علامہ خوشتر اور دعوت فکر و عمل
مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما
ہر دور میں علماے کرام کی یہ ذمہ داری رہی ہے کہ وہ خود بھی عمل کریں اور اپنے علم کے مطابق امت محمدیہ کو دعوت عمل کی پیش کش کرکے ان کے نفس کی اصلاح کرتے رہیں، علما کی ذمہ داری لوگوں کو اسلام و سنیت اور صراط مستقیم کی دعوت دینا، اس کی طرف رغبت دلانا اور اسی کے مطابق زندگی گزارنے کو فوقیت دینا ہے، اور لوگوں کا کام عمل کرنا، اگر عمل کریں گے؛ تو دنیا و آخرت دونوں سنور جاے گی اور بے راہ رو ہوئے، صراط مستقیم کو نذر انداز کیا؛ تو دنیا اور آخرت دونوں خسارے میں پڑجاے گی، مبلغ اسلام حضرت علامہ مولانا ابراہیم خوشتر علیہ الرحمہ نے اس ذمہ داری کو محسوس کیا، مگر آج کل کے لوگوں کی طرح صرف محسوس کرکے خاموش نہ رہے بلکہ اپنی تقریر، تحریر اور کردار و عمل کے ذریعہ اس محسوس کو عملی جامہ پہنایا اور وسعت و قدرت کے مطابق لوگوں کو دعوت حق قبول کرنے، عمل و کردار سنورانے اور دعوی کے ساتھ عملی دلیل کا دامن تھامے رہنے کی طرف خاص توجہ دلائی تاکہ دعوی اور عملی برہان دونوں موافق ہو ں اور حتی الامکان کسی کو انگشت نمائی کا موقع نہ مل سکے، آج کی اس بزم میں خلیفہ حضور مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے اسی اہم گوشے کو ان کے چند مقالوں کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ اس گوشے کی اہمیت مزید اجاگر ہوکر سامنے آجاے اور دور حاضر کے علما اور عوام سبھی اپنی زندگی میں اس اہم گوشے کی طرف خاص توجہ دینے کی کوشش کرکے اپنی اور دوسروں کی بھی دنیا و آخرت سنوار سکیں، و ما توفیقی إلا باللہ علیہ توکلت و إلیہ أنیب۔
نفس امارہ پر قابو پانا، حرص و ہوا اور دنیا طلبی یعنی دین کے فرائض و واجبات کو چھوڑکر دنیا حاصل کرنے جیسی معیوب خصلت سے دور رہنا، اپنے آپ کو راہ راست پر برقرار رکھنا اور تھوڑا بھی انحراف ہو؛ تو حرص و ہوا کو قربان کرنے کے بعد توبہ صادقہ کرکے اسی کی طرف رجوع لانا ہر مسلم کے ذمہ اہم فریضہ ہے، یہ وہ قربانی ہے جو ہر مرض کا علاج ہے، علامہ خوشتر رحمہ اللہ کے نوک قلم سے معرض وجود میں آنے والا اور امت مسلمہ کو بے دار کرنے والا قربانی کا درس ملاحظہ فرمائیں، آپ فرماتے ہیں:
’’سنت ابراہیمی کے زندہ کرنے والو! تم اپنے ہاتھوں ایک جانور کی قربانی کرنے اور خدا کے حضور خون بہانے کے لیے تیار نظر آتے ہو، کیا اچھا ہوتا کہ قربانی کے جانور کے ساتھ ساتھ اپنے نفس امارہ، حرص و ہوا اور دنیا طلبی کے جانور کو بھی ذبح کردیتے، قربانی کا مقصد حقیقی تمہارے سامنے ہے‘‘ (قربانی اور اس کا پس منظر،ص۲، ترتیب: مفتی سلیم بریلوی، ماہنامہ سالک، ذی الحجہ ۱۳۷۹ھ، جون ۱۹۶۰ء، ص۳۷-۴۰)
دوسری جگہ اسی جزبہ قربانی کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر عید قرباں کے موقع پر اللہ کے لیے اس کے حکم کے مطابق جانور ذبح کرنے کا نام قربانی ہے تو زندگی کے دوسرے ایام میں امتحان و ضرورت کے وقت مال و جان اور اولاد کو خدا کی راہ میں پیش کردینا بھی قربانی کے وسیع و عظیم مفہوم میں داخل ہے‘‘ (قربانی کی حقیقت و معنویت، تقریر ۱۹۶۷ء، ص۳۳، ترتیب مفتی سلیم بریلوی)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جان، مال اور اولاد سب کی قربانی دی، اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ و السلام کو اپنے لاڈلے بیٹے حضرت إسماعیل علیہ الصلاۃ و السلام کو قربانی کرنے کا حکم دیا، یہاں ایک مشفق باپ کے لیے مشفق بیٹے کی قربانی کا معاملہ تھا، بہت ممکن تھا کہ نفس امارہ اور حرص و ہوا اپنا رنگ دکھادیتے، مگر قربان جائیے حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ و السلام کی جرأت پر کہ آپ رب تعالی کے اس عظیم حکم کی اتباع میں بھی بالکل کھرے اترے، شیطان لاکھ کوشش کرتا رہا کہ آپ کو اس حکم کی بجاآوری سے روک دے، مگر آپ نے نفس امارہ کو اپنے قریب نہ آنے دیا، حرص و ہوا اور دنیا طلبی کے جانور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربتادیاکہ رب تعالی کے حکم کے سامنے دنیا طلبی اور حرص و ہوا کی کوئی حیثیت نہیں، آج بھی حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ و السلام کی یہ عظیم قربانی علما، اور عوام و خواص، سب سے اس عظیم قربانی کا مطالبہ کر رہی ہے، کاش مسلمان سنت ابراہیمی پر عمل کرکے اپنے آپ کو نفس امارہ کی قید سے چھڑالیتے، کاش حقیقی معنوں میں حرص و ہوا اور دنیا طلبی کے جانور کو ذبح کردیتے، اور ڈھنڈھورا پیٹنے کے بجائے جہاں مال کی ضرورت ہوتی مال قربان کردیتے، جہاں اسلام و سنیت کی حفاظت کے لیے جان کی ضرورت ہوتی وہاں جان قربان کردیتے اور جہاں ناموس رسالت کی صیانت کے لیے اولاد کی ضرورت پڑتی وہاں اولاد قربان کردیتے، اے کاش! ہم علامہ خوشتر رحمہ اللہ کے درد کو سمجھ کر اور ان کے ہم آواز ہوکر عملی اقدام کرنے کی کوشش کرتے!
