تارک السلطنت حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ ﷲ علیہ history of makhdoom ashraf jahangeer simnani || Dastan e Sarkar Makhdoom Ashraf ||

 

تارک السلطنت حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ ﷲ علیہ



    اسلامی تاریخ کے اَوراق ایسے اَن گِنَت واقعات وشخصیات کے ذکر سے جگمگا رہے ہیں جن سے اشاعتِ دین کے کارواں کو تقویت ملی۔ ایسی لازوال شخصیات کے کارنامے آج بھی تاریخِ اسلامی کے ماتھے کاجھوٗمر ہیں جن کی مساعیِ جمیلہ سے دلوں کی تاریک دنیا میں تاریخی انقلاب آیا۔ دل و دماغ روشن ہوئے اور فکر کی کھیتی ہری بھری ہو گئی۔ ایسی ہی نادرِ زمن ہستیوں میں سمناں کے تاج دار وارثِ مملکتِ خداداد حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃاللہ علیہ ہیں۔ آپ سمناں کے تاج ور تھے ہی ساتھ ہی صحیح النسب سادات یعنی خاندانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے چشم و چراغ تھے۔والد ماجد کانام محمدابراہیم تھاجو باوصف تاج دار بڑے نیک وتہجد گزار تھے۔ دن کے مجاہد وشب کے عابد تھے۔ والدہ ماجدہ خدیجہ بیگم (بنت خواجہ احمد یسوح) ’’صائمة الدہر‘‘ اور ’’قائمة اللیل‘‘ تھیں۔شاہانہ طرزِ زندگی، آسائشوں کے انبار، شوکت و عزت سبھی کچھ ہونے کے باوجود عظیم والدین کی تربیت نے دُنیا میں رہ کر دُنیاداری سے دور رکھا۔ یہی مومن کی شانِ بے نیازی ہوتی ہے کہ اسے تخت وتاج، مال ومنال، شوکت و قوت ومادیت متاثر نہیں کر سکتے۔ مخدوم پاک کے یہاں سب کچھ تھا لیکن وہ تو مردِحق آگاہ تھے؛ اسی لیے جس کے پیچھے سبھی بھاگتے ہیں وہ ان سب کو پاکر بھی متاثر نہ ہوئے اور روحانی عظمتوں کی منازلِ شوق بہ ذوق طے کرتے رہے۔


    باضابطہ علومِ دینیہ حاصل کیے۔ عمر کی ساتویں منزل میں ہی قرآن مقدس مع قرأت سبعہ حفظ کر لیا۔ سمناں ونواح کے دینی مراکز سے علمی تشنگی بجھائی۔ معقولات ومنقولات میں مہارتِ تامہ پیدا کی۔ حرفاً حرفاً اور سبقاً سبقاً علم دین سیکھا اور کمال حاصل کیا۔والد ماجد کے وصال کے بعد تاج ور ہوئے لیکن انھیں توروحانی تاج دار بننا تھا،ایک شب خواب دیکھا کہ حضرت خضر علیہ السلام ہیں، کہتے ہیں کہ ’’سلطنتِ الٰہی چاہتے ہو تو بادشاہت کو خیر باد کہہ کر رختِ سفر جانبِ ہند باندھ لو۔‘‘ والدہ کو حال سُنایا، اجازتِ سیاحتِ ہند ملی۔ یوں سلطنت کو ٹھکرادیا۔ راہِ خدا میں سیاحت کو گلے لگایا۔ یہاں سے روحانی مدارج میں مسلسل ترقی کا مرحلۂ عرفان طے ہونا شروع ہوا۔


    سیادت و سلطنت کا یہ امیں جب رُخصت ہونے کو آیا توسمناں سے بارہ ہزار سپاہی الوداع کو ساتھ ہولیے، جنھیں تین منزلوں پرہی رُخصت فرمادیا۔اسباب ساتھ تھے جنھیں آگے جاکر فقرا میں تقسیم فرمادیا۔ سمرقند گئے پھراوچ میں قیام پذیر ہوئے۔ جہاں حضرت سید جلال الدین بخاری جہاں گشت کی خدمت میں حاضر ہوئے، دیکھتے ہی آپ نے مخدوم پاک سے فرمایا:


’’عرصے کے بعد دماغ کو طالبِ صادق کی خوشبو نصیب ہوئی، مدت کے بعد چمنِ سیادت سے نسیمِ خراماں ہوئی۔ مبارک ہو! بے حد جسور فرزندآیا ہے جلدی کیجیے۔ میرے بھائی ’’علاؤالدین‘‘آپ کے منتظر ہیں، راہ میں توقف نہ کیجیے۔‘‘


    اخذِ فیض کے بعد آپ منزل بہ منزل ہوتے ہوئے دہلی آئے، پھر عازمِ بہار ہوئے، جہاں حضرت مخدوم شرف الدین یحیٰ منیری رحمۃاللہ علیہ کاجنازہ پڑھایا،پھر بنگال کی راہ لی۔ اس زمانے میں پنڈوہ بنگال میں حضرت ’’علاؤالدین‘‘ عبدالحق لاہوری کے علم و عرفان کا بڑا چرچا تھا، جن کی فیض رساں بارگاہ سے علاقۂ بنگال اسلامی تعلیمات سے جگمگا رہاتھا، اور آپ کی ایک نگاہِ کیمیا اثر سے ہزاروں دل نورِایمان سے روشن ہواُٹھے تھے،آپ عرصہ سے منتظر تھے، انتظار کس کا تھا یہ اس وقت کھلا جب مخدوم پاک آپ کی بارگاہ میں پہنچے اور روحانی امانتوں کے امین ہوئے۔شیخ نے نگاہ ڈالی اور مقاماتِ معرفت کے اس عظیم منصب پر پہنچا دیا جہاں نگاہوں سے پردے اُٹھ جاتے ہیں اور نظارۂ انوار وعرفان نگاہوں کا محور ٹھہرتا ہے۔بیعت کی سعادت حاصل کی،۱۲؍سال خدمتِ مرشد میں رہے،خرقۂ خلافت اور جہانگیر کا لقب پایا، مرشد نے خود روحانی تربیت کی۔ علامہ مشتاق احمد نظامی لکھتے ہیں:


