دوسری صدی کے مجدد محمد بن ادریس شافعی Life Story Hazrat Imam Shafi | Hazrat Imam Shafi Complete Documentary In Urdu Imam Shafi Ka Qissa

 دوسری صدی کے مجدد محمد بن ادریس شافعی


نسب

امام شافعی کا نسب اُن کے تلمیذ رشید ربیع بن سلیمان مرادی نے یوں بیان کیا ہے :


ابو عبد اللہ محمد بن ادریس بن عباس بن عثمان بن شافع بن سائب بن عبید بن عبد یزید بن ہاشم بن مطلب بن عبد مناف قرشی مطلبی ہاشمی[7] بن قُصَّیْ بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خُزَیمہ بن مُدرِکَہ بن اِلیاس بن مُضر بن نِزَار بن مَعَد بن عدنان۔


یہی نسب مورخ اسلام علامہ ابن کثیر الدمشقی نے البدایۃ والنہایۃ میں بیان کیا ہے۔[8] محقق ابن ندیم (متوفی 384ھ) نے الفہرست لابن ندیم میں امام شافعی کا یہی نسب بیان کیا ہے۔[9] امام بیہقی (متوفی 458ھ) نے مناقب الشافعی میں یہی نسب بیان کیا ہے۔[10][11] امام الحافظ ذہبی (متوفی 748ھ) نے سیر اعلام النبلا میں یہی نسب بیان کیا ہے [12] امام جلال الدین سیوطی (متوفی 911ھ) نے حسن المحاضرۃ میں امام شافعی کا یہی نسب بیان کیا ہے ۔[13][14]


نام و لقب

آپ کا نام محمد ہے، کنیت ابو عبد اللہ ہے۔ مورخین اور محدثین کے نزدیک " امام محمد بن ادریس الشافعی " کے نام سے مشہور و معروف ہیں۔ آپ کے نسب میں ایک صحابی حضرت شافع بن سائب رضی اللہ عنہ ہوئے ہیں جن سے آپ کو شافعی کہا جاتا ہے۔[8][15] لقب ناصر الحدیث ہے۔[16][12][17][18] الحافظ ذہبی نے غزہ میں ولادت کے سبب آپ کا ایک لقب غزی بھی لکھا ہے۔[19] قتیبہ بن سعید نے آپ کو امام کے لقب سے یاد کیا ہے۔[20][21][22][23] امام اسحاق بن راہویہ جو امام محمد بن اسماعیل بخاری کے شیوخ میں سے ہیں، نے بھی آپ کو امام کے لقب سے یاد کیا ہے۔[24][25][26][27][28][29] فقہ شافعی کے پیروکار آپ کی نام کی نسبت سے شافعی (جمع= شوافع) کہلاتے ہیں۔


حلیہ و ہیئت

مزنی کا بیان ہے کہ امام شافعی سے زیادہ خوبصورت آدمی میں نے نہیں دیکھا، دونوں رخسار ہلکے پھلکے سے تھے، جب داڑھی پر ہاتھ رکھتے تو ایک قبضہ سے زائد نہ ہوتی تھی [30]۔[31] حناء کا استعمال کیا کرتے تھے [32] عطریات اور خوشبو بہت پسند فرماتے تھے۔ جس ستون سے سہارا لے کر مجلس درس کے لیے بیٹھا کرتے، ایک ملازم اُس ستون پر خوشبو لگایا کرتا تھا۔ طبیعت میں نفاست و نزاکت بہت زیادہ تھی۔ لباس اور غذاء کا خاص اہتمام فرماتے۔ قوتِ حافظہ کے لیے لوبان کا استعمال کثرت سے کیا کرتے تھے، اِسی وجہ سے ایک سال تک مرض نکسیر میں مبتلا رہے۔[33][21][34][35][36][37][38] مورخ اسلام علامہ ابن کثیر الدمشقی لکھتے ہیں کہ امام شافعی سفید رنگ، خوبصورت، دراز قد [39] اور با رُعب انسان تھے اور شیعوں کی مخالفت میں حناء یعنی مہندی کا استعمال فرمایا کرتے تھے۔[40] بال گھنگھریالے تھے اور خوشنما لباس زیب تن کرتے تھے۔[41] زعفرانی کے قول کے مطابق خضاب بھی استعمال کرتے تھے۔[42]


والدین

امام شافعی کے والد ادریس بن عباس بن عثمان بن شافع بن سائب بن عبید بن عبد یزید بن ہاشم بن مطلب بن عبد مناف قرشی مطلبی ہاشمی ہیں [7][19]۔ امام شافعی کے نسب میں سائب صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ سائب بن عبید غزوہ بدر میں گرفتار ہونے کے بعد اسلام لائے [43]۔ بنی ہاشم کا علم اِن کے ہاتھ میں تھا۔ فدیہ اداء کرکے مسلمان ہو گئے اور لوگوں نے اِس پر تعجب کیا تو کہنے لگے : میں نے مسلمانوں کو اُن کے حق سے محروم کرنا پسند نہیں کیا۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ ظاہری طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہت رکھتے تھے۔ ایک بار سائب بیمار ہوئے تو عمر فاروق اُن کی عیادت کو گئے۔ شافع نے اپنے والد سائب کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شرفِ ملاقات کو حاصل کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شافع بن سائب کو دیکھ کر فرمایا: " آدمی کی سعادت مندی ہے کہ وہ باپ کے مشابہ ہو۔" [15] عثمان بن شافع تابعی ہیں جو امام شافعی کے پردادا ہیں [43]۔


امام شافعی کی والدہ فاطمہ بنت عبد اللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب تھیں۔ امام شافعی کی والدہ ہاشمیہ تھیں مگر خطیب بغدادی اور قاضی عیاض مالکی نے اُنہیں قبیلہ بنو الاَزد سے بتایا ہے۔ خطیب بغدادی اور قاضی عیاض مالکی نے لکھا ہے کہ امام شافعی کی والدہ قبیلہ بنو الاَزد سے تھیں جن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے کہ: بنوالاَزد عرب کے عنصر ہیں۔[44][45]

ولادت اور ابتدائی حالات

مشہور روایات کے مطابق امام شافعی کی ولادت بروز جمعہ 27 ماہِ رجب 150ھ مطابق ماہِ 28 اگست 767ء میں بمقام غزہ بلاد الشام (موجودہفلسطین) میں ہوئی [14]۔[46] ربیع بن سلیمان مرادی کہتے ہیں کہ: امام شافعی اُس سال پیدا ہوئے جس سال امام ابوحنیفہ فوت ہوئے۔[47][48][49] امام شافعی کا اپنا قول ہے کہ میری ولادت 150ھ میں ملک شام کے شہر غزہ میں ہوئی اور 2 سال کی عمر میں مجھے مکہ لایا گیا، یعنی 152ھ مطابق 769ء میں۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں عسقلان میں پیدا ہوا اور دو سال کا ہوا تو میری والدہ مجھے مکہ کے آئیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ میں یمن میں پیدا ہوا اور میری والدہ کو خطرہ ہوا کہ کہیں میرا نسب یمن میں ضائع نہ ہو جائے اِس لیے 10 سال کی عمر میں مجھے مکہ لے آئیں۔ امام شافعی کی والدہ فاطمہ بیان کرتی ہیں جس زمانہ میں شافعی مادرِ شکم میں ہی تھے تو میں نے خواب دیکھا کہ سیارہ مشتری میرے جسم سے نکلا اور مصر میں جا گرا اور اُس کی روشنی وہاں سے ہر شہر میں پہنچی۔ معبروں نے بتایا کہ تم سے ایک عالم پیدا ہوگا جس کا علم مصر سے تمام شہروں میں عام ہو جائے گا۔[8][50][51][52][53][54]


امام شافعی یتیم تھے [19]۔ اُن کے والد ادریس بن عباس کا انتقال اُن کی ولادت سے قبل یا بعد میں جلد ہی ہوا۔ اِس حوالہ سے مورخین خاموش دکھائی دیتے ہیں۔ خود امام شافعی کے اِس بیان سے کہ : میری والدہ مجھے 2 سال کی عمر میں مکہ لے آئیں، معلوم ہوتا ہے کہ وہ حالت یتیمی میں ہی مکہ لائے گئے کہ کہیں نسب ضائع نہ ہو جائے۔ مراد اِس سے یہ تھی کہ کہیں لوگ اِس بچہ کو قریش کے علاوہ کسی دوسرے قبیلہ کا خیال کریں گے۔[8][11]


ابن ابی حاتم نے عمرو بن سواد سے امام شافعی کا قول نقل کیا ہے کہ : میری ولادت عسقلان میں ہوئی اور مجھے دو سال کی عمر میں میری والدہ مکہ مکرمہ لے آئیں۔ ابن عبد الحکم نے امام شافعی کا قول بیان کیا ہے کہ میری ولادت غزہ میں 150ھ میں ہوئی اور مجھے دو سال کی عمر میں مکہ مکرمہ لایا گیا ۔[55] دونوں روایات میں تطبیق یوں ہوتی ہے کہ قریہ غزہ عسقلان کے جوار میں ہی واقع ہے اور آپ 152ھ کے وسط میں مکہ مکرمہ لائے گئے۔


امام شافعی خود بیان کرتے ہیں کہ بچپن میں میری ساری توجہ دو باتوں کی طرف ہی تھی: تیر اندازی اور تحصیل علم۔ تیراندازی میں مجھے اِتنی مہارت ہو گئی تھی کہ دس میں دس نشانے صحیح بیٹھتے تھے۔ اِسی زمانہ میں مجھے گھوڑے کی سواری کا شوق بھی ہو گیا تھا۔ تیراندازی اور شہ سواری کے موضوعات پر کتاب السبق دالرمی لکھی جو اپنے موضوع میں عربی ادب کی پہلی کتاب تھی۔[56] تحصیل علم میں آپ مکملاً منہمک رہتے اور بحالت یتیمی و غریبی کے باوجود شب و روز پڑھنے میں مشغول رہا کرتے تھے۔


ابتدائی تعلیم

امام شافعی نے مکہ مکرمہ میں مکتب سے تعلیم کی ابتدا فرمائی۔ بعد ازاں مدینہ منورہ میں تحصیل علم کیا۔ مکہ مکرمہ میں ہی آپ نے تیر اندازی، شہ سواری کے ساتھ ساتھ مکتبی تعلیم کے بعد بنو ہذیل میں رہتے ہوئے زبان عربی اور اشعار عرب میں خوب مہارت حاصل کرلی۔ اِسی دوران میں آپ نے اپنے چچا محمد بن شافع اور مسلم بن خالد الزنجی (متوفی 181ھ) سے حدیث کا سماع کیا۔ امام شافعی اپنے زمانہ طالب علمی کے متعلق خود بیان کرتے ہیں کہ:


"میں یتیم تھا، والدہ میری کفالت کیا کرتی تھیں۔ میرے پاس معلم کی خدمت کے لیے رقم نہیں تھی، مگر ایسی صورت پیدا ہو گئی کہ معلم اُس کے بغیر پڑھانے پر راضی ہو گیا، وہ بچوں کو جو سبق دیتا تھا میں زبانی یاد کرلیتا تھا اور اُس کی عدم موجودگی میں بچوں کو پڑھا دیا کرتا تھا، میری اِس بات پر معلم بہت خوش ہوا اور مجھے مفت تعلیم دینے پر راضی ہو گیا۔ مکتب کی تعلیم کے بعد میں قبیلہ بنو ہذیل میں چلا گیا جو فصاحت و بلاغت میں عرب میں مشہور تھا اور سترہ سال تک اِس طرح اُن کے ساتھ رہا کہ سفر و حضر میں اُن کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ مکہ مکرمہ میں واپس آ کر اُن کے اشعار سنانے لگا۔ اِس زمانے میں عربی زبان کا ادب اور شعر و شاعری کا میرے ذوق پر بہت غلبہ تھا۔ اِسی دوران میں اپنے چچا (محمد بن شافع) اور مسلم بن خالد الزنجی وغیرہ سے حدیث کی روایت کرتا تھا۔ میں علما کی مجلس درس میں احادیث اور مسائل سن کر یاد کرلیتا تھا چونکہ میری والدہ کے پاس اتنی رقم نہیں رہتی تھی کہ کاغذ خرید سکوں اِس لیے اِدھر اُدھر سے ہڈیاں، ٹھیکرے اور کھجور کے پتے چن کر اُن ہی پر لکھ لیا کرتا تھا۔ سات سال کی عمر میں قرآن اِس طرح حفظ کر لیا تھا کہ اُس کے معانی و مطالب مجھ پر عیاں ہو گئے تھے البتہ دو مقام سمجھ میں نہ آ سکے اُن میں سے ایک " دساہاً " ہے۔ دس سال کی عمر میں موطاء امام مالک یاد کرلی تھی۔" [57]


احمد بن ابراہیم الطائی الاقطع نے مزنی سے امام شافعی کا قول نقل کیا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے سات سال کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا تھا اور جب موطاء امام مالک حفظ کی تب میں دس سال کا تھا۔[30][58][59][60] مکہ مکرمہ میں امام شافعی نے قرات قرآن مجید کی تعلیم مقری اسماعیل بن قسطنطین سے حاصل کی بعد ازاں عبد اللہ ابن کثیر سے قرآت قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔[61] امام شافعی خود فرماتے ہیں کہ : میں لوگوں میں نماز کے لیے قرآن کی قرات تیرہ سال کی عمر میں کرنے لگا تھا اور موطاء امام مالک بالغ ہونے سے قبل حفظ کرچکا تھا۔[62]


فتویٰ دینے کی اجازت

ربیع بن سلیمان مرادی کہتے ہیں کہ امام شافعی کو 15 سال کی عمر میں فتویٰ دینے کی باقاعدہ اجازت مل چکی تھی [63] جبکہ وہ ابھی مکہ مکرمہ میں ہی مقیم تھے۔ یہ اجازت اُنہیں مسلم بن خالد الزنجی نے دی تھی۔ یہ واقعہ غالباً 165ھ کا ہے۔


امام مالک کی مجلس درس میں

امام شافعی کے بیان سے واضح ہوچکا کہ اُنہوں نے ابتدائی تعلیم کی تحصیل مکہ مکرمہ میں کی تھی اور بعد ازاں حدیث و فقہ کی تعلیم بھی وہیں کے فقہا و محد ثین سے حاصل کی۔ اِس کے بعد وہ شعر و ادب سے وابستہ ہوئے اور ایام عرب میں انتہائے کمال حاصل کر لیا، اِنہی دنوں میں آپ بنو ہذیل کے اشعار سنایا کرتے تھے۔ مگر یہاں ایک دم سے زندگی نے رخ بدلا اور ایک بزرگ کی نصیحت سے مدینہ منورہ جاکر امام مالک کی شاگردی اختیار کرلی۔ خود فرماتے ہیں کہ:


" اُس زمانہ میں آل زبیر کے ایک صاحب میرے پاس سے گزرے اور کہنے لگے کہ یہ بات مجھے بہت گراں گزر رہی ہے کہ تم اِس فصاحت اور ذکاوت کے ہوتے ہوئے تفقہ سے محروم رہو اور تم کو دینی سیادت حاصل نہ ہو۔ میں نے کہا کہ تحصیل فقہ کے لیے کس کے پاس جاوں؟ اُنہوں نے کہا: ھذا مالک سید المسلمین الیوم (اُن کا اشارہ مدینہ منورہ کے امام مالک کی جانب تھا)۔ اِس کے بعد میں نے 9 راتوں میں موطاء امام مالک کو یاد کر لیا اور امیر مکہ سے ایک خط امام مالک کے نام اور ایک خط امیر مدینہ کے نام لیا اور مدینہ پہنچا۔ امیر مدینہ کو امیر مکہ کا خط دے کر کہا کہ آپ یہ خط کسی کے ذریعہ سے امام مالک تک پہنچا کر اُن کو بلائیں اور میرے بارے میں سفارش کریں۔ امیر مدینہ نے کہا کہ کیا اچھا ہو کہ ہم خود ہی آپ کے ساتھ اُن کی خدمت میں حاضر ہوں اور اُن کے دروازے پر اِتنی دیر بیٹھیں کہ وادی عقیق کا گردو غبار ہم پر پڑے، پھر اندر اجازت ملے۔ بہرحال عصر کے بعد امیر مدینہ اپنے حشم و خدام کو لے کر نکلا اور میں بھی ساتھ تھا۔ ہم سب وادی عقیق میں پہنچے جہاں امام مالک کا مکان تھا اور اجازت چاہی۔ اندر سے کنیز نے کہا کہ شیخ کہتے ہیں کہ اگر آپ کو مسائل معلوم کرنے ہیں تو ایک کاغذ پر لکھ کر بھیج دیں، میں جواب دے دوں گا۔ امیر مدینہ نے کہا کہ ایک ضرورت کے سلسلہ میں امیر مکہ نے خط لکھا ہے، کنیز یہ سن کر اندر چلی گئی، تھوڑی دیر کے بعد خود امام مالک باہر آئے اور امیر مدینہ نے امیر مکہ کا خط دیا۔ امام مالک نے خط پڑھنا شروع کیا اور جب سفارشی عبارت پر آئے تو کہا: "سبحان اللہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم وسیلوں اور سفارشوں سے حاصل کیا جانے لگا ہے۔" میں نے دیکھا کہ امیر مدینہ امام مالک سے بات کرتے ہوئے گھبرا رہا ہے تو خود آگے بڑھ کر کہا کہ میں مطلبی آدمی ہوں (یعنی آل مطلب سے ) اور میرا واقعہ یہ ہے (یعنی اشارہ اُس سفارش کی جانب تھا)۔ امام مالک نے میری باتیں سن کر تھوڑی دیر میری طرف دیکھا اور نام پوچھا، میں نے بتایا کہ میرا نام محمد ہے، امام مالک نے نے کہا کہ: " محمد! اللہ سے خوف کرو اور گناہوں سے بچو، کیونکہ آئندہ تم بہت باحیثیت بنو گے۔" پھر کہا: ٹھیک ہے تم کل آنا اور اپنے ساتھ ایسے آدمی کو لانا جو تمہارے لیے موطاء امام مالک پڑہے، میں نے کہا کہ میں خود اُس کی قرات کروں گا۔ چنانچہ میں امام مالک کے حلقہ درس میں شامل ہوکر موطاء امام مالک زبانی پڑھتا تھا اور کتاب میرے ہاتھ میں ہوتی تھی۔ بعض اوقات امام مالک کی ہیبت سے پڑھنا بند کردیتا تو پڑھنے کی فرمائش کرتے۔ اِس طرح میں نے چند دنوں میں موطاء امام مالک پڑھ لی اور امام مالک کی وفات تک مدینہ منورہ میں مقیم رہا۔


اِس سلسلہ میں کہ امام شافعی کیسے امام مالک کی شاگردی میں پہنچے، ایک دوسری روایت مصعب بن ثابت الزبیری کی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ: شافعی مدینہ منورہ آنے کے بعد مسجد میں بیٹھ کر اشعار سناتے تھے، ایک دن میرے والد نے اُن سے کہا کہ تم اپنی قریشیت کے لیے صرف اِتنے پر راضی ہوکہ شاعر بن جاو؟ امام شافعی نے کہا کہ پھر کیا کروں؟۔ والد نے بتایا کہ تم فقہ کی تعلیم حاصل کرو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ " اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ اچھا معاملہ کرنا چاہتا ہے اُس کو تفقہ فی الدین عطاء فرماتا ہے۔" اِس کے بعد شافعی امام مالک کی خدمت میں پہنچے اور اُن سے تعلیم حاصل کی۔ کچھ دنوں بعد امام شافعی نے میرے والد ثابت بن عبد اللہ بن الزبیر سے بیان کیا کہ امام مالک کہتے ہیں کہ: " ہمارا مسلک وہ ہے جس پر ہمارے شہر والے ہیں اور جس پر راشدین مہدیین ائمہ المسلمین ہیں۔" اُن کے اِس قول کا کیا مطلب ہے؟ میرے والد نے اُن کو بتایا کہ دین کے بارے میں معیار اور حجت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، پھر ابوبکر، عمر اور عثمان رضوان اللہ علیہم ہیں جن کا اِنتقال مدینہ منورہ میں ہوا ہے۔ اِس کے بعد امام شافعی نہایت انشراح کے ساتھ امام مالک کے درس میں شریک ہونے لگے۔[64]


امام مالک سے شرف تلمیذ کے واسطے یہ دونوں روایات محض تھوڑے سے اختلاف سے ہیں، اگر دونوں میں تطبیق کی جائے تو معلوم ہوگا کہ امام شافعی آل الزبیر کے ایک بزرگ کا تذکرہ کر رہے ہیں اور مصعب بن ثابت والی روایت بھی آل الزبیر سے ہی ہے لیکن واقعہ یوں ہو سکتا ہے کہ امام شافعی امیر مکہ کا سفارشی خط تو لے آئے ہوں مگر امام مالک تک پہنچے میں دیر لگی ہو اور اُنہی دنوں میں وہ مسجد نبوی میں بیٹھ کر عربی اشعار سنایا کرتے ہوں۔ بہرحال جو بھی ہو یہ بات مصدقہ ہے کہ امام شافعی بہت جلد ہی امام مالک کی مجلس درس میں شریک ہو گئے تھے۔


امام مالک کا سال ولادت 93ھ ہے اور اگر خیال کیا جائے کہ امام شافعی اُن کے پاس مدینہ منورہ میں غالباً 170ھ یا 175ھ میں آئے ہوں تو یہ زمانہ امام مالک کی ضعیفی کا زمانہ ہے، وہ غالباً 77 سال یا 82 سال کے ہوں گے، اِسی لیے اُنہوں نے امام شافعی سے کہا کہ اپنے لیے کسی شخص کو لے آنا جو موطاء امام مالک کی قرات کرے، یعنی زمانہ ضعیفی میں اُن کا قرات کرنا چھوٹ چکا ہوگا، اِسی لیے تو یہ فرمایا۔ اور یہ وقت امام شافعی کا عین عالم شباب کا زمانہ ہے، اگر آپ 170ھ میں مدینہ منورہ آئے ہوں تو عمر 20 سال اور اگر 175ھ میں آئے ہوں تو عمر 29 سال تھی۔ یہ مسلمہ ہے کہ جب 179ھ میں امام مالک کی وفات ہوئی تب امام شافعی کی عمر 29 سال تھی۔


مورخین کے کسی قول سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ امام شافعی کس سال مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ آئے البتہ خود امام شافعی کے اِس قول سے معلوم ہو رہا ہے کہ وہ امام مالک کی وفات تک مدینہ منورہ میں مقیم رہے۔ امام مالک کی وفات ماہ ربیع الاول 179ھ مطابق جون 795ء میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ تو اِس سے مراد یہ ہے کہ 179ھ تک امام شافعی مدینہ منورہ میں مقیم تھے۔


سفر یمن اور امارت یمن

امام مالک کی وفات کے بعد امام شافعی مکہ مکرمہ واپس چلے آئے۔ یہ غالباً 180ھ کا واقعہ ہے۔مکہ مکرمہ واپسی پر امام شافعی کی عمر کے تین عشرے گزر چکے تھے اور اُن کا عہد شباب گزر چکا تھا۔ امام مالک کی مجالس درس میں رہ کر امام شافعی نے دینی علوم میں مہارت تامہ حاصل کرلی تھی۔ امام مالک کی وفات کے بعد آپ دوبارہ مکہ مکرمہ لوٹ آئے تو اِن کی دینی و علمی شہرت عام ہو گئی۔ اِسی زمانہ میں (غالباً 180ھ یا 181ھ میں) یمن کا امیر مکہ مکرمہ آیا۔ امام شافعی بیان کرتے ہیں کہ:


"قریش کے سربرآوردہ افراد نے امیر یمن سے بات کی تاکہ وہ مجھے اپنے ساتھ یمن لے جائے مگر میری والدہ کے پاس اِتنی رقم نہ تھی کہ وہاں کے سفر کی تیاری کر سکتا اور لباس وغیرہ بنوالیتا، میں نے مجبوراً والدی کی ایک چادر 16 دینار میں رہن گروی رکھ کر سامانِ سفر مہیا کیا۔یمن پہنچ کر مجھے ایک مقام پر مقرر کر دیا گیا اور میں نے نہایت ذمہ داری کے ساتھ اور سلیقہ کے ساتھ سے مفوضہ خدمت انجام دی۔ اُس نے خوش ہوکر اور مطمئن ہوکر مجھے ترقی دی اور چند دنوں کے بعد مزید ترقی دی اور میں نے حسن کارکردگی میں اچھی خاصی شہرت حاصل کرلی۔ اُسی زمانہ میںیمن سے عمرہ کرنے والوں کا وفد ماہ رجب میں مکہ آیا اور اُن لوگوں نے یہاں میرا تذکرہ نہایت اچہے انداز سے کیا جس کی وجہ سے میری تعریف مکہ مکرمہ میں بھی ہونے لگی۔ جب میں یمن سے مکہ آیا اور ابن ابی یحیی (یعنی ابراہیم بن محمد بن ابی یحیی السمعانی متوفی 184ھ) کی خدمت میں پہنچا اور سلام کرکے بیٹھ گیا۔ اُنہوں نے سخت لہجہ میں مجہے ڈانٹا اور کہا تم لوگ ہماری مجلس درس میں بیٹھتے ہو اور جب کسی کو کوئی کام مل جاتا ہے تو اُس میں لگ جاتا ہے (اشارہ امارت یمن کی طرف تھا)۔ اِس طرح کی مزید سخت باتیں کیں او میں وہاں سے چلا آیا۔ اِس کے بعد میں امام سفیان ابن عینیہ کے پاس گیا، میں نے اُن کو سلام کیا، اُنہوں نے خندہ پیشانی سے مرحبا کہا محبت سے پیش آئے اور کہا کہ ہم کو تمہارے امیر ہونے کی اطلاع مل گئی تھی، مگر تم نے وہاں رہ کر علم دین کی اشاعت نہیں کی اور اللہ کی طرف سے تم پر جو ذمہ داری ہے اُس کو پورے طور پر پورا نہیں کیا، اب وہاں نہ جانا۔ امام سفیان ابن عینیہ کی نصیحت میرے لیے ابن ابی یحییٰ کی باتوں سے زیادہ کارگر ثابت ہوئی۔[65]


اگر اِس واقعہ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعی 180ھ میں یمن گئے اور غالباً 182ھ یا 183ھ میں واپس مکہ آئے ہوں گے جو امام ابن ابی یحیی کی خدمت میں پہنچے اور ایسا ممکن بھی ہے کیونکہ 179ھ تک آپ مدینہ منورہ سے باہر نہیں نکلے اور 180ھ میں مکہ مکرمہ آئے اور امارت یمن پر 187ھ تک فائز رہے۔ مکہ مکرمہ میں آپ کی ملاقات امام ابن ابی یحییٰ سے 182ھ یا 183ھ میں ہوئی ہوگی کیونکہ اُن کی وفات 184ھ میں مکہ مکرمہ میں ہوئی۔


یمن میں آپ سرکاری عہد پر فائز تو رہے مگر زیادہ عرصہ مقامی رقابتوں اور سازشوں کی وجہ سے یہ منصب آپ نے چھوڑ دیا۔ 187ھ مطابق 803ء میں مخالفین نے آپ پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ آپ در پردہ زیدی مدعی خلافت یحییٰ بن عبد اللہ کے حامی و حمایتی ہیں۔ اس الزام کی پاداش میں آپ کو گرفتار کرکے مقام الرقہ لایا گیا جہاں عباسی خلیفہ ہارون الرشید موجود تھا۔ خلیفہ کے سامنے آپ کو پیش کیا گیا تو ہارون الرشید نے آپ کے دلائل و براہین سنتے ہوئے آپ کو بے قصور قرار دیا اور رہا کر دیا۔ ہارون الرشید آپ کے حسن بیان اور وسعتِ علم سے بہت متاثر ہوا۔ وہیں آپ کی ملاقات امام محمد بن حسن شیبانی متوفی 189ھ سے ہوئی اور یہ ملاقات گہراے مراسم میں تبدیل ہو گئی۔ آپ نے کئی کتب امام محمد بن حسن شیبانی کی اپنے لیے نقل کر لیں۔[66] کم و بیش آپ امارت یمن کے عہدہ پر سات سال فائز رہے یعنی 180ھ سے 187ھ تک۔


امام محمد بن حسن شیبانی کی مجلس درس میں

مورخین کے مطابق آپ کی امام محمد بن حسن شیبانی سے ملاقات الرقہ سے واپسی پر 187ھ مطابق 803ء میں بغداد شہر میں ہوئی تھی مگر بعض کا خیال ہے کہ امام شافعی کو امام سفیان ابن عینیہ نے نصیحت کی تھی کہ بغداد جاکر امام محمد بن حسن شیبانی سے تعلیم فقہ کی تکمیل کرو۔ پہلا بیان قوی ہے کیونکہ 187ھ مطابق 803ء میں آپ الرقہ سے واپسی پر عراق داخل ہوئے اور یہاں کم و بیش ایک سال تک مقیم رہے۔ امام محمد بن حسن شیبانی امام اعظم ابوحنیفہ کے تلمیذ خاص تھے اور عراق میں اُن کے علم و تفقہ کے نمائندہ خاص اور مبلغ و ناشر تھے۔ قاضی ابو یوسف صاحب امام ابوحنیفہ امام شافعی کے بغداد میں آمد سے قبل ہی اِنتقال کرچکے تھے۔[67][68]


خود امام شافعی کا قول ہے کہ: " میں امام مالک اور پھر امام محمد بن حسن شیبانی کے استاد ہونے کو تسلیم کرتا ہوں۔" [69]

مزید کہتے ہیں کہ: " اگر لوگ فقہا کے بارے میں انصاف سے کام لیں تو اُن کو معلوم ہوگا کہ اُنہوں نے امام محمد بن حسن شیبانی جیسا فقیہ نہیں دیکھا ہے۔"[69]

امام شافعی نے اپنی شاگردی کا ثبوت اِن الفاظ میں دیا ہے کہ: " میں نے امام محمد بن حسن شیبانی سے ایک اونٹ کے بار کے برابر حدیث سنی ہے۔"[70]

ابو عبید راوی کا بیان ہے کہ میں نے امام محمد بن حسن شیبانی کی مجلس درس میں امام شافعی کو دیکھا ہے کہ اُنہوں نے امام محمد بن حسن شیبانی سے ایک مسئلہ دریافت کیا اور امام محمد بن حسن شیبانی کا جواب امام شافعی کو بہت پسند آیا اور فوراً اُنہوں نے لکھ لیا، امام محمد بن حسن شیبانی نے اُن اِس علمی حرص کو دیکھ کر ایک سو درہم دیے اور کہا: " اگر علم کی خواہش ہے تو یہاں رہ جاو۔" اِس واقعہ کے بعد میں نے امام شافعی کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ اگر امام محمد بن حسن شیبانی نہ ہوتے تو میری زبان علم میں میں نہ کھلتی۔ [69][71]

امام شافعی خود فرماتے ہیں کہ: میں نے امام محمد بن حسن شیبانی کی کتابوں پر 60 دینار خرچ کر کے اُن کو حاصل کیا اور اُن کے ہر مسئلہ کے پہلو میں دلیل کے لیے حدیث لکھی۔[72][73][74]