اور یاد ررکھیے اللہ تعالی کی رضا کے لیے قربانی خواہ کسی بھی نوعیت کی ہو، وہ اپنا مثبت رنگ ضرور دکھاتی ہے، کبھی دنیا و آخرت دونوں جگہ اس کا اثر نظر آتا ہے اور کبھی اس کا فائدہ صرف آخرت میں ملتا ہے اور آخرت کی ہی کامیابی حقیقت میں ایک مؤمن کی معراج ہے، علامہ خوشتر علیہ الرحمہ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’لیکن یاد رکھئے! خدا کے جو پاک باز بندے کائنات کے لیے آفتاب ہدایت بن کر آتے ہیں وہ خود تو کسی آگ میں جلتے نہیں، ہاں! اپنے عشق و محبت اور صداقت و دیانت کی حرارت سے محفل کائنات میں گرمی پیدا کرتے رہتے ہیں‘‘ (قربانی کی حقیقت و معنویت، تقریر ۱۹۶۷ء، ص۳۵، ترتیب مفتی سلیم بریلوی)
نفسِ انسان جب خلوص و للہیت اور ایثار و قربانی کا پیکر بن کر انسان کا ساتھ دیتا ہے؛ تو اس کا بول بالا زمین و آسمان میں بھی نظر آتا ہے، اس کے جرأت مندانہ اقدام پر انسان تو انسان زمین و آسمان بھی تھرا اٹھتے ہیں، اور اس کا یہ کردار نہ مٹنے والی یاد گار بن جایا کرتا ہے، اسی اہم امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے علامہ خوشتر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’عالم چہار عناصر کا ہر ہر گوشہ خلوص ابراہیمی اور ایثار عظیم کی یاد مناتا ہے جس سے ملأ اعلی کے فرشتوں میں غل پڑگیا، زمیں تھراگئی، آسمان لرز گیا، مگر دست ابراہیمی میں جنبش تک نہ آسکی، اللہ کا خلیل اپنے امتحان میں کامیاب ہوگیا، حضرت اسماعیل کی قربانی نہ مٹنے والی یادگار بن گئی‘‘ (قربانی اور اس کا پس منظر،ص۳، ترتیب: مفتی سلیم بریلوی)
آج بھی قوم مسلم اگر اپنے نفس کا علاج کرکے ایثار ابراہیمی کو اپنالے؛ تو ان شاء اللہ اس کا بول بالا ہر چہار جانب نظر آے گا، دنیا تو دنیا، آخرت میں بھی اس کے تذکرے چھڑتے نظر آئیں گے، دنیا اس کے قابو میں ہوگی اور ہر معرکہ باآسانی سر کرتا ہوا نظر آے گا اور اس کا یہ رنگ و ڈھنگ دنیا کے لیے نہ مٹنے والی ایسی تاریخ بن جاے گی، جس کے ذریعہ لوگ رہتی دنیا تک اپنی زندگی کا سنہرا باب لکھتے نظر آئیں گے، بس شرط ہے کہ قوم مسلم ایثار ابراہیمی کو اپنا کر میدان عمل میں اتر جائے، کامبیابی و کامرانی ان شاء اللہ اس کا قدم چومے گی۔
اسلام مرد و عورت کے درمیان مساوات کا درس دیتا ہے، اسی کی ایک کڑی یہ بھی ہے کہ اس نے مرد و عورت دونوں پر قربانی واجب کی ہے، قربانی شعائر اسلام سے ہے، مگر یہ اسلام اور نظام اسلام کا امتیازی پہلو ہے کہ اس نے اپنے ماننے والوں کے سوا پر قربانی جیسے عظیم شعار کو لازم نہیں کیا؛ یہی وجہ ہے کہ دنیا آج بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہے کہ جب اسلام نے کافروں کی حفاظت کی ذمہ داری لی؛ تو اسے بحسن و خوبی نبھایا اور انہیں بلاوجہ تنگ کرنے کی کوشش نہیں کی یا انہیں مجبور کرکے اسلامی شعائر کا پابند بنانے کی سعی نہیں کی، اسلام کے اس امتیازی پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے علامہ خوشتر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’قربانی میں مرد و عورت دونوں برابر ہیں۔۔۔۔۔اسلام اپنے شعائر کی ادئیگی صرف اپنے ماننے والوں سے کراتا ہے، جبر، جور و اکراہ ہمارے دین میں نہیں، اسلام نے ذمی کافروں کی حفاظت جس انداز سے کی ہے، یہ اس کا طرئہ امتیاز ہے جس سے دوسرے مذاہب یکسر خالی ہیں‘‘ (قربانی اور اس کا پس منظر،ص۵، ترتیب: مفتی سلیم بریلوی)
اس امتیازی امر سے عموماغیر اسلامی حکومتیں خالی نظر آتی ہیں، ہندوستانی حکومت ہی کو لے لیجئے جس نے مسلمانوں کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے، مگر یہ حفاظت کا دعوی محض کھوکھلا نظر آتا ہے؛ کیوں کہ ہر شخص دیکھ رہا ہے کہ حکومت ہی کبھی مسلمانوں کی مسجد کو شہید کر رہی ہے، کبھی مسلمانوں کو وندے ماترم پڑھنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے، کبھی تین طلاق کو ایک قرار دینے کی سعی مذموم کر رہی ہے اور کبھی قربانی جیسے عظیم شعار پر سوالیہ نشان قائم کر رہی ہے! یہ مسلمانوں کی حفاظت نہیں بلکہ مسلمانوں کی حفاظت کا ڈھونگ ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ محض دعوی ہی نہیں بلکہ حقیقی طور پر مسلمانوں کی حفاظت کرے، نیز طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ان تمام امور کے باوجود غیر مسلم، اسلامی حکومت پر اعتراض کرتے ہیں اور ان پر جبر و اکراہ کا الزام چسپاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ایسے افراد کو چاہیے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی صحیح تاریخ پڑھ کر اپنے نفس و فکر کی اصلاح کریں تاکہ تنگ نظری کا شکار نہ ہوں اور مسلم و غیر مسلم سبھی لوگ چین و سکون کی زندگی گزاریں۔
تعلّی اور تکبر خصوصا جب یہ شریعت اسلامیہ کے مقابل ہو، بہت بری چیز ہے، یہ ایسی بیماری ہے کہ یہ عام مسلم تو عام، خواص کو بھی اگر لگ جائے؛ تو انہیں اس سے چھٹکارا پانا بہت مشکل ہوجاتا ہے، انہیں بھی اپنے چنگل میں دبوچ کر قعر مذلت کے کٹگھرے میں لاکھڑا کرتی ہے، اور انہیں کامیاب و کامرانی سے اتنی دور کردیتی ہے کہ واپس کامیابی کی طرف پلٹ کر دیکھنا ان کے لیے مشکل ترین ہوجاتا ہے، اس تکبر و خودی کی پکڑ اتنی سخت ہوتی ہے کہ چاہ کر بھی اس کی طرف رجوع نہیں لاسکتے، شریعت اسلامیہ کے قانون کے مقابل ایک مسلم کے لیے تعلّی، خودی اور تکبر سے بڑھ کر رذالت اور اس سے بڑھ کر ناکامی کیا ہوسکتی ہے؟! اس لیے ایک مسلم خاص کر خواص کو اس طرح کی سخت گیر بیماری سے دور رہنا چاہیے اور اگر کبھی اس کی ہوا لگے؛ تو فورا توبہ کرکے اللہ تعالی کی جانب عاجزی اور انکساری کا دامن پھیلادینا چاہیے؛ کیوں کہ ہر مسلم کی کامیابی کا راز تواضع اور انکساری ہے، حدیث شریف میں: ((جس نے اللہ تعالی کی رضا کے لیے تواضع کیا؛ تو اللہ تعالی نے اسے بلند فرمادیا)) (صحیح مسلم، کتاب البر و الصلۃ و الآداب، باب استحباب العفو و التواضع، رقم:۲۵۸۸)