    ایک دن آپ(مخدوم پاک) کمر باندھ رہے تھے۔ مرشد نے پوچھا: ’’کیا کررہے ہو؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’خدمتِ خلق کے لیے کمر کس رہا ہوں۔‘‘ مرشد نے فرمایا:’’اگر می بندی محکم بہ بند کہ ہیچ درمیاں نداری۔‘‘(اگر کمر کس رہے ہو تو مضبوطی سے کسو تاکہ پھر کوئی چیز درمیان میں نہ رہے) آپ نے فرمایا:’’آرزوئے نفس از میاں بیروں کشیدم تازندہ۔‘‘(جب تک زندہ ہوں نفس کی آرزوؤں کو دور ہی رکھوں گا)


    مرشد کی اجازت سے سیاحت کے اگلے دور کا آغاز کیا۔ دلوں کی صفائی اور ستھرائی فرماتے رہے۔ جون پور گئے، محمد آباد گہنہ گئے، نواحِ اودھ میں بھی دین کی اشاعت کی۔ وہ دور ایسا تھا کہ سحر وجادو کے ذریعے شرک و کفر کو رواج دیا جارہا تھا، ایسے عالم میں زمانی ضرورت کے تحت آپ نے کرامتوں کا اظہار کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہزاروں افراد حلقہ بگوش اسلام ہوئے، کچھوچھہ مقدسہ میں آپ نے سکونت اختیار کی۔پھر سیاحت کا دوسرا دور شروع ہوا۔ سیاحت کے ذریعے اسلام کی اشاعت کرنے والوں نے نئی تاریخ رقم کی ہے اور عزم و حوصلہ دیا ہے، اس سفر میں حرمین، دمشق، نجف اشرف، کربلا، سمنان، ماوراء النہر، ترکستان، قندھار، غزنی، کابل، ملتان، اجودھن،دہلی، اجمیر، دکن،گجرات ہوتے ہوئے کچھوچھہ مقدسہ آئے۔ اس سیاحت میں اکابر اولیائے کرام سے فیض لیا، طالبین راہِ طریقت و معرفت کو فیض دیا،کفر کی وادیوں میں بھٹکنے والے کتنے ہی افراد کو حق آشنا کیا۔


    دورانِ سکونت کچھوچھہ مقدسہ کتنے ہی اصحابِ اقتدارکی اصلاح کی اور انھیں توبہ کی طرف مائل کیا۔ آپ سچے عاشق رسول تھے، جس کا اندازہ لطائف اشرفی کے مطالعہ سے ہوتا ہے، آپ کے ان ملفوظات سے شریعتِ مطہرہ پر استقامت کا جلوہ بھی سامنے آتا ہے، آج افسوس کی بات ہے کہ ولیوں سے نسبت کا دعویٰ کرنے والے بعض حلقے شریعت سے انحراف کے مرتکب ہورہے ہیں اور بعض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ کے بے ادب و گستاخ بھی، انھیں مخدوم پاک کی حیاتِ مبارکہ سے درس لینا چاہیے کہ آپ کا کوئی لمحہ جادۂ شریعت سے بال برابر منحرف نہ ہوا۔ آپ کے یہاں شریعت پر استقامت کے بعد ہی طریقت کی منزل کا پتا ملتا ہے، اسی درس کو گزری صدیوں میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی، مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، علامہ فضل حق خیرآبادی، اعلیٰ حضرت محدث بریلوی،شیخ المشائخ اشرفی میاں کچھوچھوی، مفتی اعظم ہند نوری نے دیا،انھیں کے مشن کو اپنانا مخدوم پاک سے محبت و نسبت کا تقاضا ہے اور اسی کی اس عہدِ قحط الرجال میں ہمیں ضرورت ہے۔ بقول اعلیٰ حضرت ؎


ترے غلاموں کا نقش قدم ہے راہِ خدا


وہ کیا بہک سکے جو یہ سُراغ لے کے چلے

مضمون نگار:   ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی

ﺳﺎﺗﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﺻﻮﺑﮧ ﺧﺮﺍﺳﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺩﺍﺕ ﺣﺴﯿﻨﯽ ﮐﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺗﮭﯽ ﺟﺴﮑﺎ ﺩﺍﺭﺍﻟﺤﮑﻮﻣﺖ ﺷﮩﺮ ﺳﻤﻨﺎﻥ ﺗﮭﺎ۔ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﯿﺪ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﺍﺱ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﮯ ﺳﺮﺑﺮﺍﮦ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﻇﺎﮨﺮﯼ ﺷﺎﻥ ﻭ ﺷﻮﮐﺖ ﺍﻭﺭ ﺳﻄﻮﺕ ﻭ ﺟﻼﻝ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺎﻃﻨﯽ ﺧﻮﺑﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﻮﺭﯼ ﻃﺮﺡ ﺑﮩﺮﮦ ﻭ ﺭ ﺗﮭﮯ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﯿﺪ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﺪﺍﺭ ﻣﻐﺰ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﮨﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﻣﺘﻘﯽ ﻭ ﭘﺮﮨﯿﺰ ﮔﺎﺭ ﻋﺎﻟﻢ

ﺑﺎﻋﻤﻞ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ۔


ﺣﻀﺮﺕ ﺳﯿﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﻗﺪﺱ ﺳﺮﮦ ﺍﻥ ﮨﯽ ﺩﯾﻦ ﻭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺩﻭﻟﺖ ﺳﮯ ﻣﺎﻻ ﻣﺎﻝ ﻣﮑﺮﻡ ﻭ ﻣﺤﺘﺮﻡ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮐﮯ ﻓﺮﺯﻧﺪ ﺍﺭﺟﻤﻨﺪ ﺗﮭﮯ ﺳﺮﺯﻣﯿﻦ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺟﻦ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻓﯿﺾ ﻗﺪﻭﻡ ﺳﮯ ﺷﻤﻊ ﺍﺳﻼﻡ ﻓﺮﻭﺯﺍﮞ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﮑﮯ ﻧﻘﻮﺵ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺑﺮﮐﺖ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺷﻤﻊ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮨﺮ ﭼﮩﺎﺭ ﺳﻤﺖ ﭘﮭﯿﻠﯽ ﺍﻥ ﻣﻘﺪﺱ ﮨﺴﺘﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﯿﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﻗﺪﺱ ﺳﺮﮦ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﺑﺎ ﺑﺮﮐﺖ ﮨﮯ ۔