ابو حسان الزیادی کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن حسن شیبانی کو اہل علم کی اتنی زیادہ تعظیم کرتے ہوئے نہیں دیکھا جتنی تعظیم وہ امام شافعی کی کیا کرتے تھے۔ ایک دن امام محمد بن حسن شیبانی کہیں جانے کے لیے سواری پر بیٹھ گئے تھے، اِسی حال میں امام شافعی آ گئے۔ امام محمد بن حسن شیبانی فوراً سفر ملتوی کرکے گھر آ گئے اور رات گئے تک امام شافعی کے ساتھ رہے اور اِس درمیان میں کسی تیسرے شخص کو اندر آنے کی اجازت نہیں دی۔[75]

امام شافعی کا آخری تعلیمی سفر بغداد میں امام محمد بن حسن شیبانی کی درسگاہ پر منتہا ہوا۔بغداد سے آپ نے اپنے فقہی آراء اور اقوال مرتب کیے جن کو اقوال قدیمہ کہا جاتا ہے۔ قاضی عیاض مالکی لکھتے ہیں کہ:


" امام شافعی نے امام مالک سے موطاء امام مالک کا سماع کیا جس سے امام مالک خوش ہوئے۔ پھر امام شافعی عراق جا کر امام محمد بن حسن شیبانی کے یہاں رہ گئے۔ اہل مدینہ کے مذہب کے بارے میں اُن سے بحث و مذاکرہ کیا اور امام محمد بن حسن شیبانی کی کتابیں لکھ لیں (یعنی نقل کیں) اور وہیں اپنا قول قدیم مرتب کیا جو زعفرانی کی کتاب میں ہے۔"[76]


عراق میں قیام

187ھ مطابق 803ء میں الرقہ سے واپسی پر آپ عراق ٹھہرے۔ یہاں آپ کو علمی و فقہی ماحول میسر آیا۔ اِس ماحول سے فائدہ اُٹھاٹے ہوئے آپ نے اپنے لیے تحصیل علوم شرعیہ کی راہ پسند فرمائی اور فقہی مسائل میں درک حاصل کرنے کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔ عراقی فقہا سے تبادلہ خیالات اور بعض اوقات مناظروں نے امام شافعی کے فکر و عمل پر گہرے نقوش ثبت کیے۔ 188ھ مطابق 804ء میں آپ عراق کو اپنے لیے ناموزوں قرار دیتے ہوئے حران اور شام سے ہوتے ہوئے دوبارہ مکہ مکرمہ آ گئے۔ یہاں ابتدا میں اِنہیں امام مالک کا شاگرد ہونے کی حیثیت سے بہت پرتپاک استقبال و خیرمقدم کیا گیا۔ حرم مکہ مکرمہ میں آپ نے مجلس درس شروع کی اور فقہی جزئیات میں جب امام اعظم ابوحنیفہ اور امام مالک کے اختلافات کا ذکر کرتے تو طلبہ بہت متاثر ہوتے۔ البتہ اِن اختلافات کے باعث بہت سے حضرات مالکیہ آپ سے مایوس بلکہ بدظن ہو گئے۔[77]


مشائخ

امام شافعی نے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور بغداد میں تحصیل علم کی تکمیل کی اور اُس زمانہ کے مشاہیر و ائمہ علم دین سے اکتساب فیض کیا۔ اِن مشہور اُساتذہ میں سے چند یہ ہیں:


مقری اسمٰعیل بن قسطنطین المکی (متوفی 190ھ) — یہ مقری و قاری اسمٰعیل بن عبد اللہ بن قسطنطین المکی ہیں۔ مکہ مکرمہ میں یہ امام شافعی کے پہلے استاد ہیں جن سے امام شافعی نے سات سال کی عمر میں حفظ قرآن کریم اور تجوید کی تعلیم حاصل کی۔ بنی مخزوم کے غلام تھے اور "قسط" کے لقب سے مشہور تھے۔ 100ھ میں مکہ مکرمہ میں ہی پیدا ہوئے اور 90 سال کی عمر میں 190ھ میں اِن کا اِنتقال مکہ مکرمہ میں ہوا۔ تابعی ابن کثیر کے آخری شاگرد تھے۔[78]

محمد بن علی بن شافع— امام شافعی نے اِن سے مکہ مکرمہ مین تعلیم حاصل کی۔ یہ امام شافعی کے چچا ہیں، نسب یوں ہے: محمد بن علی بن شافع بن سائب بن عبید المطلبی قریشی الہاشمی۔ اِنہوں نے عبد اللہ بن علی بن سائب بن عبید اور امام شہاب الدین الزہری متوفی 124ھ سے حدیث روایت کی تھی۔ ثقہ اور محدث تھے۔[79]

مسلم بن خالد الزنجی (متوفی 181ھ) — یہ امام شافعی کے مکی استاد ہیں۔ نام ابو خالد مسلم بن خالد بن فروہ الزنجی المخزومی ہے۔ فقیہ مکہ اور شیخ الحرم تھے۔ عابد و زاہد اور صائم الدہر بزرگ تھے۔ فقہ میں فقیہ مکہ عبد الملک بن عبد العزیز ابن جُریج کے شاگرد تھے۔ امام شافعی نے اِنہی سے تفقہ کی تعلیم حاصل کی اور اِنہی کی اجازت سے مسند افتاء پر بیٹھے۔ علامہ ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں لکھا ہے کہ: " امام مالک کی ملاقات سے قبل ہی امام شافعی نے اِنہی سے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔[80] شمس الدین داودی نے لکھا ہے کہ : امام شافعی نے مسلم الزنجی سے فقہ کی تعلیم پائی ہے۔[81] الحافظ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں لکھا ہے کہ: مسلم الزنجی نے ہی امام شافعی کو فتویٰ دینے کی اجازت دی تھی۔[82] سمعانی نے لکھا ہے کہ: مسلم الزنجی سے امام شافعی نے علم الحدیث و علم فقہ سیکھا اور امام مالک کی ملاقات سے قبل شافعی اِن ہی کے حلقہ میں بیٹھتے تھے۔[83]

امام مالک بن انس (متوفی 179ھ)— امام دارالہجرۃ کے لقب سے مشہور ہیں۔ نام مالک بن انس اصبحی ہے۔ 93ھ میں مدینہمنورہ میں پیدا ہوئے اور ربیع الاول 179ھ مطابق جون 795ء میں فوت ہوئے۔ امام شافعی کے مدنی استاد ہیں۔ اِن کی ذات سے امام شافعی کو بے حد فیض پہنچا۔ امام شافعی خود لکھتے ہیں کہ جب امام مالک کو کسی حدیث میں شک ہوجاتا تو اُس حدیث کو ہی چھوڑ دیا کرتے تھے۔ ان کی حدیث میں مشہور تصنیف موطاء امام مالک ہے جسے امام شافعی نے مکہ مکرمہ میں ہی حفظ کر لیا تھا اور مدینہمنورہ میں موطاء امام مالک کو امام مالک کے سامنے پڑھا۔

امام ابراہیم بن ابو یحیی الاسلمی المدنی (متوفی 184ھ)— یہ امام ابو اسحٰق ابراہیم بن محمد بن ابویحیی السمعانی الاسلمی المدنی ہیں۔ امام شافعی کے مدنی شیوخ میں سے ایک ہیں۔ 184ھ میں مدینہمنورہ میں وفات پائی۔ اِنہوں نے امام مالک کی موطاء امام مالک جیسی کئی گنا طویل کتاب الموطاء تصنیف کی تھی۔ محدثین کے نزدیک مجروح و مہتمم ہیں۔ ابن حبان اِن کے متعلق کہتے ہیں کہ: امام شافعی اِن کی مجلس درس میں نو عمری میں بیٹھا کرتے تھے۔ محدث الساجی کہتے ہیں کہ : امام شافعی نے اِن سے فرائض سے متعلق کوئی حدیث نہیں لی بلکہ فضائل میں اِن سے روایت کیا ہے۔

سفیان بن عینیہ (متوفی 198ھ)— 107ھ میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور 198ھ میں فوت ہوئے۔ امام شافعی کے مکی استاد ہیں۔ بہت بڑے مرتبہ و مقام کے مالک تھے۔ اِن کے متعلق خود امام شافعی فرماتے ہیں کہ : اگر امام مالک بن انس اور سفیان بن عینیہ نہ ہوتے تو حجاز سے علم کا خاتمہ ہی ہو گیا ہوتا ۔[84][85][86][87][88][89][90] مزید فرماتے ہیں کہ: وہ (یعنی امام سفیان بن عینیہ) حجاز کی احادیث کے سب سے بڑے عالم تھے، میں نے اُن سے بہتر حدیث کی تشریح کرنے والا نہیں دیکھا۔ میں نے امام مالک کے یہاں احکام کی تمام احادیث 30 احادیث کے علاوہ پائیں اور اُن 30 احادیث میں سے 6 کے علاوہ سب کو امام سفیان بن عینیہ کے یہاں پایا۔ [91]

امام محمد بن حسن شیبانی صاحب ابو حنیفہ (متوفی 189ھ)— یہ امام شافعی کے بغدادی استاد ہیں۔ 189ھ میں بغداد میں فوت ہوئے۔ امام اعظم ابوحنیفہ کے تلامذہ میں سے ہیں اور صاحب ابو حنیفہ کے لقب سے مشہور ہیں۔ اِنہوں نے خود مدینہ منورہ میں امام مالک بن انس کی شاگردی اِختیار کی تھی گویا یہ امام شافعی کے استاد بھی ہیں اور استاد بھائی بھی۔ علم الحدیث اور علم فقہ میں جامع سمجھے جاتے تھے۔

اِن اساتذہ کے علاوہ مشہور اساتذہ یہ ہیں:


ابراہیم بن سعد، سعید بن سالم القراح، عبد الوہاب بن عبد المجید الثقفی، اسماعیل بن عُلَیہ، ابو ضمرہ، حاتم بن اسماعیل، ابراہیم بن محمد بن ابو یحییٰ، محمد بن خالد الجندی، اسماعیل بن جعفر، عمر بن محمد بن علی بن شافع، عطاف بن خالد المخزومی، ہشام بن یوسف الصنعانی، عبد العزیز بن ابوسلمہ، ماجشونی، یحییٰ بن حسان، مروان بن معاویہ، محمد بن اسماعیل، ابن ابی فدیک، ابن ابی سلمہ، امام قعنبی، فضیل بن عیاض، امام داود بن عبد الرحمٰن، عبد العزیز بن محمد دَواوری، عبد الرحمٰن بن ابوبکر ملیکی، عبد اللہ بن مومل المخزومی، ابراہیم بن عبد العزیز بن ابو محذورہ، عبد المجید بن عبد العزیز بن ابورداد، محمد بن عثمان بن صفوان الجُمحی، اسماعیل بن جعفر، مطرف بن مازن، ہشام بن یوسف، یحییٰ بن ابوحسان تینسی۔[92]


عالم شباب میں جامعیت

امام شافعی نے نو عمری میں ہی فقہ فتویٰ، حدیث و تفسیر، تعبیر الرویاء، ایام عرب، اشعارِ عرب، نحو و عربیت، تیراندازی اور شہ سواری میں شہرت کی حد تک کمال حاصل کر لیا تھا۔ حتیٰ کہ آپ کے شیوخ و اصحاب معاصرین بھی آپ کے معترف ہو گئے تھے۔ 20 سال سے کم ہی عمر میں آپ کے استاد مسلم بن خالد الزنجی نے آپ کو فتویٰ دینے کی اجازت دے دی تھی۔ بشر مریسی جب حج سے واپس ہوکر بغداد پہنچے تو اپنے دوستوں کو بتانے لگے کہ: میں نے مکہ میں ایک قریشی جوان کو دیکھا ہے، مجھے اُس کی لیاقت و صلاحیت سے ڈر لگتا ہے (اُس قریشی جوان سے مراد امام شافعی تھے)۔ عبد الرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں کہ میں نے جب امام شافعی کو اُن کے عہد شباب میں ایک مکتوب لکھا کہ آپ میرے لیے ایک کتاب لکھیں جس میں حدیث کے جملہ فنون، اجماع اور کتاب و سنت میں ناسخ و منسوخ کا بیان ہو تو امام شافعی نے اپنی مشہور کتاب " الرسالۃ " تصنیف کی۔[93][94][95][96][63]


بغداد آمد

امام حسن بن محمد زعفرانی کا قول ہے کہ: امام شافعی 195ھ میں بغداد آئے اُس وقت اُن کے بالوں میں خضاب لگا ہوا تھا۔ اِس بار 2 سال تک آپ ہمارے یہاں مقیم رہے، پھر مکہ چلے گئے اور دوبارہ 198ھ مطابق 814ء میں آئے اور ہمارے پاس چند مہینے ٹھہر کر واپس ہو گئے اور پھر آپ مصر چلے گئے [68]۔ امام شافعی کے قیام بغداد میں اُن کی مجلس میں ادبا اور کتاب حاضر ہوکر اُن سے فصاحت و بلاغت اور حسن بیان سنتے تھے، میں تو کیا کسی نے اُن کے دور میں اُن جیسا عالم نہیں دیکھا۔


ابو الفضل الزجاج کا بیان ہے جس وقت امام شافعی بغداد میں تشریف لائے، وہاں کی جامع مسجد میں چالیس، پچاس علمی اور درسی حلقے جاری تھے اور امام شافعی ایک ایک حلقہ میں بیٹھ کر حاضرین سے کہتے تھے: قال اللہ اور قال الرسول اور وہ لوگ قال اصحابنا کہتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ دنوں کے بعد مسجد میں اُن کے حلقہ کے علاوہ کوئی حلقہ باقی نہیں رہ گیا تھا۔ خود امام شافعی کا قول ہے کہ میں بغداد میں ناصر الحدیث کے لقب سے مشہور ہو گیا تھا۔[42][97][98][99][24][18][17][16]


مورخین کا بیان ہے کہ امام شافعی پہلی بار بغداد میں 195ھ مطابق 811ء میں آئے مگر یہ بیان درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ آپ پہلی بار عراق میں داخلہ کے سال یعنی 187ھ مطابق 803ء میں آئے جب ہارون الرشید خلیفہ تھا۔ دوسری آمد بغداد میں 195ھ مطابق 811ء میں ہوئی اِسی کے متعلق زعفرانی کا قول ہے اور بغداد میں آپ کی تیسری آمد 198ھ مطابق 814ء میں ہوئی جس کے متعلق بھی زعفرانی کا قول اوپر گزر چکا۔ ان شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعی بغداد میں تین بار آئے۔


قیام بغداد میں آپ کے مشہور تلامذہ میں سے ایک احمد بن حنبل (متوفی 241ھ) ہیں۔ ایک مرتبہ یحییٰ ابن معین نے احمد بن حنبل کے صاحبزادے صال بن احمد سے کہا کہ آپ کے والد کو شرم نہیں آتی ہے؟ میں نے اُن کو شافعی کے ساتھ اِس حال میں دیکھا ہے کہ شافعی سواری پر چل رہے ہیں اور آپ کے والد رکاب تھامے ہوئے پیدل چل رہے ہیں۔ صالح بن احمد نے یہ بات اپنے والد احمد بن حنبل سے بیان کی تو اُنہوں نے کہا کہ اُن سے کہہ دو کہ اگر آپ فقیہ بننا چاہتے ہیں تو شافعی کی سواری کی دوسری رکاب کو آپ تھام لیں۔[100]


امام زعفرانی کہتے ہیں کہ امام شافعی بغداد آئے تو ہم چھ طلبہ اُن کے درس میں آنے جانے لگے۔ احمد بن حنبل، ابو ثور، الحارث النقال، ابو عبد الرحمٰن الشافعی اور میں اور ایک اور طالب علم۔ ہم جو کتاب امام شافعی کے سامنے یہاں پڑھتے تھے، احمد بن حنبل حاضر رہتے تھے۔[17][24][17][101]