علامہ خوشتر رحمہ اللہ اسی مہلک بیماری اور اس کے نقصان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’پھر غلط دعواے خودی کیسی؟ غرور و تکبر کا فسانہ کیسا؟ دیکھو! تمہارا ایک غلط قدم تمہیں کامیابی کی منزل سے لاکھوں دور پھینک دے گا، رحمت الہی منتظر ہے، آؤ بڑھو! دست عاجزی پھیلادو اور مجرم بن کر دربار خداوندی میں پیش ہوجاؤ اور سب کچھ خدا کے سپرد کردو، کامیابیاں یقینا تمہارے قدم چوم لیں گی‘‘ (قربانی اور اس کا پس منظر،ص۳، ترتیب: مفتی سلیم بریلوی)
علامہ خوشتر علیہ الرحمہ کی یہ تحریر آج بھی ہمیں یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ تکبر اور غلط روی کی وجہ سے نہ جانے کتنے لوگ اپنی منزل سے دور جاپڑے اور کتنے لوگ اسی سبب اپنا وجود کھوبیٹھے، آج بھی اگر قوم مسلم تکبر اور غلط روی کو پسے پشت ڈال کر عاجزی و انکساری کے ساتھ رب کی بارگاہ میں حاضر ہوجائے؛ تو اسے اپنی منزل تک پہونچنے سے کوئی نہیں روک سکتااور اسے تباہی و بربادی کے دہانے تک کوئی نہیں پہونچاسکتا اور اگر پہونچ بھی گیا؛ تو عاجزی و انکساری اس کا ساتھ دے گی اور وہ تباہی کے دہانے سے نکل کر اپنی منزل تک پہونچ جاے گا۔
کلی طور پر دل و جان کو کسی ایسی چیز سے لگانا جو ختم ہونے والی ہے، اپنا صرف اسے سمجھنا جو خود بے گانہ ہے، وقتی خوشبو سے مدہوش ہوکر اس کے انجام سے پہلو تہی کرنا، ہر چڑھتے ہوئے سورج کو خواہ صحیح ہو یا غلط سلام کرنا اور چاند کی چاندنی میں غرق ہوکر اس کی کاٹ کھانے والی تاریکی کو بھول جانا، ایک مؤمن کی شان نہیں، مؤمن کی شان تو یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کو صرف بطور اسباب استعمال کرے اور کامل اعتماد اپنے رب تعالی پر رکھے، وہ رب تعالی جس کی ذات کے لیے کبھی زوال نہیں اور جو لازوال ہو حقیقی معنوں میں وہی قابل اعتماد ہے، زائل ہونے والی چیزوں پر کلی اعتماد کرکے رب تعالی کو بھول جانا ایسا قبیح امر ہے جس پر علامہ خوشتر علیہ الرحمہ قوم مسلم کو متنبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اس لیے کہ ہم نے دل اس سے لگایا جو مٹ جانے والا ہے، اپنا اسے سمجھا جو خود بے گانہ ہے، پھول کی خوشبو میں مست ہوگئے، مگر اس کے انجام کو نہ دیکھا، چڑھتے ہوئے سورج کی تیزی سے مرعوب تو ہوگئے مگر اس کا انجام غروب نہ دیکھا، چاند کی چاندنی کو مرکز نظر تو بنالیا مگر رات کی تاریکی سے کوئی سبق حاصل نہ کیا‘‘ (قربانی اور اس کا پس منظر،ص۳، ترتیب: مفتی سلیم بریلوی)
آج اگر ہم قوم مسلم کا جائزہ لیں تو بڑے سے چھوٹے تک إلا ماشاء اللہ، ہر ایک اسی دنیا پر تکیہ کئے ہوئے ہے جو ہمہ وقت اسے ہوا دینے کے لیے تیار ہے، اسی خوشی پر اعتماد کیے ہوئے ہے، جو زائل ہونے والی ہے، صرف اسی چڑھتے ہوئے سورج کو سلامی دیتا ہے، جس کا مقدر ہی زوال اور عدم پائداری ہے، آج قوم مسلم کو ضرورت اس بات کی ہے کہ علامہ خوشتر علیہ الرحمہ کے درد کو سمجھے اور لازوال ذات باری تعالی پر کلی اعتماد کرے، طور و طریقہ بدل جاے گا، اکٹر ختم ہوجاے گی، دین و سنیت کی خدمت کا صحیح معنوں میں جزبہ صادقہ پیدا ہوگا، ہر بام عروج پر پہونچنے والے سورج کو سلامی دینے کی عادت ختم ہوجاے گی؛ کیوں کہ جب مقصد رب تعالی کی ذات ہوگی؛ تو ہر چیز اس کی ذات کے سامنے ہیچ نظر آے گی اور اس کی زبان رب تعالی کے کلام کی ترجمان ہوگی۔
حضور سرور دوجہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو امت سے اس قدر پیار کہ اپنی امت کی طرف سے قربانی کریں، مگر یہ نفس کی شامت ہی تو ہے کہ بعض لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد میں قربانی تو کرنا دور، اسے اضاعت مال سمجھتے ہیں اور ناشکری کہ اس حد تک پہونچ گئے کہ انہیں ایمان سے لبریز الصلاۃ السلام علیک یا رسول اللہ جیسے کلمات ایک آنکھ نہ بھائے اور اس کے جواز و عدم جواز کی بحث چھیڑ کر قوم مسلم کو الجھائے رکھا، ایسے ہی نفس امارہ کے چنگل میں پھنسے ہوئے لوگوں کی اصلاح کرتے ہوئے علامہ خوشتر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’مگر دوسری طرف بعض احسان فراموش گروہ امت اپنے رسول کی یاد میں قربانی تو کجا بلکہ قربانی کو اضاعت و بے کار سمجھ کر بند کرنے کی فکر میں ہیں اور بعض الصلاۃ و السلام علیک یار سول اللہ جیسے ایمان افروز کلمات کے جواز و عدم جواز میں مبتلاے بحث ہیں‘‘ (قربانی اور اس کا پس منظر،ص۴، ترتیب: مفتی سلیم بریلوی)
احسان فراموشی، وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احسان فراموشی، ایک انسان کا نفس اس قدر مر چکا ہے کہ وہ اپنے سرور دوجہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کھلے عام احسان فراموشی کرتا ہوا نظر آرہا ہے! یہ نفس امارہ ہی کا تو نتیجہ ہے، ورنہ کوئی مؤمن اپنے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا احسان فراموش نہیں ہوسکتا اور وقت آنے پر قدرت کے باوجود جانور تو جانور اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرے گا، ایسے احسان فراموشوں کو چاہیے کہ وہ اپنے نفس کا علاج کرکے احسان شناسی کا حق ادا کریں ورنہ دنیا تو دنیا آخرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
