حضرت خواجہ حبیب عجمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ Life Story Of Hazrat Habeeb Ajmi || Tazkirae habeeb ajmi || Hazrat Habib Ajmi r a Ka Waqia | Ep 19

حضرت خواجہ حبیب عجمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ



اوصافِ جمیلہ
آپ مخدوم العارفین، بجر المتبحرین، برہان الحق والدّین، سلطان الراشدین، ملجاء المحققین، ماوا العابدین، صاحب عبادات و ریاضات، اہل یقین و کمالات، صدق و صفا میں یکتا، اور جودو سخا میں بے ہمتا، ہمت و مروّت میں درجہ بلند، اور خوارق و کرامات میں پایہ ارجمند رکھتے تھے، آپ حضرت خواجہ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے مرید و خلیفۂ اکبر و جانشین اعظم تھے۔

نام ونسب
آپ کا نام نامی حبیب، کنیت ابو محمد، ابونصر۔

آپ کے والد بزرگوار کا نام شیخ محمد، اور بقولے طٰہٰ تھا۔ اور وطن اصلی فارس تھا، اس لیے عجمی کہے جاتے تھے۔

واقعۂ توبہ
آپ سابق میں مالدار تھے، اور اپنا مال سود پر لگاتے تھے، اور ہر روز قرضداروں کے تقاضا کو جاتے، جس سے کچھ پانا ہوتا جب تک وصول نہ کر لیتے نہ ٹلتے، اسی طرح ایک دن گوشت اور آٹا سود میں کہیں سے لائے اور ہانڈی پکائی، ایک سائل نے آکر سوال کیا، تو آپ نے اُس کو جھڑک کر نکال دیا، جب ہانڈی میں دیکھا تو سب خون تھا، آپ کی بیوی نے کہا، دیکھو حبیب! تمہاری شومئی اعمال یہ رنگ لائی، اُسی وقت آپ کے دل میں دنیا سے نفرت ہوگئی، اور بیوی سے فرمایا تو گواہ رہ کہ میں نے کُل بُرے کاموں سے توبہ کی، اور غایت اضطراب سے تمام رات نہ سوئے۔  [تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]

بیعت و خلافت
دوسرے دن جمعہ کے روز آپ حضرت خواجہ امام ابو سعید حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں گئے، اور اُن کے دستِ حق پرست پر توبہ کر کے بیعت فرمائی، اور خرقہ خلافت حاصل کیا۔

بیعتِ رُوحی
کتاب آئینہ تصوّف میں ہے کہ روحی بیعت آپ کو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور خواجہ کمیل بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ اور خواجہ اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ سے تھی۔

ایثار
آپ نے جو کچھ کسی سے لینا تھا سب راہِ مولا بخش دیا، ایک دن دیکھا کہ ایک قرضدار آپ کو دیکھ کر بھاگ رہا ہے، آپ نے اُس کو آواز دی اور فرمایا مت بھاگو، اب مجھی کو تم لوگوں سے بھاگنا ہے، پھر آپ نے منادی کرادی کہ جس کے ذمہ میرا پانا ہو وہ آکر اپنی دستاویز واپس لے جاوے، جب قرضدار لوگ آئے آپ نے سب کی دستاویزیں واپس کردیں، اور سارا مال و اسباب و جمع کیا تھا سب خدا کی راہ میں لُٹادیا، اور ایک کوڑی تک بھی پاس نہ رکھی، حتّٰی کہ اپنا پیراہن اور اپنی بیوی کی چادر بھی دےدی۔  [تذکرۃ الاولیاء ۱۲]

عبادت
پھر آپ نے دریائے فرات کے کنارے ایک عبادت خانہ طیار کیا، اور عبادت الٰہی میں مشغول ہوئے، دِن کو حضرت خواجہ شیخ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے جا کر علم سیکھتے، اور رات کو عبادت کرنے۔  [تذکرۃ الاولیاء ۱۲]

