حضرت سیدنا عبداللہ شاہ غازی History biography and kramaat of Hazrat Abdullah shah ghazi in urdu hindi | Shrine in Karachi |fida

 عبد اللہ شاہ غازی (عربی: عبد الله شاه غازى‎) کراچی، سندھ، پاکستان کے نہایت معروف و برگزیدہ ولی اللہ مانے جاتے ہیں۔ آپ کا مزار کلفٹن، کراچی میں واقع ہے۔[1]



عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے اندر کا منظر

عبد اللہ شاہ غازی امام حسن علیہ السلام کے بیٹے حسن مثنی کے پوتے امام محمد نفس الزکیہ کے فرزند ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب ابومحمد عبد اللہ الاشتر بن محمد نفس زکیہ بن عبد اللہ محض بن حسن مثنی بن امام حسن بن علی بن ابی طالب ہے۔ حضرت حسن مثنی کی شادی فاطمہ کبری بنت امام حسین ابن علی سے ہوئی اسی وجہ سے آپ حسنی حسینی سید ہیں۔


سنہ 720ء میں مدینہ میں ولادت ہوئی اور آپ سندھ میں تقریباً 760ء میں تشریف لائے اور اپنے ساتھ بہت زیادہ مقدار میں گھوڑے لائے تھے جو اپ نے کوفہ، عراق سے خریدے تھے۔


ابن خلدون کے بقول خلیفہ ابو جعفر منصور کے زمانے میں سندھ کا عامل عمر بن حفص تشیع کی جانب میلان رکھتا تھا۔ محمد نفس ذکیہ کے فرزند عبد اللہ اشتر، جن کو عبد اللہ شاہ غازی کے نام سے جانا جاتا ہے، 400 افراد پر مشتمل زیدیوں کی ایک جماعت کے ساتھ اس کے پاس آئے تو اس نے انھیں خاصے احترام سے نوازا۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور دوانیقی کو جب اس کی خبر پہنچی تو اس نے ہشام بن عمر ثعلبی کو ان کا تعاقب کرنے کے لیے سندھ روانہ کیا جہاں ہشام کے بھائی اور ان کے درمیان قتال ہوا جس کے نتیجے میں عبد اللہ شاہ غازی شہید ہوئے اور ان کے ساتھی  اس علاقے میں بکھرگئے[2] ذہبی اور ابو الفرج اصفہانی نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے[3] طبری نے یہ واقعات 768ء (151 ہجری) میں نقل کیے ہیں۔[4]



کرامات

حضرت عبد للہ شاہ غازی کی سب سے بڑی کرامت سمندر کے قریب مزار کے نیچے میٹھے پانی کا چشمہ ہے جو آپ کی چلہ گاہ میں بھی موجود ہے۔ لوگ دور دور سے آتے ہیں اور یہ پانی پی کر شفا یاب ہوتے ہیں۔ آپ کے مزار پر آنے والے زائرین میں ہر عقیدے کے افراد شامل ہوتے ہیں[5]۔ زائرین کا کہنا ہے کہ انہیں یہاں آکر دل کو تقویت ملتی ہے اور مرادیں پوری ہوتی ہیں۔


مزار

کراچی کے علاقے کلفٹن میں واقع عبد اللہ شاہ غازی کا مزار انتہائی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔[6] بیسویں صدی کے اوائل تک یہ مزار، ایک ریتیلے پہاڑی کے ٹیلے پر ایک چھوٹی سی کٹیا کی شکل میں واقع تھا۔ مزار کی تعمیر اور توسیع، مزار کے اس وقت کے متولی اور سیہون شریف سے تعلق رکھنے والے قلندری سلسلے کے صوفی بزرگ مرشد نادر علی شاہ نے کی۔[6][7] مزار کی مشہور عمارت، اس کی سیڑھیاں، جامع مسجد، لنگر خانہ، قوالی ہال اور مہمان خانہ انہی کی زیر نگرانی تعمیر کیے گئے۔[8] مزار کا سبز اور سفید دھاری دار گنبد کراچی کی شناخت بنا۔[9] یہ مزار ہر فرقے ، نسل اور معاشرے کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ لنگر کا دو وقت مفت کھانا اور قوالی، مزار کی سرگرمیوں کا لازمی حصہ قرار پائیں۔ عرصہ دراز تک درگاہ کے انتظامات مرشد نادر علی شاہ کے زیر نگرانی چلتے رہے۔[6][10] سنہ 1962 میں محکمہ اوقاف نے مزار کا انتظامی کنٹرول سنبھالا۔ سنہ 2011 میں، اس مزار کو ایک پاکستانی تعمیراتی کمپنی، بحریہ ٹاؤن کے حوالے کیا گیا، جس نے مزار کے بیرونی حصے کی از سر نو تعمیر کی۔[6] اس پر کراچی کے رہائشیوں کی طرف سے ملا جلا رد عمل سامنے آیا۔ [9]

Previous Post Next Post