نماز عید مسلمانوں کے اتحاد کا وہ روح پرور منظر ہے، جسے بھلایا نہیں جاسکتا، ایک امام اور اس کے پیچھے ساری قوم صف بستہ ہوکر نماز پڑھتی ہے اور پھر سکون و اطمینان کے ساتھ اپنے گھر واپس ہوجاتی ہے، اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اتحاد زندگی ہے؛ اسی لیے جس طرح ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ اپنی ذاتی زندگی کی حفاظت کرے، اسی طرح ہر ایک پر لازم ہے کہ وہ اتحاد کی اجتماعی زندگی کی بھی حفاظت کرے؛ کیوں کہ جیتے تو سبھی لوگ ہیں مگر اصل جینا یہ ہے کہ اتحاد کے ساتھ زندگی گزاری جائے؛ کیوں کہ اتحاد جو کامیابی دے گا وہ انفرادیت نہیں دے سکتی، اسی روح پرور منظر کا نقشہ کھینچتے ہوئے علامہ خوشتر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’مگر نماز عید سب سے زیادہ اتحاد کا روح پرور اور ناقابل فراموش نظارہ ہے، فرزندان توحید کا بڑھتا ہوا بے پناہ ہجوم، جاتا ہوا بندگان خدا کا روحانی قافلہ، اسلام کے متحدہ مقاصد کا دل کش و دلنواز نظارہ پیش کر رہا ہے، صف بستہ کھڑے ہوکر بارگاہ خداوندی میں سر بسجود ہونے والے بندگان خدا کی ہر صف، ہر قطار اور نماز کے روکوع و سجود، متحدہ قیام و قعود ہمارے باہمی ربط پیہم اور اتحاد باہمی کی زندہ تصویر ہیں، جو ہمیں ایک دوسرے کے درد و غم کے سمجھنے اور دیکھنے کا موقع دے رہی ہیں۔
ہماری مثال ایک موتی کی کڑی اور زنجیر کی کڑی جیسی ہے اور مسلم ہے کہ کڑی کی نفاست اور کڑی کی طاقت اس کی اجتماعی تنظیم پر ہے، اگر اس میں انفرادی رنگ بھر نے کی ذرا بھی کوشش کی گئی تو یہ سارا نظام حسن درہم برہم ہوکر رہ جاے گا، خدایا! مسلمانوں کو ایک کردے، جو ہم میں بڑے ہیں انہیں نیک کردے‘‘ (قربانی اور اس کا پس منظر،ص۶، ترتیب: مفتی سلیم بریلوی)
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: اتحاد زندگی اور اختلاف موت ہے، آج قوم مسلم کو اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ جس طرح وہ عید کی نماز میں اتحاد و اتفاق کا روح پرور منظر پیش کرتی ہے، اسی طرح نماز کے علاوہ میں بھی اس اتحاد کو روشن و تابناک رکھیں، عقائد میں تصادم ہو؛ تو متصادم کو سمجھانے کی بھر پور کوشش کریں، نہیں سمجھتا ہے؛ تو اسے ایسے ہی اپنی زندگی سے نکال پھینکیں جیسے دودھ سے مکھی کو نکال کر پھینک دیا جاتا ہے اور یہ طرز اختلاف نہیں بلکہ جان ایمان ہے، اور اگر عقائد کے علاوہ میں تصادم ہو؛ تو صبر و تحمل سے کام لیںاور انفرادی مفاد کے بجاے اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھیں تاکہ اتحاد کی رونق بہر صورت سلامت رہے اور مسلمان اپنے اتحاد جیسی عظیم زندگی کے سایہ میں رہ کر پرسکون زندگی گزارنے کا مجاز ہو؛ کیوں کہ مسلم موتی اور زنجیر کی کڑی کی طرح ہے، اگر اس میں اجتماعی مفاد کے بجائے انفرادی مفاد کو ترجیح دی گئی؛ تو جس طرح انفرادیت کی صورت میں زنجیر بکھر جاتی ہے بالکل اسی طرح مسلم بکھر جاے گااور پھر اس کے حسن اتحاد کو سمیٹنے میں صدیاں گزر جائیں گی پھر شاید کہیں وہ حسن واپس مل جائے، ویسے تو ہر ایک چھوٹے اور بڑے سبھی کو اجتماعی مفاد ہی کو ترجیح دینی چاہیے مگر خاص کر بڑے لوگوں کو تو ضرور اسے حرز جاں بنالینا چاہیے؛ کیوں کہ چھوٹے کے بگڑنے سے وہ نقصان نہیں ہوتا جو بڑے کے بگڑنے سے ہوتا ہے؛ اسی لیے علامہ خوشتر علیہ الرحمہ نے بڑے لوگوں کے لیے خاص دعا کی اور فرمایا: ’’جو ہم میں بڑے ہیں، انہیں نیک کردے‘‘ (ایضا)
اللہ تعالی نے انسان کو ساری نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت زبان عطا فرمائی ہے، زبان و عمل جب ایک دوسرے کے موافق ہوں؛ تو دین و دنیا دونوں سنور جاتے ہیں اور اگر زبان و عمل ایک دوسرے کے مخالف ہوں؛ تو دین و دنیا دونوں برباد ہوجاتے ہیں؛ کیوں کہ اصل زندگی عملی اور روحانی زندگی ہی زندگی ہے، عمل کے بغیر زبان کا کردار ادھورا ہے؛ اس لیے ہر ایک بڑے چھوٹے سب کو چاہیے کہ وہ قول و زبان سے زیادہ اپنی عملی زندگی پر توجہ دے، اسی کو زیادہ سے زیادہ سنوارنے کی کوشش کرے، قرآن و سنت، مذہب، مسلک، مشرب اور بزرگان دین کے نقش قدم کو مضبوطی سے تھامنے کا دعوی کرنے کے بجائے عملی طور پر اس کو پیش کرے، ان چیزوں کی زبانی اور قولی تصویر بننے کے بجائے عملی تصویر بن جائے، علامہ خوشتر علیہ الرحمہ اسی عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’خطائیں معاف ہوتی ہیں اور انسان از سرنو اپنی عملی و روحانی زندگی کی ابتدا کرتا ہے۔۔۔۔۔اور آپ اس حقیقت پر یقین کرسکیں گے کہ حج اللہ کے مقدس بندوں کی اداؤوں اور کردار کو اپنالینے کا نام ہے اور کچھ نہیں‘‘ (ذی الحجہ اسلامی سال کا آخری مہینہ، ص۷، ترتیب مفتی سلیم بریلوی، ماہنامہ سالک، مئی ۱۹۶۱ء، ذی قعدہ ۱۳۸۰ھ ص۵-۷)
آج کل عموماعوام و خواص الا ماشاء اللہ زبان چلانے کے زیادہ خوگر ہوچکے ہیں، کردار سنوارنے کی کوئی فکر نہیں، عملی زندگی پیش کرنے کا کوئی جذبہ صادقہ نہیں، بات ایسی ہوتی ہے کہ جی چاہے گا، سونے چاندی سے تول دیا جائے اور کردار ایسا گھٹیا ہوگا کہ جی چاہے گا،زیر زمیں دفن کردیا جائے، ایسے افراد کو چاہیے کہ وہ علامہ خوشتر علیہ الرحمہ کے اس عملی جذبہ صادقہ کو سلام کریں اور اپنے نفس کی جلد از جلد اصلاح کرکے قول و عمل کو ایک دوسرے کے موافق کریں اور اللہ تعالی کے قہر و غضب سے بچیں۔
