Biography Makhdoom Jahaniya Jahan Ghst | تذکرہ مخدوم جہانیاں جہاں گشت | Hayat Wa karamat

 *🕯شیخ الاسلام حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ🕯*

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖



*نام و نسب:* 

*اسم گرامی:* سید جلال الدین بخاری۔

*کنیت:* ابو عبداللہ۔

*لقب:* جہانیاں جہاں گشت، مخدوم جہانیاں، سیاح عالم۔

آپ کا نام اپنے جد بزرگوار مخدوم العالم حضرت سید جلال الدین سرخ بخاری رحمہ اللّٰه کے نام پر رکھا گیا۔

*سلسلہ نسب اس طرح ہے:* حضرت سید جلال الدین مخدوم جہانیاں جہاں گشت بن سید احمد کبیر بن حضرت سید جلال الدین سرخ بخاری بن حضرت سید علی بن حضرت سید جعفر بن حضرت سید محمد بن حضرت سید محمود ۔الیٰ آخرہ۔علیہم الرحمۃ والرضوان۔

آپ کا سلسلہ نسب سترہ واسطوں سےحضرت سید الشہداء امام عالی مقام امام حسین رضی اللّٰه عنہ تک منتہی ہوتا ہے۔ آپ کا تعلق ساداتِ بخارا سے ہے۔

*(تذکرہ اولیائے پاکستان دوم:243)*


*تاریخِ ولادت:* آپ کی ولادت باسعادت 14/شعبان المعظم 707ھ مطابق 9/فروری1308ء بروز جمعرات مدینۃ السادات اوچ شریف ضلع بہاول پور پنجاب میں سید احمد کبیر رحمہ اللّٰه کے گھر پر ہوئی۔ آپ کی جبین مبارک سے سعادت مندی اور رشد و ہدایت کے آثار واضح تھے۔ حضرت شاہ سمنان جہانگیر اشرف سمنانی رحمۃ اللّٰه علیہ سے منقول ہے کہ آپ کی پیدائش کے بعد آپ کے والد گرامی آپ کو شیخ جمال خنداں رو رحمہ اللّٰه کی خدمت میں لےگئے اور ان کےقدموں میں ڈال دیا۔ حضرت جمال خندہ رو رحمہ اللّٰه نے فرمایا:

’’اس فرزند کی عظمت و بزرگی دنیا میں ایسی ہوگی جیسے آج کی شب (شب برات ) کی ہے‘‘۔

*(یاد گار سہروردیہ:206)*


*تحصیل علم:* آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت اوچ شریف میں ہوئی۔ علامہ قاضی بہاءالدین آپ کے استاذ تھے۔ قاضی صاحب کے انتقال کے بعد ہدایہ و بزودی ختم کرنے اور مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آپ اوچ سے ملتان آئے۔ شیخ موسیٰ اور مولانا مجدالدین جیسے شفیق استاذ ملے۔ آپ نے ہدایہ اور بزودی جلد ہی ختم کی۔ بعد ازاں مدینہ منورہ جاکر مزید تعلیم حاصل کی۔ ملتان میں آپ شیخ رُکن الدین ابوالفتح رحمہ اللّٰه کی اجازت سے مدرسے میں رہتے تھے۔ اس کے بعد آپ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے وہاں سے کلام اللہ کی ساتوں قرأتیں سیکھیں اور وہاں سے مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔ اور وہاں کے بہت بڑے عالم دین حضرت شیخ مکہ امام عبد اللہ یافعی اور شیخ عبد اللہ مطری علیہم الرحمۃ سے مختلف کتابیں اور صحاح ستہ پڑھیں۔ حضرت شیخ عبد اللہ مطری کی خدمت میں دو سال رہ کر صحاح ستہ کے علاوہ تہجد کے وقت عوارف المعارف اور حدیث شریف کا درس لیتے۔ آپ کے استاذ شیخ عبد اللہ المطری آپ سے بڑی شفقت و محبت فرماتے تھے۔ دیگر یہ کہ آپ نے عوارف المعارف کے جس نسخے سے درس لیا تھا وہ نسخہ حضرت شہاب الدین سہروردی کے مطالعہ میں رہ چکا تھا۔ جب شیخ عبد اللہ مطری کے وصال کا وقت آیا تو انہوں نے وہ نسخہ حضرت امام عبد اللہ یافعی کے ہاتھ آپ کے پاس بھجوادیا تھا۔ آپ اس نسخے کو بہت زیادہ عزیز رکھتے تھے۔

