حضرت سچل سرمست سندھ کے صوفی شاعر Biography of Hazrat Abdul Wahab Sachal Sarmast History and kramaat of schal sarmast in urdu hindi

 سچل سرمست (پیدائش: 1152ھ/1739ء– وفات: 14 رمضان 1242ھ/ 11 اپریل 1827ء) سندھی زبان کے مشہور صوفی شاعر تھے۔ عرف عام میں شاعر ہفت زبان کہلاتے ہیں کیوں کہ آپ کا کلام سات زبانوں میں ملتا ہے۔ عربی ،سندھی ،سرائیکی ،پنجابی ،اردو ،فارسی اور بلوچی سچل سرمست کی پیدائش 1739ء میں سابق ریاست خیرپور کے چھوٹے گاؤں درازا میں ایک مذہبی خاندان میں ہوئی۔ ان کا اصل نام تو عبد الوہاب تھا مگر ان کی صاف گوئی کو دیکھ کر لوگ انہیں سچل یعنی سچ بولنے والا کہنے لگے۔ بعد میں ان کی شاعری کے شعلے دیکھ کر انہیں سرمست بھی کہا گیا۔ سچل سرمست کی پیدائش سندھ کے روایتی مذہبی گھرانے میں ہوئی مگر انہوں نے اپنی شاعری میں اپنی خاندانی اور اس وقت کی مذہبی روایات کو توڑ کر اپنی محفلوں میں ہندو مسلم کا فرق مٹا دیا۔ ان کے عقیدت مندوں میں کئی ہندو بھی شامل ہیں۔ سچل سرمست تصوف میں وحدت الوجود کے قائل تھے۔



شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی زندگیوں میں ستر برس کا فاصلہ ہے۔ سچل ستر برس بعد جب صوفیانہ شاعری میں آیا تو ان کی وجدانیت بھی منفرد تھی۔ ان کے ساتھ صوفی ازم کی موسیقی نے بھی سرمستی کا سفر کیا اور شاہ بھٹائی کے نسبتاً دھیمے لہجے والے فقیروں سے سچل کے فقیروں کا انداز بیان منفرد اور بیباک تھا۔


سچل سرمست نے سندھ کے کلہوڑا اور تالپور حکمرانوں کے ایسے دور اقتدار میں زندگی بسر کی جب مذہبی انتہا پسندی اپنے عروج پر تھی۔ انہوں نے اپنے آس پاس مذہبی نفرتوں کو دیکھ کر سندھی میں کہا:


مذہبن ملک میں ماٹھو منجھایا، شیخی پیری بیحد بھلایا۔


جس کا سادہ ترجمہ اس طرح ہے کہ مذہبوں نے ملک میں لوگوں کو مایوس کیا اور شیخی، پیری نے انہیں بھول بھلیوں میں ڈال دیا ہے۔


سچل سرمست نوّے برس کی عمر میں 14 رمضان 1242ھ میں وفات کر گئے۔ وہ شادی شدہ تھے مگر ان کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ انہوں نے بنیادی عربی فارسی کی تعلیم اپنے خاندان کے بزرگ اپنے چچا مرشد اور سسر خواجہ عبدالحق سے حاصل کی۔ سچل سرمست کا کلام سندھی43، اردو، عربی، فارسی اور سرائیکی میں موجود ہے۔ انہیں اور ان کا کلام سنانے والے فقیروں کو سندھ میں ایک منفرد مقام اس لیے بھی حاصل ہے کہ کسی بھی محفل میں جب بھی مذہبی انتہا پسندی کو للکارا جاتا ہے تو آج بھی سہارا سچل کا لیا جاتا ہے۔

سندھ کے صوفی شاعر حضرت سچل سرمست ؒ

سندھ کی تاریخ حضرت سچل سرمست ؒ کے تذکرے کے بغیر نامکمل ہے۔ حضرت سچل سرمست ؒ سندھی زبان کے مشہور صوفی شاعراور مجذوب تھے ۔ انکا کلام سات مختلف زبانوں میں ملتا ہے (سندھی، عربی‘ فارسی ‘بلوچی‘ سرائیکی ‘ پنجابی اوراردو) مگر زیادہ حصہ سندھی اور سرائیکی پر مشتمل ہے۔ سچل سرمست 1739ء میں پیدا ہوئے۔ جائے پیدائش صوبہ سندھ میں ضلع خیرپورکے گاؤں رانی پور کا قریبی علاقہ درازہ ہے۔ اُن کا تعلق فاروقی خاندان سے ہے۔ اس خاندان میں کئی اہم ہستیاں گذری ہیں۔ ان میں سچل سرمست ؒ کے دادا میاں صاحب ڈنو عرف محمد حافظ ایک اہم بزرگ اور شاعر تھے۔ اس خاندان کے جدِ امجد محمد بن قاسم کے لشکر میں شامل تھے جو 93ھ میں سندھ پر حملہ آور ہوا تھا یہ شیخ شہابُ الدین تھے جو بعد میں سیہون کے حاکم مقرر ہوئے۔ میاں صاحب ڈنو بھی سندھ کے کلھوڑہ حاکموں کے دور میں اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ ان کی شاہ عبداللطیف بھٹائی سے ملاقات کا واقعہ بھی مشہور ہے۔ یہ دونوں بزرگ چلہ کشی والی غار میں ملے تھے۔ میاں صاحب ڈنوایک اہلِ دل درویش گذرے ہیں۔


