علامہ خادم حسین رضوی Life Story Allama Khadim Hussain Rizvi | History Khadim Hussain Rizvi Ki Namze Janaza | FidaNama

 علامہ خادم حسین رضوی (22 جون 1966ء-19 نومبر 2020ء نکہ توت پنڈی گھیب) بریلوی مکتب فکر کے عالم دین اور مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے بانی تھے۔ سیاست میں آنے سے قبل خادم حسین لاہور میں محکمہ اوقاف کی مسجد میں خطیب تھے۔ ممتاز قادری کی سزا پر عملددرآمد کے بعد انھوں نے کھل کر حکومت وقت پر تنقید کی، جس کی وجہ سے محکمہ اوقاف نے ان کو فارغ کر دیا۔





پیدائش

خادم حسین رضوی 3 ربیع الاول، 1386ھ بمطابق 22 جون، 1966ء کو "نکہ توت" ضلع اٹک میں حاجی لعل خان اعوان کے ہاں پیدا ہوئے۔ [3]


تعلیم و تربیت

خادم حسین رضوی نے ابتدائی تعلیم میں چوتھی کلاس تک اپنے گاؤں نکا کلاں کے اسکول سے حاصل کی کی۔ اس کے بعد دینی تعلیم کے لیے ضلع جہلم چلے گئے اس وقت ان کی عمر بمشکل آٹھ سال ہی تھی اور یہ 1974 کی بات ہے۔ جب خادم حسین اکیلے جہلم پہنچے تو اس وقت تحریک ختم نبوت اپنے عروج پر تھی اور اس کی وجہ سے جلسے جلوس اور پکڑ دھکڑ کا عمل چل رہا تھا۔ جہلم میں علامہ صاحب کے گاؤں کے استاد حافظ غلام محمد موجود تھے جنھوں نے انہیں جامعہ غوثیہ اشاعت العلوم عید گاہ لے گئے۔ یہ مدرسہ قاضی غلام محمود کا تھا جو پیر مہر علی شاہ کے مرید خاص تھے۔ وہ خود خطیب و امام تھے اس لیے مدرسہ کے منتظم ان کے بیٹے قاضی حبیب الرحمن تھے۔ مدرسہ میں حفظ قرآن مجید کے لیے استاد قاری غلام یسین تھے جن کا تعلق ضلع گجرات سے تھا اور وہ آنکھوں کی بینائی سے محروم تھے۔ خادم حسین نے قرآن مجید کے ابتدائی بارہ سپارے جامع غوثیہ اشاعت العلوم میں حفظ کیے اور اس سے آگے کے اٹھارہ سپارے مشین محلہ نمبر 1 کے دار العلوم میں حفظ کیے۔ اس کی وجہ کچھ یوں بنی کہ مدرسہ میں موجود نکا کلاں کے ایک طالب علم گل محمد نے کسی بات پر باورچی کو مارا تھا اور باورچی کو اچھی خاصی چوٹیں آئیں۔ اس وجہ سے گل محمد کو مدرسہ سے نکال دیا گیا جس کی وجہ سے نکا کلاں کے استاد حافظ غلام محمد نے اپنے لائے تمام طلبہ جن کی تعداد اکیس تھی نکال کر مشین محلہ نمبر 1 پر واقع دار العلوم میں داخلہ دلا دیا جن میں خادم حسین بھی شامل تھے۔ آپ کو قرآن پاک حفظ کرنے میں چار سال کا عرصہ لگا۔ جب آپ کی عمر بارہ برس ہوئی تو دینیہ ضلع گجرات چلے گئے اور وہاں دو سال قرأت کی تعلیم حاصل کی۔ قرأت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1980ء میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور چلے گئے۔ [4] وہاں آپ نے شہرہ آفاق دینی درسگاہ جامعہ نظامیہ لاہور میں درس نظامی کی تعلیم حاصل کی۔ [5] لاہور مدرسہ میں آٹھ سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1988ء میں فارغ التحصیل ہو گئے تھے۔ قرآن پاک حفظ کرنے کے علاوہ درس نظامی اور احادیث پڑھیں۔