*(انسائیکلوپیڈیاج5،ص125)*


*بیعت و خلافت:* آپ اپنے والد گرامی سید احمد کبیر رحمہ اللّٰه کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے، اور خلافت و اجازت اور خاندانی کمالات سے مشرف ہوئے۔ اپنے چچا حضرت محمد غوث رحمہ اللّٰه سےخرقہ خلافت پہنا۔ والد کے وصال کے بعد حضرت شیخ الاسلام ابوالفتح رکن عالم ملتانی رحمہ اللّٰه کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے اور سلسلہ عالیہ سہروردیہ میں خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے۔ زیادہ تر آپ سلسلہ عالیہ سہروردیہ میں بیعت فرماتے تھے۔ 

آپ فرماتے ہیں: میں نےچودہ عظیم شخصیات سےخرقہ پہنا اور اجازتیں حاصل کیں۔ حضرت نظام الدین اولیاء سےعالم خواب میں پہنا جو بیدار ہونے کے بعد سر پر پایا۔ حضرت شیخ رُکن الدین ابوالفتح کے خلیفہ حضرت شیخ قوام الدین سے، حضرت قطب الدین منور سے، حضرت نصیرالدین چراغ دہلی سے، شیخ مکہ امام عبداللہ یافعی سے، شیخ مدینہ حضرت عبداللہ المطری سے، قطب عدن حضرت فقیمہ بصال سے، شیخ اسحاق گازرونی سے، شیخ امین الدین، شیخ امام الدین سے، شیخ حمیدالدین سے، حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کے خلیفہ شیخ شرف الدین محمود شاہ سے، سید احمد رفاعی سے، شیخ نجم الدین صنعانی سے، حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ سے، حضرت خضر سے، حضرت احد الدین حسنی سے، حضرت شیخ نور الدین سے۔ رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔ 

*(تذکرہ اولیائے پاک و ہند:117)*


*سیرت و خصائص:* والئی اقلیمِ ولایت، حامی سنت، ماحیِ بدعت، غریق بحر ِمحبت، مقتدائے اہل مودت، شمع قصر ہدایت، سیاحِ عالم حضرت جلال الدین بخاری مخدوم جہانیاں جہاں گشت سہروردی رحمۃ اللہ علیہ۔

آپ اپنے وقت کےعالم ِ متبحر، صوفیِ اعظم، اور دینِ مصطفیٰ ﷺ کے عظیم داعی تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے دین کو ہر سو پھیلایا۔ جہاں بھی تشریف لے گئے دین کی بہاریں ساتھ لے گئے۔ جب واپس ہوتے تو گلشنِ اسلام سرسبز و شاداب ہوتا۔خدمتِ دین انہیں وراثت میں ملی تھی۔ شہادت سید الشہداء کا یہی فلسفہ تھا کہ مصطفیٰﷺ کے لائے دین کو آباد رکھنا ہے۔ آپ کے دستِ حق پرست پر کئی قبائل شرف اسلام سے مشرف ہوئے۔ جنوبی پنجاب اور بالخصوص ریاست بہاولپور کے علاقے میں آپ کا فیضان عام ہے۔ ریاست کاٹھیاواڑ کے نواب کو آپ نے مشرف بااسلام کیا۔جس کی وجہ سے پوری ریاست اسلام کا گہوارہ بن گئی۔ اسی طرح گجرات میں کثیر تعداد میں لوگ مشرف بااسلام ہوئے۔

