حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ Hazrat Ibraheem bin Adham | biography and kramaat of Hazrat ibrahim bin adham | Fida Nama

حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ

نام ونسب: سلطان السالکین ،مقرب حضرت رب العالمین ،مملکت دنیا کے تارک ،سلطنت عقبیٰ کے صاحب ،ظل الٰہی ، آں جالسِ سیر اولیائی، آں متلبس بہ لباس پارسائی، مصدق و متوکل علی اللہ، واصل بہ نہایات فنافی اللہ، آن در مراتب فقیر و زہد مستحکم، پیر طریقت حضرت خواجہ ابراہیم ابن ادہم قدس سرہٗ کا شمار حضرت خواجہ فضیل ابن عیاض کے اکابر خلفاء میں ہوتا ہے۔آپ پیران کبار، اولیاء نامدار۔ مشائخ عظام اور مقتدایان ذوالاحترام میں سے شمار ہوتے تھے۔ کنیت ابواسحاق تھی، آپ کا نسب پانچ واسطوں سے حضرت امیرالمومنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔



حضرت ابراہیم بن ادم رحمتہ اللہ علیہ طریقت میں یکتا بلکہ اپنے ہم عصروں میں سرداروں کے سردار حضرت خضر علیہ السلام کے مرید تھے آپ کی ملاقات بہت سے مشائخ سے ہوئی تھی آپ نے حضرت ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی صحبت میں علم حاصل کیا تھا ۔روایت ہے کہ آپ بلخ کے بادشاہ تھے ۔ایک دن شکار کے واسطے بمعہ لشکر کے نکلے مگر جنگل میں ہرن کے شکار میں جب تعاقب کیا تو آپ اپنے لشکر سے علیحدہ ہو گئے مگر اللہ تعالی نے اس ہرن کو قوت گویائی بخشی اور نہایت احساس سے اس نے کہا ۔۔الھذا خلقت او بھا ذا امرت * کیا تمہیں اسی کام کے واسطے ہی پیدا کیا گیا ہے اور تمہیں یہی حکم دیا گیا ہے اتنی ہی یہ بات سن کر وہ بہت متاثر ہوئے اور اسی وقت بارگاہ الہی میں توبہ کی اور تمام امور سلطنت کو ترک کرکے صرف زہد و پرہیزگاری اختیار کر لی ۔۔اس کے بعد حضرت فضیل بن عیاض اور حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیھا کی خدمت میں حاضر ہو کر صحبت اختیار کر لی اور پھر تمام عمر اپنے کسب حلال کے علاوہ اور کچھ نہ کھایا۔۔آپ کی بہت ہی کرامات مشہور ہیں اور تصوف کے حقائق میں بہت سے رموز آپ نے بیان فرمائے ہیں ۔۔حضرت جنید بغدادی کا بیان ہے "طریقت کے تمام علوم کی کلید حضرت ابراہیم بن ادھم رحمتہ اللہ علیہ ہیں " ۔۔۔روایت ہے آپ رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے دنیا کے تمام کام ایک طرف چھوڑ کر اللہ تعالی کو اپنا دوست بنا لو ۔۔۔اصل یہ ہے کہ جب بندہ اللہ تعالی کی جانب متوجہ ہو جائے تو وہ اللہ تعالی کا مخلص محب ہو جاتا ہے ۔۔اور مخلوق اس سے اپنی توجہ ہٹا لیتی ہے کیونکہ مخلوقات کی صحبت کو اللہ تعالی کی باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور یہی ایک حقیقت ہے کہ اگر صحیح توجہ سے ان کے فرمان ادا کیے جائیں، اسی کو مخلص کہا جائے کیوں کہ فرمانبرداری محبت سے ہی ہو سکتی ہے اور خالص محبت نفسیاتی خواہشات کی دشمنی سے پیدا ہوتی ہیں کیوں کہ خواہشات نفسانی کا غلام ہمیشہ حق تعالیٰ سے دور رہتا ہے اور جو شخص نفس سے قطع تعلق کر لے ، وہی اللہ تعالی سے امان پاتا ہے ۔۔۔۔یاد رکھو کہ اپنے حق میں تو تمام مخلوق ہے آپنے آپ سے تو اعراض کریں تو پھر یہ اعراض تمام مخلوق سے ہو جائے گا ۔۔اور اگر تو ساری دنیا سے دور رہے اور اپنے آپ سے اعراض نہ کرے تو یہ ایک ظلم ہے ۔۔یاد رہے کہ تمام لوگ اگر کسی کام میں مصروف ہیں تو یہ اللہ تعالی کے حکم اور تقدیر سے ہے۔ تیری ذات کا معاملہ خود تیرے ہی ساتھ ہے ۔۔اور یہ بھی یاد رکھو کہ طالبان حق کے لیے ظاہر و باطن کی استقامت صرف دو چیزوں پر ہے ایک تو پہچان کے لیے اور دوسری اطاعت کرنے کے واسطے، جو پہچاننے کے لائق ہے ۔۔وہ یہ ہے کہ تمام خیر و شر میں اللہ تعالی کی تقدیر کو سمجھے یعنی تمام عالم میں بغیر مشیت الہی کوئی متحرک ساکن نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی ساکن متحرک ہو سکتا ہے۔۔مگر کام کرنے کے قابل صرف یہ ہے کہ احکام الہی کو بجا لائے اور اپنے اعمال کو صحیح رکھے ۔۔۔حلال و حرام میں تمیز جانے ،اس لیے کہ کسی حالت میں اللہ کی تقدیر و فرمان کو ترک کر کے محبت نہیں ہو سکتی ۔۔۔ مقرب مخلوق سے علیحدہ رہنا کسی طرح درست نہیں ہو سکتا جب تک خود اپنی ذات سے اعراض نہ ہواور جب تیرا اعراض اپنی ذات سے ہوگا تو اس وقت تمام مخلوق کی مراد حق کے حاصل کرنے پر آمادہ ہوجائے گی اور جب تو اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوجائے گا تو پھر تو احکام الہی کے کام کرنے کے واسطے تیار ہو جائے گا ۔۔۔تو معلوم ہوا کہ مخلوق سے آرام نہیں ہو سکتا اور اگر حق کے سوا کسی اور شہر سے تو آرام حاصل کرنا چاہتا ہے تو پھر غیر سے آرام حاصل کر کیوں کہ غیر سے آرام پانا توحید حق کو دیکھنا ہے اور اپنے ساتھ آرام تعطیل کا ثابت کرنا ہے ۔۔اس وجہ سے حضرت شیخ ابو الحسن سالیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مریض کو اللہ کے حکم میں رہنا اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے نفس کے حکم پر ہے ۔۔۔یہ اس لیے کہ صحبت غیر اللہ کے واسطے ہے ۔۔اور اپنے نفس کی صحبت خواہش نفس کو پالنے کے واسطے ہوتی ہے ۔۔ حضرت ابراہیم بن ادھم رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا جب میں جنگل میں چلا گیا تو ایک معمر شخص نے مجھ سے کہا، اے ابراہیم ! تو جانتا ہے یہ کونسی جگہ ہے یہاں پر تو فوج اور سواری لیے جا رہا ہے ۔۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے سمجھ لیا ہے کہ وہ تو شیطان ہے ۔۔اس وقت میرے پاس چاندی کے چار دانگ تھے جو میں نے ایک زنبیل بنا کر میں نے بطور مزدوری لیے تھے ۔۔میں نے اسی وقت اپنی جیب سے نکال کر پھینک دیے اور پھر یہ مضبوط ارادہ کر لیا کہ اب میں ہر میل کے خاتمہ پر چار سو نفل نماز ادا کروں گا چنانچہ میں نے اسی حال میں اس جنگل میں چار سال کا عرصہ گزار دیا مگر اللہ تعالی مجھے وقت پر برابر میرے لئے روزی پہنچاتا رہا ۔۔اور اس وقت میں حضرت خضر علیہ السلام میرے ساتھ رہے جنہوں نے مجھے اللہ تعالی کا اسم اعظم سکھایا ۔۔وہ صورت سے میرا دل مخلوق عالم سے بالکل بے نیاز ہو گیا ۔۔ اس کے علاوہ آپ کے بہت مناقب ہیں اور یہ توفیق اللہ تعالی کے قبضہ قدرت میں ہی ہے ۔۔۔۔ حضرت ابراھیم بن آدھم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جن دنوں میں بیت المقدس میں تھا ان دنوں کا واقعہ ھے کہ ایک رات جب ھم لوگ عشاء کی نماز پڑھ کر فارغ ھوئے اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو کچھ رات بیتنے کے بعد آسمان سے دو فرشتے اترے اور مسجد کی محراب کے پاس آ کر ٹھہر گئے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ مجھے یہاں سے کسی انسان کی خوشبو آ رھی ھے - دوسرے نے کہا کہ ھاں ! یہ ابراہیم بن ادھم ( رحمۃ اللہ علیہ) ہیں ۔ پہلے نے پوچھا ، " ابراہیم بن ادھم (رحمۃ اللہ علیہ) بلخ کے رھنے والے ہیں؟ دوسرے نے کہا ، "ھاں! وھی" پہلے نے کہا: "افسوس ! انہوں نے رب کی رضا حاصل کرنے کیلئے بڑی مشقتیں برداشت کیں ، مصیبتوں اور مشکلوں کے باوجود صبر سے کام لیا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مرتبہ ولایت عطا کر دیا لیکن صرف ایک چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے انہوں نے وہ مرتبہ کھو دیا" دوسرے نے پوچھا: "ان سے کیا غلطی سرزد ھوئی ھے؟" پہلے فرشتے نے کہا: "جب وہ بصرہ میں تھے تو ایک بار انہوں نے ایک کھجور فروش سے کھجوریں خریدیں اور کھجوریں لیکر جب وہ واپس پلٹنے لگے تو دیکھا کہ زمین پر کھجور کا ایک دانہ گرا پڑا تھا - انہوں نے سمجھا شاید یہ ان کے ھاتھ سے گرا ھے۔ لہٰذا انہوں نے اسے اٹھایا ، صاف کیا اور کھا لیا ۔ دراصل کھجور کا دانہ ان کے ھاتھ سے نہیں گرا تھا بلکہ کھجور کے ٹوکرے سے گرا تھا اور جونہی وہ کھجور ان کے پیٹ میں پہنچی ان سے مرتبہ ولایت واپس لے لیا گیا" حضرت ابراہیم بن آدھم رحمۃ اللہ علیہ نے مسجد کے دروازے کی اوٹ سے جب ان کی یہ باتیں سنیں تو روتے ھوئے مسجد سے باھر نکلے اور اس پریشانی اور بے چینی کے عالم میں بیت المقدس سے بصرہ کی طرف روانہ ھو گئے۔ وھاں جا کر ایک کھجور فروش سے کھجوریں خریدیں اور پھر اس کھجور فروش کے پاس گئے جس سے پہلے کھجوریں خریدی تھیں ، اسے کھجور واپس کی اور ساتھ ھی سارا واقعہ بیان کیا اور آخر میں اس سے معافی بھی مانگی کہ غلطی سے تمہاری ایک کھجور کھالی تھی لہٰذا مجھے معاف کر دینا۔ اس کھجور فروش نے اسے کھلے دل سے معاف کر دیا اور پھر رو پڑا کہ حضرت کو ایک کھجور کی وجہ سے اتنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ مختصر یہ کہ حضرت ابراہیم بن آدھم رحمۃ اللہ علیہ بصرہ سے پھر بیت المقدس روانہ ھو گئے اور بیت المقدس پہنچ کر رات کے وقت اس مسجد میں جا کر بیٹھ گئے۔ جب رات کافی بیت گئی تو آپ نے دیکھا کہ دو فرشتے آسمان سے اترے ، ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ مجھے یہاں سے انسان کی خوشبو آ رھی ھے- دوسرے فرشتے نے کہا کہ ھاں یہاں ابراہیم بن آدھم موجود ہیں جو ولایت کے مرتبے سے گر گئے تھے لیکن اب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل و کرم کے صدقے پھر وھی مقام و مرتبہ عطا فرما دیا۔ کبھی سوچا ھے کہ ہم انجانے میں اور جان بوجھ کر لوگوں کا کتنا حق کھا جاتے ہیں اور اس بات کی پرواہ ھی نہیں کرتے کہ روز محشر اسکا حساب دینا پڑے گا- ٭٭٭حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ کا ایک واقعہ ٭٭٭٭ حضرت خواجہ ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ (متوفی162ھ) بلخ کے بادشاہ تھے ایک واقعہ سے متاثر ہو کر تارک الدنیا ہو گئے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو بہت سے بزرگان دین سے شرف نیاز حاصل رہا حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول آپ رحمۃ اللہ علیہ فقراء کے تمام علوم و اسرار کی کنجی ہیں۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور قول ہے کہ جب گناہ کا ارادہ کرو تو خدا کی بادشاہت سے باہر نکل جاؤ۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ تعالٰٰی علیہ ایک شہر میں تشریف لے گئے اور جا کر مسجد میں رکے۔ عشا کی نماز ہو چکی تو امام مسجد نے کہا مسجد سے نکلو میں دروازہ بند کروں گا اور اتفاق ایسا کہ موسم بھی سخت سردی کا۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ: میں مسافر ہوں رات یہیں رکوں گا۔ امام مسجد: مسافروں کا تو یہ حال ہے کہ مسجد کی قندیلیں اور فرش چوری کر کے لے جاتے ہیں، میں تو کسی کو مسجد میں ٹھرنے نہیں دو گا چاہے ابرہیم بن ادہم ہی کیوں نہ آجائیں۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ: میں ابراہیم بن ادہم ہی ہوں۔ امام مسجد: تمہارے لئے جاڑے کی شدت ہی بہت ہے اس پر جھوٹ کا اضافہ نہ کرو بہت باتیں کر چکے۔ اس کے بعد امام مسجد نے حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ کی ٹانگیں پکڑ کر کھنچتے ہوئے مسجد سے باہر حمام کے تنور تک لایا اور وہاں چھوڑ کر چلا گیا ۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا وہاں حمام میں آگ جلانے والا ایک شخص موجود تھا ۔ سوچا اسی کے پاس چل کر رات گزاری کرنی چائے۔۔۔ میں اس کے پاس پہنچا اور سلام کیا ۔۔۔۔ وہ شخص موٹا بورئیے کا کرتا پہنے ہوئے تھا ۔۔ اشارہ سے مجھے بٹھایا اور ڈرتی نگاہوں سے داہنے بائیں دیکھتا رہا جب اپنے کام سے فارغ ہو کر کہا وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ: میں نے سلام کب کیا تھا اور جواب اب دے رہے ہو ؟ ملازم حمام: میں کسی کا نوکر ہوں مجھے خوف ہوا کہ تمہارے جواب میں مشغول ہو کر میں خیانت کا مرتکب نہ ہو جاؤں۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ: دائیں بائیں کیوں دیکھ رہے تھے؟ ملازم حمام: موت سے ڈرتا ہوں معلوم نہیں ادھر سے آجائے یا اُدھر سے حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ: روزانہ کتنی مزدوری کر لیتے ہو؟ ملازم حمام: ایک درہم اور ایک دانگ کی۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ: یہ پیسے کیا کرتے ہو؟ ملازم حمام: دانگ سے میرے اہل و عیال کی خوراک فرہم ہوتی ہے اور ایک درہم اپنے ایک مرحوم بھائی کی اولاد پہ خرچ کرتا ہوں۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ: کیا وہ تمہارا حقیقی بھائی ہے؟ ملازم حمام: میں نے اس سے خدا کیلئے دوستی کی تھی اب وہ انتقال کر گیا تو اس کی اولاد کی پرورش کرتا ہوں۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللّہ تعالٰی علیہ: اچھا یہ بتاؤ کیا تم نے اللّہ تعالٰی سے کسی شۓ کی دعا مانگی ہے جو قبول ہوئی ہو۔ ملازم حمام: بیس 20 سال سے میں ایک بات کی دعا کرتا ہوں جو اب تک پوری نہیں ہوئی۔ وہ یہ کہ سنا ہے عرب میں ایک شخص ہے جو عابدوں اور زاہدوں میں بلند مرتبہ ہے۔ اسے ابراہیم بن ادہم کہتے ہیں میں نے دعا کی ہے کہ میں اس کی زیارت کروں اور اسی ولی اللہ کے سامنے مجھے موت آئے۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ: اے میرے بھائی تمہیں مبارک ہو کہ اللہ تعالٰی نے تیری دعا قبول کی اور ابراہیم بن ادہم کو منہ کے بل گھسیٹوا کر تیرے پاس بھیج دیا۔ یہ سن کر ملازم حمام خوشی سے اچھل پڑا اور حضرت سے معانقہ کیا۔ اس وقت اس نے دعا کی۔ یا اللّہ تعالٰی تو نے میری تمنا پوری فرمائی میری دعا کو قبولیت سے نوازا اب میری روح کو بھی قبض فرما چنانچہ وہ فورا انتقال کر گیا۔ حضرت ابراہیم بن ادہم بلخ کے ایک شاہی خاندان کے فرد ہیں۔ آپ کی کنیت ابو اسحاق ہے اور شہزادوں میں آپ کا نسبِ عالی حضرت ابراہیم بن ادہم بن سلیمان بن منصور بلخی سے جا ملتاہے۔ حضرت جنید بغدادی آپ کی توصیف میں فرماتے ہیں۔: مَفَاتِحُ الْعُلُوْمِ اِبْرَاہِیْمُ علوم کی چابیاں حضرت ابراہیم ہیں۔ حضرت ابراہیم بن ادہم اپنے زمانے کے یگانہ عارفِ طریقت گزار تھے۔ آپ نے بہت سے قُدَ مَآئَ مشائخ کو دیکھا۔ اِمام الآئمہ حضرت اِمام ابوحنیفہ کے ساتھ رہ کر علم حاصل کیا۔ (نفحات الانس ص41 ‘فارسی) بجٹ عوامی ہے نہ فلاحی، عوام کی آنکھوں میں د ھول جھونکی گئی ایک مرتبہ حضرت اِمام اعظم ابوحنیفہؓ کی مجلس پاک میں حاضرتھے تو بعض لوگوں نے حقارت آمیز نگاہوں سے دیکھا لیکن حضرت اِمام ابو حنیفہؓ نے اُنہیں سیّدنا کہہ کر خطاب فرمایا اور اپنے نزدیک جگہ دی اور لوگوں نے سوال کیا کہ اِنہیں سرداری کیسے حاصل ہوئی ۔ تو حضرت اِمام اعظم ابو حنیفہ ؓ نے فرمایا: اِن کا مکمل وقت ذکروشغل اور وظائف میں گزرتا ہے اور ہم دُنیاوی مشاغل میں بھی حصہ لیتے رہتے ہیں۔ (تذکرۃ الاولیا جلد1 ص85 فارسی)ایک دفعہ شکار کے لئے باہر جنگل میں نکل گئے۔ ہاتفِ غیبی نے آواز دی‘ اے ابراہیم تو اِس کام کے لئے پیدا نہیں کیا گیا۔آپ یہ آواز سنتے ہی متنبّہ ہوئے اور تمام مشاغل کو ترک کر دیا اور طریقت کی راہ اِختیار کی اور حصولِ طریقت پر سختی سے کار بند ہو گئے‘ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ وہاں حضرت سفیان ثوری‘ حضرت فضیل بن عیاض اور حضرت ابو یوسف غسولی سے اِستفادہ کیا اور اِن حضرات کی خدمت میں کچھ وقت گزارا۔ مکہ مکرمہ سے کچھ عرصہ کے لئے ملکِ شام کا رُخ کیا اور وہاں رزقِ حلال کے حصول کے لئے مصروف کار ہوئے۔ آپ باغات کی نگہبانی کر کے رزقِ حلال کماتے تھے۔ (4 تذکرۃا لاولیا جلد1ص85 فارسی) (رضی اللہ تعالٰی عنہما و نفعنا بہ اٰمین)

سلطان ابراہیم بن ادھم بن سلیمان بن ناصر بن عبداللہ بن خلیفہ ثانی حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ۔ حضرت ابراہیم نے خرقہ فقر و خلافت خواجہ فضیل بن عیاض سے پایا۔ ان کے علاوہ آپ کو خواجہ عمران بن موسیٰ بن زید راعی، شیخ منصور سلمی اور خواجہ اویس قرنی قدس سرہم سے بھی خرقۂ تبرک ملا تھا۔ آپ پانچ دنوں بعد افطار کیا کرتے تھے۔ افطار میں بھی سبز کائی استعمال کرتے تھے۔ کم سوتے، پیوند شدہ کپڑے پہنتے ننگے پاؤں چلتے تھے۔ حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ کی مجالس میں حاضری دیا کرتے۔ حضرت امام اعظم آپ کو سیدنا و سندنا ابراہیم بن ادھم کہہ کر یاد کیا کرتے تھے حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو مفتاح العلوم کہا ہے آپ نے ظاہری سلطنت کو اس لیے چھوڑ دیا کہ آپ کے والد بزرگوار کا نام ادھم تھا وہ تارک الدنیا قلندروں کی مجالس میں شرکت کیا کرتے تھے۔ بلخ شہر کے باہر ایک ایسا کا شانہ بنایا تھا۔ جہاں فقیر اور قلندر ہی آیا کرتے تھے۔ ایک دن آپ کے اس کاشانہ کے سامنے سے بادشاہ بلخ کی سواری گزری اس وقت طوفانِ بادو باراں تھا۔ شہزادی کی محمل کا پردہ زور دار ہوا سے ہٹا تو اس ماہ پیکر کا چہرہ نظر آیا۔ دیکھتے ہی ادھم کے دل پر عشق کا تیر جا لگا۔ یہ ایسا نشانہ تھا کہ ادھم دل و جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ دوسرے دن بادشاہ کے دربار میں جا پہنچے۔ اور بلا جھجک لڑکی کے نکاح کا مطالبہ کردیا۔ بادشاہ کو اس مطالبہ سے بڑا دکھ ہوا۔ بدنامی سے بچنے اور قلندر کے روحانی حملہ سے محفوظ رہنے کے لیے اس نے انکار تو نہ کیا۔ مگر ایک شرط پیش کردی۔ اور وزیر کے مشورہ سے کہا کہ ہمارے شاہی خزانہ میں ایک بڑا مروارید ہے جسے ہم دُرّ یتیم کہتے ہیں اسے ادھم قلندر کو دکھا کر کہا کہ اگر آپ ایک ایسا ہی موتی لے آئیں تو ہم بیٹی کا نکاح آپ سے کردیں گے ورنہ اپنے اس مطالبہ کو خالی خواہش جانتے ہوئے واپس لے لیں۔ اور دوبارہ ہمارے محل کی طرف رخ نہ کرنا۔ قلندر نے مرروارید کو دیکھا اور شرط کو قبول کرلیا اور اس مرر وارید کی تلاش میں جنگلوں اور پہاڑوں میں جا نکلے۔ ایک عرصہ کی تگ و دو کے بعد جب وہ مرروارید نہ ملا۔ تو پریشان ہوکر دریا کے کنارے جا پہنچے تاکہ اپنے آپ کو غرق کرلیں ادھم کی اس پریشانی کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دریا جوش میں آیا۔ حضرت خضر علیہ السلام آگے بڑھے، آپ کا ہاتھ پکڑا اور دریا میں چھلانگ لگانے سے بچانے کے لیے آپ کے سامنے ایسے گیارہ مروارید لا رکھے۔ یہ مروارید شاہی خزانے والے مروارید سے کہیں بڑے بھی تھے اور چمکدار بھی خود حضرت خضر علیہ السلام نظروں سے غائب ہوگئے۔ قلندر ادھم یہ سارے مروارید اٹھائے بادشاہ کے پاس جا پہنچے اور اس کے سامنے رکھتے ہوئے اسے اور اس کے وزراء کو حیران کردیا۔ بادشاہ قلندر کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کو عار جانتے ہوئے۔ مروارید کی طرف توجہ نہیں دی۔ اور کہنے لگا جاؤ، ہمارے وزیراعظم سے بات کرکے فیصلہ کرلو وزیر نے قلندر سے تمام مروارید لے کر اسے دھکے دے کر دربا ر سے نکال دیا اور کہا اگر آئندہ یہ مطالبہ لے کر دربار کی طرف آئے نظر آئے تو مروا دیے جاؤ گے۔ ادھم قہر درویش برجانِ درویش کی تصویر بنے۔ جنگل کی طرف روانہ ہوئے۔ اس کے سامنے کوئی چارہ نہیں رہا تھا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ بادشاہ کی لڑکی سکتہ کی بیماری میں جانب بلب ہوگئی اطباء اور وید علاج سے مایوس ہوگئے۔ اسے مردہ جان کر دفنا دیا گیا۔ قلندر ادھم نے اپنی محبوبہ کی موت کی خبر سنی تو تڑپ اٹھا وہ بھی جنازے کے پیچھے پیچھے روانہ ہوا۔ دفن کے بعد لوگ واپس آئے تو وہ قبر سے لپٹ کر رونے لگا ۔ اس کی آنکھوں سے سیل اشک رواں تھے۔ رات ہوئی تو قبر کے نگران قبر کی حفاظت کو آپہنچے انہوں نے قلندر کو قبر کے پاس دیکھاتو بے فکر ہوکر سوگئے قلندر اپنی بے قراری کے ہاتھوں تنگ آکر اپنی معشوقہ کا آخری دیدار چاہتا تھا۔ اس نے قبر کو کھودا۔ تاکہ ایک نظر دیکھ لے۔ نعش کو قبر سے نکالا قبر کو پر کردیا۔ اور نعش کو اٹھاکر وہاں سے چل دیا اور اپنے کاشانہ میں لےگیا۔ لکڑی کے تختے پر لٹا کر شمع روشن کی تاکہ اس کے چہرے کو دیکھ سکے۔ اپنی معشوقہ کو دیکھے جاتا اور زار زار روتا جاتا تھا۔ اسی طرح آدھی رات بیت گئی اتفاق ایسا ہوا کہ یونان سے ایک طبیب اسی رات بلخ پہنچا تھا۔ یہ طبیب ایسی پیچیدہ بیماریوں میں کمال رکھتا تھا۔ رات کا وقت تھا۔ شہر کے دروازے بند دیکھ کر رات بسر کرنے کی فکر میں تھا۔ اس قلندر کے کاشانے میں روشنی دیکھی تو اُدھر آنکلا۔ اندر آکر دیکھا کہ ایک خوبصورت نعش تختے پر پڑی ہے اور ایک شخص پاس بیٹھے رو رہا ہے اور اپنی بے قراری اور پریشانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ طبیب نے اس صورتِ حال کو دیکھا بڑی مہربانی اور لطف سے قریب آیا ہاتھ میں چراغ اٹھایا۔ صورتحال ملاحظہ کی اور نبض دیکھ کر قلندر کو کہا کہ غم نہ کرو۔ رونا چھوڑ دو، یہ ماہ روا بھی ٹھیک ہو جائے گی۔ یہ مری نہیں سکتہ کی بیماری میں بے ہوش ہے۔ یہ کہہ کے ایک نشتر نکالا اور لڑکی کی فصد کاٹ ڈالی۔ خون کے چند قطرے ٹپکے۔ تو نعش حرکت آئی، لڑکی نے آنکھیں کھول دیں۔ دائیں بائیں دیکھا۔ ایک طبیب کو اپنے پاس پایا اور پھر ایک نا محرم کو دیکھ کر چہرے کو چھپالیا، کہنے لگی: اے میرے طبیب اے میرے باپ۔ مجھے یہ بتاؤ، میں کہاں ہوں، کس حالت میں ہوں، اور مجھے کفن کیوں پہنایا گیا ہے اور پھر اس تختے پر قلندر کے کاشانے میں کیسے آئی ہوں طبیب اور قلندر دونوں معذرت کرتے ہوئے آگے بڑھے اور تمام واقعات بیان کردیے۔ بادشاہ کی بیٹی نے جب صورتحال معلوم کرلی اور یہ جان لیا کہ میری جان کی حفاظت تو اس قلندر کی معرفت ہوئی ہے وہ قلندر سے نکاح کرنے پر راضی ہوگئی طبیب نے نکاح پڑھایا۔ صبح ہوئی قلندر شہر میں گیا اور ایک اچھا سا مکان کرائے پرلیا۔ اپنی معشوقہ کو وہاں لے آیا۔ اور نہایت آرام و آسائش سے زندگی بسر کرنے لگا۔ ولادت با سعادت: نو ماہ گزرے تو اللہ کی مہربانی سے خواجہ سلطان ابراہیم پیدا ہوئے۔ وہ شکل و صورت میں اپنی والدہ کے مشابہہ تھے۔ پانچ سال ہوئے تو قلندر نے اپنے اس بیٹے کو شاہی مکتب میں داخل کرایا۔ اس مدرسہ میں بادشاہ کبھی کبھی اس مکتب میں آیا کرتا تھا اور بچوں کا امتحان لیا تھا اتفاقاً بادشاہ کی نظریں اس بچے پر پڑیں تو بے اختیار اُس کی محبت اور الفت نے جوش مارا۔ اُس نے اس بچے کو گود میں اٹھالیا اور اپنے محل میں لے گیا۔ بچہ شام کے وقت اپنے گھر نہ پہنچا تو والدہ کو بڑی تشویش ہوئی اپنے قلندر خاوند کو مکتب میں بھیجا کہ بچے کی خیریت دریافت کرے۔ جب وہ قلندر مدرسہ کی طرف آیا تو اسے بتایا گیا کہ بادشاہ بچے کو اٹھاکر اپنے شاہی محل میں لے گیا ہے وہ قلندر بے اختیار ہوکر اُسی طرح دوڑا دوڑا بادشاہ کے پاس پہنچا۔ بادشاہ نے قلندر کو دیکھتے ہی پہچان لیا۔ اور کہا اے قلندر اللہ نے تمہیں عجیب لڑکا دیا ہے جو منظور اور مقبول خلق ہے۔ میں نے پہلی بار دیکھا تو اُس سے پیار و محبت ہوا اور میں اسے اٹھاکر محل میں لے آیا ہوں۔ قلندر بات سن کر مسکرایا اور کہا بادشاہ کی محبت کی وجہ یہ ہے کہ یہ بچہ اُس کی بیٹی کا فرزند ہے پھر اس نے تمام حالات کی تفصیلات بادشاہ کو سنائی۔ جب بادشاہ کو یہ معلوم ہوا کہ اس کی اکلوتی بیٹی ابھی تک زندہ ہے تو سجدہ شکر بجالایا ور نہایت خوشی سے اٹھا اور یہ خوشخبری اپنی بیگم کو سنائی۔ دونوں شاہی سواری پر سوار ہوکر قلندر کے گھر پہنچے۔ بیٹی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے بادشاہ نے اپنی بیٹی کے لیے بڑا عالی شان محل بنایا چونکہ بادشاہ کا اپنا کوئی بیٹا نہ تھا اُس نے اعلان کیا کہ میرا نواسا سلطان ابراہیم میرا جانشین اور ولی عہد ہوگا۔ بادشاہ خود اللہ کی عبادت میں مشغول ہوگیا۔ سلطان ابراہیم تختِ شاہی پر بیٹھا اور کئی سال تک نہایت عدل و انصاف کے ساتھ حکمرانی کرتا رہا۔ دن کو لوگوں کی ضرورتیں پوری کرتا اور رات کو اللہ کی عبادت میں مشغول رہتا تھا۔ لیکن ان کا قلب ہمیشہ اپنی اصل کی طرف مائل اور حق تعالیٰ کی محبت میں سرشار رہا۔ آپ درویشوں کی بے حد تعظیم و تکریم کرتے تھے۔ اور اکثر اوقات ان کے جوتے اٹھاکر سامنے رکھتے۔ آخر جوانی ہی میں سلطنت سے دست بردار ہوکر عبادت حق تعالی میں مشغول ہوگئے۔ ایک بزرگ آپ کی بابت فرماتے ہیں۔ ترک ابن ادھم ملکہ ومنزلہ فانی الفضیل متابعا لمعادہ ترک الخزائن والجنود واھلہ فا قام ساعدہ مقام وسادہ یعنی ابراہیم بن ادھم اپنا ملک اور اپنا مکان چھوڑ کر خواجہ فضیل کی فرمانبرداری میں آئے انہوں نے اپنے خزانہ، لشکر، اہل و عیال چھوڑ کر خواجہ فضیل کے تکیہ کی جگہ اپنی باہیں بچھادیں‘‘۔ ابراہیم بن ادھم قدس سرہٗ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں بھی کچھ دنوں رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ امام صاحب آپ کی نسبت یہ الفاظ فرمایا کرتے تھے ’’سیدنا ابراہیم بن ادھم قدس اللہ سرہ‘‘۔ امام ابو حنیفہ کے یاروں نے کہا کہ انہوں نے سیادت کس وجہ سے پائی فاضل امام نے جواب دیا کہ خدا تعالیٰ کی خدمت میں مشغول رہے اور ہم دوسرے کاموں میں مصروف۔ خواجہ جنید قدس سرہ جو اولیاء اللہ کے سرتاج ہیں فرماتے کہ مفاتح العلوم ابراہیم بن ادھم۔ یعنی ابراہیم بن ادھم تمام علوم کی کنجی ہیں آپ کی توبہ کا سبب چونکہ حد شہرت کو پہنچ چکا ہے اس لیے یہ محل اس کے لکھنے کا محتاج نہیں ہے۔ آپ کا قول ہے ’’ان التصوف التکریم والتسلیم والتطرق والتّلطف‘‘۔ یعنی تصوف کیا ہے؟ تمام مخلوقات کو بزرگ رکھنا اپنے تئیں خدا کے حوالہ کر دینا۔ ہر لحظہ خدا کی طرف نظر رکھنا بندوں کے ساتھ رحیمانہ برتاؤ کرنا۔ یہ بھی آپ کا مقولہ ہے ’’واتخذ اللہ صاحبا ودع الناس جانبا‘‘۔ یعنی لوگوں کو ایک کنارہ چوڑ کر خدا کو اپنا صاحب بنا۔ آپ یہ بھی کہا کرتے تھے ’’کثرۃ النظر الی الباطل یذھب معرفتہ الحق من القلب‘‘۔ یعنی باطل چیز کی طرف بکثرت دیکھنا دل سے معرفت حق لے جاتا ہے۔ یہ بھی آپ کا قول ہے ’’قلتہ الحرص والطمع یورث الصدق والورع وکثرۃ الحرص الطمع یکثر الغم ولجزع‘‘ یعنی حرص و طمع کی قلت راستبازی اور پرہیز گاری پیدا کرتی ہے اور ان کی کثرت سے غم اور بے قراری حاصل ہوتی ہے۔ یہ بھی آپ ہی کا مقولہ ہے ’’قدر ضینا من اعمالنا بالمعانی ومن طلب التوبتہ بالتوالی ومن العیش الباقی بالعیش الفانی‘‘۔ یہ قول بھی آپ ہی کا ہے۔ ’’اطلب یطمعک بان تقوم الیل وتصوم النھار‘‘۔ یعنی کھانے کی تلاش اس لیے کرنی چاہیے کہ اس کی وجہ سے رات کا قیام اور دن کا روزہ رکھا جائے۔ منقول ہے کہ خواجہ ابراہیم ادھم نے ایک دفعہ ایک شخص کو صحرا میں دیکھا اس نے آپ کو اسم اعظم کی تعلیم دی جس کے پڑھنے کی برکت سے آپ نے حضرت خضر سے ملاقات کی حضرت خضر نے فرمایا۔ کہ اے ابراہیم میرے برادر الیاس نے تمہیں اسم اعظم تعلیم کیا ہے یہ تمام برکتیں اس کی ہیں۔ آپ اکثر اوقات یہ دعا پڑھا کرتے تھے ’’اللھم انقلنی من ذل معصیتک الی عزطا عتک‘‘۔ یعنی خدا وند مجھے اپنی معصیت و نا فرمانی کی خواری و ذلت سے اپنی طاعت کی عزت کی طرف نقل کردے۔ منقول ہے کہ ایک دفعہ خواجہ ابراہیم ادھم قدس سرہ جعفر بن منصور کے پاس آئے جو عباسیوں میں دوسرا خلیفہ اور وارث تخت و تاج تھا۔ خلیفہ نے بڑے جوش کے ساتھ استقبال کیا اور سلام کے بعد کہا۔ اے ابو اسحٰق تمہارا کیا حال ہے خواجہ ابراہیم ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اے امیر المومنین نرفع دینانا بتمزیق دیننا فلا دیننا بقی ولا ما نرفع یعنی ہم نے اپنا دین پست کر کے دنیا کو بلند کیا لیکن اب نہ تو دین باقی رہا اور نہ ہی وہ چیز ہی رہی جسے ہم نے بلند کیا تھا منقول ہے کہ خواجہ ابراہیم ادھم کا جاڑے کا لباس صرف ایک موٹا ٹاٹ ہوتا تھا جس کے نیچے کُرتا وغیرہ کچھ نہ ہوتا تھا۔ اور گرمی میں دو کپڑے ہوتے تھے جن کی قیمت چار درہم سے زیادہ نہ ہوتی تھی ایک کاتہ بند بناتے اور دوسرے کی چادر۔ آپ کیا سفر اور کیا حضر ہر وقت روزے سے رہتے اور راتوں کو قیام و نماز میں بسر کیا کرتے تھے۔ ہمیشہ فکر و غم میں مستغرق نظر آتے تھے کھیت کاٹتے اور اس کی اُجرت سے قوت حاصل کیا کرتے۔ جب آپ کھیت کاٹنے سے فارغ ہوتے اور مزدوری کر چکتے تو اپنے کسی یار کو کھیت والے کے پاس بھیجتے اور حساب کے بعد جو اجرت وہ لاتا آپ اس میں سے کچھ نہ لیتے بلکہ اپنے اصحاب پر تقسیم کر دیتے اور فرماتے جو تمہیں مطلوب ہو فوراً خرید لاؤ اور اپنے صرف میں لے آؤ لیکن جب آپ کو کھیت کاٹنے کی اجرت نہ ملتی تو باغوں کی حفاظت کرنے کی مزدوری کرتے کرامت: منقول ہے کہ خواجہ ابراہیم ادھم رحمۃ اللہ علیہ ایک دن کوہ قبیس پر بیٹھے ہوئے اپنے یاروں سے باتیں کر رہے تھے کہ اگر اولیاء اللہ میں سے کوئی ولی پہاڑ سے کہے کہ روان ہو تو وہ فوراً اپنی جگہ چھوڑ کر چلنے لگے۔ ابھی آپ کی زبان فیض ترجمان پر یہی الفاظ جاری ہوئے تھے کہ پہاڑنے جنبش کی آپ نے پہاڑ کو ٹھکرا کر فرمایا کہ او ابو قبیس ٹہر جا میں نے تجھے روان ہونے کا حکم نہیں کیا ہے بلکہ اپنے یاروں کی خدمت میں تمثیل کے طور پر بیان کر رہا تھا کرامت: منقول ہے کہ خواجہ ابراہیم ادھم رحمۃ اللہ علیہ ایک دفعہ دریا کے سفر میں جہاز پر سوار تھے اور اپنی کملی میں لپٹے ہوئے مراقبہ میں مشغول تھے اسی اثنا میں ایک نہایت تیز و تند ہوا چلنی شروع ہوئی اور اس نے یہاں تک طول پکڑا کہ جہاز کے ڈوب جانے کا خوف سب پر طاری ہوگیا۔ تمام اہل جہاز جمع ہوکر آپ کے پاس آئے اور گڑ گڑا کر عرض کیا کہ حضرت کیا حال ہے۔ ہم تو معرض ہلاکت میں پڑے ہوئے ہیں آپ یہاں بیٹھے نیند میں مشغول ہیں خواجہ ابراہیم نے کملی سے سرنکالا اور آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا خدا وند ہم تیری قدرت کاملہ کو دیکھ چکے ہیں اب تو اپنے فضل و کرم سے معاف فرما۔ دعا کے بعد اہل جہاز کو بہت ہی تھوڑا انتظار کرنا پڑا کہ ہوا بند ہوگئی اور جہاز پانی کی سطح پر ٹھہر گیا ۔ راہِ تصوف: منقول ہے کہ خواجہ ابراہیم ادھم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ خدا کی اجازت و حکم سے جنگل میں نکل گیا۔ جب میں بمقام ذات الوق پہنچا تو ستر گڈری پوشوں کو دیکھا کہ مرے پڑے ہیں اور خون کی ندیاں ان کے جسموں سے بَہہ رہی ہیں میں ان کے قریب گیا دیکھتا ہوں کہ ایک نوجوان میں کچھ حیات مستعار باقی ہے میں اس کے سرہانے جا کھڑا ہوا اور نہایت نرمی کے ایک نوجوان میں کچھ حیات مستعار باقی ہے میں اس کے سرہانے جا کر کھڑا ہوا اور نہایت نرمی کے لہجہ میں کہا اے نوجوان مرد یہ کیا کیفیت ہے اس نے آنکھیں کھول کر کہا یا ابا ادھم علیک بالماء المحراب۔ یعنی اے ادھم کے بیٹے تجھے پانی اور محراب لازم ہے مطلب یہ کہ ہمیشہ با وضو رہ اور محراب طاعت میں زندگی بسر کر۔ تو دور مت جا کہ مہجور و محروم رہے گا اور اس قدر قریب بھی نہ آکہ رنج اندوہ اٹھائے گا مبادا کوئی شخص بساط سلاطین پر گستاخی کرے تجھے ایسے دوست سے ڈرنا چاہیے جو حاجیوں کو رومی کافروں کی طرح قتل کرتا ہے اور حاجیوں سے جہاد کرتا ہے۔ واضح ہو کہ ہم ستر آدمی جنہیں تو اس وقت خاک و خون میں غلطان دیکھتا ہے صوفیوں کی جماعت ہیں ہم نے توکل کی صحرا میں قدم رکھا تھا اور اس پر عزم بالجزم کر لیا تھا کہ کسی سے بات نہ کریں گے اور بجز خد اللہ تعالیٰ کے اور کسی سے اندیشہ نہ کریں گے نیز اس کے سوا کسی اور کی طرف التفات نہ کریں گے لیکن جب ہم حرم میں پہنچے تو خضر علیہ السلام نے ہم سے ملاقات کی ہم نے سلام کیا اور انہوں نے بڑی خندہ پیشانی سے ہمارے سلام کا جواب دیا جس پر ہم بہت خوش ہوئے اور سب نے مل کر کہا الحمد اللہ ہماری محنتیں ٹھکانے لگیں اور ہماری کوششیں مشکور ٹھہریں اس سے بڑھ کر طالب کے لیے اور کیا چیز ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے مطلوب و مقصود کو پالے۔ حضرت خضر علیہ السلام نے ہمارا استقبال کیا اور وہ خود ہم سے ملاقات کرنے کے لیے تشریف لائے بس ہمارا یہ کہنا تھا کہ ہاتفِ غیب نے ایک قہر ناک آواز سے ہمیں پکارا کہ اے جھوٹو! اور اے مدعیو! تمہارے عہد و پیمان یہ تھے کہ ہمیں کبھی فراموش نہ کرو گے اور ہمارے غیر کی طرف مشغول نہ ہوگے تم نے اپنے عہدوں کو توڑ دیا کہ ہمیں بھول کر ہمارے غیر کی جانب مصروف ہوگئے جاؤ میں اس عہد شکنی کے جرم میں تمہاری جانیں غارت کروں گا اور جب تک تمہاری اچھی طرح خونریزی نہ کرلوں گا کبھی تم سے صلح نہ کروں گا۔ اے ابراہیم جن جوان مردوں کو تم خاک و خون میں لتھڑا ہوا دیکھ رہے ہو یہ سب کے سب حق تعالیٰ کے شہید ہیں ابراہیم! اگر تم بھی ایسا کر سکتے ہو تو اس راہ میں قدم رکھو ورنہ ہم سے دور ہوجاؤ۔ ایک بزرگ نے کیا خوب فرمایا ہے۔ خونریز بود ھمیشہ در کشورما جان عود بود ھمیشہ در منجموما داری سرماو گر نہ دور از برِ ما مادو ست کشیم تونداری سرما خواجہ قدس سرہ گھائل نوجوان کی یہ باتیں سن کر حیران زدہ ہوگئے اور دوبارہ پوچھا کہ مجھے صرف اس قدر دریافت کرنا اور باقی ہے کہ تم کس طرح زندہ رہے جواب دیا کہ اور سب لوگ پختہ کار تھے چونکہ مجھ میں خامی تھی اس لیے کہا گیا کہ تو جانکنی کی شدت و سختی میں پختگی حاصل کر اور جب پختہ کاری تجھے نصیب ہوجائے تو ان کے قدموں کے پیچھے پیچھے چلا آ۔ یہ کہا اور جاں بحق تسلیم کر گیا۔ منقول ہے کہ خواجہ ابراہیم ادھم آخر عمر میں لوگوں کی نظروں سے مخفی ہوگئے اور کسی کو معلوم نہیں کہ آپ کس جگہ آرام فرما رہے ہیں۔ بعض کہتے ہیں بغداد میں ہیں اور بعض کہتے ہیں شام میں ہیں بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ آپ آبادی سے بھاگ کر اس غار میں پہنچے جہاں حضرت لوط علیہ السلام کی قبر شریف ہے اور وہیں آپ نے وفات پائی جب آپ کا انتقال ہوا تو ایک آواز باین مضمون لوگوں کو سنائی دی ’’الا ان امان الارض قدمات‘‘۔ یعنی ہوشیار ہوجاؤ کہ جس سے اہل زمین کو امن و امان حاصل تھی وہ آج زمین سے اٹھ گیا۔ یہ آواز سن کر تمام لوگ متحیر تھے کہ معاملہ کیا ہے یہاں تک کہ خبر آئی کہ حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ انتقال کر گئے۔ ترک ِسلطنت کیوجہ: ایک رات بادشاہ اپنے شاہی محل میں سویا ہوا تھا کہ چھت پر کسی کے دورنے کی آواز سنائی دی، بیدار ہوا آواز دی کہ چھت پر کون ہے جواب آیا کہ میں ایک مسافر ہوں میرا اونٹ گم ہوگیا تھا۔ اسے تلاش کر رہا ہوں ، بادشاہ نے کہا ارے بیوقوف گھروں کی چھتوں پر اونٹ بھی ملتے ہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اونٹ گھر کی چھت پر آجائے اُس شخص نے جواب دیا تم تو مجھ سے بھی زیادہ بیوقوف ہو کبھی خدا بھی شاہی محلات میں ملتا ہے۔ تم ریشمی بستر پر آرام کرے ہو اور چاہتے ہو کہ تمہیں خدا مل جائے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ہم خدا خواہی دہم دنیائے دوں این خیال ست و محال است و جنون اس بات سے سلطان ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ کی دل کی دنیا بدل گئی صبح اُٹھا اپنے بیٹے کو تخت نشین کردیا۔ امورِ سلطنت اُس کے حوالے کیے، شہر چھوڑ کر جنگل کی راہ لی، جنگل میں پہنچا تو شاہی لباس اُتار کر ایک گڈریے کو بخش دیا۔ اور اس کے پھٹے پرانے کپڑے خود پہن لیے۔ بلخ کو چھوڑ کر نیشاپور آیا اور پہاڑ کی ایک غار میں عبادت کرنے لگا وہ جمعرات کی رات غار کی چھت پر آتا، لکڑیوں کا گٹھا جمع کرتا سر پر اُٹھاکر شہر میں پہنچتا اور لکڑیاں بیچ کر جو کچھ حاصل ہوتا اس کا نصف اللہ کی راہ میں دے دیتا اور نصف سے اپنی ضرورت کی چیزیں خرید کرلے آتا۔ ایک عرصہ تک اس کا یہی کام رہا وہ غیبی اشارہ سے مکہ معظمہ پہنچا اور خواجہ فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوکر مرید ہوگیا۔ا ور ظاہری و باطنی کمالات حاصل کیے۔ اسمِ اعظم: خدائی سلطنت: جن دنوں سلطان ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ لکڑیوں کا گٹھا اٹھائے بازار میں آیا کرتے تھے تو بلخ کا ایک امیر آدمی بھی وہیں ہی تھا۔ اُس نے سلطان ابراہیم کو پہچان لیا اور بادشاہی چھوڑ کر لکڑیاں بیچنے پر بڑی ملامت شروع کردی۔ حضرت سلطان ابراہیم کو اُس کی باتوں پر بڑا غصہ آیا۔ بیٹھے بیٹھے لکڑیوں کے گٹھے پر ہاتھ مارا تو وہ ساری سونے کی بن گئیں۔ سلطان ابراہیم نے یہ سارا سونا اُس کو بخش دیا۔ اور کہا کہ آج بلخ کی سلطنت کی یاد کی نحوست کی وجہ سے میری حلال کی روزی ضائع ہوگئی۔ ایک بار سلطان ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ بلخ کے راستے سے ہوتے ہوئے مکہ کی طرف جا رہے تھے۔ شاہی امراء اور وزراء کو آپ کی خبر ہوئی انہوں نے آپ کے صاحبزادے کو جو اس وقت تخت نشین تھا ساتھ لیا اور حاضرِ خدمت ہوئے۔ سب نے مل کر درخوست کی کہ اگر آپ دوبارہ تخت سلطنت پر تشریف لے آئیں تو ہمیں بڑی خوشی ہوگی۔ سلطان ابراہیم نے اپنے بیٹے کو بڑی محبت کے ساتھ اپنے پہلو میں بٹھالیا اور باتیں کرنے لگے۔ اسی اثناء میں غیب سے ایک آواز آئی کہ جو لوگ ہمارے حسن وجمال کے عاشق ہوتے ہیں وہ کسی دوسرے کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ یہ بات سنتے ہی سلطان ابراہیم نے رونا شروع کردیا اور عرض کی اے اللہ! جس کی وجہ سے ابراہیم تجھ سے غافل ہوگیا ہے اُس کو اٹھالے تاکہ تیری محبت کا رشتہ نہ ٹوٹنے پائے کہتے ہیں کہ صاحب دار سلطنت ابراہیم کے بیٹھتے ہی فوت ہوگیا۔ جن دنوں سلطان ابراہیم بلخ کی بادشاہی چھوڑ کر بیابان میں چلے گئے تو چند دن دریا کے کنارے پر قیام کیا وہاں امراء اور وزراء حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ آپ دوبارہ تخت نشین ہوجائیں سلطان ابراہیم اس وقت اپنی گدڑی سی رہے تھے آپ نے سوئی دریا میں پھینک دی اور فرمایا کہ تم بڑے طاقتور حاکم ہو۔ دنیا کے سارے اسباب تمہارے پاس موجود ہیں دریا سے میری سوئی نکال دو کوئی بھی سوئی نہ نکال سکا۔ آپ نے بلند آواز سے کہا کہ اے دریا کی مچھلیو میری سوئی نکال کر لاؤ۔ اُسی وقت ہزاروں مچھلیاں اپنے منہ میں چاندی کی سوئیاں اٹھائے پانی کی سطح پر تیرنے لگیں۔ ایک مچھلی کے منہ میں حضرت خواجہ کی سوئی بھی تھی، آپ نے ہاتھ بڑھا کر اس سے سوئی لی اور تمام مچھلیوں کو رخصت کردیا۔ا مراء کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ہماری سلطنت تمام جہاں پر ہے اب ہمیں بلخ کی سلطنت کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک دن سلطان ابراہیم ادھم کوہِ ایوقیس پر بیٹھے تھے اپنےد وستوں کے ساتھ باتیں کر رہے تھے کہنے لگے اللہ کے بندے اگر پہاڑ کو کہہ دیں کہ یہاں سے چل تو وہ چل پڑتے ہیں۔ یہ بات سنتے ہی پہاڑ میں حرکت ہوئی۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں چلنے کو نہیں کہا، یہ بات تو میں نے تمثیلاً کہی تھی۔ توکل: ایک دن خواجہ شفیق بلخی سلطان ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ بلخ کی خدمت حاضر ہوئے۔ ایک درویش جو صاحب کشف و کرامات تھا وہ مجلس میں بیٹھا تھا۔ آپ نے پوچھا تم گزر اوقات کیسے کرتے ہو، وہ کہنے لگا کہ گر مل جائے تو کھا لیتا ہوں ورنہ صبر کرتا ہوں، آپ نے فرمایا یہ کام ہماری گلی کوچے کے کتے بھی کرتے ہیں، ہونا یوں چاہیے ’’اگر نہ ملے تو صبر کرو، اگر مل جائے تو اللہ کی راہ میں قربان کردو‘‘۔ ایک شخص نے حضرت سلطان ابراہیم ادھم رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ تم کس کے بندے ہو آپ کانپے اور بے ہوش ہوگئے، ہوش میں آئے تو یہ آیت پڑھی، جس کا ترجمہ یہ ہے (آسمانوں اور زمینوں میں کوئی بھی ایسا نہیں جو اللہ کا بندہ نہ ہو) اس شخص نے کہا کہ آپ نے پہلے ہی یہ جواب کیوں نہیں دے دیا فرمایا میں ڈرتا تھا کہ اگر میں اپنے آپ کو اس کا بندہ کہوں تو مجھ سے اُس کی بندگی کا حق ادا نہیں ہوا، اگر نہ کہوں تو کافر ہوجاتا ہوں۔ کرامت: حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ ایک دن دریا کے کنارے پہنچے اور پار جانا چاہا، ملاح نے کرایہ مانگا، آپ نے دریا کی ریت کی مٹھی بھری اور ملاح کی جھولی میں ڈال دی ملاح نے غور سے دیکھی تو ریت نہیں تھی وہ سونا تھا۔ حضرت سلطان ابراہیم ادھم رحمۃ اللہ علیہ کے دو کامل خلفاء تھے ایک خواجہ حذیفۃ المرعشی اور دوسرے خواجہ شفیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ۔ آپ نے جس دن بادشاہی چھوڑی اس دن سے ایک جگہ پر قیام نہیں کیا، کئی جگہ سے ہوتے ہوئے شام میں حضرت لوط علیہ السلام کے مقبرے کے ساتھ ایک پہاڑ کی غار میں مقیم ہوئے۔ سیرالاقطاب میں آپ کی وفات بروز جمعہ اٹھائیس جمادی الاوّل ۲۸۰ھجری لکھی ہے۔ مگر سفینہ الاولیاء میں دو سو اکاسٹھ یا باسٹھ ہجری لکھی ہے ۔ مخبر الواصلین کے مصنف نے آپ کا سال وصال دو سو پینسٹھ لکھا ہے، آپ کا مدفن پاک شام میں ہے، وفات کے وقت آپ کی عمر ۱۰۲ سال تھی۔ [تفصیلی حالات کے لیے تذکرۃ الاولیاء سیر الاقطاب اور نفحات الانس کا مطالعہ کریں۔] تاریخ وفات: شیخ ابراہیم سلطان ولی شد چو از دنیا بفردوس برین دل بسالِ وصل آں والا ہمم قطب حق بیں قطب ھم قطب یقین ۲۸۱ سیر الاولیاء سبب ترک: شیخ فرید الدین عطارنے تذکرۃ الاولیاء میں اُن کے ترک کے تین چار سبب بیان کیے ہیں۔ مولانا جامی اپنی کتاب نفحات الانس میں لکھا ہے کہ شکار کے دوران ہاتف نے آواز دی کہ تم اس کام کے لیے نہیں پیدا کیے گئے۔ اس سے ان کو آگاہی ہوئی بادشاہی ترک کردی۔ لیکن میر سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہٗ اپنی کتاب لطائف اشرفی میں فرماتے ہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام نے سلطنت سے نکال کر اس راستے پر لگایا، تربیت دی۔ اور خرقۂ خلافت عطا کیا۔ اس کے بعد آپ حضرت خواجہ فضیل ابن عیاضکی خدمت میں حاضر ہوئے اور تربیت حاصل کرنے کے بعد خرقہ خلافت حاصل کیا۔امام باقر رضی اللہ عنہٗ سے خلافتاس کے بعد آپ کو حضرت امام محمدﷺ باقر رضی اللہ تعالیٰعنہٗ کا فیض صحبت بھی نصیب ہوا اور ایک خرقۂ خلافت اُن سے بھی حاصل کر کے اوج کمال تک پہنچ گئے۔ اور آپ سے ایک جہان فیض یاب ہوا اور ہدایت حاصل کی۔حضرت خواجہ اویس کرنی کے خلفاء سے خلافت سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ آپ کو حضرت عمران بن موسیٰ اور حضرت زید راعی سے بھی خلافت تھی۔ حضرت زید راعی کو حضرت خواجہ ادریس قرنی سے اور حضرت معمر الجیلی سے خلافت تھی۔ جن کا اصحاب رسول اللہﷺ میں شمار ہوتا ہے۔ ان کا مزار اردبیل اور ج یل کے مابین ایک مقام پر ہے۔ امام ابو حنیفہ سے صحبت: حضرت خواجہ ابراہیم بن ادہمکو امام ابو حنیفہکی صحبت بھی ملی ہے۔ چنانچہ امام ابو حنیفہآپ کو ہمیشہ سیدنا ابراہیم بن ادہمکہہ کر پکارتے تھے۔ اُن کے شاگردوں نے امام صاحب سے دریافت کیا کہ یہ سیادت ان کو کیسے ملی ہے۔ امام صاحب نے جواب دیا کہ وہ دائماً حق تعالیٰ کی محبت میں مشغول ہے اور ہم دوسرے کاموں میں مشغول ہیں۔سید الطائفہ حضرت جنید بغدادیکا قول سید الطائفہ حضرت شیخ جنید بغدادی قدس سرہٗ فرماتے ہیں کہ اس طائفہ(صوفیاء) کے علوم کی چابی ابراہیم ادہمہیں۔ آپ کے مجاہدات: لیکن ان کمالات کے باوجود آپ پر ہمیشہ گریہ طاری رہتا تھا۔ جب آپ بلخ سے مرد اور مروسے نیشا پور گئے تو وہاں کی مشہور غار میں آپ کامل نوسال تک عبادات اور ریاضات میں منہمک رہے۔ لوگوں کو کیا معلوم آپ غار میں کیا کر رہے ہیں۔ جموات کے دن آپ غار سے باہر آتے تھے اور لکڑیوں کا گٹھا جمع کر کے شہر میں فروخت کرتے اور روٹی خرید کر نصف فقراء میں تقسیم اور نصف اپنے لیے رکھتے تھے۔ ایک ہفتہ تک اس پر اکتفا کرتے تھے۔ جب بلا قصد آپ سے کرامات کاظہور ہونے لگا تو لوگوں کو معلوم ہوا کہ کون ہے۔ مکہ مکرمہ میں سکونت: خلق خدا کا ہجوم دیکھ کر آپ وہاں سے بھاگ نکلے اور مکہ معظمہ میں سکونت اختیار کی۔ اسم اعظم سے آگاہی: وہاں پہنچ کر آپ نے صحرا میں قیام فرمایا ایک اکابر دین نے وہاں پہنچ کر آپ کو اسم اعظم تعلیم فرمایا۔ اس کے فوراً بعد حضرت خضر علیہ السلام تشریف لائے اور کہنے لگے کہ ابراہیم جس نے آپ کو اسم اعظم سکھایا وہ میرے بھائی الیاس علیہ السلام تھے۔ نفحات الانس میں لکھا ہے جن دنوں سلطان ابراہیم نے بادشاہی چھوڑ کر جنگل میں قدم رکھا تو غیب سے ایک بزرگ آئے انہوں نے انہیں اسمِ اعظم سکھایا۔ اسمِ اعظم پڑھتے ہی عرش سے لے کر فرش تک تمام چیزیں روشن ہوگئیں، کچھ دنوں بعد حضرت خضر علیہ السلام تشریف لائے۔ کہنے لگے اے سلطان وہ میرے بھائی حضرت الیاس تھے جنہوں نے تمہیں اسمِ اعظم سکھایا ہے میں خضر ہوں۔ میں تیرا دوست بن کر رہوں گا۔ حضرت ابراہیم ادھم نے جواب دیا کہ میں اللہ تعالیٰ کے بغیر کسی دوسرے دوست کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، یہ کہہ کر حضرت خضر علیہ السلام کو رخصت کردیا۔ کہ حضرت خواجہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے حضرت خواجہ داؤد بلخی نے بادیہ میں اسم اعظم سے آگاہ فرمایا۔ حقیقت اسمِ اعظم: مراۃ الاسرار میں ملا عبد الغفور کے حاشیہ جو نفحات الانس پر ہے میں یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ اسم اعظم دو اطلاق پر ہے اوّل یہ کہ وہ ایک اسمِ ہے جو ذات جامع جمعی صفات کمال پر دلالت کرتا ہے اور وہ اسم مبارک اللہ ہے۔ دوم یہ کہ وہ ایسا اسم ہے جس سے آثار عجیبہ مرتب ہوتے ہیں۔ اس میں اختلاف ہے کہ آیا وہ ایک اسم ہے یا اسماء کا مجموعہ ہے۔ بحسب اشخاص اس اسم کا تعین شریعت میں بطریق اجمال ہے۔ اسمِ اعظم اور صاحب مراۃ الاسرار کا اپنا تجربہ: صاحب مراۃ الاسرار کا بیان ہے کہ اس فقیر نے سالہا اسم اعظم کی ۳آرزو ریاضت شاقہ کی حالت زار کو پہنچا اور یہ حالت ہوگئی کہ سر سے پاؤں تمام اجزائے جسم ذاکر ہوگئے۔ دل کی کلیکھلی اور اسمِ اعظم منکشف ہوا۔ اس سے میرے قلب پر عجیب غریب کیفیات کا ورد ہونے لگا (کبھی سکر(بے خودی)، کبھی صحو (ہوشیاری) لیکن مجھے معلومن ہ تھا کہ یہ اسم اعظم کے اثرات ہیں۔ چنانچہ بندگی شیخ نظام الدین انبیٹھویکے مرشد حضرت بندگی شیخ معروف جونپوریکی خواب میں زیارت ہوئی اور اسم اعظم کے متعلق میں نے اُن سے دریافت کیا۔ انہوں نے میرے قلب نیلو فری پر نشان دہی فرمائی تو مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ اسم اعظم ہے۔ غرضیکہ جب تک قلب نیلو فری شگفتہ نہ ہو اسم اعظم سے آشنائی محال ہے۔ یہ وہ راز ہے کہ دل اس سے محرم ہوتا ہےلیکن اس کا زبان پر لانا ممکن نہیں۔ سفرِ حج میں ہر قدم پردوگانہ: اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہےکہ حضرت خواجہ ابراہیم ادہمنے سفرِ مکہ میں ہر قدم پر دوگانہ نفل ادا کیا اور صحرا طے کرتے ہوئے چودہ برس کے بعد مکہ معظمہ پہنچے۔ یہ دیکھ کر تمام مشائخ مکہ آپ کے استقبال کے لیے باہر آئے اور عزت وتکریم سے پیش آئے۔ اُسی جگہ حضرت خواجہ فضیل ابن عیاضکی خدمت میں حاضر ی نصیب ہوئی۔ آپ پچاس سال تک مجاورِ حرم مکہ رہے۔ اولاد: مراۃ الاسرار میں شرح آداب المردین سے نقل ہے کہ حضرت خواجہ ابراہیم ادہم مدت تک جامع بصرہ میں معتکف رہے اور تین دن رات میں ایک بار افطار کرتے تھے۔عبداللہ مبارککے استاذ حضرت خواجہ عطا سلمیفرماتے ہیں کہ ایک سفر میں میں ان کے ہمراہ تھا۔ زادِ راہ ختم ہوگیا تو چالیس دن تک ہم نے صبر کیا۔ آپ مٹی کھایا کرتے تھے اور کسی سے اس کا ذکر نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جب خواجہ ابراہیم ادہمبلخ سے چلے گئے تو پیچھے ایک بچہ چھوڑ کر گئے بڑا ہوکر بچے نے دریافت کیا کہ میرا والد کہاں ہے۔ اس کی ماں نے سارا حال بیان کیا اور کہا کہ اس وقت وہ مکہ میں ہیں۔ والد کی زیارت کے لیے وہ مکہ پہنچے۔ جب حضرت خواجہ ابراہیم ادہم نے اپنے بیٹے کو دیکھا تو شفقت پدری جوش میں آئی۔ اور اُسے پاس بٹھاکر پوچھا کہ کس دین پرہو۔ اس نے جواب دیا کہ اسی دین مصطفویﷺ پر ہوں فرمایا الحمدللہ اور بچے کے ساتھ بہت لطف وکرم سے پیش آئے۔ غیب سے آواز آئی کہ میری دوستی کا وعدہ کرتے ہو لیکن دل بیٹے کے ساتھ لگاتے ہو۔ آپ نے فوراً مناجات کی ک ہ الٰہی میرے اور تیرے درمیان جو چیز حائل ہے اُسے دور کردے۔ یہ کہنا تھا کہ بچہ جاں بحق ہوگیا اس کے بعد نہ آپ نے کوئی شادی کی نہ اولاد پیدا ہوئی۔ لیکن حضرت شفیق بلخیکے والد ابراہیم بلخی جن کا مزار بلخ میں ہے اور ان کے ہمعصر ہیں اپنے آپ کو حضرت ابراہیم بن ادہم کی اولاد ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن کتب معتبرہ سے یہی پتہ چلا ہے کہ آپ کی اولاد نہیں تھی۔ یہاں تک مراۃ الاسرار سےنقل کیا گیا ہے۔ لیکن حقیت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ادہم کی اس بیٹے کے علاوہ اور بھی بیٹے تھے۔ ان میں سے ایک خواجہ ابو اسحاق ناصر الدین ہیں جو فرخ شاہ کابلی کے دادا تھے۔ اور فرخ شاہ کابلی حضرت شیخ فرید الدین مسعود گنج شکر قدس سرہٗ کے جد امجد تھے فرخ شاہ کی اولاد بہت تھی۔ حضرت خواجہ ابراہیم بن ادہم کے اور بیٹے خواجہ ناصح الدین ہیں جن کی اولاد ناصحی کے نام سے مشہور ہے اور شیخ مبارک کو یا سوی ناصحی جو حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء قدس سرہٗ کے خلفاء میں سے ہیں۔ حضرت خواجہ ناصح الدین کی اولاد میں سے ہیں۔ تھانیر کے فاروقی مشائخ بھی حضرت ناصح الدین کی اولاد ہیں۔ جو حضرت خواجہ ابراہیم ادہم کی اولاد ہیں۔ حضرت خواجہ ناصح الدین کی اولاد ہندوستان کے اکثر علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ اور مکرم سمجھی جاتی ہے۔ سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ جب حضرت خواجہ ابراہیم بن ادہمملک توران کی بادشاہی چھوڑ کر جنگل میں سکونت اختیار کرلی تو صبح کے وقت نقار خانہ کی نوبت کی بادشاہی چھوڑ کر جنگل میں سکونت اختیار کرلی تو صبح کےو قت نقار خانہ کی نوبت پر یہ سنا کہ آپ کا فرزند بادشاہ ہوگیا ہے۔ آپ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ سبحان اللہ! ایک وقت وہ تھا کہ یہ نوبت میرے نام پر بجتی تھی۔ اُسی وقت نوبت الٰہی کی آواز آئی آج سے قیامت تک ابراہیم بن ادہمکی شاہی کی نوبت فلج الافلاک اور عالم سمٰوات میں بجائی جایا کرے۔ آسمان سے دس طبق طعامنازل ہونا: اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب تک حضرت خواجہ بادشاہی چھوڑ کر دربائے دجلہ کے کنارے پر ہنچے تو وہاں ایک درویش کو دیکھا جو سارا دن روزہ رکھتے تھے اور شام کے وقت آسمان سے طعام کا ایک طبق اترتا تھا۔ آپ ایک دن درویش کے پاس رہے۔ شام کو جب درویش کے پاس ایک طبق اترا تو حضرت خواجہ ابراہیم ادہم پر دس طبق طعام کے اترے۔ یہ دیکھ کر درویش کے دل میں غیرت پیدا ہوئی اور کہنے لگے کہ توکل کر کے دریا پر بیٹھا ہوں میرے لیے طبق آیا ہے اور اس مہمان کے لیے جس نے ابھی فقیر اختیار کی ہے دس طبق آگئے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے۔ ہاتف نے آوازدی کہ اے درویش تم مفلس تھے اور تمہیں طعام کی یہ مقدار کافی دیر اور سوال کے بعد حاصل ہوئی اور تمہارے لیے غنیمت ہے لیکن یہ مہمان جو آیا ہے اس نے میری محبت میں بادشاہی قربان کردی ہے اسکی شان و شوکت کے لحاظ سے یہ دس طبق بہت ہی کم ہیں۔ زیادہ طوالت مت کرو کیونکہ میرے اور میرے دوستوں کے درمیان بے شمار راز کی باتیں ہیں۔ سانپ کا رخ انور سے مکھیاں اڑانا: رونق المجالس میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ ابراہیم ادہم کی عادت تھی کہ سخت گرمی کے ایام میں بھی آپ اپنے گوشۂ تنہائی سے نکل کر مسجد میں آتے اور نماز با جماعت ادا کرتے تھے ایک دن آپ کا ایک شاگرد ساتھ تھا۔ آپ نماز سے فارغ ہوکر ایک دیوار کے سائے میں سوگئے۔ شاگرد کیا دیکھتا ہے کہ دیوار کے سوراخ سے ایک سانپ نکلا۔ سانپ کے منہ میں نرگس کی شاخ تھی۔ جس سے وہ حضرت خواجہکے رخ انور سے مکھیاں اڑا رہا تھا۔ جب آپ خواب سے بیدار ہوئے تو شاگرد نے آپ کو سانپ کے مکھیاں اڑانے کا ماجرا سنایا تو آپ نے فرمایا کہ تجھے معلوم نہیں ک ہ جو شخص اللہ کی اطاعت کرتا ہے ہر چیز اس کی اطاعت کرتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ فضل وکرم کے ساتھ معاملہ فرماتے ہیں۔ کنویں سے پانی کی جگہ ڈول میں مروارید بھرجانا: کتاب حکایت الصالحین میں لکھا ہے کہ ایک دن آپ کو خبر موصول ہوئی کہ خراسان میں آپ کا کوئی رشتہ دار لاولد فوت ہوگیا ہے اور اس کی بہت سی جائداد آپ کے ورثہ میں آئی ہے۔ یہ خبر سنکر آپ نے سفر کا ارادہ کیا تھوڑی دور گئے تھے کہ کیا دیکھتے ہیں ایک نابینا پرندہ پتھر پر بیٹھا ہے پانی سے ایک جانور نکلا جو مٹی سے کیڑے نکال کر نابینا پرندے کے منہ میں دینے لگا۔ آپ نے یہ تماشا دیکھ کر اپنے رفیق سفر سے کہا کہ تم نے دیکھا ایک نابینا پرندہ کو بھی اللہ تعالیٰ ضائع نہیں ہونے دیتا اور روزی سے رہا ہے۔ اگر ہم خراسان نہ جائیں تو روزی تو ہمیں ضروری ملے گی یہ کہہ کر آپ نے سفر کا ارادہ ترک کردیا اور واپس چلے آئے۔ صحرا میں جاکر قیام فرمایا۔ ایک دفعہ طہارت کے لیے کنویں پر گئےا ور ڈول کنویں میں ڈالا۔ جب ڈول باہر آیا تو موتیوں سے لبریز تھا۔ آپنے کہا الٰہی مجھے پانی درکار ہے تاکہ وضو کروں۔ مجھے موتیوں کی کیا ضرورت ہے۔ چنانچہ ڈول کو کنویں کے اندر پھینک کر چلے گئے۔ مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ آخر عمر میں حضرت خواجہ کا تصرف بہت بڑھ گیا تھا۔ اور کثرت سے طعام غرباومساکین میں تقسیم کرتے تھے۔ شیخ علاؤ الدولہ سمنانی‘‘چہل مجالس ’’ میں فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت شیخ سفیان ثوری قدس سرہٗ حضرت خواجہ ابراہیم ادہم کے پاس گئے۔ آپ نے مصلے کے نیچے ہاتھ ڈال کر مُٹھی بھر درہم نکالے اور نوکر کو دیکر فرمایا کہ بازار جاؤ اور دس سیر گرم روٹی اور شہد لاؤ۔ حضرت سفیان نے کہا ہم دو آدمی سے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ اسراف ہے۔ آپ نے فرمایا کھانے پینے کی چیزوں میں اسراف نہیں ہوتا۔ اگر زیادہ ہے تو دوسرے لوگ کھالیں گے۔ روایت ہے کہ ایک دن حضرت خواجہ دریائے دجلہ کے کنارے بیٹے کپڑا سی رہے تھے۔ اتفاق سے ایک شخص وہاں سے گذرا۔ اس نے کہا بلخ کی بادشاہی ترک کر کے آپ کو کیا حاصل ہوا۔ آپ نے فوراً اپنی سوئی دریا میں پھینک دی اور دریا کی مچھلیوں کو حکم دیا کہ میر سوئی لاؤ۔ تو ہزاروں مچھلیاں سونے کی سوئیاں منہ میں لے کر نکل آئیں۔ آپ نے فرمایا مجھے اپنی لو ہے کی سوئی درکار ہے۔ یہ سن کر ایک کمزار سی مچھلی باہر آئی جس کے منہ میں لوہے کی سوئی تھی۔ آپ نے اس شخص سے مخاطب ہوکر فرمایا کم سے کم مرتبہ مجے یہ عطا ہوا ہے اور اس سے زیادہ مرتبہ دیکھنے کا تو متحمل نہیں ہو سکے گا۔ غرضیکہ آپ کے کمالات و کرامات اس قدر زیادہ ہیں کہ اس مختصر کتاب میں ان کی گنجائش نہیں۔ وصال اور خلفاء: سیر الا قطاب میں لکھا ہے کہ آپ کے دو خلفاء تھے حضرت کواجہ حذیفہ مرعشی اور حضرت خواجہ شفیق بلخی۔ اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ آخر عمر میں آپ گم ہوگئے تھے۔ معلوم نہیں کہ آپ کا مدفن کہاں ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ آپ بغداد میں حضرت امام احمد بن حنبل کے پہلو میں دفن ہیں، بعض کا خیال ہے کہ آپ ملک شام میں حضرت لوط علیہ السلام کی قبر کے متصل دفن ہیں۔ ‘‘صاحب نفحات الانس’’ کا بیان ہے کہ آپ کا وصال شام میں ۱۶۱؁ھ میں اور دوسری روایت کے مطابق ۲۸۰؁ھ میں اور تیسری روایت کے مطابق ۱۶۶؁ھ اور چوتھی روایت کے مطابق یکم شوال کو اور ایک اور روایت کے مطابق چھ جمادی الاول کو خلیفۂ ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ دوانقی کے عہد حکومت میں ہوا جوبنی عباس کے تیسرے خلیفہ تھے۔ روایت ہے کہ ایک آدمی نے وصال کے بعد آپ کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا کیونکہ آپ نے اللہ کی محبت میں بادشاہی ترک کی تھی اور فقر اختیار کیا۔ آپ نے جواب دیا کہ عرش الٰہی کے بالمقابل جہاں عاشقان الٰہی ہر روز ستر بار دیدار کرتے ہیں۔ مجھے مقام ملا ہے۔ سیر الاقطاب میں آپ کے وصال کی تاریخ دوسری روایت کے مطابق دی گئی تھی۔ اللّٰھمّ صلّ علیٰ محمد والہٖ واصحابہٖ اجمعین۔ ازرہگذرِ خاکِ سرکوئے شمابود ہر نافہ کہ دردستِ نسیم سحر افتاد (اقتباس الانوار)
ابراہیم بن ادہم منصور بلخی : محدث صدوق ،زاہد،عابد، عارف،ولی ، تارک الدنیا ۔ مقرب درگاہ الٰہی ،صاحب کرامت تھے۔ ابو اسحٰق کنیت تھی، بادشاہی چھوڑ کر فقر کو اختیار کیا۔بہت سے مشائخ کو دیکھا اور مدت تک امام ابو حنیفہ کی صحبت میں رہ کر اُن سے علم حاصل کیا،پھر خواجہ فضیل بن عیاض سے سے خرقہ فقر واردت کا پہنا۔حضرت جنید بغدادی آپ کو مفاتیح العلوم کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے۔ایک دن آپ امام ابو حنیفہ کی خدمت میں جو آئے تو امام کے بعض اصحاب نے چشم حقارت سے آپ کودیکھا ۔امام ابو حنیفہ نے فرمایا کہ یہ ہمیشہ خدا کے کام میں مشغول رہتے ہیں اور ہم اور کاموں میں مصروف ہیں۔ کہتے ہیں کہ آپ اخیر عمر میں لوگوں سے ایسے غائب ہو گئے کہ کوئی نہ معلوم کر سکا کہ آپ کہا ں ہیں،جب بقول اصح ۲۶۲ھ میں آپ نے وفات پائی تو ہاتف نے آوزدی کہ الا ان امان الارض قدمات ، لوگ اس آواز کوسن کر بڑے متحیر ہوئے کہ یہ کیابات ہے؟ اتنے میں خبر آئی کہ ابراہیم ا دہم فوت ہو گئے۔
ماخذومراجع:
اقتباس الانوار خزینۃالاصفیاء حدائق الحنفیہ تذکرۃ الاولیاء سیر الاقطاب نفحات الا.نس
Previous Post Next Post