دوسری روایت جو خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں نقل کی ہے اُس میں ہے کہ: صالح بن احمد بیان کرتے ہیں کہ میرے والد احمد بن حنبل کو امام شافعی کی سواری کے ساتھ جاتے ہوئے یحییٰ ابن معین نے دیکھا تو اُن کے پاس کہلا بھیجا کہ ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل کی کنیت ہے) آپ شافعی کی سواری کے ساتھ چلنے کو پسند کرتے ہیں؟ والد نے اُس کے جواب میں کہا کہ ابو زکریا! (یحییٰ ابن معین کی کنیت ہے) اگر آپ اُس کے بائیں جانب چلتے تو زیادہ فائدہ میں رہتے۔[102]


امام احمد بن حنبل امام شافعی کے متعلق فرماتے ہیں کہ: " اُس قریشی نوجوان سے زیادہ کتاب اللہ کا فقیہ میری نظر سے آج تک نہیں گزرا۔" مزید کہتے ہیں کہ: " فقہ کا قفل بے کلید لوگوں پر جس شخص نے کھولا، وہ شافعی ہی تو تھے۔" [103]


سفر مصر

امام شافعی بغداد میں پہلی بار 195ھ مطابق 811ء میں گئے۔ اور بغداد میں آپ کا قیام 2 سال رہا اور واپس مکہ مکرمہ چلے آئے۔ بغداد میں آپ کی دوسری آمد 198ھ مطابق 814ء میں ہوئی اور آپ اِس بار چند ماہ قیام کرکے199ھ یا 201ھ میں مصر چلے گئے۔ ابن ندیم نے محمد بن شجاع کا قول نقل کیا ہے کہ امام شافعی مصر میں 200ھ میں آئے اور یہیں مقیم ہوئے۔[41] سفر مصر کے دوران میں آپ کا غزہ شہر جانا بھی ثابت ہے [98]۔ قرآئن و شواہد سے آپ کی مصر آمد دو بار معلوم ہوتی ہے، پہلی بار تب جب آپ بغداد سے مصر کے سفر کو تشریف لے گئے اور بروز منگل 28 شوال 198ھ مطابق 20 جون 814ء کو مصر کے شہر فسطاط پہنچے مگر وہاں فسادات کی وجہ سے آپ دوبارہ مکہ مکرمہ چلے آئے۔[104] دوسری بار آپ 200ھ میں مصر پہنچے اور پھر اواخر عمر تک وہیں مقیم رہے[104]۔ مصر کو روانہ ہوتے ہوئے آپ نے یہ اشعار پڑہے:


لقد أصبحتْ نفسي تتوق إلى مصرِ ومن دونها قطعُ المهامةِ والفقرِ فواللـہ ما أدري، الفوزُ والغنى أُساق إليها أم أُساق إلى القبرِ


میرا نفس مصر جانے کے شوق میں ہے


حالانکہ اِس سفر میں بڑی مشکلات ہیں۔


واللہ! مجھے معلوم نہیں کہ اطمینان و اِستغناء کے لیے وہاں جا رہا ہوں


یا قبر میں جانے کے لیے۔


چنانچہ امام شافعی کے اِن اشعار سے آپ کی پیشگوئی ثابت ہو گئی کہ آپ وہاں مستغنی بھی ہوئے اور وہیں فوت بھی ہوئے۔ قاضی عیاض مالکی نے سعید بن عبد اللہ بن عبد الحکم المصری کے بیان کو نقل کیا ہے جس وقت امام شافعی ہمارے یہاں مصر میں آئے تو سخت قلت و افلاس میں تھے۔ میرے بھائی محمد نے بعض مالداروں سے پانچ سو دینار وصول کیے اور والد صاحب نے پانچ سو دینار دیے، اِس طرح ایک ہزار دینار امام شافعی کی خدمت میں پیش کیے۔ دوسری روایت میں ہے عبد اللہ بن عبد الحکم المصری نے خود ایک ہزار دینار دیے اور اپنے دوستوں سے دو ہزار دینار وصول کرکے کل تین ہزار دنانیر امام شافعی کی خدمت میں پیش کیے۔ امام شافعی کو مصر میں عبد اللہ بن عبد الحکم سے خصوصی تعلق تھا اور یہ تعلق تا وفات قائم رہا۔ حتیٰ کہ اُن ہی کے گھر وفات پائی۔ روزانہ عبد اللہ بن عبد الحکم کے گھر چلے جایا کرتے اور اگر وہ گھر موجود نہ ہوتے تو دریافت کرکے اُن کے پاس جاتے تھے۔مصر میں امام شافعی کو عبد اللہ بن عبد الحکم سے خاص تعلق رہا جو مصر کے مشہور عالم اور امام مالک کے مسلک کے امام تھے۔ اُن کے بیٹے کا بیان ہے کہ امام شافعی روزانہ ہمارے یہاں سے امام مالک کی کتابوں کے دو اجزاء لے جاتے اور دوسرے دن اُن کو واپس کر دیا کرتے تھے اور مزید دوسرے دو اجزاء لے جایا کرتے۔ یہ سلسلہ مدت مدید جاری رہا۔[72] عبد اللہ ابن عبد الحکم کے مکان پر بھی امام شافعی جایا کرتے تھے، اُن کے بھائی سعد بن عبد اللہ کا بیان ہے کہ بسا اوقات امام شافعی سواری پر ہمارے یہاں آتے اور مجھ سے کہتے کہ محمد کو بلاؤ، میں اُن کو لے آتا اور اُن کے ساتھ جاتے اور دیر تک رہتے اور وہیں قیلولہ بھی کرتے تھے۔[105]


امام شافعی جب مصر آئے تو اُن کی عمر قریباً 50 سال کے قریب قریب تھی۔ ابن ندیم کے قول کے مطابق تسلیم کیا جائے تو امام شافعی صرف چار سال یعنی 200ھ سے 204ھ تک مصر میں مقیم رہے۔


خلافت عباسیہ اور خلفا

امام شافعی نے اپنی حیات مبارکہ میں کل 6 عباسی خلفاء کا زمانہ دیکھا جو یہ ہیں:


ابو جعفر المنصور :— 10 جون 754ء تا 6 اکتوبر 775ء۔

محمد المہدی :— 6 اکتوبر 775ء تا 24 جولائی 785ء۔

موسیٰ الہادی:— 24 جولائی 785ء تا 14 ستمبر 786ء۔

ہارون الرشید:— 14 ستمبر 786ء تا 24 مارچ 809ء۔

امین الرشید:— 24 مارچ 809ء تا 27 ستمبر 813ء۔

مامون الرشید:— 27 ستمبر 813ء تا 7 اگست 833ء۔

خلیفہ مامون الرشید کی خلافت کے چھٹے سال میں امام شافعی فوت ہوئے۔


وفات و تدفین


قاہرہ کے المقطم میں امام شافعی کا مزار


قبۃ الامام الشافعی، قاہرہ، مصر– (غالباً 1359ھ/ 1940ء)

امام شافعی کو اواخر ایام میں مرض بواسیر ہوا[106] اور اسی مرض کی شدت سے آپ نے بعمر 54 سال بروز جمعرات 29 رجب 204ھ مطابق 19 جنوری 820ء کو مصر کے شہر فسطاط میں بوقت عشاء ہوئی۔ آپ کی تدفین بروز جمعہ 30 رجب 204ھ مطابق 20 جنوری 820ء کو مغرب کی نماز کے بعد جبل مقطم کے قریب قرافہ صغریٰ میں تدفین کی گئی۔ امام شافعی کے فرزند عثمان بن محمد کہتے ہیں کہ والد کی عمر بوقت اِنتقال 58 سال کی تھی۔[107] وصیت کے مطابق اواخر ایام عبد اللہ بن الحکم کے پاس گزارے اور وہیں اِنتقال کیا۔ امیر مصر نے نماز جنازہ پڑھائی اور عبد اللہ بن الحکم کے بیٹوں نے تجہیز و تکفین کی سعادت پائی۔ امام شافعی کے شاگرد ربیع بن سلیمان مرادی کہتے ہیں کہ امام شافعی کی تدفین سے واپسی پر میں نے شعبان کا چاند دیکھا تھا اور رات میں امام شافعی کو خواب میں دیکھا تو پوچھا: اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ امام صاحب نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نور کی کرسی پر بٹھایا۔


ایک مشہور واقعہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ فتیان بن ابی السمح جو انتہائی متعصب مالکی تھے انہوں نے ایک مناظرے میں امام شافعی سے علمی شکست کھائی تھی۔ مگر انہوں نے بعد میں موقع پاکر رات کے اندھیرے میں ابن ادریس شافعی کے سر پر لوہے کا ایک گرز دے مارا جس سے امام شافعی کا سر پھٹ گیا۔ طبیعت پہلے ہی کمزور تھی۔ اس تکلیف نے مزید نڈھال کر دیا۔ دوسری طرف مالکی فقیہ اشہب بن عبد العزیز مسلسل سجدہ میں پڑ کر آپ کے لیے بددعا کرتا رہا کہ الٰہی! شافعی کو اٹھالے ورنہ ہمارا مالکی مسلک فنا ہو جائے گا۔ امام شافعی کو جب اس کا علم ہوا تو فی البدیہہ دو اشعار کہے، ”لوگ تمنا کرتے ہیں کہ میں مر جاؤں۔ اگر میں مر بھی گیا تو یہ راہ ایسی ہے جس کا راہی صرف میں نہیں ہوں۔ اگر علم لوگوں کے لیے نفع بخش ثابت ہو تو وہ یہ مان لیں کہ میں اگر مر بھی گیا تو مجھے بد دعا دینے والا بھی باقی رہنے کا نہیں۔“ آپ کی طبیعت جب بہت زیادہ بگڑی تو پاس بیٹھے شاگرد امام مزنی خیریت دریافت کرتے ہوئے عرض کی اساتذہ کے استاذ! آپ کا دن کیسے گزرا؟ جواب میں فرمایا، ”آج میں دنیا سے رخصت ہونے والا ہوں اور اپنے بھائیوں کو چھوڑنے والا بھی۔ ہائے! اپنے برے اعمال کی سزا بھی پانے والا ہوں اور اللہ بزرگ و برتر کی بارگاہ میں پیش ہونے والا بھی ہوں اور موت کا پیالہ ابھی پینے والا ہوں۔ واللہ! میں نہیں جانتا آیا میری روح جنت میں جائے گی کہ میں اسے مبارک باد دوں یا اس کا مقام دوزخ ہے کہ میں اس سے تعزیت کروں۔“ نماز مغرب سے فراغت کے بعد لیٹے ہی تھے کہ نزع کی کیفیت شروع ہو گئی۔ بہت الحاح کے ساتھ بارگاہ الٰہی میں پھر عرض گزار ہوئے۔ عشاء کی نماز ہمت کر کے پڑھی اور فراغت کے بعد پھر گڑگڑا کر دعا مانگی۔ دُعا سے فارغ ہو کر لیٹے ہی تھے کہ روح بآسانی نکل گئی۔ اور اس طرح امام شافعی خدمت دین سے بھرپور اپنی یہ مختصر زندگی گزار کر دار فانی میں جا پہنچے۔ نماز جمعہ کے بعد آپ کی نماز جنازہ سب سے پہلے سیدہ نفیسہ بن حسن نے ادا کی اور پھر ساری خلقت نے۔ اور یوں بعد از عصر آپ کو قاہرہ کے جبل مقطم کے قبرستان قرا فصہ الصغری میں دفن کیا گیا۔[108]


تاریخ وفات کا تعین

بعض مورخین نے آپ کی تاریخ وفات کا تعین ماہِ رجب کا اِختتام کہا ہے اور دن میں مختلف اقوال ہیں کہ جمعرات تھا یا جمعہ۔ البتہ امام شافعی کے شاگرد ربیع بن سلیمان مرادی کا قول زیادہ قوی ہے ان دونوں روایات کو جمع کر لیا جائے تو صحیح یوں معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعی کی وفات بروز جمعرات 29 رجب 204ھ مطابق 19 جنوری 820ء کو بوقت عشاء ہوئی اور تدفین اگلے روز جمعہ 30 رجب 204ھ مطابق 20 جنوری 820ء کو بعد از نماز مغرب کی گئی اور بقول ربیع بن سلیمان مرادی کہ واپسی پر شعبان کا چاند نظر آیا۔


امام شافعی کے فرزند کی روایت درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ تمام مورخین نے آپ کی ولادت اُسی مہینہ میں لکھی ہے جس مہینے امام اعظم ابو حنیفہ فوت ہوئے یعنی ماہ رجب 150ھ مطابق اگست 767ء۔ ماہ رجب 150ھ سے ماہ رجب 204ھ تک مکمل 54 سال ہوتے ہیں نہ کہ 58 سال۔ ابو الفتح بن نحوی کہتے ہیں کہ مجھے ابوالحسن بن الصابونی المصری نے بتایا کہ ابو عبد اللہ الشافعی کی قبر مبارک مصر میں بیطار بلال اور برکتین کے درمیان میں دیکھی ہے، اُس کے سرہانے تانبے کی ایک لوح آویزاں تھی جس پر یہ اشعار لکھے ہوئے تھے:


میری موت کا وقت تو آپہنچا لیکن احمق اور خوابِ غفلت میں مبتلا لوگ کچھ اِس طرح خوش ہیں کہ گویا ہمارا یومِ مرگ تو حتمی تھا اور دشمنوں پر یہ دن نہیں آئے گا۔[109]


ربیع بن سلیمان مرادی کہتے ہیں کہ امام شافعی کے بعد ہم لوگ اُن کے حلقہ درس میں بیٹھے تھے کہ ایک اعرابی نے آ کر سلام کیا اور بعد سلام کے سوال کیا: اِس حلقہ کے شمس و قمر کہاں ہیں؟ ہم نے بتایا کہ اُن کا تو اِنتقال ہو گیا، یہ سن کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رویا اور یہ الفاظ کہہ کر چلا گیا: " اللہ تعالیٰ اُس پر رحم فرما اور اُس کی مغفرت فرما، کس خوبی سے دلیل و حجت کی گتھیوں کو اپنے بیان سے سلجھاتا تھا، اپنے مقابل کو واضح دلیل سے ہدایت دیتا تھا، شرمندہ چہروں سے عار کو دھوتا تھا، اپنے اِجتہاد سے مسائل کے بند دروازے کھولتا تھا۔"


مدفن

مزید پڑھیے: قبۃ الامام الشافعی

سلطان مصر و شام صلاح الدین ایوبی نے آپ کی قبر مطہر کے سامنے ایک وسیع و عریض مدرسہ تعمیر کروایا تھا ۔[110] مصر کے ایوبی سلطان الملک الکامل محمد بن العادل نے 608ھ مطابق 1211ء میں آپ کی قبر مطہر پر مقبرے کا گنبد تعمیر کروایا۔[104]


بوقت وفات تلامذہ کے متعلق پیشگوئی

ربیع بن سلیمان مرادی کہتے ہیں کہ امام شافعی کے وقتِ نزاع کے دوران میں حاضر تھا، اُن کے پاس دوسرے شاگرد بویطی، مزنی اور ابن عبد الحکم بھی موجود تھے۔ امام شافعی نے ہماری طرف دیکھ کر کہا: اے ابو یعقوب (بویطی)! تم لوہے کی زنجیر اور بیڑی میں انتقال کروگے اور اے مزنی! تمہارے لیے مصر میں چہ میگوئیاں ہوں گی۔ مگر آگے چل کر تم اپنے زمانہ کے سب سے بڑے فقہی قیاس کرنے والے ہوگے۔ اور تم اے محمد (ابن عبد الحکم)! تم امام مالک کے مذہب کو اختیار کرو گے اور مجھ سے کہا اے ربیع! تم میری کتابوں کی نشر و اشاعت میں میرے حق میں نافع و مفید ہوگے۔ اے ابو یعقوب! اُٹھو اور میرا حلقہ درس سنبھال لو۔ ربیع بن سلیمان مرادی کہتے ہیں کہ امام شافعی کی وفات کے بعد ہم میں سے ہر ایک وہی ہوا جو اُنہوں نے فرمایا تھا۔ جیسے کہ وہ باریک پردے کے پیچھے غیب کو دیکھ رہے تھے۔[111][112][113][114] امام شافعی کی یہ پیشگوئی آئندہ سالوں میں پوری ہو گئی کہ بویطی 231ھ میں بغداد کے قید خانہ میں فوت ہوئے اور وہ مسئلہ فتنہ خلق قرآن میں قید کر لیے گئے تھے، مزنی آپ کے علم کے داعی بنے اور مصر میں اُن کا چرچا عام ہوا۔ محمد ابن عبد الحکم نے مذہب مالکیہ اختیار کر لیا۔ ربیع بن سلیمان مرادی امام شافعی کی کتب کے ناشر بنے اور امام شافعی سے روایت کردہ کتاب المبسوط اِنہی کے توسط سے علمائے اسلام تک پہنچی۔


