حضرت ابوبکر شبلی رحمتہ اﷲ علیہ Hazrat Abubakar Shibli Life Story ||Hazrat Abu Bakar Shibli ka Mazar Aur Waqia

  شیخ ابوبکر شبلی (ولادت 247ھ) جوشيخ الكبير، العارف الخطير، ذو الفضل الجلی کے القاب سے مشہور ہیں



جب حضرت ابوبکر شبلی رحمتہ اﷲ علیہ نے نہاوند کی گورنری چھوڑ کر درویشی کا راستہ اختیار کیا تو سیدھے حضرت جنید بغدادی رحمتہ اﷲ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کی کہ میں آپ کی صحبت میں رہنا چاہتا ہوں۔ حضرت جنید رحمتہ اﷲ علیہ نے آپ کو اس بات کی اجازت مرحمت فرما دی۔ چونکہ حضرت ابوبکر شبلی رحمتہ اﷲ علیہ نے گورنری کا عہدہ چھوڑ کر درویشی کا راستہ اپنایا تھا اس لیے حضرت جنید بغدادی رحمتہ اﷲ علیہ نے آپ کے مزاج سے گورنری کی بونکالنے اور طبیعت میں عجزو انکساری پیدا کرنے کی غرض سے آپ کے ذمہ یہ کام لگا دیا کہ آپ ہر روز لوگوں سے بھیک مانگ کر لایا کر یں۔ چنانچہ مرشد کے فرمان کے مطابق حضرت ابوبکر شبلی رحمتہ اﷲ علیہ ہر روز بھیک مانگنے کے لیے نکل کھڑے ہوتے اور سارے دن میں جو کچھ بھی اکٹھا ہوتا وہ لا کر فقیروں اور مسکینوں میں بانٹ دیتے اورخود بھوکے رہتے‘ بھیک مانگنے کے دوران آپ کو بڑی تنگی کا سامنا کرنا پڑتا۔ کیونکہ آپ کو شہر کے سب لوگ خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ آپ نہاوند کے گورنر رہ چکے ہیں اور وہ اس بات کو بھی جانتے تھے کہ آ پ حاجت مند نہیں ہیں۔ چنانچہ آپ کو کچھ دینے کے معاملہ میں لوگ گریز کرتے مگر پھر بھی اس قدر مشکل کے باوجود آپ کچھ نہ کچھ مانگ کر لے ہی آتے۔ جب اس کام کو ایک مدت گزر گئی تو ایک دن حضرت جنید بغدادی رحمتہ اﷲ علیہ نے آپ سے پوچھا‘ اے ابوبکر شبلی رحمتہ اﷲ علیہ اب بتاو ¿ کہ تمہارا نفس کس مرتبہ پر ہے؟ جواب دیا‘ اب میں اپنے آپ کو تمام لوگوں سے ادنیٰ درجہ پر پاتا ہوں۔

نام

ابو بکر شبلی جنید بغدادی کے شاگرد رشید تھے۔ کنیت ابوبکر لقب شبلی تھاآپ کاپورانام دنف بن جحدر[3] خراسانى تھا۔ بعض مؤرخین آ پ کا نام جعفر بن یونس بتاتے ہیں کیونکہ یہی نام آپ کے سنگ تر بت پر کندہ تھا۔


شبلی نسبت

’’شبلہ‘‘ نام کا ایک گاؤں ماوارء النہر علاقے میں وادی فرغانہ میں تھا، آپ کے خاندان کا اسی گاؤں سے تعلق تھا۔ اسی لیے آپ شبلی کہلائے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آ پ کا خاندان مصر سے آیا تھا، لیکن یہ روایت کمزور ہے، بہر حال آپ خود بغداد (یا سامرا) میں پیدا ہوئے وہیں پروان چڑھے۔ سامرا اس زمانے میں دار الخلافہ تھا۔ آپ کے والد عرض بیگی کے عہدے پر مامور تھے۔


