مفکر اسلام حضرت علامہ قمرالزماں خاں اعظمی
صوبۂ اُتر پردیش میں کئی وارثین انبیا جلوہ فرما ہوئے جنھوں نے چمن اسلام کی آبیاری کے لیے بے پناہ جدو جہد کیں۔ تاریخ کے اوراق جن کی حیات وخدمات سے روشن ہیں۔ دیدئہ انسانی کو خیرہ کردینے والا ایک نام سیاحِ عالم،حضور مفکر اسلام حضرت علامہ قمرالزماں خاں اعظمی دامت بر کاتہم القدسیہ کا بھی آتا ہے۔ علامہ موصوف کو 2010ء میں حج کے دوران خانۂ کعبہ کی اندرونی زیارت کا شرف بھی حاصل ہوا۔2009 سے دی رائیل اسلامک اسٹریٹیجک اسٹڈی سینٹر (جارڈن) پوری دنیامیں اثرورسوخ رکھنے والے پانچ سو مسلم افراد پر مشتمل سروے رپورٹ پیش کررہاہے ۔2016ء اور2017ء کی سروے رپورٹ میں آپ کا نام بھی شامل تھااور اُمید قوی ہے کہ مستقبل میں شائع ہونے والی تمام رپورٹ میں آپ کانام موجود رہے گا۔حضور مفکر اسلام کی شان میں زبان وقلم سے کچھ اظہار کرناسورج کو چراغ دکھانے کے مماثل ہے۔ علامہ موصوف اپنے علم ،تدبر، تفکر، تقویٰ وطہارت، سادگی ومتانت، تواضع وانکساری، اور اپنے صاف وشفاف کردار وعمل کے ذریعہ پورے عالم اسلام میں یکساں مقبولیت کے حامل ہیں۔بلکہ یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ حسب ذیل شعر حضرت علامہ صاحب قبلہ کی شخصیت پر حرف بہ حرف صادق آرہا ہے ؎
اٹھائے کچھ ورق لالہ نے کچھ نرگس نے کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
٭ولادت اور اسم گرامی :
۲۳؍مارچ۱۹۴۶ء کو عبدالحمید عرف ناتواں ؔ کے علمی گھرانے میںخطیب اعظم مفکر اسلام علامہ قمرالزماں خاں اعظمی صاحب کی ولادت ہوئی۔
٭تعلیم وتربیت:
ابتدائی تعلیم والد عبدالحمید خان اور دادا عبدالصمد خان سے حاصل کی۔8؍سال کی عمر میں مدرسہ انوارالعلوم جین پور،اعظم گڑھ میں داخل ہوئے۔1958ء میں مولوی کا امتحان الٰہ آباد بورڈ سے پاس کیا،اسی سال جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں داخل ہوئے اور حصول علم کے بعد دستار فضیلت سے نوازے گئے۔
٭اساتذہ کرام :
حضور حافظ ملت،بحرالعلوم مفتی عبدالمنان صاحب،علامہ عبدالرئوف صاحب،علامہ ظفر ادیبی،قاری محمد یحییٰ،مولاناسیدحامد اشرف،مولانا شمس الحق اور مولاناخلیل احمدصاحبان جیسے وقت کے جلیل القدر وممتاز علمائے کرام سے اکتساب فیض کیا۔
٭بیعت وخلافت :
۱۹۶۳ء میں سرکار مفتی اعظم ہند کے دست حق پر بیعت ہوئے ۔خلافت پانے کا واقعہ خود علامہ صاحب کے نوکِ قلم سے ملاحظہ فرمائیں:
’’ ۱۹۷۶ء میں انگلینڈ سے پہلی بار وطن واپس ہوااور آقاے نعمت مرشد گرامی کی بارگاہ میں حاضر ہوا،اس وقت آپ مسجد میں تھے،میں نے قدم بوس ہونا چاہا،مگر انہوں نے گلے سے لگا لیااور فرمایا:’’بہت دنوں بعد آئے ہو۔‘‘مسجد میں نماز کی ادائیگی کے بعد دولت کدے پر تشریف لائے۔ خلافت عطافرمانے کے لیے آپ نے مطبوعہ اجازت نامہ طلب فرمایا،مجھ سے میرے والد محترم کا نام پوچھا،میں اس خیال سے گھبرایاہواتھاکہ خلافت کی عظیم ذمہ داری کس طرح نباہ سکوں گا ؟ میں اس کا اہل نہیں ہوں،اس گھبراہٹ اور خوف کے عالم میں زبان سے نام کی بجائے والد مرحوم