ریاضت
آپ کے نفس نے سات برس تک گوشت کی آرزو کی مگر آپ نے نہ دیا، جب نفس نے زیادہ مجبور کیا تو آپ قیمت لے کر بازار گئے، اور کباب و روٹی خریدی، راستہ میں ایک لڑکا ملا، آپ نے پوچھا تو کس کا لڑکا ہے؟َ اُس نے کہا میرا باپ مر گیا ہے، آپ نے وُہ کباب روٹی اس کو دے دی، اور نفس کی خاطر کرنے پر بہت افسوس کیا۔  [مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲ شرافت]

ترکِ دنیا
آپ دنیاسے بالکل کنارہ کش ہوگئے، اور یکسو ہوکر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہوئے، یہاں تک کہ بزرگانِ مستجاب الدعوات سے ہوئے، اور آپ کی دعا سے بہت لوگ اپنی مراد کو پہنچے۔  [مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲ شرافت]

توکّل
آپ کا مکان شہر بصرہ کے چورستے پر واقع تھا، آپ کے پاس ایک پوستین تھی جس کو برابر پہنے رہتے تھے، ایک روز آپ پوستین برسر راہ چھوڑ کر غسل کرنے چلے گئے، اتفاقًا حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ وہاں پہنچے، اور پوستین کو برسرِ راہ دیکھ کر وہاں ٹھیرے رہے تاکہ پوستین کوئی اٹھا نہ لے جائے، جب آپ واپس آئے تو سلام کیا اور کہا یا امام المسلمین آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں حضرت حسن رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا تم نہیں جانتے کہ پوستین یہاں چھوڑ کر چلے گئے تھے، اگر کوئی لے جاتا تو کیا ہوتا، تم کس کے بھروسہ پر یہاں چھوڑ گئے تھے، آپ نے کہا اُس کے بھروسہ پر جس نے آپ کو اس کا نگہبان بنایا۔ [تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]

رقّتِ قلب
جب لوگ آپ کے سامنے کلامِ مجید پڑھتے تو آپ نہایت اضطراب کے ساتھ روتے، لوگوں نے کہا آپ عجمی ہیں اور قرآن مجید عربی ہے، رونے کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا میری زبان عجمی ہے لیکن میرا دل عربی ہے۔ [تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]

وحشت عَنِ الغیر
آپ کے گھر میں تیس (۳۰) برس سے ایک لونڈی تھی، آپ نے کبھی اس عرصہ میں اس کا منہ نہ دیکھا، ایک روز اس نے کہا، اے نیک بخت! ذرا میری لونڈی کو آواز دے، اس نے کہا حضور میں ہی تو آپ کی لونڈی ہوں، فرمایا مجھے تیس برس کے اندر کبھی زہرہ نہ ہوا کہ سوائے اس کے کسی غیر کی طرف دیکھوں، اس لیے میں نے تیرا منہ نہ دیکھا، پس تجھ کو کس طرح پہچانتا۔  [تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]

مقاماتِ فقر

مقامِ محبّت
ایک درویش نے آپ کو مرتبۂ عظیم و بزرگ پر دیکھ کر پوچھا کہ آپ تو عجمی ہیں، اِس درجہ پر کِس طرح پہنچے؟ آواز آئی ہاں عجمی ہے لیکن حبیب ہے۔  [تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]