اُنکا سندھی کلام بھی موجود ہے جو ظاہر پرستی اور خدا پرستی کے متعلق ہے۔ مُلا کو خاص طور پہ ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ مُلا عشقِ حقیقی تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ مُلا مجاور اور کوے کی مشابہت اسطرح کرتے ہیں۔ مُلا مجاور اور کوا تینوں ایک ہیں۔ ’’ملا وصال سے دور ہے ‘ محبت سے نا واقف ہے‘ مجاور کھانے کے انتظار میں ہے اور کوا وہاں تک نہیں پہنچ سکتا جہاں تک بڑے پرندے اُڑتے ہیں۔‘‘میاں صاحب ڈنو کے چھوٹے بیٹے اور سجادہ نشین میاں عبدالحق بھی شاعر تھے۔ سچل سرمست ؒ کے والد کا اسمِ گرامی میاں صلاح الدین تھا جو اپنے والد کی زندگی میں ہی انتقال کر گئے تھے جسکی وجہ سے میاں عبدالحق سجادہ نشین ہوئے۔


سچل سرمست ؒ کے والد کاانتقال ہو گیا تھا لہٰذا بچپن ہی سے اپنے چچا میاں عبدالحق کی نگہداشت میں آگئے تھے چچا نے انہیں عربی فارسی اور تصوف کے اسرارو رموزسے آگاہ کیا۔ حافظ عبداللہ کے پاس قرآن شریف اور دیگر علوم کے لئے گئے۔ قرآن مجید حفظ کیا۔ اس وجہ سے سچل سرمست کو حافظ عبدالوہاب کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اُنکا اصل نام عبدالوہاب تھا چونکہ وہ بچپن سے ہی سچ بولا کرتے تھے لہٰذا لوگ انہیں سچل کے نام سے پکارنے لگے انہوں نے اپنی شاعری میں بھی سچل نام کو بطور تخلص استعمال کیا۔ سچل تنہائی پسند اور خاموش طبع شخص تھے۔ تنہائی کو پسند کرتے تھے اس لیے اکثر جنگل کی طرف نکل جاتے تھے‘فکر میں غرق رہتے تھے۔ کبھی کوئی شکار نہ کیا نہ ہی کبھی کسی پرندے یا جانور کو ذبح کیا۔ کسی قسم کا نشہ نہیں کیا۔ اُنکے دور میں منشیات عام ہو گئی تھیں نوجوانوں کو نشے کی لت پڑ گئی تو انہیں سمجھایا مگرنشے کے عادی نوجوان انکے خلاف ہوگئے اور ان پر آوازیں کسنے لگے۔ جوانی ہی سے نماز کے پابند تھے درود و وظائف میں مصروف رہتے تھے۔ پچاس برس کی عمر میں موج مستی اور عروج کی حالت میں بیخود ہو جاتے تھے۔ بیخودی اور مستی کی ایسی حالت دیکھ کر لوگوں نے مست کے نام سے بھی پکارنا شروع کر دیا سچل سرمست کے نام سے مشہور ہو گئے۔ مولانا رانی پوری اُنکے حلیے اور شکل و صورت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:


’’اُن کا قد سیدھا اور درمیانہ تھا، رنگ صاف بادام کی طرح، خدوخال دلکش، آنکھیں بڑی بڑی آھو چشم اور گیسو دراز تھے۔ سفید پیرہن سفید شال یا چادر اوڑھے رکھتے تھے۔ کھدر کا تہبند باندھتے تھے، سر پر سبز تاج ہوتا‘‘۔


مرزا علی قلی بیگ لکھتے ہیں کہ:


’’ پیری میں سفید ریش مبارک رکھتے تھے۔ جوتا کبھی پہنتے کبھی ننگے پاؤں ہی نکل جاتے۔ ہاتھ میں لاٹھی ہوتی تھی۔ سواری استعمال نہیں کرتے تھے۔ زمین پر یا لکڑی کے صندل پر بیٹھتے اور سو جاتے۔ چارپائی استعمال نہیں کرتے تھے۔ طنبورہ بھی ساتھ رکھتے تھے‘‘۔