کی عرفیت ’’ناتواں خاں‘‘نکل گئی۔چہرۂ اقدس پر ناگواری کے آثار ظاہر ہوئے اور فرمایا:’’بھلایہ کیا نام ہوا‘‘میں نے عرض کیا حضور ان کا اصل نام عبدالحمید ہے۔پھر آپ نے نہ صرف یہ کہ اجازت مرحمت فرمائی بلکہ آپ نے دستِ کرم سے سلاسلِ اربعہ قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ اور نقشبندیہ بھی تحریر فرما دیا ۔اس وقت درِا قدس پر حضرت مولانا مفتی غلام محمد صاحب ناگپوری اور ریحانِ ملت حضرت علامہ ریحان رضا صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہما موجود تھے۔‘‘
٭تدریسی خدمات:
حضور حافظ ملت کے حکم پر دس سال۱۹۶۴ء سے ۱۹۷۴ء تک روناہی ضلع فیض آباد میں تدریسی خدمات انجام دیں۔۱۹۷۴ء کے بعد سے آپ باضابطہ کسی مقام پر تدریس کا فریضہ تو انجام نہیں دیتے مگر آپ کی ہر مجلس اور ہرمحفل درس ونصیحت پر مبنی ہوتی ہے۔آپ کی ایک مجلس نے سیکڑوں زندگیوں میں انقلاب پیداکیاہے۔
٭خدمات واثرات:
ابتدائی دور میں آپ نے تدریس کا فریضہ انجام دیا۔۱۹۶۳ء میں مفتی نانپارہ علامہ مفتی رجب علی علیہ الرحمہ کی خواہش پر بہرائچ شریف ان کے مدرسے میں چھ مہینوں تک طلبہ کو تعلیم دی۔ ۱۹۶۴ء میں حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی ایماپر قصبہ روناہی فیض آبادتشریف لے گئے۔آپ نے ضلع فیض آبادکے قصبہ روناہی کواپنی تعلیمی اور تعمیری خدمات کے لیے منتخب فرمایااور واقعی تعلیم وتعلم کے لحاظ سے ایک بنجرزمین کو اپنی محنت شاقہ اور انتھک جدوجہد کا نذرانہ دے کر علم وآگہی کاایک سدابہارگلستان بنادیا۔ ’’الجامعۃ الاسلامیہ‘‘ نہ صرف یوپی میں بلکہ ہندوستان کی گنی چنی چند مشہور درس گاہوں میں ایک مثالی ادارہ ہے۔ہند وبیرون ہندبالخصوص یورپین ممالک میں آپ کے تلامذہ دین متین کی عمدہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔فیض آبادمیں تدریسی دس سالوں میں آپ تدریس کے ساتھ ہندوستان کے تمام قابل ذکر قصبات ،اضلاع اور صوبوں میں کانفرنسوں ، سیمینار اور اجتماعات میں بحیثیت مقرر شریک ہوتے رہے ؎
آئو ڈھونڈیں اُس مالی کو جس نے قلم لگائی تھی
گل سے کھیلنے والو یہ گلشن اک دن ویرانہ تھا
آپ نے فراغت کے بعد ۱۹۶۴ء سے ۱۹۷۴ء تک ہندوستان میں تبلیغی اسفار کیے۔یہ دس سالہ دور بڑا ہی مصروف ترین رہا ہے۔اس کے بعد آپ کی برطانیہ روانگی ہوئی ۔ان دس سالوں کی مصروفیات کے حوالے سے آپ خود بیان کرتے ہیں کہ ’’۱۹۶۳ء یا ۱۹۶۴ء سے لے کر ۱۹۷۴ء تک ہندوستان میں مستقل قیام کی مدت میں پورے ملک کا دورہ کیا،شاید کوئی قصبہ یا کوئی شہر ایسا ہوگا جہاں میں نے تقریر نہیں کی ہو،شاید کوئی کانفرنس جو اس زمانے میں ہوئی ہو اورمیں شریک نہ ہواہوںشہید اعظم کانفرنس سے لے کر سیوان کانفرنس تک۔‘‘
