حسّان الہند الحاج قاری محمد امانت رسول رضوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
ولادت
بلبل باغ رضا حضرت الحاج قاری محمد امانت رسول نوری رضوی بنشمس الفیوض الحاج محمد ہدایت رسول بن الحاج نور فیض رسول انصاری ۱۹؍محرم الحرام ۱۳۷۷ھ کو اپنے آبائی مکان محلہ بھورے خان پیلی بھییت میں پیدا ہوئے۔
نبیرۂ محدث سورتی الحاج فضل احمد شاہ مانا میاں رضوی علیہ الرحمۃ نے امانت رسول نام رکھا، اور مرشدِ اعظم حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ نے فرمایا:
محمد امانت رسول رکھتا ہوں۔
محمد فرد رضا سے (۱۳۷۷ھ) سن ولادت نکلتا ہے۔ ساڑھے چار سال کی عمر میں بسم اللہ خوانی ادا کی گئی۔
خاندانی حالات
نبیرۂ محدث سورتی الحاج فضل احمد شاہ مانا میاں رضوی پیلی بھیتی ایک مرتبہ قاری امانت رسول کے دولت کدے پر تشریف لائے اور فرمایا امانت رسول تمہارے والد الحاج ہدایت رسول بھائی کی اور میری ۱۳۲۷ھ میں ایک ہی دن کی پیدائش ہے، اور شمس الفیوض، سے ۱۳۲۷ھ سنِ ولادت نکلتا ہے۔ تمہارے داد ا محترم نور محمد ہمارے دادا مولانا شاہ وصی احمد محدث سورتی قدس سرہٗ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئےاور عرض کیا حضرت بچے کا نام رکھ دیں اتفاق ِ وقت کہ ابو الوقت مولانا ہدایت رسول نوری رضوی رام پوری بھی اس وقت تشریف فرما تھے۔ حضرت محدث سورتی قدس سرہٗ نے ان سے فرمایا کہ حضرت ان کے بچے کا نام تجویز فرمادیں۔یہ ہمارے یہاں کے حاضر باش ہیں اور بہت ہی کرم فرما ہیں۔ مولانا ہدایت رسول رضوی رامپوری نے دادا میاں محدث سورتی قدس سرہٗ سے عرض کی آپ ہی نام رکھ دیں۔ دادا میاں ان سے فرمائیں وہ دادا میاں سے کہیں۔ آخر میں مولانا ہدایت رسول نوری نے فرمایا اچھا حضرت محدث سورتی کا حکم ہے تو نام رکھ دیتا ہوں، فقیر کا نام ہدایت رسول ہے اس بچے کا نام بھی ہدایت رسول ر کھ دیجیے [1] ۔
حضرت قاری محمد امانت رسول کے والد ماجد الحاج ہدایت رسول شیری رضوی بڑے بزرگ صفت، مشائخ کرام کے حاضر باش، متبع سنت، فدائے امام احمد رضا فاضل بریلوی بلکہ فنافی الاولیاء واعلماء اگر کہا جائے تو درست ہوگا۔ نماز کے ایسے پابند کہ ٹرین میں بھی نماز قضا نہیں ہونے دی، اور اپنے فن میں ایسے ماہر کہ یکتائے زمانہ۔ گنّے کا مرتبہ،کریلےکا مرتبہ تو ان کے گھر کی ایجاد ہے۔ حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ گنّے کا مربّہ بہت پسند فرماتے تھے، اور جب کبھی الحاج ہدایت رسول رضوی خدمت بابرکت میں حاضر ہوتے تو حضور مفتی اعظم فرماتے:
گنّے والے حاجی صاحب تشریف لائے
تعلیم وتربیت
الحاج قاری محمد مانت رسول نے والد ماجد کی آغوش میں رہ کر نشو ونما پائی۔ ابتدائی تعلیم پیلی بھیت ہی میں حاصل کی، پھر ہلدوانی ضلع نینی تال تشریف لے گئے اور وہاں سے ۱۳۹۷ھ میں مدرسہ اشاعت الحق ہلدوانی سے سندِ تجوید و قراءت اور دیگر علوم کی تکمیل کی۔
اساتذۂ کرام
۱۔ حضور مفتی اعظم مولانا الشاہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ
۲۔ فقیہ الملت مولانا مفتی وجیہ الدین رضوی پیلی بھیتی
۳۔ تلمیذ حجۃ الاسلام قاری غلام محی الدین خطیب رضوی شیری ہلدوانی
۴۔ مناظر اعظم مولانا مشاہدرضا رضوی حشمتی سجادہ نشین آستانۂ رضویہ حشمتیہ پیلی بھیت
۵۔ استاذ الاساتذہ مفتی جہانگیر خاں رضوی فتحپوری
۶۔ حضرت حافظ قاری محمد عمران رضوی نوری پیلی بھیتی
بیعت وخلافت