ﻭﻻﺩﺕ ﺑﺎﺳﻌﺎﺩﺕ :

ﺣﻀﺮﺕ ﺳﯿﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻭﻻﺩﺕ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮕﮧ ﺍﯾﮏ ﮐﺮﺍﻣﺖ ﮨﮯ ۔ﺷﮩﺮ ﺳﻤﻨﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺻﺎﺣﺐ ﺣﺎﻝ ﻣﺠﺬﻭﺏ ﺷﯿﺦ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﻧﺎﻣﯽ ﺭﮨﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﯿﺪ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﯽ ﺍﮨﻠﯿﮧ ﻣﺤﺘﺮﻣﮧ ﺷﺎﮨﯽ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﺣﺮﻡ ﻣﯿﮟ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻓﺮﻣﺎ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺷﯿﺦ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﻣﺠﺬﻭﺏ ﺍﺱ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﻭﺍﺭﺩ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﻮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﮑﮧ ﻋﺎﻟﯿﮧ ﻧﮯ ﺍﻥ ﻣﺠﺬﻭﺏ ﺑﺰﺭﮒ ﮐﯽ ﺣﺪ ﺩﺭﺟﮧ ﺗﻌﻈﯿﻢ ﮐﯽ ﺍﻧﮑﻮ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮕﮧ ﺑﭩﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺍﻧﮑﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﺩﺏ ﺳﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ۔ﻣﺠﺬﻭﺏ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ’’ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺳﮯ ﺑﯿﭩﺎ ﻣﺎﻧﮕﺘﺎ ﮨﮯ ؟ ‘‘

ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﮑﮧ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻭﻻﺩ ﻧﺮﯾﻨﮧ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﮩﺖ ﻣﻠﻮﻝ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮐﺜﺮ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﺧﺪﺍﻭﻧﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﺭﻭ ﺭﻭ ﮐﺮ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺏ ﻣﺠﺬﻭﺏ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﯾﮧ ﺳﻨﺎ ﺗﻮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﺧﻮﺷﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺮﺕ ﮐﯽ ﻟﮩﺮﯾﮟ ﺩﻭﮌ ﮔﺌﯿﮟ۔


ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﺩﺏ ﺳﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯽ ،ﺁﭖ ﺑﺰﺭﮒ ﮨﯿﮟ ﺩﻋﺎ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﯾﮟ ۔ﻣﺠﺬﻭﺏ ﺑﺰﺭﮒ ﻧﮯ ﺍﻭﻻﺩ ﻧﺮﯾﻨﮧ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭨﮫ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ۔ ﭼﻨﺪ ﺭﻭﺯ ﺑﻌﺪ ﺳﻠﻄﺎﻥ

ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﻧﮯ ﺳﺮﻭﺭ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﻓﺨﺮ ﻣﻮﺟﻮﺩﺍﺕ ﷺ ﮐﻮ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺣﻀﻮﺭ

ﭘُﺮﻧﻮﺭ ﷺ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ’’ ﺍﮮ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ! ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺩﻭ ﻓﺮﺯﻧﺪ ﻋﻄﺎ ﮐﺮﮮ

ﮔﺎ ﺑﮍﮮ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﮐﺎ ﻧﺎ ﻡ ﺍﻋﺮﺍﻑ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﷲ ﮐﺎ ﻭﻟﯽ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﻘﺮﺏ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﺍﯾﺰﺩﯼ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ﺍﺳﮑﯽ ﭘﺮﻭﺭﺵ ﺍﻭﺭ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﺑﮭﯽ ﺧﺎﺹ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﮐﺮﻧﺎ ۔


ﺣﻀﺮﺕ ﺳﯿﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻭﻻﺩﺕ ﺳﮯ ﺗﯿﻦ ﻣﺎﮦ ﻗﺒﻞ ﺍﮨﻞ ﺳﻤﻨﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺠﺬﻭﺏ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﻮ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﮔﻠﯽ ﮐﻮﭼﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺑﻠﻨﺪ

ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺻﺪﺍ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ’’ ﺑﺎ ﺍﺩﺏ ﺑﺎ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﮨﻮﺷﯿﺎﺭ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺯﻣﺎﮞ ﺍﺷﺮﻑ ﺩﻭﺭﺍﮞ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺗﮯ ﮨﯿﮟ ‘‘ ﺍﺱ ﻣﺠﺬﻭﺏ ﮐﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺱ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﻮ ﺷﮩﺮ ﺳﻤﻨﺎﻥ ﮐﯽ ﻓﺼﯿﻞ ﭘﺮ ﭘﮩﺮﮦ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﺩﺋﯿﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﮈﺍﮐﻮ ﻭ ﻟﭩﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﻧﮧ ﮨﻮﺳﮑﯿﮟ ۔ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺳﻨﺎﭨﮯ ﮐﻮ ﭼﯿﺮﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﯾﮧ ﺁﻭﺍﺯ ﺟﺐ ﺍﺳﮑﮯ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮍﺍ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺍ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﻧﮧ ﺭﮨﯽ ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﺬﻭﺏ ﮐﻮ ﻓﺼﯿﻞ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﭘﺎﯾﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻓﺼﯿﻞ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﻠﻨﺪ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﯽ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﮐﮯ ﺍﺳﮑﻮ ﻋﺒﻮﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﮐﺴﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﺑﺲ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺍﺏ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﭘﺮﺩﮨﺸﺖ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﻣﺠﺬﻭﺏ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺑﻠﻨﺪ ﺳﮯ ﺑﻠﻨﺪ ﺗﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﯾﮩﯽ ﺻﺪﺍ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ’’ ﺑﺎ ﺍﺩﺏ ﺑﺎ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﮨﻮﺷﯿﺎﺭ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺯﻣﺎﮞ ﺍﺷﺮﻑ ﺩﻭﺭﺍﮞ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺗﮯ ﮨﯿﮟ ‘‘ ﺍﺱ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﺷﮩﺮ ﺳﻤﻨﺎﻥ ﮐﮯ ﺩﺭ ﻭ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮔﻮﻧﺞ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﻟﻮﮒ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺩﯾﻮﺍﻧﮧ ﮐﻮﻥ ﺍﻭﺭ ﮐﺲ ﮐﮯ ﺁﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ۔ﯾﮧ ﻭﮨﯽ ﺷﯿﺦ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﻣﺠﺬﻭﺏ ﺗﮭﮯ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﯿﺪ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﮐﻮ ﻓﺮﺯﻧﺪ ﺳﻌﯿﺪ ﮐﯽ ﺑﺸﺎﺭﺕ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ۔ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻭﻻﺩﺕ ﺳﮯ ﺗﯿﻦ ﻣﺎﮦ ﻗﺒﻞ ﯾﮧ ﺧﺒﺮ ﭘﻮﺭﮮ ﺷﮩﺮ ﺳﻤﻨﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻼ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ۔ﺁﺧﺮ ﻣﺠﺬﻭﺏ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﻮﺭ ﭘﺮﻧﻮﺭ ﷺ ﮐﯽ ﺑﺸﺎﺭﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ۷۱۲؁ ﮪ ﮐﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﯿﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﻗﺪﺱ ﺳﺮﮦ ﮐﯽ