مقامِ رضا
ایک روز آپ اپنے عبادت خانہ میں نمازِ مغرب پڑھ رہے تھے، پیچھے سے حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے سنا کہ آپ الحمد کی حاے حطی کو الھمد یعنی ہائے ہوز سے پڑھتے ہیں، حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اِس خیال سے کہ یہ قرآن مجید غلط پڑھ رہے ہیں آپ کے پیچھے نماز نہ پڑھی علیحدہ ادا کی، اسی شب کو خواجہ حسن رحمۃ اللہ علیہ نے حق سبحانہٗ وتعالیٰ کو خواب میں دیکھا، پوچھا اے پروردگار تیری رضا کس چیز میں ہے؟ خطاب ہوا اے حسن رحمۃ اللہ علیہ تو نے میری رضا پائی تھی مگر اس کی قدر نہ جانی، عرض کیا یا آلہ العالمین! وہ کیا بات تھی؟ ارشاد ہوا کہ حبیب رحمۃ اللہ علیہ کے پیچھے نماز پڑھنی، اس لیے کہ وہ تیری ساری نمازوں سے افضل تھی، لیکن تو الحمد کی عبارت کی درستی کے خیال میں رہا، اور نیّت کی درستی کا لحاظ نہ کیا۔  [تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]

مقامِ یقین
ایک دن خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ آپ کے پاس آئے، آپ نے جَو کی روٹی اور قدرے نمک اُن کے آگے رکھا، جب وہ کھانے لگے تو ایک سائل نے آکر سوال کیا، آپ نے وہ کھانا حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے آگے سے اٹھا کر سائل کو دے دیا، حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اے حبیب! افسوس ہے کہ تجھے علم نہیں، اگر تجھے علم ہوتا تو جانتا کہ مہمان کے آگے سے کھانا اٹھا لینا منع ہے، ابھی اسی کلام میں تھے کہ ایک غلام تھیلی دیناروں کی اور ایک خوانچہ طعام آپ کے حضور میں لایا، آپ نے دینار تو درویشوں کو تقسیم کیے، اور طعام خواجہ حسن رحمۃ اللہ علیہ کے آگے رکھا، اور کہا اے استاد! آپ علم تو رکھتے ہیں اگر قدرے یقین بھی رکھتے تو کیا اچھا ہوتا۔  [تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]

مسئلہ عجیبہ
ایک روز حضرت امام احمد حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بیٹھے ہوئے تھے، آپ وہاں جانکلے، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ ہم اِن سے کچھ سوال کریں گے، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا، یہ ایک عجیب قوم و اصلانِ حق سے ہیں اِن کا مسلک جدا گانہ ہے، اِن سے ایسا نہیں کرنا چاہیے، مگر جب آپ نزدیک آئے تو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کہ اے حبیب! آپ ایسے شخص کے بارہ میں کیا فرماتے ہیں جس کی پانچ نمازوں میں سے ایک نماز قضا ہو گئی ہو اور وہ نہیں جانتا کہ وہ کونسی نماز ہے، اس کو کیا کرنا چاہیے، فرمایا ایسے شخص کا دل خدا سے غافل ہے اس کو ادب کرنا چاہیے، اور پانچوں وقت کی نماز قضا کرنا چاہیے امام احمد رحمۃاللہ علیہ یہ جواب سن کر حیران رہ گئے، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کیا میں نے آپ سے نہ کہا تھا کہ آپ اِن لوگوں سے سوال نہ کیجیے۔ [تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]

کرامات
کتاب آئینہ تصوّف میں ہے کہ پچیس (۲۵) خوارق و کرامات آپ سے ظہور میں آئے۔ ازانجملہ

استجابتِ دعا
ایک روز ایک عورت روتی ہوئی آپ کے پاس آئی، اور کہا کہ میرا لڑکا کھو گیا ہے، خدا کے واسطے دعا کیجیے کہ میرا لڑکا مل جائے، آپ نے پوچھا تیرے پاس کچھ نقد ہے اُس نے کہا دو (۲) درہم ہیں، آپ نے اُس سے لے کر فقیروں کو خیرات کر دئیے، اور دعا کی اور فرمایا جا تیرا بیٹا آگیا، عورت نے جاکر اپنے بیٹے کو پایا، اور اُس سے حال پوچھا، اُس نے کہا میں شہر کرمان میں تھا، استاد نے مجھے گوشت لانے کو بازار بھیجا تھا، میں گوشت لے کر واپس آرہا تھا کہ مجھے ہوا نے اڑایا، اور میں نے ایک آواز سنی کہ اے ہوا حبیب کی دعا اور دو (۲) درہم خیرات کی برکت تو اس کو اس کے گھر پہنچادے کہ مجھے ہوا نے پہنچادیا۔  [تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]