۱۳۹۲ھ میں قاری امانت رسول حضور کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے، اور ۱۳۹۶ھ انیس سال کی عمر میں مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی نےسلسلۂ قادریہ برکاتیہ رضویہ چشتیہ نقشبندیہ سہروردیہ کی خلافت کے ساتھ ساتھ اور ادو وظائف، اعمال و اشغال اور جملہ تعویذات کی اجازت عطا فرمائی۔
۱۳۹۵ھ میں قطب مدینہ حضرت مولانا ضیاء الدین احمد المدنی رضوی نے اجازت عطا فرمائی اس کے ساتھ بہت سے انعام اکرام اور عمامہ، کلاہ عربی، جبہ اور رومال بھی عنایت فرمایا۔
۶؍شعبان المعظم ۱۴۰۳ کو سرزمین گو لاضلع پیلی بھیت پر احسن العلماء مولاناسید مصطفیٰ حیدر حسن برکاتی سجادہ نشین خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف نےتمام سلاسل وغیرہ کی اجازتیں عطا فرمائیں۔ عرس قاسمی (مارہرہ) کے موقع پر خانقاہ برکاتیہ میں مولانا سید مصطفیٰ حیدر حسن میاں برکاتی نے اپنا عمامہ شریف قاری امانت رسول کے سر پر باندھا اور فرمایا:
خلافت تو گولا میں دے چکا، دستار رہ گئی تھی وہ یہاں باندھی گئی
بعدہٗ مولانا سید حسنین میاں برکاتی نے اپنے نانا جان تاج العلماء مولانا سید اسمٰعیل حسن برکاتی کیکلاہِ مبارک اور حضت سیدی اچھے میاں برکاتی کی تسبیح شریف قاری امانت رسول کو عطا فرمائی۔
مفتی اعظم کی نواز شات
مولانا قاری امانت رسول حضور مفتی اعظم کے بہت ہی محبوب نظر ان کی بارگاہ کے مقرب ومقبول، سفر و حضر میں جب ساتھ ہوتے تو اکثر مفتیٔ اعظم قدس سرہٗ فرماتے قاری امانت رسول نعت شریف پڑھو، قصیدہ بردہ سُناؤ۔ ریحان ملت مولانا محمد ریحان رضا بریلوی فرمایا کرتے تھے:
قاری محمد امانت رسول تو شاعِر بارگاہِ مفتی اعظم ہیںؔ
جب کبھی آپ بریلی حاضر ہوتے تو حضور مفتی اعظم خصوصی کرم فرماتے، پردہ کر کے مکان میں میں اندر بلاتے، اور اپنا قلمی دیوان سامان بخشش عطا فرماکر ارشاد فرماتے اس سے نعتیں سنایئے۔ ایک مرتبہ حضور مفتی اعظم نے قاری امانت رسول کواپنا قلمی دیوان عطا فرماکر ارشاد فرمایا ابھی تک یہ دیوان چھپا نہیں ہے۔ یہ لے جائیے اور نقل کرلیجیے گا۔ ایک مہینے تک یہ قلمی دیوان آپ کے پاس رہا۔ اکثر مفتی اعظم قدس سرہٗ کو قاری امانت رسول کی نعت خونای کےدوران رقط طاری ہوجاتی تھی۔ حضور مفتی اعظم نے اپنے استعمال کردہ کرتے، صدری، پاجامہ، نعلین، چھڑی وغیرہ بھی بطور انعام عطا فرمائے۔
حضور مفتی اعظم قاری امانت رسول سے اتنی محبت کرتے تھے کہ جانشین مفتی اعظم فقیہ اسلام علامہ مفتی محمد اختر رضا خاں ازہری قادری بریلوی سے بنام قاری امانت رسول ایک خط لکھواکر بذریعہ ڈاک مدینہ طیبہ روانہ فرمایا، اس خط کے اخیر میں اپنے قلم سے یوں دستخط فرمائے۔
از فقیر قادری مصطفیٰ رضا نوری غفرلہٗ سلامِ مسنون قبول باد، ۱۲؍شوال ۱۴۰۰ھ
حج وزیارت
قاری محمد امانت رسول نے پہلی بار حج وزیارت اٹھارہ سال کی عمر میں والدین کے ساتھ ادا کیا۔ حضور مفتئ اعظم نے آپکے بارے میں قطبِ مدینہ مولانا ضیاء الدین احمد المدنی رضوی کے نام ایک والانامہ تحریر فرمایا جس کو عکسیات کے باب میں آئندہ اوراق میں ملاحظہ فرمائیں تو قطب مدینہ نے اس تحریر مبارک کو آنکھوں سے لگایا، سر پر رکھا اور بوسہ دیا بار بار فرمانے لگے وجدانی کیفیت طاری ہوگئی:
یہ خط میرے مفتی اعظم قبلہ کا ہے، یہ خط مصطفیٰ م یاں قبلہ کا ہے۔ حضرت مصطفیٰ میاں نے اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا ہے۔ سبحان اللہ! مرحبا مرحبا!