اولاد

امام شافعی کی اولاد کے متعلق ابن حزم نے لکھا ہے کہ آپ کے 2 صاحبزادے تھے، ایک ابوالحسن محمد جو علاقہ قنسرین اور عواصم میں قاضی تھے، اِنہوں نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی اور دوسرے عثمان تھے جو احمد بن حنبل کے شاگرد ہوئے، اِن سے بھی اولاد کا سلسلہ منقطع رہا۔[115] امام تاج الدین سبکی نے طبقات الشافعیۃ الکبریٰ میں لکھا ہے کہ امام شافعی کے 2 صاحبزادے تھے : ایک قاضی ابو عثمان محمد اور دوسرے ابو الحسن محمد، ابو عثمان بڑے تھے اور امام شافعی کے اِنتقال کے وقت مکہ میں تھے، یہ اپنے والد امام شافعی، امام سفیان بن عینیہ، امام عبد الرزاق صاحب المصنف اور احمد بن حنبل سے روایت کیا کرتے تھے۔ حلب میں بھی عہدہ قضا پر فائز رہے، اِن کی تین اولادیں ہوئیں: عباس، ابوالحسن اور ایک بیٹی فاطمہ۔ عباس اور ابوالحسن تو بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے اور بیٹی فاطمہ سے اولاد کا سلسلہ منقطع رہا۔ ابوعثمان محمد کا اِنتقال 240ھ مطابق 854ء میں الجزیرہ کے مقام پر ہوا۔ دوسرے صاحبزادے ابو الحسن محمد تھے جن کی والدہ دنانیر کنیر تھیں۔ یہ بچپن میں ہی اپنے والد امام شافعی کے ہمراہ مصر آ گئے تھے اور یہیں مصر میں ماہ شعبان 231ھ مطابق ماہ اپریل 846ء کو فوت ہوئے۔[116] ابوالحسن محمد کی ایک صاحبزادی زینب تھیں جس سے ابو محمد احمد بن محمد بن عبد اللہ بن عباس بن عثمان بن شافع پیدا ہوئے۔ یہ اپنے والد کے ذریعہ سے اپنے نانا امام شافعی سے روایت کیا کرتے تھے۔ آل شافع یعنی خاندان امام شافعی میں اِن کے مثل کوئی عالم پیدا نہیں ہوا، اِن کو اپنے نانا امام شافعی کی برکت حاصل تھی۔[117]


اقوال قدیمہ کے راویان

امام شافعی کا علم اُس وقت دنیائے اسلام کے تین بڑے مراکز سے عام ہوا یعنی مکہ مکرمہ، بغداد جو اُس وقت پایہ خلافت تھا اور مصر۔ اِن تین بڑے شہروں میں امام شافعی کی مجالس دروس قائم ہوئیں۔ بغداد جیسے عظیم شہر میں وہ پہلے 195ھ میں پہنچے اور دو سال چند مہینے مقیم رہے اور بعد ازاں مصر کے سفر سے قبل بھی بغداد آئے۔ اِس تمام عرصہ میں بغداد کے علما و اہل علم حضرات نے آپ سے تحصیل علم کیا۔ عموماً بغداد شہر سے آپ کے چار بڑے ترجمان مشہور ہوئے جو آپ کے اقوال قدیمہ کے ترجمان و راوی بھی ہیں۔ یہ چار مشہور بزرگ یہ ہیں:


امام حسن بن محمد الزعفرانی بغدادی (متوفی 259ھ)

امام احمد بن حنبل شیبانی البغدادی (متوفی 241ھ)

امام ابو ثور ابراہیم بن خالد البغدادی (متوفی 240ھ)

امام حسین بن علی الکرابیسی البغدادی (متوفی 245ھ)

اقوال جدیدہ کے راویان

بقول ابن ندیم آپ 200ھ کے آغاز میں ہی مصر تشریف لے گئے [41]۔ مصر میں آپ چار سال مقیم رہے اور یہ آپ کی اواخر عمر کے سال بھی ہیں۔ مختلف الرائے بیانات سے یہاں مصر میں آپ کے چھ تلامذہ خاص کو شہرت حاصل ہوئی جو آپ کے اقوال جدیدہ کے راوی اور ترجمان بھی ہیں۔


ربیع بن سلیمان المرادی المصری (متوفی 270ھ)

اسمٰعیل بن یحیی المزنی المصری (متوفی 264ھ)

ربیع بن سلیمان الجیزی المصری (متوفی 256ھ)

حرملہ بن یحیی المصری (متوفی 244ھ)

یونس بن عبد الاعلیٰ المصری (متوفی 264ھ)

امام یوسف بن یحیی بویطی (متوفی 231ھ)[118]

امام شافعی کا فقہی مسلک

امام شافعی کے زمانہ حیات میں حدیث و فقہ اور فتویٰ کے دو مشہور مرکز تھے: حجاز اور عراق۔ ان دونوں مکتبہ ہائے فکر و فتویٰ میں کچھ فروعی اور نظریاتی اِختلافات تھے۔ امام شافعی نے دونوں مراکز علم سے استفادہ حاصل کیا اور اُنہوں نے علمائے حجاز اور علمائے عراق کے دلائل سے مکمل واقفیت حاصل کی۔ اولاً مکہ مکرمہ میں امام مسلم بن خالد الزنجی سے تفقہ کی تعلیم حاصل کی جو تابعی ابن جریج کے شاگرد عطاء ابن ابی رباح کے مکتب تفقہ کے ناشر و مبلغ تھے۔ مدینہ منورہ میں امام مالک سے تعلیم پائی جو اہل مدینہ منورہ کے علوم و آراء کے ترجمان اعلیٰ تھے۔ اِس کے بعد بغداد چلے گئے اور وہاں امام محمد بن حسن شیبانی سے شرفِ تلمذ حاصل کی وہ امام اعظم ابوحنیفہ کے شاگرد تھے اور فقہ حنفیہ کے مبلغ و داعی بھی تھے علاوہ ازیں وہ بھی امام مالک کے شاگرد رہ چکے تھے۔ امام شافعی امام مالک اور امام محمد بن حسن شیبانی کو اپنا استاد تسلیم کرتے تھے۔ امام شافعی خصوصاً امام مالک کے مسلک کو ترجیح دیتے تھے اور اُنہی کے اقوال و آراء پر عمل پیرا تھے۔ خاص طور پر یہ وہ دور تھا کہ جب تلامذہ شیوخ کی آرا سے اختلاف بھی کیا کرتے تھے، امام شافعی نے خود امام مالک کی آرا سے بھی اختلاف کیا ہے۔ اِس پر لوگوں نے آپ کو ٹوکا تو آپ نے اِس سلسلہ میں ایک کتاب لکھی۔


ابو اسحاق الشیرازی کہتے ہیں کہ اِس اختلاف کے باوجود ہم امام شافعی کو امام مالک کے اصحاب میں شمار کرتے ہیں، اگر امام مالک کے ساتھ امام شافعی کے اِختلافات کو شمار کیا جائے تو اصحاب مالک میں سے عبد الملک وغیرہ نے اُن سے (یعنی امام مالک سے ) جس قدر اختلاف کیا ہے، امام شافعی کا اختلاف اُس سے کم ہی ہوگا۔ ایک اور عالم کہتے ہیں کہ امام شافعی اور امام مالک کے درمیان میں اختلاف اِس سے کم ہے جتنا قاضی ابو یوسف اور امام ابوحنیفہ کے درمیان میں ہے۔[119]


امام شافعی نے تفقہ میں فقہائے حجاز اور فقہائے عراق کے اُصول و فروع کو سامنے رکھتے ہوئے ایک درمیانی راہ اِختیار کی ہے۔ امام شافعی ْقرآن مجید کے ظاہری معانی کو حجت مانتے ہیں جب تک یہ دلیل نہ ملے کہ یہاں ظاہری معنی مراد نہیں ہیں۔ اِس کے بعد سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستدلال کرتے ہیں حتیٰ کہ خبر واحد کو بھی قابل عمل قرار دیتے ہیں اگرچہ اُس کے راوی ثقہ نہ ہوں۔ امام مالک کی طرح تائید میں تعامل اہل مدینہ منورہ کو تسلیم کرتے ہیں اور اِس کے بعد اجماع پر عمل کرتے ہیں، بایں ہمہ کہ اِس کے خلاف کا علم نہ ہو۔ امام شافعی کے نزدیک اجماع کلی کا علم محال ہے۔ آخر میں قیاس پر عمل کرتے ہیں جس کی تائید قرآن اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوتی ہے۔ خلاف قیاس مسائل یا مسائل مرسلہ کے مخالف ہیں مگر اِنہی کے مانند مسائل پر بعض اوقات عمل کرتے ہیں اور اِسی کو اِستدلال کہتے ہیں۔


امام شافعی کے فقیہ و مفتی اور قاضی کے متعلق جو صفات بیان کی ہیں اُن سے امام شافعی کا فقہی مسلک بخوبی معلوم ہوجاتا ہے : " قاضی اور مفتی کے لیے فیصلہ کرنا اور فتویٰ دینا اُس وقت تک جائز نہیں ہے کہ وہ کتاب اللہ اور اُس کی تفسیر کے عالم اور سنن و آثار اور اختلاف علما کے عالم نہ ہوں، اُن میں حسن نظر صحیح فہم، تقویٰ اور مشتبہ مسائل میں مشورہ ہونا چاہیے۔" [120]

اختلاف صحابہ کے بارے میں امام شافعی خود فرماتے ہیں کہ : " اُن میں سے جو قول کتاب و سنت یا اجماع و قیاس کے موافق ہوتا ہے، میں اُس کو لیتا ہوں اور اُن حضرات میں سے کسی ایک کا قول لیتا ہوں جبکہ کتاب و سنت اور اجماع و دلیل میں اُس کو نہیں پاتا ہوں۔" یونس بن عبد الاعلیٰ نے امام شافعی کا قول نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: اصل یہ چیزیں ہیں: قرآن، سنت اور اِن دونوں کی روشنی میں قیاس اور اجماع اکبر اُس حدیث میں جو منفرد ہو۔[121][122][123][124][125]

امام شافعی نے وسیع مطالہ کیا۔ مختلف مکاتب فکر کے افکار و مسائل کو امعان نظر سے مطالعہ کرنے کے بعد اُصول کی کسوٹی پر پرکھا، جو شے اُن کے نزدیک کتاب و سنت اور اجماع کے مطابق تھی، اُسے قبول کیا اور جس بات سے اختلاف ہوا اُس پر کتاب و سنت کی روشنی میں بحث کی۔ اِس سلسلہ میں وہ بعض صحابہ کرام کے مسلک کے خلاف بھی گئے ہیں اور بعض اوقات امام اعظم ابو حنیفہ اور ابن ابی مُلَیکہ کے اور بعض اوقات الواقدی اور الاوزاعی کے خلاف بھی گئے ہیں۔[103]


خلق قرآن کے مسئلہ میں امام شافعی کی رائے

مسئلہ خلق قرآن یعنی قرآن مجید کا مخلوق ہونا خلافت عباسیہ کے اوائل عہد حکومت میں بہت زور شور سے پھیل گیا تھا مگر علمائے شوافع و علمائے حنابلہ اِس مسئلہ کے سامنے ڈٹ گئے۔ امام شافعی کے اِس قول سے مسئلہ خلق قرآن کی واضح تردید ہوتی ہے۔ یہی قول امام احمد بن حنبل کا ہے اور وہ تو اِس مسئلہ میں مشقتیں بھی برداشت کرتے رہے۔


امام حاکم نے ابو سعید بن ابی عثمان سے اور اُنہوں نے امام الحسن ابن صاحب الشاشی سے اور اُنہوں نے ربیع بن سلیمان مرادی کے تسلسل سے امام شافعی کا قول نقل کیا ہے کہ: آپ سے قرآن کے متعلق (اشارہ مسئلہ خلق قرآن کی جانب تھا) پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: تعجب ہے تعجب ہے! قرآن تو کلام اللہ ہے اور جو کہتا ہے کہ وہ مخلوق ہے وہ کفر کرتا ہے۔[126]


درس و تدریس کی مجالس اور تلامذہ سے شفقت

امام شافعی کی مجالس دروس اُس دور کے فقہا و محدثین کی طرح ہی برپا ہوا کرتی تھیں۔ تلامذہ کو حسن نیت، شفقت و محبت اور خلوص سے پڑھاتے تھے جو علمائے سلف کا معمول رہا ہے۔


امام شافعی کا یہ قول جو اُن کے اپنے مصری شاگرد ربیع بن سلیمان مرادی کے لیے ہے، لائق توجہ ہے: اے ربیع! اگر میرے بس میں ہوتا کہ میں تمہیں علم کھلا دوں تو ضرور کھلا دیتا۔


آپ خود اپنے حلقہ نشینوں سے خواب واقف تھے اور اُن کے مزاج کو بخوبی سمجھتے تھے، بعض اوقات اِس کا اظہار بھی کر دیا کرتے تھے۔ بغداد چھوڑتے ہوئے احمد بن حنبل کے لیے فرمایا: میں نے احمد بن حنبل سے زیادہ پاکباز، متقی فقیہ اور عالم کسی کو نہیں چھوڑا۔


ایک بار کہا کہ: تین علما زمانہ کے عجائب میں سے ہیں، ایک عربی شخص جو ایک کلمہ بھی ٹھیک سے ادا نہیں کرتا ہے وہ ابو ثور ہے، دوسر عجمی شخص ہے جو ایک کلمہ میں بھی غلطی نہیں کرتا ہے وہ حسن زعفرانی ہے اور تیسرا چھوٹا شخص جب وہ کوئی بات کہتا ہے تو بڑے علما اُس کی تصدیق کرتے ہیں وہ احمد بن حنبل ہیں ۔[127]


اپنے شاگرد مزنی کے متعلق فرماتے ہیں کہ: مزنی میرے مذہب کے ناصر ہیں ۔[128]


دوسرے شاگرد ربیع بن سلیمان مراد کے متعلق فرماتے ہیں کہ: ربیع میری کتابوں کے راوی ہیں۔[129]


بغداد میں امام شافعی کی کتب کو حسن زعفرانی پڑھا کرتے تھے اور طلبہ اُن کو لکھ لیا کرتے تھے۔ امام شافعی حدیث و فقہ میں تبحر کے باوجود احمد بن حنبل اور عبد الرحمٰن بن مہدی کو کہا کرتے: تم لوگ مجھ سے زیادہ حدیث کا علم رکھتے ہو، صحیح حدیث ہو تو مجھے بتانا، میں اُس کو اختیار کروں گا۔[130][63]


تصنیف و تالیفات کا فریضہ/اقوال قدیمہ و جدیدہ

امام شافعی نے اپنی مختصر مدتِ حیات اور بالخصوص اواخر حیات میں بکثرت لکھا اور اِملا بھی کروایا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ ربیع بن سلیمان مرادی کی روایت کے مطابق امام شافعی نے مصر میں چار سال تک قیام کیا اور ڈیڑھ ہزار ورق یعنی (تین ہزار صفحات) اِملا کروائے۔ کتاب الاُم ہی دو ہزار ورق کی تھی، علاوہ ازیں کتاب السنن اور دیگر تصنیفات بھی ہیں۔[103]