فتوح غیبی
اوائل حال میں ایک روز آپ کی اہلیہ محترمہ نے افلاس سے تنگ آکر کہا کہ آپ کچھ مزدوری کریں تاکہ کھانے اور کپڑے کا کچھ انتظام ہوسکے، آپ جا کر عبادت میں مشغول ہوئے، رات کو آئے تو بیوی صاحبہ نے پوچھا، آپ نے فرمایا کَل مزدوری ملے گی، دوسرے دن بھی عبادت میں ہی رہے، اور گھر میں کہا کہ میں جس کی مزدوری کرتا وہ بڑا فیّاض و کریم ہے، مجھے اُس سے مانگتے شرم آتی ہے، وہ خود ہی دس دن کے بعد دے دیوے گا، بیوی صاحبہ خاموش ہو رہیں، پس آپ روزانہ عبادت میں مشغول ہوتے، جب دس روز پورے ہوئے تو آپ بوجہ شرمندگی کے اندھیرا کر کے گھر میں آئے، اور خیال تھا کہ آج کیا عذر کروں گا، دروازہ پر پہنچتے ہی طعام کی خوشبو آپ کے دماغ میں پہنچی، بیوی صاحبہ رحمۃ اللہ علیہا سے پوچھا کہ یہ کہاں سے آیا ہے، انہوں نے کہا کہ ایک جوان خوبصورت ایک بورا آٹا، اور ایک مذبوحہ گو سفند، اور گھی و شہید اور تین سو درم کی تھیلی لے کر آیا تھا اور کہتا تھا کہ یہ اس نے بھیجے ہیں کہ حبیب رحمۃ اللہ علیہ جن کی مزدوری کرتے ہیں، اُن سے کہ دینا کہ اپنے کام میں ترقی کریں، میں مزدوری بڑھاتا رہوں گا۔  [تذکرۃ الاولیا ۱۲]

مائدہ غیب
ایک دن آپ کی خاتون رحمۃ اللہ علیہ نے آٹا گوندھ کر رکھا کہ ایک سائل آگیا، آپ نے وہ آٹا خمیر کیا ہوا اس کو دے دیا، بیوی صاحبہ رحمۃ اللہ علیہا نے پوچھا کہ یہ کیا کیا، آپ نے فرمایا تنور پر پکانے کے لیے بھیجا ہے، ابھی ایک ساعت نہ گذری تھی کہ ایک شخص دستر خوان معہ روٹی و گوشت کے لایا، اور آپ کے سامنے رکھ دیا، بیوی صاحبہ رحمۃ اللہ علیہا دیکھ کر متعجب ہوئیں،

خزینہ غیب
ایک بار بصرہ میں قحطِ عظیم واقع ہوا، آپ نے بہت سا کھانا قرض لے کر فقیروں کو خیرات کیا، اور ایک تھیلی سِی کر سرھانے رکھدی، جب قرض خواہ مانگنے آتےے تو آپ تھیلی سرھانے سے نکالتے، وہ درموں سے پُر ہوتی، اُس سے آپ قرضہ ادا کر دیتے۔  [مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲]

انوارِ ذاتی
ایک روز تاریک گھر میں آپ کے ہاتھ سے سوئی گر پڑی یکایک گھر روشن ہوگیا، آپ نے ہاتھوں سے آنکھیں چھپالیں، اور فرمایا نہیں نہیں میں بغیر چراغ کے ڈھونڈلوں گا۔  [خزنیۃ الاصفیا جلد دوم ۱۲]

طےّ ارض
ضمرہ بن یسر بن یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ آپ آٹھویں ذی الحجہ کو دن میں بصرہ ہوتے، اور نویں کی رات کو عرفات میں۔  [ازالۃ الخفا جلد سوم ۱۲ شرافت]