ابو بکر شبلی ؒ کا علمی مقام

ابو بکر شبلی نے متداول علوم بڑی تندہی سے سیکھے، فقہ مالکیہ میں تبحر حاصل کیا اور احادیث کی کتابت بھی کی۔ امام مالک کی مؤطا پوری کی پوری یاد تھی لیکن ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ ہی ان میں توحید اور خداشناسی بھی پیدا ہو چکی تھی اور انکشاف باطن کی جستجو بھی تھی لیکن خاندانی حالات کے سبب انہیں شاہی ملازمت میں داخل ہونا پڑا اور خاندانی کار نامو ں کے صلے میں نہاوند کے والی مقر ر ہوئے۔ ایک دن انھوں نے یہ طوق غلامی اتار پھینکا، گناہو ں سے توبہ کی اور تلاش حق میں نکل کھڑے ہوئے۔ لوگوں نے خیر نسّاج کا پتہ بتایاجو بغداد ہی میں رہتے تھے۔ وہ وہاں پہنچے اور خیر نساج کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں اور معصیتوں سے توبہ کی۔ نسّاج بڑے صاحب معرفت بزرگ تھے، انھوں نے محسوس کیاکہ شبلی کے ذوق وشوق، ان کی طبیعت کے جوش وخروش، ان کے عزم وہمت اور پھر ان کے علم وفضل کاتقاضاہے کہ وہ حضرت جنیدؒ کی صحبت وخدمت میں رہیں، چنانچہ انھوں نے انھیں جنید بغدادی کے پاس بھیجا۔ تذکرۃ الاولیاء میں روایت ملتی ہے کہ جب شبلی خیر نسّاج کے پیام کے ساتھ جنید بغدادی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سامنے ہوتے ہی عرض کی: ’’لوگوں نے آپ کے ساتھ گوہر مراد کاپتا دیا ہے۔ یو ں ہی عطا ہو گا یا قیمت سے؟‘‘ جنید بغدادی نے ان کی صورت دیکھ کر فرمایا: ’’بچے! تم لے نہ سکو گے کیونکہ وہ بہت گراں ہے اور تمہارے پاس اتناسر مایہ نہیں۔ اگرمفت دے دوں تو تمہیں اس کی قدر نہ ہو گی، ہاں اگر جوانمردوں کی طرح اس دریا میں سر کے بل غوطہ لگاؤ گے اور صبر وانتظار سے جستجو کرو گے تو وہ گوہر مراد ہاتھ آجائے گا۔ ‘‘ چنانچہ جنید بغدادی نے شروع ہی سے بڑی سخت محنت لی، انھیں نہاوند بھیجا، جہاں کے لوگوں پر انہوں نے حکومت کی تھی اور کہا کہ ایک ایک فرد سے پوچھ کر معلوم کریں کہ اگر انہوں نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہے تو و ہ انہیں معاف کر تا ہے یانہیں، انہوں نے اس حکم کی تعمیل کی، پھر جنید بغدادی نے ان سے بازار میں کبریت بچوائی، دریوزہ گری کرائی اور اس طرح ان کے نفس کو مشیخت اور جاہ طلبی کے ہر شائبے سے پاک کیا۔ پھر تو ایسا ہو ا کی جنید بغدادی کی تربیت نے انھیں کندن بنادیا اور عشق الہی میں وہ اس طرح زمزمہ پرواز ہوئے کہ ہمہ وقت اللہ کا نام لیتے اور اگر کسی اور کے منہ سے یہ نام سنتے تو اس کا منہ شکر سے بھر دیتے۔ جنید بغدادی|ان کی سر شاری وبے خودی کے باوجود انہیں بہت پسند کرتے تھے، اکثر فر ماتے : ’’شبلی ہمیشہ سر شا رہی رہتاہے۔ اگر وہ کچھ ہو ش میں رہنے لگے تو ایک ایسا امام ثابت ہو سکتا ہے جس سے ایک خلق کو فیض پہنچے، حضرت شبلیؒ کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ ہر طرف پکارتے پھرتے تھے کہ ’’شامت ہے اس کی جسے نہ پانی ڈبوتاہے اور نہ آگ جلاتی ہے، نہ درندے پھاڑتے ہیں اور نہ پہاڑ ہلاک کرتے ہیں۔ ‘‘ پھر اندر کی آواز کہتی کہ ’’جو خدا کا مقبول ہو اسے کوئی دوسرا قتل نہیں کر سکتا۔ ‘‘ جب بہت بیتابی بڑھی تو لو گوں نے زنجیروں میں باندھ کے بٹھا دیا اور شفاخانے میں اٹھا لے گئے۔ کہتے ہیں کہ ایک دن شبلی بازار میں داخل ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ دیکھو وہ دیوانہ جاتا ہے۔ شبلی نے یہ سن کر فرمایا، تم سمجھتے ہو کہ میں دیوانہ ہو ں اور میں سمجھتاہوں کہ تم بہت ہو شیار ہو۔ خدا مجھے اور دیوانہ کرے اور تمہیں اور ہوشیار بنائے۔ جنید امام شبلی کے بارے میں اکثر یہ بھی فرماتے کہ’’لوگو! تم شبلی کو اس نظر سے نہ دیکھا کرو جس طرح دوسروں کو دیکھتے ہو کیونکہ وہ ’’عین من عیون اللّٰہ‘‘ ہیں۔ جنید نے ایک موقع پر یہ بھی فر مایا تھاکہ ’’ہر قو م کا ایک تاج ہو تاہے اور ہم اہل تصوف کے تاج شبلی ہیں۔ ‘‘ یہ عجیب بات ہے کہ ہمہ وقت کی سر شاری وارفتگی میں شبلی کو شریعت مطہرہ اور شعائر اسلامی کا حد درجہ پاس تھا۔ رمضان کا مہینہ آتا تو طاعات الہٰی میں خوب سرگرم ہو جاتے اور فر مایا کر تے کہ ’’میر ے رب نے اس مہینے کی تعظیم کی ہے، اس لیے سب سے پہلے مجھے اس کی تعظیم کرنی چاہیے۔ ‘‘ شبلی کے خادم خاص کا بیان ہے کی جب شبلی پر موت کے آثار ظاہر ہو ئے، زبان بند ہو گئی اور پیشانی پر پسینے کے قظرے نمودار ہوئے تو مجھے اشارے سے بلایا اور وضو کرانے کے لیے فرمایا۔ چنانچہ میں نے وضو کرایا لیکن داڑھی میں خلال کرانا بھول گیا، انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور انگلی سے اپنی داڑھی میں خلال کرنے لگے۔ جعفر خلدی جب یہ واقعہ بیان کرتے تو بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے اور کہتے، لوگو بتاؤ تو سہی! یہ کیسا باکمال شخص تھا جس نے زندگی کی آخری سانس تک شریعت کے آداب میں سے ایک ادب بھی فوت نہیں ہونے دیا۔


شبلی کا روحانی مرتبہ

جنید بغدادی شبلی کے روحانی مرتبہ سے واقف تھے اور اسی لیے ان کی بڑی قدر ومنزلت کرتے تھے۔ ایک دن انھوں نے شبلی کو ذوق وشوق اور اضطراب کی حالت میں دیکھ کر فرمایا، شبلی! اگر تم اپناکام حق تعالی پر چھوڑ دو تو راحت پاؤ۔ یہ سن کر شبلی نے کہا، یوں تونہیں، لیکن ہاں! اگر حق تعالی میرا کام مجھ پر چھوڑ دے تو البتہ راحت پاؤں۔ یہ سن کر جنیدنے فرمایا، شبلی کی تلوار سے خون ٹپکتا ہے۔ ایک بار جنید بغدادی نے خواب میں دیکھا کہ ر سول اللہ ﷺ نے شبلی کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ صبح ہوئی تو شبلی سے خواب بیان کیا اور پوچھا، تم ایسے کون سے اعمال کیا کرتے ہو؟ انھوں نے جواب دیا، مغرب کی سنتوں کے بعد دو رکعت نفل ادا کرتا ہوں اور ان میں آیت کریمہ ’’لقد جاء کم رسو ل من انفسکم…الخ‘‘ ضرور پڑھتا ہوں۔ یہ سن کر جنیدنے فرمایا، بے شک یہ اسی کی برکت ہے۔ شبلی نے ایک دن ایک گیلی لکڑی کو جلتے ہو ئے دیکھا، جس کے دوسرے سرے سے حسب معمول کچھ رطوبت ظاہر تھی۔ یہ دیکھتے ہی وفور جذب وجوش سے ان پر سر مستی کا عالم طاری ہو گیا اور اپنے مریدوں سے مخاطب ہو کے فر مایا: ’’مدعیو! اگر یہ دعویٰ ہے کہ تمہارے دل آتش عشق سے لبریز ہیں اور تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو تو پھر تمہاری آنکھوں سے آنسو کیوں نہیں جاری ہوتے۔ ‘‘ ایک مرتبہ فرمایا: ’’پر ہیز گاری تین طرح کی ہے :