۔ابتدائی تعلیم اپنے گائوں سے حاصل کی۔ 1974ء میں دینی تعلیم کے حصول کے لیے گھر چھوڑا اور جامع مسجد عید گاہ جہلم میں داخلہ لیا۔وہاں حافظ غلام  یٰسین آپ کے استاد تھے۔1978 میں قرآن مجید حفظ کر لیا۔حفظ و تجوید کے بعد درسِ نظامی پڑھنے کے لیے جامع مسجد وزیر خان لاہور میں قاری منظور حسین کے پاس آ گئے۔انھوں نے آپ کو جامعہ نظامیہ لاہور میں داخل کرا دیا۔وہاں آپ کو درج ذیل اساتذہ سے تعلیم حاصل کی:


1۔مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی:(ترمذی شریف)


2۔مفتی محمد عبداللطیف نقش بندی:(مسلم شریف،ابو دائود شریف)


3۔علامہ محمد رشید نقش بندی:(کنزالدقائق،قصیدہ بردہ شریف)


4۔علامہ عبدالحکیم شرف قادری:(بخاری شریف)


5۔علامہ حافظ عبدالستار سعیدی


6۔علامہ محمد صدیق ہزاروی


1988ء میں دورۂ حدیث مکمل ہوا اور دستارِ فضیلت عطا کی گئی۔


عملی زندگی

حافظ خادم حسین نے پہلی ملازمت 1993ء میں محکمہ اوقاف پنجاب میں کی۔ اس سلسلے میں آپ داتا دربا لاہور کے نزدیک واقع پیر مکی مسجد میں خطیب تھے۔ جب محکمہ اوقاف کی ملازمت ترک کی تو اس وقت آپ کی تنخواہ بیس ہزار ماہانہ تھی۔ جو اب ختم ہو چکی ہے۔ پھر یتیم خانہ لاہور روڈ کے قریب واقع مسجد رحمت اللعالمین میں خطیب رہے جہاں سے پندرہ ہزار ماہانہ مشاہرہ ملتا تھا۔[6]


1990 ء میں جامعہ نظامیہ میں" علمِ صرف "کا درس دینا شروع کیا۔1993ء میں محکمۂ اوقاف لاہور کی طرف سے دربار سائیں کانواں والے ،گجرات میں خطابت و امامت کے لیے آپ کا تقرر ہوا۔بعد ازآں دربار حضرت شاہ ابوالمعالی کی مسجد میں تبادلہ ہوا۔وہاں حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی وجہ سے چار ماہ کے لیے معطل کر دیے گئے۔اس کے بعد بحال ہو کر پیر مکی صاحب لاہور کی مسجد میں فرائض انجام دینے لگے لیکن حکومتی پالیسیاں حسب معمول ان کا ہدف تھیں ،خاص طور پر ممتاز قادری کے حوالے سے ان کا مئوقف حکومت کے برعکس تھاجس کا اظہار وہ سرکاری پلیٹ فارم پر کرتے تھے۔نتیجے کے طور پر ملازمت کا یہ سلسلہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا اور محکمۂ اوقاف نے انھیں ملازمت سے فارغ کر دیا۔ ۔"ممتاز قادری رہائی تحریک"کے محرک اور سرپرست اعلیٰ رہے۔"تحریک فدائیان ختم نبوت" کے امیر رہے۔ان کا سیاست میں آنے کا سبب ممتاز قادری کی سزائے موت ہے۔ممتاز قادری کی سزا کے بعد "تحریک لبیک یا رسول اللہ"کے سرپرست اعلیٰ رہے ؛بعد ازآں ڈاکٹر اشرف آصف جلالی سے اختلاف کی وجہ سے اپنی الگ تحریک"تحریک لبیک پاکستان"بنا لی۔ انھوں نے بہت جلد اپنے سخت بیانات سے قدامت پسند طبقے میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ ان پر 2016ء میں توہین مذہب کے قانون کے حق میں ریلی نکالنے پر لاٹھی جارج کیا گیا اور انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا تھا۔2017 میں این اے 120 لاہور کے ضمنی انتخاب میں پہلی بار سیاسی منظر نامے پر نمودار ہوئے اورسات ہزار ووٹ حاصل کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔این اے 4،پشاور کے ضمنی الیکشن میںتقریبا دس ہزار ووٹ حاصل کیے۔لودھراں کے الیکشن میں بھی ان کی تنظیم کو گیار ہزار کے قریب ووٹ پڑے۔2017ء میں نواز شریف حکومت نے ایک پارلیمانی بل میں حکومت کی طرف سے قانون ختم نبوت کی ایک شق میں الفاظ بدل دیے؛جس پر ہر طرف سے صدائے احتجاج بلند ہوئی ،خادم حسین رضوی نے بیانات کی بجائے عملی قدم اٹھایا اور اور نومبر 2017ء میں فیض آباد انٹرچینج پر کئی دن دھرنا دیا؛جس کی وجہ سے وزیرقانون زاہد حامد کو استعفیٰ دینا پڑا۔اس وجہ سے تنقید کا نشانہ بھی بنے۔2018ء میں جب ہالینڈ نے حضورﷺ کے خاکوں کی نمائش کی گستاخی کی تو آپ نے دوبارہ لاہور تا اسلام آباد مارچ کیا اور دھرنا دیا ۔