ﻭﻻﺩﺕ ﺑﺎﺳﻌﺎﺩﺕ ﮨﻮﺋﯽ ۔


ﺗﻌﻠﯿﻢ ﻭ ﺗﺮﺑﯿﺖ :

ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺧﺮﺍﺳﺎﻥ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﯿﺪ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﺮﺯﻧﺪ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺣﻔﻆ ﻗﺮﺁﻥ ﺳﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻭﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﭘﺮ ﺑﻄﻮﺭ ﺧﺎﺹ ﺗﻮﺟﮧ ﺩﯼ ﺳﺎﺕ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﯿﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﺑﻔﻀﻞ ﺧﺪﺍ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﻣﻊ ﺳﺎﺕ ﻗﺮﺃﺕ ﮐﮯ ﺣﻔﻆ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﻮﺩﮦ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﺎﻡ ﻋﻠﻮﻡ ﻣﺘﺪﺍﻭﻟﮧ ﻣﯿﮟ ﻋﺒﻮﺭ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ،ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﮐﻤﺴﻨﯽ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﯿﺦ ﺭﮐﻦ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻋﻼﺀ ﺍﻟﺪﻭﻟﮧ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺟﯿﺪ ﻋﺎﻟﻢ ﺩﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺸﻒ ﮐﺮﺍﻣﺖ ﺑﺰﺭﮒ ﺗﮭﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺭﮐﻦ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﯽ ﺧﺼﻮﺻﯽ ﺗﻮﺟﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﺬﺑﮧ ﺻﺎﺩﻕ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺭﺍﮦ ﺳﻠﻮﮎ ﭘﺮ ﮔﺎﻣﺰﻥ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ۔ ﺟﺐ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺳﺎﻝ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﻣﺎﺟﺪ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﯿﺪ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﻭﺻﺎﻝ ﻓﺮﻣﺎ ﮔﺌﮯ ۔ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﺱ ﮐﻢ ﻋﻤﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﺳﻤﻨﺎﻥ ﮐﯽ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯼ ﮐﺎ ﺑﺎﺭ ﮔﺮﺍﮞ ﺁﭘﮑﮯ ﮐﻨﺪﮬﻮﮞ ﭘﺮ ﺁﮔﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﺪﺍﺩﺍﺩ ﺻﻼﺣﯿﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺮﻭﺋﮯ ﮐﺎﺭ ﻻﮐﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﻧﻈﺎﻡ ﭼﻼﯾﺎ ﮐﮧ ﻟﻮﮒ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ۔ ﺁﭘﻨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ۷۲۷؁ ﮪ ﺳﮯ ۷۳۷؁ ﮪ ﺗﮏ ﺩﺱ ﺳﺎﻝ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﻋﺪﻝ ﻭ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﺳﮯ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﯽ ﺍﺳﯽ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﻀﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺳﮯ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ’’ ﺍﺳﻢ ﺫﺍﺕ ‘‘ ﺑﻐﯿﺮ ﻣﺪﺩ ﺯﺑﺎﻥ ﻭﺭﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻣﺸﻖ ﮐﺮﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻭﺭﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ،ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻭﺭﺩ ﮐﯽ ﻣﺸﻖ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺩﻭ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ۔ ﺍﺱ ﻣﺸﻖ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺷﻐﺎﻝ ﺍﻭﯾﺴﯿﮧ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺭﺟﻮﻉ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﻮ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻭﯾﺲ ﻗﺮﻧﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮩﮧ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﺟﻨﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﺮﺍﮦ ﺭﺍﺳﺖ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﺷﻐﺎﻝ ﺍﻭﯾﺴﯿﮧ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺷﻐﻞ ﻣﺮﺣﻤﺖ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ۔


ﺗﺮﮎ ﺳﻠﻄﻨﺖ :

ﺁﺧﺮ ﻭﮦ ﻭﻗﺖ ﺁﮔﯿﺎ ﺟﺐ ﺁﭘﮑﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺳﮯ ﺩﺳﺘﺒﺮﺩﺍﺭ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺭﻭﺣﺎﻧﯿﺖ ﮐﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﺖ ﭘﺮ ﺳﺮﻓﺮﺍﺯ ﮨﻮﻧﺎ ﺗﮭﺎ۔ ۷۳۷؁ ﮪ ۲۷ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﺍﻟﻤﺒﺎﺭﮎ ﮐﯽ ﺷﺐ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﻀﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ’’ﺣﺠﺎﺏ ﺗﺨﺖ ﻭ ﺗﺎﺝ ﺩﻭﺭ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻟﺬﺕ ﻭﺻﻞ ﺍﻟٰﮩﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﻭٔ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻼﻭٔ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﮔﻨﺞ ﻧﺒﺎﺕ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﮨﯿﮟ ۔ﺻﺒﺢ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺳﯿﺪ ﺍﻋﺮﺍﻑ ﮐﯽ ﺗﺨﺖ ﻧﺸﯿﻨﯽ ﮐﺎ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﺨﺖ ﻭ ﺗﺎﺝ ﺳﮯ ﺩﺳﺘﺒﺮﺩﺍﺭ ﮨﻮ