پانی پر چلنا
ایک بار حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ دجلہ کے کنارہ پر آپ کی ملاقات ہوئی، آپ نے پوچھا یا شیخ! کیوں کھڑے ہو، انہوں نے فرمایا کشتی کے انتظار میں کھڑا ہوں تاکہ پار جاؤں، آپ نے فرمایا حسد اور حُب دنیا کو دل سے دور کیجیے، اور بلاؤں کو غنیمت سمجھیے، اور خدا پر بھروسہ کر کے پانی پر چلیے،یہ کہ کر خود پانی پر روانہ ہوئے، حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ یہ ماجرا دیکھ کر بیہوش ہوگئے جب افاقہ ہوا لوگوں نے سبب دریافت کیا تو فرمایا کہ حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے ہی علم سیکھا ہے، اور اس وقت مجھ کو نصیحت کر کے خود پانی پر چلے گئے ہیں، میں خائف ہوں کہ اگر کل قیامت کو پل صراط پر سے گذرنے کا حکم ہوا اور میں یونہی عاجز رہا تو کیا کروں گا۔

دوبارہ ملاقات میں خواجہ حسن رحمۃ اللہ علیہ نے آپ سے پوچھا کہ تم نے یہ مرتبہ کہاں سے حاصل کیا؟ آپ نے فرمایا اے استاد! میں دل کو سپید کرتا ہوں اور آپ کاغذ کو سیاہ کرتے ہیں، حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا افسوس کہ میرے علم سے دوسروں کو فائدہ ہوا اور مجھ کو فائدہ نہ پہنچا۔

ف حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب تذکرۃ الاولیا میں لکھتے ہیں کہ ممکن ہے کہ لوگوں کو یہ شبہ پیدا ہو کہ شیخ حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے افضل تھے، لیکن یہ بات نہیں ہے، کیونکہ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی علمیّت اکمل و اتمّ طور پر ثابت ہے، اور ہر ایک چیز پر علم کو فضیلت ہے، اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تعلیم دی کہ قل رّب زدنی علمًا، اور جیسا کلامِ مشائخ رحمۃ اللہ علیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کرامات طریقت کے چودھویں درجہ پر ہیں اور اسرار اٹھارہویں درجہ پر، کیونکہ کرامات عبادت سے اور اسرار غور و فکر سے حاصل ہوتے ہیں، اور اس کی مثال حضرت سلیمان علیہ السّلام کی شان و شوکت سے بخوبی ظاہر ہے کہ ان کو تمام جن و انس اور وحوش و طیور پر حکومت حاصل تھی اور عناصِر اربعہ اُن کے مطیع تھے، اور یہ تمام فضائل ان کو حاصل تھے مگر با اینہمہ وہ حضرت موسیٰ علیٰ نبیّنا وعلیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی شریعت کے متبع تھے، خود صاحب کتاب نہ تھے۔  [تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]

نظرِ رحمت
منقول ہے کہ ایک خونی کو پھانسی دی گئی، اُسی شب کو لوگوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ لباس فاخرہ پہنے سبزہ زار بہشت میں ٹہل رہا ہے، پوچھا تو تو خونی تھا تجھے یہ مرتبہ کیسے نصیب ہوا، اُس نے کہا جب مجھے پھانسی دی جارہی تھی شیخ حبیب رحمۃ اللہ علیہ کا ادھر سے گذر ہوا، اُنہوں نے گوشہ چشم سے میری طرف دیکھا اور دعا فرمائی یہ سب اسی کی برکت سے ہے۔  [تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]

ہلاکِ فاسِق
صاحب ازالۃ الخلفا نے لکھا ہے کہ ایک بد کردار کو آپ نے بد دعا دی تو وہ فورًا گِر کر مر گیا۔