۱۹۷۳ء میں مکہ مکرمہ میںقائد اہلسنّت علامہ شاہ احمدنورانی اور رئیس القلم علامہ ارشد القادری علیہماالرحمہ نے اہلسنّت وجماعت کی انٹر نیشنل نمائندہ تنظم ورلڈ اسلامک مشن کا قیام کیااور اسی سال چند ماہ کے دورے پر آپ کو بلایاگیا،آپ کی خدمات کو دیکھتے ہوئے آپ کو روک لیا گیا اور ۱۹۷۴ء سے تاحال آپ برطانیہ میں مقیم ہیں اور دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔اس وقت آپ ورلڈ اسلامک مشن کے جنرل سکریٹری ہیں۔اس تنظیم کے ذریعے بہت سے ملکوں میں کئی مساجد اور اداروں کا قیام آپ کی کاوشوں سے عمل میں آیا۔ناروے، ہالینڈ، امریکہ، کینیڈا، بریڈ فورڈ، برطانیہ، فلسطین، ایران، جرمنی، عراق، لیبیا وغیرہا ممالک ایشیا ویورپ تک آپ کی دینی وملی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔ کہیں مساجد قائم کیں، کہیں ادارے کی بنیاد رکھی، کہیں کوئی تنظیم قائم کی ۔بریڈ فورڈ ، برطانیہ میں نوجوانوں کے لیے ایک ادارہ ’’الفلاح‘‘نام سے قائم کیا۔آپ اس کے بانی وسرپرست ہیں اور یورپ میں یہ نوجوانوں کی پہلی تنظیم ہے۔اس کے علاوہ مختلف اداروں اور تنظیموں کی سرپرستی فرمارہے ہیں۔
٭عالمی کانفرنسوں میں شرکت:
دنیا کے مختلف ممالک میں منعقدہ عالمی کانفرنسوں میں بھی آپ کو بطور خاص مدعو کیا جاتا ہے۔ پہلی بار سن ۱۹۸۳ء انقلاب ایران کے بعد ایران کی کانفرنس میں شرکت کی اور تقریباً دو ہفتے کا دورہ مکمل کرکے واپس ہوئے اور وہاں اپنا اچھااثر چھوڑا۔سن ۸۳،۸۵،۸۷،۸۸ اور ۹۰ء میں
عراق حکومت نے اپنی کانفرنسوں میں مدعو کیا،سن ۱۹۸۵ء سے لے کر کئی بار لیبیا کی کانفرنسوں میں شرکت کی، یہ سلسلہ ۱۹۹۵ء تک جاری رہا۔یورپ کے بہت سے ملکوں میں مثلاً:ہالینڈ، بلجیم،فرانس، ڈنمارک، ناروے، جرمنی کی عالمی کانفرنسوں میں شرکت کی اور ان تمام ملکوں میں ورلڈاسلامک مشن کے تحت کانفرنسوںکے انعقاد کا شرف بھی حاصل کیا۔ان کانفرنسوں کے ذریعے یورپ میں اسلام کو بہتر طور پر سمجھانے کی کوشش کی گئی اور ان الزامات کے جوابات دیے گئے جو صدیوں سے مستشرقین یورپ ،اسلام کے خلاف عائد کرتے رہے ہیں ۔
تقریباًدو دہائیوں سے ہندوستان ممبئی میں منعقدہ تحریک سنّی دعوت اسلامی کے عالمی سالانہ سہ روزہ اجتماع میں شرکت کررہے ہیں ۔ان خطبات کی آڈیو سی ڈی ’’وادی نور کے خطبات‘‘کے نام سے منظر عام پر آچکی ہے۔اس کے علاوہ آپ کے مخصوص خطبات کے آٹھ آڈیو البم سنّی دعوت اسلامی کی جانب سے آچکے ہیںجو سنّی دعوت اسلامی کی آفیشیل ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں۔
عالمی کانفرنسوں کے یہ تبلیغی دورے اس لیے نہیں ہوتے کہ حکومتوں کی دعوت پر تشریف لے جائیں،تقریر یں کریں اور سیروتفریح کے بعد نذرانہ لے کر واپس لوٹ آئیں بلکہ جہاں جہاں آپ گئے ،وہاں وہاں آپ نے اپنے جائز مطالبات کی فہرست پیش کی،مسائل کا حل تلاش کیا، کانفرنسوں میں ملک کے دانش وروں اور علماومشائخ اور حکومتی ذمے داران کے سامنے قوم و ملت کی باتیں رکھیں مگر کہیں پر بھی اپنے مذہب اور مسلک اہل سنّت وجماعت کی بنیادی تعلیمات سے سمجھوتہ نہیں کیا۔
٭ممتازتلامذہ:
علامہ فروغ القادری برطانیہ،(مزید کا اضافہ کرنا ہے )