بعدہٗ مولانا ضیاء الدین احمد المدنی رضوی کی طرف سے قاری امانت رسول کو پچاس ریال عطا ہوئے، انہوں نے لینے سے انکار کیا تو قطبِ مدینہ قدس سرہٗ نے فرمایا:
میرے معاملات میں قاری امانت رسول کچھ نہ کہیں،آپ میرے حضرت کے بھیجے ہوئے ہیں اور ہمارے استادِ گرامی امام المحدثین مولانا وصی احمد محدث سورتی کے وطن سے آئے ہیں۔
آخر آپ کو بطور تبرک لینا ہی پڑے۔
ایک مرتبہ قطب مدینہ نے فرمایا آج سے ہماری محفل کی اختتامیہ دُعا قاری امانت رسول کیا کریں گے۔ آپ نے معافی چاہی لیکن محفل کے ختم پر مولانا ضیاء الدین احمد المدنی نے خود فرمایا تو آپ کو تعمیل حکم کرنا پڑی۔
دوسری مرتبہ ۱۴۰۰ھ کو ۲۳ سال کی عمر میں برادرِ معظم حافظ محمد عنایت رسول کےہمراہ مولانا مفتی جہانگیر رضوی فتح پوری کی رفاقت میں حج وزیارت سے مشرف ہوئے، اور تین ماہ سات دن مدینہ منورہ میں اقامت نصیب ہوئی۔ رمضان المبارک بھی مدینہ منورہ ہی میں گزارنے کا شرف حاصل کیا۔ اس بار قطبِ مدینہ نے قاری امانت رسول کو حمایت بابا کا لقب عطا کیا۔
بھوالی کا سفر کوائف
یکم رجب المرجب ۱۳۹۸ھ کو حضور مفتی اعظم کی اہلیہ محترمہ (پیرانی اماں چھوٹی بی صاحبہ) کے حکم پر مولانا ریحان رضا بریلوی نے پیلی بھیت اطلاع بھیجی کہ قاری امانت رسول تیار ہوکر بریلی شریف آجائیں، ۳؍رجب ۱۳۹۸ھ کو حضور مفتی اعظم بھوالی تشریف لے جائیں گے، مفتی اعظم کے ساتھ بھوالی جانا ہے۔ مفتی اعظم قدس سرہٗ نے فرمایا ہے کہ
(قاری امانت رسول کو میں اپنے ساتھ بھوالی لے جاؤں گا۔ میں ان کے پیچھے نماز پڑھ لیتا ہوں ان کو بلالیا جائے۔)
قاری امانت رسول مفتی اعظم قدس سرہٗ کے حکم پر بریلی شریف حاضر ہوئے۔ ایک کر پر پیرانی اماں صاحبہ اور مولانا ریحان رضا رضوی بریلوی وغیرہ اور دوسری کار پر حضور مفتی اعظم اور قاری امانت رسول وغیرہ ۵؍رجب المرجب کو بھوالی تشریف لے گئے۔ قیام بھوالی کے دوران تعویذ لینے والوں کا ہجوم لگ جاتا تھا۔
بھوالی بازار سے ایک غیر مسلم آیا۔ اس نے عرض کیا حضور دوکان نہیں چلتی۔ حضور مفتی اعظم نے فرمایا ‘‘سفلی کا عمل کیا گیا ہے، قاری امانت رسول ان کو اعداد میں یا فتاح کا تعویذ لکھ دیجیے’’ قاری امانت رسول نے عرض کیا کہ حضور میں تعویذ لکھنا نہیں چاہتا ہوں، فرمایا کاغذ قلم لایئے۔ کاغذ قلم حاضر کیا تو مفتی اعظم قدس سرہٗ نے تعویذ لکھ کر بتایا اور چال کے لیے اعداد ڈال دیئے اور فرمایا بس ایسے ہی لکھ کر لایئے۔ آپ نے ویسے ہی لکھ دیا، مفتی اعظم نے دم فرماکر دے دیا۔ مفتی اعظم قدس سرہٗ کے پاس جو تعویذ لینے آتا، فرماتے قاری امانت رسول ان کو فلاں کا، انکو فلاں کا تعویذ لکھ دو۔ آپ تعمیل حکم کرتے۔