(انسائیکلوپیڈیا:127)۔


سلطان محمد تغلق شاہ کے عہد میں آپ ’’شیخ الاسلام‘‘ کے منصب پر فائز رہے۔ آپ نے کثیر تعداد میں مدارس و مساجد اور خانقاہوں کی تعمیر کرائی۔


حضرت مخدوم جہانیاں رحمۃ اللّٰه علیہ اپنے وقت کے جید عالم دین اور کہنہ مشق مدرس تھے۔فنون میں زیادہ رغبت نہ تھی۔ قرآن و حدیث تفسیر و فقہ اور تصوف میں دل چسپی تھی۔مشکوٰۃ شریف کا درس مشہور ِعام تھا۔ علمی لحاظ سے آپ کی ذات والا صفات طالبان حق کا مرجع تھی۔ آپ کے ایک مرید حضرت علاؤ الدین علی بن سعد حسینی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ آپ کو 188 علوم پر دسترس حاصل تھی۔ طالبان حق کو قرآن پاک، اور تفسیر مدارک حدیث شریف صحاح ستہ مشارق الانوار مشکوٰۃ المصابیح کے علاوہ فقہ میں ہدایہ و قدوری کا درس دیتے تھے۔ اسی طرح تصوف کی تعلیم میں عوارف المعارف رسالہ مکیہ، قصیدہ لامیہ دیگر کا درس دیا کرتے تھے۔ آپ کے آستانے پر آنے والے طالبان حق کا اس قدر ہجوم ہوتا تھا کہ آپ کی طبیعت کو ذرا بھی آرام نہ ملتا۔ ہمہ وقت دین متین کی تعلیم دیتے رہتے۔ اگر کوئی شخص آپ سے سوال اور مسئلہ سمجھنے میں بار بار سوال کرتا تو آپ بڑے احسن انداز میں جواب دیتے طبیعت ذرا بھی کبیدہ خاطر نہ ہوتی تھی۔

(انسائیکلو پیڈیا:ج5،ص128)


اللہ اکبر! یہ کیسی عظیم ہستیاں تھیں۔ پہلے علاقہ اوچ شریف سے تحصیل علم کے لئے حرمین شریفین کا سفر کیا۔ پھر ساری زندگی اس علم کو جہاں بھر میں تقسیم فرمایا۔ اس وقت جید عالم ہی ایک باصفا صوفی ہوتا تھا۔ آج معاملہ برعکس ہے۔آج کونسا ایسا سجادہ ہے جو تفسیر بیضاوی و جلالین اور بخاری و مشکوٰۃ کا درس دے رہا ہو۔ الاماشاء اللہ۔

یہی فرق ہے کہ ان کی سیرت کو دیکھ کر غیر مسلم اسلام قبول کر لیتے تھے۔ اِن کو دیکھ کر سنی بدمذہب ہو رہے ہیں۔


آپ پانچ وقت کی نماز کے علاوہ، تہجد، اشراق، چاشت، صلوۃ الاوابین، صلوٰۃ التسبیح اور دیگر نوافل کا خصوصیت سے اہتمام فرماتے، اپنے شیوخ کے بتائے ہوئے اوراد و وظائف کو ہر حال میں پورا فرماتے۔ رات کے وقت کچھ دیر نیند کرتے اور بقیہ رات یادِ خدا میں بسر کرتے، کھانا کبھی تنہا نہ کھایا جو بھی کھاتے اپنے احباب میں تقسیم کر کے کھاتے۔ آپ نے چھتیس مرتبہ حج کی زیارت کی۔ شریعت کی سختی سے پابندی کرتے اکثر فرماتے تھے کہ اصل شریعت ہے اور جب تک کوئی شریعت کو مضبوط نہ پکڑے گا حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا۔ سخاوت اور فیاضی کا یہ عالم تھا کہ جو بھی فتوحات آتیں ان میں سے بقدر ضرورت خانقاہ کےلیے رکھ کر بقیہ مستحقین میں تقسیم فرما دیتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ فتوحات اس لیے قبول کر لیتا ہوں کہ شیخ مکہ امام یافعی اور شیخ مدینہ عبد اللہ مطری اور دوسرے بزرگوں نے فرمایا ہے کہ فتوح کو اس لیے قبول کرو کہ دوسروں تک پہنچاؤ اور کچھ ضرورت کے مطابق رکھ لیا کرو۔ آپ اپنے ہم عصر بزرگوں کا بہت احترام کرتے تھے۔ 