امام بیہقی کے قول کے مطابق شافعی اپنی جدید کتب کی تصنیف کے وقت قدیم کتب کو بھی سامنے رکھتے تھے۔ جس رائے میں کوئی تغیر نہیں ہوتا اُسے اُسی حال پر باقی رکھتے اور وہ قدیم نسخہ میں جوں کا توں قائم رہتا، لیکن جن مسائل میں رائے تبدیل ہو گئی ہوتی اُن کتابوں کو حذف و اضافہ کرکے اور ترمیم و تبدیلی کے بعد ازسر نو لکھا کرتے اور قدیم کتابوں کو ضائع کردیتے۔[103] یہیں سے آپ کے اقوال قدیمہ اور اقوال جدیدہ کا وجود عمل میں آیا۔ اقوال قدیمہ وہ فقہی آرا ہیں جو آپ نے مصر آنے سے قبل مدون کیں اور اقوال جدیدہ وہ فقہی آرا ہیں جو آپ نے مصر آمد کے بعد یعنی 200ھ سے ماہ رجب 204ھ میں اپنی وفات تک تحریر کیں۔ تاہم آپ کے تلامذہ بغداد اقوال قدیمہ کے ترجمان تھے اور اُن علاقوں میں اقوال قدیمہ ہی پھیلے اور مصر اور افریقا کے علاقوں میں اقوال جدیدہ کو فروغ حاصل ہوا۔ اقوال قدیمہ کے مقابلہ میں اقوال جدیدہ میں بیشتر مسائل میں آپ کی فقہی آرا تبدیل ہو گئی تھیں اِس لیے فقہ شافعی کے بیشتر مسائل کو ازسر نو مصر میں مرتب و مدون کیا جو اب اقوال جدیدہ کے مطابق کتاب الاُم میں موجود ہے مگر بغداد کے تلامذہ نے آپ کے اقوال قدیمہ کو ہی ترجیح دی اور وہی رائج ہوا۔


فقہی خدمات

امام شافعی نے فقہی اجتہاد اور حدیث دونوں کو اپنایا ہے۔ اُنہوں نے نہ صرف اُس فقہی مواد پر کاملا عبور حاصل کیا جو موجود تھا، بلکہ اپنی تصنیف کتاب الرسالہ میں اُصول ہائے و طریقہ ہائے اِستدلال فقہ کی تحقیق کی۔ اُنہیں بجا طور پر اُصول فقہ کا موسس و بانی سمجھا جاتا ہے [131]۔ آپ نے قیاس کے باقاعدہ قواعد و ضوابط وضع کیے ۔[132] اصول استحسان میں امام شافعی کو کوئی دلچسپی نہ تھی بلکہ اصول استحسان کے بارے خیال کیا جاتا ہے کہ اِسے بعد کے شوافع حضرات نے مذہب شافعیہ میں داخل کر دیا۔[131]


کتاب الاُم

مزید پڑھیے: کتاب الام


کتاب الام

امام شافعی صاحب التصانیف اور کثیرہ ائمہ دین میں سے ہیں۔ نوخیزی عمر کے زمانہ سے ہی " کتاب الرسالہ" تصنیف کی جو اُصول فقہ میں اہم ترین کتاب سمجھی جاتی ہے۔ تیر انداز اور شہ سواری پر عربی زبان کی پہلی تصانیف آپ نے تحریر کیں۔ صاحبان انشاء و ادبا آپ کی شہادت دیا کرتے تھے جس کی آپ کو مطلق ضرورت نہ تھی۔ ابن حجر عسقلانی نے الجاحظ کا قول نقل کیا ہے کہ: " میں نے شافعی کی کتابیں دیکھی ہیں، وہ گندہے ہوئے موتی ہیں اُن سے بہتر مصنف میں نے نہیں دیکھا۔" ۔[133] ابن ندیم نے کتاب الفہرست میں تقریباً 104 کتب کے نام گنوائے ہیں [134] ابن ندیم جن کو کتابوں کا نام دیتا ہے دراصل وہ کتاب الاُم کے اجزاء ہیں۔


یہ کتاب مختلف رسائل کا مجموعہ ہے۔ کتاب الاُم مکالمہ کی صورت میں ہے، امام شافعی مخالفین کا رد کرتے ہوئے اُن کا نام نہیں لیتے۔ یہ تصنیف اُن کے شاگرد ربیع بن سلیمان مرادی کی روایت سے ہم تک پہنچی ہے۔ اِس میں موجود رسائل اور مقالات کی ایک فہرست ابن ندیم نے کتاب الفہرست میں لکھی ہے۔ دوسری مشہور فہرست اِن رسائل کی امام بیہقی نے لکھی ہے، تیسری فہرست الحافظ ابن حجر عسقلانی نے لکھی ہے اور متاخرین میں سے یاقوت حموی نے معجم الادباء میں لکھی ہے۔ یاقوت الحموی نے جو عنوانات اِن رسائل کے دیے ہیں وہ زیادہ تر وہی ہیں جو کتاب الاُم کے نسخہ مطبوعہ قاہرہ 1321ھ تا 1325ھ مطابق 1903ء تا 1907ءمیں موجود ہیں اور یہ سات جلدوں میں طبع ہوئی۔ اِس نسخہ کا کچھ حصہ امام سراج الدین بلقینی والے نسخہ پر مبنی ہے۔ اِس مجموعہ کا قدیمی نام معلوم نہیں ہو سکا اور جہاں تک رسائی ہوئی ہے، یہ نام سب سے پہلے امام بیہقی نے اور امام غزالی نے کتاب احیاء العلوم الدین میں اور الحافظ ابن حجر عسقلانی نے کتاب الاُم کے نام سے ذکر کیا ہے۔[135][136][137][131]


تلامذہ

امام شافعی سے خلق کثیر نے روایت کیا ہے مگر آپ کے مشہور تلامذہ میں سے چند یہ ہیں جن کے اسمائے گرامی مورخ اسلام الحافظ ذہبی نے نقل کیے ہیں:


الحُمَیدی، ابو عبید القاسم بن سلام، احمد بن حنبل، سلیمان بن داود الہاشمی، ابو یعقوب یوسف البُوَیطی، ابو ثور ابراہیم بن خالد الکلبی، حرملہ بن یحیی، موسیٰ بن ابی الجارود المکی، عبد العزیز المکی صاحب الحیدہ، حسین بن علی الکرابیسی، ابراہیم بن المنذر الحزامی، الحسن بن محمد الزعفرانی، احمد بن محمد الاذرقی، احمد بن سعید الہمدانی، احمد بن ابی شُریح الرازی، احمد بن یحیی بن وزیر المصری، احمد بن عبد الرحمٰن الوھبی، ابراہیم بن محمد الشافعی، اسحاق بن راہویہ، اسحاق بن بُہلُول، ابو عبد الرحمٰن احمد بن یحیی الشافعی المتکلم، الحارث بن سُریج النقال، حامد بن یحیی البلخی، سلیمان بن داود المھری، عبد العزیز بن عمران بن مقلاص، علی بن معبد الرقی، علی بن سلمہ اللبیقی، عمرو بن سواد، ابو حنیفہ قحزم بن عبد اللہ الاسوانی، محمد بن یحیی العدنی، مسعود ابن سہل المصری، ہارون بن سعید الایلی، احمد بن سنان القطان، ابوالطاہر احمد بن عمرو بن السرح، یونس بن عبد الاعلیٰ، الربیع ابن سلیمان المرادی، الربیع بن سلیمان الجِیزی، محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم المصری، بحر بن نصر الخولانی۔[138]


بغداد کے تلامذہ خاص

امام شافعی نے مصر جانے سے قبل بغداد میں دو سال سے زائد مدت کے قیام میں بغداد میں اپنا حلقہ درس جاری رکھا۔ یہاں علما، محدثین، فقہا، ادبا و شعرا آپ کے حلقہ خاص کی زینت بنے رہا کرتے تھے لیکن اِن سب میں سے چار طلبہ خصوصی اہمیت کے حامل ہیں جو امام شافعی کے علوم اور فقہ و فتویٰ کے ترجمان ہیں اور اِنہی چاروں طلبہ کے ذریعہ سے امام شافعی کے اقوال قدیمہ محفوظ رہے۔ یہ چار حضرات یہ ہیں:


امام حسن بن محمد الزعفرانی بغدادی (متوفی 259ھ)

یہ امام ابوعلی الحسن بن محمد بن صباح الزعفرانی البغدادی ہیں۔ بغداد کا قریبی دیہات زعفرانیہ اِن کا مسکن تھا جس کی نسبت سے زعفرانی کہلائے۔ فقہ و حدیث کے بہت بڑے امام و عالم تھے اور کئی کتب تصنیف فرمائیں۔ امام شافعی کی خدمت میں بہت عرصہ رہے اور کہا کرتے تھے کہ: " محدثین سوئے ہوئے تھے، امام شافعی نے اُنہیں بیدار کیا اور جس نے حدیث لکھنے کے لیے قلم دوات لی ہے اُس پر امام شافعی کا احسان ہے"۔ زعفرانی امام شافعی کے حلقہ درس میں اُن کی کتب کو با آوازِ بلند پڑھا کرتے تھے اور طلبہ سنتے تھے۔ خود کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی کے سامنے اُن کی کتاب " الرسالۃ " پڑھی تو آپ نے مجھ سے پوچھا: عرب کے کس قبیلہ سے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ عربی نہیں ہوں بلکہ ایک دیہات زعفرانیہ کا باشندہ ہوں (زعفرانیہ بغداد کے قریبی دیہات میں سے ایک تھا)۔ یہ سن کر کہا: انت سید ھذہ القریۃ (تم اپنی بستی کے سردار ہو)۔ ااحمد بن حنبل اور ابو ثور کی موجودگی میں زعفرانی امام شافعی کے سامنے اُن کی کتب پڑھا کرتے تھے۔ یہ امام شافعی کے اقوال قدیمہ کے راوی ہیں، ابتدا میں اہل عراق کے فقہی مسلک پر تھے بعد ازاں فقہ امام شافعی کے عالم و ناشر مشہور ہوئے۔ زعفرانی نے امام شافعی سے کتاب المبسوط جو روایت کی ہے اُس کی ترتیب ربیع بن سلیمان مرادی کی مرتب کردہ المبسوط سے قدرے اختلاف کے ساتھ موجود ہے۔ فقہا نے ربیع بن سلیمان مرادی والی کتاب المبسوط کو ہی لائق عمل سمجھا اور زعفرانی والی المبسوط عوام میں مشہور نہیں ہوئی۔ ابن ندیم الفہرست میں اِن کی تصانیف کا تذکرہ محض قلت عامہ کے سبب نہیں کرتے اور بعض کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ امتدادِ زمانہ کی نذر ہوچکی ہیں اور بعض کتب اِن کی قید تحریر میں نہیں لائی گئیں۔[139] سال 259ھ میں بغداد میں فوت ہوئے۔[140]

احمد بن حنبل شیبانی البغدادی (متوفی 241ھ)

فقہ حنبلی کے امام ہیں۔ نام ابوعبداللہ احمد بن محمد بن حنبل الشیبانی البغدادی ہے۔ امام شافعی کے تلامذہ خاص میں امامت کا درجہ رکھتے ہیں۔ امام شافعی کا قول ہے کہ: میں بغداد سے نکلا اور فقہ، درع اور علم میں احمد بن حنبل سے بڑھا ہوا کسی کو نہیں چھوڑا۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ جب تک میں امام شافعی کے حلقہ درس میں نہیں بیٹھا تھا تو حدیث کے ناسخ و منسوخ سے لا علم تھا۔ ااحمد بن حنبل امام شافعی کے لیے بہت زیادہ دعا کیا کرتے تھے، ایک مرتبہ صاحبزادے عبد اللہ بن احمد نے عرض کی کہ یہ شافعی کون حضرت ہیں جن کے حق میں آپ اِتنی دعا کیا کرتے ہیں؟ تو کہا: کہ بیٹے! شافعی دنیا کے لیے آفتاب اور بدن کے لیے عافیت کے مانند تھے، کیا اِن دونوں چیزوں کا بدل ہو سکتا ہے؟ میں 30 سال سے سوتے وقت میں امام شافعی کے لیے دعا اور استغفار کرتا ہوں۔[141] ابن جوزی لکھتے ہیں کہ: " امام احمد امام شافعی کے خاص شاگردوں میں سے تھے اور امام شافعی کے مصر جانے تک برابر اُن کی صحبت میں رہے۔"[142] ماہ ربیع الاول 241ھ میں بغداد میں 77 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ فرقہ معتزلہ اور فتنہ خلق قرآن کے رد میں تمام عمر ڈٹ کر کھڑے رہے اور خلفائے عباسیہ کے جبر کے باوجود ایک قدم بھی نہ ہلے۔ کتب ہائے احادیث میں مسند احمد بن حنبل بن حنبل مشہور ہے جس میں 28 ہزار احادیث رسول موجود ہیں۔

امام ابو ثور ابراہیم بن خالد البغدادی (متوفی 240ھ)

یہ امام ابوثور ابراہیم بن خالد بن ابو الیمان الکلبی البغدادی ہیں۔ اولاً اہل عراق کے مسلک پر تھے بعد ازاں امام شافعی کی درسگاہ میں پہنچ کر اُن سے رجوع کر لیا۔ اپنے زمانہ میں بغداد میں اعیان فقہا و محدثین میں سے تھے۔ اِن کے کچھ شاذر و نوادر مسائل ایسے ہیں جن میں وہ جمہور ائمہ کرام سے منفرد و جدا ہیں۔ امام ابوثور امام شافعی کے اقوال قدیمہ کے راوی ہیں لیکن اِس کے باوجود اِنہوں نے کئی مسائل میں امام شافعی سے اِختلاف کرتے ہوئے اپنا الگ سے ایک فقہی مسلک جاری کیا۔ امام شافعی کی کتب کی تربیت پر طویل کتاب تصنیف کی۔ آذربائیجان اور آرمینیہ کے اکثر باشندے ابو ثور کے فقہی مسلک پر تھے۔ چند تصنیفات میں سے یہ مشہور ہیں: کتاب الطہارۃ، کتاب الصلوٰۃ، کتاب الصیام، کتاب المناسک۔ 240ھ میں بغداد میں فوت ہوئے۔[139] اِن کے مشہور شاگردوں میں ابن جنید، ابوجعفر احمد بن محمد عیالی اور منصور بن اسماعیل المصری تھے۔[143]

امام حسین بن علی الکرابیسی البغدادی (متوفی 245ھ)

یہ امام ابوعلی الحسین بن علی بن یزید الکرابیسی البغدادی ہیں۔ امام شافعی کے تلامذہ بغداد میں بہت مشہور ہیں اور اصحاب امام شافعی میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اولاً اہل عراق کے مسلک پر تھے مگر امام شافعی کی شاگردی میں اُن کے مسلک سے رجوع کر لیا۔ صاحب التصانیف کثیرہ، عالم وفقیہ، محدث اور متکلم تھے۔ بغداد میں تو اِن کی عظمت کا سکہ چلتا تھا۔ اِن کی امام احمد بن حنبل سے بہت دوستی تھی مگر فتنہ خلق قرآن کے مسئلہ میں اِن دونوں برزگوں کی دوستی عداوت میں تبدیل ہو گئی۔[144] 245ھ میں بغداد میں فوت ہوئے۔

مصر کے تلامذہ خاص

اواخر عمر میں امام شافعی بغداد سے مصر چلے گئے اور وہاں امام شافعی کے علم کی خوب اِشاعت ہوئی اور مصری تلامذہ و اصحاب نے اِن کے فقہی آرا اور اقوال کو جمع کیا۔ مصر میں چھ تلامذہ خاص مشہور ہیں اِنہی کی بدولت امام شافعی کا مسلک افریقا میں عام ہوا، یہ حضرات یہ ہیں:


ربیع بن سلیمان المرادی المصری (متوفی 270ھ)