(1)زبان سے

(2) ارکان (اعضاء جورح) سے

(3) دل سے۔ زبان کی پر ہیزگاری یہ ہے جس امر سے کچھ تعلق نہ ہو اس میں انسان خاموش رہے۔ ارکان کی پر ہیزگاری یہ ہے کہ شبہات چھوڑ دیے جائیں اور جن چیزوں سے شک پیداہوتاہے انھیں چھوڑ کر اس چیز کی طرف رجوع کیاجائے جس میں شک وشبہ نہ ہو اور دل کی پ رہی ز گاری یہ ہے کہ ذلیل وحقیر ارادوں اور برے خیالات سے پیچھاچھڑا لیاجائے۔

ایک موقع پر شبلی نے فرمایا: ’’صوفی اس وقت صوفی ہوتاہے جب ساری خلقت کو اپنی عیال خیال کرے، یعنی اپنے آپ کو سب کا کفیل اور بوجھ اٹھانے والاسمجھے۔ صوفیہ نے شبلی کی اس بات کو آب زر سے لکھنے کے لائق سمجھا ہے کہ ’’عارف کو کسی سے علاقہ نہیں، محب کو کوئی شکایت نہیں، خوفزدہ کو کبھی قرار نہیں اور اللہ عزوجل سے کسی کو مفر نہیں۔ َ‘‘


اقوال شبلی

شبلی کے یہ اقوال تصوف کی بنیادی باتیں ہیں :


آزادی دل کی آزادی ہے اور بس۔

محب اگر خاموش ہوا اور عارف نہ خاموش ہوا تو ہلاک ہوا۔

شکم منعم کی طرف دیکھنے کا نام ہے نہ کہ نعمت کی طرف دیکھنے کا۔

دل، دنیا اور آخرت دونوں سے بہتر ہے کیونکہ دنیامحنت کا گھر ہے اور آخرت نعمت کا گھر ہے اور دل معرفت کاگھر ہے۔

ہزار سال کی عبادت میں ایک وقت کی غفلت رسوائی ہے۔

عبادت کی زبان علم ہے اور اشارات کی زبان معرفت ہے۔

انتقال

ابوبکرشبلی کا انتقال ذو الحجہ سنہ 334ھ بمطابق 945ء میں 87 سال کی عمر میں ہوا۔[4] ابو محمد ہروی جو آپ کے خادم خاص اور باصفا عقیدت مندوں میں تھے، اس شب میں جس کے بعد دن میں ان کی وفات ہوئی صبح تک آپ کے پاس تھے، انہوں نے بیان کیاکہ اس رات شبلی بار بار یہ شعر پڑھتے تھے : کُلُّ بَیتِِ اَنْتَ سَاکِنُہ

غَیْرُ مُحْتَاجِِ اِلی السُّرَجِ

وَجْھُکَ اَلماْمُوْلُ حُجتُنَا

یَوْمَ یاَتی النَّاسُ باِلْحُجَجِ

ترجمہ: جس گھر میں تو رہتا ہو اسے چراغ کی ضرورت نہیں۔ تیراچہرہ جو امید ہے، اس روز جب سب لوگ اپنی اپنی حجتیں لے کر حاضر ہوں گے، ہماری حجت ہو گا۔[5][6]


حوالہ جات

 جی این ڈی- آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/123907373 — اخذ شدہ بتاریخ: 17 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: CC0

 بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb169336387 — بنام: Abū Bakr Dulaf ibn Ǧaḥdar al- Šiblī — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ

 التعرف لمذهب اهل التصوف ،مؤلف: ابو بكر الكلاباذی ناشر: دار الكتب العلمیہ بيروت

 طبقات الأولياء،ابن الملقن، ص204

 http://www.alqalamonline.com/index.php/alqalam-old-articles/biyan-page/91-other-albayan-articles/2300-471-hazrat-abu-bakar-shibli-rah

 موسوعۃ الكسنزان مؤلف: شيخ عبد الكريم الكسنزان الحسينی

حضرت شیخ ابو بکر شبلی  رحمۃ اللہ علیہ

۲۴۷؁ھ/ ۸۶۱؁ء            ۲۷ ذی الحجۃ ۳۳۴؁ھ/ ۹۵۵؁ء

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمْ وَعَلَی الْمَولی الشیخ ابیْ بَکْرِ نِ الشِبْلِی  رضِی اَللہ تعالیٰ عنہ

بہر شبلی شیر حق دنیا کے کتوں سے بچا

ایک کا رکھ عبدِ واحد بے ریا کے واسطے

ولادت شریف:

آپ کی ولادت باسعادت ۲۴۷؁ھ / ۸۶۱؁ء میں بمقام سامرہ جو نوح بغداد میں ہے ہوئی اور وہیں پر آپ کی نشوونما ہوئی مگر ایک قول یہ ہے کہ آپ کی ولادت سرشتہ میں ہوئی[1]۔

اسم مبارک و کنیت:

        آپ کے نام و اسم گرامی جعفر ہے اور کنیت ابوبکر ہے۔ اور آپ کے نام کے سلسلے میں ایک قول یہ ہے کہ آپ کا نام اس طرح ہے۔ دلف بن جعفر اور دلف بن حجدر مگر آپ کے مرقد مبارک پر آپ کا نام جعفر بن یونس کندہ ہے۔ اور لقب آپ کا مجدد تھا[2]۔

شبلی کی وجہ تسمیہ:

        آپ کو شبلی اس وجہ سے کہتے ہیں کہ آپ موضع شبلہ یا شبیلہ کے رہنے والے تھے۔

علوم اسلامی کی تحصیل:

        آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے تیس سال تک علم فقہ و حدیث پڑھا یہاں تک کہ علم کا دریا میرے سینے میں موجزن ہوگیا، پھر میں معلمان طریقت کی خدمت مبارکہ میں گیا اور ان سے کہا کہ مجھے علم الٰہی کی تعلیم دو؟ مگر کوئی شخص بھی نہ جانتا تھا بلکہ انہوں نے کہا کہ کسی چیز کا نشان کسی چیز سے ملتا ہے لیکن غیب کا کوئی نشان نہیں ہوتا، میں اس کی بات سن کر حیران رہ گیا اور کہا کہ آپ لوگ تو خود اندھیری رات میں ہیں اور الحمدللہ کہ میں صبح راشن میں ہوں، پھر میں نے حق تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اپنی ولایت کو ایک چور کے سپرد کردیا حتیٰ کہ کچھ اس نے میرے ساتھ کیا ڈکیا۔ آپ ائمہ اربعہ میں سے امام مالک کے مقلد تھے اور موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ آپ کو زبانی یاد تھی[3]۔

