مجددالفِ ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:
اسمِ گرامی:
شیخ احمد۔کنیت:ابوالبرکات۔القاب:بدرالدین،امامِ ربانی،مجددالفِ ثانی،قیومِ زمان،وغیرہ ہیں۔
سلسلہ نسب اس طرح ہے:آپ کاشجرۂ نسب امیرالمؤمنین حضرت سیدناعمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےاس طرح ملتا ہے،شیخ احمدبن شیخ عبدالاحدبن شیخ زین العابدین بن شیخ عبدالحی بن شیخ محمد بن شیخ حبیب اللہ بن شیخ رفیع الدین بن شیخ نصیرالدین بن شیخ سلیمان بن شیخ یوسف بن شیخ اسحاق بن شیخ عبداللہ بن شیخ شعیب بن شیخ احمد بن شیخ یوسف بن شیخ شہاب الدین علی الملقب بہ فرخ شاہ بن شیخ نصیرالدین بن شیخ محمود بن شیخ سلیمان بن شیخ مسعود بن شیخ عبداللہ الواعظ الاصغر بن شیخ عبداللہ الواعظ الاکبربن شیخ ابوالفتح بن شیخ اسحاق بن شیخ ابراہیم بن شیخ ناصر بن شیخ عبداللہ بن عمر بن حفص بن عاصم بن عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔
تاریخِ ولادت:
آپ کی ولادت باسعادت بروز جمعۃ المبارک 14/شوال المکرم 971ھ،مطابق مئی/1564ءکوسرہند شریف میں ہوئی۔
تحصیلِ علم:
جب آپ سنِ تعلیم کوپہنچےتوآپ کومکتب میں داخل کردیا گیا۔بعدازاں اکثر علوم متداولہ والد بزرگوارسےحاصل کرکےسیالکوٹ تشریف لےجاکرمعقولات کی بعض کتابیں حضرت مولانا کمال کشمیری رحمۃ اللہ علیہ اور حدیث کی بعض کتابیں مولانا یعقوب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھیں۔الغرض آپ سترہ سال کی عمر میں علوم ظاہری کی تحصیل کے سب مرحلے طے کر کے اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوکرتدریس میں مشغول ہوگئے،اورطلبہ کواپنی برکات سےبہرہ ور فرماتے رہے۔اسی اثنامیں آپ نےعربی فارسی میں متعددرسالےنہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ تحریرفرمائے۔بہت سےمؤرخین نے لکھا ہے کہ آپ نے بچپن میں قرآنِ مجید حفظ کرلیا تھا۔لیکن آپ کے ایک مکتوب سےمعلوم ہوتا ہے کہ یہ دولت قلعہ گوالیارمیں نظربندی کے زمانے میں حاصل ہوئی۔(سیرت مجددالفِ ثانی:84)
بیعت وخلافت:
سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت خواجہ باقی باللہ علیہ الرحمہ سےبیعت ہوئے،اور خلافت سےسرفرازہوئے۔سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت شاہ سکندر علیہ الرحمہ سے اجازت وخلافت حاصل تھی۔سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ میں اپنے والدِ گرامی شیخ عبدالاحد سے اجازت وخلافت حاصل تھی۔سلسلہ عالیہ سہروردیہ میں اپنے استادِ محترم مولانا شیخ یعقوب کشمیری علیہ الرحمہ سے اجازت وخلافت حاصل فرمائی۔حضرت مجدد کو تمام سلاسل میں خلافت حاصل تھی لیکن سلسلہ عالیہ نقشبندیہ سے آپ کو خاص لگاؤ تھا۔آپ ہی کے دم سے اس سلسلے کو پاک وہند میں اور دیگر ممالک میں فروغ حاصل ہوا۔
سیرت وخصائص:
عالی مرتبت،عظیم البرکت،قیومِ ملت،خزینۃ الرحمت،محدث رحمانی،غوث صمدانی،امام ربانی،مجددالف ثانی،حضرت ابو البرکات شیخ احمد فاروقی نقشبندی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ کے والد بزرگوار کا بیان ہے کہ آپ کی ولادت سے پہلے میں نے خواب میں دیکھا کہ تمام جہان میں ظلمت پھیل گئی ہے۔سُور،بندراورریچھ لوگوں کوہلاک کر رہےہیں،اسی اثناء میں میرے سینے سے ایک نور نکلااور اُس میں ایک تخت ظاہر ہوا۔ اُس تخت پر ایک شخص تکیہ لگائے بیٹھا ہے اور اُس کےسامنےتمام ظالموں،زندیقوں اور ملحدوں کوبکرے کی طرح ذبح کررہےہیں اورکوئی شخص بآواز بلند کہہ رہا ہے:وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُط اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا۔"اورفرمادو!سچ آگیا اور باطل مٹ گیا بے شک باطل مٹنےوالا ہے"۔اس خواب کی تعبیرحضرت قدس سرہ نے شاہ کمال کیتھلی رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کی۔ انہوں نے فرمایا کہ تمہارے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا جس سےالحادو بدعت کی تاریکی دُور ہوگی۔ یہ تعبیربالکل درست نکلی۔
واقعی ایساہوا اللہ جل شانہ نے حضرت مجددکواپنے دین کی خدمت کے لئےچن لیاتھا۔صبرو شکر،تسلیم ورضاحسبِ حال ہرایک کی تعظیم،لوگوں پر شفقت،صلۂ رحمی،اربابِ حقوق کی رعایت،مریضوں کی عیادت،سلام میں سبقت،کلام میں نرمی آپ کا شیوۂ حسنہ تھا۔ آپ کاطریقۂ عمل برعزیمت تھا۔عبادات و عادات میں نہایت احتیاط اور سنت کاکمال اتباع ملحوظ تھا۔آج یہودونصاریٰ صوفی ازم کی بات کرتے ہیں،اوران کےسرمائے سے"انٹرنیشنل صوفی کانفرنسز"کاانعقاد کیا جارہاہے۔اس میں پلپلے،جاہل،دین وملت فروش نام نہادصوفیوں کی بھرمار ہوتی ہے۔جن کے ہاں دینِ اسلام کی ثانوی حیثیت بھی ’نہیں ہے۔ان کی صورت وسیرت اس بات کی گواہی دے رہی ہوتی ہیں۔
آئیے !اس صوفی کی بات کرتےہیں،جو امام الاولیاء ہے،دین کا محافظ ہے،قرآن کاحافظ ہے،اسرارِ خداوندی کاامین ہے،مصطفیٰ کریمﷺکی سنتوں کا عامل ہے،عالمِ ربانی ہے ،اوروہ مجدد الفِ ثانی ہے۔مغل شہنشاہِ اکبر کےعہدِ حکومت میں اسلام کےسرسبزو شاداب چمن پرایک بارپھرکفروالحاد،زندقہ اوربدعت و ضلالت کی گھٹاٹوپ آندھیاں چھاگئیں۔اس نےدینِ حنیف میں ترمیم کرکےایک نئےدین کی بنیادرکھی’’دین الٰہی’’ٖکےنام سےایک ایسا مذہب ایجادکیاگیاجوشریعتِ محمدیہ علیٰ صاحبھاالصلاۃ والسلام کےسراسرمخالف اور قرآن و سنت سےانکاروانحراف کےمترادف تھا۔دینِ اسلام کی صداقت و عظمت کاوہ چراغ جو ایک ہزارسال سےروشن تھا،شاہِ وقت،علمائےسوء،اورجاہل صوفیوں کےہاتھوں ٹمٹمانےلگا۔دینِ اسلام کی حالت زار جوشہنشاہِ اکبراور اس کےبعدجہانگیرکےہاتھوں رہی تھی۔ اس کی طرف اشارہ حضرت مجدد الف ثانی نےاپنےایک خط میں جوانہوں نےجہانگیر کےایک مقرب کولکھا،یوں بیان فرمائی:"اسلام کی بےکسی کایہ حال ہےکہ کفارکھلم کھلااس پرطعن توڑتےہیں اوراسلام کےنام لیواؤں کی مذمت کرتے ہیں۔ وہ ہرکوچہ و بازارمیں بےخوف وخطرکفرکےاحکام جاری کرتےاورکفارکی مدح و ستائش کرتےہیں،مسلمان اسلامی احکام کی بجا آوری سے قاصراور شریعت محمدیہ پر عمل پیرا ہونے سےعاجزہیں’’۔(ایضاً)
