سے پڑھنے کے بعد خانقاہ رشیدیہ جون پور حاضر ہوئے اور حضرت  شاہ غلام معین الدین قدس سرہ سے میر قطبی تک پڑھا۔ حاجی امام بخش جون پوری المتوفی 1277ھ  نے اپنی آمدنی سے چار آنہ وقف کر کے مدرسہ حنفیہ کی بنیاد ڈالی اور حضرت علامہ عبد الحلیم فرنگی محلی کو بلاکر صدر مدرس مقرر کیا تو آپ حضرت مولانا سے پڑھنے لگے۔ پڑھنے میں بہت محنت فرماتے، رات گذر جاتی مگر خبر نہ ہوتی، ایک صفحہ سے زیادہ کسی کتاب کو سبقاً نہیں پڑھا، مولانا عبد الحلیم فرماتےکتاب ختم ہوگئی، اب دوسروں کو پڑھاؤ ۔

مولانا عبد الحلیم صاحب کےجانے کے بعد ان کی جگہ پر  مولانا مفتی محمد یوسف فرنگی محلی آئے، آپ ہدایہ لےکر اُن کی خدمت میں حاضر ہوئے، مفتی صاحب نےفرمایا،فقیر کاشمس بازغہ کےبعد ہدایہ پڑھانےکامعمول ہے۔ حضرت  آسی نےعرض کیا،تین سطروں کامطالعہ کرکےآیا ہوں،میں نےجوباتیں اخذکی ہیں، ان کو سُن لیجئے،تین گھنٹہ تقریر کی۔مفتی صاحب دم بخود سنتے رہے۔جب انہوں نےسبق کی  تقریرمکمل فرمائی۔تو  مفتی صاحب نے فرمایا: صاحبزادے میں آپ کی تعریف مولوی عبد الحلیم سےسُن چکا ہوں۔ مجھے ایسے شاگرد  کی جب تلاش تھی تو کوئی ملانہیں ، اب بوڑھا ہو چکا ہوں، پڑھانےکےلائق نہیں رہا۔ آپ مطالعہ کرکےکتاب خود ختم کرلیجئے اور دوسروں کو پڑھائیے،جہاں شبہ ہوپوچھ لیجئے۔

بیعت وخلافت: حضرت شاہ قیام الحق حیدری رشیدی سے بیعت وخلافت حاصل تھی۔شیخ کےوصال کے بعد درگاہ رشیدیہ کے سجادہ نشین ہوئے۔

سیرت وخصائص: بحرالعلوم،عالمِ ربانی،فاضلِ اکمل،حضرت علامہ مولانا مفتی عبدالعلیم آسی سکندرپوری رحمۃ اللہ علیہ۔آپ نہایت ہی ذہین وفطین تھے۔کسی مضمون اورکتاب کوایک نظردیکھتےہی ذہن میں کمپیوٹرکی طرح محفوظ ہوجاتاتھا۔تمام علوم پریکساں مہارت حاصل تھی۔بالخصوص فقہ کےاندراللہ جل شانہ نےخاص ملکہ عطافرمایاتھا۔کتب ِ فقہ کی مختصر عبارتوں سےکئی مسائل استنباط کرلیتےتھے۔جنہیں دیکھ کرآپ کےاساتذہ بھی حیران ہوجاتےتھے۔آپ کشیدہ قامت، گداز بدن، کتابی چہر،سیاہ آنکھیں،گھنی اور گول داڑھی،خندہ رو، سڈول بدن، سراپاحسن و جمال تھے۔حسنِ ظاہری کےساتھ حسنِ باطنی میں  بھی باکمال تھے۔

تمام علوم کےجامع ہونےکےساتھ اعلیٰ درجہ کے شاعر بھی تھے۔"آسی"تخلص فرماتےتھے۔شاہ غلام افضل الہ آبادی سےتلمذ تھا۔دیوان" عین المعارف" حقائق و معارف کا گنجینہ ہے۔حضرت آسی بحرِ ذخارہونےکےباوجودطریقت سےخاص شغف رکھتےتھے۔یہی وجہ ہےکہ آپ سفروحضرمیں مرشدگرامی کی خدمت میں حاضررہتے۔علم کےساتھ معرفت، عبادت وریاضت،اورتقویٰ وصداقت ،غریب پروری،ہمدردی وغمگساری،خدمتِ خلق ،وغیرہ جیسی اعلیٰ صفات سےمتصف تھے۔ابتداء میں ذریعۂ معاش کےلیے طبات کی۔درس وتدریس فی سبیل اللہ کرتےتھے۔آخری عمرمیں طبیعت ناسازرہنےلگی۔بالآخر صرف چائے نوش فرماتے تھے۔اس کےعلاوہ کوٖئی اورغذانہ تھی۔

تاریخِ وصال: 85سال کی عمرمیں 3/جمادی الاخریٰ 1335ھ،مطابق 1971ءکوہوا۔مزارمبارک محلہ"نورالدین پورہ"غازی پور(انڈیا)میں مرجعِ خلائق ہے۔

ماخذومراجع:  تذکرہ علمائے اہلسنت۔  

Post a Comment

Previous Post Next Post