فضائل:

        صاحب علم و حال علوم ظاہر ی و باطنی، واقگ رموز خفی وجلی حضرت شیخ جعفر ابوبکر شبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کے بارہوں امام و شیخ طریقت ہیں آپ مرید و خلیفہ سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہیں۔ عبادت و مجاہدات و مکاشفات میں آپ کا مقام بہت ہی بلند ہے اور آپ کے نکات و عبادات اور رموز و اشارات و ریاضات و کرامات احاطۂ تحریر سے باہر ہیں جتنے بھی مشائخ آپ کے زمانے میں تھے، آپ نے ان کی زیارت کی اور ان کی صحبت میں رہے۔ آپ نے علوم طریقت کو بدرجہ کمال حاصل فرمایا چونکہ آپ کی جان سے ایسے اسرار و رموز کا اظہار ہونے لگا جو لوگوں کی عقلوں سے بہت بلند و بالا ہوتے ، جس کی وجہ سے ناواقف لوگ آپ کو دیوانہ بھی کہتے تھے۔

ذکرو  مجاہدہ:

        منقول ہے کہ آپ کچھ دنوں تک ایک درخت پر گھومتے اور ہو، ہو کہتے، لوگوں نے آپ سے دریافت کیا کہ آپ کی یہ کیسی حالت ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ اس درخت پر ایک فاختہ ہے جو کو، کو کہہ رہی ہے اس لیے میں بھی اس کی موافقت میں ھو، ھو کہہ رہا ہوں یہاں تک کہ راوی کا بیان ہے کہ جب تک آپ خاموش نہ ہوتے، فاختہ بھی خاموش نہ ہوتی۔ اور آپ مجاہدہ کی ابتداء میں آنکھوں میں نمک ڈال لیا کرتے تھے تاکہ تمام رات جاگتے رہتے اور آنکھوں میں نیند نہ آئے محبوب آپ ارشاد فرماتے کہ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص سوتا ہے وہ غافل ہوتا ہے اور جو غافل ہوتا ہے وہ ب ہوتا ہے۔ روایت ہے کہ ایک دن آپ اپنی مجلس میں بیٹھے ہوئے اللہ، اللہ کی کثرت کررہے تھے ایک درویش نے آپ کو کہا۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کیوں نہیں کہتے؟ آپ نے یہ سن کر نعرہ لگایا اور فرمایا کہ میں خوف کرتا ہوں کہ ایسا نہ ہو کہ کہیں لا کہنے ین ۃی رہ جاؤں اور اللہ تک پہنچنے سے پہلے میرا دم نکل جائے اور اسی وحشت میں دنیا سے چلا جاؤں؟ اس  بات سے اس درویش پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوئے اور لرزہ براندم ہو کر جان پرواز کرگئی، اس درویش کے وصال کے بعد ان کے رشتہ دار آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو گرفتار کرکے دارلخلافت میں لے گئے، اس وقت آپ غلبہ وجد سے اس طرح چل رہے تھے جیسے ایک مست آدمی چلتا ہے، یہاں تک کہ درویش کے رشتہ داروں نے آپ پر اس جوان درویش کے خون کا دعویٰ کیا۔ خلیفہ نے آپ کو کہا کہ، تمہارے پاس اس دعویٰ کا کیا جواب ہے؟

        تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ وہ جان عشق کی آگ سے بقا کے انتظار میں تھی، اس لیے حق تعالیٰ کے جلال نے اس کو بالکل جلا دیا ہے اور تمام علایق سے قطع تعلق کرلیا ہے اور جب شوق سے اس کی طاقت نہ رہی، ساتھ ہی صبر کی کمی ہوئی یہاں تک کہ جو امور اس کے سینۂ باطن میں عشق کا تقاضا کرنے والے پوشیدہ تھے، وہ مشاہدۂ جمال سے بجلی کی مانند بھڑک اٹھے اورقلب پر اثر کیا پھر سوختہ جان مرغ کی طرح بد ن سے نکل کر پرواز کرگئی، اب آپ ہی بتائیں کہ اس میں شبلی کا کیا جرم و گناہ ہے؟ آپ کی یہ تقریر عارفانہ سن کر خلیفہ نے کہا کہ شبلی کو جلد یہاں سے بھیج دو کیونکہ صرف ان کی باتوں ہی سے میراے دل پر ایسی صفت و کیفیت طاری ہوئی ہے کہ کہیں میں بے ہوش نہ ہوجاؤں[4]۔

ترک امارت نہاوند:

آپ نہاوند کی امارت پر فائز تھے کہ ایک مرتبہ دربار خلافت میں تمام امراء کے نام سے حاضری کے پروانے جاری ہوئے آپ بھی بحیثیت امیر دربار خلافت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت خلیفہ نے جملہ امرائے سلطنت کو خلعت سے نوازا۔ اس اثناء میں ایک امیر کو چھینک آئے اور اس نے اسی خلعت سے اپنے منہ اور ناک کو صاف کیا، لوگوں نے اس فعل سے خلیفہ کو آگاہ کردیا، خلیفہ نے اس سے وہ خلعت چھین لیا اور امارت سے بھی معزول کردیا آپ جب اس حال سے آگاہ ہوئے تو سوچا کہ جو شخص مخلوق کے دئے ہوئے خلعت کے ساتھ بے ادبی کرتا ہے تو وہ عزل و استخفاف کا مستحق ٹہرتا ہے اور اس کا خلعت ورتبہ چھین لیا جاتا ہے۔ پس جو شخص احکم الحاکمین کے ساتھ بے ادبی کرے تو خدا جانے اس کی کیا حالت ہوگی؟ آپ اسی وقت خلیفہ کے پاس تشریف لے گئے اور اس کو کہا کہ اے امیر تم ایک مخلوق ہو اس کے باوجود اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ لوگ تمہارے خلعت کے ساتھ بے ادبی کریں جبکہ تمہاری خلعت کی قدر و قیمت کیا  ہے وہ سب کو معلوم ہے، پس سن لو کہ بادشاہ احکم الحاکمین نے مجھے اپنی دوستی و معرفت کو خلعت دیا ہے کیا وہ اس بات کو پسند کریگا کہ میں اس کے دیے ہوئے خلعت کو مخلوق کی خلعت سے ناپاک کروں؟ آپ یہ کہہ کر باہر نکل آئے اور امارت کو خیر باد کردیا اور حضرت خیر نساج کی مجلس میں آکر توبہ کی[5]۔