دینِ اکبری کورعایاکےتمام طبقوں کےلئےقابلِ قبول بنانےکےلئےعقیدۂ توحیدمیں اس قدرترمیم کی گئی کہ ہندوؤں کی بت پرستی،مجوسیوں کی آتش پرستی اور ویدوں میں بیان کردہ فلسفیانہ موشگافیوں کونئےدین میں سمیٹ لیاگیاہے،اس طرح اکبر کا"دینِ الٰہی"مختلف مذاہب کےعقائدوخیالات کا ایک ملغوبہ بن گیاتھا۔کتاب اللہ اورسنت رسول اللهﷺجودین کی اصل بنیادتھی،وہ طاقِ نسیاں پررکھ دی گئیں،سورج کی پرستش چاروں طرف لازمی قرار دی گئی،آگ،پانی،درخت اور گائےکوپوجناجائزٹھہرا،اکبرہرروزخودصبح اُٹھ کرسورج کی پرستش کرتا،اس کےبعدمشتاقانِ دیدکےلئے دیوانِ عام میں آبیٹھتاتھا،لوگ شہنشاہ کےلئےسجدہ تعظیمی بجا لاتےجسےاس وقت کےدین فروش ملاؤں نےجائزقراردیاتھا۔اس کےبرعکس اسلامی شعائرکودرخورِاعتنانہ سمجھاگیااوربادشاہ کویہ بتلایا گیاکہ دینِ اسلام ایک ہزارسال گزرجانےکےبعدنعوذ باللہ بالکل اسی طرح بےکاراورناکارہ ہوگیاہے،جس طرح کہ اسلام سےپہلےکےمذاہب اقتدارِزمانہ کےہاتھوں معطل ہو چکے ہیں۔
ہندوعورتوں سےشادیاں کرلینےکےبعداکبرکےدِل میں ہندوؤں کےلئےنرم گوشہ پیداہوگیاتھا۔حکومت کےبڑےبڑےعہدوں پرہندوفائزتھے،اپنے اقتداراورشاہ وقت کی نظرِعنایت نےانہیں اس قدردلیرکر دیاتھاکہ وہ مسلمانوں کی ہر آن ہرلمحہ دل آزاری کرتے،مسجدیں شہید کر کےوہاں مندربنائےگئے،ہندوؤں کےبرت کادن آتاتومسلمانوں کودن میں کھانےپینےسےحکماًروک دیا جاتا،انہیں حکم ہوتا کہ ان کے چولہوں میں آگ نہ جلے۔لیکن جب رمضان المبارک آتا توہندوسرِعام کھاتے،رمضان کی عزت وحرمت کی حفاظت کےلئےبادشاہ کوئی فرمان جاری نہ کرتا تھا۔حالات اس حد تک ناساز گارتھےکہ دین کےپنپنےکی کوئی اُمید نظرنہ آتی تھی۔مگرہمیشہ یہ ہواکہ جب بھی دین اسلام پرکوئی آزمائش کاوقت آیا رحمتِ حق میں ارتعاش پیدا ہوا۔ دین حق کی حفاظت کے لئےکوئی نہ کوئی ہستی ان تِیرہ و تاریک فضاؤں میں نمودار ہوئی جس کی نورانی کرنوں سے کفر و الحاد کی تاریکیاں چھٹ گئیں جس کی ضیاءبار تابانیوں سےبدعت وضلالت کی آندھیاں ڈھل گئیں جس کی ضَوفشاں شعاعوں سے زند قت کے اندھیرے بھی منور ہوئے اور توحید و سنت کی مشعلیں چمک اُٹھیں۔
جب کفروشرک،بدعت و ضلالت اورزندقہ و الحادکی آندھیاں اپنی تمام تاریکیوں سمیت ہندوستان کی فضا ءپر چھا گئیں تو آسمانِ ’’سر ہند’’پر سنت و ہدایت کا آفتاب طلوع ہواجس کو لوگ شیخ احمدسر ہندی کےنام سےموسوم کرتےہیں۔اس آفتاب کی ضیاءپاشیوں سےظلمت وگمراہی کےاندھیرے کافور ہوئے،اکبر نےجس دین کی بنیادرکھی تھی اور اعوان و انصارِ حکومت جس کی تبلیغ میں ہمہ تن مصروف تھے،حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نےاس کو بیخ و بن سے اُکھاڑنےکاتہیہ کیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حق اپنی تمام جلوہ سامانیوں سے طلوع ہوتا ہے۔ تو باطل کافور کی مانند تحلیل ہو جاتا ہے۔بادشاہ کورعایہ سجدہ کرتی تھی۔جب حضرت مجدد الفِ ثانی جہانگیرکےدربارمیں پہنچے،اس کوبھی آپ سےیہی توقع تھی،لیکن آپ نےسجدہ کرنےسےانکارکردیا۔آپ نےفرمایا اللہ جل شانہ کی ذات کےعلاوہ سجدہ کسی کےلئےجائزنہیں ہے،فرمایا:یہ گردن کٹ تو سکتی ہے لیکن باطل کے آگے جھک نہیں سکتی۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں: ؎
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیٔ احرار
بادشاہ کودرباریوں نےقتل پہ ابھارا،جو شہنشاہ کوسجدہ نہ کرےوہ قتل کامستحق ہے۔لیکن بادشاہ کو قتل کی جرأت نہ ہوئی۔آپ کو"قلعہ گوالیار"میں نظربندکردیا۔آپ نےان حالات میں بھی سلسلہ تبلیغ جاری رکھا ۔بالآخر آپ کی کوششیں رنگ لائیں۔جواسلام پرپابندیاں تھیں وہ ختم کردی گئیں،اسلام کا بول بالا ہوگیا۔ہرطرف اسلام کی بہاریں پھر نظر آنے لگیں۔یہ تھے حقیقی صوفیاء ۔
آج بھی پھروہی حالات ہیں،اسلام کے نام پر قائم ہونے والےاس ملک میں اسلام قبول کرنےپرپابندی لگادی گئی،غیرمسلموں کے تہواروں کو خصوصی طورپرمنایاجانےلگا،ہولی اوردیوالی پرعام تعطیل ہونےلگی۔مندروں اورگرجاگھروں کی تعمیروسرپرستی حکومتی وزراءکررہے ہیں۔زنا،قمار،شراب،وغیرہ کےحکومت کی طرف سےلائسنس جاری ہورہےہیں۔ناچ ڈانس،گانےباجے،بےحیائی کے کاموں کو"ثقافت "کہا جانے لگا۔ان دھندوں سےوابستہ افرادکو "ہیرو "کہا جانے لگا۔اسلام کےنام پرقائم ہونےوالےملک میں کفارکانظام نافذہے۔اسی طرح حال ہی میں "دارالعلوم دیوبند"کا "فتویٰ"آیا ہےجس میں"گائے"کی قربانی کرنےسےمنع کیاگیاہے۔معلوم نہیں ان"فتویٰ فروشوں"نےکس دلیل سےمنع کیا ہے۔ہندوستان میں صرف گائےکےگوشت کےشبہ کی بناءپردن دہاڑےمسلمانوں کوجان سےماردیاجاتاہے۔برمااوردیگرممالک میں مسلمانوں کےحالات ناگفتہ بہ ہیں،کوئی پرسانِ حال نہیں۔الغرض اس وقت جہان میں خونِ مسلم سےارزاں کوئی اورچیزنہیں ہے۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی حالتِ زار پر رحم فرمائے،پھرسے امت کی راہنمائی کےلئےکوئی اور شیخ سرہندی و صلاح الدین ایوبی عطاء فرمائے،اورمسلم حکمرانوں کو حمیّتِ دینی عطاء فرمائے۔(آمین)
وصال:
بروز پیر 29/صفرالمظفر1034ھ،مطابق جنوری/1625ءکو وصال فرمایا۔آپ کامزار پرانوار سرہند شریف (انڈیا)میں مرکزِ انوار وتجلیات ہے۔
ماخذمراجع: تاریخ مشائخِ نقشبندیہ۔سیرت مجددالفِ ثانی۔
حکیم الامّت حضرت علامہ اقبال علیہ الرحمہ تربتِ اطہر کے بارے میں یوں فرماتے ہیں:
وہ خاک کہ ہے زیرِ فلک مطلعِ انوار
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمئِ احرار
اللہ نے بر وقت کیا جس کو خبردار
حاضر ہوا میں شیخِ مجدّد کی لحد پر
اس خاک کے ذرّوں سے ہیں شرمندہ ستارے
گردن نہ جُھکی جس کی جہانگیر کے آگے
وہ ہند میں سرمایۂ ملّت کا نگہباں