مصلح قوم وملت حضرت علامہ محمدعبدالمبین نعمانی مصباحی
مصلح قوم وملت حضرت علامہ محمدعبدالمبین نعمانی مصباحی دعوت وتبلیغ،تصنیف وتالیف اور درس وتدریس کی دنیاکاایک معتبرنام ہے۔آپ عظیم وجلیل عالم دین ہیں جن کے تعمیری،فکری، تعلیمی،اصلاحی،دعوتی،دینی،تصنیفی،صحافتی اورتدریسی محاذپرانمٹ نقوش موجودہیں۔دینی استقامت، تقویٰ وطہارت اور فکری اصابت حضرت موصوف کی شخصیت کاایک اہم حوالہ بن چکی ہے۔
٭ولادت اور اسم گرامی :
اترپردیش کے مشہور شہر بنارس کے محلہ چھتن پورہ میں ۲۵؍شعبان المعظم ۱۳۷۲ھ بمطابق ۱۹۵۲ء بروزیک شنبہ کو ایک دین دار گھرانے میں حضرت علامہ عبدالمبین نعمانی صاحب کی ولادت ہوئی۔آپ کاپورانام محمد عبدالمبین بن محمد بشیر ہے۔حضرت امام اعظم کی طرف نسبت کرتے ہوئے آپ ’’نعمانی‘‘لگاتے ہیںجو آپ کے اسم گرامی کاجزبن چکاہے۔
٭تعلیم وتربیت:
ناظرۂ قرآن کی تکمیل اپنے چچا حافظ برکت اللہ صاحب ،ابتدائی اردوکی تعلیم مکتب مدار بخش بنارس،درجہ پنجم اور ابتدائی عربی کی تعلیم مدرسہ مظہر العلوم بنارس اور متوسطات تک تعلیم مولانا عبدالسلام نعمانی سے حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم اشرفیہ میں داخلہ لیااور ۱۹۶۹ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔
٭اساتذۂ کرام :
آپ کے اساتذۂ گرامی میں حضور حافظ ملت کے علاوہ علامہ عبدالرئوف حافظ جی ،بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی اور مولاناقاضی محمد شفیع علیہما الرحمہ جیسے اکابراساتذہ شامل ہیں۔
٭بیعت وخلافت :
آپ کوحضورمفتی اعظم ہند سے شرف بیعت وارادت حاصل ہے اور اعلیٰ حضرت کے تلمیذو خلیفہ حضور برہان ملت جبل پوری علیہ الرحمہ سے خلعت خلافت سے سرفرازہوئے اورحضرت امین ملت، مارہرہ مطہرہ سے بھی خلافت حاصل ہے۔
٭تدریسی خدمات:
اشرفیہ سے فراغت کے بعد چند مہینوں تک اپنے آبائی کاروبار ہینڈلوم سے وابستہ ہوگئے لیکن حضور حافظ ملت کے حکم پر باقاعدہ درس وتدریس کی طرف متوجہ ہوئے اورپھر مدرسہ بحرالعلوم بنارس ،مدرسہ بحرالعلوم خلیل آباد،مدینۃ العلوم بنارس،تنویرالعلوم جین پور،دارالعلوم ضیاء الاسلام ہوڑہ اور دارالعلوم غوثیہ نظامیہ جمشید پور جھارکھنڈ وغیرہ مدارس میں اہم ذمے داری سرانجام دی اور فی الوقت دارالعلوم قادریہ چریاکوٹ مئو میں ناظم ومہتمم کی حیثیت سے اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ یہاں حضرت بحیثیت صدرالمدرسین تشریف لائے تھے اور تقریباً بیس سال تدریسی واشاعتی سرگرمیوں سے وابستہ رہے اور طلبہ کی کثیر تعداد حضرت سے مستفیض ہوئی۔اس کے بعد اپنے دعوتی اسفار، تصنیفی پیش رفت اور بے شمار دینی ،ملی،تبلیغی اور تصنیفی مصروفیات کے باعث تدریس سے الگ تو ہوئے مگر اس کی نظامت واہتمام کی ذمہ داری اب بھی نبھارہے ہیں۔