آسیہ نام کی ایک عورت پرتوہین رسالت کا الزام لگایا گیا ،ہائی کورٹ نے اسے موت کی سزا سنائی لیکن سپریم کورٹ میں اسے رہائی مل گئی۔ جس پر خادم حسین رضوی کا شدید ردِ عمل سامنے آیا۔تحریک لبیک کے کارکنوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔سیکڑوں گاڑیوں کو آگ لگا دی؛جس کے نتیجے میںخادم حسین رضوی اور ان کی تنظیم کے عہدہ داروں اور معاونین کو گرفتار کر لیا گیا۔ خادم حسین رضوی دہشت گردی کے الزام میں لاہور پولیس کی حراست رہے۔مئی 2019ء کو ضمانت پر رہائی ملی۔پنجابی ان کی مادری زبان ہے تاہم انھیں فارسی پر بھی مکمل عبور حاصل تھا۔شاعری سے بھی لگائوتھا۔خود کو کلام اقبال کا حافظ کہتے تھے، وفات سے چند دن پہلے فیض آباد پر پھر دھرنا دیا،اس بار ان کا مطالبہ فرانس کے سفیر کو پاکستان سے نکالنا تھا کیونکہ فرانس کے صدر نے گستاخانہ خاکوں کی حمایت کی تھی۔




بیعت و خلافت

روحانی طور پر خادم حسین سلسلہ نقشبندیہ میں خواجہ محمد عبد الواحد لمعروف حاجی پیر صاحب کالا دیو، جہلم سے مرید تھے۔


سر پرست و نگران

خادم حسین رضوی دو عشروں سے جامعہ نظامیہ رضویہ میں تدریس کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ فدایان ختم نبوت پاکستان اور مجلس علما نظامیہ کے مرکزی امیر رہے۔ دار العلوم انجمن نعمانیہ سمیت کئی مدارس، تنظیمات اور اداروں کے سر پرست و نگران رہے۔ [7]


معذوری

2009 میں پیش آنے والے ایک حادثے میں وہ معذور ہو گئے اور وہیل چیئر تک محدود ہو گئے تھے ، جس کی کچھ تفصیلات اب سامنے آ گئی ہیں ۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق مولانا خادم حسین رضوی کے بڑے بھائی امیر حسین رضوی گاﺅں میں مسجد تعمیر کروا رہے تھے تو وہ اس سلسلے میں 2009 میں اپنے گاﺅں جانے کے لیے سفر پر روانہ ہوئے ، راستے میں ایک ڈرائیور کو نیند آ گئی اور ایک موڑ سے گاڑی نیچے جا گری ، اس حادثے میں مولانا خادم حسین رضوی کے سر اور مغز میں شدید چوٹیں آئیں جس کے باعث ان کے جسم کا نچلا حصہ معذور ہو گیا ۔



ازواج و اولاد

خادم حسین رضوی کی شادی اپنے چچا کی بیٹی سے ہوئی جو آپ کے والد لعل خان نے رشتہ پسند کیا تھا۔ 1993ء میں محکمہ اوقاف میں خطیب کی ملازمت کے بعد یہ شادی ہوئی۔


اولاد

حافظ خادم حسین رضوی کی اولاد میں دو بیٹے اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔ بیٹوں کے نام یہ ہیں۔


حافظ محمد سعد حسین

حافظ محمد انس

دونوں بیٹے حافظ قرآن ہیں اور درس نظامی کا کورس کر رہے ہیں۔ [8]