ﮔﺌﮯ ،ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺁﭘﮑﺎ ﺳﻦ ۲۵ ﺳﺎﻝ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﺩﺱ ﺳﺎﻝ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﻓﺮﻣﺎ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ ۔ﺁﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﻣﺤﺘﺮﻣﮧ ﺳﮯ ﺳﻔﺮ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻟﯽ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺑﯿﭩﺎ

ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻧﮧ ﺟﺎﻭٔ ﻟﻮﮒ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﺳﻤﻨﺎﻥ ﮐﺎ ﺷﮩﻨﺸﺎﮦ ﺗﻦ ﺗﻨﮩﺎ ﮦ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻟﮩﺬﺍ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﻭﻗﺖ ﻭﺯﺭﺍﺀ ﺍﻣﺮﺍﺀ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﻣﺤﺎﻓﻆ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮐﮭﻮ ﺗﺎﮐﮧ ﺭﻋﺎﯾﺎ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﮐﮧ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺴﯽ ﻣﮩﻢ ﭘﺮ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ۔ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﻣﺤﺘﺮﻣﮧ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﭘﺮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻭﺯﺭﺍﺀ ﺍﻣﺮﺍﺀ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﻣﺤﺎﻓﻈﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺮ ﺳﻤﻨﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﭽﮫ ﺩﻭﺭ ﭼﻠﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﻭﺯﯾﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺎﻓﻈﻮﮞ ﮐﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺗﻦ ﺗﻨﮩﺎ ﻣﻨﺰﻝ ﻣﻘﺼﻮﺩ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ۔ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺁﭖ ﻣﻠﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﻧﻮﺍﺡ ﻣﯿﮟ ﻗﺼﺒﮧ ﺍﻭﭺ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﺭﺩ ﮨﻮﺋﮯ

ﺟﮩﺎﮞ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺟﮩﺎﻧﯿﺎﮞ ﺟﮩﺎﮞ ﮔﺸﺖ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﷲ ﻋﻠﯿﮧ ﺳﮯ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮐﺎ ﺷﺮﻑ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﺎ ۔ ﺟﺐ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﯿﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﺍﻭﭺ ﺷﺮﯾﻒ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ’’ ﺑﻮﺋﮯ ﯾﺎﺭ ﻣﯽ ﺁﯾﺪ ‘‘ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺁﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﺎﻧﻘﺎﮦ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺁﺋﮯ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﯿﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺟﮩﺎﻧﯿﺎﮞ ﺟﮩﺎﮞ ﮔﺸﺖ ﻧﮯ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺁﭘﮑﯽ ﭘﯿﺸﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ’’ ﺳﺮﺩﺍﺭﯼ ﻭ ﺳﯿﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﺑﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﺪﺕ ﺑﻌﺪ ﻧﺴﯿﻢ ﺑﮩﺎﺭ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ ‘‘ ﭘﮭﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻋﺰﯾﺰ ﺟﻠﺪﯼ ﺭﺍﮦ ﺳﻠﻮﮎ ﻣﯿﮟ ﻗﺪﻡ ﺭﮐﮭﻮ ﺑﺮﺍﺩﺭﻡ ﻋﻼﻭٔﺍﻟﺪﯾﻦ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﮨﯿﮟ ۔ ﭘﮭﺮ ﮐﭽﮫ ﻋﺮﺻﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﺎﻧﻘﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﭨﮭﮩﺮﺍ ﮐﺮ ﭼﻠﮧ ﮐﺸﯽ ﮐﺮﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﻧﻌﻤﺘﯿﮟ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺧﺮﻗﮧ ﺧﻼﻓﺖ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :ﺍﺏ ﺗﮏ ﺟﻦ ﺍﮐﺎﺑﺮﯾﻦ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﺘﻔﺎﺩﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺳﺐ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻋﻄﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ۔ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺳﺮﻓﺮﺍﺯ ﮨﻮﮐﺮ ﺁﭖ ﭘﺎ ﭘﯿﺎﺩﮦ ﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﻗﺼﺒﮧ ﺑﮩﺎﺭ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺟﺐ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺍﻟﻤﻠﮏ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﯿﺦ ﺷﺮﻑ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﺣﻤﺪ یحیی ﻣﻨﯿﺮﯼ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﷲ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﻧﮯ ﻭﺻﯿﺖ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﻧﮑﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﻭﮨﯽ ﺷﺨﺺ ﭘﮍﮬﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺟﻮ ﺻﺤﯿﺢ ﺍﻟﻨﺴﺐ ﺳﯿﺪ ﮨﻮ ۔ ﺗﺎﺭﮎ ﺍﻟﺴﻠﻄﻨﺖ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺕ ﻗﺮﺃﺕ ﮐﺎ ﻗﺎﺭﯼ ﮨﻮ ﻭﮦ ﻣﻐﺮﺏ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮐﺎﻻ ﮐﻤﺒﻞ ﺍﻭﮌﮬﮯ ﻧﻤﻮﺩﺍﺭ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺍﺳﯽ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻮﺍﻧﺎ ۔ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺷﺮﻃﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﯿﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﮍﮬﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﺠﮩﯿﺰ ﻭ ﺗﮑﻔﯿﻦ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺰﺍﺭ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻣﺮﺍﻗﺒﮧ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮑﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭘﺎﯾﺎ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺁﭘﮑﻮ ﺗﻤﺎﻡ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ’’ ﻓﺮﺯﻧﺪ ﺍﺷﺮﻑ ‘‘ ﮐﺎﺵ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﻋﻼﻭٔ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﯾﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ ﺟﺎﻭٔ ﯾﮧ ﺳﻔﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮨﻮ ۔ﺳﯿﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﺷﺖ ﻭ ﺑﯿﺎﺑﺎﮞ ﮐﻮ ﻧﺎﭘﺘﮯ ،ﻧﺪﯼ ﻧﺎﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮭﻼﻧﮕﺘﮯ ﭘﮩﺎﮌﻭﮞ ﮐﻮ ﭼﯿﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ۔ﺻﺤﺮﺍﺀ ﮐﮯ ﮐﺎﻧﭩﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭼﭩﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﻮﮐﯿﻠﮯ ﭘﺘﮭﺮﻭﮞ ﭘﺎﻭٔﮞ ﺯﺧﻤﯽ ﮐﺮ ﺩﺋﯿﮯ ﷲ ﷲ ﻃﻠﺐ ﺣﻖ ﮐﺎﯾﮧ ﺭﺍﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﮦ ﺳﻠﻮﮎ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﺟﻮ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﭘﯿﺎﺳﺎ ﺑﮯ ﺳﺮﻭ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺻﺤﺮﺍﻭٔﮞ ﮐﻮ ﭘﯿﺪﻝ ﻧﺎﭖ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺷﮩﻨﺸﺎﮦ ﺷﻤﻨﺎﻥ ﮨﮯ ﻓﻠﮏ ﺑﻮﺱ ﻣﺤﻠﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﮑﯿﮟ ﮐﻮﮦ ﻭ ﺑﯿﺎﺑﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺭ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺭﺍﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﻭﮨﺎﮞ ﭨﮭﮩﺮ ﺟﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺠﺮ ﺗﮏ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺭﮨﺘﮯ ﺻﺒﺢ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﺍﮔﻠﯽ ﻣﻨﺰﻝ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ۔ﺟﻨﮕﻠﻮﮞ ﮐﮯ ﭘُﺮ ﺧﻄﺮ ﺭﺍﺳﺘﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﺎﮌﻭﮞ ﮐﯽ ﮨﯿﺒﺖ ﻧﺎﮎ ﻭﺍﺩﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭼﮭﻮﮌﮐﺮ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﻨﮑﮍﻭﮞ ﻣﯿﻞ ﮐﯽ ﺩﺷﻮﺍﺭﮔﺰﺍﺭ ﺭﺍﮨﯿﮟ ﻃﮯ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺳﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﺑﻨﮕﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﻗﺪﻡ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻨﮉﻭﺍ ﺷﺮﯾﻒ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺷﯿﺦ ﻋﻼﻭٔ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻋﻼﻭٔ ﺍﻟﺤﻖ ﮔﻨﺞ ﻧﺒﺎﺕ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﷲ ﻋﻠﯿﮧ ﺭﺷﺪ ﻭ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﮨﺮ ﻟﭩﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﯽ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﮐﯽ ﺁﺧﺮﯼ ﻣﻨﺰﻝ ﺗﮭﯽ ۔


