سعید ملت شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ کے رخ حیات کی چند جھلکیاں
مضمون نگار: اولیاء اللہ کا مختصر تعارف
دور حاضر کے محققین علماء اور محدثین میں ایک نام جناب علامہ غلام رسول سعیدی صاحب کا بھی ہے، علامہ صاحب کی تصانیف میں قران پاک کی فقید المثال تفسیر \"تبیان القران\" جو13 جلدوں پر مشتمل ہے،
اور بخاری شریف کی شرح \"نعمتہ الباری/نعم الباری\"17 جلروں اور مسلم شریف کی
\\\"شرح صحیح مسلم\\\" 8 ضخیم مجلدات پر مشتمل ہے ۔ آپ کی تصانیف اور تفاسیر، اور تراجم انتہائی سلیس اردو زبان میں ہیں اور علامہ صاحب کے تصانیف کی خاص بات یہ هے کہ پرائمری تک پڑها ہوا بچہ بھی آپکی تصانیف باسانی پڑھ اورسمجھ سکتاہے جو کہ موجودہ دور کی ضرورت بھی ہے۔
مفسر قرآن شارح صحیحین علامہ غلام رسول سعیدی مدظلّہ 10 رمضان المبارک 1356 ھ مطابق 14 نومبر 1937بروز جمعہ دہلی \\\"بهارت\\\" میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پنجابی اسلامیہ ہائی اسکول،\\\" دہلی\\\" میں حاصل کی۔ قیام پاکستان کے موقع پر ہجرت فرمائی اور 1947 میں پاکستان تشریف لے آئے اور کراچی میں قیام فرمایا۔ کراچی آنے کے بعد کچھ تعلیمی سلسلہ جاری رہا، لیکن پھر حالات کی ستم ظریفی کا مقابلہ کرنے کے لئے حصول معاش کیلئے کمر کسلی، لیکن اللہ ربّ العزت کو یہ منظور نہ تھا۔ اس لئے 21 سال کی عمر میں جب علامہ غلام رسول سعیدی کراچی میں واقع آرام باغ کی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرتے تو درود و سلام کی صدائیں قلب کو جھنجھوڑ ڈالا۔ آپ نے مطالعہ قرآن شروع کیا لیکن جو ترجمہ میّسر آیا اس میں بعض مقامات پر عظمت رسالت کے حوالے سے نازیبا الفاظ آپ کے ذہن کو چبھتے جس پر آپ مضطرب ہوگئے، اسی طرح قرآن و حدیث کو جاننے کا ایک نیا ولولہ مزید جنون پکڑگیا، تو آپ نے اعلٰی حضرت جناب احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمہ کنزالایمان کا مطالعہ شروع کیا، اور مزید علم کی پیاس بجھانے کے لئے جامعہ محمودیہ رضویہ رحیم یار خان جا پہنچے۔ وہاں کے مہتمم مولانا محمد نواز اویسی تھے اس وقت، انھوں نے آپ کو علم و عمل کا پیاسا پا کر مولانا عبدالمجید اویسی کے حوالے کر دیا ۔ اُن سے پھر آپ نے
صرف و نحو، اور
ادب و فقہ
کی چند کتابیں پڑھیں۔ بعد ازاں جامعہ نعیمیہ لاہور تشریف لے گئے، وہاں مفتی محمد حسین نعیمی رحمۃ اللہ علیہ سے آپ نے
\\\"قطبی،
شرح جامی،
سلم العلوم،
بدایۃ الحکمت
اورتفسیر جلالین پڑھی
جبکہ علامہ مفتی عزیز احمد بدایونی سے
تلخیص المفتاح کے اسباق پڑھے۔
علم کی مزید طلب آپ کو رئیس المناطقہ استاد المدرسین حضرت علامہ عطا محمد بندیالوی چشتی کے تک لے گئی، اُن سے
معقول و منقول کی کئی کتابیں
مختصر المعانی ،
قاضی مبارک ،
حمد اللہ ،
شمس بازغہ،
صدر خیالی،
مطوّل،
مسلم الثبوت،
توضیح التلویح اور
فقہ میں ہدایہ آخرین اور
حدیث شریف میں مشکوٰۃ المصابیح اور
جامع ترمذی کو بالالتزام پڑھا ۔
اسکے علاوہ جامعہ قادریہ فیصل آباد کے مولانا ولی النبی صاحب سے اقلیدس اور
تصریح پڑھی
جبکہ مولانا مفتی مختار حق صاحب سے
\\\"سراجی\\\" پڑھی۔
باقی علامہ غلام رسول سعیدی صاحب کی تصانیف کی مکمل تفصیلات ذکر کرنا ضروری سمجھوں گا۔۔۔۔
تفیسیر بے بدل\\\" تبیان القران\\\" 13 جلدیں ----
\\\"شرح صحیح بخاری\\\" ---\\\"نعمتہ الباری/نعم الباری\\\" 17 جلدیں
\\\"شرح صحیح مسلم\\\" -------8 ضخیم جلدیں
اس کے علاوہ
تذکر تہ المحدثین
توضیح البیان (آپکی سب سے پہلی کتاب)
مقالات سعیدی
مقام ولایت ونبوت
اعلی حضرت کا فقہی مقام (مقالہ )
ذکر با الجہر
حیات استاذالعلماء
ضیائے کنزالایمان
معاشرے کے ناسور
شان الوہیت
اور اب قران کریم کی 1 اور تفسیر بنام
تبیان الفرقان پر کام کر رہے ہیں
پہلی جلد زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آگئی ہے
آپ لوگوں سے گزارش ہے کہ علامہ صاحب کی تفسیر \\\"تبیان القران\\\"اور تبیان الفرقان ضرور علم و عمل کیلئے حاصل کریں۔ جس مین ہر آیت کے نیچے احادیث ہی احادیث ہیں، او رپھر اقوال محدثین، اور اور اقوال علماۓ جدید و قدیم شامل ہے، یعنی علم و ہدایت کا خزانہ معلوم ہوتا ہے۔
علامہ غلام رسول سعیدی صاحب کی دینی خدمات پرصدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ممنون حسین صاحب کی جانب سے آپکو تمغہ امتیاز دیا گیا۔تمغہ امتیاز گورنرهائوس کراچی میں 23 مارچ کو دیا جانا تھا۔آپ علیل هونے کی وجہ سے گورنر ہائوس نہیں گئے اور تمغہ امتیاز آپکی رہائشگاہ دارالعلوم نعیمیہ کراچی میں آپکو دیا گیا۔
علامہ غلام رسول سعیدی اپنے عہد کےامام المحدثین و المفسرین تھے ۔ مرجع علما و خواص تھے ۔ ان کی تدریسی زندگی پاس کو محیط ہے ۔ آپ کے تلامذہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ نے دارالعلوم نعیمیہ کراچی میں 32 سال تک شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہ کر تشنگانِ علوم نبویہ کی سیرابی فرمائی۔ ادھر کچھ عرصہ سے آپ کافی علیل چل رہے تھے ۔ مرضیِ مولا از ہمہ مولا کے مصداق طویل علالت کے بعد آپ بہ عمر 80 سال 26 ربیع الآخر 1437 ھ مطابق 6 فروری 2016 ء اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے۔
ان للہ وانا الیہ راجعون ۔۔۔۔۔اللہ آپ کے درجات بلند تر فرمائے ۔۔۔۔اور دعا ہے کہ کہ وہ ہمیں علماۓ حق کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرماۓ، اور اس جہالت کے دور میں اہل علم و اہل حق کے ساتھ جوڑے رکھے، آمین، ثم آمین