٭مشا ہیر خلفاء:
علامہ فروغ القادری برطانیہ،علامہ ارشد مصباحی برطانیہ۔(مزید کا اضافہ کرنا ہے )
٭اخلاق واوصاف :
د ین وملت کی خدمات کے باب میں حضور مفکر اسلام بڑے متحرک وفعال ہیں ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ دین وملت کی خدمت کا جذبہ آپ کی شریانوں میں لہو کے ساتھ گردش کر رہا ہو۔ اخلاق واخلاص آپ کا علامتی نشان ہے اسی لیے بیرون ممالک میں آپ کو ’’ابو الاخلاص‘ ‘کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔آپ ہر وقت اسلام کے ارتقا اور مسلمانوں کی زبوں حالی کے سد باب کی فکر میں مصروف رہتے ہیں۔ مذہبی اعتبار سے مولوی ،مولانا ، حافظ،وقاری،ہوجانا آسان ہے مگر قائد مذہب وملت ہوجانا ،قائد فکر ونظر ہوجانا یہ ہر انسان کے بس کی بات نہیں۔ جب انسان ان مراحل سے گزرتا ہے تب دنیا اسے’’ مفکر اسلام‘‘ کہتی ہے۔ مفکر اسلام محض آپ کا لقب ہی نہیں بلکہ صحیح معنوں میںیہ اسلام کے عظیم مفکر اور قوم مسلم کے عظیم مدبر ہیں۔
٭تصنیف وتالیف:
آپ کی ادارت میں ورلڈ اسلامک مشن کی جانب سے ۱۹۷۵ء میں بریڈفورڈ سے ’’الدعوۃ الاسلامیہ ‘‘نامی رسالہ جاری ہواجو اَب بھی انگلش اور عربی میں کراچی سے شائع ہورہاہے۔اس کے علاوہ۱۹۸۶ء میں ’’حجاز انٹرنیشنل‘‘کے نام سے ماہانہ پرچہ جاری ہوااور اس وقت جرمنی سے ’’صدائے حق‘‘ اور سائوتھ افریقہ سے ’’دی مسیج‘‘وغیرہ شائع ہورہے ہیں۔آپ کی نعتوں کامجموعہ ’’خیابان مدحت‘‘کے نام سے شائع ہوچکاہے، مقالات ومضامین کامجموعہ ’’مقالات خطیب اعظم‘‘ (مرتب:غلام مصطفی رضوی) کے نام سے اور خطبات کے تین مجموعے ’’خطبات مفکراسلام اوّل (مرتب: )،دوم (مرتب: )اور علمی تقریریں‘‘(مرتب: )کے نام سے شائع ہوکر مقبول زد خاص وعام ہو چکے ہیں۔ان کے علاوہ جمال مصطفی،الاسلام والمسیحیۃ (عربی) ، تفسیر قرآن الحکیم(چند پارے)اور حضور مفتی اعظم آپ کے قلمی شاہکار ہیں۔
٭وعظ وخطابت:
پوری دنیامیں منعقد ہونے والی اسلامی کانفرنسوں ،اجلاس اور سیمینارس میں آپ بحیثیت مقررشرکت فرماتے ہیں۔آپ کی آمد بڑے بڑے اجلاس کی کامیابی کی ضمانت بن جاتی ہے۔ حضور حافظ ملت کے یہ شاگرد عظیم جب منبر خطابت پر جلوہ فرما ہوتے تب حضور مفتی اعظم ہند اور برہان ملت علیہما الرحمہ والرضوان بھی آپ کے خطبات کو سراہتے ۔اپنے خطابات میں الفاظ کی جاذبیت، کلام کی عظمت اور زبان کی فصاحت وبلاغت کی وجہ سے کئی سالوں سے برطانیہ میں رہائش کے باوجود ہندوستانیوں کے دلوں پر حکومت کر رہے ہیں۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں آپ کے خطاب کو سننے کے بعد طلبہ کہتے ہیںکہ حضرت آپ کو تو علی گڑھ مسلم نیورسٹی میں اردو کا ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ ہونا چاہیے۔ گلبرگہ شریف میں پروفیسرس آپ کے خطاب کے اختتام پر کہتے ہیں کہ علامہ موصوف صرف زبان داں نہیں بلکہ زبان گو اور اردو ساز بھی ہیں۔ اور رشاق کہتے ہیں کہ مقررین دوران تقریر عمدہ الفاظ بولنے کو ترستے ہیں اور عمدہ الفاظ علامہ موصوف کی زبان پر آنے کو ترستے ہیں۔