شیخ طریقت کی بارگاہ میں حاضری:

        حضرت خیر نساج نے آپ کو سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیج دیا آپ وہاں حاضر ہوئے تو فرمایا کہ آشنائی دوست کے گوہر کا نشان آپ کے پاس ملتا ہے تو آپ مجھے بخش دیں یا فروخت فرمائیں؟ حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں اسے فروخت کردوں تو ہرگز اس کی قیمت ادا نہیں کرسکو گے اور اگر بخش دوں تو تم کو مفت مال کی کچھ قدر و قیمت نہ ہوگی۔ اور تم مخواہ اسے ضائع کردوگے، ہاں یہ ہوسکتا کہ جوان مردوں کی طرح اپنے سر کو قدم بناؤ اور اس دریا میں کود پڑو یہاں تک کہ صبر و انتظار کرو کہ وہ گوہر تمہارے ہاتھ آئے؟ تو آپ نے فرمایا کہ اب آپ ہی ارشاد فرمائیں کہ مجھے کیا کرنا ہے؟ حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ ایک سال تک گندھک فروشی کرو۔ پس آپ نے ایسا ہی کیا جب ایک سال ہوگیا تو پھر فرمایا کہ جاؤ ایک سال تک دریوزہ گری کرو؟ وہ بھی اس طرح کی کسی شئ کے ساتھ مشغول نہ ہو۔ پس آپ نے ایسا ہی کیا اور سال بھر آپ نے بغداد کے تمام بازاروں میں دریوزہ گری کی اور کسی شخص نے آپ کو کچھ نہ دیا یہاں تک کہ پوری کیفیت آپ نے اپنے شیخ کی خدمت میں آکر عرض کیا تو آپ نے شیخ ارشاد فرمایا کہ شاید اب تم نے اپنی قدر وقیمت کو سمجھ لیا ہوگا کہ لوگوں کے نزدیک  تمہاری کوئی قدروقیمت نہیں ہے اس لیے اب مخلوق میں دل نہ لگانا اور اسکو چیز پر بھی فوقیت نہ دینا، اس کے بعد پھر شیخ نے ارشاد فرمایا کہ تم نے شہر نہاوند میں اس امیری اور حاکمی کے فرائض کو انجام دیا ہے، اس لیے جاؤ اور اہل نہاوند سے معافی طلب کرو۔ آپ اپنے شیخ کے حکم کے مطابق تشریف لے گئے اور ایک گھر کے سوا باقی سب لوگوں سے معافی چاہی، کیونکہ اس گھر کے آدمی وہاں موجود نہ تھا اس لیے آپ نے اس کے کفارے میں ایک ہزار دینار صدقہ کیا اس کے باوجود بھی آپ کے دل کو قرار نہ ہوا یہاں تک کہ چار سال تک آپ نے اس حالت میں گذار دیا۔ پھر شیخ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو ارشاد فرمایا کہ ابھی تمہارے اندر جاہ طلبی باقی ہے اس لیے جاؤ ایک سال اور گدائی کرو؟ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے ایکسال اور گدائی کی اس حالت میں جو کچھ ملتا۔ وہ شیخ کی خدمت میں لے آتا اور شیخ اس کو لے کر درویشوں میں تقسیم فرمادیتے اور مجھے ہر رات بھوکا ہی رکھتے۔ یہاں تک کہ جب سال گزر گیا تو شیخ تو ارشاد فرمایا کہ اب تمہاری صحبت کے قابل ہوگئے۔ مگر اس شرط پر کہ درویشوں کی خدمت کرو؟ پس آپ نے ایک سال درویشوں کی خدمت فرمائی پھر اس کے بعد آپ کے شیخ طریقت نے سوال کی اے ابا بکر! اب تمہارے نفس کی قدروقیمت تمہارے نزدیک کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ میں اپنے نفس کو تمام جہاں سے کم تر دیکھتا ہوں اور جانتا ہوں، شیخ نے فرمایا کہ اب جاکر تمہارا ایمان درست ہوا پھر آپ نے شریعت و طریقت میں وہ کمال حاصل کیا کہ آپ کے شیخ طریقت حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔

بکُلِّ قومٍ تَاجٌ و تاجُ ہٰذاالْقَوْمِ الشّبْلِی   اور پھر یہ فرمایا کہ لَا تَنْظِرُوا اِلٰی ابی بکرٍ بالعین التِی یَنظُوْ بَعْضکُمْ اِلٰی بعضٍ فَاِنَّہٗ عَیْنٌ مِن عُیُونِ اللہِ تعالیٰ

بارگاہ رسالت میں آپ کا مقام:

        حضرت ابو بکر بن مجاہد جو اپنے وقت کے عظیم محدث و فقیہ اور بزرگ ہیں ا ن کی مجلس میں علماء و فقہا کا مجمع رہتا۔ ایک روز حضرت ابو بکر شبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی مجلس میں تشریف لے گئے تو وہ آپ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے اور سینے سے لگایا اورپیشانی مبارک کو بوسہ دیا، ایک ناواقف نے کہا حضرت یہ تو دیوانہ ہے، اور آپ اس قدر احترام فرمارہے ہیں؟تو حضرت ابو بکر بن مجاہد نے ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! تمہیں کیا خبر میں نے ان کے ساتھ ایسا ہی کیا جیسا کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ان کے ساتھ سلوک کرتے ہوئے دیکھا پھر اپنے خواب کا واقعہ بیان فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مجلس مبارکہ قائم ہے پھر جس وقت حضرت ابوبکر شبلی اس مجلس میں تشریف لائے تورسول معظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور ان کی پیشانی کو بوسہ دیا، میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم شبلی پر اتنی شفقت و مہربانی کس وجہ سے ہیں؟ تو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ ہر روز نماز کے بعد لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُوْلٌ تا العظیم پڑھتا ہے اور اس کے بعد تین مرتبہ کہتا ہے۔ صَلَّی اللہ عَلَیْکَ یَارَسُوْل اللہ[6]۔

آپ کا اسم اعظم سے عشق:

        حضرت ابوبکر شبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ یہ بھی عادت تھی کہ آپ جس جگہ اللہ کا نقش دیکھتے تو بوسہ دیتے اور بڑی تعظیم کرتے، تو ندا آئی کہ کب تک اسم کے ساتھ مشغول رہے گا، اگر تو مرد طالب ہے تو اس کی تلاش میں قدم رکھ یہاں جب آپ نے یہ آواز سنی تو آپ پر عشق غالب ہوگیا اور اشتیاق و درد نے اتنا غلبہ کیا کہ آپ وہاں سے اٹھے اور اپنے آپ کو دریائے دجلہ میں ڈال دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک موج آئی اور اس نے آپ کو کنارے پرپھینک دیا، پھر اپنے آپ کو آگ میں ڈالا، لیکن آگ نے بھی آپ کو نہ جلایا، اسی طرح آپ نے اپنے آپ کو کئی ہلاکت میں ڈالا مگر حق تعالیٰ نے آپ کی حفاظت کی، جب آپ کی بیقراری اور زیادہ ہوگئی تو آپ نے فریاد بلند کیا کہ : وَیْلٌ لِمَنْ لَا یَقتلُہٗ المَاءُ والنَّارُ والسَّبَاعُ وَالجبَالُ یعنی افسوس ہے اس شخص پر جس کو نہ پانی ہلاک کرے اور نہ آگ نہ درندے اور نہ ہی پہاڑ اس کے جواب میں یہ آواز آپ نے سنی مَنْ کا مقتول الحقِّ لَا یقتلُہٗ غیرُہٗ یعنی جو حق کا مقتول ہے اس کو سوائے اس کے کوئی ہلاک نہیں کرسکتا۔

        آپ دیوانگی شوق میں اس مقام پر پہنچ گئے تھے کہ دس دفعہ آپ کو زنجیروں میں باندھا گیا لیکن آپ نے کسی طرح بھی قرار نہ لیا۔ یہاں تک کہ لوگ کہتے کہ شبلی بالکل دیوانہ ہے، اس کے جواب میں آپ ارشادفرماتے کہ میں تمہارے نزدیک دیوانہ ہوں اور تم میرے نزدیک دیوانے ہو ، خدا کرے میری دیوانگی زیادہ ہو[7]۔

آپ کے قید کا واقعہ:

        مشہور واقعہ ہے کہ حضرت ابوبکر شبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیوانگی کے الزام میں ہسپتال میں داخل کرکے وہاں آپ کو مقید کردیا گیا، ایک جماعت آپ کی زیارت کو آئی تو آپ نے ان لوگوں سے فرمایا من انتم تم لوگ کون ہو؟ قالوااحباوک انہوں نے کہا ہم آپ کے محبین ہیں۔ تو آپ نے ان لوگوں کے اوپر پتھر مارا جس سے وہ بھاگنے لگے تو آپ نے فرمایا لَوْ کنتم احِبَّائی لِمَا فَرْتُم مِن بَلائِی فاصبِرُوْا مِنْ بلائِی اگر تم میرے محبین ہو تو میرے مارنے سے کیوں بھاگتے ہو اس لیے کہ محبین دوست کی بلا سے بھاگا نہیں کرتے۔ اور ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ آپ زخمی ہوگئے۔ اس دوران خون کا جو قطرہ اس سے گرتا اللہ کا نقش بن جاتا[8]۔

تشریح بندگی:

        ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ آپ کے دست مبارک میں آگ کا شعلہ تھا اور حالت سکر میں آپ نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ جاؤں اور کعبہ کو جلادوں تاکہ لوگ حق کی طرف بلا علت کے متوجہ ہوں، دوسرے دن آپکے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جو دونوں طرف سے جل رہی تھی اور فرمارہے تھے کہ میں چاہتا ہوں کہ بہشت اور دوزخ کو آگ لگا دوں تاکہ لوگ طمع کی بندگی چھوڑدیں۔ اسی طرح ایک روز آپ نے چولہے میں ایک لکڑی کو جلتے ہوئے اس طرح دیکھا کہ ایک طرف سے جل رہی تھی اور دوسری طرف سے پانی نکل رہا تھا۔ آپ یہ منظر دیکھ کر روپڑے ارشاد فرمایا کہ لوگو! اگر تم بھی آتش شوق میں جلتے ہو اور اس دعویٰ میں سچے ہو تو تمہاری آنکھوں سے آنسو کیوں نہیں بہتے[9]۔

دولت کی حقیقت:

        ایک مرتبہ آپ نے چار ہزار اشرفیاں دریائے دجلہ میں پھینک دیا، لوگوں نے کہا کہ حضور! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ پتھر کا پانی کے ساتھ ہی رہنا زیادہ بہتر ہے لوگوں نے کہا کہ اسے مخلوق خدا میں کیوں تقسیم نہیں فرمادیا؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ سبحان اللہ! اپنے دل سے اس کا حجاب اٹھا کر مسلمان بھائیوں کے دلوں پر ڈال دوں تو میں خدا کو کیا جواب دوں گا کیونکہ دین کی یہ شرط نہیں ہے کہ مسلمان بھائیوں کو اپنے سے بد سمجھوں[10]۔

شیخ کی انسیت:

        ایک مرتبہ آپ کے شیخ طریقت حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں کچھ اصحاب ارادت جلوہ افروز تھے۔ اور آپ کے شیخ کی عدم موجودگی میں وہ لوگ آپ کی تعریف کرنے لگے کہ صدق اور شوق و بلندی میں شبلی جیسا کوئی دوسرا آدمی نہیں ہے، اتنے میں آپ کے شیخ حاضر ہوئے اور اس بات کو سن کر فرمایا کہ تم لوگ غلطی میں گرفتار ہو وہ تو مخذول اور زیاں کار ہے فوراً شبلی کو اس جگہ سے باہر نکال دو؟ جب آپ وہاں سے چلے گئے تو آپ نے شیخ ان اصحاب سے فرمایا کہ شبلی کی جو تعریف تم نے کی ہے ، میرے دل میں اس سے سو گنا زیادہ عزت ہے، لیکن اس کے سامنے اس تعریف سے تم نے تو اس پر تلوار چلادی اس لیے مجبوراً یہ  کہہ کر اس کو پاس ایک ڈھال لانا پڑا تاکہ وہ ہلاک نہ ہوجائے[11]۔

آپ کے تصوفانہ اشعار:

ایک مرتبہ آپ میدان عرفات میں پہنچے تو بالکل خاموشی اختیار فرمالی اور سورج غروب ہونے تک کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالا یہاں تک کہ اس مقام سے آپ نے منیٰ کی طرف کوچ فرمایا اور جب حدودِ حرم کے نشانات سے آگے بڑھے تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور روتے ہوئے آپ نے یہ عارفانہ اشعار پڑھے۔

اَرُوح وَقَدْ خَتَمْتُ عَلیٰ فوَادِیْ

بِحُبِّکَ ان یَحِلَّ بِہٖ سِوَاکَا

میں چل رہا ہوں اس حال میں کہ میں نے اپنے دل پر تری محبت کی مہر لگا دی تاکہ اس دل پر تیرے سوا کسی کا گزر نہ ہو

فَلَوْ انِیْ اِسْتطَعْتُ غَمَضُتُ طَرْفِیْ

فَلَمْ اَنْظُرْ بِہٖ حَتّٰی ارَاکا

اے کاش مجھ میں استطاعت ہوتی کہ میں اپنی آنکھوں کو بند رکھتا اور اس وقت تک کسی کو نہ دیکھتا جب تک تجھے نہ دیکھ لیتا

وَفِی الْاَحْبَابِ مُختشٌ بِوَحْدۃٍ

وَآخَرُ یُدعِیْ مَعَہٗ اشتراکا

اہل محبت میں بعض تو ایسے ہوتے ہیں جو ایک ہی کے ہورہتے ہیں اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں دوسرے کی بھی شرکت ہوتی ہے

اِذا نْسَکَبَتْ دَمُوْعٌ فِیْ خُدُوْدٍ

تَبَیَّنَ مَنْ بَکٰی مِمَّا تَبَاکا

جب آنکھوں سے آنسو نکل کر رخسار پر بہنے لگتے ہیں تو ظاہر ہوجاتا ہے کہ کون واقع رو رہا ہے اور کون بناوٹی روتا ہے۔[12]

کشف و کرامات

نصرانی طبیب کا مسلمان ہونا:

        حضرت ابوبکر شبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ بیمار پڑے توآپ کو لوگ علاج کے لیے لے گئے اور علی بن عیسیٰ وزیر نے خلیفہ کو اطلاع کی، تو خلیفہ نے علاج کے لیے اپنے افسر الاطباء کو بھیجا جو نصرانی تھا۔ اس نے بہت کچھ علاج کیا مگر کچھ بھی فائدہ نہ ہوا۔ اس لیے طبیب نے عرض کیا کہ اگر میں جانتا کہ آپ کا علاج میرے جسم کے ٹکڑے میں ہے تو مجھے اس کے کاٹنے میں بھی کچھ دریغ نہ ہوتا۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ میری دوا تو کسی اور شئی میں ہے طبیب نے عرض کیا وہ کیا چیز ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تو کفر چھوڑ کو مسلمان ہوجا۔ تو طبیب نے فوراً کہااَشْھَدُ انْ لَّا اِلٰہَ الا اللہُ وَاشہدُ اَنَّ مُحَمَّدً رّسُوْل اللہ خلیفہ کو جب اس کی اطلاع ہوئی تواس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور کہا کہ میں نے طیبب کو مریض کے طرف بھیجا تھا۔ مگر ہم یہ نہیں جانتے کہ مریض کو طبیب کی طرف بھیجا ہے[13]۔

دل کے خطروں پر آگاہی:

        حضرت انبازی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت شیخ شبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت مبارکہ میں ایک ریشمی چادر اوڑھ کر حاضر ہوا۔ وہاں پہنچ کر میں نے یہ دیکھا کہ آپ ایک بہت ہی عمدہ ٹوپی پہنے ہوئے ہیں میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ تو ہمارے پہننے کے قال ہے، اگر شیخ یہ ٹوپی مجھے عنایت کردیں تو کیا ہی اچھا ہوتاَ اس خیال کا آنا ہی تھا کہ شیخ نے کہ اپنی چادر مجھے دیدو؟ میں نے وہ چادر فوراً شیخ کے حوالے کردیا۔ اس کے بعد شیخ نے میری چادر اور اپنی اس ٹوپی کو فوراً آگ میں ڈال دیا۔ ارشاد فرمایا کہ دیدار الٰہی کے سوا کوئی دوسری آرزو دل میں رکھنے کے لائق نہیں [14]۔

کشفِ نیک و بد:

        حضرت ابوبکر شبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رب کائنات نے عظیم مرتبے پر فائز فرمایا تھا اور حجابات آپ کی آنکھوں سے ہٹا دیے گئے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ خود ارشادفرماتے ہیں کہ میں جب بازار سے گزرتا ہوں تو تمام نیک و بد پہچان لیتا ہوں اور لوگوں کو پیشانیوں پر سعید و شقی لکھا ہوا دیکھتا ہوں[15]۔

آپ کا تصرف:

        منقول ہے کہ آپ سے لوگوں نے کہا اے ابو تراب اب تم جنگل میں بھوکے ہی رہتے ہو؟ یہ سن کر آپ نے اپنی نگاہ اٹھائی تو وہ جنگل کھانا ہی کھانا نظر آنے لگا۔ اس کے بعد پھر ارشاد فرمایا کہ یہ تھوڑی سی مہر بانی ہے، اگر تحقیقی کے مقام پر ہوتا تو میں یہ کہتا : اِنِّیْ اَظِلُّ عِنْدَ رَبِّیْ فَھُوَ یُطْعمنِیْ وَیسْقیْنِیْ[16]

ملفوظات:

حضرت ابوبکر شبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے مریدین سے ارشاد فرمایا کہ اگر ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک تم میرے پاس آؤ اور اس عرصے میں تیری دل میں سوائے حق تعالیٰ کے کوئی دوسرا خیال گذرے تو سمجھ لے کہ ابھی دنیا کی طلب تیرے دل میں باقی ہے اور دنیا کا طلبگار آخرت کے لیے کیا کما سکتا ہے، اس لیے دنیا میں جتنے دن زندہ رہو آخرت کے لیے کھیتی کرو۔ فرماتے ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں بھوکا اللہ تعالیٰ کے لیے رہا اور حق تعالیٰ میرے قلب میں اسرار و رموز کا نور داخل نہ کیا ہو کہ فرماتے ہیں حضرت رسول مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ بہت سیر ہو کر نہ کھایا کرو، ایسا نہ ہو کہ تمہاری شکر پروری کی وجہ سے نور معرفت تمہارے دل سے نکل جائے۔

