حضرت مخدوم شاہ آل ِرسول قادری مارہروی Hazrat Sayyed Aale Rasool Marehrvi (Allah show mercy on him)|MURSHID of ALAHAZRAT| Marehra Muqaddas

 



اسمِ گرامی :

’’خاتم الاکابر‘‘ حضرتِ سید نا مخدوم سید شاہ آلِ رسول مارِہروی قادری برکاتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ


ولادت ِ باسعادت:

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ولادتِ باسعادت ماہِ رجب المرجب 1209ھ ’’مارہرہ شریف‘‘ ضلع ’’ایٹہ‘‘ یو پی ہند وستان میں ہوئی۔


تعلیم و تربیت :

سید شاہ آلِ رسول مارِہروی کی تعلیم و تربیت اپنے والدِ ماجدحضرت سید نا شاہ آلِ برکات’’ستھرے میاں‘‘کی آغوش ِ شفقت میں ہوئی اور انہیں کی نگرانی میں آپ کی نشوو نما ہوئی آ پ نے ابتدائی تعلیم حضرت عین الحق شاہ عبد المجید بدایونی صاحب اورحضرت مولانا شاہ سلامت اللہ کشفی بدایونی سے خانقاہ ِ برکاتیہ میں حاصل کی بعدازاں ’’فرنگی محلّ ‘‘کے علماء مولانا انوار احمد صاحب،مولاناعبدا لواسع صاحب اور مولانا شاہ نور الحق رزاقی صاحب سے کتب ِمعقولات ،علم ِ کلام ،فقہ و اصولِ فقہ کی تحصیل و تکمیل فرمائی ۔


حضرت مولانا شاہ عبدا لعزیز محدث دہلوی کے درسِ حدیث میں بھی شریک ہوئے ۔ صحاح کا دورہ کرنے کے بعد سلاسلِ حدیث و طریقت کی سندیں مرحمت ہوئیں ۔


بیعت و خلافت :

حضرت کو خلافت و اجازت حضور سیدآلِ احمد’’ اچھے میاں‘‘(اپنے تایا جان )سے تھی ، والد ِماجد نے بھی اجازت مرحمت فرمائی تھی مگر مرید حضرت اچھے میاں کے سلسلے ہی میں فرماتے تھے۔


فضائل :

حضرت شاہ آلِ رسول رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تیرھویں صدی ہجری کے اکابر اولیا ء اللہ میں سے تھے ۔آپ کی وہ عظیم شخصیت تھی جس کی مساعی و کوشش سے اسلام و مذہب ِاہلسنت وجماعت کو استحکام حاصل ہوا۔ بڑے نڈر، بے باک،شفیق اور مہربان تھے ۔ آپ کی شان بڑی ارفع و اعلیٰ ہے ،اعلیٰ حضرت نے آپ کے فضائل فارسی اشعار میں قلمبندفرمائے ہیں جس کا مطلع اِس طرح ہے :


خوشا!دلے کہ دہند ش ولائے آلِ رسول


خوشا !سرے کہ کنند ش فدائے آلِ رسول


عادات وصفات :

آپ کے عادات و صفات میں بھی شریعت کی پوری جلوہ گری تھی اور شریعت ِمطہرہ کی غایت درجہ پابندی فرماتے ،نماز باجماعت مسجد میں ادا فرماتے اور تہجد کی نماز کبھی قضاء نہ ہونے دیتے ۔نہایت کریم النفس ،عیب پوش اور حاجت براری میں یگانہء عصر تھے۔


محافلِ سماع قطعاً مسدود بلکہ صرف مجالسِ و عظ و نعت و منقبت و ختم قرآن ودلائل الخیرات شریف ،حُضَّارِعرس(حاضرین ِعرس) کی مہمانداری باقی رکھی تھی، فضولیات کی حضور کے دربار میں جگہ نہ تھی ،ظاہر شریعت سے ایک زرہ تجاوزبھی گوارہ نہ فرماتے ۔


جودو سخا:

آپ کے جودوسخا کا عالم یہ تھا کہ لوگ مصنوعی ضروریات بتا کر جب چاہتے روپیہ مانگ کر آپ سے لے جاتے اور چور بھی بعض اوقات مسافروں کی صورت میں آتے اور آ پ کی بارگاہ سے بامراد لوٹتے،آپ کی اہلیہ محترمہ عرض کرتیں کہ:”آپ خود ولی ہیں تو سب کو ولی ہی سمجھتے ہیں کچھ احتیا ط فرمائیں”مگر آپ خود گھر میں جا کر سائل کے لیے ضروری اشیاء لاتے اور دیدیتے جو حاجت مند آتا اس کی حاجت براری کرتے اور اکثر اپنے کپڑے تک اتار کر دیدیتے ۔عاجز ی کی انتہا یہ تھی کہ آ پ خود کبھی امام نہ بنتے بلکہ کسی اور سے ہی نماز پڑھواتے ۔