علمیات

اعدامِ موجود
ایک بار حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ حجاج بن یوسف ثقفی کے پیادوں سے بھاگ کر آپ کے عبادت خانہ میں پوشیدہ ہوئے، پیادوں نے آکر پوچھا تو آپ نے فرمایا اندر سے تلاش کرو، انہوں نے ہر چند تلاش کیا مگر ان کو نہ پایا، آخر مجبور ہوکر چلے گئے، حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے سات بار مجھ پر ہاتھ رکھا لیکن ان کو کچھ نظر نہ آیا، آخر حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو عتاب شروع کیا کہ اے حبیب رحمۃ اللہ علیہ! تم نے استادی کا بھی لحاظ نہ کیا اور میرا پتہ بتادیا، آپ نے فرمایا اے استاد میرے سچ نے آپ کو بچالیا، اگر میں جھوٹ بولتا تو ضرور آپ گرفتار ہوجاتے، اور میں نے دو بار آیۃ الکرسی، اور دس بار سورۂ اخلاص، اور دس بار اٰمن الرّسول پڑھ کر درگاہِ الٰہی میں عرض کی تھی کہ اے اللہ میں نے حضرت خواجہ حسن رحمۃ اللہ علیہ کو تیرے سپرد کیا تو ان کی نگہبانی کر۔  [تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]

برائے ہدایت حق
آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص یہ اسم جلالی نماز فجر کے بعد سو بار پڑھے اُس کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت حاصل ہوگی، اسم جلالی یہ ہے یا اللہ اجب یا جبرائیل یا در دائیل بحق یا اللہ۔  [جواہر الاولیاء جوہر دوم ۱۲]

برائے حصولِ مقاصد
آپ نے فرمایا ہےکہ جو شخص شبِ چہار شنبہ و شبِ پنجشنبہ و شب جمعہ کو ہزار ہزار مرتبہ یہ مناجات پڑھے، جو کام وہ رکھتا ہوگا بے شک حاصل ہوگا، مناجات یہ ہے۔ بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم اٰمنت باللہ العلیّ العظیم وتوکّلت علی الحی القیّوم۔  [ایضًا جوہر پنجم ۱۲]

کلمات طیّبات

مناجات
آپ گوشہ میں بیٹھ کر مناجات کرتے اور کہتے الٰہی! جو تیرے ساتھ خوش نہیں ہے اُس کو کوئی خوشی نصیب نہ ہو، اور جس کو تجھ سے اُنس نہیں ہے اُس کو کسی سے اُنس نہ ہو

رضا
لوگوں نے کہا آپ گوشہ میں بیٹھے ہیں اور کاروبارِ دُنیوی سے بالکل دست بردار ہیں، فرمائیے کہ رضا کِس چیز میں ہے؟ فرمایا ایسے دل میں ہے جو نفاق کے غبار سے بالکل صاف ہو، اِس سبب سے کہ نفاق خلافِ وفاق ہے اور رضا عین وفاق، اور محبت کو نفاق کے ساتھ کچھ تعلق نہیں اور اس کا محل رضا ہے، پس رضا دوستوں کی صفت ہے اور نفاق دشمنوں کی صفت ہے۔  [تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]

معرفین کمال
۱۔ ازالۃ الخفا میں ہے کہ معتمر رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے خواجہ حسن بصری رحمۃاللہ علیہ سے زیادہ کسی کو عبادت گذار اور شیخ حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ کسی کو صاحبِ یقین نہیں دیکھا۔

۲۔ کشف المحجوب میں ہے کہ طریقت کے جوانمرد اور شریعت میں قائم شیخ حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ مردوں کے مرتبہ گاہ میں خطرِ عظیم رکھتے تھے۔

اولادِ کرام
آپ کی کنیت سے معلوم ہوتا ہے کہ غالبًا آپ کے دو بیٹے تھے ۱۔ محمد رحمۃ اللہ علیہ و ۲۔ نصر رحمۃ اللہ علیہ واللہ اعلم

