ولی کامل حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف کی سیرت
حضرت سیدنا پیر مہر علی شاہ صاحب یکم رمضان المبارک 1275 ہجری بمطابق 1859 عیسوی پروز پیر گولڑہ شریف ضلع راولپنڈی پاکستان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم کا نام پیر نذر دین شاہ رحمتہ اللہ تعالی علیہ ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب 25 واسطوں سے حضرت سیدنا غوث اعظم علیہ رحمۃ اللہ اکرم اور 32 واسطوں سے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ تک پہنچتا ہے۔
حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب کی تعلیمی قابلیت اور ذہانت
بچپن میں ہی حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی قوت حافظہ کا یہ عالم تھا کہ ناظرہ قرآن پاک پڑھنے کے دوران آپ روزانہ کا سبق کسی کے کہے بغیر زبانی یاد کر لیا کرتے ۔ اور بغیر دیکھے ہی سنا دیا کرتے تھے، جب آپ نے ناظرہ مکمل کیا تو اس وقت آپ کو مکمل قرآن پاک حفظ ہو چکا تھا۔
آپ کے والد صاحب نے قرآن پاک کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ کو عربی فارسی اور صرف و نحو کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے لیے حضرت مولانامحی الدین ہزاروی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی زیر سرپرستی تعلیم دلوائی۔ ایک روز آپ کے استاد صآحب نے پوچھا کہ بیٹا مطالعہ کر کے آتے ہو کہ نہیں؟ آپ فرماتے ہیں۔ کہ مجھے اس وقت تک لفظ مطالعہ کا صحیح مطلب بھی معلوم نہ تھا۔ میں سمجھا کہ مطالعہ زبانی یاد کرنے کو کہتے ہیں۔ لہذا اگلے روز میں نے پورا سبق زبانی سنا دیا، جس پر استاد صاحب کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔
آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ مادر زاد ولی ہیں
ایک دن پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے استاد صاحب نے دوران سبق کتاب کے ایسے حصے کی عبارت یاد کرکے آنے کی ہدایت کی جو دیمک لگ جانے کی وجہ سے اس قدر مٹ چکی تھی کہ پڑھی نہ جاسکتی تھی ۔ جب آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے عذر پیش کیا کہ جو عبارت کتاب میں ہی نہیں ہے اسے کیسے یاد کیا جاسکتا ہے۔تو استاد صاحب نے غالبا آپ کے مادر زاد ولی ہونے کی تصدیق کی غرض سے کہا کہ میں نہیں جانتا ، اگر کل یہ عبارت یاد نہ ہوئی تو سزا ملے گی۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں آبادی سے باہر ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر مطالعہ وغیرہ کیا کرتا تھااُس دن بھی کافی دیر تک میں وہیں بیٹھا کتاب کی دیمک زدہ عبارت کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہامگر بے سود۔
آخر کار سر اٹھا کر بارگاہ الہیٰ عزوجل میں عرض کی: اے اللہ عزوجل بے شک تو جانتا ہے کہ یہ عبارت کیا ہے۔اگرتو مجھے بتا دے تو میں استاد کی سزا سے بچ جاؤں گا۔ یہ کہنا تھا کہ اچانک درخت کے پتوں میں سبزی مائل عبارت نمودار ہوئی جسے میں نے حفظ کر لیا اور اُسی وقت جاکر استاد صاحب کو سنادی۔ انہوں نے کچھ شبہ کا اظہار کیا تو میں نے کہا کہ مجھے اس کے صحیح ہونے کا اس قدر یقین ہے کہ اگر اس کتاب کے مصنف بھی قبر سے باہر نکل کر آجائیں اور اسے غلط کہہ دیں تو میں نہ مانو گا۔چناچہ استاد صاحب اسی روز راولپنڈی گئے اور ایک مکمل نسخے سے میری سنائی ہوئی عبارت کو ملاکر دیھتا تو نہایت حیران ہوئے۔
آپ نے ایک فتنے کی سرکوبی کی
حضرت پیر مہر علی شاہ میں حریمین شریفین کی زیارت کے لیے گئے تو مکہ مکرمہ میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی چشتی صابری رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے معلاقات ہوئی ۔ وہ آپ کے علم و فضل سے بہت متاثر ہوئے۔ حضرت پیر صاحب چاہتے تھے کہ حرمین طیبین میں ہی قیام کیا جائے مگر حضرت حاجی صاحب نے تاکید کے ساتھ واپس کانے کاحکم دیا اور فرمایا کہ ہندوستان میں عنقریب فتنہ برپا ہونے والا ہے لہذا آپ اپنے ملک ہندوستان واپس چلے جائیں کیونکہ بالفرض آپ ہند میں خاموش ہو کر بیٹھ بھی جائیں گے تو پھر بھی وہ فتنہ ترقی نہ کرسکے گا ۔ پیر صاحب فرماتے ہیں کہ پس ہم حاجی صاحب کے اس کشف کو اپنے یقین کی رو سے مرزا قادیانی کے فتنہ سے تعمیر کرتے ہیں۔
حضرت حاجی امداد اللہ کی پیشنگوائی کے مطابق آپ نے فتنہ قادیانیت کی سازشوں پر پانی پھیر دیا ۔ آپ نے 1899میں شمس الہدایہ نامی کتاب لکھ کر حیات مسیح علیہ السلام پر زبردست دلائل قائم کئے۔ مرزا قادیانی ان دلائل کا جواب تو نہ دیے سکا البتہ مناظرے کا چیلنج کر دیا 25 جولائی 1900کی تاریخ مُناظرہ کے لیے طے پائی ، چنانچہ مقررہ تاریخ کو حضرت پیر صاحب اور علمائے کرام کی بہت بڑی جماعت بادشاہی مسجد لاہور پہنچ گئی لیکن مرزا قادیانی کو سامنے آے کی جرات نہ ہو سکی۔
پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی مشہور تصانیف
سیف چشتیائی ، شمس الھدایۃ ، تحقیقُ الحق ، الفتوحاتُ الصمدیۃ ، فتاویٰ مہریہ
آپ کا وصال اور مزار پرانوار
آپ کی وفات 29صفر المظفر1356بمطابق 11 مئی 1937 صبح کے وقت ذکراللہ کرتے ہوئے ہوئی ۔ اور آپ کا مزار پرانوار گولڑہ شریف میں موجود ہے، جہاں بہت سے عقیدت مند روزانہ حاضر ہوتے ہیں۔ آپ کا عرس مبارک 29 صفر المظفر کو ہوتا ہے۔
Post a Comment