        فرماتے ہیں کہ تصوف ضبط قوی ہے اور صوفی وہ ہے جو لوگوں سے منقطع ہو اور حق تعالیٰ سے متصل ہو

        فرماتے ہیں کہ جو شخص محبت کا دعویٰ کرتا ہے اور محبوب کے سوال اور طرف مشغول ہوتا ہے وہ حبیب کا نہیں بلکہ کسی اور شے کا طلبگار ہوتا ہے اور وہ گویا اپنے محبوب کا مذاق اڑاتا ہے۔

        فرماتے ہیں کہ عارف وہ ہے جو کبھی تو ایک مچھر کی تاب نہ لاسکے اور کبھی ساتوں زمینوں اور آسمانوں کو نوک پلک پر اٹھا کر پھینک دے۔

اور فرماتے ہیں کہ محبت یہ ہے کہ ہر چیز کو دوست پر نثار کردے۔

        لوگوں نے آپ سے سوال کیا کہ حضور! سنت کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ دنیا کا ترک کرنا۔

        پھر زکوٰۃ کی مقدار کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ کل مال کو اللہ کی راہ دیدینا ہی میرے نزدیک اس کی مقدار ہے، تو سائل نے متعجب ہوکر کہا یہ ٹھیک نہیں ہے اس لیے کہ قرآن و حدیث سے مال کا چالیسواں حصہ مقدار زکوٰۃ ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ بخیلوں کے لیے ہے، پھر لوگوں نے دریافت کیا آپ کے اس طریقے کے امام کون ہیں؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنا تمام مال تصدق کردیا حتیٰ کہ آپ کے پاس صرف ایک کمبل ہی باقی رہ گیا تھا۔ پھر سائل نے دریافت کیا کہ آپ کے پاس قرآن شریف سے بھی کوئی دلیل ہے؟ تو ارشاد فرمایا کہ ہاں! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللہ اشْتَریٰ مِنَ المُؤمِنِیْنَ اَنْفُسِہَمْ وَاَمْوَالِھِمْیعنی تحقیق اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کے نفسوں اور مالوں کو خرید لیا ہے۔ پس میں نے مال کو بیچا ہے اس لیے اس کل مال کا حوالہ کردینا لازم ہے۔

        آپ نے ارشاد فرمایا کہ عارف وہ ہے کہ سوائے حق تعالیٰ کے بینا اور گویا نہ ہو، اور سوائے اس کے اپنے نفس کا محافظ کسی دوسرے کو نہ جانے اور اس کے غیر سے بات نہ سنے اس لیے کہ عارفوں کا وقت بہار کے زمانوں کی طرح ہے جس طرح کہ رعد گرجتا ہے ، ابر ہنستا ہے، بجلی چمکتی ہے، ہوا چلتی ہے، شگوفے نکلتے ہیں، مرغ چہکتے ہیں پس عارف کا بھی ایسا ہی حال ہے کہ آنکھیں روتی ہیں، لب ہنستا ہے، دل جلتا ہے، سر کے ساتھ ناز کرتا ہے، ہمیشہ وہ دوست کا نام لیتا ہے اور اس کے دروازے پر پھرتا ہے۔

        فرماتے ہیں کہ دعوت کی تین قسمیں ہیں: دعوتِ علم، دعوت معرفت اور دعوت معائنہ، علم ایک ہے وہ یہ کہ اپنی ذات سے اپنے نفس کو پہنچانے، عبارت زبانی علم ہے اوراشارتِ زبان معرفت ، علم الیقین وہ ہے کہ ہم کو پیغمبروں کی زبان مبارک سے پہنچا اور عین الیقین وہ ہے جو نورہدایت اسرار قلوب میں بے واسطہ پہنچا اور حق الیقین وہ ہے کہ اس عالم میں اس کی طرف راہ نہیں،

        آپ نے فرمایا کہ ہمت خدا کی طلب ہے اور جو اس کے سوا ہے وہ ہمت نہیں ہے، اور صاحب ہمت کس چیز کس طرف مائل نہیں ہوتا مگر صاحب ارادہ مائل ہوجاتا ہے۔

        فرماتے ہیں کہ شکر یہ ہے کہ نعمت کو نہ دیکھے بلکہ منعم کو دیکھے اور جوسانس اللہ تعالیٰ کی معرفت میں ہو وہ سب عابدوں کی عبادت سے افضل و بہتر ہے جو وہ قیامت تک کریں۔

فرماتے ہیں کہ شریعت یہ ہے کہ تو اسکی پیروی کرے، طریقت یہ ہے کہ تو اس کی طلب کرے، اور حقیقت یہ ہے کہ تو اسے دیکھے[17]۔

واقعات وصال

        جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیاتو آپ کی دونوں آنکھوں میں اندھیرا سا چھاگیا، آپ نے خاکستر طلب فرمایا اور اس کو اپنے سر پر ڈالتے جارہے تھے، اور وقت وصال اس قدر آپ بیقرار تھے کہ احاطۂ تحریر سے بالاتر ہے پھر کچھ وقفہ تک آپ خاموش رہے اور پھر کچھ وقفہ کے بعد مضطرب ہوگئے اور ارشاد فرمایا کہ ہوائیں چل رہی ہیں ایک لطف کی اور دوسری قہر کی۔ تو جس پر باد لطف چلتی ہے اس کو مقصود تک پہنچادیتی ہے اور جس پر قہر کی ہوا چلتی ہے وہ حجاب میں مبتلا ہوجاتاہے اس لیے اب دیکھیے کون سی ہوا چلتی ہے اگر بادِ لطف مجھ پر چلتی ہے تو میں اس کی امید پر یہ سب سختیاں برداشت کرسکتا ہوں لیکن اگر العیاذ باللہ باد قہر چلی تو میں مر جاؤں گا اور یہ سب سختیاں اور بلائیں اس کے سامنے کیا چیز ہے اور وصال کے وقت آپ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے وضو کراؤ؟ جب آپ کو وضو کرایا گیا تو لوگ ڈاڑھی میں خلال کرنا بھول گئے، آپ نے وضو کرانے والے کو یاد دلایا تو اس کے بعد خلال کرایا گیا۔

        جس رات آپ کا وصال ہوا تمام رات یہ بیت پڑھتے رہے

Previous Post Next Post