حضرت شمس الدین محمد بن علی تبریزی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ Biography Of Hazrat Imam Shamsuddin Muhammad |Life Story Hazrat Shamsuddin Muhammad Bin Ali Tabrizi



حضرت شمس الدین محمد بن علی تبریزی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

اسم گرامی محمد بن ملک داد ہے۔ شیخ سلر باف تبریزی قدس سرہ سے بیعت تھے۔ بعض تذکرہ نگار آپ کو کمال خخبدی یار کن دین سبحانی قدس سرہما کا مرید قرار دیتے ہیں صاحب نفحات الانس لکھتے ہیں آپ نے ان تین بزرگوں کی صحبت سے استفادہ کیا تھا۔

آپ ولی مادر زار تھے آپ فرمایا کرتے تھے کہ چودہ سال کی عمر میں اپنے مکتب میں عشق محمدی میں یوں محویت اختیار کرتا تھا کہ چالیس روز و شب لگاتار کھائے پئے بغیر رہتا لوگ مجھے کھانے کا کہتے تو میں سر یا ہاتھ سے ارشارے سے معذرت کردیا کرتا تھا۔ حضرت مولانا جلال الدین رومی صاحب مثنوی معنوی آپ کے عقیدت مندوں میں سے تھے آپ سے ایک عرصہ تک فیض صحبت پایا اپنے اشعار میں حضرت شمس الدین تبریزی کی تعریف کہی بلکہ اپنے اشعار اور دیوان (دیوان شمس تبریز) آپ کے نام سے منسوب کردیا دونوں بزرگ بسا اوقات خلوت میں رہا کرتے ایک بار تین ماہ تک ایک ہی مکان میں خلوت گزین ہوئے اور (صدِم وصال) بلا کھائے پئے رہے اس دوران کسی کی جرأت نہ تھی کہ ان دونوں بزرگوں کی خلوت میں مخّل ہو۔

خلوت سے باہر نکلے تو حضرت شمس تبریزی نے مولانا جلال الدین رومی کو حکم دیا مجھے ایک خوبصورت عورت مہیا کی جائے آپ اٹھے اور اپنی بیوی شیخ کے حوالے کی آپ نے فرمایا مولانا یہ تو میری بہن ہے تم نے یہ کیا کیا؟ اچھا اب ایسا کرو کوئی خوبصورت سا لڑکا لاؤ حضرت مولانا اٹھے اپنے بیٹے سلطان ولد جو ابھی خوش شکل نو خیز نوجوان تھے کو لے آئے حضرت نے دیکھ کر فرمایا مولانا تم نے پھر یہ کیا کیا یہ تو میرا فرزند ہے اب تھوڑی سی شراب لے آؤ میں اسی پر اکتفا کرلوں گا۔ مولانا رومی اٹھے یہودیوں کے محلے پہنچے کسی یہودی سے شراب لی اور صراحی سر پر اٹھائے آپہنچے حضرت شمس تبریزی نے دیکھ کر فرمایا زمین پر پھینک دو میں تو تمہاری قوت برداشت اور ذوق اتباع کو آزما رہا تھا۔ اب تمہارے مشرب کو وسعت کا امتحان ہوگیا ہے میں سرمست بادۂ حق ہوں مجھے عورت اُمرو یا شراب سے کوئی سروکار نہیں۔

ابتدائی دَور میں آپ قونیہ پہنچے پھرتے پھراتے مولانا روم کے درس میں جا پہنچے مولانا جلال الدین اس وقت حوض کے کنارے اپنے شاگردوں کو پڑھا رہے تھے چند کتابیں پاس رکھیں ہوئی تھیں آپ نے پوچھا مولانا یہ کیسی کتابیں ہیں آپ نے فرمایا یہ قیل و قال کی تحریریں ہیں شیخ شمس الدین نے کتابیں اٹھائیں حوض میں پھینک دیں۔ مولانا جلال الدین اپنی علمی کتابوں کا یہ حال دیکھ کر بے پناہ پریشان ہوئے فرمانے لگے آپ نے یہ کیا کردیا۔ ان میں بعض کتابیں میرے والد بزرگوار کے نوادر تھے جو کہیں سے نہیں ملتے شیخ نے مولانا کو انتہائی مضطرب دیکھا تو پانی میں ہاتھ ڈال کر کتابیں نکال دیں وہ صیح و سالم تھیں مولانا نے پوچھا کہ یہ کیسے ہوا آپ نے فرمایا یہ حال ہے صاحب قال کو اس کی کیا خبر کہتے ہیں اس واقعہ نے مولانا جلال الدین رومی کی دنیا بدل دی اور ہر وقت حضرت شمس تبریزی کی صحبت میں رہنے لگے۔