سیاست

تحریک لبیک پاکستان (انتخابی نشان کرین)

تحریک لبیک پاکستان (انتخابی نشان کرین)

تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) ایک سیاسی تنظیم ہے جو تحریک لبیک یا رسول اللہ نامی جماعت کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی کی زیر قیادت قائم ہوئی ہے۔ 26 جولائی 2017ء کو الیکشن کمیشن پاکستان میں رجسٹر ہوئی اور کرین نشان الاٹ ہوا۔


خادم حسین رضوی کی جماعت، تحریک لبیک پاکستان نے 2018ء کے عام انتخابات میں بھی حصہ لیا اور سندھ اسمبلی سے دو نشستیں حاصل کیں اور مجموعی طور پر پورے ملک سے 22 لاکھ ووٹ حاصل کیے۔


[icon]

اس قطعہ میں اضافہ درکار ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے مدد کر سکتے ہیں۔

تنازعات

ان کا سیاست میں آنے کا سبب ممتاز قادری کی سزائے موت کو مانا جاتا ہے، انھوں نے بہت جلد اپنے سخت بیانات سے قدامت پسند طبقے میں اپنی جگہ بنائی۔ ان پر 2016ء میں توہین مذہب کے قانون کے حق میں ریلی نکالنے پر لاٹھی جارج کیا گیا اور انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ انہیں پنجاب حکومت نے فورتھ شیڈول میں رکھا ہوا تھا جس کا مطلب ہے کہ انہیں اپنی نقل و حرکت کے بارے میں پولیس کا آگاہ رکھنا ہوتا تھا۔[9]


2017ء میں ایک پارلیمانی بل میں حکومت کی طرف سے قانون ختم نبوت کی ایک شق میں الفاظ بدلنے پر، انھوں نے سخت رد عمل کا اظہار کیا اور نومبر 2017ء میں فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا دے دیا۔ 25 نومبر کی صبح وفاقی پولیس اور رینجر نے ایک ناکام آپریشن کیا، جس میں کئی افراد زخمی ہوئے، پولیس نے 12 ہزار آنسو گیس کے شل پھینکے اور 8 لوگ ہلاک بھی ہوئے۔ واقعے کے بعد ملک گیر احتجاج شروع ہو گيا۔ اور 25 نومبر کو وزیر داخلہ نے فوج سے مدد طلب کر لی۔ خادم حسین پر عوامی مقامات پر مخالفین کو گالیاں دینے کے حوالے سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن خادم حسین کا کہنا تھا کہ اس طرح کے الفاظ اللہ تعالیٰ نے بھی قران میں بیان فرمائے ہیں۔﴿﴿حوالہ درکار﴾﴾


تصنیفات

تیسیر ابواب الصرف

تعلیلات خادمیہ

وفات

19 نومبر 2020ء، بروز جمعرات بوجہ علالت بعمر 54 سال لاہور میں وفات پائی۔ 21 نومبر 2020ء بروز ہفتہ کو صبح 10 بجے نماز جنازہ گراؤنڈ مینار پاکستان میں ادا کی گئی، جس میں دنیا کے کئی ممالک  سےلاکھوں  مسلمانوں نے شرکت کی۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ قرار پایا.


جنازہ صاحبزادے سعد حسین رضوی نے پڑھایا، لاہور کی مسجد رحمت للعالمین سے ملحق مدرسہ ابوذرغفاری میں سپرد خاک ہوئے،


خادم رضوی کی وفات کے بعد ان کی جماعت کی 18 رکنی شوری نے ان کے بیٹے سعد حسین رضوی کو تحریک لبیک کا نیا سربراہ مقرر کیا جس کا اعلان جماعت کے مرکزی نائب امیر سید ظہیر الحسن شاہ نے جنازے کے موقع پر کیا۔