سندِ قرآن
دورانِ قیام بھوالی دوبارہ سند اجازت وتاریخ سنہ وغیرہ نیز دربھوالی ضلع نینی تال بھی اپنے قلم سے لکھ کر عنایت فرمائی۔ قیام بھوالی میں قاری امانت رسول نے حضور مفتی اعظم کے حکم پر کچھ پارے قرآن شریف کے سنائے تو مفتی اعظم قدس سرہٗ بہت ہی م سرور ہوئے اور سندِ قرآن تحریر فرمائی۔
عقدِ مسنون
۱۰؍رجب المرجب چہار شنبہ ۱۴۰۲ھ کو قاری امانت رسول کا موضع چیر یابازار ضلع بہارئچ شریف میں حسب الانتخاب وحسب الحکم مفتی اعظم عالی جناب محمد شفیع انصاری رضوی کی صاحبزادی کے ساتھ عقدِ مسنون ہوا۔ جانشین مفتی اعظم علامہ مفتی محمد اختر رضا ازہری قادری بریلوی دامت برکاتہم القدسیہ نے نکاح پڑھایا۔ دو صاحبزادیہ ہیں۔ کنیز رسول حمیرا بانو (۱۴۰۳) تاریخی نام غزالہ نشاط، کنیز حویرا بانو تاریخی نام غزالہ نوازش (۱۴۰۷ھ)
تصانیف
حضرت قاری محمد امانت رسول بڑی خوبیوں کے مالک ہیں، تبلیغی دوروں کے ساتھ ساتھ فلمی خدمات بھی انجام دے رہےہیں، مندرجہ ذیل کتب آپ کی صلاحیتوں وخوبیوں کی حامل ہیں:
۱۔ اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں انصاریوں کا مقام
۲۔ تجلیات امام احمد رضا (۱۹۸۰ء)
۳۔ پندرھویں صدی کے مجدد
۴۔ بیاض قادری ونوری (قلمی)
۵۔ بہار بخشش (نعتیہ دیوان قلمی)
نمونۂ کلام
مولانا قاری محمد امانت رسول کو شعر گوئی سے بھی شغف ہے، ابتداءً مولانا قاری غلام محی الدین رضوی خطیب ہلدوانی سے اصلاح لیتے بعدہٗ مفتی اعظم قدس سرہٗ سے اصلاح لی۔ نمونے کے لیے چند شعر ملاحظہ ہوں:؎
حاضر وہی ہوتا ہے دربارِ رسالت میں ؔ
بلواتے ہیں جس کو بھی سرکار مدینے میں
کیا خوب وہ منظر ہے جالی سے ہر اک لمحہ
چھن چھن کے برستے ہیں انوار مدینے میں
ہے مفتئ اعظم کا یہ فیض امانت پر
رمضان ملے سحروافطار مدینے میں
خلفاء
۱۔ مولانا الحاج محمد الیاس قادری رضوی ضیائی امیرِ جماعت دعوتِ اسلام پاکستان۔
۲۔ مولانا صوفی عاشق علی رضوی انصاری صدر مدرس نوری رضوی دار العلوم گولا لکھیم پور
۳۔ مولانا صوفی احمد حسین نوری متہمم جامعہ رضویہ سراج العلوم لکھیم پور
۴۔ مولانا عبد المعید رضا نوری ٹانڈوی
۵۔ مولانا محمد ایوب رضا نوری موسیٰ پوری
تلامذہ
۱۔ مولانا محمد عباس اشرفی خطیب مسجد قریشیان پیلی بھیت شریف
۲۔ شہزادۂ شیر بیشۂ اہلِ سنت مولانا محمد ادریس رضا حشمتی پیلی بھیتی
۳۔ مولانا عبد المعید رضا قریشی رجوی ٹانڈوی
۴۔ حافظ سید ابرار علی سجادہ نشین آستانۂ وزیریہ ڈھکی
۵۔ حافظ قاری شمشاد حسین رضوی دارالعلوم احمدیہ حنفیہ جامعہ مسجد پیلی بھیت
۶۔ حافظ محمد مقبول احمد نوری
۷۔ حافظ قاری مخدوم میاں رضوی
وصال:
11، مئ 2021ء بمطابق 28 رمضان 1442