آپ کے خطبات کے تین مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔
(۱)خطبات مفکر اسلام ،جلد اول،دسمبر۲۰۰۳ء ،مرتبین:مولاناریحان رضا انجم مصباحی، مولانا عبداللہ سرور اعظمی، ناشر:مکتبۂ طیبہ ممبئی۔
(۱)خطبات مفکر اسلام ،جلد دوم،فروری ۲۰۰۴ء،مرتب:مولانامحمد ساجد حسین قادری، ناشر:کتب خانہ امجدیہ،دہلی
(۱)علمی تقریریں ،فروری ۲۰۰۸ء،سنّی فائونڈیشن،بریڈفورڈبرطانیہ۔
٭شعروادب:
آپ ایک بہترین اور پُر مغز سخن سنج ونعت گو شاعر بھی ہیں۔آپ کا شعری مجموعہ ’’خیابانِ مدحت‘‘کے نام سے مکتبۂ طیبہ ،سنّی دعوت اسلامی ممبئی کے زیر اہتمام ۲۰۰۷ء میں طبع ہو کر منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوچکا ہے۔۱۰۴؍صفحات پر مشتمل یہ مجموعۂ کلام علامہ اعظمی صاحب کی وارداتِ قلبی کا اظہاریہ ہے۔آپ کی شاعری میں برجستگی ، سلاست، روانی، فصاحت وبلاغت کادور دورہ ہے۔پیچیدہ سے پیچیدہ اور سخت سے سخت مضامین کو اس خوش اسلوبی سے شعری پیکر میں ڈھالتے ہیں کہ وہ مضامین انھیں کے ہوکے رہ جاتے ہیں۔آپ کے کلام میں شعری وفنی محاسن کی تہہ داریت ہے جو کہ بڑی پُرکشش اور دل آویز ہے۔حمد ونعت کے بعد اسلام اور قوم ِ مسلم آپ کی شاعری کا محور و مرکز ہے۔
ڈاکٹر سیدحسن مثنیٰ انور علیگ صاحب (شہزادۂ حضور محدثِ اعظم علیہ الرحمہ،لکھنؤ)علامہ اعظمی صاحب اور ان کی شاعری کے متعلق رقم طراز ہیں:
’’ایسے غیر معمولی نصابِ زندگی رکھنے والے کو شعروسخن کی جانب متوجہ وملتفت ہونا اسی جامع شخصیت کا ایک امتیازی پہلو ہے ۔۔۔۔۔اس موقع پر ایک واقعہ یاد آرہاہے جس کاذکر شاید بے محل نہ ہوگا۔واقعہ یہ ہے کہ مولانا احمد یارخاں صاحب (جو بعد میں مفسر،محدث،مفتی، مفکر، مؤرخ، مناظر ، شاعروادیب اور صاحبِ تصانیف ِ کثیرہ ہوئے)اپنے استاد حضرت صدرالافاضل مرادآبادی کے حکم پر اپنا تروتازہ علم کر شیخ الحدیث کی حیثیت سے جامعہ اشرفیہ،کچھوچھہ شریف پہنچے تو وہ ملاقات کے لیے میرے دادا جان حضرت مولانا حکیم سیدنذراشرف فاضلؔ علیہ الرحمہ (المتوفی ۲۱؍نومبر ۱۹۳۹ء)کے پاس آئے جو اس وقت کثرتِ مطالعہ اور چیچک کی بیماری کے سبب آنکھوں سے معذور ہوچکے تھے۔مولانانے پہلے اپنا تعارف کرایااور کچھوچھہ شریف آنے کی غرض وغایت بتائی۔ سب کچھ سننے کے بعد حکیم صاحب قبلہ نے پوچھا:’’مولانا آپ کو شعروسخن سے بھی دل چسپی ہے۔‘‘
مولانا نے نفی میں جواب دیا تو حکیم صاحب قبلہ برملا بول پڑے کہ ’’آپ نصف عالم ہیں۔‘‘ حکیم صاحب قبلہ کی یہ بات مولانا احمد یارخاں صاحب کے دل میں بیٹھ گئی۔چنانچہ بعد میں انھوں نے حکیم صاحب ہی سے عروض کا فن سیکھا۔زبان وبیان کی نوک پلک درست کرنے کا طریقہ معلوم کیا۔سالکؔ تخلص رکھااور دیوانِ سالکؔ کے تخلیق کار بن گئے۔اس واقعہ سے اتنا تو پتہ چل ہی گیا کہ اگر کوئی عالم ہزار علم وفضل رکھے لیکن شعروسخن سے تہی دست ہوتو اس کی جامع شخصیت کا وجود ممکن ہی نہیں ہے ۔ اب یہ سمجھنا شاید غلط نہ ہوگا کہ ’’خیابانِ مدحت‘‘ حکیم صاحب قبلہ کے قول کی روشنی میں جامع شخصیت کے تکملہ کا نشانِ جلی ہے۔‘‘