خلفائے عظام
صاحب آئینہ تصوّف نے لکھا ہے کہ خلیفہ اکبر آپ کا ایک، اور خلیفہ اصغر پندرہ، اور صاحب مجاز دس تھے۔

۱۔ حضرت شیخ داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ

اِن کا ذکر آگے آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

۲۔ حضرت شیخ ابا یزید طیفور بن عیسیٰ البسطامی رحمۃ اللہ علیہ

ولی مادر زاد تھے، تیس (۳۰) سال تک شام کے جنگلوں میں ریاضت و مجاہدہ کیا، ایک سو تیرہ (۱۱۳) اولیاء سے فیض پایا جن میں سے مشہور سیّد جعفر بن امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام اور شیخ عین الدین شامی رحمۃ اللہ علیہ حضرت سید الطائفہ شیخ جنید رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے بایزید رحمۃ اللہ علیہ ہم میں اس طرح ہیں جیسے فرشتوں میں جبریل علیہ السّلام انہوں نے غلبہ توحید میں فرمایا سبحانی ما اعظم شانی، یہ جب نماز پڑھتے تو ہیبت حق سے ان کی ہڈیاں کڑ کڑ کرتیں، ایک مرتبہ خدا تعالیٰ کو خواب میں دیکھا تو پوچھا تیری طرف کونسی راہ ہے؟ حکم ہوا کہ اپنے آپ سے گذرو اور مجھ تک پہنچ جاؤ، فرمایا ہے میں چاہتا ہوں کہ قیامت جلد قائم ہو تاکہ میں اپنا خیمہ دوزخ کے کنارہ لگاؤں، اور دوزخ مجھے دیکھ کر مدہم پڑجائے اور میں خلق کی راحت کا موجب بنوں، شیخ ابو موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے خواب دیکھا کہ عرشِ عظیم کو اٹھا رہا ہوں صبح کو جنازہ بایزید رحمۃ اللہ علیہ اٹھانا پڑا تو تعبیر معلوم ہوئی، بروز جمعہ پندرہ (۱۵) شعبان ۲۶۱ھ کو انتقال کیا، بسطام میں مدفون ہوئے۔

اگرچہ نقشبندیہ سلسلہ والے اِن کی نسبت حضرت امام جعفر صادِق رضی اللہ عنہ سے کرتے ہیں لیکن وہ روحانی ہے ظاہری نہیں، کتاب تذکرہ اولیائے ہند جلد دوم اور حقیقتِ گلزار صابری اور خلاصۃ السّلاسِل اور سراج الفقرا میں تبصریح شیخ بایزید رحمۃ اللہ علیہ کو شیخ حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ کا مرید لکھا ہے اِن کے سلسلہ میں خواجہ عبد اللہ شطار رحمۃ اللہ علیہ مقتدائے گروہ شطاریہ (متوفی ۱۲؍ ربیع الاول ۸۳۲ھ) مشہور بزرگ گذرے ہیں، وہ مرید شیخ محمد عارف رحمۃاللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ محمد عاشق رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید اپنے والد شیخ خدا قلی ماوراء النہری رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ ابو الحسن العشقی رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید خواجہ محمد مغربی رحمۃ اللہ علیہ کے وہ مرید شیخ بایزید بسطامی کے۔  [مکتوبات شاہ فقیر اللہ علوی مکتوب ہفتاد و چہارم (۷۴) ۱۲ شرافت] رضوان اللہ علیھم۔

۳۔ اِن کے سلسلہ میں شیخ شریف شہاب الدین ابو العباس احمد بدوی رحمۃ اللہ علیہ مقتدائے سلسلہ بدویہ اکابر مشائخ سے تھے، وہ مرید شیخ شریف بدر الدین حسن المغربی رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ عبد الجیل نیشا پوری رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ عبد المجید ہروی رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ عبد الحمید غوری رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ ابو الحسن علی طرابلسی رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ احمد سَقّا کتانی رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ ابو القاسم سراجی رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ ابو طاہر عبد الرزّاق اندلسی رحمۃ اللہ علیہ کے وہ مرید شیخ عبد القدوس سوسی رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ محمد بن یوسف مغربی رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ احمد توریزی کے  [خلاصۃ السّلاسل ص ۱۹] رحمھم اللہ تعالیٰ۔