اصلاح نفس کے لیے جہاں روح کی صحیح پرورش کی ضرورت ہے، وہیں اس کے مسکن کو بھی پاک و صاف رکھنا لازم ہے؛ کیوں کہ انسان روح اور جسم دونوں کے مجموعہ کا نام ہے؛ اس لیے عام حالات میں ایسا تصور بہت بعید ہے کہ جسم تو پاک و صاف نہ ہو مگر روح پاک و صاف ہو یا روح پاک و صاف نہ ہو مگر جسم پاک و صاف ہو؛ کیوں کہ ہر ایک کی حالت دوسرے پر عموما اثر انداز ہوتی ہے، اگر جسم گندہ ہے؛ تو روح بھی پراگندہ ہوگی اور اگر روح پراگندہ ہے؛ تو جسم بھی متاثر ہوگا؛ اس لیے ہر مسلم کو چاہیے کہ وہ اپنے جسم و روح دونوں کو پاک و ستھرا رکھے، نظام اسلام نے اس صفائی اور ستھرائی کا بہت اہتمام کیا ہے، اسی اہتمام کی طرف امت مسلمہ کی توجہ مبذول کراتے ہوئے علامہ خوشتر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’اسلامی تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو روح اور جسم دونوں اعتبار سے مرتبہ کمال تک پہونچاکر اشرف المخلوقات کے مرتبہ کا مستحق بنادے تو پھر یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اسلام میں جسم کی صحیح نشو و نما اور صحت پر خوش گوار اثر ڈالنے والی ہدایات موجود نہ ہوں۔
انسان کی روح کا تعلق اپنے جسم کے ساتھ ایسا ہی ہے جیسے گودے کا تعلق چھلکے کے ساتھ، اگر چھلکا سر سبز ہے اور گندے اثرات سے محفوظ تو گودا بھی یقینا اچھے اثرات کا حامل، ورنہ چھلکے کا ضرر اور گندگی کا اثر گودے پر پہونچنا یقینی ہے، یہ کوئی ذی ہوش فرد نہیں کہ سکتا کہ گودے کی حفاظت کیجئے اور اس طرح کے چھلکے سے قطع نظر کرلیا جائے، بس یہی حالت روح و جسم کے ربط کی ہے، اگر جسم گندہ ہے (عالم ہوش و حواس میں) تو روح پر اس کا اثر یقینی ہے، بہر حال روح کی نفاست و طہارت کا فطری تقاضہ یہ ہے کہ جسم کی طہارت و پاکیزگی کی حفاظت کی جائے‘‘(اسلام میں صفائی کے احکام، کتاب و سنت کا ایک بھولا ہوا ورق، ص۹، ترتیب مفتی سلیم بریلوی، ماہنامہ سالک، جون ۱۹۵۹ء، ص۳۰-۳۱)
ظاہری صفائی و ستھرائی عموما اندرونی صفائی و ستھرائی کی عکاسی کرتا ہے، مگر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ظاہر تو پراگندہ نظر آتا ہے لیکن باطن نور علم و دین سے منور ہوکر بالکل پاک و صاف اور ستھرا ہوا کرتا ہے، جیسے بعض بزرگان دین جن کا ظاہر بظاہر صاف نظر نہیں آتا مگر باطن بالکل ستھرا ہوتا ہے، اس کی مثال اس بعض پھل کی طرح ہے جس کا چھلکا خراب تو ہوتا ہے مگر گودا پورا سلامت رہتا ہے،اگرچہ ایسا کم ہوتا ہے مگر ہوتا ضرور ہے، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ظاہر بہت صاف ہوتا ہے مگر باطن بہت پراگندہ ہوتا ہے، اس کی مثال اس بعض پھل کی طرح ہے جس کا ظاہر مکمل صاف و شفاف نظر آتا ہے مگر جب اسے توڑا جائے؛ تو اس کے اندر گندگی اور کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں، دور حاضر میں اس قسم کے لوگوں کی بھرمار ہے؛ اس لیے ان دونوں افراد کو صحیح طورسے پہچان کر ان سے بچ کر رہنے کی ضرورت ہے، پہلے گروہ کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جاے گی؛ تو دنیا و آخرت دونوں مشکل میں پڑ سکتی ہے اور اور دوسرے گروہ سے قریب ہونے کی کوشش کی گئی؛ تو ایمان کی سلامتی خطرے میں پڑسکتی ہے، والد ماجد حضور فقیہ ملت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’بدمذہب اور دنیا دار مولوی سے دور بھاگو جیسے شیر سے بلکہ اس سے بھی زیادہ کہ وہ جان لیتا ہے اور یہ ایمان برباد کرتا ہے‘‘ (خطبات محرم، مفتی جلال الدین علیہ الرحمہ، ص۵۴۳، کتب خانہ امجدیہ، براؤں شریف)
جس طرح پھل کی اچھائی اور خرابی بغیر توڑے یقینی طور پر متعین نہیں ہوتی بالکل اسی طرح کسی انسان کی اچھائی اور برائی محض سن کر معلوم نہیں ہوسکتی، اس کے لیے ضروری ہے کہ کچھ دن اس انسان کا پڑوسی رہا جائے یا اس کے ساتھ سفر کیا جائے یا اس کے ساتھ تجارت کی جائے یا کسی اور طرح سے اس کی صحبت اختیار کی جائے، اور اچھائی و برائی کا پیمانہ و معیار شریعت اسلامیہ کی پاسداری یا اس کی خلاف ورزی رکھی جائے، اس کے بغیر حسن ظن تو باقی ہی رکھنا چاہیے مگر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہونا چاہیے، بہر کیف یاد رہے کہ اس صفائی و ستھرائی کے اہتمام میں کبھی اپنے اندر تو اندر اپنے قریب بھی فخر و تکبر کو نہ آنے دیا جائے؛ کیوں کہ کبریائی اللہ تعالی کے سوا اور کسی کے لیے روا نہیں، علامہ خوشتر علیہ الرحمہ اسی احتمال سے بچنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’آپ پڑھتے جائیے اور اپنے معاشرہ پر پر نظر ڈالتے جائیے کہ اس میں اظہار نعمت کا اثر موجود ہے یا نہیں، ہاں یہ اظہار بطور فخر و تکبر ہرگز نہ ہو کہ یہ اللہ کو سخت ناپسند ہے‘‘ (اسلام میں صفائی کے احکام، کتاب و سنت کا ایک بھولا ہوا ورق، ص۹، ترتیب مفتی سلیم بریلوی)
آئیے ہم سب مل کر علامہ خوشتر علیہ الرحمہ کی آواز بن جائیں اور اپنی ظاہری صفائی کے ساتھ باطن اور باطنی صفائی کے ساتھ ظاہر کو بھی بالکل آئینہ کی طرح صاف و شفاف رکھیں اور یوں سنت نبوی کی چلتی پھرتی تصویر بن جائیں۔
حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جتنی تعریف و توصیف کی جائے کم ہے، اور یہ تعریف و توصیف مبالغہ نہیں بلکہ حق بیانی ہوگی، پھر ایک انسان اس ذات بابرکات کی تعریف و توصیف کا حق کیا ادا کرسکتا ہے جس کی تعریف میں خود قرآن پاک رطب اللسان ہے، لیکن افسوس کہ آج قوم مسلم کی ہی ایک جماعت کا یہ حال ہے کہ اگر خود اس کی تعریف میں مبالغہ آرائی کی جائے بلکہ جواز کی حد سے تجاوز کیا جائے؛ تو بھی صحیح اور قابل رشک ہے اور اگر حضور آقاے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف و توصیف میں حق بیانی سے کام لیا جائے؛ تو دل و دماغ کا کیڑا باہر آجاتا ہے، اس حق بیانی کو شرک و بدعت سے موسوم کرنے لگتا ہے اور منبر و محراب کی بات کہ کر اسے سرد خانہ میں ڈال دیتا ہے، کتنے تعجب کی بات ہے کہ حضور سرور دوجہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متعلق حق بیانی مقبول نہیں مگر اپنے متعلق مبالغہ بلکہ جھوٹ بھی مقبول و محمود ہے، اسی مذہبی خرابی اور فکری آوارگی کو علامہ خوشتر علیہ الرحمہ کی درد بھری تحریر میں ملاحظہ فرمائیں، آپ فرماتے ہیں:
’’یہ اپنی بات ہے غیروں کی داستان نہیں کہ آج کے معاشرے میں زمین کو آسمان، تنکے کو شہتیر کر دکھانا بہت آسان ہے، مگر (مبالغہ سے قطع نظر) ذات الوہیت کے بعد سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات بے نمایات اور معجزات بے نہایات کا اگر ذکر کیا جائے (جو ایمانا و دیانتا ضروری ہے) تو آج کا بزعم خود اہل علم طبقہ شرک و بدعت کا سہارا ڈھونڈتا ہے اور محراب و منبر کی بات سمجھ کر رد کردیتا ہے، حالاں کہ اگر اسی طبقہ کے افراد کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جائیں تو اسے عین تہذیب اور ملک و قوم کی یادگار سمجھا جاتا ہے‘‘ (حدیث لو لاک، سید المرسلین کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت، ص۱۲، ترتیب مفتی سلیم بریلوی)
مسلم نما اشخاص کے لیے علامہ خوشتر علیہ الرحمہ کی یہ درد بھری تحریر انہیں اصلاح نفس و فکر کی دعوت دے رہی ہے، ابھی وقت ہے، زندگی باقی ہے، اصلاح کرلینی چاہیے اور قوم مسلم کی اکثریت کے حق بیانی کو شرک و بدعت جیسے مذموم کلمات سے متصف کرنے کی عادت قبیحہ چھوڑ دینی چاہیے ورنہ یہی ہوگا:
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
شریعت کے دائرہ میں رہ کر دنیا کمانا برا نہیں ہے، لیکن دنیا کے چکر میں رب تعالی کو بھول جانا، اس کے بتائے ہوئے پیغام کو نظر انداز کردینا، آخرت کی بالکل فکر نہ کرنا، موت کب اپنی آغوش میں لے لے، اس کا کوئی ڈر نہ ہونا یہ ضرور برا بلکہ ایک مسلم کے لیے زہر ہلاہل سے کم نہیں، ایک مسلم کو چاہیے کہ جہاں دنیا کی چیزیں حاصل کرتا ہے وہیں احکام خداوندی کا بھی پاس و لحاظ رکھے اور آخرت کی تیاری کرتے ہوئے عبادات کا اہتمام کرے تاکہ موت بھی آئے تو خوشخبری لے کر آئے، اللہ تعالی کے نیک بندوں کا یہی پسندیدہ طریقہ رہا ہے، علامہ خوشتر علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
’’اللہ اکبر! مقام عبرت ہے کہ ایک آدمی کارو بار دنیا میں ہمہ تن مصروف ہے، ہوس و حرص کا یہ عالم ہے کہ کسی چیز پر دل نہیں ٹھہرتا، ہر صبح اک نئی خواہش کا پیغام اور ہر شام مسرت و عشرت کی دنیا میں شاد کام ہوتی ہے، مگر اس سر مست رنگ و بو کو کیا معلوم کہ اس کا نام مردوں میں لکھا جا چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نیک بندے زندگی کی ہر ساعت کو مولی کی یاد میں بسر کرتے ہیں اور ان ایام کی قدر کرتے ہوئے عبادت میں بہمہ تن مصروف ہوجاتے ہیں‘‘ (ماہ شعبان کے فضائل و مسائل احادیث کے آئینے میں، ص۲۱، ترتیب مفتی سلیم بریلوی)
مگر یہ وقت کی کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ ماہ شعبان کی پندرہویں مقدس جیسی شب کو بھی قوم مسلم لہو و لعب میں ضائع کردیتی ہے، آتش بازی، کھیل کود، دوسروں کی برائی اور ستم بالاے ستم یہ کہ اگر کچھ کہا جائے؛ تو ایسا عذر پیش کرتی ہے جو عذر جرم سے بڑھ جرم کی صورت میں ابھر کر آتا ہے،قوم مسلم کی اس بے راوہ روی کے متعلق علامہ خوشتر علیہ الرحمہ کی تحریر پڑھئے اور ان کے درد کو سمجھ کر اپنے نفس کی اصلاح کرکے عمل کرنے کی کوشش کیجیے اور ان خرافات سے دور رہیے اور صرف شعبان ہی میں نہیں بلکہ ہمیشہ عبادت و ریاضت کا اہتمام کیجیے ، علامہ خوشتر علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
’’یہ بڑا ہی ستم ہے کہ لوگ پندرہویں شب میں عبادت و ریاضت کے بجائے تفریح گاہوں کی طرف نکلتے ہیں، ہلڑبازی کرتے ہیں، روڈوں پر نکل کر شور و شغف کرتے ہیں، آتش بازی پر خوب خوب روپیہ خرچ کرتے ہیں اور بچوں کی آڑ میں اپنی ہوس رانیوں کو دعوت شوق دیتے ہیں، یاد رکھئے کہ شرعا آتش بازی قطعی طور پر حرام ہے، پھر ایسی مقدس رات میں باعث عذاب تام ہے‘‘ (ماہ شعبان کے فضائل و مسائل احادیث کے آئینے میں، ص۲۲، ترتیب مفتی سلیم بریلوی)
’’تصویر کا دوسرا رخ: انتہائی گندا اور گھناؤنا ہے کہ مندرجہ بالا احادیث کی موجودگی میں بجائے عبادت و ریاضت، قعود و قیام، صلوۃ و سلام کے آتش بازی وغیرہ جیسی بری بدعت کا ارتکاب کیا جائے، اس پر یہ عذر لنگ :بچے نہیں مانتے، بدتر از گناہ والی بات سے کم نہیں، آتش بازی بذات خود گناہ پھر فضول خرچی ہر حیثیت سے وبال دین و دنیا ہے اور اخلاقی نکتہ نظر سے یہ فعل انتہائی غیر مہذب اور ہندوانہ رسم دیوالی وغیرہ کا چربہ ہے‘‘ (ذکر الہی اور اس کے فائدے، ص۲۶، ترتیب مفتی سلیم بریلوی)
علامہ خوشتر علیہ الرحمہ کی ذات وہ ذات ہے جو قوم مسلم کے مثبت پہلو کو اجاگر کرتی ہے اور ساتھ ہی منفی پہلو کی اصلاح بھی بھر پور کرنے کی کوشش کرتی ہے، ایک عالم اور مبلغ کا یہی طرئہ امتیاز ہونا چاہیے، مگر آج کل عموما مثبت رخ کو ہی سامنے رکھا جاتا ہے اور منفی رخ کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اذہان و افکار میں جمود پیدا ہوتا ہے، خوش فہمی کے شکار ہوجاتے ہیں، مزید ترقی کے دروازے بند ہوتے نظر آتے ہیں، مزید اصلاح کی گنجائش نظر نہیں آتی اور بے راہ روی اور بے عملی کا دروازہ کھلتا نظر آتا ہے، ہمیں چاہیے کہ جہاں ہم مثبت رخ بیان کرتے ہیں وہیں منفی پہلو کی اصلاح کرنے کی بھی کوشش کریں تاکہ ایک تراشے جانے والے درخت کی طرح قوم مسلم نشو نما پاتی رہے اور اسے بلندیوں تک جانے سے کوئی روکنے کی بھی کوشش کرے تو روک نہ پائے۔