حضرت مخدوم شاہ آل ِرسول قادری مارہروی﷫

اسمِ گرامی: آپ کا اسمِ گرامی آلِ رسول اور والد کا نام سید شاہ آل برکات المعروف ستھرے میاں تھا۔

 تاریخ ومقامِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1209ھ میں ماہرہ ضلع ایٹہ (یوپی، انڈیا) میں ہوئی۔

 تحصیلِ علم: آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے والد ماجد سید شاہ آل برکات ستھرے میاں رحمۃ اللہ علیہ  کے آغوش شفقت میں ہوئی۔ آپ نے علوم دینیہ کی تحصیل حضرت عین الحق شاہ عبدالمجید بدایونی ، مولانا شاہ سلاست اﷲ کشفی بدایونی، حضرت شاہ نورالحق رزاق فرنگی محلی لکنھوی ،ملا عبدالواسع رحمتہ اﷲ علیہم سے کی۔مخدوم شیخ العالم عبدالحق رودولوی رحمۃ اللہ علیہ کے عرس مبارک کے موقع پر مشاہیر علماء و مشائخ کی موجودگی میں دستار بندی ہوئی۔ اسی سال حضرت سید شاہ آل احمد اچھے میاں مارہروی علیہ الرحمہ کے ارشاد پر سراج الہند حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ کے درسِ حدیث میں شریک ہوئے۔صحاحِ ستہ کا دورہ کرنے کے بعد حضرت محدث دہلوی قدس سرہ سے علویہ منامیہ کی اجازت اور احادیث و مصافحات کی اجازتیں پائیں۔

بیعت وخلافت: آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اپنے بڑےچچاحضرت اچھے میاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل تھی۔والد ماجد نے بھی اجازت مرحمت فرمائی تھی مگر مرید اچھے میاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سلسلہ میں فرماتے تھے ۔

سیرت وخصائص: حضرتِ شاہ آلِ رسول مارِہروی علیہ رحمۃ اللہ الباری تیرھویں صدی ہجری کے اَکابر اولیائے کرام میں سے تھے۔جہانِ معرفت کے دانائے راز، حضرت خاتم الاکابر کی ذات ِ کریم نادرہ روزگار تھی۔وہبی وکسبی خوبیوں  اورصوری ومعنوی محاسن کی ایک نرالی ہی جامعیت رکھی تھی۔آپ کی نگاہِ ولایت نےکئی گنہگاروں کو ولایت کے اعلٰی مقام پر فائز کیا۔حضرت خاتم الاکابر رحمۃ اللہ علیہ اپنی اس قدر جامعیت  اور بے پناہ باطنی وظاہری صلاحیتوں کے باوجود بہت ہی متواضع اور منکسر المزاج تھے حتٰی کہ نماز میں امامت کے بجائے دوسروں کی اقتداء پسند کرتے تھے۔حالات وکمالات کے اخفاء میں سلف کی یادگار اور والدِ ماجد کے سچے جانشین تھے۔ امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمتہ اﷲ علیہ اپنے والد ماجد مولانا نقی علی خاں علیہ الرحمہ کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر شرف بیعت سے مشرف ہوئے۔ ان سے آپ نے "قرأت" " تصوف" " اخلاق" " اسماء الرجال" " تاریخ " " لغت"  "ادب"  اور حدیث وغیرہ کی اجازت لی اور مجلس بیعت میں ہی خلافت سے سرفراز کردیئے گئے۔

تاریخِ وصال: 18 ذوالحجۃ الحرام 1296ھ/بمطابق دسمبر 1879 ء کووصال شریف ہوا۔ وقتِ رِحلت لوگوں نے استدعا کی کہ حضور! کچھ وصیت فرمادیجئے۔ بہت اصرار پر فرمایا، مجبور کرتے ہو تو لکھ لو ہمارا وصیت نامہ۔ اَطِیْعُو االلہَ وَ اَطِیْعُواالرَّسُوْلَ (یعنی اللہ اور اس کے رسول عَزَّوَجَلَّ وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی اطاعت کرو)بس یہی کافی ہے اور اسی میں دین و دنیا کی فلاح ہے۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مزار شریف مارہرہ شریف میں مرجع خلائق ہے۔

 ماخذ ومراجع: اہلِ سنت کی آواز۔شرح شجرہ قادریہ

Post a Comment

Previous Post Next Post