حضرت خواجہ ابو یوسف ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ
آپ نامِ نامی اسم گرامی یوسف بن ایوب اور کنیت ابو یعقوب تھی۔ آپ کی ولادت با سعادت ۴۴۱ھ میں موضع بوزنجرد (ہمدان کے نواحی وہ) میں ہوئی۔ اٹھارہ برس کی عمر میں بغداد میں آئے ابواسحاق شیرازی رحمہ اللہ کی صحبت اختیار کرکے فقہ پڑھی۔ یہاں تک کہ اصولِ فقہ و مذہب و خلاف میں مہارت تامہ حاصل ہوگئی۔ قاضی ابوالحسنین محمد بن علی بن مہتدی باللہ، ابوالغنائم عبدالصمد بن علی بن مامون رحمہ اللہ علیہ، ابوجعفر بن احمد بن مسلم رحمہ اللہ وغیرہ سے سماعِ حدیث کیا اور اصفہان و سمرقند کے مشائخِ حدیث سے بھی استفادہ کیا بعد ازیں سب کو ترک کرکے عبادت و ریاضت و مجاہدہ کو مطمعٔ نظر اور مقصدِ وحید بنالیا۔ تصوف میں آپ کا انتساب حضرت ابو علی فارمدی رحمۃ اللہ علیہ سے ہے۔ اصفہان میں شیخ عبداللہ جوینی نیشاپوری اور شیخ حسن سمنانی سے بھی خرقۂ خلاقت اور فیوض و برکات حاصل کیے۔ ان سب کے بعد حضرت ابوعلی فارمدی کی خدمت میں فقر و سلوک کی منزلیں طے کیں۔
آپ عالم، عامل، عارف، زاہد، پرہیزگار، عابد، صاحبِ حال اور صاحبِ کرامت تھے اپنے وقت کے سر کردہ مشائخ میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ خراسان میں مریدوں کی تربیت آپ جیسی کسی نے نہ کی۔ آپ کی مجلس میں علماء، فقہاء و صلحاء کا بہت بڑا اجتماع رہتا تھا۔ سب لوگ آپ کے ارشاد و کلام سے استفادہ کرتے تھے۔ آپ ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ تک مسند رشد و ہدایت پر متمکن رہے، کچھ عرصہ کوہِ زرا (خراسان کے نواح) میں بھی مقیم رہے اور سوائے نمازِ جمعہ کے کبھی باہر نہ نکلتے تھے۔
HAZRAT KHWAJA ABU YAQUB YUSUF HAMADANI Raziyallahu Ta'ala Anhu
آپ کے خلفاء میں سے چار کو بڑی شہرت ملی۔ خواجہ عبدالخالق غجدوانی، خواجہ احمد یسوی، خواجہ احمد انداقی اور عبداللہ برقی، مرو میں آپ کا قیام کافی عرصہ تک رہا، وہاں آپ کی خانقاہ میں جس قدر طالبانِ خدا تھے کسی دوسری خانقاہ میں نہ تھے۔ مرو سے آپ ہرات تشریف لائے، کچھ عرصہ بعد پھر ہرات سے مرو چلے گئے۔ بعد ازاں دوبارہ ہرات کو اپنا مسکن بنالیا۔ کچھ مدت بعد پھر مرو چلے گئے۔ یہ آپ کا آخری سفر تھا۔
حضرت خواجہ یوسف ہمدانی رحمہ اللہ کی طرح حضور سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ بھی اٹھارہ سال کی عمر میں حصولِ علم کے لیے اپنے وطن سے بغداد تشریف لائے تھے۔ جب آپ تحصیلِ علم سے فارغ ہوچکے تو ایک روز حضرت خواجہ یوسف ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ سے اُن کی ملاقات ہوئی، جسے انہوں نے یوں سپرد قلم فرمایا ہے:
’’بغداد میں ایک شخص حمدان سے آیا جسے یوسف ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ وہ قطب ہیں۔ وہ ایک مسافر خانے میں اُترے۔ جب میں نے یہ حال سنا تو مسافر خانے میں گیا مگر اُن کو نہ پایا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ سرداب میں ہیں۔ پس میں وہاں پہنچا تو مجھے دیکھ کر کھڑے ہوگئے اور اپنے پاس بٹھایا میرے تمام حالات مجھ سے ذکر کیے اور میری تمام مشکلات کو حل فرمایا پھر مجھ سے یوں ارشاد فرما ہوئے، ’’اے عبدالقادر! تم لوگوں کو عظ سنایا کرو‘‘۔ میں نے عرض کیا، آقا! میں عجمی ہوں، اہلِ بغداد کی فصاحت و بلاغت کے سامنے میری گفتگو کی کیا حیثیت ہے؟ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ تم کو اب فقہ، اصولِ فقہ، اختلافِ مذاہب، نحو، لغت اور تفسیر قرآن یاد ہے۔ تم میں وعظ کہنے کی صلاحیت و قابلیت موجود ہے۔ برسرِ منبر لوگوں کو وعظ سنایا کرو کیونکہ میں تم میں ایک جڑ دیکھ رہا ہوں جو عنقریب درخت ہوجائے گا‘‘۔
اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ خواجہ یوسف ہمدانی اُن مشائخ کبار میں سے ہیں جن کی صحبت میں حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ جیسے لوگ بھی حاضر ہوتے رہے ہیں۔
ایک روز ایک درویش حضرت خواجہ یوسف ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوا کہ میں ابھی ابھی شیخ احمد غزالی رحمہ اللہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ درویشوں کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ اسی اثناء میں ان کو غیبت (استغراق) ہوگئی۔ اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ ابھی ابھی حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں اور میرے منہ میں لقمہ رکھا ہے۔ یہ سن کر حضرت خواجہ ابویوسف نے فرمایا تلک خیالات تربی بھا اطفال الطریقہ یعنی یہ خیالات ہیں کہ جن سے اطفالِ طریقہ پرورش کیے جاتے ہیں یعنی یہ ابتدائے کشود کی باتیں ہیں۔
کرامات:
۱۔ ایک دفعہ ایک عورت روتی پیٹتی آپ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ فرنگی میرے لڑکے کو پکڑ کر لے گئے ہیں، دعا فرمائیے کہ وہ آجائے، آپ نے فرمایا؛ صبرکرو اور گھر واپس جاکر دیکھ تیرا لڑکا تو گھر میں موجود ہے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے یوں دعا فرمائی:
اللھم فک اسرہ وعجل فوجہ
’’خدایا اس کی بیڑی توڑ دے اور اس کا غم جلدی دور کر‘‘۔
وہ عورت جب واپس آئی تو دیکھا کہ واقعی اس کا لڑکا گھر میں موجود تھا۔ لڑکے سے حال دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ میں ابھی قسطنطنیہ میں قید تھا۔ پہریدار میرے اردگرد موجود تھے کہ ناگاہ ایک نامعلوم شخص آیا اور مجھ کو آنکھ جھپکتے ہی گھر میں پہنچا دیا۔ اُس عورت نے آپ کے پاس آکر تمام واقعہ بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ تجھے حکمِ خدا سے تعجب آتا ہے۔
۲۔ ایک دفعہ آپ وعظ فرما رہے تھے۔ وعظ کی تاثیر سے تمام مجمع مسحور تھا۔ دو فقیہہ بھی حاضرین میں موجود تھے۔ وہ یہ منظر برداشت نہ کرسکے اور آپ سے کہنے لگے ’’چپ رہو کہ تم بدعتی ہو‘‘، آپ نے ارشاد کیا، ’’تم خاموش رہو کہ تمہیں موت آنے والی ہے‘‘۔ چنانچہ وہ دونوں اُسی وقت اُسی جگہ مرگئے۔