یہ ابو محمد ربیع بن سلیمان بن عبد الجبار مرادی المصری ہیں۔ اِن کا تعلق قبیلہ مراد سے تھا اور کنیت ابو سلیمان ہے۔[145] امام شافعی کے مصری شاگردوں میں سے کبار درجہ کے ہیں۔ امام شافعی خود کہا کرتے تھے کہ: " ربیع میرے راوی ہیں، ربیع نے مجھ سے جس قدر زیادہ علم حاصل کیا ہے کسی اور شخص نے نہیں کیا۔" اِن کی علمی حرص بہت بڑھ گئی تھی جس کو دیکھتے ہوئے امام شافعی فرماتے تھے کہ : " ربیع! اگر میرے بس میں ہوتا تو میں تم کو علم کھلا دیتا۔" ربیع بن سلیمان مرادی مصر میں امام شافعی کے آخری شاگرد ہیں اور الموذن کے لقب سے مشہور تھے۔[111] ربیع بن سلیمان مرادی مصر میں پیدا ہوئے اور مصر میں موذن تھے۔ باقاعدہ خلیفہ بغداد سے تنخواہ لیتے تھے۔ امام شافعی سے اِنہوں نے کتاب الاصول روایت کی ہے جو عموماً المبسوط کے نام سے مشہور ہے۔ ربیع بن سلیمان مرادی امام شافعی کی وفات کے بعد قریباً 66 سال بقید حیات رہے، اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب امام شافعی مصر آئے تو ربیع بن سلیمان مرادی نوجوان ہوں گے۔ مصر میں 270ھ میں فوت ہوئے۔[145]

اسمٰعیل بن یحیی المزنی المصری (متوفی 264ھ)

یہ امام ابو ابراہیم اسمٰعیل بن یحیی بن اسمٰعیل المزنی المصری ہیں۔ اِن کا تعلق قبیلہ مزینہ سے تھا جو قبائل یمن سے تھا۔ امام شافعی سے تحصیل علم کیا۔ اصحاب شافعی میں سے پارسا ترین فقیہ تھے۔ امام شافعی اِن کے متعلق کہتے ہیں کہ : " مزنی میرے مذہب کے ناصر ہیں۔" مزنی عابد و زاہد، نہایت نیک عالم تھے، دقیق مسائل میں گہری نظر رکھتے تھے۔ اپنی جلالت شان کے باوجود امام شافعی کے جو مسائل اِن کے پاس نہیں تھے، اُن کو ربیع بن سلیمان مرادی کی تصانیف سے لیا۔ ابن خلکان کہتے ہیں کہ: " وہ شوافع کے امام، شافعی کے فقہی طریقوں اور اُن کے فتاویٰ اور اُن کے منقولات کے سب سے بڑے عالم ہیں۔" امام شافعی کو غسل بھی اِنہوں نے ہی دیا اور تجہیز و تکفین بھی ادا کی۔ بروز بدھ 29 رمضان 264ھ مطابق 4 جون 878ء کو فوت ہوئے اور یکم شوال 264ھ مطابق 5 جون 878ء کو کوہ جبل مقطم کے دامن میں امام شافعی کی قبر مطہر کے قریب دفن کیے گئے۔[146][147] نماز جنازہ ربیع بن سلیمان مرادی نے پڑھائی۔ابن ندیم نے تاریخ وفات بروز بدھ ربیع الثانی 264ھ لکھی ہے جو درست نہیں۔ اِن کی مشہور کتاب " کتاب المختصر الصغیر" ہے یہ کتاب متداول ہے اور اصحابِ شافعی کا دارومدار اِسی کتاب پر ہے۔ اِس کتاب کی شرح بہت سے شوافع نے کی ہے۔

ربیع بن سلیمان الجیزی المصری (متوفی 256ھ)

یہ امام ابو محمد ربیع بن سلیمان بن داود الجیزی المصری ہیں۔ قاہرہ کے مغرب میں ایک علاقہ جیزہ کے رہنے والے تھے جس سے جیزی کہلائے۔ امام شافعی کے تلامذہ خاص میں سے تھے مگر امام شافعی سے کم ہی روایت کرتے ہیں، البتہ امام شافعی کے شاگرد امام عبد اللہ بن عبد الحکم کے ذریعہ سے امام شافعی کے علوم حاصل کیے۔ اِن سے امام ابو داؤد، امام نسائی اور امام طحاوی نے روایت کیا ہے۔ ثقہ، صالح اور کثیر الحدیث عالم تھے۔ 256ھ میں جیزہ کے مقام پر فوت ہوئے اور وہیں دفن کیے گئے۔[148]

حرملہ بن یحییٰ المصری (متوفی 244ھ)


یہ ابو عبد اللہ حرملہ بن یحیی بن عبد اللہ تجیسی المصری ہیں۔ امام شافعی کے حلقہ درس کے خواص میں شامل تھے۔ حافظ الحدیث تھے۔ امام شافعی کی وفات (رجب 204ھ) کے بعد آپ کے مصری تلامذہ میں سے سب سے پہلے حرملہ بن یحییٰ کا ہی انتقال ہوا۔ عبد العزیز بن عمر المصری کہتے ہیں کہ امام شافعی کے اِنتقال کے بعد میں نے حرملہ بن یحیی سے کہا کہ آپ نے جن کتابوں کا سماع امام شافعی سے کیا ہے اُن کی فہرست تو دکھائیے، تو سات یا آٹھ کتابوں کے نام لیے اور کہا اِن کو ہم نے اُن سے (یعنی امام شافعی سے ) عرضاً اور سماعاً پڑھا ہے۔ ابو عبد اللہ بوشنجی کا قول ہے کہ حرملہ بن یحییٰ نے امام شافعی سے 70 کتابوں کی روایت کی ہے۔[149] امام مسلم نے صحیح مسلم میں اِن سے روایت کیا ہے۔ 244ھ میں مصر میں فوت ہوئے۔[150]

یونس بن عبد الاعلیٰ المصری (متوفی 264ھ)

یہ امام ابو موسیٰ یونس بن عبد الاعلیٰ المصری ہیں۔ امام شافعی کے متعلق کہتے ہیں کہ: اگر پوری اُمت بھی جمع ہو جائے تو امام شافعی کی عقل سب کے لیے کافی ہوگی۔[32] قرات کے امام تھے۔ فقر و فاقہ میں زندگی بسر کرتے رہے۔ نہایت متقی اور خدا ترس عالم تھے۔ اِن کی دعا سے طلب باراں (بارش طلب کرنا) کیا جاتا تھا۔ اِنہوں نے امام شافعی کے علاوہ امام سفیان بن عینیہ، ولید بن مسلم اور اشہب سے روایت کیا۔ یونس بن عبد الاعلیٰ سے امام مسلم، امام نسائی، امام ابن ماجہ نے احادیث روایت کی ہیں۔[151]

امام یوسف بن یحییٰ بویطی (متوفی 231ھ)

یہ امام ابو یعقوب یوسف بن یحییٰ بویطی المصری ہیں۔ امام شافعی کے تلامذہ خاص میں سے ہیں۔ نہایت عابد و زاہد، متقی اور نیک عالم تھے۔ فتنہ خلق قرآن کے رد میں مصر سے گرفتار کرکے بغداد میں لائے گئے اور عباسی خلیفہ الواثق باللہ نے فتنہ خلق قرآن پر مناظرہ کروایا مگر آپ ثابت قدم رہے اور انکار کر دیا۔ آپ کی استقامت کو دیکھتے ہوئے انکار پر خلیفہ عباسی الواثق باللہ کے حکم سے بغداد کے قید خانہ میں ڈال دیے گئے۔ قید خانہ میں جمعہ کے دن اذان سن کر غسل کرتے اور قید خانہ کے دروازے تک آتے اور کہتے: " اے اللہ! میں نے میرے پکارنے والے کو جواب دیا اور اِن لوگوں نے مجہے روک دیا۔" [152] ربیع کہتے ہیں کہ مجھے بویطی نے ایک مکتوب قید خانہ سے بھیجا جس میں میرے حلقہ درس کے بارے میں وصیت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ : " اِن سے متعلق بردباری سے کام لو کہ میں نے امام شافعی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: میں اُن کے مقابلہ میں اپنے نفس کو کمتر قرار دیتا ہوں تاکہ وہ اُسے معزز گردانیں، کیونکہ وہ شخص کبھی معزز نہیں ہوتا جو اپنے نفس کو کمتر نہ قرار دے۔ [153] 231ھ میں بغداد کے قید خانہ میں اِنتقال کیا۔[152] اِن کی مشہور تصانیف یہ ہیں: کتاب المختصر الکبیر، کتاب المختصر الصغیر اور کتاب الفرائض۔[153]

مصداق دعائے نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

امام شافعی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس دعائے مبارکہ کا مصداق ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اے اللہ! قریش کو ہدایت عطاء فرما، اِس لیے کہ اُن کا عالم سطح زمین کو علم سے پر کر دے گا، اے اللہ! جس طرح اِن کو عذاب میں مبتلا رکھا تھا، اب اِنعام سے نواز دے۔"


ابو نُعیم عبد الملک بن محمد کا قول ہے کہ اِس حدیث مبارکہ میں عالم قریش سے مراد امام شافعی ہیں۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سرے پر ایک عالم دین کو پیدا کرتا ہے جو لوگوں کو سنت کی تعلیم دیتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دفاع کرتا ہے، ہم نے دیکھا کہ پہلی صدی کے سرے پر عمر بن عبد العزیز (خلیفہ 99ھ تا 101ھ) اور دوسری صدی کے سرے پر امام شافعی نے یہ خدمت انجام دی ہے۔[154]


خواب میں زیارت نبوی

پہلی زیارت کے متعلق امام شافعی بیان کرتے ہیں کہ: میں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا، آپ نے مجھ سے فرمایا: اے لڑکے! تو کس خاندان سے ہے؟ میں نے عرض کی: آپ کے خاندان سے۔ فرمایا: میرے قریب آ جاو۔ جب میں آپ کے قریب ہو گیا تو آپ نے اپنا لعابِ دہین میری زبان پر، ہونٹوں پر اور دہن میں ڈال دیا۔ پھر فرمایا: جاو اللہ تم پر برکت نازل فرمائے۔

دوسری زیارت کے متعلق امام شافعی بیان فرماتے ہیں کہ: میں نے اِسی عمر میں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ میں نماز پڑھاتے دیکھا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کو تعلیم دیتے رہے، پھر میں بھی آپ کے قریب آ بیٹھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی: یا رسول اللہ! مجہے بھی کچھ سکھائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی آستین سے میزان (یعنی ترازو) نکال کر دی اور فرمایا: تیرے لیے میرا یہ عطیہ ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ میں نے ایک معبر سے اِس کی تعبیر دریافت کی تو اُسے نے کہا: تم دنیا میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مطہرہ کی نشر و اشاعت میں امام بنو گے۔

خواب میں علی بن ابی طالب سے مصافحہ

امام شافعی کا بیان ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ علی بن ابی طالب سے مجھ سے سلام کرکے مصافحہ فرمایا اور اپنی انگشتری نکال کر مجھے پہنا دی۔ میں نے اپنے چچا سے اِس بات کا تذکرہ کیا تو اُنہوں نے بتایا کہ علی بن ابی طالب کا مصافحہ عذاب سے امان ہے اور انگشتری کی تعبیر یہ ہے کہ دنیا میں جہاں تک علی بن ابی طالب کا نام پہنچا ہے، تمہارا نام بھی وہاں تک پہنچے گا۔[50]


ذہانت اور فہم و فراست

ایک بار امام شافعی، یحییٰ ابن معین اور امام احمد بن حنبل مکہ مکرمہ گئے اور ایک ہی مقام پر سب حضرات ٹھہرے۔ شب میں امام شافعی اور یحیی ابن معین لیٹ گئے اور احمد بن حنبل نماز کی ادائیگی میں مصروف ہو گئے۔ صبح کو امام شافعی نے کہا کہ رات میں نے مسلمانوں کے لیے 200 مسائل حل کیے، یحییٰ ابن معین نے پوچھا کہ آپ نے کیا کیا؟ امام شافعی نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کو 200 کذاب راویوں سے محفوظ کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل سے پوچھا گیا تو اُنہوں نے کہا کہ میں نے نوافل کی ادائیگی میں ایک قرآن مجید پڑھا ہے ۔[155]


سخاوت کا نمونہ

زہد و بے نیازی، اہل دنیا سے دوری کے ساتھ جودو سخاء، سیر چشمی اور فراخدلی علمائے اسلام کا وتیرہ و شعار رہا ہے۔ امام شافعی تو اسلاف کا پرتو تھے۔ آپ کی سخاوت و بے نیازی کی کئی واقعات موجود ہیں جو آج علمائے اسلام کے لیے مثال ہیں:


جس زمانہ میں امام شافعی یمن کی سرکاری ملازمت چھوڑ کر مکہ آئے تو اُس وقت آپ کے پاس دس ہزار دینار تھے، شہر سے باہر خیمہ زن ہوئے تو لوگ آپ سے ملاقات کو آئے جن میں اہل حاجت بھی تھے، آپ نے پوری رقم اہل حاجت میں تقسیم کردی اور خود مکہ میں جب داخل ہوئے تو قرض لینا پڑا۔

ربیع بن سلیمان مرادی کہتے ہیں کہ امام شافعی روزانہ صدقہ کیا کرتے تھے اور رمضان میں فقرا و مساکین کو کپڑے اور رقم بہت زیادہ دیا کرتے تھے۔

ربیع بن سلیمان مرادی کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے شہر مصر میں بہت سے سخی دیکہے ہیں مگر امام شافعی جیسا سخی نہیں دیکھا۔

ایک شخص نے آپ کے کرتے کا تکمہ (بٹن) درست کیا تو اُسے فوراً ایک دینار دیا اور معذرت کے ساتھ کہا ابھی میرے پاس اِس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

ایک شخص نے آپ کا کورا اُٹھا کر دیا تو اُس کو دینار سے بھری تھیلی دے دی۔

عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے آپ کو دس ہزار دینار کا ہدیہ پیش کیا مگر آپ نے قبول کرنے سے معذرت کی۔ ہارون الرشید نے جبری وصول کرنے کو کہا تو آپ نے قبول تو کر لیے مگر بغداد شہر کے مساکین میں تقسیم کردیے۔ امام شافعی کے فقر و استغناء کی شان یہ تھی کہ بغداد میں خطیر رقم قبول نہ کی اور جب وہاں سے مصر گئے تو آپ کے خیرخواہوں اور دوستوں نے فوری طور پر تین ہزار دینار کا انتظام کر دیا جس کو آپ نے نہات خوشی سے قبول فرمایا، کیونکہ یہ اہل علم و اہل تقویٰ کی جانب سے علمی و دینی تعاون تھا اور وہ جسے بغداد میں قبول نہ کیا وہ سلطانی احسان تھا۔

خوش خلقی

امام شافعی زندہ دل اور خوش مزاج عالم تھے۔ اپنے طلبہ اور متعلقین حضرات کی خاطرداری بہت کیا کرتے تھے اور اِن حضرات کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آتے۔


امام شافعی فرمایا کرتے تھے کہ: میں اپنے طلبہ کے سامنے اُن کے احترام کرنے کی وجہ سے بے حیثیت رکھتا ہوں اور جو شخص اپنے کو نیچا نہیں کرے گا، اُس کی تعظیم نہیں کی جائے گی۔

ایک بار کسی طالب علم نے کسی بات پر اصرار کیا تو آپ نے اُن سے کہا کہ تم لوگ ایسا نہ کرو کہ میں تم سے وہی بات کہوں جو امام ابن سیرین نے ایک اصرار کرنے والے سے کہی تھی کہ: اگر تم مجھ کو ایسی بات پر مجبور کرو گے جس کی طاقت میں نہیں رکھتا، تو جو میری عادت تم کو خوش کرتی تھی، پھر وہی ناخوش کر دے گی۔