ازدواجی زندگی: سچل سرمست کی شادی اپنے چچا میاں عبدالحق کی دختر نیک اختر سے ہوئی۔ ایک فرزند عطا ہوا جو بچپن میں ہی وفات پا گیا۔ شادی کے صرف دو سال بعد شریکِ حیات وفات پا گئی مگر زندگی بھر دوسری شادی کرنے کا خیال تک نہ آیا۔


سچل سرمست کی شاعری۔ ان کی شاعری میں عشق بنیادی موضوع ہے۔ اسکے لئے انہوں نے تاریخی داستانوں کا سہارا بھی لیا۔ اس سلسلے میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کا اثر بھی لیا ہے۔ ہیر، سسی، مومل ، نوری اور جام تماچی اور دیگر کرداروں کے بھیس میں اپنا درد واضح انداز میں بیان کیا۔ مثلاََ نوری اور جام تماچی کے قصہء عشق سے انکساری کا سبق اخذ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انکساری انسان کے


اعلٰی درجات و صفات میں سے ایک صفت ہے۔


پروفیسر کلیان آڈوان نے لکھا ہے کہ سچل سرمست کے تصور میں ایک غیر فرقہ وارانہ سماج تھا، جسے اب classless society کہا جاتا ہے۔ انکے شعر کا حوالہ دیتے ہوئے کہتےہیں ۔ ترجمہ:


سب رسوم و رواج توڑ دو ۔۔۔ مرد بنومردانہ۔۔۔سچل غلامی والا وہم دور کرو۔ شملا باندھ شاہانہ


سچل سرمست کی آواز نہایت بلند تھی۔ وہ بیباک صوفی شاعر تھے۔ فرسودہ رسومات کے خلاف لکھا اور مُلا کے تنگ نظریات اور منافرت والی پالیسی کو رد کیا۔ سچل سرمست ایک وسیع النظر انسان تھے۔ انہوں نے انسان کی عظمت کو اہمیت دی۔ وسیع انسانی برادری کے تصور کولیکر بے تعصبی کی تعلیم دی۔ ہندو بھی انکے مرید ہو گئے اور اسلام قبول کیا یہ سب صرف بے تعصبی کی وجہ سے ممکن ہوا۔ سچل پیر و مریدی سے بھی نالاں تھے۔ فرماتے ہیں۔


نا میں شیعہ۔ نا میں سنی۔ نا میں سید سداواں


نا میں مرید۔ نا میں پیر۔ سارے فقر کا فقیر


نا میں حاکم نا میں ظالم۔ میں ہوں امن کا امیر


امن کی اہمیت آج کے دور میں بھی مسلم ہے۔ ظلم کی مخالفت کر تے ہوئے اُنہوں نے عالمی برادری کو ایک جانا۔ انکی شاعری میں رجائیت پسندی واضح نظر آتی ہے قنوطیت نظر نہیں آتی جبکہ عشقیہ شاعری میں کہیں کہیں قنوطیت بھی دکھائی دیتی ہے۔ اگر سچل کی شاعری میں پُر امیدی نا ہوتی تو شائد وہ اتنے کامیاب شاعر نہ ہوتے۔غلامی کی نفسیات کو رد کرتے ہوئے پیغام دیا ترجمہ : بارات کے پیچھے نہ چلو۔ خود کو دولہا کی طرح جانو۔ رہنمائی کرو۔


اکثر سوانح نگار وں نے بزرگ ہستیوں کی سوانح حیات لکھتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ عشقِ حقیقی سے سر شار تھے۔ فقط چند ایک مجاز کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ اکثر کی زندگی میں ابتدا میں مجاز اور آخر میں حقیقت کی طرف اشارے بھی ملتے ہیں۔ سچل سرمست کی سوانح عمری میں ان کی جوانی کے ادوار کا مختلف تذکرہ ملتا ہے۔ مولانا رانی پوری اُنکے بچپن کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عین دورِ جوانی میں اپنے نفس پر قابو رکھتے تھے۔ اپنے فقیرانہ اور قلندرانہ خیالات میں گُم رہتے تھے۔ سچل سرمست کی زندگی میں کسی مغنیہ کے آنے کے حوالے بھی ملتے ہیں۔ انکے کلام میں بھی حسن و عشق کے کئی اشارات و استعارات ملتے ہیں۔ سچل نے بھی دیگر شعراء کی طرح عالمی بھائی چارہ اور انسان دوستی کو اپنے کلام میں اُجاگر کیا۔ ظلم و وحشت کی مذمت کی اور مذہبی منافرت اور فرقہ بندی کو غلط جانا۔ 1829 میں 90 برس کی عمر میں وفات پائی۔

Previous Post Next Post