٭ممتازتلامذہ:
مولانامفتی احمد القادری ،مولانا عبدالغفار اعظمی، مولانامحمد ناصر حسین قادری، مولانا باخترالا سلام علیمی، مولاناازہرالاسلام مصباحی ،مولاناعارف رضا مصباحی، مولانا قاری محمد منظور دہکاوی، مولانامحمد اسرائیل دیوگھر،مولانامفتی محمد اسلام دیو گھر، مولانامحمد بشیر دیو گھر،مولانا مفتی محمد سلیم ، مولانا شہید الرحمن اور مولانامحمد افروز قادری۔مولانا اخترالاسلام علیمی ۔
٭مشا ہیر خلفا:
٭اخلاق واوصاف :
بلاشبہہ آپ اسلاف کانمونہ ہیں۔اپنے مضامین کو اوروں کے نام سے شائع کرناکس قدر دل گردے کاکام ہے یہ اہل کام بخوبی جانتے ہیں مگر اخلاص،بے لوثی،بے نفسی،بے ریائی اور اہلسنّت کے فروغ کی سچی تڑپ کی بدولت ایسی درجنوں کتابیں ہیں جن کی اشاعت میں نعمانی صاحب کاکلیدی کردار ہے۔آپ کی حیات کاایک بڑاروشن پہلویہ ہے کہ اکثروبیشتر علماومشائخ اپنی بے پناہ دعوتی،تصنیفی،دینی،فکری،تدریسی اور اشاعتی ذمہ داریوں اور مصروفیات کے سبب اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت سے غافل رہتے ہیںمگر حضرت نعمانی صاحب کے تمام بچے ماشاء اللہ دینی تربیت سے مزین ہیں۔تین بیٹے باصلاحیت عالم دین،چوتھے بیٹے ڈاکٹر اور پانچویں بیٹے زیرتعلیم اور دو بیٹیاں اسلامی تعلیم وتربیت میں ڈھلی ہوئی ہیں اور عمدہ خصالی میں اپنی مثال آپ ہیں۔
٭تصنیف وتالیف:
تحریروقلم سے آپ کی وابستگی زمانۂ طالب علمی سے ہی رہی ہے۔ ابتدامیں بہت سارے مقالات ہدیٰ ڈائجسٹ دہلی،استقامت ڈائجسٹ کانپور، ماہنامہ اعلیٰ حضرت اور ماہنامہ نوری کرن بریلی شریف سے شائع ہوتے تھے۔ماہ نامہ اشرفیہ مبارکپور کے لیے چارسال تک ایڈیٹر شپ کی ذمے داریاں بحسن وخوبی نبھائیں۔اب تک سیکڑوں کتابوں کی تصحیح کرچکے ہیںاور انھیں قابلِ اشاعت بناکرنئی پود کو مستقبل کے لیے تیار کر چکے ہیں۔آپ کی چالیس سے زائد کتابیں شائع ہوکر مقبول ہوچکی ہیں،ان میں بہت ساری کتابیں ایسی ہیں جن کے کئی کئی ایڈیشن نکل چکے ہیںخاص کر پنج سورہ رضویہ،ارشادات اعلیٰ حضرت،انتخاب ِ کلامِ اعلیٰ حضرت اور مسنون دعائیں تو ایسی مقبول ومشہور ہوئیں کہ بے شمار مقامات سے شائع ہوئی اور ہورہی ہیں۔استقامت ڈائجسٹ کے جتنے بھی خصوصی شمارے یانمبرشائع ہوئے ہیں ان میں سے بیشتر کی ادارت واشاعت کے پیچھے حضرت نعمانی صاحب کی کوششیں کارفرمارہی ہیں ۔ان نمبروں میں خاص کر مفتی اعظم ہند نمبر،رسول عربی نمبر اور تحفظ عقائد نمبر کے لیے مضامین کاحصول اور کتاب کی ترتیب وادارت وغیرہ حضرت ہی کے ذریعے انجام پائی ہے بلکہ ان نمبروں میں نعمانی صاحب اور علامہ احمدمصباحی صاحب کی کئی