ایک مرتبہ مخدوم الملک حضرت شرف الدین یحٰیی منیری علیہ الرحمۃ نے آپ کو جوتا بطور تحفہ بھیجا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ آپ کا نقشِ پا ہوں آپ نے جواب میں ان کو دستار بھیجی جس کا مقصد یہ تھا میں آپ کو اپنے سر کا تاج سمجھتا ہوں۔اسی طرح گمراہ اور جاہل صوفیوں کی خوب خبر لیتے تھے۔ 

(ہمارے مشائخِ زمانہ میں یہ آداب و اخلاق مفقود ہیں)


آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے مکہ مکرمہ میں سات برس اور مدینہ منورہ میں دو سال قیام کیا۔ اس کے علاوہ یمن، عدن، دمشق، لبنان، مدائن، فارس، بصرہ، کوفہ، شیراز، تبریز، ایرانز بلخ، نیشاپور، خراساں، سمرقند، گارزون، بحرین، قطیف، غزنین کے علاوہ دہلی، جونپور، ملتان، بھکر، الور، روہڑی کے علاوہ دیگر کئی شہروں میں تشریف لے گئے۔ اور دین متین کی خدمت کا فریضہ انجام دیتے رہے اور اسلام کا آفاتی پیغام لوگوں تک پہنچایا اور ہزاروں کی تعداد میں غیر مسلموں کو کلمہ پڑھا کر مشرف بہ اسلام کیا۔

اسی بناء پر آپ کو ’’جہانیاں جہاں گشت‘‘ کے لقب سے دنیا پہچانتی ہے۔ آپ کے اسفار کی مکمل تفصیل ’’سفر نامہ جہانیاں جہاں گشت‘‘ میں موجود ہے۔


*بارگاہِ مصطفیٰﷺ میں قبولیت:* جب آپ اوچ شریف سے مدینہ منورہ حاضر ہوئے، اور بارگاہِ سیدالعالمینﷺ میں عرض گزار ہوئے:

’’اَلسَّلَامُ عَلَیکَ یَاجَدّی‘‘۔

آپ کو جواب ملا:

’’وَعَلَیکَ السَّلَامَ یاوَلَدِی‘‘۔

*(تذکرہ اولیائے پاک وہند:118)*


آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ملفوظات و تعلیمات آب زر سےلکھنے کے قابل ہیں۔ ان میں چند یہ ہیں۔

*(1)* جاہل صوفیوں سے دور رہو، کیوں کہ وہ دین کے چور اور مسلمانوں کے راہزن ہیں۔

*(2)* علم لدنی کے لئے تقویٰ ایسے شرط ہے جیسے نماز کےلئے وضو۔

*(3)* ہر مسلمان پر عمل سے پہلے علم واجب ہے۔

*(4)* اللہ کا ولی اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا۔

*(تذکرہ اولیائے پاک وہند:121)*


*تاریخِ وصال:* آپ کا وصال 10/ذوالحج 785ھ، بروز پیر، عیدالاضحیٰ، مطابق 2/فروری 1384ء کو ہوا۔ مزار پر انور اوچ شریف تحصیل احمد پور شرقیہ ضلع بہاولپور میں مرجع خلائق عام ہے۔


*ماخذ و مراجع:* تذکرہ اولیائے پاک و ہند۔ انسائیکلوپیڈیا اولیاء کرام۔ تذکرہ جہانیاں جہاں گشت۔ تذکرہ اولیائے پاکستان جلد دوم۔ یادگار سہروردیہ۔

Previous Post Next Post