چہلم

تحریک لبیک پاکستان کے مرحوم سربراہ مولانا خادم حسین رضوی کی رسم چہلم اور قرآن خوانی لاہور میں ان کی مسجد رحمۃ اللعالمینؐ کے مقام پر ادا کی گئی جس میں ملک بھر سے جید علما کرام، مشائخ عظام اورکارکنان نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ مرحوم سربراہ خادم حسین رضوی کی روح کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی اور درود و سلام کے ہدیے بھی پیش کیے گئے۔ شہزادہ غوث اعظم ملک شام سے پاکستان تشریف لائے اور خصوصی شرکت کی ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کارکنوں سے ٹیلی فونک خطاب بھی کیا۔ تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد بن خادم حسین رضوی نے کہا ہے اپنے والد کا مشن ہر صورت آگے بڑھاوں گا۔ ناموس رسالت کی ایک جنگ چھڑ چکی ہے۔ اگر کسی کو غلط فہمی ہے تو پھر دور کر لے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے والدقائد تحریک لبیک پاکستان خادم حسین رضوی مرحوم کے چہلم کے موقع پرخطاب کرتے ہوئے کیا۔ چہلم میں علامہ حافظ عبدالستاری سعیدی،سید ظہیر الحسن شاہ بخاری، غلام غوث بغدادی، علامہ مفتی رضی حسینی ،ڈاکٹر محمد شفیق امینی،علامہ غلام عباس فیضی، علامہ مفتی رضی حسینی،سید عنایت الحق شاہ ،علامہ فاروق الحسن،اوریا مقبول جان،علامہ مفتی وزیر رضوی سمیت ملک بھر سے جید علما کرام شرکت و خطاب کیا۔چہلم میں شام سے نور الدین زنگی کے مزار شریف سے آئے مہمان مولانا عبدالعزیز نے سعد رضوی کو مزار شریف کی چادر پہنائی۔ انہوں نے کہاکہ اہل شام آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے۔ سعد رضوی کے ہاتھ پر اہل شام بیت کرتے ہیں ہم سب آپ کے پیچھے ہیں۔ختم چہلم سے خطاب کرتے ہوئے علامہ خادم حسین رضوی کے استاد حافظ عبدالستار سعیدی نے کہا کہ عالم کا دنیا سے چلے جانا سارے جہاں کی موت ہے۔ لبیک یارسولؐ کا نعرہ حضرت محمدؐ  کے دور کا ہے۔ امیر المجاہدین خادم حسین رضوی نے شیرخوار بچہ میں بھی لبیک یارسول اللہ کا نعرہ لگانے کی کیفیت بھر دی ہے۔ 45 سال ہو گئے پڑھاتے ہوئے مجھے خادم حسین رضوی کا استاد ہونے پر فخر ہے۔ تحریک لبیک آزاد کشمیر کے امیرمولانا عبدالغفور نے کہا کہ جنازہ بڑا کرنے کے لیے ناموس رسالت پر پہرہ دینا پڑتا ہے۔ قائد ملت نے سینہ تان کر قادیانیوں کو خبردار کر دیا، تاجدار ختم نبوت کا نعرہ بلند کیا۔


حوالہ جات

چہلم روزنامہ نوائے وقت Jan 04, 2021 (1)مولانا محمد اسلم رضوی،تذکرہ علما اہلِ سنت ضلع اٹک،اسلامک میڈیا سنٹر ،لاہور،مارچ 2019، ص 68


(2)آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا ،


(3) علاقائی ذرائع


(شخصیات اٹک،مرتب:سید نصرت بخاری)


 https://ishtiaqueazher.com/2020/11/20/who-is-allama-khadim-hussain-rizvi-biography/

 https://voiceoflabbaik.com/allama-khadim-hussain-rizvi/

 "پیدائش". انجمن ضیاء طیبہ. 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 9 نومبر 2017.

 خادم حسین رضوی کا سفر زندگی مولف مفتی محمد آصف عبد اللہ قادری رضوی صفحہ 1 ، 2 اور 9

 "پیدائش". انجمن ضیاء طیبہ. 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 9 نومبر 2017.

 علامہ خادم حسین رضوی کا سفر زندگی مولف مفتی محمد آصف عبد اللہ قادری صفحہ 9

 "پیدائش". انجمن ضیاء طیبہ. 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 9 نومبر 2017.

 خادم حسین رضوی کا سفر زندگی مولف مفتی محمد آصف عبد اللہ قادری رضوی صفحہ 9

 ہارون رشید (17 نومبر 2017). "بی بی سی اردو". اخذ شدہ بتاریخ 25 نومبر 2017.

Post a Comment

Previous Post Next Post