علامہ اعظمی صاحب کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ مزید لکھتے ہیں:
’’خیابانِ مدحت میں سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے خُلقِ عظیم، صبروشکر، عفوودرگزر، وسعتِ علم ،شفقت ورحمت، سخاوت وایثار، عزم واستقلال ،قوت وشجاعت، صدق وصفا، عفت و حیا، عدل وانصاف، ذوقِ عبادت، شفاعتِ کبریٰ اور مرتبۂ قربِ خاص کا صراحت کے ساتھ ذکر ملتا ہے جو مولانا قمرؔاعظمی کے عالمانہ،شاعرانہ اور قائدانہ تینوں اندازِ فکر کے ساتھ ان کی حبیب رب العالمین سے کامل وابستگی ، محبت وعقیدت، عاجزی وفروتنی، وارفتگی وسپردگی کاغمازہے۔ محسن کاکوروی کا حسن ِتکلم، امام احمد رضا ؔبریلوی کا عاشقانہ وقلندرانہ ترسیلِ جذبات، حالیؔ کی حزنیہ لَے،اقبالؔ کی تمازتِ فکر اور عشق رسول کا جوش وخروش سب کچھ نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے۔‘‘
چند اشعار’’مشتے نمونے ازخروارے ‘‘کے طور پر ملاحظہ فرمائیں ؎
وہاں پر خواب گاہِ ناز سرکارِ دوعالم ہے
جہاں پر طائر سدرہ نشیں اب تک پر افشاں ہے
وہاں پر زندگی ہے بندگی ہے کیف و مستی ہے
یہاں پر دل پشیماں ،چشمِ گریاں آہِ سوزاں ہے
کرم اے رحمۃ للعالمین کہ آپ کے در پر
غریب و بیکس و نادار یہ قمرالزماں خاں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملا رفعتوں کو عروجِ نَو وہ جہاں جہاں سے گزر گئے
ابھی تھے حرم میں وہ جلوہ گر، ابھی کہکشاں سے گزر گئے
وہ بڑھے تو رُک گئیں ساعتیں وہ بڑھے تو جھک گیا آسماں
ابھی سر بسجدہ تھے قدس میں تو ابھی جناں سے گزر گئے
نہ نظر کو تابِ نظارہ تھی نہ بصیرتوں کا گزر وہاں
وہ شعور و عقل و خیال و وَہم و ظَن و گماں سے گزر گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے سرورِ ہر دوسرا اے تاجدارِ بحر و بر
تیرے کرم کے منتظر حور و ملک ، جن و بشر
سرمایہ داری اشتراکیت ہو یا جمہوریت
اُتری نہ کوئی آج تک اسلام کے معیار پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُف فلسطین کے بچوں کی کراہیں آقا
درد میں ڈوبے ہوئے بوسنۂ شیشاں
بلد قدس کے بچوں کے جنازوں کا ہجوم
وہ کفن پوش جواں اور وہ مائوں کی فغاں
رقصِ ابلیس مسلمانوں کی لاشوں کے قریب
قہقہے کفر کے توہین متاع ارماں
ارضِ بغداد پر بمبار جہازوں کا ہجوم
برق کی زد پر شیراز و زمینِ تہراں
وہ جو فطرت کے تقاضوں کے محافظ تھے کبھی
جس طرف دیکھیے ہیں خاک و خوں میں غلطاں
پھر نہ فاتح کوئی غزنی سے نہ کابل سے اُٹھے
اس لیے توڑ دو بازوے غیور افغاں
یہ تو آغاز ہے انجام کسے ہے معلوم
دامنِ ظلم میں ہے کیسی قیامت پنہاں
رحم فرمائیں کہ سرکار خبر رکھتے ہیں
آپ پر اُمت مظلوم کی حالت ہے عیاں
ہم گنہگار کہاں بابِ اجابت کے قریب
ہم خطا کوش ہیں ملفوف رداے عصیاں
وہ نظر باعثِ تبدیلی قبلہ جو ہوئی