خوش خلقی کا یہ عالم تھا کہ اپنا حال امام شافعی خود بیان کرتے ہیں کہ میں نے مکہ مکرمہ میں ایک قریشی خاتون سے شادی کی اور میں اُس سے ازراہِ مذاق کہا کرتا: یہ بڑی مصیبت ہے کہ تم محبت کرو۔ اور جس سے تم محبت کرتی ہو وہ تم سے محبت نہ کرے۔ وہ خاتون جواب میں کہا کرتیں: اور وہ تم سے اپنا چہرہ پھیر لے۔ اور تم اصرار کرکے اُس کے سامنے رہو۔ [98]

عبادت و ریاضت اور زُہد و تقویٰ

ربیع بن سلیمان مرادی کا بیان ہے کہ امام شافعی ہر رات میں ایک قرآن مجید پڑھا کرتے تھے اور رمضان میں رات دن میں دو قرآن مجید پڑھتے تھے۔ الربیع بن سلیمان مرادی کا بیان ہے کہ صرف ماہ رمضان میں 60 قرآن پڑھ لیتے تھے ۔[156] بحر بن نصر کہتے ہیں کہ جب ہم رونا چاہتے تھے تو آپس میں کہتے تھے کہ اُس مطلبی جوان کے پاس چلو، قرآن پڑھیں اور جب ہم اُن کے یہاں آتے تو وہ قرآن کی تلاوت شروع کرتے۔ اُس وقت ہم لوگوں کا یہ حال ہوتا تھا کہ اُن کے سامنے گرے جاتے تھے اور رونے کی آواز بلند ہو جاتی تھی۔ امام یہ حال دیکھ کر قرات سے رک جاتے تھے، یہ قرآن پڑھنے میں اُن کے حسن صوت کا نتیجہ تھا۔[157]


حسین بن علی الکرابیسی کہتے ہیں کہ: میں نے امام شافعی کے ساتھ کئی راتیں گزاری ہیں، وہ تہائی رات تک نوافل میں پچاس سے سو آیات پڑھتے تھے اور ہر آیت پر مسلمانوں کے لیے دعا کرتے تھے، عذاب کی آیت پر اللہ کی پناہ مانگتے تھے۔[157]


قناعت

امام شافعی خود فرماتے ہیں کہ میں نے 20 سال سے کبھی شکم سیر ہو کر کھانا نہیں کھایا۔ میں نے طمع و لالچ کو کبھی اپنے پاس نہیں آنے دیا۔ اِس کی بدولت مجھے ہمیشہ آرام پہنچا اور اِسی وجہ سے ہمیشہ میری عزت، ذلت میں بدلنے سے محفوظ رہی۔ مزید فرماتے ہیں کہ: حرص و طمع وہ برائی ہے جس سے نفس کی دیانت پوری طرح ظاہر ہوتی ہے، خصوصاً ایسی حرص جس میں بخل کی آمیزش بھی ہو، فرماتے تھے کہ خانگی و زندگی کی ناگواری زیادہ تر اِسی وجہ سے ہوتی ہے کہ گھر کا مالک رقم زیادہ دینا نہیں چاہتا اور گھر والے لوگ زیادہ مانگتے ہیں۔ شوہروں کو مال سے محبت ہوتی ہے اور بیویاں لالچ سے زیادہ مانگتی ہیں۔ اِس سے خانگی معاملات میں کشمکش ہوجاتی ہے اور گھر روحانی تکالیف میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مزید یہ بھی فرماتے ہیں کہ: قرآن کی اِس آیت کو اچھی طرح سمجھو جس میں مسلمانوں کا وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ دوسروں کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر مقدم رکھتے ہیں (آپ کا اشارہ سورۃ الحشر کی آیت 59 کی طرف تھا)۔


عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے ایک مرتبہ بے حد اصرار کیا کہ آپ جس شہر کو پسند کریں میں آپ کو وہاں کا قاضی مقرر کردوں، آپ نے جواب دیا: مجہے اِس عہدے سے معاف ہی رکھیے۔


تشیع کا الزام

امام شافعی آل ابی طالب کا نہایت احترام کیا کرتے تھے اور یہ بے پناہ عقیدت عوام میں کئی دوسرے معانی میں نظر آئی۔ لوگ آپ کو شیعہ خیال کرنے لگے۔ اہل بیت کرام سے یہ بے پناہ عقیدت اِس لیے بھی تھی کہ امام شافعی خود مطلبی ہاشمی ہیں جو خاندان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور خود امام شافعی رشتہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ابن عم یعنی چچا زاد لگتے ہیں۔ ایک بار آپ ایک مجلس میں گئے جہاں آل ابی طالب کے کچھ حضرات اہل علم بیٹھے تھے۔ امام شافعی نے کہا کہ میں اِن حضرات کے سامنے کلام نہ کروں گا، یہ لوگ ایک فضل و کمال ہیں۔ ابن ندیم نے اِس حوالہ سے ایک قول نقل کیا ہے کہ ایک بار کسی سائل نے آپ سے کوئی مسئلہ دریافت کیا تو آپ نے اُسے جواب دیا۔ سائل نے کہا کہ آپ نے علی بن ابی طالب کے قول کے خلافت فتویٰ دیا ہے، امام شافعی نے فرمایا کہ تم اِس مسئلہ کو علی بن ابی طالب کے قول کے مطابق ثابت کرو، میں اپنا رخسار زمین پر رکھ دوں گا اور اپنے قول کو ترک کر کے اُن کا قول اِختیار کر لوں گا۔[158]


قاضی عیاض مالکی نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ کچھ لوگوں نے امام شافعی سے کہا کہ آپ کے اندر تشیع کی خو بو پے۔ آپ آل نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ امام شافعی نے فرمایا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں فرمایا ہے کہ: تم میں سے کوئی اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اُس کے نزدیک اُس کے والد، بچوں اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاوں۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: متقی لوگ میرے دوست اور قرابت دار ہیں اور متقی اور نیک رشتہ داروں سے محبت کا حکم ہے، میں ایسی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نیک رشتے داروں سے کیوں نہ محبت کروں؟ پھر یہ اشعار سنائے:


سحر کو جب حجاج مزدلفہ سے منیٰ کی طرف وادی کے سیلاب کی طرح اُمڈتے ہیں اے سوار

تم وادی محصب میں ٹھہر کر ہر کوچ کر جانے والے اور قیام کرنے والے کو پکارو اور کہو کہ

اگر آل رسول کی محبت رفض ہے تو دوجہاں گواہ رہیں کہ میں رافضی ہوں۔[159]

ائمہ دین اور معاصرین کی نظر میں

امام احمد بن حنبل امام شافعی کو دوسری صدی ہجری کا مجدد کہتے تھے۔ امام احمد بن حنبل فرمایا کرتے تھے: اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سرے پر ایسے عالم دین کو پیدا کرتا ہے جو لوگوں کو سنت کی تعلیم دیتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دفاع کرتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ پہلی صدی کے سرے پر عمر بن عبد العزیز اور دوسرے صدی کے سرے پر امام شافعی نے یہ خدمت انجام دی ہے۔[160][161]

امام اسحاق بن راہویہ جو امام بخاری کے اساتذہ میں سے ہیں، کہتے ہیں کہ امام شافعی کے قیام مکہ کے زمانہ میں، میں ایک مرتبہ مکہ مکرمہ گیا اور وہاں احمد بن حنبل موجود تھے۔ اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ ابو یعقوب اُس شخص (یعنی امام شافعی) کے درس میں بیٹھو۔ میں نے کہا کہ میں اُن کے پاس بیٹھ کر کیا کروں گا؟ میرا اور اُن کا سن (عمر) قریب قریب ہے۔ کیا میں اِن کی وجہ سے سفیان ابن عینیہ اور مقری اسماعیل کا درس چھوڑ دوں؟۔ احمد بن حنبل نے کہا: سفیان ابن عینیہ کی مجلس درس بعد میں بھی ملے گی مگر شافعی کی مجلس نہیں ملے گی۔ احمد بن حنبل کی یہ بات سچ ثابت ہوئی کہ امام شافعی اولاً بغداد چلے گئے اور بعد ازاں مصر تشریف لے گئے۔ 200ھ کے بعد آپ کبھی حجاز اور عراق نہیں آئے۔

عبد اللہ بن الزبیر حُمَیدی کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل ہمارے یہاں مکہ مکرمہ میں امام سفیان ابن عینیہ کے یہاں مقیم تھے۔ احمد بن حنبل ایک دن مجھ سے کہنے لگے کہ یہاں ایک قریشی عالم ہیں، میں نے پوچھا، اُنہوں نے کہا وہ محمد بن ادریس الشافعی ہیں۔ وہ بغداد میں اُن کی مجلس میں بیٹھ چکے تھے۔ اُن کے اصرار پر ہم لوگ امام شافعی کے درس میں گئے اور چند مسائل پر گفتگو ہوئی۔ ہم وہاں سے اُٹہے تو احمد بن حنبل نے کہا: آپ نے اُن کو کیسا پایا؟ کیا اِس قریشی عالم کے علم اور اُس کے اندازِ بیاں سے خوشی نہیں ہوئی؟ اُن کی یہ بات میرے دل میں بیٹھ گئی اور میں امام شافعی کی مجلس میں بیٹھنے لگا۔ اُن کی مجلس کے بعد اُن کے استاد امام سفیان ابن عینیہ کی مجلس پھیکی پڑنے لگی اور اِس کے بعد میں بھی امام شافعی کے ہمراہ مصر چلا گیا۔[162]

محمد بن فضل البزاز نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ ایک سال میں نے امام احمد بن حنبل کے ہمراہ حج کیا، ہم مکہ میں ایک ہی مکان میں ٹھہرے، میں صبح کی نماز پڑھ کر احمد بن حنبل کی تلاش میں مسجد حرام کی ایک ایک مجلس درس میں گیا، دیکھا تو احمد بن حنبل ایک اعرابی نوجوان کے پاس بیٹہے ہیں، میں نے اُن کے قریب جا کر کہا کہ اے ابو عبد اللہ! آپ سفیان ابن عینیہ کی مجلس چھوڑ کر یہاں بیٹہے ہیں حالانکہ وہاں ابن شہاب الزہری، عمرو بن دینار، زیاد بن علاقہ اور دیگر تابعین موجود ہیں، تو امام احمد بن حنبل نے کہا: خاموش رہو! اگر تم سے کوئی حدیث علو (سند عالی) سے فوت ہو جائے تو نزول (سند سافل) سے اُس کو پاسکتے ہو؟ اور دین اور عقل میں تمہارا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ اور اگر اِس جوان کی عقل تم کو نہ ملی تو میرے خیال میں قیامت تک اُس کو نہیں پاؤ گے۔ میں نے کتاب اللہ کا اِس سے زیادہ فقیہ اور زیادہ سمجھ دار نہیں پایا، میں نے پوچھا: یہ کون صاحب ہیں؟ اُنہوں نے بتایا: یہ محمد بن ادریس الشافعی ہیں۔[162]

ایک بار مصر میں سیرت نگار ابن ہشام (متوفی 218ھ) اور امام شافعی کے درمیان مردوں کے انساب پر مذاکرہ ہوا، امام شافعی نے تھوڑی دیر کے بعد کہا کہ اِس موضوع کو چھوڑو، ہم کو سب معلوم ہے، خواتین کے نسب میں ہم سے بات کرو۔ جب اُس موضوع پر مذاکرہ شروع ہوا تو ابن ہشام خاموش ہو گئے اور بولے: میں نہیں جانتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا عالم بھی پیدا کیا ہے۔[163]

امام ابو حاتم الرازی نے آپ کو صدوق کہا ہے۔[164]

اصمعی نے بنو ہذیل کے اشعار امام شافعی کے توسط سے حاصل کیے۔[165][166][167][168]

زبیر بن بکار کہتے ہیں کہ بنو ہذیل کے اشعار میں نے اپنے چچا مصعب ابن عبد اللہ سے سنے اور اُنہوں نے امام شافعی سے اِن اشعار کو حفظ کیا تھا۔[165][169][170]

اقوال امام شافعی

امام شافعی علم و فضل اور عقل و فہم میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے اور مزید برآں یہ کہ وہ شعر و ادب، حدیث و فقہ، انتساب و ایام میں بھی امتیازی مقام کے مالک تھے۔ نو عمری میں ہی عربی ادب سے شغف پیدا ہوچکا تھا اور اُنہیں شعر و ادب، لغت و عربیت سے خاصا ذق تھا۔ خود اشعار نظم کرتے تھے مگر شاعری کو علما کے لیے مناسب خیال نہیں کرتے تھے اِسی لیے علوم اسلامیہ کے مقابلہ میں شاعری کو خاص توجہ نہیں دی۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو ضرور عربی ادب میں شاعری کی کوئی ضخیم و طویل کتاب امام شافعی کے قلم سے قرطاس پر تحریر ہوجاتی۔


امام شافعی فرماتے ہیں کہ : طلب العلم افضل من صلاۃ النافلۃ (طلب علم نوافل نماز سے افضل ہے)۔[171][172][173][174][175][176][177]


امام شافعی خود فرماتے ہیں: اگر شعر علما کے لیے عیب نہ ہوتا تو میں اِس زمانہ میں لبید بن ربیعہ سے بڑا شاعر ہوتا۔ (لبید بن ربیعہ زمانہ جاہلیت میں زبان عربی کا بلند پایہ شاعر تھا)۔

ایک بار کسی شخص نے آپ سے کہا: آپ کا کیا حال ہے؟ تو فرمایا: اُس کی کیا حالت ہوگی جس سے اللہ تعالیٰ قرآن کا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ سنت کا، شیطان گناہوں کا، زمانہ اپنے مصائب کا، نفس اپنی خواہشات کا، اہل و عیال روزی کا اور ملک الموت قبض روح کا مطالبہ کرتے ہوں؟۔

تحصیل علم کے لیے فرماتے ہیں کہ: یہ علم دین کوئی شخص مالداری اور عزتِ نفس سے حاصل کرکے کامیاب نہیں ہو سکتا، البتہ جو شخص نفس کی ذلت، فقر و محتاجی اور علم کی حرمت کے ساتھ اِس کو حاصل کرے گا وہ کامیاب ہوگا۔ [178]

امام شافعی کے نزدیک اگرمفتی یا مجتہد غلطی بھی کرے گا تو حسن نیت کی بنا پر وہ عنداللہ ماجور ہوگا۔ خود فرماتے ہیں کہ: جو عالم فتویٰ دے گا، اجر پائے گا۔ البتہ دین میں غلطی پر اجر نہیں ملے گا اِس کی اجازت کسی کو نہیں ہے اور ثواب اِس لیے ملے گا کہ جو غلطی اُس نے کی ہے اُس میں اِس کی نیت برحق تھی۔ [179]

طبیعت اور طلب علم کے متعلق فرماتے ہیں کہ: طبیعت زمین ہے اور علم بیج ہے اور علم طلب سے ملتا ہے۔ جب طبیعت قابل ہوگی تو علم کی کھیتی لہلہائے گی اور اُس کے معانی و مطالب شاخ در شاخ پھیلیں گے۔

طرز اِستدلال کے متعلق فرماتے ہیں کہ: بہترین استدلال وہ ہے جس کے معانی روشن اور اُصول مضبوط ہوں اور سننے والوں کے دل خوش ہوجائیں۔

طلب حاجات کے لیے امام شافعی کی یہ دعا علمائے اسلام کے درمیان مجرب ہے جسے ابن خلکان نے بھی نقل کیا ہے، علاوہ ازیں اِس کے پڑھنے سے گمشدہ چیز بھی مل جاتی ہے: اَللّٰھُمَّ یَا لَطِیفُ اَسْاَلُکَ اللُّطْفَ فِیْمَا جَرَتُ بِہِ الْمَقَادِیر۔ [98]

Previous Post Next Post