۳۔ ایک دفعہ آپ مدرسہ نظامیہ بغداد میں وعظ فرما رہے تھے کہ ایک فقیہ ابن سقا نامی اُٹھا اور کوئی مسئلہ پوچھا، آپ نے فرمایا: ‘‘بیٹھ جاکر تیری گفتگو سے بوئے کفر آتی ہے اور تیری موت دینِ اسلام پر نہ ہوگی‘‘، کچھ مدت بعد خلیفۂ وقت کے پاس شاہِ روم کا سفیر آیا تو اُس فقیہ کی نشست برخاست اُس کے ساتھ ہوگئی اور نصرانیت سے متاثر ہوگیا۔ آخر کار اُس نے سفیر سے التجا کی کہ مجھے اپنے ساتھ لے چلو، میں دینِ اسلام چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرنا چاہتا ہوں، وہ اُسے اپنے ساتھ روم لے گیا۔ چنانچہ وہ فقیہ شاہِ روم سے ملا، اور عیسائی ہوگیا اور عیسائی ہی مرا، کہتے ہیں کہ ابن سقا قاری و حافظ قرآن تھا۔ مرضِ موت میں ایک شخص نے اُسے قسطنطنیہ میں دیکھا کہ ایک دکان میں لیٹا ہوا ہے اور ہاتھ میں ایک پرانا پنکھا ہے جس سے وہ اپنے چہرے سے مکھیاں اُڑا رہا ہے۔ ا س حالت میں اس سے پوچھا گیا کہ کیا تمہیں کچھ قرآن یاد ہے؟ بولا کہ نہیں، سب کچھ بھول گیا ہے صرف یہ آیت یاد ہے۔
رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْکَانُوْا مُسْلِمِیْنَ (سورہ حجر۔ ع۱)
’’بہت وقت کفار آرزو کریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے‘‘۔
سچ کہا ہے کسی نے ؎
جراحتے کہ ز تیغِ زباں رسد بردلے | بہ ہیچ مرہمے راحت نکو نخواہد شُد |
آپ کی وفات ۱۷؍رجب ۵۲۶ھ/ ۱۱۴۲ء بعمر شریف ۹۵ برس ہرات اور بغشور کے درمیان موضع بامئین میں ہوئی اور وہیں سپرد خاک ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد آپ کے ایک مریدِ خاص شیخ ابن النجار (بعض جگہوں پر ابن التجار بھی لکھا ہے) نے آپ کے جسدِ مبارک کو شہر مرو میں لے جاکر دفن کردیا جہاں آج مزار مقدس موجود ہے۔ آپ کی کئی ایک تصانیف ہیں جن میں سے صرف زینت الحیات مناز السالکین اور منازل السائرین کے نام معلوم ہوسکے ہیں۔
ارشاداتِ قدسیہ:
۱۔ سماع ایک سفیر ہے حق تعالیٰ کی طرف اور ایلچی ہے حق تعالیٰ کی طرف سے وہ ارواح کی خوراک، اجسام کی غذا قلوب کی زندگی اور اسرار کی بقا ہے۔ وہ پردہ کے پھاڑ نے والا اور بھید کے ظاہر کرنے والا ہے اور برقِ درخشاں اور آفتابِ تاباں ہے۔ وہ دنیا میں ہر فکر، ہر لحظہ، ہر تدبر و تفکر، ہر ہوا کے جھونکے، ہر درخت کی حرکت ا ور ہر ناطق کے نطق سے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ تو اہلِ حقیقت کو سماع میں سرگشتہ و حیران، مقید و اسیرا و رصاحبِ خشوع و مست دیکھتا ہے۔
۲۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی زیبائی کے نور سے ملائکہ مقربین میں سے ستر ہزار فرشتے پیدا کیے اور اُن کو اپنی بارگاہ میں عرش و کرسی کے درمیان کھڑا کیا۔ اُن کا لباس ’’سبز صوف‘‘ ہے اور اِن کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی مانند چمکتے ہیں۔ وہ اپنی پیدائش کے وقت سے حالتِ وجد میں سرگشتہ و حیران اور فروتن و مست کھڑے ہیں اور شیفتگی کی شدت کے سبب سے رکنِ عرش سے کرسی تک دوڑتے ہیں پس وہ اہلِ آسمان کے صوفیہ اور نسبتوں کے لحاظ سے ہمارے بھائی ہیں۔ اسرافیل ان کے قائد و مرشد اور جبریل اُن کے رئیس و متکلم ہیں اور حق تعالیٰ اُن کا انیس و ملیک ہے پس اُن پر سلام و تحیہ و اکرام ہو۔
۳۔ تم خدا تعالیٰ کے ساتھ صحبت رکھو۔ اگر یہ میسر نہ آئے تو اُس شخص کے ساتھ صحبت رکھو جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ صحبت رکھتا ہے۔
۴۔ آپ سے لوگوں نے پوچھا کہ جب اہل اللہ ہم سے روپوش ہوجاتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے تاکہ ہم سلامت رہ سکیں، آپ نے فرمایا: ’’کہ اُن کی باتیں دہراتے رہو‘‘۔
(تاریخِ مشائخ نقشبند)