ﺟﺲ ﻭﻗﺖ ﺁﭖ ﭘﻨﮉﻭﺍ ﺷﺮﯾﻒ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﯿﺦ ﻋﻼﻭٔ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﮔﻨﺞ ﻧﺒﺎﺕ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﷲ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﻃﺮﯾﻘﺖ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﮨﻞ ﻣﺤﻔﻞ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ’’ ﺑﻮﺋﮯ ﯾﺎﺭ ﻣﯽ ﺁﯾﺪ ‘‘ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺁﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺩﻭ ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﮨﻢ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﻋﻨﻘﺮﯾﺐ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ۔ﭘﮭﺮ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﮐﮯ ﮨﻤﺮﺍﮦ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻘﺒﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭘﺎﻟﮑﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﭩﮭﺎ ﮐﺮ ﺧﺎﻧﻘﺎﮦ ﺗﮏ ﻻﺋﮯ ﺧﺎﻧﻘﺎﮦ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﭘﮑﻮ ﺑﯿﻌﺖ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻓﺮﺯﻧﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺟﺲ ﻭﻗﺖ ﺗﻢ ﺳﻤﻨﺎﻥ ﺳﮯ ﭼﻠﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﯿﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﯿﺮ ﻭ ﻣﺮﺷﺪ

ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺭﮦ ﺳﺎﻝ ﺭﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺨﺖ ﺭﯾﺎﺿﺖ ﻭ ﻣﺠﺎﮨﺪﮮ ﮐﺌﮯ ﻣﺮﺷﺪ ﮐﺎﻣﻞ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﻧﻌﻤﺘﯿﮟ ﻋﻄﺎ ﮐﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺧﺮﻗﮧ ﻭ ﺧﻼﻓﺖ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ۔


ﺳﯿﺎﺣﺖ ﻭ ﺩﯾﻦ ﺗﺒﻠﯿﻎ :

ﺣﻀﺮﺕ ﺳﯿﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﯿﺮ ﻭ ﻣﺮﺷﺪ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻼﻭٔ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﮔﻨﺞ ﻧﺒﺎﺕ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﷲ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﭘﺮ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﺩﯾﻦ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﺁﭖ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺳﯿﺎﺣﺖ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺭﺍﮦ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﮐﮯ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﯼ ﺑﮍﯼ ﺭﮐﺎﻭﭨﯿﮟ ﺁﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺧﻄﺮﻧﺎﮎ ﺟﺎﺩﻭﮔﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ،ﻟﯿﮑﻦ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺁﭘﮑﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻧﮧ ﭨﮭﮩﺮ ﺳﮑﺎ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺮﯾﺮ ﭘﺮ ﮨﯽ ﺍﮐﺘﻔﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺗﺤﺮﯾﺮﯼ ﮐﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮐﮭﺎ ﺁﭖ ﻧﮯ 31 ﺗﺼﻨﯿﻒ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﺮﻭﺭ ﺍﯾﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﮦ ﻧﺎﭘﯿﺪ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﺤﻤﺪ ﷲ 10 ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺻﺤﯿﺢ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺟﺎﻣﻌﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﯾﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ

ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﺴﻄﺮﺡ ﺍﯾﮏ ﮐﺘﺎﺏ ﻓﻮﺍﺋﺪ ﺍﻟﻌﻘﺎﺋﺪ ﺗﮭﯽ ﯾﮧ ﮐﺘﺎﺏ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﺎ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ۔ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻭ ﺟﺎﻧﺸﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﯿﺪ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺯﺍﻕ ﻧﻮﺭﺍﻟﻌﯿﻦ

ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺁﭖ ﻋﺮﺏ ﻣﯿﮟ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﺑﺪﻭﻭٔﮞ ﻧﮯ ﺗﺼﻮﻑ ﮐﮯ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﻮﺍﺋﺪ ﺍﻟﻌﻘﺎﺋﺪ ﮐﺎ ﻋﺮﺑﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﮐﯿﺎ ﺁﭘﮑﯽ ﺗﺼﺎﻧﯿﻒ ﻣﯿﮟ ﻟﻄﺎﺋﻒ ﺍﺷﺮﻓﯽ ﮐﻮ ﺑﮍﯼ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ ﯾﮧ ﮐﺘﺎﺏ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺗﺼﻮﻑ ﮐﮯ ﺑﮍﮮ ﺍﮨﻢ ﺍﺳﺮﺍﺭ ﻭ ﺭﻣﻮﺯ ﺑﯿﺎﻥ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﻃﺮﯾﻘﺖ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺳﻼﺳﻞ ﮐﮯ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﺳﺘﻔﺎﺩﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﯾﮧ ﮐﺘﺎﺏ ﺩﯾﮕﺮ ﺟﺎﻣﻌﺎﺕ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺟﺎﻣﻌﮧ ﮐﺮﺍﭼﯽ ﮐﯽ ﻻﺋﺒﺮﯾﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ ۔


ﺳﯿﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﺻﺮﻑ ﻋﺮﺑﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﭘﺮ ﮨﯽ ﻋﺒﻮﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺭﺩﻭ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺩﯾﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﻧﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ

ﺟﺎﻣﻌﮧ ﮐﺮﺍﭼﯽ ﮐﮯ ﺷﻌﺒﮧ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﮯ ﺳﺎﺑﻖ ﺳﺮﺑﺮﺍﮦ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺍﺑﻮ ﺍﻟﻠﯿﺚ ﺻﺪﯾﻘﯽ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺭﺳﺎﻟﮧ ﺍﺭﺩﻭ ﻧﺜﺮ ﻣﯿﮟ ’’ ﺍﺧﻼﻕ ﻭ ﺗﺼﻮﻑ‘‘ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﺣﺎﻣﺪ ﺣﺴﻦ ﻗﺎﺩﺭﯼ ؒ ﮐﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﻧﺜﺮﯼ ﺗﺼﻨﯿﻒ ﺳﯿﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺭﺳﺎﻟﮧ ’’ ﺍﺧﻼﻕ ﻭ ﺗﺼﻮﻑ ‘‘ ﮨﮯ ﺟﻮ ۷۵۸؁ ﮪ ﻣﻄﺎﺑﻖ ۱۳۰۸؁ ﺀ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮟ

ﺗﺼﻨﯿﻒ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﯾﮧ ﻗﻠﻤﯽ ﻧﺴﺨﮧ ﺍﯾﮏ ﺑﺰﺭﮒ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻭﺟﮩﮧ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩﺍﺕ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ۲۸ ﺻﻔﺤﺎﺕ ﮨﯿﮟ ﻗﺎﺩﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺬﮐﻮﺭﮦ ﺭﺳﺎﻟﮧ ﺍﺭﺩﻭ ﻧﺜﺮ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺭﺩﻭ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﺭﺩﻭ ﻧﺜﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﺛﺎﺑﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺲ ﻣﺤﻘﻘﯿﻦ ﮐﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺳﯿﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ

ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﺍﺭﺩﻭ ﻧﺜﺮ ﻧﮕﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺩﯾﺐ ﻭ ﻣﺼﻨﻒ ﮨﯿﮟ۔


ﻭﺻﺎﻝ ﻣﺒﺎﺭﮎ :

ﺣﻀﺮﺕ ﺳﯿﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﯿﺎﺣﺖ ﻭ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﺩﯾﻦ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺎﺣﺖ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﮐﺌﯽ ﺳﻮ ﺑﺰﺭﮔﺎﻥ ﺩﯾﻦ ﺳﮯ ﻓﯿﺾ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﺎ ۔ﺳﻦ ۸۳۲؁ ﮪ ﻣﯿﮟ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﻨﺪﻭٔﮞ ﮐﮯ ﻣﻘﺪﺱ ﻣﻘﺎﻡ ﺍﺟﻮﺩﮬﯿﺎ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮭﻮﭼﮭﮧ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﺎﻧﻘﺎﮦ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯽ ۔ﻣﺤﺮﻡ ﺍﻟﺤﺮﺍﻡ ﮐﺎ ﭼﺎﻧﺪ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺑﮍﯼ ﻃﻤﺎﻧﯿﺖ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ’’ ﮐﺎﺵ ﺟﺪ ﻣﮑﺮﻡ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﯿﻦ ﺭﺿﯽ ﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﻣﻮﺍﻓﻘﺖ ﺟﻠﺪ ﻧﺼﯿﺐ ﮨﻮﺗﯽ ﺍﺳﮑﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻃﺒﻌﯿﺖ ﻧﺎﺳﺎﺯ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﺑﺴﺘﺮ ﻋﻼﻟﺖ ﭘﺮ ﺩﺭﺍﺯ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﺑﻼ ﮐﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻗﺒﺮ

ﻣﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ۔ﺣﺴﺐ ﺍﻟﺤﮑﻢ ﻟﺤﺪ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻧﺼﻒ ﻣﺤﺮﻡ ﮔﺰﺭ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﺁﭖ ﺍﯾﮏ ﻗﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻏﺬ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﻧﺎﻣﮧ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻘﯿﺪﮮ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﮏ ﮐﯽ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﺭﺍﮦ ﺳﻠﻮﮎ ﻃﮯ ﮐﺮﻧﮯ ﺩﯾﻦ ﮐﮯ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﺍﺳﺘﻘﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﻧﮯ

ﺍﻭﺭ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﺍﻭﺭ ﻃﺮﯾﻘﺖ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺳﺨﺖ ﺗﺎﮐﯿﺪ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﯾﮧ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﻧﺎﻣﮧ ﺭﺳﺎﻟﮧ ﻗﺒﺮﯾﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﮯ ۔


ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﺠﺮﮦ ﺧﺎﺹ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﺧﻠﻔﺎﺀ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﯿﺪ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺯﺍﻕ ﻧﻮﺭﺍﻟﻌﯿﻦ ﮐﻮ ﻃﻠﺐ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﻮ ﺧﺮﻗﮧ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺗﺎﺝ ﺍﺷﺮﻓﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﺒﺮﮐﺎﺕ ﺧﺎﻧﺪﺍﻧﯽ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎ ﮐﺮﺍﭘﻨﺎ ﺟﺎﻧﺸﯿﻦ ﻣﻘﺮﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ۔ ﻇﮩﺮ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺁﭖ ﻧﮯ

ﻧﻮﺭﺍﻟﻌﯿﻦ ﮐﻮ ﺍﻣﺎﻣﺖ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺍﻧﮑﯽ ﺍﻗﺘﺪﺍﺀ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﯽ ۔ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﭖ ﺧﺎﻧﻘﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﻧﻖ ﺍﻓﺮﻭﺯ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻤﺎﻉ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻗﻮﺍﻟﻮﮞ ﻧﮯ ﺷﯿﺦ ﺳﻌﺪﯼ ﮐﮯ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﭘﮍﮬﮯ ﺍﯾﮏ ﺷﻌﺮﭘﺮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻭﺟﺪ ﮐﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻟﻖ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﮐﮯ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﺍﻗﺪﺱ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ ۔ﺁﭖ ﮐﺎ ﻣﺰﺍﺭ ﭘﺮ ﺍﻧﻮﺍﺭ ﮐﭽﮭﻮﭼﮭﮧ ﺷﺮﯾﻒ ﺿﻠﻊ ﻓﯿﺾ ﺁﺑﺎﺩ ﯾﻮ ﭘﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺟﻊ ﺧﻼﺋﻖ ﮨﮯ ۔


ﺣﻀﺮﺕ ﺷﯿﺦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺤﻖ ﻣﺤﺪﺙ ﺩﮨﻠﻮﯼ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻻﺧﺒﺎﺭ ﺍﻻﺧﯿﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺁﭘﮑﺎ ﻣﺰﺍﺭ ﮐﭽﮭﻮﭼﮭﮧ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺑﮍﺍ ﻓﯿﺾ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﻡ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﻨﺎﺕ ﮐﻮ ﺩﻭﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺁﭖ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﯿﻨﺎ ﺗﯿﺮ ﺑﮩﺪﻑ ﮨﮯ۔


ﺁﭖ ﮐﺎ ﻣﺰﺍﺭ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮐﭽﮭﻮﭼﮭﮧ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﻣﺮﺟﻊ ﺧﻼﺋﻖ ﮬﮯ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﻭﺻﺎﻝ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮐﻮ ﭼﮫ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﺯﺍﺋﺪ ﻋﺮﺻﮧ ﮔﺬﺭ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺁﭘﮑﯽ ﯾﺎﺩ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ﺁﭘﮑﺎ ﻋﺮﺱ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ۲۶ﺗﺎ۲۸ ﻣﺤﺮﻡ ﺍﻟﺤﺮﺍﻡ ﮐﻮ ﮐﭽﮭﻮﭼﮭﮧ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺷﺎﻥ ﻭ ﺷﻮﮐﺖ ﺳﮯ ﻣﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ﺟﺴﻤﯿﮟ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺩﯾﮕﺮ ﻣﻤﺎﻟﮏ

ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮒ ﻭﮨﺎﮞ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺷﺮﮐﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔


ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ :

ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﯿﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﮐﮩﻼﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﻨﺎﮐﺤﺖ

ﻧﮩﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻠﺒﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﯼ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﺎﮦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺯﺍﻕ ﻧﻮﺭﺍﻟﻌﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﮐﮯ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﻓﺮﺯﻧﺪ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺍﻭﻝ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﺠﺎﺩﮦ ﻧﺸﯿﻦ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺁﭘﮑﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮨﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﮩﻼﺗﯽ ﮨﮯ ۔ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ۔ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﮐﮩﻼﺗﺎ ﮨﮯ ۔ﺍﺱ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﻭﻗﺘﺎً ﻓﻮﻗﺘﺎً ﺑﮍﯼ ﻋﻠﻤﯽ ﻭ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﺟﻠﯿﻞ ﺍﻟﻘﺪﺭ ﮨﺴﺘﯿﺎﮞ ﮔﺬﺭﯼ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺷﺒﮩﯿﮧ ﻏﻮﺙ ﺍﻻﻋﻈﻢ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﺍﺣﻤﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻠﯽ ﺣﺴﯿﻦ ﺍﺷﺮﻓﯽ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﺍﺷﺮﻓﯽ ﻣﯿﺎﮞ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﷲ ﻋﻠﯿﮧ ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﺪﺙ ﺍﻋﻈﻢ ﮨﻨﺪ ﺳﯿﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﺷﺮﻓﯽ ﮐﭽﮭﻮﭼﮭﻮﯼ ﺍﻭﺭ ﻗﻄﺐ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺷﺎﮦ ﺳﯿﺪ ﻣﺤﻤﺪﻃﺎﮨﺮ

ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻻ ﺷﺮﻓﯽ ﺍﻟﺠﯿﻼﻧﯽ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﷲ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻟﺸﺎﺋﺦ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﻣﺤﻤﺪ ﺷﺎﮦ ﺳﯿﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻻﺷﺮﻓﯽ ﺍﻟﺠﯿﻼﻧﯽ ﻗﺪﺱ ﺳﺮﮦ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﻗﺎﺑﻞ ﺫﮐﺮ ﮨﯿﮟ ۔ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﮐﻮ ﯾﮧ ﻓﺨﺮ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﻭ ﻣﻌﺘﻘﺪﯾﻦ ﺍﺳﻮﻗﺖ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﻭ ﻣﺸﺎﺋﺦ ﺑﮭﯽ ﮐﺜﯿﺮ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﯿﮟ۔

Previous Post Next Post