اگر دل و دماغ ذکر خدا ے تعالی اور ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی ہو؛ تو وہ دل و دماغ ویران ہے، اور ویران جگہ شیطان کا ڈیرا بن جاتا ہے، اگر جسم روحانی غذا سے عاری ہو؛ تو وہ جسم خواہ کتنے ہی راحت کے سامان فراہم کرلے، اسے سکون و اطمینان نہیں مل سکتا؛ کیوں کہ دل و دماغ، جسم و قلب کا اطمینان و سکون ذکر الہی اور روحانی تربیت میںہے جو سامان راحت نے انہیں فراہم نہیں کیا؛ تو پھر انہیں سکون و اطمینان کیوں کر میسر آسکتا ہے، ظاہر سی بات ہے کہ دل کو صحت بخشنے والا ڈاکٹر دماغ کو صحت نہیں بخش سکتا، بالکل اسی طرح ظاہری جسم کو آرام دینے والا سامان قلب و جسم کو سکون نہیں دے سکتا؛ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ان کا علاج انہیں چیزوں سے کریں جس سے ان کا علاج صحیح طریقہ سے ہوسکتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ ذہن و دماغ کو ذکر الہی اور روحانی تربیت سے مزین کیا جائے، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اور آپ علامہ خوشتر علیہ الرحمہ کے اس علمی و فکری نظریہ کو زیادہ سے زیادہ فروغ دے کر لوگوں کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں ، علامہ خوشتر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’مادی دنیا کا ہر فرد پریشان، سکون کی دولت سے محروم نظر آتا ہے، دولت بھی ہے، عیش و عشرت کے سامان بھی ہیں۔۔۔۔۔مگر یہ واقعہ ہے کہ وہی لوگ جو سامان جدید سے گرمی کو سردی اور سردی کو گرمی سے بدل کر راحت و سکون حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اتفاق کہیے کہ اکثر سکون کی دولت سے محروم ہیں، اس کے وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
گرمی سردی، کھانے پینے کی چیزیں، عیش و عشرت کے سامان ان کا تعلق مادہ و جسم سے ہے، روح سے نہیں، روح کی غذا ذکر الہی ہے اور ذکر الہی سرمایہ راحت و نجات ہے، اگر ورح مطمئن ہے تو سکون و راحت یقینی ہے، ورنہ سکون کی تلاش اطمیان قلب و روح کے بغیر فطرت کے خلاف جنگ کرنے کے مترادف ہے اور قلب و رورح کے اطمینان کا تمام تر دار و مدار ذکر الہی پر ہے، آج کا دور جدید اپنی نئی نئی مشینوں کے ذریعہ جسم کے لیے تو بہت کچھ سامان راحت فراہم کررہا ہے، مگر قلب و روح کی راحت اس کے بس کا نہیں، اس لیے آج کا معاشرہ ذکر الہی کے باب میں کچھ سوچنا بھی گوارہ نہیں کرتا، عمل کی منزلیں تو بہت دور ہیں، اس کی وجہ پہلی نظر میں صرف یہ سمجھ میں آتی ہے کہ عقل و خرد کی دور نے جہاں مادی تقاضوں کو اپنانے کی کوشش کی ہے وہاں روحانی قدروں کو کھودیا ہے، بالفاظ دیگر یوں کہئے کہ اس مشینی دور نے ہمیں ایک اونس دے کر ایک تن چھین لیا ہے، اس پر افسوس یہ کہ ہمیں ایک اونس ملنے کی مسرت تو ہوئی مگر ایک تن چھن جانے پر غم نہ ہوا‘‘ (ذکر الہی اور اس کے فائدے، ص۲۳، ترتیب مفتی سلیم بریلوی)
حق ہے کہ آج قوم مسلم ایک گونہ انسیت حاصل ہونے کی خوشی میں مست تو ہے مگر ایک تن چھن جانے کا اسے کوئی غم نہیں، اس کا سبب یہی ہے کہ اس مادی دور میں قوم مسلم کو ذکر الہی کے بارے میں سوچنے کی فرصت نہیں اور عمل و کردار کی کوئی فکر نہیں اور جس قوم کا یہ حال ہو وہ قوم عمل کہاں سے کرے گی، آج قوم مسلم پر لازم ہے کہ پہلے ذکر الہی اور عملی اقدام کا اہتمام کرکے اپنے کھوئے ہوئے جسم کو حاصل کرے پھر ایک گونہ نہیں بلکہ سیکڑوں گونہ انسیت حاصل کرے کوئی حرج نہیں مگر صرف وقتی انسیت کی فکر کرنا اور تن من کی روحانی تربیت کو چھوڑ دینا ضرور حرج عظیم کا باعث ہے۔
دور حاضر میں ٹیکنا لوجی جس قدر ترقی کرتی جارہی اسی قدر لوگ اپنے آپ کو ترقی یافتہ سمجھ کر دینی امور سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں، یقینا ٹیکنالوجی کا اپنا ایک بلند مقام ہے، مگر اس کی رو میں اس قدر بہ جانا کہ قرآن و حدیث اور اقوال فقہا ہیچ نظر آنے لگیں، حج و زکوۃ اور دیگر فرائض پرانی باتیں لگنے لگیں؛ تو یقینا یہ ٹیکنا لوجی سم قاتل کے سوا کچھ نہیں، اس سے بڑھ کر سم قاتل کیا ہوسکتا ہے جو دین و ایمان کا بھی سودا کرنے سے نہ ڈرے؟! اس بے راہ روی اور فکری انحراف کا درد علامہ خوشتر علیہ الرحمہ کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:
’’اپنے گھریلو معاشرہ ہی کو دیکھ لیجیے، ابا جی ہیں کہ اس نئے دور میں رات و دن پرانی بات کرتے ہیں، بات بات پر قرآن و حدیث اور فقہ اور بزرگان دین کے اقوال سے جزئیات پیش کرتے ہیں، اور صاحبزادہ ہیں کہ حرم سے لرزاں مائل بہ تباں ہیں، قرآن و حدیث کو ملا کی بات کہ کر رد کردینے کے عادی ہیں، اللہ و رسول کے فرمان کے بجائے، قارون کا فلسفہ زبان پر رہتا ہے، نماز و روزہ، حج و زکوۃ کو بت خانہ اوہام کے تراشیدہ اصنام کہتے ہیں، اور پھر اس پہ یہ دعوی کہ مسلمان ہیں ہم، یہ تو ایک گھر کی بات تھی، دنیاے رنگ و بو کی ایک ایک محفل دیکھی جائے اور ایک ایک بزم چھانی جائے، یہی اختلاف ملے گا‘‘ (صراط مستقیم احادیث کے آئینہ میں، ص۲۹، ترتیب مفتی سلیم بریلوی)
اور یہ اثر کسی ایک گھر کی بات نہیں بلکہ اکثر و بیشتر گھر میں ایسا ہی نظر آتا ہے، یہ بات تو طے ہے کہ ٹیکنا لوجی اپنا کام کرے گی؛ اس لیے ضروری ہے کہ امت مسلمہ بھی اپنا فریضہ انجام دے، اپنے بچوں کو کم از کم اتنی دینی تعلیم ضرور دے کہ اسلام و سنیت سے انحراف کا خدشہ کم سے کم تر ہوجائے اور ہوسکے تو کم از کم ہر گھر میں ایک عالم باعمل ضرور بنایا جائے تاکہ اسی کی سیادت میں گھر کا کارواں رواں دواں رہے اور انحراف کی صورت میں اصلاح کی حتی الامکان کوشش کی جائے۔