مضامین ہیں جو دوسروں کے ناموں سے شائع ہوئے ہیں۔
آپ کی کتابوں کے نام یہ ہیں:(۱)ارشادات اعلیٰ حضرت (۲)انتخاب کلام اعلیٰ حضرت (۳)مسنون دعائیں (۴)ارکان اسلام (۵)احوالِ قبر (۶)نوائے نعت ،ترتیب(۷)انوار فضائل قرآن (۸)نذرحبیب (سوانح مجاہدملت)(۹)عورت اور ہمارامعاشرہ(۱۰)چالیس حدیثیں(۱۱)اسلام میں رزق حلال کی اہمیت (۱۲)لاٹری کیاہے؟(۱۳)شراب اور اس کے نقصانات (۱۴)اصلاح معاشرہ (۱۵)نورانی وظائف (۱۶)شیخ الحدیث مولاناسردار احمد (۱۷) شب براء ت (۱۸)رمضان کے فضائل ومسائل (۱۹)جامِ رحمت،مجموعۂ نعت (۲۰)پنج سورہ رضویہ(۲۱)علم دین ودنیا(افادات اعلیٰ حضرت)(۲۲)فضائل نماز (۲۳) مسائل نماز (۲۴) شعبان وشب براء ت (۲۵)مراسم محرم (۲۶)بیماری اور موت (۲۷)معاشرے کی چند خرابیاں اور ان کاعلاج (۲۸)شادی اور اسلام (۲۹)امام احمدرضااور ان کی تعلیمات (۳۰)فہرست تصانیفِ امام احمدرضا(۳۱)تخریج اختیارات مصطفی(۳۲)سنن ونوافل کے فضائل (۳۳)مسئلہ اقامت (۳۴)برکاتِ نماز(۳۵)برکاتِ خواجہ(۳۶)سچوں کی سچی باتیں۔
٭خدمت قرآن:
حضرت نعمانی صاحب کو یہ شرف حاصل ہے کہ انھیں خدمت قرآن کا موقع ملا۔تراجمِ قرآن میں سب سے معتبر،مستنداور اہم ترین ترجمہ امام احمد رضاعلیہ الرحمہ کاترجمۂ قرآن ’’کنزالایمان‘‘ ہے۔اس میں کتابت کی بہت ساری اغلاط تھیں ،حضرت نے اس کی تصحیح کافریضہ انجام دیااور نشریاتی ادارے اب اسی نسخے کو شائع کررہے ہیں۔حضرت کی اس عظیم خدمت کے صلے میں مارہرہ شریف میں حضور امین ملت کے ہاتھوںاعزازسے بھی نوازاگیا۔چند سال پہلے ادارۂ نشان کے زیر اہتمام ’’الفی قرآن‘‘بھی آپ کی نگرانی وتصحیح کے بعد شائع ہواہے جس کی ہرسطرکاپہلاحرف’’الف‘‘سے شروع ہوتاہے۔آپ نے کنزالایمان کے عام نسخوں کے لیے بھی کام کیااور وہ شائع بھی ہوگیاہے۔آپ کنزالایمان کے مشکل الفاظ کی فرہنگ بھی ترتیب دے رہے ہیں۔خدمت قرآن حضرت کی حیات کاغیر معمولی اثاثہ اور عظیم ترین سرمایہ ہے۔
٭وعظ وخطابت:
دعوت وتبلیغ کی ذمہ داری نبھانا،اصلاحی کتابیں اور مقالات لکھنااور لکھوانا،المجمع الاسلامی کی اشاعتی سرگرمیوں میں حصہ لینااور علماوطلبہ کی کتابوں پرنظرثانی واصلاحات کرنے کے ساتھ ساتھ آپ مختلف محفلوں اور مجلسوں میں اصلاحی تقریریں بھی کرتے ہیں۔ملاقات توحضرت سے پہلے بھی ہوچکی تھی مگر پہلی مرتبہ آپ کی دردبھری اور انقلاب آفریں تقریرسننے کاشرف ۲۳؍اپریل بروز اتوار ۲۰۱۶ء کوسنّی دعوت اسلامی مالیگائوں کے زیر اہتمام قائم ’’الجامعۃ القادریہ نجم العلوم‘‘میں حاصل ہوا،چنداحادیث کادرس دینے کے بعد اپنے اصلاحی خطاب میں آپ نے فرمایاتھا:
’’ سنّی دعوت اسلامی میرے نزدیک مسلک اعلیٰ حضرت کی تنظیم ہے۔اس تحریک کاکام مجھے بہت پسندآتاہے۔میں سنّی دعوت اسلامی کے ہر نیک کام کااستقبال کرتا ہوں ۔استاذ محترم حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ فرماتے تھے کہ ’’میں لوگوں کی خوبیاں دیکھتاہوں خامیاں نہیں۔‘‘ مگرآج ہم نے اُستاذالعلما ء کی فکر کو چھوڑ دیاہے اسی سبب سے ہمارے معاشرے میں بہت سی خرابیاں پیداہوگئی ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بزرگان دین کے اقوال سے استفادہ کرتے ہوئے دین اسلام کی ترویج واشاعت کی جائے۔ آج تعلیم گاہیں اور درس گاہیں بہت ہیں،ہر جگہ مولوی ،مولانااور مفتی بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ، عامل یاعالم باعمل بنانے کی جدوجہد نہیں،آپ لوگوں کی خوش بختی یہ ہے کہ آپ ایک ایسے ادارے سے وابستہ ہوجہاں تعلیم کے ساتھ تربیت بھی کی جاتی ہے۔ہندوستان میں جاری سنّی دعوت اسلامی کے مختلف مدارس کامیں نے دورہ کیاہے بحمدہ تعالیٰ ہرجگہ عمدہ تعلیم وتربیت ،نظم ونسق اور اساتذہ کی تربیتی مساعی دیکھ کر دل خوش ہواہے اور مختلف محافل و اجلاس میں ان مدارس کی کاردگیوں کوبطورمثال بھی پیش کیاہوں۔
٭شعروادب:
٭تعمیری خدمات:
آپ ہندوستان کامایۂ ناز تصنیفی واشاعتی ادارہ ’’المجمع اسلامی مبارکپور‘‘کے بانی رکن ہیں۔ اس ادارے کے قیام کاتصور حضرت نعمانی صاحب قبلہ ہی نے سب سے پہلے پیش کیاتھا۔اس ادارے کی بنیاد آپ کے چار ساتھیوں مولانامحمداحمد مصباحی،مولانایاسین اخترمصباحی، مولانا بدر القادری مصباحی اور مولاناافتخار احمداعظمی مصباحی نے سنہ ۱۹۷۶ء میں ڈالی تھی۔ حضرت نعمانی صاحب کااخلاص دیکھیے کہ آپ نے کبھی نہیں کہاکہ المجمع اسلامی کااصل بانی میں ہی ہوں۔یہ ادارہ آج اہل علم وفضل کے درمیان درجۂ اعتبار حاصل کرچکاہے اور یہاں سے دوسوکے قریب معیاری کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔اس ادارے کے ایک شعبے ’’شعبۂ تربیت تصنیف‘‘کے ذریعے درجۂ فضیلت سے فارغ طلبہ دوسال تک حضرت موصوف کی نگرانی وتربیت میں اپنے عروس فکروقلم کو سنوارتے ہیں۔ملک بھر میں متعددتعلیمی ادارے حضرت کی سرپرستی ونگرانی میں چل رہے ہیں۔
٭حوالہ جات:
(۱)اہلسنّت کی آواز،خلفائے خاندان برکات،ص؍۵۳۶تا۵۴۹،جلد۲۱،۲۰۱۴ء،از:مولانا صادق رضا مصباحی۔