آپ کی وفات کا واقعہ تذکرہ نگاروں نے بڑا دردناک لکھا ہے ایک رات مولانا جلال الدین رومی اور حضرت شمس تبریز ایک خلوت کدہ میں بیٹھے تھے ایک شخص باہر سے آیا اور حضرت شیخ تبریزی کو باہر بلایا حضرت اٹھے اور حضرت مولانا روم کو خدا حافظ کہتے ہوئے بتایا کہ مجھے قتل کرنے کے لیے بلایا جا رہا ہے مولوی رومی نے کہا اَلا لَہٗ الَخلقَ والامَر تَبارکَ اللہ رَبَ اللِعَالمین حضرت شیخ شمس تبریزی باہر آئے تو سات آدمی کمین گاہ میں چھپے بیٹھے تھے انہوں نے اچانک چھریوں سے حملہ کردیا۔ شیخ نے نعرہ مارا اور زمین پر گرپڑے افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان حملہ آوروں میں مولانا جلال الدین رومی کا ایک نا خلف بیٹا علاؤالدین محمد بھی تھا مولانا نے باہر نکل کر دیکھا تو لاش کی بجائے خون کے چند قطرے فرشِ زمین پر نظر آئے لاش کا پتہ نہ چلا کہ کہاں چلی گئی قاتلانِ شیخ کی موت بڑی عبرتناک ہوئی اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو تھوڑے ہی وقت میں درناک بیماریوں میں مبتلا کرکے مارا مولانا کا بیٹا علاؤالدین بھی جذام کی بیماری میں تڑپ تڑپ کر مرا مولانا اس کے جنازے میں شریک نہیں ہوئے تھے۔

بعض تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ حضرت شیخ تبریزی مولانا کے بیٹے بہاؤالدین کے مزار کے پہلو میں دفن ہیں بعض کہتے ہیں کہ ان نا مرادوں نے آپ کی لاش کو ایک کنویں میں پھینک دیا تھا حضرت مولانا کے دوسرے بیٹے سلطان ولد نے خواب میں دیکھا آپ نے اسے اطلاع دی کہ میں فلاں کنویں میں ہوں آپ کے عقیدت مند کنویں پر پہنچے آپ کو نکالا اور حضرت مولانا رومی کے مدرسہ کے احاطے میں مدرسہ کے بانی امیر بدرالدین کے مزار کے پہلو میں دفن کردیا۔ سالِ وفات ۶۴۵ھ ہے۔[۱]

[۱۔حضرت مولانا جامی نے آپ کے متعلق ایک بڑا لطیف واقعہ نقل کیا ہے کہ شیخ شمس الدین ۶۴۲ھ دوران سفر قونیہ پہنچے تو خانہ شکر ریزاں میں قیام کیا۔ ایک دن مولانا رومی اپنے تلامذہ کے ساتھ مدرسہ سے باہر نکلے تو آپ سے ملاقات ہوگئی حضرت شیخ نے مولانا کو گھوڑے کی لگام کر روک لیا اور پوچھا مولانا بایزید بسطامی کا رتبہ بلند تھا یا جناب رسول مقبولﷺ کا۔ رومی فرماتے ہیں کہ میں اس سوال کی ہیبت سے کانپ اٹھا مجھے محسوس ہوا کہ ساتوں آسمان مجھ پر آپڑے ہیں میرے تن بدن میں آگ سی محسوس ہونے لگی اور جذبات کا دھواں آسمان تک پہنچا میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور کہا حضور سرور عالیاں میں بایزید کو آپ کے مقام سے کیا موازنہ شمس تبریزی کہنے لگے پھر یہ کیا بات ہے کہ حضور تو فرمائیں کہ ما عَرفَناَ حَق مَعرفَتِکَ (ہم نے تجھے اس طرح نہیں پہنچا جس طرح حق ہے) دوسری طرف حضرت بایزید دعوی کرتے ہیں۔ سُبْحانی ما اعظم شانی وانا سلطان السلاطین‘‘ (میں پاک ہوں میری شان بہت بڑی ہے۔ میں ہی سلطان السلاطین ہوں) حضرت مولانا نے فرمایا۔ بایزید شربت معرفت کا ایک کائسہ طلب اتنا ہی تھا۔ وہ ایک گھونٹ پی کر سیر ہوگئے اور مطمئن ہوگئے ان کے خلوت کدہ کو روشن دان کی روشنی نے درخشاں کردیا تھا مگر حضور سرور کائناتﷺ ایک بحر بے کراں کے سامنے اپنی تشنگی سے طلب حق کے سلسلہ کو وسیع سے وسیع تر رکھتے تھے آپ کا سینہ مبارک اَلم نَشرحَ لَکَ صَدرکَ وَالاضِ واسعَۃٌ (کیا ہم نے آپ کا سینہ نہیں کھولا اور اللہ کی زمین وسیع ہے) یہ سنتے ہی شیخ شمس تبریزی نے نعرہ مارا بے ہوش ہوکر زمین پر گرپڑے شاگردوں کی امداد سے آپ کو مدرسہ لے جایا گیا۔ ان کے سر کو اپنے زانو پر لیے تسلی دیتے رہے ہوش آیا تو تین ماہ تک دونوں خلوت گزین رہے اور صومِ وصال میں رہے کسی کو خلوت کہ ؟؟؟ میں مخل ہونے کی جرأت نہ تھی۔ (ماخوذ ازنفحات الانس جامی)]