اسی ترقی یافتہ کا نتیجہ ہے کہ آج ایسے بہت سارے لوگ پائے جاتے ہیں جو عقائد میں اختلافات کو ملا اور مولوی کی بڑ سمجھ کر رد کردیتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں جب اللہ ایک، قرآن ایک، رسول ایک تو پھر یہ اختلاف کیوں؟! اور اگر اختلاف ہے تو یہ منبر و محراب کی بات ہے، اس سے ہمارا کیا تعلق؟! گویا کہ صراط مستقیم ایسے لوگوں کے نزدیک مبہم سا ہوکر رہ جاتا ہے، یہ ہمارا مذہبی تنفر اور اس سے عدم دلچسپی غیر اسلامی تعلیم اور صحبت دیگراں کا برا نتیجہ ہے ، ظاہر ہے بری صحبت کا نتیجہ برا ہی ہوگا، اچھا نہیں، حالاں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت واضح اور مختصر ارشاد کے ذریعہ صراط مستقیم کی یوں وضاحت فرمائی ہے کہ اس کے بعد صراط مستقیم کے فقدان کا رونا رونے کی گنجائش نہیں رہ جاتی، آپ بھی اسے علامہ خوشتر علیہ الرحمہ کی زبانی ملاحظہ فرمالیں، ارشاد فرماتے ہیں:
’’((ما أنا علیہ و أصحابی)) صراط مستقیم وہ راستہ ہے جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں، ایک مختصر اور سادہ سا جملہ اختلاف کی حدوں سے بہت دور، تاویلات کی منزلوں سے بعید، شک و شبہ سے بالاتر، صراط مستقیم کے مفہوم میں کتنا واضح ہے، اگر اس پر بھی کوئی صراط مستقیم کے فقدان کا رونا روئے تو اس کا یہ رونا خود اس کی بے دینی و گمراہی کا سیل رواں ہے‘‘ (صراط مستقیم احادیث کے آئینہ میں، ص۳۰، ترتیب مفتی سلیم بریلوی)
اسی صراط مستقیم کے متعلق ایک دو حدیث اور ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں:
’’بات سیدھی سادھی اور صاف ہے، آپ اپنے آپ کو خالی الذہن ہوکر مندرجہ بالا احادیث کے ترازو پر تول لیں، اگر پلہ برابر ہے تو یقینا آپ صراط مستقیم پر ہیں اور اگر اس میں افراط و تفریط (کمی و زیادتی) رفض و خروج پایا جاتا ہے تو آپ خود فیصلہ فرمالیں کہ آپ کا یہ راستہ غلط ہے یا صحیح؟ شاید آپ کی آخرت سنبھل جائے‘‘ (صراط مستقیم احادیث کے آئینہ میں، ص۳۰، ترتیب مفتی سلیم بریلوی)
جو لوگ اس طرح کا نظریہ رکھتے ہیں انہیں چاہیے کہ علامہ خوشتر علیہ الرحمہ کی دعوت کو قبول کریں اور ان احادیث کو پیش نظر رکھ کر اپنے نفس کا محاسبہ کریں، اگر میزان برابر ہے؛ تو خوش آئند بات ہے اور اگر افراط و تفریط کا شکار ہے؛ تو لازم ہے کہ اپنے اس غلط راستے کو چھوڑے، گمراہیت اور بدمذہبیت سے پیچھا چھڑائے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو مختصر مگر واضح انداز میں صراط مستقیم کو بیان فرمایا ہے، اسے اپنائے اور اپنا دین و دنیا سنوارنے کی کوشش کرے۔
حلال و حرام کا معیار کتاب اللہ ہے، قرآن نے جسے حلال بتایا وہی حلال ہے اور جسے حرام بتایا وہی حرام ہے، نفس کے اعتبار سے کسی چیز کی حلت و حرمت ثابت نہیں ہوتی، علامہ خوشتر علیہ الرحمہ کیا فرماتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
’’مندرجہ بالا حدیث سے یہ بات ظاہر ہے کہ حرام و حلال کا معیار کتاب اللہ ہے‘‘ (صراط مستقیم احادیث کے آئینہ میں، ص۳۱، ترتیب مفتی سلیم بریلوی)
مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ دور حاضر میں کچھ ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو شریعت کی بات تو کرتے ہیں مگر جب اپنی بات آجاتی ہے تو نفس و ہوا ہی شریعت ہوجاتی ہے، اور نفس امارہ اس قدر غالب آجاتی ہے کہ صحیح اور غلط کا امتیاز بھول جاتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں: میں جو چاہوں کروں! مطلب نفس جسے حلال کہے گا وہی حلال اور نفس جسے حرام کہے گا وہی حرام اور اس طرح سے قرآن و سنت کو سرد خانہ میں ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے، علامہ خوشتر علیہ الرحمہ کا یہ اصلاحی پہلو ایسے نفس امارہ کی اتباع کرنے والوں کے لیے اکسیر کی حیثیت رکھتی ہے، ایسے افراد کو چاہیے کہ وہ علامہ خوشتر علیہ الرحمہ کے بتائے ہوئے طریقہ پر چلیں اور نفس کے بجائے ہر صورت میں قرآن و حدیث اور اقوال فقہا ہی کو مقدم رکھیں۔
شہر خموشاں یعنی قبرستان کی زیارت عبرت حاصل کرنے کا ذریعہ اور آنے والی نسلوں کے لیے درس عمل بھی ہے، نیز اپنے نفس کے محاسبہ کرنے کا بہترین سبب بھی ہے؛ اسی وجہ سے علامہ خوشتر علیہ الرحمہ نے اس کی طر ف توجہ دلائی تاکہ قوم مسلم اپنا مستقبل دیکھ کر کچھ تو عبرت حاصل کرے، علامہ خوشتر علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
’’تمام رات یا اکثر حصہ بے دار رہ کر عبادت کریں، اپنے لیے، والدین کے لیے اور تمام مسلمانان اہل سنت کے لیے بخشش کی دعائیں مانگیں، عبرت اور ایصال ثواب کے لیے شہر خموشاں (قبرستان) کی زیارت کریں، اس میں اپنا فائدہ اور آنے ولی نسلوں کے لیے درس عمل ہے‘‘ (ذکر الہی اور اس کے فائدے، ص۲۶، ترتیب مفتی سلیم بریلوی)
مگر افسوس کہ آج قوم مسلم نے اس جگہ کو بھی تفریح کا سامان بنالیا ہے، جنازہ سامنے ہے، تدفین کی تیاری ہورہی ہے، نہ جانے کتنی قبریں زمین بوس ہوچکی ہیں، ان چیزوں کو دیکھ کر آخرت کی فکر کرنے کے بجائے یہ قوم اس وقت بھی دنیا کی باتوں میں لگی ہے، بے حسی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ بعض مسلم اس شہر خموشاں میں بھی قہقہہ لگاتے نظر آتے ہیں! مسلمانو! کچھ تو اللہ تعالی کا خوف کرو، کچھ تو آخرت کی فکر کرو اور علامہ خوشتر علیہ الرحمہ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ایسے عمل کرو جو آپ کے لیے مفید ہو اور آنے والی نسل کے لیے درس عبرت و عمل ہو۔
اللہ تعالی علامہ خوشتر علیہ الرحمہ کی قبر مبارک پر رحمت و انوار کی بارش فرمائے، تمام امت مسلمہ کو علامہ خوشتر علیہ الرحمہ کے قرآن و سنت کے مطابق بتائے ہوئے صحیح طریقہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، ان کے جیسا علماے امت کو درد عطا کرے اور دین و سنیت کا محض دعوی کے بجائے پختہ عملی اقدام کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
طالب دعا:
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا۔
ای میل: fmfoundation92@gmail.com
موبائل: 831817713
۴؍رجب المرجب ۱۴۳۹ھ مطابق ۲۳؍مارچ ۲۰۱۸ء