سلسلہ حبیبیہ
آپ سے جو سلسلہ فقر چلا ہے اس کا نام صنفِ فقرا میں حبیبیہ یا عجمیہ کہا جاتا ہے، تاریخ الاولیا میں ہے کہ سلسلہ عجمیہ کے درویش اکثر پہاڑ یا جنگل میں اپنا مسکن بناتے ہیں، اور بعد تین روز کے کھجور سے افطار کرتے ہیں، اور کپڑا ستر عورت کے موجوب پہنتے ہیں۔

واقعۂ وفات
آپ کو اختلاج قلب کا مرض لاحق ہوا، چار پانچ گھڑی تک بے چینی محسوس رہی، شام کے وقت نزع کی حالت طاری ہوئی، اللہ ربی اللہ ربی کی صدا بلند تھی۔

آخری وصیّت
اس موقعہ پر ایک مرید کو اشارے سے قریب بلایا، اور فرمایا طالبین سے کہ دو کہ جب رات کو بستر پر لیٹا کریں تو اس بات پر غور کیا کریں کہ آج کتنی نیکیاں ہوئیں اور کتنی بدیاں، اس کے بعد کلمہ طیبہ پڑھ کر واصل الی اللہ ہوئے۔

ندائے غیب
آپ کی وفات کے بعد آسمان سے ندا آئی کہ اے زمین! حبیب رحمۃ اللہ علیہ واصل بحق ہوا، اور حق اس سے راضی ہوا۔

تاریخ وفات
حضرت شیخ حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات بقول صاحب مسالک السّالکین و تاریخ الاولیا و تحفۃ الابرار بتاریخ چہار شنبہ سوم ماہِ رربیع الآخر ۱۵۶ھ ایک سو چھپن ہجری مطابق ۳؍ مارچ ۷۷۲ء سات سو بہتر عیسوی میں بعہدِ خلافت ابو جعفر منصور بن عبد اللہ بن محمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ہوئی۔

مدفن پاک
آپ کا مزار پر انوار بغداد شریف میں ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ

قطعہ تاریخ
از حضرت مولانا شاہ غلام مصطفٰے صاحب نوشاہی دام فیوضہٗ

حبیب پاکدیں چوں از جہاں رفت
چونشاہی ز ترحیلِ ولی حسبت
         
بیزمِ قدسیاں شد شادو آزاد
سر و شم گفت احسن پاک جواد (۱۵۶)

رخت بربست چوں مبارک بخت
ساخت فردوس تکیہ گاہ ولی

انتقالش چو جست نوشاہی
گفت ہاتف احب حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ

رفت چوں پیر زیں جہاں موہوم
رحلتِ آں حبیب داں قیوم (۱۵۶)

چوں بجنّت رفت عالیقدر شَہ
سال وصلش گفت ہاتف قُطب مَہ (۱۵۶)

بجنت رفت چوں قطبِ ممجّد
وفاتش آہ محبوبِ محمد (۱۵۶)

دیگراز اسماء الحسنیٰ

ھو مھیمن (۱۵۶) عفوّ (۱۵۶) قیّوم (۱۵۶)
واسع واحد (۱۵۶) مومن و دودّ (۱۵۶) مومن ھادی (۱۵۶)
مومن بدوح (۱۵۶) حنان والی (۱۵۶) حق ماجد (۱۵۶)
عزیز حمید (۱۵۶) عزیز باطن (۱۵۶) مالک دیّان (۱۵۶)
اللہ ملک (۱۵۶) ملک وکیل (۱۵۶) حکم حلیم (۱۵۶)
محیی حلیم (۱۵۶)

(شریف التواریخ)

Previous Post Next Post