جناب شیخ شمس الدین تبریز
بخواں سلطان شمس الدین وصالش
۶۴۵ھ

 

کہ روشن بود انہ نور تجلیٰ
رقم کن نیر شمس الدین معلیٰ
۶۴۵ھ

 

نوٹ: یاد رہے کہ ملتان (پاکستان) میں جس بزرگ شمس الدّین تبریزی کی قبر ہے وہ شمس الدین سبزواری تھے ان کا شمس تبریزی سے کوئی تعلق نہیں ہے شمس سبزواری سادات موسوی میں سے تھے ان کی اولاد نے شیعہ مذہب اختیار کرلیا ہے یہی لوگ لاہور میں آکر بسے تو اپنے آپ کو شمس سبزواری کی نسبت سے شمسی کہلانے لگے۔[۱]

[۱۔ملتانی شمس تبریز سبزواری اسماعیل فرقہ کے داعی بن کر برصغیر میں آئے ان کے ہمراہ دو شخص تھے ایک کا نام پیر صدرالدین اور دوسرے کا نام پیر امام الدین تھا۔ صدرالدین نے سندھ بمبیٔ میں دعوت اسلام شروع کی اور امام الدین گجرات و کاٹھیا وار کے علاقوں میں کام کرتے رہے شمس الدین تبریز پنجاب میں ملتان آئے اور اپنا مشن جاری کیا اسماعیل نکتہ نظر کی اشاعت کرنے لگے امام الدین نے اوّل اوّل بحیثیت اسماعیل داعی کے کام کیا مگر چند روز کے بعد خود مختار ہوکر اپنا علیٰحدہ طریقہ امام شاہی جاری کردیا۔ امام شاہی طریقہ کے اصول بھی قریب قریب اسماعیلی تھے لیکن اپنے تین نائب امام اور مظہر ذات مولیٰ علی بیان کرتے تھے امام الدین کا مزار پیرانہ میں ہے جو احمد آباد گجرات کے قریب ہے ایک قصبہ ہے۔ آج ہندوستان اور پاکستان کے بعض حصوں میں کم از کم بیس لاکھ آدمی ہوں گے جو مومن اور گیتی کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں وہ اپنے عقائد ظاہر نہیں کرتے ان امام شاہیوں کا نظام اتنا پوشیدہ اور پراسرار ہے کہ بعض ہندو گھرانوں میں بھی امام شاہی عقائد کے لوگ موجود ہیں۔ پیرانہ میں خانقاہیں ہیں اور امام شاہیوں کے امراء کی قبریں جن پر ہندو مہنت بیٹھے ہوئے ہیں یہ ہندومہنت ظاہری طور پر ہندوانہ لباس میں ہیں مگر باطنی طور پر امام شاہی ہیں اس مہنت کے سینکڑوں داعی ہندوانہ لباس میں اپنے مشن کو پھیلانے اور جماعت سے عشر اور نذر نیاز وصول کرنے کے لیے دورے کرتے ہیں مہنت پیر امام الدین کی موجودہ اولاد میں کچھ حصہ تقسیم کرتے ہیں باقی خانقاہ کے اخراجات پر صرف کرتے ہیں۔ اس خانقاہ میں جنیؤ کی قبر ہے۔ ہند و امام شاہی اپنا جنحواس قبر کو چڑھا کر مسلمان ہوجاتے ہیں اور پھر مومن کہلاتے ہیں۔

شمس الدین تبریزی سبزواری نے ملتان کے اردگرد کے علاقوں کے کہاروں اور سناروں میں اپنا طریقہ رائج کیا۔ اور لوگوں کو ہند و شمسی کا لقب دیا۔ ان دنوں شمسی ہند و بھی آغا خاں اسمعٰیلی کے معتقد ہیں اور اب ان کی نذر و نیاز کا رُخ سر آغا خان کی اولاد کی طرف گیا ہے۔ ان کی تعداد تیس لاکھ کے قریب ہے۔

شمس سبزواری نے اپنے عقائد و نظریات کو کن کن طریقوں سے رائج کیا۔ اس کی تفصیل کے لیے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے عوام میں ان کے متعلق بڑی عجیب و غریب حکامات اور کرامات مشہور ہیں۔یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ حضرت مولانا شمس الدین تبریزی جو مولانا روم کے پیرومرشد تھے ان کا شمس الدین ملتانی سے کوئی تعلق نہیں اور یہ ملتان میں سینکڑوں سال بعد میں آئے (ماخوذ مقدمہ مثنوی مولوی رومی جلد اول مترجم قاضی سجاد حسین صاحب دہلوی مطبوعہ حامد اینڈ کمپنی لاہور)]

(خزینۃ الاصفیاء)

Previous Post Next Post